اسے سب کچھ ملا۔ مگر کچھ نہ ملا۔ لڑکپن میں عشق کیا، لڑکی چھوڑ گئی۔ لکھنا شروع کیا، باپ نے اخبار بند کر دیا۔ اس کا علم اصلی تھا، مگر ڈگری جعلی تھی۔ نیوز اینکر بن گیا مگر آف ایئر ہو گیا۔ عالم آن لائن مشہور ہو گیا، ویڈیوز لیک ہو گئیں۔ الطاف حسین کے انتہائی قریب ہو گیا، وزیر بن گیا، ایم کیو ایم کو چھوڑ دیا۔ سارا پاکستان سحر و افطار میں اسے دیکھنے لگا، جیو چھوڑ دیا۔ کرنٹ افیئر اینکر بن گیا، پروگرام پر پابندی لگ گئی۔ تحریک انصاف میں گیا مگر انصاف مانگتے مانگتے پارٹی چھوڑ دی۔ اپنا گھر خرید لیا تو بسا بسایا گھر اجڑ گیا۔ دوسری شادی کرلی تو پہلی بیوی چھوڑ گئی۔ تیسری شادی کی تو عزت و آبرو بھی گئی۔ کوئی رشتہ نہ بچا، تنہائی کا سہارا لیا تو سانسیں ساتھ چھوڑ گئیں۔

اس کی عمر بہت کم تھی مگر کام بہت زیادہ۔ اس کی زندگی چھوٹی تھی مگر تنازعات بہت بڑے۔ وہ امیر باپ کا بیٹا تھا مگر بچے کے دودھ کے پیسے بھی نہ تھے۔ اس کے چاہنے والے کروڑوں تھے مگر جنازے کو کاندھا نہ ملا۔

جی ہاں! میں بات کر رہا ہوں، ’’ڈاکٹر عامر لیاقت حسین‘‘ کی۔

وہ آج دنیا میں نہیں مگر رمضان کے چاند کے ساتھ ہی اس کی یاد بھی چمک اٹھتی ہے۔ اچھی یا بری۔ مگر ٹی وی پر تو وہی شان رمضان تھا، اسی سے امان رمضان۔ اور اسی کے رمضان میں بول۔ لیکن آج رفتار کی اس ڈاکیو مینٹری میں۔ میں آپ کی اس عامر لیاقت سے ملاقات کراؤں گا۔ جو ٹی وی چینلز پر برسوں نہیں ہو سکی۔

اب یہ بتائیے کہ پہلے کس سے ملیں گے؟ خون سے غزلیں لکھنے والے عامر سے یا خون کے آنسو رونے والے عامر سے؟ بچے ایڈوپٹ کروا کر زندگیاں بچانے والے عامر سے۔ یا جوانی میں خود کشی کی کوشش کرنے والے عامر سے؟ ہر محفل میلاد کی شان سمجھے جانے والے عامر سے۔ یا نشے میں ڈوب جانے والے عامر سے؟ فلموں گانوں کے شوقین عامر سے یا قرآن و حدیث کا بے انتہا مطالعہ کرنے والے عامر سے؟ ایک موٹر سائیکل خریدنے کو ترسنے والے عامر سے یا موٹر سائیکلیں بانٹنے والے عامر سے؟

اس کا کوئی ایک روپ نہیں تھا۔ شادی بھی ایک نہیں تھی۔ بشریٰ، طوبیٰ اور پھر دانیہ۔ عامر لیاقت کی زندگی میں آنے والی ان تین خواتین کو تو آپ جانتے ہیں۔ مگر اسے نہیں جانتے، جسے عامر لڑکپن میں اپنا دل دے بیٹھے تھے۔

عامر لیاقت کی جوانی

ہال بے تحاشا خوبصورت لڑکیوں سے بھرا ہے۔ لڑکے بھی موجود ہیں مگر آواز صرف ایک لڑکے کی گونج رہی ہے۔ بیس اکیس سال کا گورا چٹا لڑکا۔ ایشیا کا چیمپیئن ڈیبیٹر۔ ڈائس پر کھڑا ایسے چہک کر تقریر کر رہا ہے جیسے پچاس سال کا تجربہ رکھتا ہو۔ وہ بغیر کسی اسکرپٹ کے لفظوں کو ایک لڑی میں پروئے بولے جا رہا ہے۔ سب ٹکٹکی باندھ کر اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کے الفاظ کی طاقت اور منفرد انداز بیاں نے شرکا کے دھیان کو جکڑ رکھا ہے۔

مگر یہ دروازے پر کون آیا۔ کہ ڈائس پر فر فر بولتے لڑکے کی نظر ٹھہرنے لگی۔ لفظوں کو ذہن سے زباں تک آنے میں۔ وقت لگنے لگا۔ محفل میں بیٹھی ساری لڑکیاں اس کی توجہ چاہتی ہیں مگر لڑکا اس لڑکی کی جانب متوجہ ہو رہا ہے جو حجاب میں لپٹی ہے۔ گوری چٹی بھی ہے اور بولنے میں بھی خاصی مہارت رکھتی ہے۔

اس روز، اس لڑکی نے خداداد کالونی کی کچی گلیوں میں بنے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے گھر پر نہیں بلکہ دل پر دستک دی تھی۔ اور دروازہ بھی کھل گیا۔ مگر آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں آپ کو بتا چکا وہ بشریٰ،

طوبی یا دانیہ نہیں۔ بلکہ عامر لیاقت کا لڑکپن کا عشق تھی جس کی ان سے منگنی بھی ہو گئی۔

جیو کے سابق جنرل منیجر محسن درانی بتاتے ہیں:

منگنی ہوئی، پراپر، شاندار۔ یہ ڈیبیٹر میں شاندار آدمی تھا۔ ’’ینگ ڈیبیٹر سوسائٹی‘‘ بنائی، میں سیکریٹری اطلاعات تھا۔ ہمارے ساتھ جنید اقبال تھے۔ ہر کالج کی لڑکی عامر لیاقت کی شیدائی تھی۔ وہاں پچیس تیس لڑکیاں ڈیبیٹر تھیں۔ ان میں وہ بھی شامل تھیں۔ ایک بات سکھائی اس نے ہمیشہ، کبھی دھوکا دے کر کسی لڑکی کو مت پھانسنا ورنہ یہ ’’ہائے‘‘ تمہارا پیچھا کرے گی۔ ایشیا کے چیمپیئن ڈیبیٹر بن چکے تھے یہ میٹرک میں ہی، لوگوں نے متنازع بنا دیا کہ جعلی ٹرافی ہے۔

منگنی کیسے ٹوٹ گئی؟ یہ بعد میں بتاتا ہوں۔ ابھی ایک دلچسپ واقعہ ذہن میں آگیا۔ اس کے لیے عامر بھائی کی لائف کو تھوڑا فارورڈ کرنے پڑے گا۔

یہ 2006 ہے

ایک پتلا دبلا سا بیس بائیس سال کا لڑکا اپنے والد کے ساتھ پولو گراؤنڈ کے قریب سے گزر رہا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر سنائی دینی والی آواز اسے بے چین کر دیتی ہے۔ وہ والد سے رُکنے کی ضد کرتا ہے۔ اور لاؤڈ اسپیکر سے آنے والی آواز کی طرف دوڑ لگا دیتا ہے۔ جانتے ہیں وہ لڑکا کون تھا۔ معروف اینکر وسیم بادامی۔ اور وہ آواز کس کی تھی؟ اس وقت کے مشہور و معروف ٹی وی ہوسٹ، اینکر، نعت خواں، ڈیبیٹر اور وزیر مذہبی امور عامر لیاقت حسین کی۔

جی ہاں! وسیم بادامی دوڑتے ہوئے اسٹیج کی طرف آتے ہیں۔ اور عامر لیاقت کو براہ راست نعت خوانی اور تقریر کرتا دیکھ بڑے خوش ہوتے ہیں۔ اتنا زیادہ کہ واپس آ کر اپنے کئی دوستوں کو بتاتے ہیں کہ ’’جانی آج تیرا بھائی عامر لیاقت کو سامنے سے دیکھ کر آیا ہے‘‘۔ وسیم بادامی انہیں یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

اتنا زندگی سے بھرپور آدمی جہاں جائے وہاں رونق لگا دے، اکیلے راج کرنے والا آدمی، کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا دونوں سیکھ سکتے ہیں آپ اس ایک آدمی سے، ہر وقت ہنستے کھیلتا آدمی، پڑھنے کا شوق الفاظ کا ذخیرہ، یہ سب سیکھ سکتے ہیں آپ عامر لیاقت سے۔

5 جولائی 1971 کو کراچی کے مشہور سیاستدان اور بزنس مین شیخ لیاقت اور کالم نگار سلطانہ محمود کے گھر دوسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی، یعنی عامر لیاقت حسین۔ جو بچپن ہی سے بڑے بھائی عمران لیاقت کے ساتھ محافل میں جایا کرتے۔ نہ صرف پُر جوش میزبانی بلکہ نعت خوانی بھی کیا کرتے۔

گلشن اقبال کے ’’علی علی اسکول‘‘ میں پڑھنے والے عامر لیاقت کلاس ایٹ ہی سے ڈیبیٹ میں چیمپیئن تھے۔ بلکہ ایک وقت ایسا آیا کہ جب عامر لیاقت کے سر غزلیں لکھنے کا جنون سوار ہوا۔ اس حد تک کہ وہ اپنے خون سے غزلیں لکھا کرتے تھے۔ محسن درانی اس بارے میں بتاتے ہیں:

وہ عاشق مزاج تھا۔ ایسا کہ خون سے نظم لکھتا تھا۔ سرنج میں خون ڈال کر نظم لکھتا تھا۔ میں کہتا تھا کہ مجھے دے دیں غزلیں۔ ’’میری آواز سارے زمانے کی صدا‘‘ پہلی غزل تھی اس کی۔ اس نے جس سے عشق کیا وہ خون سے لکھا پھر اس کے لیے۔

کم عمری میں ہی بہت کچھ کرنے والے عامر لیاقت کو ایسا سفر طے کرنا تھا، جس کی کئی منزلیں تھیں۔ ڈیبیٹر عامر لیاقت نے اس دور میں انجمن ختم نبوت بنائی۔ اور دن رات اس میں مصروف رہتے۔

خیر! گھر کا ماحول بڑا سخت تھا۔ والد پیسے وغیرہ نہیں دیا کرتے تھے۔ بلکہ عامر کی اپنے والد سے بات چیت ہی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ والدہ عامر کے لیے کافی نرم گوشہ رکھتی تھیں اور چھپ چھپ کر پیسے بھی دے دیا کرتی۔ کروڑ پتی باپ کے ہوتے ہوئے عامر لیاقت چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو ترستے۔ کئی بار والد سے مار بھی کھاتے۔ اس بارے میں محسن درانی نے بتایا:

میں نے عامر باپ سے لاتوں سے پٹتا دیکھا ہے۔ کچھ ایکسٹرا پیسے مانگ لیے تھے، ضرورت تھی، اس زمانے میں پانچ سو روپے خرچے کے ملتے تھے، اسی میں سب کرتے تھے۔

اب وہ دور شروع ہو رہا تھا۔ جب عامر لیاقت کو پیسے کمانے کا موقع ملتا ہے۔ اور پہلی جاب انہیں ملتی ہے۔ اپنے ہی گھر میں۔ لکھنے کا ہنر عامر لیاقت کے خون میں شامل تھا۔ بھئی والدہ کالم نگارہ تھیں اور والد سیاستدان۔ محسن درانی اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:

شیخ لیاقت نے کہا کہ ندائے ملت کو ایڈوانس کرنا ہے، تم اور بھانجا مل کر کر لو۔ عامر لیاقت اکیلا بیٹھ کر سارا اخبار لکھتے تھے۔ مسائل دیکھ کر ایک دن شیخ لیاقت نے کہا بند کر دو، عامر نے کہا کیوں کریں؟ کہا بس بند کر دو۔ مگر پھر شیخ لیاقت نے سامان لپیٹ کر اخبار بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اور عامر لیاقت پھر پریشان ہوگئے۔ کہ اب کیا کیا جائے۔ ٹیلںٹ پاس تھا، مگر جیب خالی تھی۔ جذبہ تھا مگر جاب نہ تھی۔ پھر انہیں جنگ اخبار میں ملازمت کا ایک اشتہار نظر آتا ہے۔ بس جھٹ سے دوست کا ہاتھ پکڑے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ جنگ یا جیو کا دفتر نہیں۔ وہاں تو انٹری بعد میں ہوگی۔ یہ تو پرچم اخبار کا دفتر ہے۔ اور اس دفتر کی سیڑھیاں چڑھنے کے ساتھ عامر لیاقت۔ ایک نئے خطرے کے قریب ہوتے جا رہے تھے۔ محسن درانی نے بتایا:

عجیب سی بدبو، ایک پیسٹر بیٹھا ہوا، وہاں پرچم میں ایڈیٹر بن گئے وہ، ایسا بن گئے کہ الطاف حسین ڈائریکٹ فون کرتے تھے کہ کون لگا رہا ہے یہ ہیڈ لائن؟ بتایا گیا عامر لیاقت لگاتے ہیں، وہاں سے الطاف حسین سے انٹرکشن ہوا۔ ایک دن کچھ لوگ آئے عامر لیاقت کا پوچھا بتایا کہ نہیں ہے، تو صمدانی صاحب کو مار کر چلے گئے۔ ایک دن یہ دفتر سے نیچے اترے اور گاڑی ڈرائیو کرنے کی کوشش کی تو گاڑی نیچے بیٹھ گئی۔ گاڑی کے چاروں ٹائر کے نٹ بولڈ کھول دیے گئے تھے۔ پھر یہ سنگاپور گئے، وہاں سے لندن گئے، پھر الطاف بھائی کے پاس رہے تھے۔

سیاست میں انٹری

یوں تو 1995 میں عامر لیاقت حسین ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر چکے تھے۔ مگر الطاف حسین سے ملاقات کے بعد والد کی وجہ سے ان کے خون میں شامل سیاست اب جوش مارنے لگی، وہ ایم کیو ایم میں شامل تو ہوگئے مگر 1997 کے الیکشن میں متحدہ سے انہیں ٹکٹ نہیں ملا۔

بہرحال! عامر لیاقت کو سیاست میں انٹری کا پہلا نقصان یہ ہوا۔ کہ ان کی منگنی ٹوٹ گئی۔ محسن درانی نے بتایا کہ چونکہ عامر لندن چلے گئے تو لڑکی کے والد نے اعتراض کیا کہ پتہ نہیں کیا ہوگا، سیاسی بیک گراؤنڈ ہے لڑکے کا، یہاں سے بھاگ گیا، پھر ایسا ہوا کہ وہ منگنی ختم ہوگئی۔

سیاست میں انٹری کی وجہ سے عامر لیاقت کا دوسرا نقصان سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے کیونکہ اگر وہ نقصان نہ ہوتا تو آپ۔ یعنی ان کے فینز کا فائدہ نہیں ہوتا۔ نہیں سمجھے۔ تھوڑی دیر میں سمجھاتا ہوں۔

بہرحال! اب عامر لیاقت نے قومی اخبار جوائن کر لیا تھا۔ تھوڑی تھوڑی سیاست بھی چلتی رہی، خبروں سے یاری بھی اور ڈیبیٹ سے دل لگی بھی۔ عامر لیاقت کی بنائی ہوئی ’’ینگ ڈیبیٹرز سوسائٹی‘‘ میں اب ایک ایسی انٹری ہوتی ہے کہ چیمپیئن ڈیبیٹر کی نظریں الجھی رہ جاتی ہے، دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

عامر کی اس لڑکی سے بات چیت شروع ہوئی۔ انہیں احساس ہوا کہ حجاب میں لپٹی یہ لڑکی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی ہے، خوش اخلاق بھی اور بے انتہا ذہین بھی۔ عامر جھٹ سے والدہ محترمہ کے قدموں میں بیٹھ کر گوش گزار ہوتے ہیں اور لڑکی کا ہاتھ مانگنے کی ضد پکڑ لیتے ہیں۔ محسن درانی نے اس بارے میں کہا:

پھر ایک دن انہوں نے اظہار کیا کہ ان سے شادی کرنی ہے، خالہ خالو کا مزاج تھا کہ جنرل یا بریگیڈیئر کی بیٹی سے شادی ہو، مگر عامر نہیں چاہتے تھے، پھر یہ آ گئیں جو پہلی وائف تھیں، خالہ گئیں ملاقات ہوئیں، رشتہ ہوا شادی ہوئی، ولیمہ ہوا، پھر اسی گھر میں آ گئے، جہاں آخر میں رہتے تھے، گھر میں صرف چار لوگ تھے، پھر ماشاء اللہ پہلی اولاد ہوئی پھر دعا ہوئی۔ احمد جب ہوا تو بھابھی اور خالہ کے مسئلے شروع ہوئے اور بد قسمتی سے انہیں گھر چھوڑنا پڑا، باپ کی سپورٹ نہیں تھی، جوہر میں چلے گئے، کرائے کے گھر میں، مجھے وہ بھی یاد ہے کہ دودھ کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔

جی ہاں! رمضان ٹرانسمیشن میں موٹر سائیکل اور کاریں بانٹنے والا عامر یونہی اس مقام پر نہیں پہنچا تھا۔ ایک طویل جدوجہد تھی جو عامر کو زندگی کے سفر میں ہر چند سال بعد ایک نئی منزل پر پہنچا دیتی۔ اور اب نئی منزل تھی ٹائی سوٹ پہن کر ٹی وی پر خبریں پڑھنا۔ عامر منزل کے قریب تو پہنچے مگر منزل نہیں ملی۔

ہوا کچھ یوں کہ والدہ سلطانہ محمود نہ صرف پیسے بھجوایا کرتی تھیں بلکہ جنگ کے مالک میر شکیل کی اہلیہ سے گزارش کر کے اپنے بیٹے عامر لیاقت کی جنگ میں نوکری بھی کروا دی۔ وہ جنگ کے ریڈیو میں خبریں پڑھا کرتے۔ اور جیو لانچ ہونے والا تھا۔ بس پھر کیا۔ عامر کی قسمت کھلی۔ انہیں جیو پر نیوز اینکر بننے کی آفر ہو گئی۔ ٹریننگ شروع ہوئی۔ باقی اینکرز کے ساتھ عامر بھی پُر جوش تھے اور کارکردگی میں آگے آگے بھی۔ میر شکیل الرحمان عامر لیاقت کی شعلہ بیانی سے بڑے متاثر تھے۔

عامر لیاقت کی ٹریننگ زبردست رہی تھی۔ آن ایئر ہونے سے پہلے تک ٹیسٹ ٹرانسمیشن میں بھی انہوں نے بڑی داد سمیٹی۔ انتظامیہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جیو عامر لیاقت حسین کے چہرے کے ساتھ ہی آن ایئر ہوگا۔ مگر ہوا اس کا بالکل اُلٹ۔ جیو آن ایئر ہوا تو عامر لیاقت حسین اسکرین پر نہیں بلکہ فی میل اینکر ’’ندا سمیر‘‘ تھیں۔

کیوں؟ ایسا کیا ہوا۔ ذرا ذہن پر زور ڈالیے۔ پہلے میں نے آپ سے کہا تھا کہ سیاسی وابستگی کی وجہ سے عامر لیاقت کو ایک اور نقصان پہنچا۔ وہ یہی تھا۔ ایم کیو ایم سے تعلق کی وجہ سے آن ایئر جانے سے بس کچھ ہی دیر پہلے فیصلہ ہوا کہ عامر لیاقت حسین کو نیوز اینکر نہیں بنایا جائے گا۔ محسن درانی نے اس بارے میں بتایا:

انتظامیہ نے انہیں آفر دی کہ آپ نیوز کے لیے فٹ نہیں ہو پا رہے، پھر وہ واپس ریڈیو کا شو کرنے لگے، ناراض تھے کہ محسن دیکھو کہ کیا، میں نیوز اینکر نہیں بن سکا، پھر میر ابراہیم نے ان کو بلایا کہا کہ شیعہ سنی مسائل ختم کریں گے، پروگرام کا شیڈول بنایا، وہاں سے ’’عالم آن لائن‘‘ آیا۔

یہ اپنی نوعیت کا واحد ایسا پروگرام تھا جس میں ٹائی سوٹ میں بیٹھا۔ ایک کلین شیو نوجوان۔ عالم دین سے مسائل پر بات چیت کر رہا ہے۔ آن لائن مسئلے سنے اور ان کے حل پیش کیے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں ناں ’’فرسٹ امپریشن از دا لاسٹ امپریشن‘‘۔ نیوز سے آف ایئر ہونے والا عامر انفو ٹینمنٹ میں پورے آب تاب کے ساتھ نظر آیا۔ عالم آن لائن کے سابق پروڈیوسر علی امام اس بارے میں بتاتے ہیں:

میری بہن بتاتی کہ جیو پر ایک شو شروع ہوا وہ بڑا مزہ کا ہے وہ دیکھنا۔ تو عالم آن لائن کی وجہ سے کیبل لگا۔ میں نے دیکھنا شروع کیا۔ رمضان میں وہ شو سحری کے بعد ریکارڈ ہوتا تھا۔ اس وقت یہ فیصلہ ہوا کہ ریکارڈنگ رات میں ہی کی جائے۔ تو مجھے رات کو تین بجے بلایا گیا، پہلا دن تھا میرا میرے ذہن میں کہ سلیبرٹی ہوسٹ ہے، ایم کیو ایم سے تعلق ہے۔ عدنان اعوان صاحب نے بتایا کہ علی امام ہے، ٹیم میں نیا ہے، ابھی جوائن کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اٹھے گرم جوشی سے ہاتھ پکڑا، مجھے کمفرٹ زون مل گیا۔

نوجوانوں کا یہ عامر بھائی ہر دل عزیز بنتا جا رہا تھا۔ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان عامر بھائی کے فین بن رہے تھے۔ بلکہ عام لوگ ہی نہیں۔ اس وقت پاکستان کا اقتدار سنبھالے جنرل پرویز مشرف بھی عامر لیاقت کو پسند کرنے لگے۔ اس بارے میں وسیم بادامی کہتے ہیں کہ عامر لیاقت آڈینس کو بہت زیادہ انگیج رکھتے تھے، کھلا ڈلا آدمی، رمضان میں اے آر وائے میں کرکٹ چل رہی ہے پھر محفل لگی ہوئی ہے باتیں ہو رہی ہیں۔

علی امام بھی عامر لیاقت کی زندہ دلی کی شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں:

جب پہلا رمضان آیا 2003 کا تو دبئی گئے ٹرانسمیشن کے لیے، وہ آواری ٹاور میں نہیں ٹیم کے ساتھ ٹھہرے، اب بلا لیا گیا کمرے میں افطار کے بعد، نیند کا شدید غلبہ اور وہ کہہ رہے ہیں کہ سحری میں کیا کرنا ہے، کتابیں کھل گئیں، نو دس بج رہے ہیں تو کھانا کھانے بھی ساتھ جا رہے تھے، اب ہمیں تو کچھ پیسے ملتے تھے، ہم نے چھپا کر رکھے ہوئے تھے، جو خود لی وہی ہمیں بھی دلوائی، اور پے منٹ خود کر رہے ہیں، بجٹ کے پیسے ہیں سینیئر پروڈیوسر کے پاس، مگر ڈاکٹر صاحب اپنے خرچے پر کھانا بھی کھلا رہے تھے۔

مگر یہ تو ابھی عروج کی ابتدا تھی۔ آگے بڑھنے سے پہلے تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔

ابھی عامر لیاقت مشہور اینکر نہیں بنے تھے کہ تب انہوں نے خود کشی کی کوشش کی۔ یہ بات صحافی جعفر رضوی نے بی بی سی پر ایک آرٹیکل کی صورت میں شیئر کی۔ عامر لیاقت کے کچھ قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ایک گھریلو جھگڑے کی وجہ سے عامر لیاقت حسین جذباتی ہوگئے۔ اتنے کہ گھر میں رکھی کچھ ادویات زیادہ تعداد میں کھائیں اور گھر سے باہر نکل گئے۔ اندھیری رات میں لمبی سڑک پر کھوئے ہوئے عامر لیاقت پیدل چلے جا رہے تھے۔ چلتے چلتے گر پڑے اور بیہوش ہوگئے۔ اتفاق سے ایک رکشہ ڈرائیور نے انہیں فٹ پاتھ پر پڑا دیکھا تو آغا خان اسپتال پہنچا دیا۔ جہاں ان کا معدہ صاف کرکے دواؤں کے اَثر کو زائل کیا گیا۔

علی امام نے جب یہ واقعہ سنا تو حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے بڑی شدید حیرت ہوئی کہ ایسا بھی کچھ ہوا تھا، کیونکہ میں نے یقین کریں ڈاکٹر صاحب کو ڈپریشن میں تو دیکھا لیکن کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہوں کہ اپنے آپ کو ختم کرلوں گا۔

اس واقعے کے برعکس عامر لیاقت حسین بڑے ہی مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ کیونکہ بیسویں صدی کا سورج عامر لیاقت کے عروج کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ وہ اب ’’ڈاکٹر عامر لیاقت حسین‘‘ بن گئے تھے۔

پاکستان کے ہر گھر میں لیا جانے والا نام۔ کسی کو ان کی نعت خوانی پسند تھی تو کسی کو ٹھہر کر بولنے کا انداز۔ کسی کو ان کی شیریں زبانی پسند تھی تو کسی کو عامر لیاقت کی شعلہ بیانی۔ وہ سولہ سولہ، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے جاگ کر رمضان ٹرانسمیشن کیا کرتے۔ وسیم بادامی کہتے ہیں کہ وہ الگ طرح کا آدمی تھا، ایکسٹرا آرڈینری آدمی تھا، ٹینلٹڈ تھا، وہ ہر لحاظ سے ہر آدمی سے ہٹ کر تھا۔ انہوں نے مزید کہا:

میں جانتا ہوں ایگریسیو عامر لیاقت کے اندر ایک بہت ہی کائنڈ ہارٹڈ عامر لیاقت بھی تھا، یہ بات مجھے تکلیف دیتی ہے کہ منفیت والی بات آخر میں زیادہ سامنے آ گئی، کاش جب یہ چیپٹر کلوز ہو رہا تھا تب یہ مثبت اور منفی کا پہلو الٹ ہوتا تو مجھے زیادہ اطمینان ہوتا۔

علی امام بتاتے ہیں:

وہ طوق اتار کر میں نے پھینکا کہ علی امام صاحب اس انڈسٹری میں ایک چیز جو نہیں رکھنی ہے وہ ایگو، ہماری ٹریننگ یہی ہوئی تھی کہ آپ نے بزرگوں کو کھانا صرف کرنا ہے، بد تمیزی لوگوں کو پتہ ہے لیکن یہ نہیں پتہ کہ وہ کیسے لوگوں کی ٹریننگ کر رہے تھے۔

عامر لیاقت حسین کی ڈگری

کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 2002 میں اسلامک اسٹیڈیز میں پی ایچ ڈی بھی کی۔ 2002 میں ہی اسلامک اسٹیڈیز میں ٹرینٹی کالج اینڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی مگر 2006 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس ڈگری کو جعلی قرار دیا۔ امریکی اخبار دی گارجین نے بھی رپورٹ کیا کہ اس یونیورسٹی سے 150 ڈالر کے بدلے صرف اٹھائیس دن میں ڈگری حاصل کی جاتی ہے۔ 2005 میں یونیورسٹی آف کراچی نے بھی عامر لیاقت کی بے اے کی ڈگری کو جعلی قرار دیا۔ جبکہ عامر لیاقت نے 2002 میں قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے الیکشن کمیشن میں اپنے تعلیمی کوائف میں وہی ڈگری جمع کرائی تھی۔

عامر لیاقت حسین یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ 1995 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری لے چکے، انہیں جعلی ڈگری بنوانے کی کیا ضرورت۔ پھر 2010 میں وہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے انرولڈ ہوگئے۔ 2012 میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے کے لیے انرولڈ ہوئے۔ پھر 2015 میں رپورٹ ہوا ہے کہ عامر لیاقت نے ایش ووڈ یونیورسٹی سے جعلی ڈگری حاصل کی جو کہ 1136 ڈالر میں خریدی۔

2002 میں کراچی کے حلقہ این اے 249 سے جیت کر منتخب ہونے والے عامر لیاقت کو 2004 میں مذہبی امور کا وزیر مملکت بنا دیا گیا۔ پھر اگلے ہی سال یعنی 2005 کے جون میں عامر لیاقت پر جامعہ بنوریہ میں حملہ ہو جاتا ہے۔ وہ جامعہ بنوریہ کے شیخ الحدیث مفتی عتیق الرحمان کے جنازے میں شرکت کے لیے گئے تھے مگر وہاں مشتعل نوجوان ان پر شدید تشدد کرتے ہیں۔

خیر! سیاست بھی عروج پر چل رہی تھی اور ٹی وی ہوسٹنگ بھی۔ مگر عامر لیاقت کی زندگی کی لکیر کہاں سیدھی چلنے والی۔ اس میں کبھی عروج تو کبھی گراوٹ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت اپنے ایک پروگرام میں ملعون سلمان رشدی کو گستاخِ رسول ﷺ قرار دیتے ہیں۔ اسی بات پر ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی عامر لیاقت سے وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت واپس لے لیتی ہے اور کچھ عرصے بعد یعنی ستمبر 2008 میں انہیں پارٹی سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔

تبدیلی آ رہی ہے

اب بیسویں صدی کی پہلی دہائی ختم ہو رہی تھی اور عامر لیاقت کی زندگی تبدیل۔ اُدھر پارٹی کا ہاتھ سر سے اٹھ گیا تھا اور اِدھر جیو کے مالک میر شکیل الرحمان کا۔ جیو میں میر شکیل کے بیٹے میر ابراہیم نے معاملات سنبھال لیے تھے مگر ان سے عامر لیاقت نہیں سنبھل پا رہے تھے۔ اُدھر شعبان کا چاند نظر آتا اِدھر عامر لیاقت کے جیو انتظامیہ کے ساتھ ٹینٹرم شروع ہو جاتے ہیں۔ بالآخر 2010 میں پارٹنر شپ ٹوٹ گئی۔ علی امام اس بارے میں بتاتے ہیں:

میر ابراہیم تشریف لائے، ان کی سوچ مختلف تھی، ڈاکٹر صاحب سے معاملات ان کے خراب ہونے لگے۔ دو ہزار دس کا رمضان دو تین دن تاخیر سے شروع ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا جھگڑا تھا کہ میری ٹیم کے ممبرز کی پروموشن کیوں نہیں ہوئی۔ پھر ہمیں دبئی میں لیٹر ملے اور پھر ٹرانسمیشن شروع ہوئی۔ یہ چیز ہو تو گئی لیکن مالکان کے لیے یہ ایکسیپٹیبل نہیں ہوتا۔ بہر حال ان کے ذہن میں ایک چیز آ تو جاتی ہے کہ یہ تو بڑا مسئلہ ہوگا، پھر ڈاکٹر صاحب نے فیصلہ کیا کہ میں اے آر وائے جاؤں گا۔

عامر لیاقت نے شکیل الرحمان سے ہاتھ چھڑایا تو اے آر وائی کے مالک عبدلرزاق یعقوب بانہیں کھولے کھڑے تھے۔ جیو اور اے آر وائی کی ریٹنگ وارز میں عامر لیاقت وہ ہتھیار تھا جو بازی پلٹنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اے آر وائی پر عامر لیاقت کو بڑی جگہ ملی تو بہت کچھ نیا کرنے کا موقع ملا۔ اور پھر شروع ہوئی انعام و اکرام سے نوازنے والی رمضان ٹرانسمیشن۔ یہاں عامر لیاقت کی فیملی، وائف بشریٰ، بیٹا احمد اور بیٹی دعا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے نظر آئے۔

آپ کو یاد ہے ویڈیو کے شروع میں، میں نے آپ سے کہا تھا کہ اگر عامر لیاقت سیاسی وابستگی کی وجہ سے نیوز اینکر بننے کا چانس نہ گنواتے تو آپ کا نقصان ہوتا۔ کیونکہ پھر آپ کے سامنے خبریں بریک کرنے والا نیوز اینکر عامر لیاقت تو ہوتا۔ مگر اس کی کوئی اپنی پہچان نہ ہوتی۔ پھر رمضان میں ٹی وی پر بہار نہ ہوتی۔ انعام بانٹنے کی محفلیں نہیں سجتیں۔

بہرحال! اے آر وائی میں رمضان ٹرانسمیشن بڑے زور و شور سے چل رہی تھی۔ ابھی پندرہ یا سولہواں روزہ ہی تھا کہ سوشل میڈیا پر عامر لیاقت کی ایک ویڈیو گردش کرنے لگی۔ محسن درانی نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا:

میں جانتا ہوں کہ 2011 میں اگر سلمان اقبال نہیں ہوتے عامر لیاقت کہیں نظر نہیں آتے، کیونکہ انہوں نے کہہ دیا کہ محسن میں ختم ہو گیا ہوں، پھر اس رات کو انہوں نے بتایا کہ سلمان اقبال آئے اور بولے عامر اٹھو، بیٹھو، اور وہ چودہواں روزہ تھا کہ ان کی ٹرانسمیشن اوپر گئی اور جیو نے 27 رمضان کو ریپ اپ کر دیا تھا۔

وسیم بادامی نے اس بارے میں بتایا کہ شاید کوئی عام آدمی اس طرح سے نہیں سہہ پاتا، لیکن عامر لیاقت نے پروف کیا کہ وہ ڈیل کر لیں گے اور انہوں نے کیا۔

میر شکیل الرحمان کو اپنے گھر کا بچہ مخالف چینل کو بلندیوں پر پہنچاتا ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ عامر کی ریٹنگ کی پاور نے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ٹائیکون کی اَنا کے بُت کو پاش پاش کر دیا۔ اور پھر مدینہ میں عامر لیاقت حسین کے سامنے ہاتھ جوڑ لیے گئے۔ محسن درانی نے بتایا کہ شکیل صاحب نے ایکسیپٹ کیا کہ ہمارے لوگ انولوو تھے، جس نے بھی کیا اس نے مدینہ کے صحن میں بیٹھ کر عامر لیاقت سے معافی مانگی۔

مسٹر جیم ہاتھ پکڑ کر عامر لیاقت کو جیو لے آیا۔ وسیم بادامی اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

مجھے یاد ہے ایک دن اے آر وائے کے میک اپ روم میں انہوں نے کہا کہ میں جا رہا ہوں جیو، میں چھوڑ رہا ہوں، سب سرپرائز تھے یہ کیا ہوا، عامر لیاقت ایسا آدمی تھا کہ بس بہت جلدی میں ہے، جس بات پر میں اور آپ ضرورت سے زیادہ سوچیں گے وہ کر ڈالے گا، ہم ضرورت سے زیادہ سوچتے ہیں اور وہ ضرورت سے کم سوچتے تھے۔

مضبوط اعصاب کے مالک عامر لیاقت نے سب کچھ بھلا دیا۔ اس بار عامر لیاقت جیو ٹی وی کے وائس پریذیڈنٹ بن کر لوٹے تھے۔ 2010 میں اے آر وائے جوائن کرنے والے عامر لیاقت 2013 میں اب جیو کی اسکرین پر امان رمضان کے نام سے ٹرانسمیشن کر رہے تھے۔ اور پھر اگلے ہی سال جنوری 2014 میں انہوں نے انعام گھر شروع کیا۔

انعام گھر شروع کیے ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ عامر لیاقت نے پھر جیو چھوڑ دیا اور اس بار وہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے صدر بن گئے۔ ایکسریس پر ہی پاکستان رمضان کے نام سے ٹرانسمیشن شروع کی۔ یہ وہ دور تھا تب ہر چینل مالک چاہتا تھا کہ عامر لیاقت اس کی اسکرین سجا دے، اس کے چینل کی ریٹنگ کا کانٹا اٹھا دے۔

عامر لیاقت کی شہرت کا پوری دنیا میں ہی ڈنکا بج رہا تھا۔ ان کا نام اسلامی دنیا کی پانچ سو با اثر مسلمان شخصیات کی فہرست میں شامل ہو گیا تھا۔ عامر لیاقت ایکسپریس سے واپس جیو آگئے تھے۔ بلکہ نومبر 2015 میں وہ جیو انٹرٹینمنٹ کے صدر بھی بن گئے۔ اب یہ تھوڑے تھوڑے پیسے کو ترسنے والا عامر لیاقت نہیں تھا۔ اب ان کے لیے بڑے بڑے سیٹ سجتے تھے۔ بڑی گاڑی تھی اور وہ ایک بڑا سا مکان تعمیر کروا رہے تھے۔ مگر ان کا بسا بسایا گھر ٹوٹ رہا تھا۔ جیو کے سیٹ پرہی ایک لڑکی، یعنی عامر لیاقت کی ٹیم ممبر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس نام تھا سیدہ طوبیٰ انور۔

عروج کو زوال

ٹیم ممبرز کو طوبیٰ اور عامر لیاقت کے درمیان قربت محسوس ہونے لگی تھی۔ تو کیا ان کی پروڈکشن ہیڈ، ان کی کی جیون ساتھی، ان کی ہم راز، انہیں ہر طرح سے سمجھنے والی اور ان کا سکھ دکھ میں ساتھ دینے والی بشریٰ اقبال بے خبر رہتی۔ وہ معاملے کو بھاپ رہی تھیں اور پھر پتہ چلتا ہے کہ عامر لیاقت کی اہلیہ نے سیٹ پر آنا چھوڑ دیتی ہیں۔

اسی دوران عامر لیاقت کا جیو نیوز کی ایک اور خاتون میں انٹرسنٹ ہو رہا تھا۔ جس کے گھر وہ رشتہ بھی بھجواتے ہیں۔ بہرحال! اس وقت عامر لیاقت کے عروج کا یہ عالم تھا کہ پاکستان کے وہ چینل مالکان جنہیں صدر و وزیر اعظم بھی جُھک کر سلام کرتے، وہ عامر لیاقت کے سامنے جُھک کر اپنے چینل پر آنے کی آفر کیا کرتے۔ عامر لیاقت کا پاکستان میں وہی مقام ہو چکا تھا جو ایک وقت میں مائیکل جیکسن اور ایلویس پریسلے کا تھا۔

دنیا کی ہر شہ عامر کو ملتی جا رہی تھی۔ شہرت، دولت، علم، اثر و رسوخ سب کچھ تھا۔ ساری دنیا عامر کے قدموں میں نچھاور ہو رہی تھی۔ عامر بادشاہ بن رہا تھا۔ عامر لیاقت کو جتنا ملتا جا رہا تھا۔ اُتنا ہی زیادہ ان کی ’’اور پالینے‘‘ کی ہوس بڑھتی جا رہی تھی۔ یوں سمجھ لیں کہ عامر کا ڈوپامن ایڈیکشن بڑھتا جا رہا تھا۔

جب وہ اپنے عروج کی انتہا کو چھونے لگے، وہیں سے ان کا زوال شروع ہو گیا اور وہ دو ہزار سولہ میں وہ بول سے وابستہ ہوگئے۔

میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے

عامر لیاقت کے پاس ہنستا بستا گھر تھا، ریٹنگ تھی، سب کچھ تھا مگر قناعت نہیں تھی۔ انہوں نے جیو انتظامیہ سے کرنٹ افیئر شو کی ڈیمانڈ کی تھی۔ وہ حامد میر یا کامران خان کی طرح پرائم ٹائم پر ایک کرنٹ افیئر شو چاہتے تھے۔ مگر ڈیمانڈ پوری نہ کی گئی۔

بول میں بھی رمضان ٹرانسمیشن تو چلی۔ مگر عامر لیاقت نے کہا نہیں۔ رمضان ٹرانسمیشن کافی نہیں۔ میں کرنٹ افیئرز شو کروں گا۔ عامر لیاقت ایک جواری کی طرح داؤ پر داؤ لگا رہے تھے اور اب تک وہ جیتتے جا رہے تھے۔ دنیا ڈھیروں کامیابیاں سمیٹنے کے بعد عامر لیاقت کو لگنے لگا:

کبھی کبھی تو لگتا ہے اپُن ہی بھگوان ہے

مگر اب نہ ہی حفاظت اور سفارش کرنے والی ماں کی دعاؤں کا سایہ عامر کے ساتھ ہے۔ اور نہ مشکل وقت میں ساتھ دینے والی بیوی۔ عامر لیاقت اپنے کرنٹ افیئرز شو میں سیاستدان، اینکرز، چینلز مالکان اور اپنے دوستوں سمیت جس کو جی چاہا، اسکرین پر دکھا کر غدار قرار دیتے گئے۔ اور ایک ایک کر کے سب ہی کو اپنے خلاف کرتے گئے۔ محسن درانی نے اس بارے میں بتایا:

عامر لیاقت جیو کے خلاف بول رہے تھے تو میر ابراہیم کی کال آئی کہ کیا مسئلہ ہے؟ میں نے کہا جیو کو مس کر رہے ہیں۔ میر ابراہیم نے کہا آ جائیں جیو میں واپس۔ مجھے یہ بتانا تھا کہ انہوں نے اسی رات میری اور میر ابراہیم کی تصویر لگا دی کہ یہ لوگ میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔

عامر لیاقت خود پسندی، خود پرستی اور تکبر کی انتہاؤں کو چھونے لگے۔ جب چاہتے جس کی چاہتے عزت اچھال دیتے۔ صبح گالیاں دیتے اور رات کو فون کرکے معافیاں مانگتے۔ وسیم بادامی نے اس کے بعد کی صورت حال بتاتے ہوئے کہا:

انہوں نے کہا کہ شاید مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا، لوگوں کے اسکور سیٹل ہوگئے اور میں استعمال ہو گیا، متعدد بار کالز کر کے کہا کہ اینکرز سے کہو میں شرمندہ ہوں جو میں نے کیا۔

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کونسل نے عامر لیاقت کے شو کو صحافیوں کی تذلیل قرار دیا۔ اور پیمرا نے پروگرام کے ساتھ ساتھ عامر لیاقت پر بھی پابندی لگا دی۔ وسیم بادامی نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا:

انہوں نے میرا بھی ذکر کیا تھا اپنے پروگرام میں، حالانکہ ہماری اتنی دوستی ہونے کے باوجود، اور پھر مجھے کلپ بھیجا کہ بھئی بات ہوگی تو سب پر ہوگی۔

ادھر سیاسی میدان میں وہ ایک بار پھر ایم کیو ایم کے قریب ہوئے تو الطاف حسین کی 22 اگست 2017 والی تقریر کی وجہ سے انہیں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے عامر لیاقت کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔ اور پھر کچھ حلقوں نے انہیں پی ٹی آئی میں ڈال دیا۔ مگر یہاں اپنی مستی مست عامر لیاقت کی زیادہ بنی نہیں۔ وہ 2018 کے الیکشن میں NA 245سے الیکٹ ہو کر قومی اسمبلی میں تو پہنچ گئے مگر عمران خان کی قربت نہیں ملی۔ کیونکہ عمران خان کو اپنے پرانے ساتھیوں کی وفا پر بھروسا تھا۔ مگر آج عمران اسماعیل اور علی زیدی وغیرہ کو پی ٹی آئی میں بے وفا کے نام سے جانا جاتا ہے۔

خیر بات کہیں اور چلی جائے گی۔ ہم عامر لیاقت رہتے ہیں۔ ان کی بد مزاجی اور بد زبانی کے قصے میڈیا کے حلقوں میں پہلے ہی مشہور تھے مگر 2016 کے بعد سے عامر کا وہ روپ اسکرین پر بھی نظر آنے لگا۔

لوگ حیران و پریشان تھے۔ ان کے مداح عالم سمجھتے تھے مگر وہ جس لوگ دینی مسائل سنتے تھے، درود و سلام سنتے تھے، جو دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے لوگوں سے بے ساختہ آمین نکلتا جاتا۔ مگر اب عامر لیاقت حرکتوں سے لوگ متنفر ہو رہے تھے۔

میڈیا کا بنایا گیا ایک بُت پاش پاش ہو رہا تھا اور ساری دنیا دیکھ رہی تھی۔

خیر! جو ایک بات بہت کم لوگ جانتے تھے وہ یہ کہ عامر لیاقت نشے کے عادی ہو رہے تھے۔ اس بات سے بے خبر کہ ایک روز یہ لت ان کی زندگی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ اب ایک ایک کر کے سب عامر کا ہاتھ چھوڑ رہے تھے مگر صرف ایک ہاتھ نے عامر کو تھاما ہوا تھا۔ مگر وہ بھی انہوں نے چھڑا لیا۔

اور پھر 2021 کا سورج طلوع ہونے سے ایک دن پہلے۔ عامر لیاقت کی پہلی بیوی بشریٰ اقبال سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا کر دنیا کو بتاتی ہیں کہ عامر لیاقت حسین نے انہیں طلاق دے دی ہے۔ ساتھ میں وہ یہ مینشن کرتی ہیں کہ طوبیٰ کی ضد پر عامر نے انہیں فون پر طلاق دی۔ جس سے 2018 میں عامر لیاقت نے دوسری شادی کی تھی۔

وہ عامر لیاقت جس کے پیچھے ریٹنگ بھاگتی تھی۔ وہ اب ریٹنگ کے لیے ٹک ٹاکرز کے پیچھے اپنے معیار سے گر کر الگ ہی قسم کے پروگرام کر رہا تھا۔ وہ ایک ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح نیچے آ رہے تھے۔ وہ بول نیوز کو بھی چھوڑ چکے تھے۔

چند سال پہلے تھے بڑے بڑے ٹی وی چینل مالکان عامر لیاقت کے دروازے کے باہر بیٹھے نظر آتے تھے، اب کوئی چینل مالک عامر لیاقت کی کال بھی نہیں اٹھا رہا تھا۔ عامر لیاقت ڈیسپرٹ ہونا شروع ہوگئے۔ اور یہ ڈسپریشن غصے میں بدلتی گئی۔

ادھر عامر لیاقت کو باس کی حیثیت سے پسند کرنے والی طوبی انور کو عامر لیاقت شوہر کی حیثیت سے پسند نہیں آ رہا تھا۔ چڑھتے سورج کو چاہنے والی طوبیٰ نے بھی اسے غروب ہوتا دیکھ اپنا راستہ جدا کرلیا۔ شہر یار رضا اس بارے میں کہتے ہیں:

مجھے لگتا ہے کہ ان کو دوسری شادی بھی نہیں کرنی چاہیے تھے، لیکن وہ بڑے بھائی تھے تو ہم انکے آگے کچھ بولتے نہیں تھے، ایک دن جب انہوں نے مجھے کہا کہ دیکھو شیری یہ کیا کر دیا، تو میں نے کہا کہ عامر بھائی ہمیں پہلے سے پتہ تھا، لیکن ہم آواز نہیں کھولتے تھے آپ کے سامنے۔

اب نہ کوئی ٹی وی شو تھا نہ رمضان ٹرانسمیشن۔ مگر عامر لیاقت خبروں میں اب بھی تھے، مگر اچھی نہیں، بلکہ بری۔ عامر لیاقت کا نام اب بھی ٹاپ پر تھا۔ مگر ٹی وی کی ریٹنگ میں نہیں۔ سوشل میڈیا کی ٹرینڈنگ میں۔ کبھی پہلی اور کبھی دوسری بیوی کو طلاق کی خبر۔ تو کبھی کوئی ہانیہ نامی خاتون شادی کا دعویٰ کرتی ہے۔

خیر! نو فروری 2022 کو طوبیٰ کے باقاعدہ عامر لیاقت سے خلع کے اعلان کے اگلے ہی روز عامر لیاقت اٹھارہ سالہ ’’دانیہ شاہ‘‘ سے شادی کا اعلان کرتے ہیں۔ عامر لیاقت جیتے جی ایک داستان عبرت بنتے جا رہے تھے۔ باتیں ہونے لگی کہ کہاں عامر لیاقت اور کہاں دانیہ شاہ۔ نہ صرف جنوبی پنجاب کی گم نام سی لڑکی۔ بلکہ غلط شہرت یافتہ ٹک ٹاکر۔ عامر لیاقت اپنی تیسری شادی کو سوشل میڈیا کے ساتھ انجوائے کر رہے تھے۔ ان کے نام سے میم بنتی، جوک شیئر جاتے۔

ایک زمانے میں ’’مولانا‘‘ کہلایا جانے والا عامر لیاقت اب ایک ’’میم‘‘ بن گیا تھا۔ ڈیفنس میں بڑے بڑے بنگلے بنانے والے عامر اب تیسری بیوی کے ساتھ خداداد کالونی کے اسی گھر میں شفٹ ہو گئے تھے، جہاں سے انہوں نے زندگی شروع کی تھی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ کروڑوں میں کھیلنے والا عامر اب مالی مشکلات کا بھی شکار ہوتا جا رہا تھا۔

بڑے بڑے لوگوں کو دھاڑ کر مخاطب کرنے والا عامر، اب نوکری کے لیے اپنی بے چارگی کا نوحہ پڑھتا نظر آیا۔ محسن درانی بتاتے ہیں کہ وہ آخر تک کوشش کرتے رہے کہ جیو چلا جاؤں، بول نے انہیں تباہ کیا، مگر جو جیو نے سب کچھ دیا وہ کسی نے نہیں کیا۔

اِدھر ان کی تیسری بیوی دانیہ شاہ بھی چھوڑ گئی۔ بلکہ سوشل میڈیا پر ایک نیا تماشا لگایا کہ عامر بہت ظالم ہے۔ وہ اسے مارتا ہے۔ سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہی تھی۔ دُنیا سکتے کی حالت میں عامر لیاقت کی تباہی کا منظر دیکھ رہی تھی اور پھر بات اس حد تک گر گئی۔ جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ دانیہ شاہ کے موبائل پر ریکارڈ کی گئی بیڈ روم کی ویڈیو گیارہ مئی 2022 کی صبح پاکستان کے ہر موبائل فون میں تھی۔ مذاق تو وہ پہلے ہی بن چکے تھے، اب وہ نشان عبرت بن رہے تھے۔ شہر یار رضا نے اس کے بعد کی صورت حال بتاتے ہوئے کہا:

آخری میسج جو دعا کا ہے، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جو دعا نے میسج کیا کہ بابا ہم تو کہیں جا نہیں سکتے، ہم کسی بازار میں نہیں جاسکتے، اس نے چیز ان کو تباہ کر دیا کہ میں نے اپنے بچوں کے لیے کیا کیا۔

اب عامر لیاقت نے خود کو تنہا کرلیا، نمبرز بدل لیے اور بالکل خاموش ہوگئے۔ گیارہ مئی دوہزار بائیس کے بعد عامر خداداد کالونی کے اسی اَسّی گز کے گھر میں بیٹھے صبح و شام اپنا عروج سوچتے رہتے جہاں سے انہوں نے بلندیوں پر پہنچنے کا سفر شروع کیا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں سب کچھ ریوس کرنا چاہتے تھے۔ ایک بار پھر بشریٰ کا ہاتھ تھام کر خود کو سمیٹنا چاہتے تھے۔ بچوں کا چہرہ کا دیکھ کر اپنا ڈپریشن کم کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس چھوٹے سے گھر میں صرف ان کی تنہائی تھی، نشہ تھا اور وہ۔ اس حالت میں وہ وسیم بادامی کو میسیج کرتے ہیں۔ وسیم اس بارے میں بتاتے ہیں:

ان کا میسج آتا ہے کہ وسیم بادامی تو بہت اچھا آدمی ہے، تو بہت اچھا آدمی ہے۔ جب میں لندن میں تھا تو میں نے انہیں فون کیا، تو وہ ایسے رو رہے تھے جیسے بچے روتے ہیں۔ میں نے اپنے دوستوں کو فون کیا کہ جاؤ دیکھو، میرے یہ الفاظ تھے کہ ایک دن آئے گا جب یہ اپنے کمرے میں پڑے ہوئے ملیں گے۔

عامر لیاقت حسین نے ملک چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ شاید وہ ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتے تھے۔ مگر 9 جون 2022 کی صبح خداداد کالونی کے اس گھر میں ساری گھڑیاں چل رہی تھیں لیکن عامر لیاقت کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ انا للہ وانا اليه راجعون۔

عامر لیاقت کو عبداللہ شاہ غازیؒ کے احاطہ مزار میں دفنایا گیا۔ نماز جنازہ میں لوگ تو بہت تھے۔ مگر حیران کن طور پر کاندھا دینے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ محسن درانی کہتے ہیں کہ مجھے آج تک یقین نہیں آتا کہ وہ چلے گئے۔ عامر لیاقت حسین کے جنازے سے متعلق وہ کہتے ہیں:

جنازہ اسٹیریچر پر رکھا ہوا تھا، قریبی رشتہ داروں کو چاہیے تھا کہ کندھے کا اہتمام کرنا ہے، لیکن ڈولی نہیں تھی اسٹریچر تھا، ہم نے اپنے دوست کو کندھا نہیں دیا۔

لوگوں کو عروج ملتا ہے، زوال بھی آتا ہے لیکن اسے کبھی عبرت کے مقام تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ عامر لیاقت کا زوال اس حد تک پہنچا، لیکن پھر بھی کسی کو ان پر رحم نہیں آیا بلکہ بہت سوں نے آخری پیغام کو بھی سنجیدہ نہ لیا، کیوں؟

کیونکہ کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ علم سب سے بڑا ہے، لیکن علم سے بھی بڑا ہے حلم۔ عامر لیاقت حسین کے پاس علم تو تھا، مگر حلم نہیں تھا۔ علم اور شہرت نے ان کے اندر ایسا تکبر پیدا کر دیا کہ جب زوال آیا تو کسی نے ان کو سنجیدہ نہیں لیا۔ یہ عبرت کا مقام تھا، وہ مقام جو عامر لیاقت نے اپنے لیے خود بنایا تھا۔

شیئر

جواب لکھیں