ہندوستان کے ایک مشہور ریاضی دان کو میتھمیٹکس کے ایک سوال نے بڑی مشکل میں ڈال رکھا تھا۔ سر ضیاء الدّین احمد ڈاکٹر آف سائنس کی ڈگری حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی مسلمان ریاضی دان تھے۔ لیکن اس سوال کو حل کرنے ان کے لیے بھی مشکل تھا، وہ جرمنی جانا چاہتے تھے لیکن۔ علی گڑھ کے شعبۂ اسلامیات کے پروفیسر سلمان اشرف بہاری نے انہیں مشورہ دیا کہ جرمنی کے بجائے ’’بریلی‘‘ کا سفر کریں، وہاں ایک عالم دین شاید آپ کی مشکل آسان کر دیں۔

برطانیہ کی مشہور کیمبرج یونیورسٹی سے ڈگری لینے والے ضياء الدّین کو بڑی حیرت ہوئی۔ جس سوال کا حل ان کے پاس نہیں، بھلا ایک مذہبی عالم اسے کیسے حل کر سکتا ہے؟ بہرحال، ڈاکٹر ضیا الدّین عالم دین کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ سوال ان کے سامنے رکھا۔ اور یہ کیا؟۔ تھوڑی دیر میں ہی حل سامنے تھا۔

ڈاکٹر ضیا الدّین کہتے ہیں:

میرے سوال کا جواب بہت مشکل تھا، اسے حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مگر عالم دین نے فوراً ایسا جواب دیا جیسے اس مسئلے پر کافی ریسرچ کر رکھی ہو۔

یہ تھے مفسر، محدث، فقیہ، فلسفی، ماہرِ لسانیات، شاعر اور ہاں! ریاضی دان بھی، مولانا احمد رضا خان بریلوی۔ وہ احمد رضا جنہیں پچپن علوم پر مہارت حاصل تھی۔ اور اپنی اسی مہارت سے انہوں نے ہندوستان کے معروف ریاضی دان کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔

آج ہم انہیں احمد رضا خان بریلوی کی بات کریں گے، جن کے آبا و اجداد افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوئے تھے۔ آپ کے دادا محمد رضا علی خان نے فوجی خدمات فراہم کرنے کی خاندانی روایت کو چھوڑا اور قادری سلسلے کے صوفی اور مفتی بن گئے۔

احمد رضا خان سے ملیے

یہ جون 1856 ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات بہت خراب ہیں۔ ملک پر ان کے تقریباً ہزار سالہ اقتدار کا سورج بس ڈوبنے کو ہے۔ سات سمندر پار سے آنے والے انگریز ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن رہے ہیں۔

ایک جانب مسلمانوں اور قابض طاقتوں کی کشمکش چل رہی ہے تو دوسری طرف انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے علما بھی آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس تقسیم کی بڑی وجہ تھی شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ’’تقویت الایمان‘‘۔ ان کے مخالفین میں ایک بڑا نام تھا مولانا نقی علی خان کا۔ وہ ان علما میں سے تھے جنہوں نے اس کتاب کے رد میں کتابیں لکھیں۔ انہی مولانا نقی علی خان کے ہاں 14 جون 1856 کو ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی، نام رکھا گیا احمد رضا خان۔

بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو اپنے حافظے سے سب کو حیران کر دیتا ہے۔ استاد سبق دیتے، وہ ایک یا دو مرتبہ کتاب دیکھتا اور بند کر دیتا۔ جب سبق پوچھا جاتا تو لفظ بلفظ سنا دیتا۔ استاد روز یہ سب دیکھتے اور حیران ہو جاتے۔ بالآخر ایک دن کہہ اٹھے:

احمد میاں! تم آدمی ہو یا جن؟ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی؟

بہرحال، بلا کی ذہانت کے مالک احمد رضا نے صرف 13 سال کی عمر میں دینی و عقلی علوم کی تعلیم مکمل کی۔ فتاویٰ کی تربیت دوران تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی اور اسی عمر میں والد کی زیر نگرانی فتوے لکھنے شروع کر دیے۔ سات سال بعد انہیں اس کی مستقل اجازت مل گئی۔

1880 تک احمد رضا خان ہندوستان کے مشہور فقیہ اور مفتی بن چکے تھے۔ ان کے پاس ہر روز ملک بھر سے سوالات آتے، بلکہ ملک سے باہر سے بھی۔ چین، وسط ایشیا، افریقہ، یہاں تک کہ امریکا سے بھی۔

فتوے دینے میں مولانا احمد رضا خان بڑی احتیاط سے کام لیتے۔ اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ شریعت نے جہاں تک رعایت دی ہے، رعایت دی جائے۔ انہوں نے یہ اصول دیا کہ مفتی کے لیے یہی کافی نہیں کہ وہ مختلف اقوال نقل کر دے بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مختلف اقوال میں فرق کر کے ایک کو دوسرے پر ترجیح دے سکے اور حتمی فیصلہ صادر کر سکے۔

جیسے سوال اٹھا کہ کیا مزارات کے آگے سجدہ جائز ہے؟ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے غیر اللہ کے لیے سجدۂ عبادت کو کفر اور شرک جب کہ سجدۂ تعظیمی کو حرام قرار دیا۔

جب سوال ہوا کہ ایسی قوالی جس میں آلات موسیقی وغیرہ کا استعمال ہو، اس میں شرکت جائز ہے؟ تو جواب دیا کہ ایسی قوالی حرام ہے، حاضرین سب گناہ گار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے۔

سوال ہوا کہ کیا فرضی مزار بنانا، اس پر چادر چڑھانا، فاتحہ پڑھنا اور اصلی مزار کا سا ادب کرنا جائز ہے؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ یہ ناجائز اور بدعت ہے، اگر کوئی بزرگ کسی کو خواب میں مزار بنانے کا حکم دے تو ایسے خوابوں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔

حجازِ مقدس کا سفر

یہ جنوری 1906 ہے۔ اعلیٰ حضرت فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے حجاز مقدس میں ہیں۔ یہ ان کی زندگی کا دوسرا حج ہے۔ مگر اس بار ان کے سامنے ایک مہم بھی ہے۔ شاید وہ ایک مشن پر آئے ہیں۔

انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تیس نامور فقہا کے سامنے اپنا ایک فتویٰ پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق مولانا احمد رضا خان نے مرزا غلام احمد قادیانی کے علاوہ اکابر دیوبند کو بھی کافر قرار دیا ہے۔ ان میں مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، ان کے جانشین مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا اشرف علی تھانوی شامل ہیں۔

احمد رضا خان نے عرب علما کے سامنے اپنا مقدمہ ایک سوال کی صورت میں پیش کیا، کہ کیا عوام کو ایسے لوگوں سے نہیں بچانا چاہیے جو خدا اور رسولؐ کی توہین کرتے ہوں؟ اور بالآخر وہ حرمین کے علما کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ فتویٰ بعد میں ’’حُسام الحرمین‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔

کفر کے فتوے

ویسے تو ہندوستان کی تاریخ میں مناظرے ہمیشہ ہوتے تھے مگر اپنے زمانے کے ہی علما کو کافر قرار دے کر مولانا احمد رضا بریلوی نے ایک نئی مثال قائم کر دی۔ وہ اپنے دیوبندی مخالفین پر ایک لیبل لگوانے میں کامیاب ہو گئے، ’’ہندوستانی وہابی‘‘ کا لیبل۔ باوجود اس کہ علمائے دیوبند کا تعلق حنفی مکتب فکر سے تھا، نہ کہ حنبلی عالم محمد بن عبد الوہاب سے۔

یہ بات ذہن میں رکھیں کہ خود دیوبندی علما ہندوستان کے اہل حدیث اور غیر مقلدین کے بڑے مخالف تھے، جو فکری اعتبار سے وہابیوں سے زیادہ قریب تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب حجاز پر عثمانی ترکوں کا راج تھا، جو محمد بن عبد الوہاب کے ماننے والوں کے سخت خلاف تھے۔ بہرحال، اعلیٰ حضرت امام رضا خان کی علمائے دیوبند کے بارے میں جو رائے تھی، اس نے دونوں مسلکوں کے درمیان اختلافات اور بڑھا دیا۔ اس کے بعد مخالفین نے اعلیٰ حضرت کو ’’متشدد‘‘ قرار دیا۔ لیکن حامی کہتے تھے کہ آپ متشدد نہیں بلکہ عاشق رسولؐ تھے۔ یہ ان کا ادب اور احتیاط تھا، جو ہر جگہ نظر آتا ہے۔

اس کے باوجود مولانا اشرف علی تھانوی نے امام احمد رضا کے بارے میں ضبط سے کام لیا۔ ایک مرتبہ ان کی محفل میں شریک ایک صاحب نے غیر محتاط لہجہ اختیار کیا اور کہا کہ احمد رضا بریلوی نے کیسی بات کہی ہے؟ جواب میں اشرف تھانوی نے ان صاحب کو ڈانٹ کر کہا تم نے ان کا نام بغیر تعظیم کے کیوں لیا؟ کم از کم مولانا تو کہتے؟ صرف احمد رضا خان کیوں کہا؟

آخر مسئلۂ بدعت کیا تھا؟

اعلیٰ حضرت کو آخر علمائے دیوبند سے مسئلہ کیا تھا؟ اصل میں انہیں اس بات پر بہت زیادہ تکلیف ہوئی کہ انہوں نے کچھ رسمیں مثلاً عید میلاد النبیؐ منانے کو کیوں ناجائز قرار دیا؟ حالانکہ یہ تو رسول اللہؐ کی سنت و سیرت کو یاد کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن علمائے دیوبند اسے بدعت خیال کرتے، دین میں نیا اضافہ سمجھتے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ میلاد کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں بلکہ اس کی تو ابتدا ہی ساتویں صدی ہجری میں ہوئی۔

اعلیٰ حضرت نے جنہیں اپنے فتوے کا نشانہ بنایا، ان میں سے ایک مولانا رشید احمد گنگوہی بھی تھے۔ ان کی رائے میں ایسی محافل کیوں فخرِ دو عالم ﷺ کے زمانے میں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین اور مجتہدین کے زمانے میں بھی نہیں ہوئیں۔ بلکہ چھ سو سال بعد ایک بادشاہ نے ایسی محافلوں کا آغاز کیا جو خود اہلِ تاریخ کی نظر میں فاسق ہے، اس لیے یہ ایسی مجلسیں کروانا بدعت اور گمراہی ہے۔

امام احمد رضا خان کا مؤقف تھا دین ایک پھلتا پھولتا باغ ہے۔ جو کسی نیک کام پر تنقید کرے، صرف اس لیے کہ وہ اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں موجود نہیں تھا، اس احمق کی طرح ہے جو باغ میں کھلنے والے نئے پھولوں کی خوب صورتی سے انکار کرتا ہے۔ یہ رسمی اعمال بظاہر تو نئے ہیں، لیکن اپنے جوہر میں انہی پھولوں کے مشابہ ہیں۔ ایسی رسموں میں سب سے مقدس وہ ہیں جو حضور پاک ﷺ کے مقام و مرتبے کو بڑھاتی ہیں، مثلاً عید میلاد النبیؐ۔ کوئی ایسا نیا عمل جو حضور ﷺ کے مرتبے کو بڑھاتا ہے، وہ اصلاً مستحب ہے اور تب تک تنقید سے بالاتر ہے جب تک توحید کے منافی نہ ہو۔

انگریزوں کے حامی؟ یا دو قومی نظریے کے بانی؟

پہلی جنگِ عظیم کے بعد خلافتِ عثمانیہ کمزور پڑ گئی تھی۔ خلافت کا خاتمہ یقینی نظر آنے لگا۔ تب 1919 میں ہندوستان میں تحریکِ خلافت کا آغاز ہوا۔

ملک بھر کے مسلمانوں میں ایک نئی بیداری اور نیا جوش و خروش پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ گاندھی جی بھی اس سیاسی تحریک کا حصہ بن گئے اور مسلمانوں میں مقبول ہو گئے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا، جس سے کانگریس کو نئی طاقت ملی۔

یہ مولانا احمد رضا خان بریلوی کی زندگی کا آخری دور تھا۔ انہیں تحریکِ خلافت کے کچھ لیڈروں سے بھی اختلاف تھا، جیسے مولانا عبد الباری فرنگی محلی سے۔ اعلیٰ حضرت تحریک میں گاندھی جی کی شمولیت پر خوش نہیں تھے جبکہ مولانا عبد الباری گاندھی جی کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے۔

وہ تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات جیسی تحریکوں کو مسلمانوں کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کی نعرے کی انہوں نے سخت اور زبردست مخالفت کی جس پر انہیں اس الزام کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ وہ انگریزوں کے حامی اور تنخواہ دار ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے جواب دیا:

جس نے ایسا کیا ہو، اس پر قیامت تک اللہ اور اس کے رسولؑ کی، اور اس کی نیک بندوں کی لعنت ہو۔

ہندوستان ایک مشہور عالمِ دین تھے مولانا جعفر شاہ پھلواری۔ تحریکِ خلافت میں شامل تھے اور اعلیٰ حضرت کے مخالف تھے۔ اس الزام پر تو وہ بھی کہہ اٹھے کہ مولانا بریلوی پر انگریز دوستی کا الزام سراسر بے بنیاد اور سیاسی مقاصد کے لیے لگایا گیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اس وقت متحدہ قومیت کے خلاف آواز اٹھائی، جب قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس معاملے پر خاموش تھے۔ مفتی منیب الرحمان لکھتے ہیں:

برطانوی استعمار کے عہد میں ہندوستان میں جب تحریکِ ترکِ موالات چلی اور ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ لگایا جانے لگا تو امام احمد رضا خان نے انتہائی مدلل طریقے سے اس مؤقف کو رد کیا اور بتایا کہ اسلام میں ملت و قومیت کی اساس دین ہے اس لیے ہندو مسلم بھائی بھائی نہیں ہو سکتے۔ ان کا فتویٰ آگے چل کر نظریہ پاکستان یعنی دو قومی نظریے کی بنیاد بنا۔

بہرحال، 1922 میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان ہو گیا۔ یہ ہندوستان کی مسلم قیادت اور عوام کے لیے زبردست دھچکا تھا۔

ترجمۂ قرآن

مولانا احمد رضا خان بریلوی کے علمی کاموں میں ایک بہت بڑا کام ہے قرآن مجید کا ترجمہ۔ یہ ترجمہ ’’کنز الایمان‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جو 1911 میں مکمل ہوا۔

اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا طریقہ مختلف تھا، یہ نہیں کہ پہلے تفسیر کی کتب اور لغات دیکھیں، پھر آیت کے معنی سوچ کر ترجمہ بیان کر دیا بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہہ اور بر جستہ ترجمہ زبانی اس طرح بولتے، جیسے کوئی حافظ روانی سے قرآن پڑھتا ہے۔ یہ ترجمہ آج بھی دنیا بھر میں مقبول ہے۔

احمد رضا خان بریلوی کی شاعری

مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

امام احمد رضا خان بریلوی ایک عظیم نعت گو شاعر بھی تھے۔ آپ کا لکھا ہوا یہ سلام تو اتنی شہرت رکھتا ہے کہ مولانا کوثر نیازی نے ایک بار کہا تھا:

یہ سلام اردو زبان کا قصیدہ بردہ شریف ہے۔

اور یہی نہیں، اعلیٰ حضرت نے اور بھی بہت سی نعتیں کہیں، ان کا نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اعلیٰ حضرت کی ایک اور مشہور نعت ہے جو چار زبانوں میں ہے، عربی، فارسی، اردو اور ہندی۔

لم‌ یات نظیرک فی نظرٍ مثل تو نہ شد پیدا جانا
جگ راج کو تاج تورے سر سو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا

یہ آج بھی بہت عقیدت اور شوق سے پڑھی جاتی ہے۔

اعلیٰ حضرت کا عربی کلام پڑھ کر تو محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر ہندوستانی مگر حقیقتاً حجازی تھے۔ ان کی عربی میں عجمیت کی بُو نہیں آتی۔ مفتی منیب الرحمان لکھتے ہیں کہ امام احمد رضا کا نعتیہ کلام شاعرانہ تخیل نہیں بلکہ آیات قرآنی اور احادیث نبویہ کی ترجمانی ہے، یہ مقدساتِ دین کی محبت کا درس ہے۔

لیکن یہ رائے سب کی نہیں ہے۔ معروف اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے کلام میں کچھ مقامات پر شاعرانہ مبالغہ آمیزی کی نشاندہی بھی کی ہے۔

احمد رضا خان بریلوی کی کتب

حضرت مولانا امام احمد رضا خان بریلوی کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار بتائی جاتی ہے۔ صرف ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ ہی 30 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں لگ بھگ سات ہزار سوالوں کے جوابات شامل ہیں۔

اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور علمی کام پر پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نے بڑی تحقیق کی، لکھتے ہیں:

امام احمد رضا کا کہنا تھا کوئی علم و فن اللہ کے ذکر سے خالی نہیں ہونا چاہیے یہ ایک ایسا انقلابی خیال تھا کہ اگر اس پر عمل کیا جاتا تو دل و دماغ اس طرح ویران نہ ہوتے جس طرح آج ویران ہیں۔

امام احمد رضا کا اصرار تھا کہ ہر کتاب میں اس کا ذکر ہونا چاہیے، تاکہ پڑھنے والا شعور بندگی لے کر ابھرے۔ جس کو بندگی کا شعور آگیا، اسے زندگی کا شعور آگیا۔ جو بندگی سے بے خبر ہے وہ خود زندگی سے بے خبر ہے۔

یہی اللہ کی محبت تھی جس نے ان کو اللہ کے محبوبؐ کا شیدائی بنا دیا۔ وہ محبتِ مصطفیٰؐ اور عشقِ رسولؐ کو مسلمانوں کی ملی زندگی میں بنیادی حیثیت دیتے ہیں۔

قومیں عشق ہی سے زندہ رہتی ہیں۔ ملت اسلامیہ بھی عشق ہی سے زندہ ہوئی، عشق ہی سے زندہ رہی۔ عشق ہی سے زندہ رہے گی۔

متنازع پہلو

جہاں تک امام احمد رضا کے دیے گئے کفر کے فتووں کی بات ہے، وہ متنازع تھے اور رہیں گے کیونکہ جس طرح علی الاعلان انہوں نے کفر کے فتوے دینا شروع کیے، اس کی مثال پہلے بہت کم ملتی ہے۔

اعلیٰ حضرت کے فتووں کے ساتھ ہی ہندوستان کے سب سے بڑے طبقہ فکر میں کھلی تکفیر کا ایسا سلسلہ شروع ہو گیا، جو آج تک رکنے میں نہیں آ رہا۔ اور یہی نہیں انہوں نے ایک اور تنازع بھی کھڑا کیا۔ یہ معاملہ مذہبی نہیں تھا بلکہ سائنسی تھا۔

اعلیٰ حضرت نے کہہ دیا کہ زمین حرکت نہیں کر رہی بلکہ ساکن ہے اور صرف کہا نہیں بلکہ اس پر ایک کتاب ’’فوز مّبین‘‘ بھی لکھ ڈالی۔ ایک سو پانچ دلائل دیے اور اپنے تئیں نظریۂ حرکتِ زمین کو باطل قرار دے دیا۔

اب یہ بات کیونکہ اعلیٰ حضرت نے کہہ ڈالی ہے تو دبے دبے الفاظ میں آج بھی بریلوی علما یہی بات کرتے ہیں۔ کھلم کھلا تو نہیں۔ اشارتاً یا پھر جہاں ذکر آئے، زمین کے گردش کرنے کی حمایت نہ کر کے۔

اعلیٰ حضرت کا آخری سفر

اٹھائیس اکتوبر، سال 1921، جمعے کا دن تھا، اور تاریخ تھی پچیس صفر المظفر۔ اعلیٰ حضرت کا آخری وقت آ پہنچا۔ انہوں نے وصیت نامہ تحریر کرایا۔ جب دو بجنے میں چار منٹ باقی تھے تو وقت دریافت کیا۔ جواب ملا کہ ایک بج کر چھپن منٹ۔ فرمایا گھڑی رکھ دو۔

تھوڑی دیر گزری تو بھائی مولانا محمد رضا خان سے کہا کہ وضو کر کے آؤ اور قرآن عظیم لاؤ۔ بھائی ابھی واپس نہ آئے تھے کہ برادرم مصطفیٰ رضا خان سے کہا کہ سورۂ یٰسین اور سورۂ رعد کی تلاوت کرو۔ ہدایت کی مطابق دونوں سورتیں پڑھی گئیں۔ انہوں نے کئی بار سفر کی دعا پڑھی پھر کلمہ پڑھا، لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ۔ اور کچھ ہی دیر میں روح پرواز کر گئی، انا للہ و انا الیہ راجعون!

اعلیٰ حضرت کی وصیت کا ایک حصہ یہ تھا:

جس سے اللہ اور رسولؐ کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ، پھر وہ تمھارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو، فوراً اس سے جدا ہو جاؤ۔ جس کو بارگاہِ رسالتؐ میں ذرا بھی گستاخ دیکھو، پھر وہ کیسا ہی بزرگِ معظم کیوں نہ ہو، اپنے اندر سے اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینک دو۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کے انتقال کی خبر ملی تو فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھ لیا کہ وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے، آپ ان کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں؟ تو فرمایا:

مولانا احمد رضا خان نے ہم پر کفر کے فتوے اس لیے لگائے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے توہینِ رسولؐ کی ہے، اگر وہ یہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم پر کفر کا فتویٰ نہ لگاتے تو خود کافر ہو جاتے۔

آج امام احمد رضا خان کو گزرے ہوئے ایک صدی سے زیادہ ہو چکی ہے مگر وہ آج بھی زندہ ہیں۔ اس آواز میں، جو برصغیر کی کئی مسجدوں سے تقریباً روزانہ بلند ہوتی ہے۔ یہ آواز اعلیٰ حضرت کی یاد دلاتی ہے اور جب تک یہ آتی رہے گی، اعلیٰ حضرت زندہ رہیں گے۔

مصطفیٰ جانِ رحمتؐ پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

شیئر

جواب لکھیں