23 دسمبر 1949 کا سورج مشرق سے ہی طلوع ہوا تھا مگر پہلی بار اس صبح مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اذان نہیں بلکہ کچھ اور آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایسی آوازیں جو سن کر مسلمان حیران تھے اور ہندو مسجد جانے کے لیے بے چین۔ لاؤڈ اسپیکرز پر کہا جا رہا تھا کہ

تمام لوگوں کے لیے خوش خبری ہے، مسجد میں عین منبر کے مقام پر رام للا کا ظہور ہوا ہے، تمام ہی ہندو درشن کے لیے فوراً پہنچیں۔

بابری مسجد کو توڑنا درست تھا۔ اس میں نماز پڑھنے کا فتویٰ کوئی عالم دین یا فقیہ نہیں دے سکتا، وہاں نماز ادا نہیں ہو سکتی تھی، اگر! وہ رام جنم بھومی یا کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ میں یہ کیسے ثابت ہوا کہ مسجد کے منبر کے مقام پر رام کی پیدائش ہوئی تھی؟ اس مسئلے پر آپ کو بھارت کی جانب سے بنائی گئی ڈاکیومینٹریز تو بہت ملیں گی، مگر! میں وہ پہلا پاکستانی ہوں جو بابری مسجد کے تنازعے پر ایک مدلل ڈاکیومینٹری بنا رہا ہے۔ اس مسئلے پر میں نے تاریخ کے پنوں میں پیوست لفظوں کی گہرائی کو سمجھا اور انٹرنیٹ پر خاصی چھان پھٹک کی ہے تاکہ حقائق آپ کے سامنے رکھ سکوں۔

اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں انڈیا نہیں بلکہ پہلے دمشق چلنا ہوگا۔

ولید بن عبدالملک یہاں ایک شاندار مسجد بنانا چاہتا ہے۔ زمین کم پڑنے کی وجہ سے پڑوس میں موجود گرجا گھر کو توڑنے کا ارادہ ہے مگر عیسائیوں نے نہ صرف زمین دینے سے انکار کر دیا بلکہ ساتھ ہی کہا کہ گرجا گھر کی زمین خوشی سے تو نہیں دے سکتے اگر زبردستی لی گئی تو کوڑھ ہو جائے گا۔ ولید کو غصہ آگیا اور یہ کہہ کر زمین پر قبضہ کر لیا کہ دیکھیں کیسے کوڑھ ہوتا ہے۔ فائنلی، گرجا گھر کو توڑ کر مسجد بن گئی۔ کچھ عرصے بعد ولید کا دور ختم ہوا اور عمر بن عبدالعزیز کا اقتدار آگیا جو خلفہ راشدین کی اسوۂ حسنہ پر چلتے تھے۔ عیسائیوں نے عمر بن عبدالعزیز سے گرجا گھر توڑنے کی شکایت کی تو انہوں نے حکم دیا کہ مسجد کا وہ حصہ جو گرجا گھر توڑ کر بنایا ہے منہدم کر دیا جائے۔ اور سرکاری خرچ پر گرجا گھر کی از سرِ نو تعمیر کی جائے۔ یہ فیصلہ مِن و عَن اسلامی قوانین کے مطابق تھا۔ دین یہی سکھاتا ہے اور خلفہ راشدین بھی اسی پر عمل پیرا تھے۔

شروع میں یہ سمجھانا اس لیے ضروری تھا کہ اسلامی اصول پر چلنے والے حکم ران علاقہ فتح کرنے کے بعد کبھی بھی مندر یا کسی بھی عبادتگاہ کو نہیں ڈھاتے۔ بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری و امن و امان کا یقین دلاتے ہیں۔ لیکن کیا شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے رام مندر کو توڑ کر بابری مسجد بنائی تھی؟ ایسا کب اور کس نے کہا؟ بلکہ رام کی پیدائش کی جگہ کی نشاندہی کس نے کی؟ یہ سب سمجھنے کے لیے پرانے ایودھیا یا اجودھیا چلتے ہیں

مغلوں کے بعد نوابی دور کا بھی چل چلاؤ ہے۔ کہنے کو تو نواب واجد علی شاہ حکمران ہے مگر اَوَدھ پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے قابض ہیں۔ برٹش فوج کو سَروائیو کرنے کے لیے رقم چاہیے اور نوابوں کا خزانہ خالی ہو گیا ہے تو اس وقت گوروں نے نوابوں کی بیگمات کے زیورات اتروا لیے۔ یعنی نوابوں کی اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گوروں کے سامنے بالکل نہیں چل رہی۔

سترہویں صدی اٹھارہویں میں داخل ہو رہی تھی اور بابری مسجد کو بنے تقریباً ڈھائی سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ مگر اب تک رام جنم بھومی یعنی بابری مسجد کے اندر رام کی پیدائش ہوئی، ایسا نہ کبھی نہ سنا۔ نہ کسی نے کہا۔ اور نہ روئے زمین پر کسی بھی مذہب کی کتاب میں ایسا کوئی تذکرہ تھا۔ ہاں! رامائن میں یہ ضرور تھا کہ ایودھیا کے دریا سِرو کے کنارے رام کی جائے پیدائش ہے مگر بابری مسجد کے مقام پر ہے، ایسا کہیں تذکرہ نہیں، سوائے ایک مقام کے جو آگے چل کر آپ کو بتاتا ہوں۔

خیر ایودھیا میں گورے آ چکے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے قدم مضبوط کرنا تھے۔ گورے اچھی طرح جانتے تھے کہ ہندو مسلم جھگڑے ہی ان کے تسلط کو طوالت دے سکتے ہیں۔ اور پھر انہوں نے آرکیلوجیکل سروے شروع کر دیے جس میں یہ بتایا گیا کہ اجودھیا کی مختلف مسجدیں ہندوؤں کے مندر یا ان کی کسی پَوِتر جگہ کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ انگریز کے گزیٹس اور آرکیلوجیکل رپورٹس نے ہندوؤں میں اشتعال پیدا کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ سن 1800 میں پیدا ہونے والے گورے پندرہ سو سال پہلے کا تذکرہ اس طرح کر رہے تھے جیسے مندروں میں پوجا کرتے لوگوں کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

خیر! برٹش کا پلان کامیاب ہوتا ہے اور یہ رپورٹس کام کر جاتی ہیں۔ سن 1853 میں، پہلی مرتبہ ہندو بابری مسجد پر حملہ کرنے کے لیے پہنچ گئے مگر انہیں مسلمانوں کی طرف سے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انگریزوں کی لگائی چنگاری آگ پکڑ رہی تھی۔ جہاں ایک طرف انگریزوں نے ہندوؤں کو یہ بتایا کہ رام کی پیدائش بالکل اس مقام پر ہوئی جہاں مسلمان نماز ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کو یہ بتایا کہ ہنو مان گڑھی ایک مسجد کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔

خیر اس کا ذکر تو ’’تاریخ اَوَدھ‘‘ میں بھی ہے۔ ہنو مان گڑھی دراصل بابری مسجد سے کچھ ہی فاصلے پر تھی۔ اِدھر ہندوؤں کے دل جل رہے تھے اور اُدھر مسلمانوں میں لاوا پک رہا تھا اور پھر 1855 میں بڑا فساد ہو گیا۔ فائنلی، ہندوؤں کے ایک بڑے گروہ نے بابری مسجد پر حملہ کر دیا۔ لیکن اس بار مسلمان بھی پہلے سے تیار تھے۔ وہ بابری مسجد کے اندر شاہ غلام حسین کی سربراہی میں مورچہ بند تھے۔ بابری مسجد اور ہنو مان گڑھی کے درمیان مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے۔

ادھر انگریزوں کی فوج ایلگزنڈر آر اور فیض آباد کے کمانڈر جان ہرسی کی سربراہی میں کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ مسلمانوں کا گروہ ہندوؤں کو پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے ہنومان گڑھی کے دروازے تک پہنچ گیا تھا۔ اس وقت انگریزوں نے مداخلت کی اور شاہ غلام حسین کو سمجھایا کہ مسلم گروہ کو واپس پیچھے لے جائیں اور مسجد کے اندر محدود کرلیں۔ ہنومان گڑھی کا فیصلہ جلدی کر لیا جائے گا۔

حدیقۂ شہدا کے مصنف لکھتے ہیں کہ انگریز فوجی حکم ران کی بات مان کر مسلمان بابری مسجد کے اندر کھانا کھانے میں مشغول ہوگئے تو گوروں نے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔ گویا مسلمانوں پر حملہ کروانے کی پلاننگ تھی۔ اور یہی ہوا۔ تاریخ اَوَدھ میں مرزا اعلیٰ علی لکھتے ہیں کہ مسجد میں تین سو مسلمان تھے کہ اچانک دس سے بارہ ہزار بیراگیوں نے حملہ کر دیا۔ مسجد کا صحن مسلمانوں کے خون سے بھر گیا۔ اگلے روز اسی مسجد کے دروازے پر گڑھا کھود کر 75 لاشوں کو دفنایا گیا۔ صحن میں سنکھ بجایا گیا۔ پوجا پاٹ کی گئی۔ دراصل یہ فتح کا اعلان تھا۔

بابری مسجد سے قبضہ ختم کرانے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے مولوی امیر علی اگے بڑھے اور نواب واجد علی شاہ کے پاس جا پہنچے مگر جیسے کہ میں نے بتایا کہ انگریزوں کے سامنے نواب بے بس تھے۔ نواب صاحب نے بدلے کی یقین دہانیاں کرائیں مولوی امیر علی تو کچھ ہی دن بعد انگریز فوج کے ہاتھوں مارے گئے لیکن بابری مسجد بہرحال مسلمانوں کو واپس مل گئی۔

اب آپ کو اس واقعے سے تھوڑا پہلے لیکر چلتا ہوں۔ انگریزوں کی نشاندہی کے بعد ہندوؤں نے پہلے مسجد کے باہر ایک مقام کو رام جنم بھومی کہا تھا یہاں ایک چبوترا بنایا اور اسی پر پوجا کیا کرتے تھے لیکن بعد انگریزوں کی تحریوں سے پتہ چلا کہ رام کی پیدائش مسجد کے باہر نہیں بلکہ اندر ہوئی تھی، عین منبر کے مقام پر۔

خیر 1855 کے فساد کے دو سال بعد یعنی 1857 میں ایک ہندو نیہن بیگ سنگھ نے بیراگیوں کے ساتھ پھر مسجد پر قبضہ کر لیا اور عین ممبر کے مقام پر چبوترا بنا کر پوجا شروع کر دی اور مسجد کی دیواروں پر کوئلے سے رام رام لکھ دیا۔ مسجد کے مؤذن محمد اصغر نے مقدمے کے لیے درخواست دی تو اس وقت اتھارٹی حرکت میں آئی اور قابضین کو باہر نکال کر اندر بنایا گیا چبوترا منہدم کر دیا لیکن باہر والے چبوترے پر پوجا پاٹ جاری رہی۔

اس دوران انگریزوں نے بابری مسجد کے اندرونی اور بیرونی حصے کے درمیان ایک بارڈر لائن بنا دی۔ اس کا مقصد جھگڑا ختم کرنا نہیں۔ بلکہ بڑھانا ہی سمجھا جائے گا کیونکہ اگر فساد ختم کرنا ہوتا تو بارڈر لائن بنا کر مسجد کے باہر پوجا پاٹ کی اجازت نہ دی جاتی۔

بہر حال! اب اندر مسلمان نماز ادا کرتے اور باہر ہندو پوجا پاٹ۔ مسجد کے اندر سے جوں ہی اذان دی جاتی۔ باہر چبوترے پر ہندو سنکھ بجانے لگتے۔ یہ جھگڑا چلتا رہا۔ اب مسلمانوں کو خوف تھا کہ ہندو گروہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں کہیں قانون بابری مسجد ڈھانے کی اجازت نہ دے دے اسی لیے 1860 میں مسجد کے خطیب میر رجب علی نے باقاعدہ بابری مسجد کو رجسٹرڈ کرا لیا۔ تاکہ آگے جاکر قانونی جنگ میں فائدہ ہو سکے۔ اُدھر ہندو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے اور اب ان کا مطالبہ تھا کہ چبوترے کی جگہ باقاعدہ مندر بنا دیا جائے۔

سن 1883 میں۔ ایک پجاری رگھو بیر داس فیض آباد کی عدالت میں جج پنڈت ہری کشن کو درخواست دیتا ہے کہ پوجا کے دوران گرمی میں دھوپ اور سردی میں ٹھنڈ نے انہیں پریشان کر رکھا ہے اسی لیے وہ چبوترے کی جگہ پر ایک مندر بنانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو سال پہلے انہوں نے ڈپٹی کمشنر فیض آباد کو بھی درخواست دی مگر انہوں نے اجازت نہیں دی تھی۔ جواب میں جج پنڈٹ ہری کشن بڑی دانشمندی سے کام لیتے ہیں اور ریمارکس دیتے ہیں کہ جس جگہ مندر بنانے کی اجازت مانگی جا رہی ہے اسی مقام پر مسجد کی دیوار پر اللہ لکھا ہے اور ساتھ ہی پانچ وقت اذان ہوتی ہے، مندر کی تعمیر کے بعد سیکڑوں ہندو روزانہ یہاں پہنچیں گے اور مسجد میں نمازیوں کا راستہ بھی ایک ہی ہے، خوف ہے کہ فساد میں ہزاروں جانیں ضائع ہو سکتی ہے۔ اسی لیے درخواست رد کی جاتی ہے۔

لیکن ہندوں نے ہمت نہیں ہاری۔ کچھ سالوں بعد پھر عدالت پہنچ گئے۔ اس بار درخواست دی گئی کہ مسجد کے باہر باؤنڈری وال پر ایک اور دروازہ بنایا جائے۔ تاکہ میلے کے دوران دو الگ الگ اینٹرنس اور ایگزٹ ڈور ہوں۔ مسجد کے مؤذن نے جواباً درخواست دائر کی کہ اگر دروازہ بنایا جائے تو چابی ہمارے حوالے کی جائے، میلے کے دوران مسجد انتظامیہ وہ دروازہ کھول دے اور بعد میں تالہ لگا دے، مگر ایسا نہ ہوا۔ بلکہ ہندوؤں کو دروازہ لگا کر ایک اور اینٹرینس فراہم کر دیا گیا۔

اسی دور میں برٹش حکم ران اپنے ڈپٹی کمشنر پی کارنیگی سے اس سارے مسئلے پر ایک رپورٹ بنا کر پیش کرنے کا کہتے ہیں، بظاہر یہ معاملہ نمٹانے کے لیے تھا لیکن دراصل برٹش گورنمنٹ ایک تحریری ثبوت چاہتی تھی جس سے یہ ثابت ہو کہ بابری مسجد رام جنم بھومی توڑ کر بنائی گئی۔ اب ڈپٹی کمشنر پی کارنیگی سروے کرتے ہیں۔ سب معلوم کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرتے ہیں کہ مقامی لوگوں نے یہ یقین دلایا ہے کہ بابر کے دور میں مسلمانوں کے حملے کے وقت یہاں تین مندر تھے۔ جنم استھان، سورگ دوار اور تریتا کا ٹھاکر مندر۔ وہ رپورٹ میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ تزک بابری میں یعنی جو ظہپر الدین بابر نے خود لکھی اس میں کہیں بھی بابری مسجد کا ذکر نہیں کیا۔ مگر برٹش ڈپٹی کمشنر ساتھ میں یہ لکھ کر شک پیدا کر دیتے ہیں کہ ’’تزک بابر‘‘ کے کچھ صفحے موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں بابر کے اجودھیا آنے کا ذکر ہو۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ رام جنم بھومی ہنومان گڑھی سے چند سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ ڈپٹی کمشنر 1855 والے جھگڑے کا ذکر کر کے الٹا مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے رام جنم بھومی پر قبضہ کیا۔

خیر! یہ معاملہ نرم گرم چلتا رہتا ہے۔ اب آ جائیے 1934 میں۔ ایودھیا کے شاہ جہاں پور گاؤں میں ایک گائے ذبح کی جاتی ہے۔ بس پھر کیا۔ پورے ہی ایودھیا میں فساد پھوٹ پڑتا ہے۔ اِدھر تاک میں بیٹھے مشتعل سازشیوں کو دوبارہ بابری مسجد پر حملہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بار وہ مسجد کا گنبد توڑ دیتے ہیں۔ جسے بعد میں برٹش گورنمنٹ نے دوبارہ تعمیر کروایا۔

اب سارے ہی ایودھیا میں مسجد کو مندر میں بدلنے کی باتیں گردش کرنے لگتی ہیں مگر اس وقت یہ پلان ناکام ہوتا ہے کیونکہ اب آگیا تھا سن 1947 اور ہندوستان دو لخت ہو گیا۔

پہلے برٹش، ہندو مسلم فساد پر سیاست کرتے رہے۔ اب خود ہندوستانیوں نے انگریزوں کے سکھائے اس گُر کو آگے بڑھایا یا یوں کہہ لیجیے کہ سرزمین تو انگریزوں سے آزاد ہوئی مگر ہندوستان کے حکم رانوں کے ذہن گوروں ہی کے غلام تھے۔ کیونکہ آزادی کے دو سال بعد ہی وہ ہوا جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا۔

22 دسمبر 1949 کی رات، چبوترے پر پوجا کرنے والے ایک ہندو ابھے رام نے اپنے چیلے کے ساتھ مسجد میں خاموشی سے مورتی رکھ دی اور اگلی صبح مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات کیے کہ مسجد میں رام للا بھگوان پرکٹھ ہوئے ہیں، ہندو درشن کے لیے آ جائیں اور ہزاروں ہندو درشن کے لیے آ بھی گئے۔ پھر اس مجمع پر ہوئی سیاست۔ ہندوؤں نے مورتی نکالنے سے انکار کر دیا اور پہلی بار صدا لگائی گئی کہ اب یہاں شِری رام کا مندر بنے گا۔ مسجد کے باہر قبروں پر نو روز تک پوجا پاٹ ہوتی رہی مخالفین نے مجمع سے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں ایک بھی مندر نہیں تو یہاں مسجد اور قبرستان کیوں؟ اجودھیا سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا ہوگا اگلے ہی روز سُنی وقف بورڈ ایکٹیو ہوا اور شکایت کی کہ مسجد میں رام للا کی پیدائش نہیں ہوئی۔ ہندوؤں نے خود ہی خاموشی سے مورتی رکھی ہے۔

اب ایک بار پھر ہندو مسلم فساد شروع ہونے جا رہا تھا۔ مسلمان مورتی کو باہر نکال کر مسجد ہندوؤں کے قبضے سے واپس لینا چاہتے تھے تو جواب میں ہندو مقدمہ دائر کرتے ہیں کہ بابری مسجد میں رام کی پیدائش ہوئی ہے اور ہندو یہاں پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ مگر مسلمان اور ضلعی حکام رکاوٹ ڈالتے ہیں، انہیں روکا جائے۔ اس مقدمے کے اگلے روز یعنی 17 جنوری 1950 کو گاندھی جی کے ایک چاہنے والے اکشے برہمچاری یہ سب دیکھ کر غصے میں آئے اور انہوں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ سب یو پی کے وزیر داخلہ کو ایک خط کے ذریعے بتایا۔ انہوں نے لکھا کہ مسجد میں مورتی رکھوانے میں خود وہاں کا مجسٹریٹ انوولو تھا۔ کیونکہ جب وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ مسجد میں پہنچے تو مورتی کے پاس صرف چند لوگ تھے اور اس وقت وہاں سے مورتی کو آسانی سے ہٹایا جا سکتا تھا اور لوگوں کو بھی بھگایا جا سکتا تھا۔ مگر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ایسا نہیں کیا۔

صورتحال بگڑتی جا رہی تھی۔ ایسے میں گورنمنٹ ایکشن لیتی ہے اور بابری مسجد کو تالا لگا دیتی ہے۔ لیکن باہر والا پورشن یعنی جو ہندوؤں کے پاس تھا وہ پوجا پاٹ کے لیے کھلا رہتا ہے۔ اب ہندو باہر سے ہی رام للا کی مورتی کے درشن کر رہے تھے اور ساتھ میں احتجاج کر رہے تھے کہ رام للا کو جیل میں کیوں بند کیا گیا۔

اب بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور وزیر داخلہ ولاب بھائی پٹیل یو پی کے سی ایم گوند بھلاب کو مسجد سے مورتی نکالنے کا حکم دیتے ہیں مگر سی ایم جب ڈپٹی کمشنر کے کے نائر کو ہدایت فارورڈ کرتے ہیں تو وہ انکار کر دیتے ہیں اور زور دینے پر عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں مگر مورتی نہیں ہٹاتے۔

اِدھر مسلمانوں کی طرف حکومت پر مورتی باہر نکالنے اور مسجد کے اندر پوجا سے روکنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا تھا، جس پر حکومت مسجد کے اندرونی حصے کے ساتھ باہر والا حصہ بھی سیل کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود چبوترے پر پوجا پاٹ کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

اب 1950 کے جنوری میں ہی وہاں کا ایک پجاری شری گوپال سنگھ ویشارد فیض آباد کے سول جج کی عدالت میں کیس دائر کرتا ہے کہ ہندوؤں کو رام جنم بھومی میں جانے سے روکا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہندو اس مقام پر ہمیشہ سے پوجا کرتے آئے ہیں۔ مگر ڈپٹی کمشنر جے۔ ان۔ اوگرا اور ایس پی کرپال سنگھ عدالت کو بتاتے ہیں کہ مدعی جھوٹا ہے۔ وہ بابری مسجد ہے اور ہمیشہ سے وہاں نماز ہوتی آئی ہے۔ اس کے باوجود جج اپنے فیصلے میں ریمارکس دیتے ہیں کہ چونکہ وہاں مورتی موجود ہے لہذا پوجا بھی ہوتی رہی ہوگی۔ سمپل یہ کہ فیض آباد کے جج مورتی ہٹانے کا حکم نہیں دیتے یعنی جگہ سیل رہے گی، نہ پوجا ہوگی نہ نماز۔

لیکن ہندو مسلم دونوں چین سے نہیں بیٹھتے۔ مسلمانوں کی طرف سنی سینٹرل وقف بورڈ اور ہندوؤں کی مندر بنانے والی تنظیم نرموہی اکھاڑہ سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں۔ اب معاملہ کورٹ میں لٹکا ہوا تھا۔ اور سیاست عروج پر تھی۔ جی ہاں! 1985 کے الیکشن میں صرف دو سیٹیں جیتنے والی بے جی پی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اپنے مینیفیسٹو میں شامل کر لیتی ہے۔ اب انتہا پسند ہندوؤں کی تینوں تنظیمیں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مل کر بھارت بھر میں جلوس جلسے ریلیاں نکال رہے تھے۔

1989 کا الیکشن سر پر تھا۔ ایک طرف یہ انتہا پسند ہندوؤں کی تنظیمیں تھیں تو دوسری طرف ووٹ بینک بچانے کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی ایک چال چلتے ہیں۔ اور راتوں رات اچانک بابری مسجد کے باہر والا حصہ یعنی مندر کو پوجا پاٹ کے لیے کھولنے کی اجازت ہائی کورٹ سے مل جاتی ہے اور اوپننگ کو باقاعدہ لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔ راجیو گاندھی کو تو رام مندر پر سیاست کا کچھ خاص فائدہ نہ ہوا لیکن بی جے پی دو سے سیدھا پچیاسی سیٹوں پر آ گئی اور یہی نہیں پہلی بار ایک ہندو نظریاتی جماعت گاندھی کے سیکولر بھارت کا اقتدار سنبھال لیا۔

بے جے پی کی حکومت بنتے ہی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تحریک تیز ہو گئی اور یہی وہ تحریک ہے جہاں سے اس شخص کی سیاست کا آغاز ہوا جس نے بھارت کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ جی ہاں ہم بات کر رہے نریندر سنگھ مودی کی۔

ہوا کچھ یوں کہ الیکشن کے صرف ایک سال بعد وشوا ہندو پریشد یعنی وی ایچ پی کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کے آغاز کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پھر کیا تھا ملک بھر سے ساڑھے تین لاکھ ہندو اینٹوں پر رام لکھ کر مسجد کے مقام پر لاتے ہیں۔ بی جے پی رَتھ یَاترا کا اعلان کرتی ہے جس کی کمان مودی کے ہاتھ میں تھی۔

گجرات کے سومناتھ مندر سے 10ہزارکلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے ایودھیا پہنچنا تھا۔ اب یہ ریلیاں جہاں سے گزر رہی تھیں وہاں جھگڑے فساد ہو رہے تھے۔ اکتوبر 1990 میں ریلی بِہار پہنچتی ہے تو لالو پرساد یادیو کی حکومت بہار حکومت لال کرشنا ایڈوانی کو گرفتار کر لیتی ہے۔ لالو پرساد بی جے پی کے لیڈرز کو سمجھاتے ہیں کہ آپ کی یاترا کی وجہ سے کئی لوگ مارے جا چکے ہیں، اسی لیے یاترا کو بہار میں ہی ختم کر دیں۔

مگر لالو پرساد اکیلے نہیں ادھر دلی میں بے جے پی کی حمایت سے وزیر اعظم بننے والے وی پی سنگھ کا بھی یہی مؤقف ہے۔ مگر بے جے پی کے لیے رام مندر کی تعمیر پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں تھا ان کی تو ساری کی ساری سیاست ہی رام مندر کی بنیادوں پر کھڑی تھی۔ بے جے پی نے فیصلہ کر لیا حکومت جاتی ہے تو جائے مگر رام مندر بن کر رہے گا۔ بی جے پی نے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا اور پھر انڈیا کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کا تختہ ’’نو کانفیڈنس موشن‘‘ کے ذریعے پلٹ دیا گیا۔ بے جے پی اب حکومت میں نہیں بلکہ سڑکوں پر تھی۔

رتھ یاترا جاری تھی، ایودھیا جل رہا تھا، بھارت بدل رہا تھا۔ ہزاروں افراد نے بند بابری مسجد کا محاصرہ کر لیا۔ گنبد پر جھنڈا لگانے کی کوشش کی گئی تو تصادم ہو گیا۔ پولیس کی فائرنگ سے تیس سے زیادہ کارکن مارے گئے۔ یہاں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ بھی ہوا۔ ایک بندر بھی جھںڈا لیکر گنبد پر چڑھا نظر آیا۔ جسے بے جے پی کے کارکنوں نے بھگوان کا نام دے دیا اور پھر شاید اسی بھگوان کے کرپا سے 1991 کے الیکشن میں بی جے پی کی سیٹوں میں پچاس فیصد اضافہ ہو گیا۔ صرف 10 سال پہلے بننے والی پارٹی ہندوستان بنانے والی کانگریس کے سامنے کھڑی تھی۔ اور اس پارٹی کے کریڈٹ پر نہ کوئی ایجوکیشنل ریفارمز تھیں نہ اکنامک پالیسیز ان کے پاس صرف ایک نعرہ تھا۔

سیکولر بھارت میں ہندتوا کا نعرہ پوری قوت سے گونج رہا تھا اور پھر بے جے پی نے دلی میں تو نہیں لیکن بھارت کے دل یعنی یو پی میں حکومت بنالی۔ کلیان سنگھ وزیراعلیٰ بنتے ہی ایودھیا پہنچ کر بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ یہ نعرے اقتدار تک تو لے ائے تھے مگر اب وقت تھا پریکٹیل اقدامات کا۔ سی ایم کلیان سنگھ سب سے پہلے مسجد والا دو اعشاریہ سات سات ایکڑ کا ایریا گورنمنٹ کے انڈر لے لیتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اسے گورنمنٹ ٹورزم پروموٹ کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہے مگر پھر یہ زمین وی ایچ پی کے ٹرسٹ رام جنم بھومی نیاس کو لیز کر دی جاتی ہے۔

مسلم گروپ کی ہائی کورٹ میں درخواست کے بعد کورٹ اسٹے دے دیتا ہے۔ لیکن حکومت بی جے پی کی تھی۔ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلتا تو انگلی ٹیڑھی کی جاتی ہے اور پھر آر ایس ایس، بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل۔ تمام انتہا پسند ہندو تنظیمیں مل کر مسجد کو گرانے کا پلان بناتی ہیں۔ اور اعلان کیا جاتا ہے کہ چھ دسمبر 1992 کو کرسیوک یعنی بابری مسجد کے باہر مندر کے مقام پر عبادت اور جلسہ ہوگا۔ اور پورے ہی ہندوستان سے انتہا پسند ہندو تنظیموں کے فالوورز ہزاروں کی تعداد میں ایودھیا کی بابری مسجد پہنچ رہے تھے۔

جلسے سے خطاب میں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن ایڈوانی لوگوں کو اکساتے ہیں کہ یہاں مندر بنانے کی اجازت نہیں لیکن کم از کم بیٹھنے کا انتظام تو ہونا چاہیے۔ مسجد کا فرش ٹوٹا پھوٹا ہے، نوکیلے پتھروں پر کیسے بیٹھا جائے اسے توڑ کر برابر کرنا چاہیے۔ ادھر یہ اشتعال انگیز تقریریں ہو رہی تھیں ادھر کارکن بابری مسجد کی طرف بڑھتے ہیں اور تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹوں میں مسجد کے تمام حصے گرا دیتے ہیں، اور وہاں مورتیاں رکھ کر ٹینٹ لگا کر مندر بنا دیتے ہیں۔

ظاہر یہ کیا جاتا ہے جیسے کارکنوں نے مشتعل ہو کر مسجد گرا دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانچ گھنٹوں کے دوران نہ پولیس انہیں روکنے پہنچی اور نہ خود وہاں موجود لیڈرز نے کارکنوں کو منع کیا۔ البتہ واقعے کے ایک گھنٹے کے بعد یو پی کے سی ایم کلیان سنگھ مستعفی ہو جاتے ہیں اور یوپی میں صدارتی نظام نافذ کر دیا جاتا ہے۔

مگر ایودھیا میں لگنے والی اگ نے پورے بھارت کو لپیٹ میں لے لیا تقریباً دو ہزار لوگوں کی جان گئی اور پھر خاموشی ہو گئی۔

پانچ سو سال سے کھڑی بابری مسجد کے ساتھ ساتھ بھارت کا سیکولر امیج بھی ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ اور اگلے الیکشن میں بے جے پی بھارت کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔2003 ا گیا رام مندر کا تنازع تیسری صدی میں داخل ہو چکا تھا۔ الہ اباد ہائی کورٹ ایکٹیو ہوتی ہے اور GPR یعنی گراؤنڈ پینیٹریٹنگ ریڈار کے ذریعے آرکیلوجیکل سروے شروع کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ ہر جگہ گڑھا کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ الیکٹرو میگنیٹنگ ویو کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے کہ زمین کے اندر کچھ یا نہیں۔ پھر کھدائی کی جاتی ہے۔ مگر حیران کن طور پر کورٹ آرڈر ہونے کے باوجود جس مقام پر مسجد کا منبر تھا، یعنی جہاں چپکے سے رام للا مورتی رکھی گئی تھی۔ وہاں کھدائی سے منع کر دیا جاتا ہے اگرچہ جی پی آر میں کچھ بھی آئے۔

خیر! رپورٹ تیار ہو گئی۔ کہا گیا کہ بابری مسجد کی کھدائی سے ایک اسٹرکچر ملا ہے، جسے اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بابری مسجد کو خالی زمین پر نہیں بنایا گیا۔ مطلب یہاں پہلے کچھ تعمیر تھا۔ رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں کی جاتی ہے کہ بابری مسجد رام مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی کہ نہیں۔ حیران کن طور پر 2010 میں ہائی کورٹ یہ مان لیتا ہے کہ یہاں رام للا کا جنم ہوا تھا اور بابری مسجد کے نیچے کوئی اسلامی اسٹرکچر نہیں ملا۔

فیصلے میں بابری مسجد کا مرکزی حصہ رام للا کو دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ باہر چبوترے والا حصہ ہندوؤں کی دوسری تنظیم نرموہی اکھاڑہ کو مل جاتا ہے اور بچا ہوا کچھ حصہ سنی وقف بورڈ کو مل جاتا ہے۔

اب اگلے ہی سال ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاتا ہے مگر چھ سال تک سماعت ہی شروع نہیں ہوتی۔ پھر 2017 میں سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیتا ہے۔ بھارت کی تاریخ کی سب سے بڑی طویل چالیس روز تک سماعت چلتی ہے۔

جیسے کہ میں نے آپ سے شروع میں کہا تھا کہ ہزاروں سال پہلے آنے والے رام کی پیدائش کے مقام کی 1800 میں پیدا ہونے والے انگریزوں نے نشاندہی کی اور اس وقت انگریزوں کے گیزٹس کو پیدائشی سرٹیفکیٹ کے طور پر پیش کیا گیا بالکل اسی طرح اس وقت بھی سپریم کورٹ میں انہی انگریزوں کی رپورٹس کو ثبوت کے طور پر ایکسیپٹ کر لیا گیا۔ پھر کہا گیا کہ آرکیولوجیکل رپورٹ کے مطابق مسجد خالی زمین پر نہیں بنی یعنی سنی وقف بورڈ کا مؤقف غلط ہے۔ اور پھر اسے بھی دلیل کے طور پر تسلیم کیا گیا کہ مسلمانوں نے 1949 سے مسجد میں عبادت نہیں کی جبکہ ہندو مسلسل پوجا کر رہے تھے اور ہاں! کئی پجاریوں کی گواہی بھی لی گئی کہ رام للا کی پیدائش کہاں ہوئی تھی۔

ان بنیادوں پر سپریم کورٹ نے فیصلے میں پوری 2.77 ایکڑ کی زمین رام للا وراجمان کو دے دی جبکہ سنی وقف بورڈ کو مسجد بنانے کے لیے دوسرے مقام پر 5 ایکڑ زمین الاٹ کر دی گئی۔

1980 میں بننے والی جماعت بی جے پی رام مندر کے نعرے کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آئی۔ اور رام مندر بن بھی گیا۔ مگر اب بی جے پی کا کیا ہوگا؟ اب بی جے پی کون سا متنازع نعرہ لگا کر ہندو کارڈ پلے کر کے اپنی سیاست جاری رکھے گی؟ یہ آپ کمنٹس میں ضرور بتایئے گا۔

شیئر

جواب لکھیں