17 ستمبر 1998۔ وہ بے خبر اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ اچانک اس کے سر پہ کسی نے زور دار وار کر دیا۔ بندوق کا ایک بٹ پڑا، دوسرا، تیسرا اور پڑتے ہی چلے گئے۔ وہ لہو لہان ہوگیا اور وار کرنے والے بھاگ کھڑے ہوئے۔

اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور کچھ ہی دیر میں وہ اپنے ہی خون میں لت پت بے ہوش ہو گیا۔ محلے والے اُسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچاتے ہیں جہاں ڈاکٹرز کو کوئی امید نہیں کہ وہ بچ بھی پائے گا یا نہیں۔ لیکن ابھی اُس کی زندگی باقی تھی، کیونکہ اِس زندگی نے سینکڑوں معصوم زندگیوں کا خاتمہ کرنا تھا۔

وہ ہسپتال میں تین ہفتے رہا، جب ہوش میں آتا، اپنا حال دیکھتا، اپنی ماں کو دیکھتا تو اندر ہی اندر کڑھتا رہا۔ یہ صدمہ ماں پر بہت بھاری پڑا اور وہ کچھ ہی عرصے میں چل بسی۔ اب اُس پر وحشت طاری ہو گئی۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنی ماں کی موت کا بدلہ لے گا اور 100 ماؤں کو رلائے گا۔

یہ کہانی ہے پاکستان میں دہشت کی نئی داستان رقم کرنے والے، 100 بچوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے جاوید اقبال کی۔ وہ داستان، جس کا ایک روپ وہ ہے جو ہم، آپ اور دنیا جانتی ہے لیکن اس کہانی کی کئی پرتیں ہیں، کئی الجھی ہوئی ڈوریں ہیں، اتنی کہ سلجھانے سے بھی نہ سلجھیں۔ ہم نے بھی کوشش کی، لیکن مزید الجھ گئے۔ ہاں! بہت سی نئے پہلو ضرور سامنے آئے جو ہم آپ کو بھی بتائیں گے۔

اس سفر میں ہم نے جانا کہ جاوید اقبال کا خط سب سے پہلے جس صحافی کو ملا، اس نے کیا دیکھا؟ جس افسر کو اس بھیانک کیس کی تحقیقات کا حکم ملا، اس نے کیا پایا؟ جس جج نے اسے سزائے موت سنائی، اس کا حال کیا تھا؟ اس سوال کا جواب آج بھی سب کو حیران کر دیتا ہے۔ اور ہاں! ’’رفتار‘‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ایک ایسا انکشاف بھی کیا کہ اس نے پورے معاملے کو بالکل نیا رنگ دے دیا۔

آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ جاوید اقبال کی اپنی فیملی اس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ آج ہم پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیریل کلر جاوید اقبال کی کہانی سنائیں گے، کچھ اس طرح، جیسے کبھی کسی نے نہیں سنائی ہوگی۔

لاہور کا شیطان

سن 1999، دسمبر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ چکا، ملک آمریت کے شکنجے میں ہے۔ بے یقینی کی کیفیت، گویا کسی طوفان سے پہلے کی خاموشی لگتی ہے۔ اور یہ خاموشی ٹوٹتی ہے، 22 نومبر 1999 کے دن۔ جب لاہور کی مصروف شاہراہ ڈیوس روڈ پر واقع جنگ اخبار کے دفتر میں ایک وزنی خط موصول ہوتا ہے۔

ایسا خط، جسے کئی دن تک کھولنے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی، لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ خط اپنے اندر ایک بھیانک راز چھپائے ہوئے ہے۔ پھر دو دسمبر کو، کئی دن بعد اس خط کو کھولا جاتا ہے۔ اس میں سے ظلم اور سفاکیت کی ایسی داستان باہر آتی ہے، جو پورے ملک کو ہلا دیتی ہے۔ صحافی خاور نعیم ہاشمی اس دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

میں بھاری خط کو جونہی میں کھولتا ہوں، تو میرے چھوٹے سے کیبن میں چاروں طرف تصویریں ہی تصویریں بکھر گئیں۔ میں نے ایک، ایک تصویریں اٹھانی شروع کر دی۔ وہ چھوٹی عمر کے بچوں کی تصویریں تھیں۔ کوئی 12 سے لے کر 16 سال کی عمر کے بچے تھے۔ ان تصویروں کی تعداد ایک سو تین کے قریب تھی، جو میں نے گنیں۔ اب میں تصویریں جمع کر کے اپنی ٹیبل پر رکھتا ہوں، اس کے بعد میں خط کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ خط میں لکھا ہوا ہے کہ جناب ایڈیٹر صاحب روزنامہ جنگ! میں آپ کے سامنے اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں سو سے زیادہ بچوں کو ریپ کے بعد قتل کر چکا ہوں، ان کی لاشیں ٹھکانے لگا چکا ہوں۔ اب میری ذہنی کیفیت اس سطح پر آ گئی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں یہ کام ختم کر کے خود کو سرینڈر کر دوں۔ مجھ پر مقدمہ چلایا جائے، میں نے جو جرائم کیے ہیں ان کی مجھے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

یہ کیا تھا؟ کیا کوئی کھیل رہا ہے؟ یا مذاق کر رہا ہے؟ کیا واقعی ایسا کچھ ہوا بھی ہے؟ یہ تمام سوالات خاور نعیم ہاشمی کے دماغ میں اٹھے۔

اس خط میں جاوید اقبال بہت تفصیل کے ساتھ تمام تر details بیان کیں، مثلاً پہلا قتل، کس تاریخ کو، کس کا کیا، اس کا تعلق کہاں سے تھا، اسے کیسے مارا گیا، اور اس کی لاش کس طرح تلف کی گئی؟ سب کچھ!

لیکن وہ یہ ساری تفصیلات صحافیوں کو کیوں بھیج رہا ہے؟ اقبالِ جرم ہی کرنا ہے، اپنے کرتوتوں کی سزا ہی پانی ہے تو پولیس سے کانٹیکٹ کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب بھی اسی خط میں موجود تھا۔ خاور نعیم ہاشمی بتاتے ہیں:

اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں پولیس کے سامنے یا کسی اور ایجنسی کے سامنے اس لیے سرینڈر نہیں کر رہا، نہ ان کو گرفتاری دے رہا ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہ جب میں نے گرفتاری دی تو وہ لوگ مجھے انٹیروگیٹ کرنے کے بجائے، مجھے عدالت کے کٹہرے تک پہنچانے کے بجائے، جعلی پولیس مقابلے میں مار دیں گے۔ اس لیے میں آپ کے پاس آ کر گرفتاری دینا چاہتا ہوں تاکہ لوگوں کو بھی اور آپ کو بھی پتہ چلے۔ آپ کی گواہی رہے کہ میں نے یہ جرائم کیے، میں نے ان جرائم کا اعتراف کیا اور اعتراف جرم کے بعد میں نے خود کو قانون کے حوالے کیا۔

اور پھر تین دسمبر کو جنگ اخبار میں خبر چھپ گئی۔ بھونچال آ گیا!

اس زلزلے کے آفٹر شاکس دُور دُور تک محسوس کیے گئے۔ جاوید اقبال کی خبریں تو سات سمندر پار تک جا پہنچیں۔ صرف ایک دن میں ہی اُس کا نام دنیا کے ایک سے دوسرے کونے تک پہنچ چکا تھا۔ شاید وہ چاہتا بھی یہی تھا۔ البتہ یہ جاوید اقبال کا پہلا خط نہیں تھا، اس سے پہلے اس سے پہلے وہ ایک خط پولیس کو بھی لکھ چکا تھا۔ لیکن اتنے خطرناک دعووں کے باوجود ہماری پولیس نے اس کیس میں کتنی سنجیدگی دکھائی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے جاوید اقبال کو نفسیاتی سمجھ کر چھوڑ دیا۔

تفتیشی افسر، سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز خان اس بارے میں بتاتے ہیں:

ہمیں پتہ چلا کہ جاوید اقبال نے ایک خط ڈی آئی جی صاحب لاہور رینج کو بھیجا کہ میں نے سو بچوں کو قتل کیا ہے اور سب کو مار کر میں نے محلول بنا کر دریا میں پھینک دیا ہے۔ ڈی آئی جی صاحب نے پھر ایس پی سی آئی اے کو بھیجا کہ اس کی انکوائری کریں اور دیکھیں یہ کیا ہے؟ ایس پی سی آئی اے نے آگے ڈی ایس پی کے نام مارک کی، جو اس علاقے کا تھا۔ اس نے جب خط کو لیا اور اس ایڈریس پر راوی روڈ پہنچا تو وہاں پر اس کو خود جاوید اقبال خود مل گیا۔

اس کو ادھر سی آئی اے قلعہ گجر سنگھ لے آئے، وہاں پر سرسری سی تفتیش کی اور ڈکلیئر کر دیا کہ یہ تو کوئی نفسیاتی کیس ہے۔ کوئی ایسا نہیں کر سکتا کہ 100 بچوں کو قتل کر کے ان کو محلول کو بنا کر پھینک دے اور ضائع کر دے۔ یہ اسٹوری ہمارے دل کو نہیں لگ رہی۔ چنانچہ اس کو تھوڑے دن رکھ کر چھوڑ دیا۔

جب وہ گھر گیا تو اس نے سوچا کہ میں نے تو پلان کیا تھا کہ یہ سو بچوں کا قتل جب میڈیا پر آئے گا یا پولیس کے پاس آئے گا تو دنیا میں میرا نام آئے گا کہ یہ سیریل کلر ہے اس نے سو بچے قتل کیے ہیں۔ میرا مقصد تو پورا ہی نہیں ہوا۔ تو اس نے پھر ایک اور لیٹر بنا کر، جس میں تصویریں بھی شامل تھیں سو بچوں کی، ان کے پتے وغیرہ لکھے ہوئے تھے، اس نے جنگ اخبار کے ایڈیٹر کو یہ لیٹر بھیج دیا۔

جنگ اخبار کے ایڈیٹر کے پاس جب پہنچا تو اس نے اپنے رپورٹر جمیل چشتی کو دے دیا کہ اس کیس کو دیکھو۔ اس نے اس کو ذرا گہری نظر سے دیکھا اور کہا کہ یہ واقعہ تو ہوا ہے۔ میں اس کے گھر گیا ہوں، وہ تو نہیں ملا لیکن اس کی دیواروں پر تمام بچوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں، جن کو اس نے مارا۔ پھر دوسرا کمرہ تھا، اس میں ڈرم رکھے ہوئے تھے تیزاب کے۔ جب بچے کو مارتا تھا تو اس میں پھینک دیتا تھا۔ وہ محلول صبح کو پھینک دیتا تھا۔

یہ اسٹوری اگلے دن جنگ اخبار کے فرنٹ پیج پر آ گئی۔ جب یہ ہوا تو تو سارے الرٹ ہو گئے، خاص طور پر ہمارا پولیس ڈپارٹمنٹ۔ جس نے پھر پتہ چلایا کہ مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے پھر میری ڈیوٹی لگائی۔ میں بطور ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن تعینات تھا کہ اس کیس کو سارٹ آؤٹ کریں۔ اس کیس میں جن جن افسروں کی ڈی آئی جی صاحب نے ڈیوٹی لگائی تھی، سب کو سسپینڈ کر دیا گیا کہ اتنا بڑا کیس، آپ نے اس کو ایزی لیا؟

جی ہاں! جاوید اقبال کے دعوے کے مطابق اس نے سو بچوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں ہائیڈروکلورک، سلفیورک ایسڈ اور سائنائیڈ کے محلول میں پگھلا دیں۔ لرزہ خیز انکشاف اور اوپر سے آرڈرز کے بعد اب تو پولیس کی اصلی دوڑیں لگیں۔ اُن کا پہلا ہدف تھا: 16 بی راوی روڈ، جاوید اقبال کا گھر جہاں سے تیزاب سے بھرے ڈرم اور کئی بچوں کے کپڑے اور جوتے بھی ملے، اور کچھ دوسری باقیات بھی۔ تفتیشی افسر، سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز خان نے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا:

میں جب موقع پر گیا اور دیکھا کہ جوتوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، کپڑوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ جن بچوں کا قتل کرتا تھا، وہ ان کے کپڑے اور جوتے رکھ دیتا تھا اور انہیں نئے پہنا دیتا تھا۔ پھر ان بچوں کی فوٹو گرافس لگی ہوئی تھیں اور ایک بک ملی جس میں تمام بچوں کے پتے لکھے ہوئے تھے۔ جس کا قتل کرتا تھا، اس کا نام، پتہ مکمل لکھتا تھا۔

اس کے بعد میں نے رپورٹ اپنے افسران کو دی کہ مجھے وہاں سے یہ ملا ہے۔ واقعی یہ بندہ ہے، یہ وہاں سے غائب تھا۔ بنیادی طور پر یہ جو بچے تھے، یہ دور دراز علاقوں سے آتے ہیں۔ وہ بچے اس کے ہتھے چڑھے۔ وہ لُنڈا بازار سے کافی سارے کپڑے بچوں کے لیتا، جوتے لیتا اور اپنے گھر پر رکھ دیتا۔ پھر جس بچے کو لاتا، پہلے اس کے کپڑے اتار دیتا اور اس کو وہ نئے لُنڈے والے کپڑے پہنا دیتا۔ ان کو کھانا وغیرہ دیتا۔

پولیس تفتیش کے مطابق جاوید اقبال بچوں کو اغوا کرتا تھا، اور پھر انہیں بھیانک طریقے سے قتل کرتا۔ تفتیشی افسر نے اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے بتایا:

اس نے ایک ڈوری بنائی تھی، سنگلی، دونوں کو کلپ لگائی۔ جب بچہ بیٹھتا، تو یہ ایسے اس کے گلے میں ڈالتا۔ جب گلے میں فٹ ہو جاتی تو ٹیک لگا کر اسے کھینچ دیتا۔ دو تین منٹ میں بچہ مر جاتا۔ جب وہ مر جاتا تو اسے اٹھاتا، ساتھ ہی بغل میں ایک کمرہ تھا جس میں ایک بڑا ڈرم رکھا ہوا تھا، جس میں اس نے تیزاب ڈالا ہوا تھا۔ اس میں لاش ڈال دیتا اور اوپر سے کلپ سے بند کر دیتا۔

صبح تک بجے کی لاش تیزاب میں گھل جاتی تھی۔ جب یہ محلول بن جاتا تو اسے پھینکنا بھی ہوتا تھا۔ اس نے ایک ریڑھی کا انتظام کیا، اس پر ڈرم رکھ کر اولڈ ریور میں اسے انڈیل دیتا۔

یہی اس کا معمول تھا۔ جب سو بچے پورے ہو گئے تو اس نے پھر سلسلہ ختم کر دیا۔ قتل ہونے والے دو بچے قصور کے تھے، ان کے وارث آئے تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاؤں میں ہم نے کڑے پہنائے ہوئے تھے۔ وہ کڑے ہمیں ایک ڈرم میں سے ملے تھے، جب ہم evidence جمع کر رہے تھے۔ ہم نے جب انہیں دکھائے تو انہوں نے کہا کہ یہی ہمارے بچوں کے ہیں۔ فوٹو گراف بھی تھے، وہ بھی پہچانے، کپڑے بھی پہچانے، پھر کڑوں سے یقین ہو گیا کہ بچوں کے ساتھ اسی نے کچھ کیا ہے۔

لیکن وہ یہ سب کیوں کرتا تھا؟ اس کے لیے ہمیں جاوید اقبال کی history جاننا پڑے گی۔

جاوید اقبال کا تعارف

جاوید اقبال 1961 میں لاہور میں پیدا ہوا۔ والد میاں محمد علی ایک کامیاب کاروباری تھے اور والدہ زہرہ پروین ایک گھریلو خاتون تھیں۔ ان کے ہاں آٹھ بچے پیدا ہوئے، جن میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں، جاوید اقبال ان میں چھٹے نمبر پر تھا۔ وہ پڑھنے لکھنے میں تیز تھا، صحافی بننا چاہتا تھا اور ماں باپ کا بہت لاڈلا بھی تھا لیکن خود بتاتا ہے کہ وہ اپنی کالج تعلیم مکمل نہیں کر پایا کیونکہ ایک سیاسی مظاہرے کے دوران پولیس نے اسے پکڑ لیا تھا۔ مارپیٹ کی وجہ سے وہ بری طرح زخمی ہوا، ہسپتال داخل ہوا اور صحت یاب ہونے میں بہت وقت لگ گیا۔ اس لیے وہ کالج چھوڑ دیا اور بزنس میں آ گیا۔ اُس نے ایک شادی بھی کی، لیکن درحقیقت وہ ہم جنس پرست تھا، اس کا میلان کم عمر لڑکوں کی طرف تھا، اس لیے شادی نہیں چل پائی۔

جاوید اقبال پر زیادتی کا الزام

1990 میں اس پر کسی لڑکے سے زیادتی کا الزام بھی لگا۔ معاملہ پولیس تک گیا، پولیس نے والد اور بڑے بھائی بھی گرفتار کیا۔ پورے خاندان کو بہت شرمندگی اٹھانا پڑی۔ جاوید اقبال، چھ مہینے جیل میں رہا۔ گھر والوں نے کورٹ کچہریوں کے چکر کاٹ کاٹ کر بالآخر اس کی ضمانت کروائی۔

ماں باپ سادہ لوح تھے، جاوید کی کہانیوں پر یقین کر لیا کہ اسے کسی نے سازش کر کے پھنسایا۔ بیٹے کو غلط کاموں سے روکنے کے لیے انہوں نے اس کی دوبارہ شادی کروائی، یہ بھی چھ مہینوں سے زیادہ نہیں چلی۔ ان حالات میں والد بہت دل برداشتہ ہو گئے اور ان کا انتقال ہو گیا۔

پھر وراثت کے جھگڑے، نئی مشکلات، نئے مسائل، بالآخر خاندان نے جاوید اقبال کو اُس کا حصہ دے کر الگ کر دیا۔ اب وہ مکمل طور پر آزاد تھا۔ اور پھر 1997 میں اُس پر زیادتی کا ایک اور کیس بنا۔ اِس بار اُس نے بڑی مشکل سے اپنی جان چھڑائی اور اگلے سال وہ واقعہ پیش آیا، جس میں اُس کی زندگی بدل دی۔

تفتیشی افسر، سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز خان نے ایک واقعے کے بارے میں بتایا:

ایک دن، اس نے دو بچے لیے، مالش کرنے والے جو داتا دربار کے باہر یا ریلوے اسٹیشن پر مل جاتے ہیں، ان کو لے آیا کہ میں نے مالش کروانی ہے۔ میرے ساتھ چلو۔ ان کو اپنے ساتھ گھر لے گیا رات کو اس نے مالش کروائی اور اس کے بعد ان کے ساتھ بدفعلی کی۔ اور پھر سو گیا۔

جب وہ سو گیا تو بچوں نے کہا کہ یہ تو ہمیں کام کے لیے لایا تھا، اس نے یہ ہمارے ساتھ کیا کر دیا ہے؟ وہ شور ضرور مچاتے لیکن اس کے پاس گن تھی۔ اس نے گن پوائنٹ پر ان کے ساتھ بدفعلی کی۔ مجبوری میں انہوں نے ایسا کرنے دیا اور جب وہ سو گیا تو انہوں نے پروگرام بنایا۔ بندوق اٹھائی اور اس کے سر پر ماری۔ بہت مارا۔ سر کھول دیا اس کا۔ اس کے بعد یہ بے ہوش ہو گیا۔ اس کے علاج میں دو ڈھائی مہینے لگ گئے، لیکن یہ unbalanced ہو گیا۔

والدہ پہلے ساتھ رہیں، پھر وہ فوت ہو گئیں۔ یہ کہتا ہے میرے ذہن میں آیا کہ یہ دو بچے جو تھے، انہوں نے میری یہ حالت کی، میری ماں اس غم میں مر گئی۔ تو میں ایسے سو بچوں کو قتل کروں گا، اپنی ماں کا بدلہ لینے کے لیے۔

جاوید اقبال قاتل کیسے بنا؟

جاوید اقبال کو تین ہفتے بعد ہوش آیا، 8 اکتوبر 1998 کو آیا، وہ خود اپنی ڈائری میں لکھتا ہے: ’’میں نے اپنی ماں کو روتے ہوئے اور میری صحت کے لیے قربانیاں دیتے ہوئے دیکھا۔ لیکن میری صحت بحال نہیں ہو سکی۔ میں کام نہیں کر سکتا، میں ایک زندہ لاش بن گیا۔ میری ماں اتنی متاثر ہوئی کہ اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ مر گئی۔ اس کی موت کے بعد میں نے دوسری ماؤں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور انہیں بھی ویسے صدمہ دینے کا تہیہ کیا جو میری ماں نے اٹھایا۔‘‘

اب جاوید اقبال ایک monster بن چکا تھا، اگلے چند مہینوں کے دوران اس نے وہ کچھ کیا، جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ دسمبر 1999 میں جنگ اخبار میں چھپنے والی خبر سے جاوید اقبال کے سیاہ کارناموں کا انکشاف ہوا۔ پولیس اس کی تلاش میں دیوانہ وار پھر رہی ہے، پورا شہر بلکہ پورا ملک ہی چھان مارا۔ تب ایک اور واقعہ پیش آتا ہے، ایسا جس نے سب کی توجہ جاوید اقبال سے ہٹا دی۔

24 دسمبر 1999 کو انڈین ایئر لائن کی ایک پرواز کٹھمنڈو ایئرپورٹ سے اڑان بھرتی ہے اور کچھ ہی دیر بعد ہائی جیک کر لی جاتی ہے۔ ہائی جیکرز اسے لاہور لے آتے ہیں۔ اُسی شہر لاہور میں جہاں جاوید اقبال کی دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ ماؤں نے اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکالنا چھوڑ دیا تھا، اسکول بھیجنا بند کر دیا تھا۔

شہر پر پہلے ہی وحشت طاری تھی، اب ایک ہائی جیکڈ جہاز کی مصیبت بھی آن پڑی۔ یہ بد قسمت جہاز بعد میں افغان شہر قندھار لے جایا گیا۔ ابھی اِن 186 مسافروں کی قسمت کا فیصلہ ہی نہیں ہوا تھا کہ لاہور میں جاوید اقبال کی کہانی میں ایک نیا موڑ آ گیا۔ وہ ایک مرتبہ پھر talk of the town بن گیا۔

اسحاق بلّا کون تھا؟

یہ ‏30 دسمبر 1999 کا دن تھا۔ جاوید اقبال اچانک روزنامہ جنگ کے دفتر پہنچ گیا۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیریل کلر اپنے کرتوتوں سے خود پردہ اٹھا رہا تھا۔ پولیس کی بھاری نفری نے دفتر کو گھیر لیا اور کچھ دیر بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔ ملک بھر میں کہرام برپا تھا۔ جاوید اقبال کی ڈائری کے انکشافات اتنے بھیانک تھے کہ اُن کی تفصیل بیان کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ لیکن اس کی گرفتاری سے پہلے بھی ایک گرفتاری عمل میں آئی تھی۔

یہ جاوید اقبال کا ایک دوست اسحاق بلّا تھا۔ اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے گئے اور اس کے نہ ملنے پر باپ کو پکڑ لیا گیا۔ چھ دسمبر کو اسحاق بلّا کی ماں اسے خود تھانے لائی اور پولیس کے حوالے کیا۔ لیکن دو دن بعد، آٹھ دسمبر کو پتہ چلا کہ اسحاق بلّا نے تھانے کی دوسری منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔

اسحاق پولیس کسٹڈی میں مارا گیا۔ اس خبر کو ماننے والا کوئی نہیں تھا، نہ اسحاق کے گھر والے اور نہ ہی صحافی۔ ڈی ایس پی سمیت تین پولیس اہلکار معطل ہو گئے اور معاملہ بہت ہی گرم ہو گیا۔ پورا ملک سخت ٹینشن میں تھا، پولیس بھی بلکہ وہ جج بھی جس کے ذمے اب یہ کیس تھا۔ جج اللہ بخش رانجھا نے اس بارے میں بتایا:

ایک طرف گواہ ہوتے ہیں، ایک طرف ملزم۔ بچوں کی مائیں تو چاہتی تھیں کہ اس کو پکڑ کر نوچ ڈالیں۔ خصوصاً جب انہیں پتہ چلا کہ مرڈر بھی اس نے کیے ہیں اور ہمارے بچوں کی لاش بھی اس نے ضائع کر دی ہے۔ مائیں ماتم کرتی تھیں۔ اللہ کے بعد میں جانتا ہوں کہ اس ماحول میں کس طرح سے گواہی لکھی جاتی تھی۔ یہ میں جانتا ہوں کہ وہ کیا ماحول تھا۔ کمرۂ عدالت تھا یا کیا تھا۔ 72 سے 75 مائیں، ورثا پیش ہوئے، ان کے بیانات لکھنا، کیا سمجھتے ہیں آپ؟ ایک مرڈر کیس میں تو ایک آدھ وارث ہوتا ہے، اس میں کتنے وارث تھے۔

جاوید اقبال گرفتار ہوا

اب جاوید اقبال قانون کی تحویل میں تھا۔ اس نے عدالت میں کئی بار بیانات بدلے۔ دو مہینے تک اس کیس کی کارروائی چلتی رہی۔ اس کے دوران جاوید اقبال پولیس کے کردار پر سوال اٹھاتا رہتا۔ وہ اکیلا نہیں تھا، عدالت کے جج اللہ بخش رانجھا پولیس کی تحقیقات سے مطمئن نہیں۔ ان کے مطابق پولیس نے اس کیس کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ وہ خود بتاتے ہیں:

پولیس والے اُس کے دوست بھی تھے۔ اُن سب انسپکٹرز کے جاوید نے نام تک لیے۔ ایک بات تو یقینی ہے کہ پولیس اس کی سرگرمیوں سے واقف تھی۔ ان کو ویسے بھی پتہ ہوتا ہے ساری مجرمانہ سرگرمیوں کا۔ کسی محلے میں کسی گاؤں میں کوئی ان سوشل ایکٹیوٹی مستقل نہیں چل سکتی، پولیس کی مہربانی کے بغیر۔ پولیس والے تو اس سے گھبراتے تھے۔

اور جو اس کا مسئلہ تھا، اس مسئلے پر نہ انہوں نے تفتیش کی۔ نہ وہ کر سکتے ہیں۔ میری اس بات کو زور سے پیش کرنا، توجہ دینا، ’’نہ وہ کر سکتے ہیں‘‘۔ صرف کوئی واقعہ ہو جائے تو پولیس شروع ہوجاتی ہے، ٹی وی میڈیا میں۔ اس کا یہ پستول فلاں جگہ سے آیا تھا، یہ ہو گیا، وہ ہو گیا۔ لیکن آخر میں یہ کچھ کر نہیں سکتے۔ ثابت نہیں کر سکتے۔

یہ فوجداری مقدمات میں جو فالٹ ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اور بھی وجوہات ہیں، صرف یہی نہیں ہے لیکن سب سے بڑی وجہ ہے کہ یہ پولیس والے کام نہیں کر سکتے۔ ان کی یہ مہارت نہیں ہے، ان کی ایکسپرٹیز کچھ اور ہی ہیں۔

رفتار سے گفتگو میں جج اللہ بخش رانجھا نے ایک ایسا انکشاف بھی کیا، جس نے اس کیس کو بالکل ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جاوید اقبال ’’نامرد‘‘ تھا۔

جب اس کو زخم پہنچائے گئے تو انسان کا ایک نروس سسٹم ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک نظام بنایا ہے۔ وہ impotent ہو گیا۔ وہ ایک چیز کا رسیا اور عادی تھا، ادھر سے اس کی ماں مر گئی تو وہ بدلے پر اتر آیا۔ جنرل ہسپتال میں داخلے کے دنوں میں وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہو گیا تھا۔ اس کے کریکٹر کی وجہ سے اس کے گھر والے بھی نہیں ملتے تھے۔ صرف ایک ماں ہی تھی جو اس کی خبر لیتی تھی۔ ماں کے اور جذبات ہوتے ہیں۔ بہرحال، ایک دن اس کی ماں مر گئی۔ جب وہ نکلا یا ہسپتال میں داخلے کے دوران ہی، وہ یہ بات کہتا تھا کہ میری ایک ماں کو رلایا ہے میں سو ماؤں کو رلاؤں گا۔

جاوید اقبال کی ڈائری کے مطابق اس نے پہلا قتل 20 جون 1999 کو کیا۔ یہ 14 سالہ لڑکا یاسر تھا، جس کا تعلق حافظ آباد سے تھا۔ پھر 26 جون کو دوسرا قتل کیا گیا اور یہ سلسلہ 13 نومبر کو 100ویں اور آخری قتل تک چلتا رہا۔ آخری بد نصیب بچہ 16 سال کا یاسر تھا، جس کا تعلق پشاور سے تھا۔

جواب طلب سوالات

یہ سب معلومات جاوید اقبال کے ذریعے ملیں اور اُنہی کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا، لیکن یہ بات کبھی نہیں بتائی گئی کہ زخمی ہونے کے بعد جاوید اقبال impotent ہو چکا تھا تو بچوں سے جنسی زیادتی کیسے ہوئی؟

پھر اس نے کئی بار بیان بدلا بھی۔ ایک بار یہ کہا کہ میں تو معذور تھا، میری نظر کمزور تھی، میں بغیر سپورٹ کے چل نہیں سکتا تھا۔ میرے دوست اس پورے منصوبے میں اس کے ساتھ تھے۔ وہ پیسہ بنانے اور مزے لینے کے لیے یہ سب کرتے تھے یعنی اس نے تمام تر الزام دوستوں پر ڈال دیا۔

یہی نہیں، اس نے اپنی ڈائری میں اپنے خاندان پر بھی وہ الزامات لگائے کہ ان کے لیے جینا حرام ہو گیا۔ لیکن یہ بات تو طے شدہ ہے کہ جاوید اقبال میں کم عمر لڑکوں سے زیادتی کرنے کا رجحان پایا جاتا تھا اور اس کے گواہ وہ دو کیسز ہیں جو اس پر 90 اور 97 میں بنے۔

100 بار سزائے موت کا فیصلہ

بہرحال، عدالت نے فیصلہ کر دیا۔ جو فیصلہ سنایا گیا، اُس کے بعد کمرۂ عدالت میں موت کی سی خاموشی چھا گئی۔ جج پسینے سے شرابور تھا، شاید اس لیے کہ وہ بھی جذبات کی رو میں بہہ گیا اور وہ حد پار کر لی، جو نہیں کرنی چاہیے تھی۔

عدالت میں موجود لوگ بھی غم اور غصے کی کیفیت میں تھے۔ لیکن جاوید اقبال بالکل پُر سکون تھا، اس کے چہرے پر کوئی تاثر کوئی احساس نہیں تھا، چہرہ ویسا ہی سپاٹ، جیسے پہلے تھا۔ اس کے قدموں میں بیڑیاں پڑی تھیں اور ہاتھ میں تسبیح تھی۔

وہ سزا کیا تھی؟ جج اللہ بخش رانجھا نے جاوید اقبال کو 100 بار سزائے موت دی اور وہ یہیں نہیں رکے بلکہ اپنے فیصلے میں مزید لکھا:

یہ انسان کی صورت میں شیطان ہے۔ یہ ایک درندہ ہے اور اسے انسان سمجھنا انسانیت کی توہین ہے۔ استغاثہ نے ثابت کیا اور میں مکمل طور پر قائل ہو گیا ہوں کہ ملزم نے 100 بچوں کا قتل کیا ہے اور ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے ان ڈرموں میں ڈالے جو ملزم جاوید اقبال کے گھر سے برآمد ہوئے۔ اسے اپنے آلۂ قتل سے، اُسی آہنی زنجیر سے پھانسی دی جائے، مقتول بچوں کے وارثوں کے سامنے اور پھر اس کی لاش کے ٹکڑے کیے جائیں جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ اس نے مقتولین کے کیے۔ اس کے لاش کے ٹکڑوں کو پھر اسی محلول میں ڈالا جائے، جس میں یہ قتل ہونے والے بچوں کی لاشیں ڈالتا تھا۔ اس سزا پر عمل درآمد ایک عوامی مقام پر ہونا چاہیے، ترجیحاً مینارِ پاکستان پر تاکہ دنیا کے لیے عبرت ہو۔

جج اللہ بخش رانجھا اپنے فیصلے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ الفاظ یہی تھے کہ میں آپ کو 302 اے میں، بطور قصاص، سزائے موت کا حکم سناتا ہوں۔ جس طرح تم نے بچوں کے ساتھ کیا ہے، وہی سلوک کیا جائے اور گورنمنٹ سے گزارش ہے کہ اس کو مینار پاکستان پر سزا دی جائے تاکہ لوگوں کے لیے ایک مثال رہے۔ جس چیز کو honorable سپیریئر کورٹس نے ایگری نہیں کیا، وہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں ماننا چاہیے یہ غلطی ہے لیکن روزانہ کے کیس ہیں، نیچے سے سزا ہوتی ہے، اوپر سے بری ہو جاتے ہیں۔

اس فیصلے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت کیسی فضا بنی ہوئی تھی، اتنی خطرناک کہ ایک جج بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا۔

عدالت نے جو فیصلہ دیا وہ جاوید اقبال کی ڈائریز، بچوں کی تصویروں، کپڑوں، جوتوں، جنہیں اُن بچوں کے وارثوں نے بھی پہچانا اور جاوید اقبال کے اقبالی بیان کی بنیاد پر دیا، جو اس نے صحافیوں کو دیا تھا۔

جاوید اقبال کی ڈائری: حقیقت یا فسانہ؟

لیکن جاوید اقبال کا نفسیاتی مطالعہ کرنے کی ضرورت تھی، تبھی پتہ چلتا کہ اس کی ڈائریز میں جو کچھ لکھا ہے، وہ حقیقت بھی تھا یا سب کہانیاں تھیں؟

سچ یہ ہے کہ جاوید اقبال دراصل کئی نفسیاتی امراض کا شکار تھا۔ زندگی بھر پیش آنے والے مختلف واقعات نے اس کی ذہن سازی کی تھی۔ مثلاً وہ امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا، ماں باپ کا لاڈلا بھی تھا۔ اسکول میں اچھا تھا لیکن ایک استاد کی مار پیٹ کی وجہ سے ڈپریشن میں رہا۔ پھر کم عمری میں ہی کھلی آزادی بھی مل گئی، وہ اپنا کاروبار خود چلانے لگا۔ پھر دو شادیاں کیں، دونوں بری طرح ناکام ہوئیں۔ پھر دو مرتبہ جیل بھی گیا۔ پہلے باپ کی موت کا صدمہ سہا پھر وہ حملہ برداشت کیا، جس نے اسے معذور بنا دیا اور آخر میں ماں کی موت۔ ان سب واقعات اور اس کے اپنے نفسیاتی مسائل، انہوں نے مل کر ایسا ملغوبہ بنایا جو آج ہمیں پاکستان کی تاریخ کے سب سے خطرناک قاتل کی صورت میں نظر آتا ہے۔

اس پورے معاملے میں بہت غفلت کی گئی اور جو کسر رہ گئی وہ پولیس نے پوری کر دی، جس نے اس معاملے کو بری طرح بگاڑا، اسحاق بلّا ایک اہم گواہ تھا، اس کے مرنے کے بعد تو جاوید اقبال کا کیس بُری طرح خراب ہوا۔ اس بارے میں کچھ باتیں جج نے اپنے فیصلے میں بھی لکھی تھیں اور کچھ آج بھی کہتے ہیں:

پولیس کو ہر بات کا پتہ ہوتا ہے، انہوں نے جاوید اقبال کا بیان کرانا تھا، motive بیان کرانا تھا۔ پھر اس کا نفسیاتی ٹیسٹ کروانا تھا کہ واقعی اس انجری کے بعد اس کو یہ معذوری آ گئی ہے، یہ مسئلہ آ گیا ہے۔ اور اس وجہ سے یہ بندہ بدلے پر اتر آیا ہے۔ یہ انہوں نے تیار کر کے دینا تھا۔

عدالت میں تو وہ چیز آنی ہوتی ہے جو پراسیکیوشن تفتیش کر کے بتائے۔ اس سے ہٹ کر تو ہم نہیں جا سکتے۔ پولیس والوں کا کام ہے مکر جانا، جھوٹ بولنا، بلاوجہ اسٹوری بنانا۔ یہ ان کے لیے ایک معمولی بات ہے۔

یہ سب کچھ حقیقت تھا، فکشن تھا، یا کچھ اور تھا؟

جاوید اقبال کا شوق

ہمیں اس پورے معاملے میں جو ایک بات سمجھ آئی، وہ یہ کہ جاوید اقبال کو مشہور ہونے کا بہت شوق تھا، وہ کہانیاں گھڑنے میں بھی استاد تھا۔ گرفتاری کے بعد جب تحقیقات ہوئیں تو اس نے اس نے اپنے دوستوں بلکہ بھائیوں اور پولیس افسران کو بھی اپنا شریک جرم بتایا۔ تفتیشی افسر اس بارے میں بتاتے ہیں:

اس سے جب انٹیروگیشن ہوئی تو اپنے بھائیوں کا نام دیا کہ یہ بھی میرے ساتھ ہیں۔ جو دوست ہیں، جن سے اس نے پیسہ مانگا اور انہوں نے نہیں دیے، ان کے نام بھی لکھوا دیے۔ پندرہ، بیس بندے اس نے ایسے لکھوائے کہ یہ بھی میرے ساتھ ہیں۔ تو ان میں سے ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ انٹیروگیشن ہوئی اور بعد میں ثابت ہوا کہ یہ سارا غلط ہے۔

جی ہاں! جاوید اقبال کے خاندان کے کسی فرد پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تو اس نے اپنے گھر والوں کو کیوں پھنسایا؟ ان کے خاندان کے ایک فرد اویس کہتے ہیں :

پیسہ بہت تھا ان کے پاس، بلاشبہ۔ اپنے دادا کی بھی پراپرٹی تھی، وہ بھی فروخت کی۔ پیسہ بہت تھا لیکن اس کو کسی کاروبار میں انوسٹ کرتے، پیسے سے پیسہ بنتا، انہوں نے صرف خرچ کرنے پر زور دیا کہ جیسے یہ کبھی ختم ہی نہیں ہونا۔ تو آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ پیسہ ختم ہو ہی جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ جب پیسہ بالکل ختم ہوا ہے تو اس کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ آ کر ادھر ہی، انہوں نے بہن بھائیوں کو ریکوئسٹ کی کہ مجھے تھوڑے تھوڑے کر کے چھ، چھ سات، سات لاکھ، جتنے بھی ہو سکیں، مجھے کر کے دو۔ یہ چالیس، پینتالیس لاکھ ہوتا اُس دور کا۔ اکٹھے سارے کر بھی دیتے، آٹھ نو بہن بھائی ہیں۔ لیکن انہوں نے پھر یہ فیصلہ لیا کہ اگر آج اس کو پیسے دے دیں گے تو آگے پھر چھ، چھ، سات، سات لاکھ روپے پھر ریڈی رکھو، کیونکہ اس نے جس طرح پہلا پیسہ بچایا، یہ بھی ضائع کر دے گا۔

انہوں نے پھر آپس میں یہی مشورہ کیا اور بہتر سمجھا کہ اسے انکار کرو کہ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اس کے بعد اس نے جو بھی ڈائری بنائی، سارے نام لکھے، سو بچوں کے، گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کے، کیونکہ اس کا جو دماغ تھا بالکل ہٹ کر تھا۔ اس کے شوق بھی ہٹ کر تھے، اس کا دماغ الگ تھا۔ وہ ڈائجسٹ میں لکھتا بھی تھا۔ تو اس نے اس طرح کی ایک کہانی بنائی، جس میں سو بھاگے ہوئے بچوں کے پرانے کپڑے لے لیے، نئے کپڑے لیے، پرانے ان سے شوز لے لیے، نئے دلا دیے، اس کے بدلے میں ان کی ایک ایک تصویر لے لی۔ یوں سو تصویریں اکٹھی کی ہیں، سو کپڑے اکٹھے کیے، سو جوتے اکٹھے کیے اور ایک مقصد بنا لیا کہ فیملی کو پھنسانا ہے۔

میرے اپنے والد پر اس نے 13 قتل ڈالے ہوئے ہیں بچوں کے، 13 قتل۔ اس نے اصل میں پیسہ نہ دینے کا بدلہ لیا۔ اس نے کہا تھا میں اب خاندان کے ایک ایک بچے کو بتاؤں گا کہ میں کون ہوں؟

لیکن ان تمام تر اختلافات کے باوجود خاندان اس بات سے انکاری ہے کہ جاوید اقبال نے 100 بچوں کا قتل کیا۔ اویس نے اس بارے میں کہا:

دنیا جو مرضی سمجھتی رہے، اس نے سو مارے ہیں، اس نے کوئی نہیں مارا۔ سو تو بہت دور کی بات۔ ناخن، بال، یہ چیزیں نہیں گلتی ہیں۔ سو تو بہت دور کی بات، گورنمنٹ ایک بچے کا قتل بھی ثابت نہیں کر سکی۔

سزائے موت پر عمل کیوں نہ ہوا؟

جاوید اقبال کو سزائے موت سنا تو دی گئی، لیکن اس پر عمل درآمد ناممکن تھا۔ بہرحال، اس سزا کے خلاف اپیل کی گئی۔ وکیل صفائی نے دعویٰ کیا کہ جن بچوں کے قتل کا دعویٰ ملزم نے کیا ہے، ان میں سے کچھ تو اپنے گھروں کو واپس بھی آ چکے ہیں لیکن اس سے پہلےکہ کچھ ہوتا، 10 اکتوبر 2001 کو جاوید اقبال اور اس کے ساتھی ساجد احمد کی خود کشی کی خبر سامنے آ جاتی ہے۔ دونوں نے رات تقریباً دو بجے کوٹ لکھپت جیل کی کال کوٹھڑی میں خود کو پھندا لگا کر خود کشی کر لی۔

کال کوٹھڑی کی چھت بہت اونچی ہوتی ہے، اس سے کسی کا بھی خود کو پھندا لگانا اور پھانسی دینا ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے اس خبر پر کون یقین کرتا؟ نہ خاندان مانتا ہے اور نہ ہی صحافی۔ خاور نعیم ہاشمی اس بارے میں بتاتے ہیں:

جاوید اقبال کی خبر آئی کہ اس نے اپنے ساتھی کے ساتھ یا ساتھیوں کے ساتھ جیل میں خود کشی کر لی ہے۔ یہ اس کہانی کا انجام ہے، یہ خود کشی نہیں تھی۔ اس کو جیل میں مار دیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ وتیرہ ہے، پورے پاکستان کی پولیس کا کہ یہ انٹیروگیشن سے بھاگتے ہیں۔ یہ معاملے کی تحقیقات نہیں کرتے۔ پولیس کی انٹیروگیشن پولیس کی ساری جو کارروائی ہوتی ہے، جب عدالت میں جاتی ہے تو وہ اتنی مبہم اور بے معنی ہوتی ہے کہ عدالتوں سے بڑے بڑے مجرم رہا ہو جاتے ہیں۔

لیکن پولیس آج بھی یہی کہتی ہے کہ جاوید اقبال نے خود کشی کی۔ تفتیشی افسر، سابق ڈی ایس پی مسعود عزیز خان کہتے ہیں:

اس نے خود کشی کی ہے وہاں پر، اس نے اور بڑے لڑکے نے۔ وہ اس کے نزدیک تھا، ساتھ ہی انہوں نے پھندا لگایا ہے خود کو۔ اور جیسے وہ کہتے ہیں، میں نے اپنی سروس میں دیکھا ہے کہ ایسا ہوتا بھی ہے: سیمی ہینگنگ۔ جاوید اقبال نے بھی ایسے ہی خود کشی کی۔ جیل کی سلاخوں سے باندھ کر ویسے تو سیدھا کھڑے نہیں ہو سکتے، لیکن آپ ٹانگیں اوپر کر لیں تو خود کشی ہو جائے گی۔ judicial proceedings میں دیکھیں آپ کو ایسی فوٹوگرافس ملیں گی۔

اُس نے جیسی زندگی گزاری تھی، وہ عام موت مر بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے سو قتل کیے یا نہیں؟ اگر سو نہیں کیے تو کتنے کیے؟ یہ بات معنی ہی نہیں رکھتی لیکن کچھ سوالات ایسے ہیں جو آج بھی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔

وہ الجھنیں جو سلجھ نہ سکیں

اتنا بڑا جرم کرنے کے لیے بہت بڑی ایکٹیوٹی درکار ہوگی، یہ سب پولیس اور محلے والوں سب کی نظروں سے اوجھل رہا؟ وہ بھی اتنے لمبے عرصے تک؟ اتنی لاشوں کو تحلیل کرنے کے لیے کتنی بھاری مقدار میں تیزاب درکار ہوگا؟

ماہرین کا اندازہ ہے کہ کہ ایک لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی بیس سے تیس گیلن تیزاب چاہیے، جس تک کسی عام انسان کی رسائی بہت ہی مشکل ہے۔ تو 100 لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے جو دو سے تین ہزار گیلن تیزاب حاصل کیا گیا، اسے لانا، وہ بھی اتنے گنجان آباد علاقے میں؟ پھر استعمال بھی کرنا، یہ سب ناممکنات میں سے ایک لگتا ہے۔ اور ہاں! تیس ہزار گیلن تیزاب کی لاگت اُس زمانے کے چھ لاکھ روپے بنتی ہے۔

تو کہیں یہ جاوید اقبال کے بیمار ذہن کی اختراع تو نہیں تھی؟ اس کی کوئی fantasy تو نہ تھی؟ جاسوسی کہاںیاں پڑھنے کا شوقین جاوید اقبال کہیں اپنی کوئی کہانی تو نہیں گڑھ رہا تھا؟ اویس اس بارے میں کہتے ہیں:

ان کو پبلسٹی چاہیے تھی، جو بچپن سے ان کا مقصد تھا، مشہور ہونا۔ چاہے وہ کسی بھی طریقے سے ہو، چاہے اچھے طریقے سے یا کسی اور طریقے سے۔ اچھائی کے ذریعے اپنا نام بنانے میں وقت لگتا ہے۔ برائی میں تو فوراً کوئی بھی بنا سکتا ہے۔ انہیں جو بھی طریقہ سمجھ آیا، انہوں نے شارٹ کٹ استعمال کیا، خاندان کو پھنسانے کے لیے، انہیں تنگ کرنے کے لیے۔ اتنا مشہور ہو گئے، یہ مقصد بھی پورا ہو گیا، خاندان بھی پھنس چکا، جب انہوں نے اپنا بیان بدلا، اخبار میں بھی چھپا کہ میں نے کوئی نہیں مارا۔ اگر مارا ہے تو اس کا مجھے پروف دو۔ میں نے کسی کو نہیں مارا۔ وہ جب جاتا تھا تو اس کا پروٹوکول اتنا ہوتا تھا، آپ پرانی ویڈیوز دیکھیں، پوری پوری روڈز بلاک کر دی جاتی تھیں۔ پوری عدالت میں صرف اسی کا کیس لگتا تھا، اتنی سیکورٹی، اتنا خرچا ہوتا تھا، وہ سب ختم کرنے کے لیے انہوں نے جاوید اقبال کو سائیڈ پر کر دیا۔ ہم ایک چھوٹا سا پھٹے کا وکیل بھی کر لیتے، فیملی میں کوئی بھی یہ قدم اٹھا لیتا تو آج جاوید صاحب ہمارے ساتھ ہوتے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ خاندان والوں نے وکیل کیوں نہیں کیا؟ تو ان کا جواب تھا:

اس لیے نہیں کیا، کیونکہ اس نے فیملی پر ایسے گندے الزام لگائے کہ اس کی طرف دیکھنے کا کسی کو دل نہیں کیا۔ مرنے کے بعد بھی اس کی ڈیڈ باڈی ہمارے کسی فیملی ممبر نے ریسیو نہیں کی۔ کوئی فاتحہ نہیں، کوئی قل نہیں، آج تک ہمیں نہیں پتہ کہ اس کی قبر کہاں ہے؟ ہم نو، دس محرم پر، عیدوں پر خاندان کے لوگوں کی قبروں پر جاتے ہیں، فاتحہ پڑھتے ہیں لیکن آج تک ہماری فیملی سے کوئی اس کی قبر پر نہیں گیا۔

یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے، اگر جاوید اقبال کی کہانی درست نہیں، اُس نے 100 بچوں کا قتل نہیں کیا تو یہ بچے گئے کہاں؟ جن کی تصویریں، جن کے کپڑے، جوتے اور دیگر نشانیاں سب نے دیکھیں، جن کے فوٹو گراف، ان کے نام، پتے کے ساتھ موجود تھے۔ وہ سب کہاں گئے؟

جاوید اقبال نے کال کوٹھڑی سے لاہور ہائی کورٹ کو ایک درخواست بھیجی تھی کہ اس نے 100 بچوں کو نہیں مارا بلکہ وہ تمام بچے بالکل ٹھیک ہیں اور ایک خفیہ مقام پر محفوظ ہیں۔ وہ جگہ صرف وہ خود جانتا ہے۔ اگر اسے پریس کانفرنس کرنے کی یا معزز عدالت سے بات کرنے کی اجازت دی جائے تو وہ اس مقام کے بارے میں بتائے گا۔ جیل انتظامیہ نہیں چاہتی کہ میں سچ بتاؤں۔

کچھ لوگوں کے خیال میں یہ بچے عرب میں اونٹوں کی دوڑ میں استعمال کرنے کے لیے اغوا ہوئے ہوں گے یا پھر کچھ کے اندازوں کے مطابق اُن کے اعضا مغربی ملکوں کو فروخت کر دیے گئے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے یہ دونوں باتیں ٹھیک نہ ہوں، لیکن جو بات حقیقت ہے وہ یہ کہ ان تمام لاپتہ بچوں میں سے کسی ایک کا کیس بھی ملک کے کسی تھانے میں درج نہیں ہوا تھا۔

یہ کہانی صرف جاوید اقبال کی نہیں، پورے ملک کی کہانی ہے۔ ان سب خاندانوں کی کہانی ہے، جن کے بچے لا پتہ ہوئے۔ ان تمام استادوں کی، جن کے طلبہ اُن کے رویّے کی وجہ سے ڈر کر اسکول نہیں آتے۔ ان تمام پولیس والوں کی، جو گھر سے بھاگے بچوں کے کیسز کی تحقیقات نہیں کرتے۔

اتنا کچھ ہوا، لیکن پھر بھی کچھ نہیں بدلا! حالات آج 25 سال گزر جانے کے بعد بھی تقریباً وہی ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں