10 ہجری، ربیع الاول کا مہینہ۔ مدینے میں کہرام برپا ہے۔ نبوت کی کتاب کا آخری چیپٹر تمام ہو چکا تھا۔ صحابہ کو یقین نہیں آ رہا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں کیسے چھوڑ کے جا ہیں؟ بڑے بڑے نام ہوش کھو رہے ہیں۔ مگر پھر عام طور پر خاموش رہنے والے حضرت ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اور سورۂ آل عمران کی آیت 144 تلاوت فرمائی۔

Raftar Bharne Do

ترجمہ: محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، ان سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جز ا دے گا۔

صحابہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یوں لگا جیسے یہ آیت آج پہلی بار سنی ہو۔ حضرت عائشہؓ نے اس وقت کی صورت حال کو کچھ یوں بیان کرتی ہیں:

امت کا حال اس بکری کے جیسا تھا جو اپنے ریوڑ سے بچھڑ گئی ہو اور اندھیری رات اور شدید بارش میں کسی بیابان میں اکیلی کھڑی ہو.

تدفین کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ اچانک حضرت عمرؓ کے کان میں کسی نے سرگوشی کی کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی جانشینی کے حوالے سے مشورے کر رہے ہیں۔

ایک طرف اپنے حبیبؐ کا جنازہ تھا اور دوسری طرف پوری امت کے مستقبل کا فیصلہ۔ حضرت عمرؓ جانتے تھے کہ اس وقت کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ دل پر پتھر رکھا، ابوبکر کا ہاتھ تھاما اور سقیفہ کی طرف چل دیے۔

سقیفہ بنی ساعدہ میں کیا ہوا؟ اور وہاں سے شروع ہونے والی اسلامی نظام حکومت کی ڈیڑھ ہزار سالہ کہانی میں کیسے کیسے موڑ آئے؟ یہ سب ہم آپ کو بتائیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اسلامی نظام حکومت دراصل ہے کیا؟

ہم ایمانداری اور محنت کے ساتھ پوری کوشش کرتے ہیں کہ نہ صرف سوسائٹی کے نوجوان دماغوں میں اٹھنے والے سوالات کو ڈسکس کریں بلکہ انہیں وہ تمام معلومات بھی دے سکیں جس سے وہ خود اپنے جوابات ڈھونڈ پائیں۔

سقیفہ میں کیا ہوا؟

ڈاکٹر محمد حمید اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا ارادہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی تدفین تک معاملہ مؤخر کروا دیں گے مگر سقیفہ بنی ساعدہ میں صورتحال مختلف تھی۔

انصار نے خلافت پر اپنا حق جتایا اور اپنے حق میں دلائل پیش کرنے لگے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ کہا کہ اگر خلیفہ قریش میں سے نہ ہوا تو اسے عرب میں وہ مقام حاصل نہیں ہوگا، جو اس عہدے کا حق ہے۔ انصار نے مشترکہ اقتدار کی تجویز پیش کی یعنی ایک خلیفہ انصار کا اور ایک مہاجرین کا۔ یہ تجویز مسترد ہوئی تو کہا گیا کہ ایک دفعہ خلیفہ انصار سے بنایا جائے اور ایک دفعہ مہاجرین میں سے۔ اس پر خود انصار میں اتفاق نہ ہوا۔

قریب تھا کہ انتشار بڑھ جاتا کہ انصار ہی میں سے ایک شخص نے اٹھ کر رسول اللہ ﷺ کا قول پیش کیا کہ ’’الائمۃ من القریش‘‘ یعنی سردار قریش میں سے ہی ہوں گے۔

اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کے نام تجویز کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے سامنے یہ دو نام رکھتا ہوں، آپ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرلیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ کھڑے ہو گئے اور کہا میں اس قابل نہیں بلکہ ابوبکرؓ اس منصب کے لیے موزوں ترین ہیں اور میں اِن کی بیعت کرتا ہوں۔ اس کے بعد سب سے پہلے انہوں نے خود اور پھر انصار نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کی۔ یوں خاتم النبیین ﷺ کے بعد عالم اسلام کے پہلے خلیفہ کا انتخاب ہو گیا۔

حضرت عمرؓ کی خلافت

رسول اللہ کی جدائی اور پھر خلافت کے بیک ٹو بیک چیلنجز نے حضرت ابوبکرؓ کو بیمار کردیا۔ جب بیماری زیادہ بڑھی تو انہوں نے ایک وصیت لکھوائی جس میں انہوں نے اپنے بعد حضرت عمرؓ کو دوسرا خلیفہ نامزد کر دیا۔ اور پھر صرف سوا دو سال کی خلافت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کا انتقال ہو گیا۔

امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کا سنہرا دور شروع ہوا۔ حضرت عمرؓ کا دور مسلمانوں کے لیے ہر لحاظ سے گیم چینجر تھا۔ ایڈمنسٹریشن سے لے کر انصاف اور اکانمی سے لے کر فتوحات تک حضرت عمرؓ نے جہاں نظر ڈالی ایک نئی تاریخ بنا ڈالی۔

پھر ایک دن حضرت عمرؓ پر ابولولو فیروز نامی غلام نے حملہ کر دیا۔ جب اپنے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو آپ نے عشرہ مبشرہ میں سے موجود سات صحابہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی۔ اس کا مینڈیٹ تھا اگلے مسلم خلیفہ کا انتخاب کرنا۔

مگر ذرا ٹھہریے اور دل تھام کے عمر کے اس اگلے قدم کو دیکھیے۔

زخمی ہیں، خون بہہ چکا ہے، غشی کا عالم ہے مگر انصاف پر گرفت مضبوط ہے۔ ہدایت دیتے ہیں کہ کمیٹی میں شامل سعید بن زید خلافت کے امیدوار نہیں ہوں گے۔ وجہ؟ کیونکہ وہ حضرت عمر کے بہنوئی ہیں اور عمر کا کوئی رشتے دار خلافت کا امیدوار نہیں ہو سکتا۔

فاروق نے فیصلہ سنا دیا، اصول طے کردیا کہ اسلامی ریاست میں نیپوٹ ازم اور اقربا پروری نہیں چلے گی، ایک خاندان سے دو حکمران نہیں آئیں گے۔

صحابہ کی کمیٹی بیٹھی، چھ میں سے چار نام خلافت سے دستبردار ہوگئے اور بات رسول اللہ کے دونوں دامادوں پر آ کر ٹھیر گئی، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ۔ پھر کمیٹی نے فیصلہ کرنے کا اختیار حضرت عبد الرحمانؓ بن عوف کو سونپ دیا۔ انہوں نے کئی دن تک رائے عامہ کا اندازہ لگانے کے بعد حضرت عثمانؓ کے حق میں فیصلہ کر دیا۔

حضرت عثمانؓ کی خلافت

حضرت عثمانؓ کا دورِ خلافت تمام خلفا میں سب سے زیادہ طویل تھا جو کم و بیش بارہ سال پر محیط رہا۔ حضرت عثمانؓ کے کردار، صداقت اور امانت پر اُن کے مخالفین نے بھی کبھی انگلی نہیں اٹھائی تاہم آپ کے کچھ سیاسی فیصلے ضرور تاریخ میں موضوعِ بحث بنے رہے۔

اُن کے دور میں بہت سی تقرریاں اور فیصلے ایسے ہوئے جن کی رسول اللہ اور شیخین کے ادوار میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں عراق، شام مصر سمیت تمام اہم ترین صوبوں میں بنو امیہ کے افراد گورنر لگ گئے اور یہی نہیں بلکہ جس کی جہاں پوسٹنگ ہوتی وہ وہیں کا ہو جاتا۔

حضرت خالدؓ بن ولید اور عمروؓ بن عاص جیسے بڑے صحابہ کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے والی ریاست اب مروان بن حکم جیسے انتہائی متنازع کرداروں کے سامنے بے بس نظر آ رہی تھی۔

بے چینی بغاوت میں بدل گئی۔ پھر باغیوں کا ایک گروہ مصر، بصرہ اور کوفہ سے چل کر مدینے میں داخل ہو گیا۔ مطالبہ تھا حضرت عثمانؓ کی معزولی۔ انہوں نے پہلے حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ مگر تینوں کی جانب سے مایوس کن جواب ملنے پر خلیفہ کی رہائش گاہ کا رخ کیا اور محاصرہ کر لیا۔

چالیس دن کے محاصرے کے بعد باغی گروہ حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہو گیا۔ آپ کی توہین کی گئی، اذیتیں دی گئیں اور بالآخر شہید کر دیا گیا۔

اس عثمانؓ ابن عفان کو شہید کر دیا گیا جو سابقون الاولون میں سے تھے، داماد نبی تھے، جن سے فرشتے حیا کرتے تھے، جن کے ایمان پر اور کردار کی بلندی پر مخالفین کو بھی شبہ نہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کو اس وقت شہید کیا گیا جبکہ آپ روزے سے تھے اور قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔

حضرت عثمانؓ کی سیاسی حکمت عملی ٹھیک تھی یا غلط؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے تاریخ موجود ہے۔ لیکن دو باتیں بالکل واضح ہیں

ایک تو یہ کہ حضرت عثمانؓ نے جان دے دی مگر ایک گروہ کے کہنے پر خلافت نہیں چھوڑی کیونکہ اگر یہ مثال قائم ہوجاتی تو آئندہ کوئی بھی حکومت نہ کر پاتا۔ دوسرا یہ کہ حضرت عثمانؓ نے خود شہادت قبول کی مگر مسلمانوں پر مسلمانوں کی تلوار کو نہیں اٹھنے دیا اور مدینۃ النبی کا تقدس قائم رکھا۔

حضرت علیؓ کی خلافت

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مدینے والوں نے حضرت علیؓ سے خلافت سنبھالنے کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کرلی۔

حضرت علیؓ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ بن گئے۔ خلافت خاندانِ بنو ہاشم میں آ گئی مگر اس حال میں کہ تقریباً آدھی سلطنت پر بنو امیہ کے حضرت معاویہؓ کی حکومت تھی۔ وہ معاویہؓ جو حضرت علیؓ کا کوئی حکم ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اُن سے جو کہا جاتا، ایک ہی جواب ہوتا۔ پہلے میرے بھائی عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا دی جائے پھر کوئی اور بات ہوگی۔

پھر مسلمانوں کی آپسی جنگ کا ایسا دردناک چیپٹر شروع ہوا جو اج تک کلوز نہیں ہو سکا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین مسلم ہسٹری کی وہ ٹریجیڈیز ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی روح کانپ جاتی ہے۔ ‏73 ہزار مسلمان مسلمانوں ہی کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ جیسے بڑے ناموں سمیت سینکڑوں صحابہ شہید ہوئے۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پڑتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ کون حق پر تھا اور کون غلط اس کا فیصلہ اللہ کے نبیؐ اپنی زندگی میں ہی کر چکے تھے۔

رسول اللہ نے عمار ابن یاسرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ اے عمار! تجھے مسلمانوں کا ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (صحیح بخاری: 447)

جنگ صفین میں حضرت عمارؓ امیرالمومنین حضرت علیؓ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

حضرت علیؓ کا پونے پانچ سال کا دور مسلسل انتشار اور افراتفری کا شکار رہا۔ جمل اور صفین کے بعد 38 ہجری میں آپ کو خوارج کے خلاف جنگِ نہروان بھی لڑنا پڑی۔ مملکت کمزور ہوتی گئی، انتشار بڑھتا گیا اور پھر 21 رمضان المبارک 40 ہجری کو ایک خارجی عبدالرحمان ابن ملجم نے آپ کو شہید کر دیا۔

اس کے بعد امت مسلمہ زوال در زوال کا شکار ہوتی چلی گئی۔

حضرت علیؓ کے بعد لوگوں نے آپ کے بڑے صاحبزادے امام حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن سلطنت اُن کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ امیر معاویہؓ حضرت حسنؓ کے مقابلے پر لشکر لے کر نکلے تو آپ نے چند شرائط پر اُن سے صلح کر لی اور حکومت امیر معاویہؓ کے حوالے کر دی۔ ان میں اہم ترین شرط یہ تھی کہ امیر معاویہؓ اپنے بعد کسی کو جانشین نامزد نہیں کریں گے۔

یوں چھ ماہ سے بھی کم عرصے قائم رہنے والی حضرت حسنؓ کی خلافت کے بعد خلافت کا ادارہ عملاً بالکل ختم ہو گیا۔ اسی کے ساتھ خلافت کے تیس سال بھی پورے ہو گئے جس سے رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث بھی سچ ثابت ہوئی کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت رہے گی، پھر بادشاہت ہوگی۔ (جامع ترمذی: 2226)

خلافت سے ملوکیت

حضرت امیر معاویہؓ نے سلطنت کو مزید توسیع دی اور سیاسی اور فوجی اعتبار سے مضبوط کیا۔ مگر بد قسمتی سے وہ شرط پوری نہ ہو سکی جس کا معاہدہ حضرت امام حسنؓ سے کیا گیا تھا۔ امیر معاویہؓ نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کر دیا اور اس کے لیے لوگوں سے بیعت بھی لینا شروع کر دی۔

جس اصول پر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین قائم رہے تھے، وہ اصول بھلا دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کی خلافت، خاندانی بادشاہت میں تبدیل ہو گئی جس میں حکمران کے انتخاب میں عوام کا کوئی عمل دخل نہ تھا اور ہر بادشاہ مرنے سے پہلے اپنے بھائی یا بیٹے کو اگلا حکمران نامزد کر جاتا تھا۔

حضرت معاویہؓ کے بیٹے یزید کا تین سالہ دور شاید اسلامی تاریخ کا سیاہ ترین دور ہوگا۔ جب کربلہ، حرّہ اور کعبے پر حملے جیسے افسوسناک واقعات پیش آئے۔

یزید کے بعد کچھ عرصے کے لیے اس کا بیٹا معاویہ اور پھر مروان بن حکم حکمران بنے اور پھر سلطنت مروان کے بیٹے عبدالملک بن مروان کو منتقل ہو گئی۔ اس نے اپنے دور میں حجاج بن یوسف کو مکے پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ مقدس شہر کا محاصرہ کر لیا گیا، مکے والوں کا کھانا پینا بند کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خانہ کعبہ پر سنگ باری کی گئی جس سے کعبے کی دیواروں کو نقصان پہنچا اور حجر اسود تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ پھر عبداللہ بن زبیر کو شہید کر کے ان کی لاش سولی پر لٹکا دی گئی، جو کئی دن تک وہیں لٹکی رہی۔

رسول اللہ ﷺ کے نواسے کے بعد بنو امیہ نے خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکرؓ کے نواسے کا خون بھی بہا دیا۔

خلافت تو حضرت علیؓ کی شہادت کے ساتھ ہی بادشاہت میں بدل گئی تھی، مگر اگلے 90 سالوں میں جس طرح اسلامی روایات، قوانین اور اقدار کا جنازہ نکالا گیا۔ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تمام اہم عہدے اب رشتے داروں کے لیے مختص تھے۔ قانون صرف کمزور کے لیے اور انصاف صرف طاقتور کے لیے تھا۔ حکمران بیت المال کو اپنا ذاتی خزانہ سمجھتے تھے۔ باڈی گارڈ اور پروٹوکول کے عادی تھے۔ یہی نہیں۔ اس دور میں صحابہ کرام کو بھی شہید کیا گیا، محدثین اور فقہا کو ذلیل کیا گیا۔ یوں خلافت راشدہ کے ملبے پر ایک سفاک، بے رحم، ظالم اور عیاش بادشاہت کی بد نما عمارت تعمیر ہو گئی۔

مگر، بنو امیہ کے اس تاریک دور میں ایک حکمران ایسا بھی آیا جس نے کچھ عرصے کے لیے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی۔ بس افسوس کہ اُن کا دور حکومت صرف تین سال تھا۔ پہچان تو آپ گئے ہوں گے۔ ہم بات کر رہے ہیں عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی۔

کرپشن عیاشی اورظلم کے اس دور میں انہوں نے عدل، رحم دلی اور سادگی کی ایسی مثال قائم کی کہ لوگ انہیں عمر ثانی کے نام سے یاد کرنے لگے۔ اُن کے اقتدار کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے predecessor سلیمان کے بھائی یا بیٹے نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے اقتدار اپنے بھائی یا بیٹوں کو منتقل کیا۔

بنو امیہ اپنی کرپشن اقربا پروری اور نااہلی کی وجہ سے غیر عرب اور شیعہ حلقوں میں ان-پاپولر تو پہلے ہی تھے۔ مگر اب یہ نفرت مسلح جدو جہد میں بدل چکی تھی۔ حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت کرکے اقتدار پانے والے بنو امیہ کو اب خود ایک بغاوت کا سامنا تھا اور اس بغاوت کا مرکز تھا خراسان اور عراق۔ بالآخر بنو امیہ کو ایک فیصلہ کن شکست ہوئی۔ سن 750 میں بنو امیہ کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا۔

عباسی بادشاہت

عباسی دور مسلمانوں کی دنیاوی ترقی کا شاندار زمانہ تھا۔ اس زمانے میں بغداد کی حیثیت وہی تھی جو آج لندن یا نیویارک کی ہے۔ لیکن جہاں تک اسلامی نظامِ حکومت کی بات ہے، تو یہ اس دور میں بھی بحال نہیں ہوا بلکہ عباسیوں نے تو بادشاہی نظام کو اتنا مضبوط کر دیا کہ مسلمانوں کا بہت بڑا علاقہ آج تک اس کے چںگل سے نہیں نکل پایا۔

خلافتِ عثمانی

پندرہویں صدی میں سلطان محمد فاتح نے استنبول فتح کر لیا۔ یوں عثمانی خاندان کی حکومت مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت بن گئی لیکن عثمانی خاندان میں خلافت کا آغاز ہوا تقریباً سو سال بعد، جب بنو عباس کے آخری شہزادے متوکل سوئم نے ترک سلطان سلیم کو حکمران تسلیم کر لیا اور خلافت عثمانیوں کے حوالے کر دی۔ یوں تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال بعد امت مسلمہ کی قیادت عرب ہاتھوں سے نکل کر ترکوں کے ہاتھ میں آ گئی۔

یہ قصہ ہے بہت انٹرسٹنگ، جو آپ کو آگے چل کر سنائیں گے مگر پہلے کچھ بات عثمانی خلافت کی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عثمانی دور جغرافیائی لحاظ سے یورپ میں مسلمانوں کے اثر و رسوخ کا بہترین دور تھا۔ یونان سے لے کر رومانیہ اور بلغاریہ تک ان کے قبضے میں تھے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عثمانی حکومت صرف مسلمانوں کی حکومت تھی اور اپنے اموی اور عباسی predecessors کی طرح اسلامی حکومت نہیں تھی۔

یہاں بھی ایک خاندان پورے نظام پر قابض تھا۔ عدل انصاف اور رحم کے بنیادی اصول صرف اس وقت تک استعمال کیے جاتے، جب تک ان سے ذاتی مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔ یہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں ہر طرف بادشاہتیں اور سلطنتیں قائم تھیں جو علامتی طور پر عثمانی خلیفہ سے بیعت تو کرتی تھیں لیکن انتظامی لحاظ سے بالکل آزاد تھیں۔

یہ نظامِ خلافت دراصل مسلم حکمرانوں کے درمیان ایک ڈھیلا ڈھالا واجبی سا ارینجمنٹ تھا۔ عثمانیوں کے مغل کزنز بھی اسی ارینجمنٹ کا حصہ تھے۔ ساڑھے تین سو سال تک برصغیر جیسے انتہائی مالدار علاقے پر حکمرانی کی، محل قلعے بارہ دریاں مقبرے، سب بنائے لیکن اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں ان کا کوئی قابل ذکر کام ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اسی لیے سینکڑوں سال حکومت کے باوجود 1857 میں جب مغل سلطنت ختم ہوئی تو انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا کم تھی۔

اور مزے کی بات یہ کہ جو مسلمان ہوئے بھی، وہ بھی مغلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ خواجہ معین الدین چشتی، بابا فرید گنج شکر اور ان جیسے درجنوں اولیا اللہ کی کوششوں اور اخلاق سے مسلمان ہوئے۔

عوام میں اسلام کو پھیلانا نہ حکمرانوں کا مقصد تھا اور نہ ہی انہیں اس کی ضرورت تھی۔ اُنہیں ضرورت تھی تو بس اس جزیے کی جو وہ اپنی غیر مسلم رعایا سے وصول کرتے تھے۔

خیر، تقریباً ساڑھے چھ سو سال بعد اس واجبی خلافت کو بھی مصطفیٰ کمال پاشا نے ایک انقلاب کے ذریعے ختم کر دیا۔ یوں 1924 میں یہ نام نہاد خلافت بھی دنیا سے ختم ہو گئی۔

کچھ دیر پہلے ہم نے کہا تھا کہ خلافت کی عباسیوں سے عثمانیوں کو منتقلی کا ایک دلچسپ واقعہ آپ کو سنائیں گے تو سن لیجیے اور دیکھیے کہ اللہ کے خلیفہ بننے کی عظیم ذمہ داری کو ان بادشاہوں نے کیسے آپس کا کھیل بنا لیا تھا۔

تیرہویں صدی میں ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا، اسے تباہ و برباد کر دیا۔ عباسیوں کی حکومت ختم ہو گئی لیکن ایک عباسی شہزادہ بغداد سے بھاگ کر قاہرہ پہنچ گیا۔ جہاں حکومت تھی مملوکوں کی۔ پھر اگلے ڈھائی سو سالوں تک اس شہزادے کی نسلیں مملوکوں کی مہمان رہیں۔ یوں قاہرہ میں عباسیوں کی نام نہاد خلافت کا بھی ایک شیڈو یا فرضی ورژن چلتا رہا۔ فرضی اس لیے کیونکہ اس خلافت کے پاس نہ کوئی اختیار تھا نہ اقتدار۔ بالآخر 1517 میں جب عثمانی بادشاہ سلیم اول نے قاہرہ پر قبضہ کیا تو عباسیوں سے یہ نام نہاد خلافت بھی چھین لی۔ عباسیوں کے آخری خلیفہ متوکل سوم نے سلیم کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور فرضی خلافت کا تاج عثمانیوں کے حوالے کر دیا۔

اسلامی نظام حکومت کیا ہے؟

خلافت راشدہ کے بعد عالمِ اسلام بیسویں صدی تک تو بادشاہوں کے ہاتھ میں رہا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد آہستہ آہستہ جمہوریت کا نظام رائج ہونے لگا۔ آج بھی حال یہ ہے کہ زیادہ تر ممالک تین طرح کی حکومتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

ایک وہ جن میں جمہوریت ہے،
دوسرے وہ جن میں خاندانی بادشاہت ہے،
تیسرے وہ جہاں فوجی ڈکٹیٹرز اقتدار پر قابض ہیں،
اور ہاں! ایک چوتھی قسم بھی ہے، ہمارے پاکستان جیسی، جہاں پچھلے کئی سالوں سے آمریت اور جمہوریت کا ایک ہائبرڈ نظام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سچ یہ ہے کہ آج کا مسلمان نوجوان کنفیوز ہے۔ ایک طرف اسے خلافت اور اسلامی ریاست کا ایک ایسا تصور اور خواب دکھایا جاتا ہے جس کی مثال اسے ڈیڑھ ہزار سالوں میں تیس سالوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتی۔ دوسری طرف اس کے سامنے مغرب سے امپورٹ ہونے والا جمہوری نظام ہے جو اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود دنیا کے تقریباً سارے ترقی یافتہ ملکوں میں نافذ ہے۔

مسلم ملکوں کے زیادہ تر مذہبی حلقے اس جمہوریت کو کفر کا نظام کہتے ہیں۔ اور ان کے مقابلے پر مذہب بیزار حلقے بھی ہیں، جو خلافت کو غلط سمجھتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ خلفائے راشدین میں سے ہر خلیفہ کا انتخاب مختلف طریقے سے ہوا۔

لیکن حقیقت یہ نہیں۔

چاروں خلفائے راشدین کے انتخابات میں ایک چیز مشترک تھی، وہ تھی: بیعت!

آسان الفاظ میں سمجھیں تو یہ اس زمانے کا ’’ووٹ‘‘ تھا۔ یہ کتنا اہم تھا؟ اس کا اندازہ واقعہ کربلا سے لگائیے کہ صرف حضرت حسینؓ کا ووٹ لینے کے لیے یزید کی حکومت نے ہر انتہائی قدم اٹھایا۔ وہ بھی کر دیا جس کی وجہ سے امت مسلمہ ہمیشہ کے لیے تقسیم ہو گئی۔

واقعۂ کربلا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جب تک بیعت نہ ہو، عوام کا ووٹ نہ ہو، پبلک سپورٹ نہ ہو، حکومت کمزور ہوگی، چاہے خلافت ہو یا جدید جمہوریت۔ کیونکہ عوامی حمایت کے بغیر بننے والی جو بھی حکومت ہو، اس کے دو اہم ترین مسائل ہوتے ہیں۔

ایک: جب اسے اقتدار کے لیے عوام کی ضرورت ہی نہیں تو پھر وہ ساری پالیسیاں ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے بناتی ہیں اور عوامی مسائل اور مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

دوسرا: اس عمل کا ایک اور سائڈ افیکٹ بھی ہوتا ہے، اظہار رائے پر پابندی۔

کیونکہ جب عوامی حمایت نہیں ہوگی تو تنقید بھی زیادہ ہوگی اور اس تنقید کو روکنے کے لیے ایک کے بعد دوسری پابندی لگائی جاتی ہے۔ یوں عوام تباہ برباد ہوتے رہتے ہیں اور حکمران امیر سے امیر تر۔

اب سوال یہ ہے کہ زیادہ ضروری کیا ہے؟ اسلامی نظام حکومت یا پھر اس نظام کو لانے کے لیے کیا جانے والا انتظام؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر جمہوریت کفر کا نظام حکومت ہے تو پھر بادشاہتیں کیسے اسلامی ہوئیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ حکمران کی، لیجے ٹیمیسی کے لیے اگر بیعت کرنا اسلامی ہے تو پھر ووٹ غیر اسلامی کیسے ہوا؟ اور اسلامی نظام حکومت ہے کیا؟ یہ چیز شاید ابھی کلئیر نہ ہو۔ مگر اسلامی نظام حکومت کرتا کیا ہے؟ وہ بالکل واضح ہے۔

  1. امن کا قیام: رسول اللہ ﷺ نے مکے کے مشکل ترین دور میں اسلامی حکومت کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ ایک سوار صنعا سے حضر موت تک اکیلا سفر کرے گا اور اسے راستے میں کوئی خوف نہیں ہوگا۔
  2. عدل و انصاف: مدینے میں بنی مخزوم کی طاقتور عورت کو سزا دے کر رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا کہ قانون سب کے لیے ایک ہوگا۔
  3. شوریٰ: کوئی فیصلہ بغیر مشاورت کے نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر جنگ کے موقع پر صحابہ سے مشورہ کیا۔
  4. احتساب: وصال سے کچھ دن پہلے رسول خدا ﷺ منبر پر آئے اور اعلان کیا کہ اے مدینے کے لوگو! میں اپنے آپ کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں اگر میں نے کسی کا حق مارا ہو یا زیادتی کی ہو تو مجھ سے آ کر حساب لے لے۔ پھر جب ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنا بدلہ لینے کے لیے کرتا مبارک اتارنے کی درخواست کی تو کائنات کے سردار نے اپنا کرتا اتار کر اپنی پیٹھ اس شخص کے سامنے پیش کر دی۔ اس واقعے سے یہ اصول طے ہو گیا کہ مسلم حکمران اپنے ایک ایک شہری کو عوامی طور پر جواب دہ ہوگا۔
  5. انسانیت: جب مکے کے قحط سے پریشان ایک گانے بجانے والی عورت مسجدِ نبوی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچی اور مدد کی درخواست کی تو اللہ کے رسول نے اس کے مذہب اور پیشے کو درگزر کرتے ہوئے خالص انسانی بنیادوں پر صحابہ کو اس کی مدد کا حکم دیا اور عزت کے ساتھ واپس مکے روانہ کر دیا۔

اور ایک راز کی بات علامہ اقبال بھی ہمیں بتا گئے!

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے

ہم نے آپ کے سامنے تمام تاریخی واقعات اور اپنی تحقیق رکھ دی۔ اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط؟

شیئر

جواب لکھیں