آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی امریکی جہاز پاکستان میں ہائی جیک بھی ہو سکتا ہے؟ وہ بھی ایسا جس میں امریکن ہی نہیں، انڈین، برٹش اور دنیا جہاں کے مسافر سوار تھے۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ دنیا بھر کی نظریں کراچی پر تھیں، جس کے ایئر پورٹ پر یہ بد قسمت جہاز کھڑا تھا۔

یہ دنیا کی سب سے بڑی ایئر لائنز میں سے ایک، پین ایم کی فلائٹ 73 تھی، جو ہائی جیکرز کے قبضے میں تھی۔ یہ جہاز کس نے اور کیوں ہائی جیک کیا؟ ہائی جیکرز جہاز میں داخل کیسے ہوئے؟ اس میں مسافر کتنے تھے؟ اور طیارہ کی منزل کیا تھی؟

یہ بات ہے سنہ 1986 کی، چار اور پانچ ستمبر کی درمیانی شب ممبئی سے نیو یارک کے لیے ایک فلائٹ کی تیاری ہے۔ یہ ہے پین ایم کی فلائٹ 73۔ اس فلائٹ کو درمیان میں کراچی پر بھی ایک اسٹاپ لینا ہے۔ صبح ساڑھے چار بجے یہ پرواز کراچی پہنچتی ہے۔ اس کی اگلی منزل تھی جرمنی کا شہر فرینکفرٹ۔

کراچی سے اس جہاز میں کئی مسافر سوار ہوئے، کچھ ایسے بھی جنہیں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ وہ لوگ تھے، جو جہاز کو کہیں اور لے جانا چاہتے تھے۔ یہ لوگ کون تھے، جہاز کو کیوں اور کہاں لے جانا چاہتے تھے؟ لیکن پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ داخل کیسے ہوئے؟

صبح چھ بجے فلائٹ ٹیک آف کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اچانک سائرن اور چمکتی ہوئی لائٹس والی ایک وین ہوائی جہاز تک پہنچتی ہے۔ چار لوگ اس سے اترتے ہیں، جو ایئر پورٹ سیکورٹی کی وردی میں تھے۔ ان کے پاس اسالٹ رائفلز بھی تھیں، پستول، دستی بم اور دھماکا خیز بیلٹ بھی۔ وہ فائرنگ کرتے ہوئے ریمپ پر چڑھ جاتے ہیں اور جہاز میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس وقت کے ٹریفک اسسٹنٹ مصطفیٰ رافت سرھندی بتاتے ہیں:

میری مارننگ ڈیوٹی تھی، تقریباً ساڑھے چھ اور پونے سات کے درمیان میں اپنی ڈیوٹی پر پہنچا۔ وقت سے پہلے میں نے جن صاحب کو ریلیف کرنا تھا، ان کا نام عزیز بلوچ تھا۔ وہ آئے اور انہوں نے مجھے گاڑی ہینڈ اوور کی گاڑی کی چابی دی اور وائر لیس دیا اور انہوں نے نکلتے ہوئے مجھے بس یہ کہا کہ پین ایم پر کوئی دھاما دھومی ہو گئی ہے۔ وہ لیاری کے تھے وہ اپنے اسٹائل میں بولے لیکن کوئی بھی explanation انہوں نے مجھے نہیں دی۔ میں گاڑی لے کر فوراً پین ایم کی طرف گیا۔ میں سمجھا کہ فلائٹ پر کوئی ایشو ہو گیا ہے، کوئی ڈیلے نہ ہو گئی ہو۔ جب میں فلائٹ پر پہنچا ہوں تو میں نے ایئر پورٹ کے ڈرائیونگ رولز کو مدنظر رکھا اور جہاز کی nose پر گاڑی لے گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں پہلے ہی ایک آف وائٹ سوزوکی ہائی روف کھڑی تھی جس پر ایک لائٹ لگی ہوئی تھی، اس کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور پچھلا حصہ بھی کھلا ہوا تھا۔ میں گاڑی سے اترا اور جہاز کے ہولز کی طرف گیا جو اس کے رائٹ ہینڈ سائیڈ پر ہوتے ہیں تو میں نے دیکھا کہ ہولز سارے بند ہیں اور جو اکوئپمنٹ وہ بھی لوڈ ہے تو جہاز اس طرح کا تھا کہ جیسے ڈیپارچر کے لیے تیار ہو۔ تو جب میں پلٹا تو پھر میں نے دیکھا کہ دو Inertia Reel کاک پٹ ونڈو سے لٹک رہی ہیں۔ یہ دیکھ کر میں پریشان ہوا۔ Inertia Reel بنیادی طور پر ایمرجنسی میں استعمال ہوتی ہیں۔ جس کا مقصد پائلٹس کی evacuation ہوتا ہے Inertia Reel دراصل پائیلٹس کو آرام سے زمین تک لانے میں مدد دیتی ہے۔

روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ زاہد حسین نے اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا:

صبح کا وقت تھا کوئی 6 بجے کا۔ میں گھر پر سو رہا تھا میرے پاس ہمارے جو روئٹرز کے رپورٹر تھے ابراہیم خان، کراچی میں وہ گھر پر آئے اور دروازہ بجایا۔ میں اٹھا اور ان کو دیکھا، تھوڑا ذہن میں آیا کہ کوئی بات ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھائی آپ سو رہے ہو؟ وہاں ہائی جیکنگ ہو گئی ہے۔ میں تو وہاں سے چکر لگا کر آ گیا ہوں، اب میں جا کر خبر چلاؤں گا، آپ وہاں پہنچو۔ میرے پاس ویسپا بائیک تھی۔ ویسپا لی اور میں نکل گیا۔ جب میں ایئر پورٹ پہنچا تو وہاں سناٹا تھا۔ میں نے وہاں گاڑی کھڑی کی، یہ اولڈ ٹرمینل ہوتا تھا اس وقت۔ جس وقت میں انٹر ہوا تو وہاں اندر ہر طرف فوج آرمی تھی۔ تھوڑا سا میں رکا، اس لیے کہ وہ آج کے زمانے کی بات نہیں، اب تو بہت آسانی ہے۔ پہلے تو وہ کیمرہ دیکھتے ہی توڑتے تھے، ٹھڈے الگ پڑتے تھے۔ اگر آپ نے کیمرہ سیدھا کیا ان کی طرف، تو دانت وانت تو تڑوا کر آتے تھے آپ۔ میں نے سوچا کہ جہاز کی تصویر تو بنا کر آؤں پہلے۔ اس کے لیے مجھے فرسٹ فلور پر سیڑھی چڑھ کر ایک ریسٹورنٹ پر جانا پڑا اور وہاں عموماً لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔ سیڑھی میں مجھے فوجی کھڑے ہوئے ملے۔ مجھے کسی نے نہیں روکا۔ میں ان کے پاس سے گزرا اور اندر جھانکا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ وہاں میزیں خالی پڑی ہوئی تھیں اس کے بعد پھر ایک اور فلور پر جا کر آپ اس کی چھت پر آجاتے تھے ایئر پورٹ کی۔ میں نے کہا کہ اوپر چل کر دیکھتے ہیں تصویر بنتی ہے یا نہیں۔ اوپر گیا تو اوپر تو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ میدان جنگ ہے فوج ہی فوج تھی اور کچھ 8 سے 10 فوجی لیٹے ہوئے تھے اور بندوق کا رخ جہاز کی طرف تھا۔ جہاز وہاں سے 4 سو فٹ دور تھا پہلے تو مجھے تھوڑا خوف ہوا فوج کا۔ پھر میں نے سوچا کہ جب میں یہاں تک آگیا ہوں تو کوشش تو کرنی ہے، تو میں نے کیمرا سیدھا کیا اور جہاز کی تصویریں بنائیں اور فوجیوں نے مجھے دیکھا۔ میں نے زیادہ شاٹ نہیں لیے 4 سے 5 شاٹ جہاز کے لیے پھر میں مڑ گیا۔

ایئر ہوسٹس کی شدید مزاحمت کے باوجود حملہ آور جہاز میں داخل ہوچکے تھے۔ اب انہیں اپنے ٹارگٹس اچیو کرنے تھے۔ لیکن یہ تھے کون؟

پین ایم 73 کو اغوا کرنے والوں کا تعلق تھا ’’ابوندال‘‘ تنظیم سے۔ اس تنظیم نے 1969 میں بھی ٹی ڈبلیو اے فلائٹ 840 ہائی جیک کرنے کا ذمہ قبول کیا تھا۔ ٹی ڈبلیو اے فلائٹ 840 کو ایک فلسطینی لڑکی لیلیٰ خالد نے ہائی جیک کیا تھا۔ لیلیٰ خالد کی داستان تو کسی thriller movie سے کم نہیں، چلیں ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔ ابھی آپ کو بتاتے چلیں کہ ابو ندال کیا تھی؟

یہ تنظیم فتح انقلابی کونسل کے نام سے بھی جانی جاتی تھی، اس پر 1970 سے لیے کر 1980 تک کئی حملوں کا الزام لگا۔ ابوندال 1974 میں فلسطین لبریشن آرگنائیزیشن یعنی یاسر عرفات کی پی ایل او سے الگ ہونے کے بعد بنی۔ اس کا ہدف ایک ہی تھا: اسرائیل کو نقصان پہنچانا۔

پین ایم فلائٹ 73 میں جو لوگ داخل ہوئے، وہ جہاز کو قبرص یا پھر اسرائیل لے جانا چاہتے تھے۔ ہائی جیکرز کا مطالبہ تھا کہ قبرص اور اسرائیل میں قید 1500 فلسطینی افراد کو رہا کیا جائے۔ اردن کے 41 سالہ زید حسن عبد اللطیف صفرانی اس ساری کاروائی کو لیڈ کر رہے تھے۔ طیارے کی ایک میزبان نے تھوڑا ہوشیاری سے کام لیا، وہ ہائی جیکروں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ اس نے ہائی جیک کوڈ کاک پٹ کے عملے تک پہنچا دیا، تاکہ کاک پٹ خالی ہو جائے۔ بس ہائی جیکرز کے لیے یہاں گیم پلٹنے والی تھی۔

پائلٹس Inertia Reel Escape Device کے ذریعے جہاز سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس ڈیوائس کو اوور ہیڈ ایمرجنسی ہیچ بھی کہتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جسے دیکھ کر مصطفیٰ رافت پریشان ہو گئے تھے اور جس آف وائٹ سوزوکی ہائی روف کا ذکر انہوں نے کیا، وہ بھی انہیں ہائی جیکرز کی تھی۔ اس سچویشن کو دیکھ کر مصطفیٰ گھبرا رہے تھے اور اب وہ جہاز کے STEPS کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان لمحات کو انہوں نے یوں بیان کیا:

میں ڈور کے سامنے STEPS کے قریب کھڑا تھا۔ گراؤنڈ پر کھڑا تھا۔ اوپر ایک ہائی جیکر نمودار ہوا اس نے اے ایس ایف کا یونیفارم پہنا ہوا تھا۔ رنگ گورا تھا۔ تیس سال عمر ہو گی۔ اتھیلیٹیک بلڈ تھی۔ اور اس نے مجھے FRANTIC انداز سے دیکھا جیسے ایک آدمی غصہ میں بھی ہو، پریشان ہو، میں بھی اس کو دیکھتا رہا۔ اس سے میرا کچھ سیکنڈ تک EYE CONTACT ہوا اور اس کے بعد وہ تیزی سے اندر چلا گیا۔ میں بھی اپنی گاڑی کی طرف پلٹا۔ جب میں اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا تو میں نے وہ ہائی روف جو آف وائٹ کلر کی تھی اس کے اندر دیکھا تو اس کے فلور کے اوپر ہینڈ گرینیڈز رکھے ہوئے تھے۔ کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے تھے دو سائزز کے تھے۔ یہاں مجھے سمجھ میں آگیا کہ IAM AT A WRONG PLACE AT A WRONG TIME۔ میں فوراً اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا اور ایئر پورٹ کے ڈرائیونگ رولز کو VIOLATE کرتا ہوا میں جہاز کے نیچے گاڑی چلاتا رہا۔ پھر میں نے لیفٹ ٹرن لیا اور جہاں سے جہاز کا ٹیکسی ٹرن ہوتا ہے، وہاں میں نے گاڑی چلانا شروع کر دی۔ راستے میں ایک ٹریکٹر کھڑا تھا جو ایئر پورٹ کا ٹریکٹر ہوتا ہے، اس کو میں نے قریب سے دیکھا تو اس پر بہت سارا BLOOD لگا ہوا تھا اور ابھی وہ خون ٹپک بھی رہا تھا۔ وہاں میں نے گاڑی سلو کی اور پھر میں اپنے آفس جسے GOC کہتے ہیں، گراؤنڈ آپریشن کنٹرول، وہاں چلا گیا۔ وہاں گیا تو ہمارے انچارچ شکیل صاحب تھے وہ کھڑے ہوئے تھے اور وہ ٹینس بھی محسوس ہو رہے تھے، میں ان کے قریب گیا اور میں نے پوچھا کہ پین ایم پر کیا ہوا ہے؟ تو انہوں نے میرے کان میں آ کر کہا کے ہائی جیک ہو گیا ہے۔

اب خبر پھیل چکی تھی، یہ خبر پھیلنے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ زاہد حسین صاحب نے اپنی کھینچی گئی تصویریں کیسے بھیجیں؟ یہ ضرور پڑھیے:

میں نے ویسپا اٹھائی اور وہاں سے نکل گیا۔ پھر میں نے یہ پراسس کیا ڈان میں۔ اس کے بعد پھر میں نے یہ جہاز کی کی تصویر جو ہے بریکنگ بھیجی ہانگ کانگ میں تھا روئٹرز۔ اچھا اس وقت لک تھی میرے ساتھ۔ لک یہ تھی کے پہلے ہم بھیجتے تھے ٹی این ٹی کے ذریعے سے۔ کوئی واقعہ ہوتا تھا کوئی تصویر بنتی تھی تو فوٹو ٹرانسمیٹر نہیں تھا میرے پاس لیکن خوش قسمتی سے ہمارا ایک اسٹاف ممبر تھا چانک کو۔ وہ افغانستان گیا ہوا تھا، واپسی پر اس کی ہانگ کانگ کی فلائٹ تھی کراچی سے تو وہ ہمارے پاس دو دن رہا۔ یہاں ہو رہے تھے فسادات ایم کیو ایم کے حوالے سے تو روز میں کچھ نا کچھ بھیج رہا تھا تو وہاں جو فوٹو ایڈیٹر تھا ہمارا گیری گیمپر، اس نے چانک کو کہا کہ تم یہ ٹرانسمیٹر کراچی چھوڑ دو کیونکہ اسٹوریز یہاں سے بھی آ رہی ہیں کیونکہ ٹرانسمیٹر نہ تو اسلام آباد میں تھا نہ ہی کراچی میں، اس لیے وہ ٹرانسمیٹر چھوڑ گیا تھا۔ یہاں اس پر تو میری موجیں ہو گئیں، میں نے چار پانچ پرنٹ بنائے اور پھر میں روئٹرز کے آفس گیا، وہاں میں نے تصویریں ٹرانسمٹ کی پہلے ٹیلیکس سے میسج کرتے تھے اور پھر اس کے بعد کال آ جاتی تھی پھر ہم تصویر لگا دیتے تھے اور بیلک اینڈ وائٹ پکچر 8 منٹ لیتی تھی اور کلر تصویر 24 منٹ لیتی تھی۔ بیچ میں ایک ایک منٹ کا وقفہ ہوتا تھا یعنی آدھا گھنٹہ لگتا تھا اور اگر لائن کٹ جاتی تو پھر دوبارہ تصویر بھیجنا پڑتی۔ تو میں نے وہ تصویریں دے دیں اور وہ پھیل گئیں اور میں دوبارہ ایئر پورٹ پر چلا گیا۔

جب طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے والے ہائی جیکر زید حسن عبد اللطیف صفرانی کا پتہ چلا کہ کاک پٹ کا عملہ تو فرار ہو گیا ہے، اب وہ ایئر پورٹ حکام سے بات چیت کرنے کے لیے مجبور ہو گیا۔ تو اس نے پہلے تو فرسٹ اور بزنس کلاس کے مسافروں کو جہاز کے پچھلے حصے کی طرف جانے کا حکم دیا اور جہاز کے پچھلے حصے میں موجود مسافروں کو آگے آنے کا۔ اب ان کا مقابلہ تھا کہ پائلٹس کو جہاز میں دوبارہ بھیجا جائے کیونکہ اس ایک حرکت سے ہائی جیکرز کی ساری پلاننگ کا بیڑا غرق ہو چکا تھا۔ اب ان کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی اور مسافروں کی شامت آنے والی تھی۔ مصطفیٰ سرھندی نے اس سے آگے کے حالات بتاتے ہوئے کہا:

مجھے پین ایم پر ALLOCATE کر دیا گیا اور کہا گیا کہ اب آپ اسی کو دیکھیں گے کیونکہ یہ ہائی جیک ہو گیا ہے اور مجھے کہا گیا کہ ٹریفک کی طرف سے میں COORDINATION کروں گا اس کے بعد مجھے کہا گیا کہ آپ پین ایم پر جا کر STANDBY ہو جائیں تو جب میں اپنی گاڑی پین ایم کی طرف لے گیا تو پورا جہاز میرے سامنے تھا اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہائی جیکرز مجھے ہر طرف سے دیکھ رہیں تھے۔ مجھے یہ سیف پوزیشن نہیں لگی تو جب میں گاڑی آگے لے گیا اور جہاز کی ٹیل سے دس گز دور میں نے اپنی گاڑی پارک کر دی اور وہاں کھڑا ہو گیا تو جب میں وہاں کھڑا تھا تو جہاز کا R5 ڈور جو سب سے پیچھے والا دروازہ ہوتا جمبو 747 کا وہ کھلا اور اس کے بعد ایک ہائی جیکر کی پوری باڈی نمودار ہوئی اور اس ہائی جیکر نے پورے ایئر پورٹ کا جائزہ لیا۔ جائزہ لینے کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور دیکھتا رہا اس کے چہرے پر ماسک تھا اور پھر اس نے دروازہ بند کر دیا۔ پھر میں نے ایئر کرافٹ کی ٹیل کے پاس دوبارہ پوزیشن لے لی۔ دس منٹ کے بعد جہاز کے لیفٹ سائیڈ کا ڈور کھلا، مجھے یاد نہیں کہ وہ کون سا ڈور تھا، اس میں سے ایک SACK سا نیچے گرا، جس کو آپ گٹھڑا کہیں گے وہ dark blue color کا تھا۔ اس کے گرنے کی بڑی آواز بھی بہت زور سے آئی میں نے فوراً جی او سی کال کر کے بتایا کہ جہاز سے کوئی sack گرایا گیا ہے اور وہ زمین پر پڑا ہوا ہے تو وہاں سے انہوں نے مجھے کہا کہ شناخت کر کے بتاؤ کہ کیا چیز ہے؟ تو میں نے انہیں کہا کہ مجھے تو یہ گٹھڑا نما چیز نظر آ رہی ہے اور اس سے زیادہ میں نہیں بتا سکتا۔ خیر، خاموشی ہو گئی وائر لیس کے اوپر۔ اس کے دس منٹ بعد ایک ایمبولینس بہت تیزی سے آئی پہلے وہ رانگ سائیڈ پر چلی گئی پھر وہ میری طرف آیا میری گاڑی کے پیچھے سے گھماتا ہوا وہ گاڑی sack کے پاس لے گیا اس۔ میں سے پیرا میڈکس اترے تو تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک ڈیڈ باڈی تھی، جب انہوں نے اس کو اسٹریچر پر ڈالا۔ ہائی جیکرز نے کسی ایک مسافر کو شوٹ کرکے نیچے گرا دیا تھا۔ اب یہ سب کچھ ہونے کے بعد ایمبولینس باڈی کو لے کر چلی گئی۔

کینیا میں پیدا ہونے والا راجیش کمار بہت خوش تھا۔ وہ کیلی فورنیا کے ہنٹنگٹن بیچ کا رہائشی تھا، اسے حال ہی میں امریکی شہریت ملی تھی اور وہ اپنی دادی کے ساتھ امریکہ کا سفر کر رہا تھا۔ لیکن، یہی جہاز ہائی جیک ہو گیا۔

پائلٹوں کے فرار کے بعد حکام کو تیس منٹ دیے جاتے ہیں اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پائلٹس کو واپس جہاز میں بھیجا جائے۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا پائلٹس کے آنے کی امید کم ہو رہی تھی۔ تب ہائی جیکر زید حسن عبدالطیف صفرانی راجیش کمار کی سیٹ کے پاس رکتا ہے اور اسے گھسیٹتا ہوا ہوائی جہاز کے اگلے دروازے کے پاس لاتا ہے۔ راجیشن کو بس اب موت نظر آ رہی تھی۔ تیس منٹ گزر گئے، پائلٹس نہیں آتے اور پھر گولی چلتی ہے۔ راجیش کمار کی زندگی کا سفر یہیں ختم ہو جاتا ہے۔

راجیش کمار کی یہی لاش تھی، جسے مصطفیٰ رافت سرھندی نے اپنی آنکھوں کے سامنے گرتے دیکھا۔

زاہد حسین نے ایئر پورٹ کے حالات یوں بتائے:

لوگ آنا شروع ہوگئے تھے جن کے رشتہ دار یہاں سے جا رہے تھے ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی تو معلومات کے لیے کاؤنٹرز پر رش لگ گیا تھا۔ میں نے پکچرز وغیرہ بنائیں۔ پاکستان کے یہاں سے کوئی 40 سے 45 افراد یہاں سے چڑھے تھے تو ان کے جو جاننے والے یا رشتہ دار تھے، جب یہ خبر چلی ہوگی تو وہ پریشانی میں ایئر پورٹ آ گئے ہیں معلومات کے لیے۔ لوگ پریشان تھے اور رو بھی رہے تھے۔

راجیش کمار کے مرنے کے بعد باقی مسافروں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ جہاز میں موجود ہر فرد یہی سوچ رہا تھا کہ اب اس کی باری ہے! اب ہائی جیکرز نے فلائٹ میں سوار امریکی شہریوں کی شناخت کرنا شروع کردی اور جہاز کے عملے کو آرڈر دیا کہ سب مسافروں کے پاسپورٹ اکٹھے کیے جائیں۔ یہاں جہاز کی ایئر ہوسٹس نے پھر ہوشیاری سے کام لیا اور امریکی شہریوں کے پاسپورٹس سیٹوں کے نیچے چھپانے شروع کر دیے۔ اس طرح امریکی باشندوں کی شناخت نہیں ہو پائی۔ اب انہوں نے برطانوی شہری Mike Thexton پر اکتفا کرتے ہوئے اسے پکڑ لیا۔ مائیک پاکستان میں کے ٹو دیکھنے آیا تھا لیکن اب وہ جہاز کے فرش پر بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ سر پر تھے۔

پین ایم جہاز کے اندر تو قیامت برپا تھی مگر باہر کے حالات بھی مختلف نہ تھے۔ معاملہ عالمی سطح کا تھا اور پھر جنرل ضیاء الحق کے حکم پر ایس ایس جی کمانڈرز میدان میں آ گئے۔

مصطفیٰ سرھندی نے اس کہانی کے اہم ترین موڑ بیان کرتے ہوئے کہا:

اب میں نے پین ایم کو ٹیل سائیڈ سے کراس کیا تو میں نے دیکھا کے ایک ہائی جیکر گن لے کر زمین پر بیٹھا ہے اور ڈور کھلا ہوا ہے سب سے اگلا دروازہ جسے ایل ون کہتے ہیں اور گن اس نے نیچے پوائنٹ کی ہوئی ہے اور نیچے ایک ویل ڈریسڈ افسر تھے اور ان کے ہاتھ میں میگا فون تھا اور وہ ہائی جیکر سے بات کر رہے تھے۔ میں گاڑی چلاتا ہوا تھوڑا سا آگے گیا تو ایک دم سے فائرنگ ہونا شروع ہو گئی اس ہائی جیکر نے فائر کر دیا اس نے پہلا برسٹ مارا تو میرے لوڈر عاشق نے مجھے کہا سر آپ فوراً زمین پر لیٹ جائیں میں گاڑی سے کود کر زمین پر لیٹ گیا گاڑی کو ہینڈ بریک بھی نہیں کیا وہ رول کرتی ہوئی آگے چلی گئی اور میں زمین پر لیٹا رہا اس نے دو تین برسٹ چلائے اور وہ جو میگا فون والے صاحب تھے انہوں نے میگا فون کو زور سے نیچے پھنکا اور وہ رینگتے ہوئے باقاعدہ جہاز کے نوز ویل کے پاس بیٹھ گے کیونکہ نوز ویل سے آپ کسی دروازے سے نظر نہیں آتے فائرنگ ہو رہی تھی اور عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں ہم نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہم فائر اسٹیشن کے اندر جا کر ہم بھی بیٹھ گے ایک محفوظ جگہ پر اور دیوار کے پیچھے سے ہم دیکھتے رہے کہ کیا ہو رہا ہے تو وہ صاحب نوز ویل کے ساتھ ہی بیٹھے رہے اور کافی دیر بیٹھے رہے اور شاید ٹاور سے معاملات کے حل کے لیے بات چیت ہو رہی ہو گی تو ہائی جیکرز نے ان کو اجازت دی کے وہ چلے جائیں اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور وہ اس طرح چلے گے تو یہ ٹائم میں نے بھی دیکھا کہ حالات نارمل ہوگے ہیں اور میں اپنے آفس جے او سی چلا گیا تو میں نے وہاں دیکھا کے پاکستان آرمی کے سینیئر افسر کھڑے ہوئے تھے ان کے ساتھ میرے ایک دو ساتھی کھڑے ہوئے تھے جب انہوں نے مجھے دیکھا تو مجھے اشارہ کیا اور بلایا میں ان کے پاس چلا گیا تو اس افسر نے مجھ سے ساری سچویشن پوچھی تو میں نے ان کو سارے حالات بتا دئے مجھے کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کے وہ بریگیڈیئر ٹی ایم تھے وہ پاکستان کے بہت decorated بریگیڈیئر تھے کمانڈوز کے۔

اس ہائی جیکنگ کی تمام تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہائی جیکرز سے بات چیت کا سلسلہ کراچی ایئر پورٹ پر موجود پین ایم فلائٹ کے آپریشن ڈائریکٹر وراف ڈوگرا نے کیا تھا۔ ہماری تحقیقات کے مطابق مصطفیٰ رافت سرھندی ہاتھ میں میگا فون تھامے جس ویل ڈریسڈ افسر کا ذکر کر رہے ہیں، وہ پین ایم فلائٹ کے آپریشن ڈائریکٹر وراف ڈوگرا ہی تھے۔ خیر، اسٹوری آگے بڑھاتے ہیں!

سورج ڈھلنے لگا۔ مسافروں کی گھبراہٹ بڑھ رہی تھی۔ اس حالت میں بھوک کیسے لگ سکتی ہے؟ خوف اس سے کہیں زیادہ تھا۔ ان خطرناک لمحات میں ہائی جیکر عبد اللطیف صفرانی جہاز کی ایک میزبان کو قبرص لے جانے اور تیراکی کے گر سکھانے کی پیش کش کر رہا تھا۔ لیکن یہ ٹائم پاس بھی زیادہ دیر نہیں چلا۔ وقت تیزی سے نکلتا جا رہا تھا۔ جہاز میں روشنی تیزی سے کی کم ہونے لگی اور اے سی بھی کمزور پڑنے لگے۔ بات چیت کا سلسلہ بھی رک گیا۔

مصطفیٰ رافت سرھندی نے اس دوران ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں بتایا:

لیکن افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ امریکن فورس آ رہی ہے ڈیگو گارشیا سے اور کبھی کہا جاتا تھا کہ ایئر کرافٹ جا رہا ہے اس کو فیول دیا جائے گا رپئیر کیا جائے گا اور شاید وہ ہائی جیکرز اس کو سائپرس یا اسرائیل لے کر جانا چاہتے تھے اور وہ کاک پٹ کرو کو بھی کہہ رہے تھے کہ واپس آئیں جو وہ نہیں آئے۔

تقریباً رات کے دس بج رہے تھے۔ ہائی جیکرز کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوتا جا رہا تھا۔ جہاز کی میزبان نے ایک ہائی جیکر کو بتایا ایمرجنسی پاور 15 منٹ کے بعد بند ہو جائے گی اور جہاز میں اندھیرا چھا جائے گا۔ جس وقت جہاز میں روشنی کم ہو رہی تھی، اس وقت فلائٹ اٹینڈینٹ اور مسافر کیبن کے سینٹر میں موجود تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے جو نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ لوگ دروازوں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے مصطفیٰ رافت سرھندی صاحب کی ڈیوٹی ختم ہو گئی اور اب انہوں نے اپنا چارج اپنے ساتھی فرید الدین کو دے دیا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھی کا آنکھوں دیکھا حال بھی رفتار کو بتایا:

انہوں نے مجھے بتایا کہ جب اندھیرا ہوا ہر ایئر کرافٹ جہاں کھڑے رہتے ہیں ان کو بئیر کہتے ہیں ان کی اپنی سرچ لائٹس ہوتی ہیں جو اس علاقے کو روشن کر دیتی ہیں وہ کسی نے آن کر دی۔ سول ایوی ایشن نے آن کروائی ہوگی۔ ہم جس زمانے میں تھے اس زمانے میں وہ individually آن کرنے آتے تھے پھر وہ لائٹ کسی نے آف کروا دی پھر سے۔ اس کے بعد پھر کوئی misunderstanding ہوئی۔ کہا جاتا ہے لوگوں کی اپنی سوچ کے مطابق کہ کچھ سائے ایسے جہاز پر پڑ رہے تھے کہ ہائی جیکرز یہ سمجھے کہ ان کے خلاف کوئی آپریشن شروع ہونے والا ہے جو ambiguity ہوئی وہ یہاں سے ہوئی کہ west والی سائیڈ پر ایک روڈ چلتی ہے جو پہلوان گوٹھ سے ایئر پورٹ کی طرف آتی ہے وہاں گاڑیاں چل رہی تھیں ان کی جو ہیڈ لائٹس وغیرہ تھیں اس کے سائے بہت لمبے اور دراز نظر آتے ہیں کیونکہ ایئر پورٹ تو ایک میدان ہوتا ہے تو وہ سائے جب جہاز کے اوپر پڑے ہیں تو ہائی جیکرز یہ سمجھے کہ ان کے خلاف کوئی آپریشن شروع ہونے والا ہے اور کچھ گاڑیاں ان کی طرف آ رہی ہیں تو انہوں نے پہلے ہینڈ گرینیڈز اندر پھینکے جس کی آواز باہر آئی اور لوگوں نے اورینج فلیم بھی دیکھے اور اس کے بعد جہاز کے دروازے باہر کھلے اس کی وجہ سے جو ایمرجنسی سلائیڈز ہوتی ہیں ایئر کرافٹ کے اندر وہ تو deploy ہوئیں لیکن کچھ نہیں بھی ہوئیں اور بہت سے مسافر کود گئ جہاز سے۔ بہت سارے وینگ کی طرف بھاگے اور ونگ کی طرف بھاگتے ہوئے وہ اتنا گھبرائے کہ وہ ونگ کے کونے تک چلے گے، وہ ونگ کا سب سے اونچا حصہ ہوتا ہے اور پھر وہ وہاں سے کودے ہیں تو اس سے بہت ساری انجریز ہوئیں۔

فوٹو جرنلسٹ دی روئٹرز زاہد حسین نے بھی آنکھوں دیکھا حال یوں بتایا:

میں نے شہید ملت روڈ کو کراس کیا تو میں نے دیکھا میرے پاس سے کئی ایمبولینس گزریں۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کاروائی ہو گئی ہے وہاں پر۔ ساری ایمبولینس کارگو والی سائیڈ پر چلی گئیں اور جس جگہ مسافر اور جہاز موجود تھا وہاں سے فوج نے کسی کو نکلنے نہیں دیا مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہوا کیا ہے؟ بالکل اندھیرا تھا وہاں پر۔ جیسے ہی ایمبولینس وہاں رن وے پر چڑھیں تو میری ویسپا بھی رن وے پر چلتی رہی۔ آگے جا کر دیکھا تو آگے جہاز کے قریب کچھ حرکتیں ہو رہی ہیں، کچھ بھگدڑ سی ہے ان کی ہیڈ لائٹس میں۔ جب کچھ نظر آیا تو اس سے اندازہ ہوا کہ یہ تو مسافر ہیں جو بھاگ رہے ہیں نکل کر میں نے گاڑی وہیں چھوڑ دی اور کچھ شارٹ بنائے پھر اچانک ایک آواز آئی کہ یہی تھا یہی تھا یہی تھا ہائی جیکر۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی اندھیرا تھا فلیش میں نے ایک دو ماری تو پتہ چلا تو اس کو پکڑا ہوا تھا کچھ لوگوں نے اور باندھنے کے لیے رسی ڈھونڈ رہے تھے، نہ رسی مل رہی تھی نہ کچھ، تو وہاں جو کارگو کی پیٹیاں ویٹیاں پڑئی ہوئی تھیں، اس میں سے کسی نے رسی نکالی اور اس سے باندھا۔

مصطفیٰ رافت سرھندی نے اس بارے میں مزید بتایا:

یہ تھے ہائی جیکرز یہ بھی ان کے ساتھ اتر آئے نیچے فری فار آل جیسی صورتحال تھی ہائی جیکرز بھی فائرنگ ہو رہی تھی لوگ بھاگ دوڑ رہے تھے گولیاں لگ رہی تھیں اور یہ مسافر جب بھاگتے ہوئے ٹرمینل کی طرف آئے تو انہوں نے اے ایس ایف والوں کو جب دیکھا تو یہ واپس پلٹ کر بھاگنے لگے مسافر سمجھے کہ شاید یہ بھی ہائی جیکرز ہیں کیونکہ ہائی جیکرز نے بھی اے ایس ایف کا یونیفارم پہنا ہوا تھا تو یہ بھی ایک غلط فہمی ہوئی اور ایئر کرافٹ کے اوپر جو سب سے پہلے رسپانڈ کیا وہ اے ٹی ایس نے کیا، اینٹی ٹیریریسٹ اسکواڈ آف کراچی سندھ پولیس نے ان کے دو افسران اوپر گئے اور انہوں نے اپنی ہینڈ گن سے ایک یا دو ہائی جیکرز کو شوٹ ڈاؤن کیا لیکن دوسرے ہائی جیکرز باہر آچکے تھے اور فائرنگ ہوتی رہی پھر ان کو بھی ایک ایک کر کے گولی ماری گئی لیکن زیادہ تر ہائی جیکرز کو زندہ پکڑ لیا گیا۔

پین ایم کے عملے کے مطابق جہاز کا ایمرجنسی دروازہ نیرجا بھانوٹ نامی ایئر ہوسٹس نے کھولے تھے۔ مسافروں کو نکالنے کے بعد جب وہ خود نیچے اتر رہی تھیں تب انہیں گولیاں لگیں جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گئیں۔ انہیں فوراً اسپتال پہنچایا گیا مگر وہ بچ نہ سکیں۔ نیرجا کی اس بہادری پر انہیں پاکستان نے بھی سب سے بڑے سول اعزار ’’تمغۂ پاکستان‘‘ سے نوازا تھا۔ انڈیا نے بھی اپنا سب سے بڑا اعزار ’’اشوک چکر‘‘ دیا۔

سترہ گھنٹے جاری رہنے والی اس ہائی جیکنگ میں کُل 21 لوگوں کی جان گئی اور 120 زخمی ہوئے۔ پکڑے جانے والے ہائی جیکرز میں عبد اللطیف کے علاوہ ودود محمد حفیظ ال ترکی، جمال سعید عبد الرحیم، محمد عبد اللہ خلیل حسین اور محمد احمد المنوّر شامل تھے۔

چھ جولائی 1988 کو یعنی واقعے کے تقریباً دو سال بعد پاکستان نے ان تمام کو سزائے موت سنائی۔ بعد میں یہ سزا عمر قید میں بدل دی گئی۔ مئی 2005 میں عبد اللطیف کو امریکا کے حوالے کر دیا گيا، جہاں اسے 160 سال قید کی سزا دی گئی۔ باقی ہائی جیکرز پاکستان نے 2008 میں فلسطین کے حوالے کر دیے۔ وہاں سے کہاں گئے؟ کچھ نہیں پتہ۔

آج یہ چاروں ایف بی آئی کی موسٹ وانٹڈ لسٹ میں موجود ہیں۔ کچھ سال بعد ایف بی آئی نے ان چاروں ہائی جیکرز کی age-processed تصویریں بھی ریلیز کیں۔ ان پر پانچ، پانچ ملین ڈالرز انعام ہے لیکن وہ آج تک نہیں پکڑے گئے۔

اس پورے واقعے میں سب سے زیادہ تنقید جن کے کردار پر ہوتی ہے، وہ پائلٹ تھے۔ اگر وہ جہاز کو چھوڑ کر نہ جاتے تو شاید 21 قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھی۔ شاید!

شیئر

جواب لکھیں