کیا آپ نے Apocalypto فلم دیکھی ہے؟ اس فلم کا ایک سین ایسا ہے جو ہماری آج کی کہانی کی عکاسی کرتا ہے۔

ایک وحشی قبیلہ دوسرے قبیلے پر حملہ کرتا ہے، اُس وقت جب وہ سو رہے ہوتے ہیں۔ حملہ آور گھروں کو جلاتے ہیں، بچوں اور بوڑھوں کو آگ میں جھونک دیتے ہیں۔ اپنے پیچھے لاشوں کے ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب تو فلم میں ہوا تھا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ایک ایسی داستان حقیقت میں کراچی میں بھی رقم ہوئی؟

ایک غریب بستی پر وحشی درندوں نے حملہ کیا، گھنٹوں تک کھلے عام خون کی ہولی کھیلی گئی۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے سانحے کی، جس نے کراچی کی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ یہ کہانی ہے سانحہ علی گڑھ کی!

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

کچھ حادثے ہوتے نہیں ہیں، انہیں ڈیزائن کیا جاتا ہے، بنایا جاتا ہے۔ کسی لمبی چال کے لئے، بساط پر مہرے سجائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا: 15 دسمبر 1986۔

سخی حسن چورنگی کے قریب ایک خوفزدہ موٹر سائیکل سوار ہجوم سے ہاتھ جوڑ کر رحم کی اپیل کر رہا تھا، ’’بھائی! میں پٹھان نہیں ہوں، میں پٹھان نہیں ہوں‘‘۔ مگر ایک لوہے کے پائپ کا ایک وار اس کی تمام فریادوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتا ہے۔

یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا، اُس دن درجنوں پٹھانوں کو اسی طرح مارا گیا۔ اہل کراچی کے دلوں میں پھوٹنے والی نفرت پٹھانوں کو مٹا رہی تھی۔۔ ان کی دکانوں کو جلا رہی تھی۔۔ روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب رہا تھا۔ یہ سب بلا وجہ نہیں ہو رہا تھا۔

پندرہ برس قبل

70ء کی دہائی اپنے اختتام کی جانب رواں ہے۔ ملک کی ہر قوم، نسلی گروہ اور فرقے کے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی میں آباد ہو چکے ہیں۔ مہاجروں کے ساتھ پختون، پنجابی، بلوچ سب کے بچے مل کر کھیلتے ہیں اور بڑے ہر تہوار اور تقریب میں ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔

اپنائیت کا ماحول تھا، فرقہ واریت کا تو نام و نشان ہی نہیں تھا، مگر ایک ایسی چیز تھی جو دلوں میں نفرت کا بیج بو رہی تھی۔ وہ تھی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ ظلمت میں بنائی گئی وہ پالیسی، جس کے تحت ملازمتوں کا کوٹہ سسٹم بنا۔

پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔ ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگ گیا، مگر بھٹو کا بنایا گیا کوٹہ سسٹم قائم و دائم رہا۔

کوٹہ سسٹم کیا تھا؟

یہ کہ سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے قابلیت کی بجائے رہائشی علاقے کو فوقیت دی جائے گئی۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں میں تعلیم یافتہ اور زیادہ قابل آبادی رہتی ہے۔ اس لیے تمام داخلے یا ملازمتیں ان شہریوں میں ہی بٹ جاتی ہیں اور دیہی علاقوں کے لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔

اس کے بعد شہری آبادیوں میں ایک احساسِ محرومی جاگا، وہ کوٹہ سسٹم کو اپنے خلاف ہونے والی ہر ناانصافی کی جڑ سمجھنے لگا اور جڑ سے ایک ایسا درخت پھوٹا، جس نے شہر کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

تب سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کی اپنی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں تھی، یا یہ کہہ لیں کہ نسلی بنیادوں پر نہیں تھی۔

یہی وقت تھا جب اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز دانشوروں کراچی کے نوجوانوں کی اپنی سیاسی نمائندہ تنظیم بنانے کا خیال پیش کیا۔ اسی خیال سے متاثر ہوئے کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فارمیسی کے ایک طالب علم، نام تھا ’’الطاف حسین‘‘۔ انہوں نے 11 جون 1978 کو ’’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ یعنی APMSO قائم کی۔

صحافی سہیل احمد بتاتے ہیں کہ سندھ میں ایک طبقہ اردو اسپیکر تھا اور اس کے اندر احساس محرومی تھی۔ نوکریوں کے سلسلہ میں یا پروفیشنل کالجز میں داخلہ کے سلسلے میں محرومی کا احساس بنیادی طور پر 70 کی دہائی میں شروع ہوا اور آہستہ آہستہ بڑھتا رہا۔ مواقع کم تھے، لوگ زیادہ تھے اور جو رہ جاتا وہ کہتا یہ تو زیادتی ہے۔ الطاف حسین صاحب نے جب اے پی ایم ایس او بنائی تو اس وقت بھی ان کا موٹیو یہ ہی تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ الطاف حیسن نے لسانی بنیادوں پر یہ سب کیا تھا، اس سے پہلے پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن، پنجاب اسٹوڈنٹ فیڈریشن بھی تھی، جمعیت بھی تھی، سب تھا۔ ان کو تو بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ اے پی ایم ایس او جب بنی تو اس وقت الطاف حسین بتاتے ہیں کہ ہمیں تو ہاسٹل میں مشکل سے بھی کمرے نہیں ملتے تھے۔ انہوں نے خود کو وہاں اسٹیبلیش کیا لیکن یہ ضرور ہوا کہ اے پی ایم ایس او میں عظیم طارق جیسے لوگ بھی تھے، جو ماڈریٹ لوگ تھے۔ الطاف حسین اس وقت کوئی رستہ ڈھونڈ رہے تھے اور اس طرح وہ کراچی کے گلی کوچوں میں پھیل گئے۔

اب الطاف حسین اپنی شعلہ بیانی اور زبردست نعروں کی وجہ سے مقبول ہو رہے تھے۔ اور پھر 18 مارچ 18 مارچ 1984 کو اے پی ایم ایس او کی قیادت نے ’’مہاجر قومی موومنٹ‘‘ بنانے کا اعلان کر دیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ملک پر جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ ایک ایسی حکومت، جسے نہ عوامی تائید حاصل تھی اور نہ حمایت۔ فوجی ڈکٹیٹر کی آنکھ کسی سیاسی حمایت کی تلاش میں تھی، یا پھر یہ کہہ لیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت سیاسی حمایت پیدا کرنا چاہتی تھی۔ اور پھر پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے ان کی خواہش پورا کرنے میں بڑی مدد دی۔

بشریٰ زیدی کی موت

پرانے لوگ تو جانتے ہیں، لیکن نئی نسل اس نام سے واقف نہیں ہوگی۔ شاید وہ سمجھ رہی ہو یہ بشریٰ زیدی کوئی بڑی سیاسی شخصیت ہوگی، جس کے قتل سے ڈکٹیٹر نے ہمدردیاں سمیٹیں اور سیاسی حمایت حاصل کی؟ نہیں، ایسا کچھ نہیں۔ تو یہ بشریٰ زیدی کون تھیں؟ جس کی موت نے کراچی کے مستقبل کو تاریک کر دیا۔

یہ 15 اپریل 1984 کا دن تھا۔ ناظم آباد کی رضویہ چورنگی کے نزدیک ایک منی بس فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔ اور جب الطاف علی روڈ پر سر سید گورنمنٹ کالج کے قریب پہنچی تو بے قابو ہو کر دو لڑکیوں کو کچل دیا۔ ایک بشریٰ زیدی اور دوسری اس کی بڑی بہن نجمہ۔

بشریٰ تو اگلی سانس بھی نہ لے سکی اور دنیا سے کوچ کر گئی جبکہ نجمہ حادثے میں اپنی ایک ٹانگ کھو بیٹھی۔

سر سید کے آس پاس کئی تعلیمی ادارے تھے، جن میں ہزاروں طلبہ پڑھتے تھے۔ اس لیے واقعے کی خبر پھیلی اور جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور سب سے بڑھ کر یہ پھیلایا گیا کہ بس کا ڈرائیور ’’پختون‘‘ تھا۔

اس بات نے تو جلتی پر تیل کا کام کر دیا۔ طلبہ سڑکوں پر آگے، احتجاج شروع ہوا۔ پولیس نے بھی سچویشن کنٹرول کرنے میں غفلت برتی، بجائے اس کے کہ ڈرائیور کو گرفتار کیا جاتا، الٹا مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر چڑھ دوڑی۔ آنسو گیس فائر کی گئی، لاٹھی چارج ہوا اور کئی مزید طلبہ زخمی اور بے ہوش ہو گئے۔ عباسی شہید ہسپتال میں مرہم پٹی کروانے پہنچے تو وہاں بھی پولیس سے ہاتھا پائی ہوئی۔

پولیس کے ساتھ ایک زخمی کانسٹیبل تھا، پولیس چاہتی تھی ڈاکٹر طلبہ کے بجائے پہلے زخمی اہلکار کو دیکھیں۔ اس بات پر ڈاکٹروں اور پولیس میں بھی جھڑپ ہو گئی۔ پھر نہ صرف پیرا میڈیکل اسٹاف بلکہ ڈاکٹروں کی بھی خوب پٹائی ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ زیادہ تر پولیس والے پنجابی تھے۔

پولیس کے اس رویے سے سے پورے شہر میں آگ لگ گئی۔ فسادات پھوٹ پڑے۔ کئی گاڑیاں اور دکانیں جلا دی گئیں۔ تعصب بھڑکانے کی ایک منظم تحریک شروع ہو گئی۔ اورنگی میں فسادات کے دوران پہلی بار ٹیوب لائٹ بم استعمال کیا گیا

ٹیوب لائٹ بم کیا تھا؟

اصل میں ایک ٹیوب لائٹ میں بارود، نٹ بولٹ اور چھرے بھر کر اسے لڑکوں کے حوالے کیا جاتا، جو اسے مخالفین کی طرف پھینک دیتے۔ یہ بم جہاں گرتا یکدم آگ لگا دیتا۔

یہ بم کون تیار کر رہا تھا؟ وہ جو تربیت یافتہ تھے اور پہلے ہی مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی جیسی آرمڈ آرگنائزیشنز کا مقابلہ کر چکے تھے۔

صرف یہی نہیں، دوسری طرف سہراب گوٹھ میں پہلی بار جدید گنیں نظر آئیں، جو تحفہ تھیں افغان وار کا۔

اس صورت حال کے بعد شہر بھر میں کرفیو لگا دیا گیا، حالات تھے کہ پھر بھی نہیں سنبھل رہے تھے۔ یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا۔ تب کے اخبارات کا دعویٰ ہے کہ ان دنوں میں دو سو سے زیادہ لوگ جان سے گئے۔ مگر حقیقت شاید اس سے بھی بھیانک ہو، مرنے والوں کی تعداد ان اخباری دعووں سے کئی گنا زیادہ تھی۔

کراچی بہت بڑا شہر تھا، سڑکوں پر ایسے حادثات عام تھے مگر بشریٰ زیدی کے حادثے میں ایسا کیا تھا کہ شہر بھر میں آگ لگ گئی؟ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی اس حادثے کا منتظر تھا۔

کئی صحافی اور تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق سندھ میں، خاص طور پر یہاں کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنا چاہتے تھے، اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے بشریٰ زیدی کا یہ حادثہ بہت مدد گار ہو سکتا تھا۔

پھر سندھ کے شہری علاقوں میں کوٹہ سسٹم کی وجہ سے بہت بے چینی بھی تھی۔ اس بے چینی اور احساسِ محرومی کو خوب استعمال کیا گیا۔

اب ضیاء الحق کو ایسی قوت کی تلاش تھی جسے طاقت ور بنایا جائے اور وہ پھر ان کے اقتدار کو اور مضبوط بنائے۔ یہی وہ وقت تھا جب الطاف حسین کی آواز مضبوط ہو رہی تھی۔

جنرل ضیاء کو نظر آنے لگا کہ سندھ کے شہری علاقوں، خصوصاً کراچی کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ شاید الطاف حسین کو بھی یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کسی کا چال کا مہرہ بننے والے ہیں۔

سہیل احمد اس بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کچھ بھی کہیں الطاف حسین صاحب کی رائیز کیسے ہوئی؟ اس کے پیچھے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے کچھ طاقتیں تھیں جنہوں نے ان کو سپورٹ کیا تھا، جو واقعات ہوئے سیکیوینس کے ساتھ، خاص طور پر بشریٰ زیدی کیس جس کو کہا جاتا ہے کہ یہ بنیاد تھی کراچی میں جھگڑے شروع ہونے کی خاص طور پر کراچی میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی جو واقعات ہوئے اس کے بعد پھر یہ کنورٹ ہوا پٹھان اور مہاجر لسانی بنیادوں پر۔

یہ 8 اگست 1986 کا دن ہے، مہاجر قومی موومنٹ کے لیے ایک یاد گار دن۔ پہلی بار کراچی نشتر پارک میں اس نے اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ الطاف حسین نے اپنے خطاب میں جو نکات پیش کیے، ان میں سے چند یہ تھے:

  • مہاجروں کو پانچویں قومیت تسلیم کیا جائے۔
  • مہاجروں کو سندھ میں آبادی کے تناسب سے حقوق دے جائیں۔
  • کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے۔

یہ بڑا کامیاب جلسہ تھا، اتنا کہ الطاف حسین کی تقریر کے دوران بادل گرجے، تیز بارش شروع ہو گئی، جلسہ گاہ میں پانی بھر گیا، مگر کوئی الطاف حسین کی تقریر چھوڑ کر نہیں گیا۔ وہ بولتا رہا، قوم سنتی رہی۔۔ بلکہ بارش نے تو لوگوں کو اور چارج کر دیا۔

اس کامیاب اور تاریخی جلسے کے بعد الطاف حسین نے اعلان کیا، وہ اب 31 اکتوبر 1986 کو حیدر آباد میں جلسہ کریں گے۔

بشریٰ زیدی کی موت کے بعد جو کچھ ہوا، خوف کے بادل ابھی چھٹے نہیں تھے کہ ایک اور طوفان بڑی تباہی کا منتظر تھا۔

سانحہ سہراب گوٹھ

31 اکتوبر کی صبح ایم کیو ایم کارکنان کی گاڑیوں کا قافلہ حیدر آباد کی طرف روانہ ہوا۔ جلوس سہراب گوٹھ سے بھی گزرنا تھا، جو تب بھی پختون آبادی کا گڑھ تھا۔ جیسے ہی یہ جلوس سہراب گوٹھ پہنچا، شرکا نے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ قافلہ آگے بڑھتا رہا، پچاس سے زیادہ گاڑیاں سہراب گوٹھ کراس کر گئی، تب اچانک پیچھے والی گاڑیوں پر پتھراؤ شروع ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں یہ پتھراؤ دو طرفہ فائرنگ میں بدل گیا۔ آٹھ افراد ہلاک ہوئے، درجنوں زخمی۔

جب یہ خبر کراچی اور حیدر آباد تک پہنچی، یہاں فسادات کا ایک نیا سلسلہ پھوٹ پڑا۔ کراچی میں ہر چلتی بس، جلتی ہوئی نظر آئی۔ دکانیں بھی جلا دی گئیں اور مکانات بھی۔ حیدر آباد میں بھی تصادم ہوا، جہاں جلوس مارکیٹ سے گزرا تو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی۔

کون ہیں یہ نامعلوم افراد؟ کہاں سے آتے ہیں یہ؟ آخر انہیں بھجتا کون ہے؟

خیر، چھوڑیں اس فائرنگ سے بھی درجنوں لوگ زخمی ہوئے۔ یہاں بھی اشتعال پھیلا، کئی رکشوں، گاڑیوں اور دو ہوٹلوں کو آگ لگا دی گئی۔

اتنے کشیدہ حالات میں الطاف حسین نے پکا قلعہ گراؤنڈ حیدر آباد میں جلسے سے خطاب کیا۔ ان دو کامیاب جلسوں نے سندھ کی سیاست کو ایک نیا رخ دیا۔ مگر ابھی الطاف حسین کو بہت کچھ کرنا تھا، بلکہ انہیں طاقتور بنانے کے لیے ایک کہانی بالائی ایوانوں میں لکھی جا چکی تھی۔

لیکن ابھی ہم اپنی اس کہانی کو جوڑتے ہیں اُس دن سے، 15 دسمبر 1986 کے دن سے، جب سخی حسن چورنگی کے قریب وہ موٹر سائیکل سوار ہجوم سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا، کہہ رہا تھا میں پٹھان نہیں ہوں، مجھے مت مارو۔ مگر پھر بھی اسے بے دردی سے مار دیا گیا۔

اُس دن کے بعد بہت سے پٹھان اپنی شناخت چھپا رہے تھے۔ شہر تقسیم ہو چکا تھا، علاقے بٹ چکے تھے۔ مہاجروں کی اپنی باؤنڈری لائنز بن گئیں اور پٹھانوں کی اپنی۔

آخر کیوں؟ یہ کس چیز کا رد عمل تھا؟

وہ میں نے کہا تھا نا کہ کچھ حادثے ہوتے نہیں، بنائے جاتے ہیں۔ پندرہ دسمبر کی یہ کہانی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ چودہ دسمبر کی صبح کی درد ناک کہانی کو سنیں۔

یہ کہانی ہے سانحہ قصبہ کالونی اور سانحہ علی گڑھ کالونی کی، وہ داستان جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

سانحہ علی گڑھ

صبح دس بج رہے ہیں۔ اورنگی ٹاؤن کے علاقے قصبہ کالونی اور علی گڑھ کالونی کے مکین اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ اُن پر ایک قیامت ٹوٹنے والی ہے۔

اورنگی کی پہاڑیوں سے کچھ مسلح دہشت گردوں نے اچانک ان آبادیوں پر حملہ کر دیا۔ جدید اسلحہ لیے ان لمبے تڑنگے افراد نے کالی شلواریں پہن رکھیں تھیں۔ وہ شور مچا رہے تھے اور دہشت پھیلا رہے تھے۔

گھروں میں لوٹ مار کی گئی، انہیں آگ لگا دی گئی۔ شیر خوار بچوں کو دہکتی ہوئی آگ میں جھونکا گیا۔ کئی عورتوں کی عزتیں پامال کی گئیں۔

مناظر دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا علاقہ کسی غیر ملکی فوج کے نرغے میں ہے۔ ظالموں نے مسجدوں میں کئی چھپے افراد کو بھی کاٹ ڈالا۔ یہ سب چھ گھنٹے تک ہوتا رہا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ دہشت گردوں کو حکومت اور انتظامیہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ حالات کے مطابق ایسا۔۔ ہی۔۔ تھا۔۔۔ اگلے دن اخباروں کی پہلی سرخی یہ تھی:

اورنگی میں ہولناک خون ریزی، 50 افراد جاں بحق، تا حکم ثانی کرفیو، فوج بلا لی گئی۔

مگر اس واقعے کو دیکھنے والی کئی آنکھوں نے ہمیں بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد 200 کے قریب تھی۔

سانحہ علی گڑھ کا رد عمل پورے شہر میں نظر آیا۔ کراچی بھر میں فسادات پھوٹ پڑے اور پھر پاکستان کی تاریخ کے بدترین نسلی فسادات ہوئے، جن میں 400 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ تقریباً دو ہزار بری طرح زخمی بھی ہوئے، نذر آتش کی جانے والی دکانوں، مکانوں اور گاڑیوں کی تعداد تو ہزاروں میں تھی۔

آج سانحہ علی گڑھ کو بیتے 38 سال ہو گئے ہیں۔ یہاں کے مکین محمد رفیق آج بھی اُس قیامت کو یاد کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

بچوں کو بھی جو گھروں میں رہ گئے تھے اور جنہیں گھروں سے نکلنے میں دشواری تھی، ان کو وہیں ان کے گھروں میں مار دیا گیا۔ سروں پر تیز دھار ہتھیاروں سے وار کیے گئے کلہاڑیاں، بگدے۔ ہمارے گھروں میں جو جانور وغیرہ پلے ہوئے تھے جیسے کے بتخیں تھیں، مرغیاں تھیں، طوطے تھے، بکریاں تھیں انہیں بھی جلا دیا گیا۔

(مزید مکینوں کی رائے ویڈیو میں دیکھیے)

شہر میں اتنا بڑا سانحہ ہوا، سینکڑوں مہاجروں کو تعصب اور نفرت کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ ان میں بزرگ بھی شامل تھے، خواتین، نوجوان اور معصوم بچے بھی۔ ہزاروں ہنستے بستے گھر اُجاڑنے کے بعد یہ دہشت گرد پھر پہاڑوں پر چلے گئے۔

معروف صحافی نصرت امین بتاتے ہیں کہ اس سانحہ کا ری ایکشن زیادہ خطرناک تھا اور جس طرح صورتحال کو کنٹرول کرنا چاہیے تھا، سنبھالنا چاہیے تھا ویسا کچھ نظر نہیں آیا۔ اگر کوئی انتظامی یا سماجی شخصیت میدان میں آئی بھی تو اسے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ

کہا جاتا ہے کہ جو عین شاہد بتاتے ہیں کہ اس وقت کے میئر تھے عبدالستار افغانی۔ یہ جماعت اسلامی کے الیکٹیڈ میئر تھے، تو جب انہوں نے علاقے میں پہنچنے کی کوشش کی تو ان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مرغا بنا دیا۔ جیسے بچے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔ اگرچہ کسی آفسر نے یا اخبار نے اس بات کی تصدیق نہیں کی لیکن اس خبر اور اطلاع سے کسی نے انکار بھی نہیں کیا۔ مولانا عبدالستار ایدھی کے ساتھ بھی ملتا جلتا سلوک کیا گیا۔ یہ لیٹ نائینٹیز کی بات ہے کہ میں ایک بار عبدالستار ایدھی صاحب سے ملا تو اس واقعے سے متعلق پوچھا تو انہوں نے بہت کی مثبت انداز میں کہا ڈیوٹی دینے والے کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کون وی آئی پی ہے اور کون عام آدمی، اگر کسی محلے کے بچے کو مرغا بنایا جا سکتا ہے تو کسی وی آئی پی کو بھی مرغا بنایا جاسکتا ہے۔ میں نے مولانا صاحب سے پوچھا کے کیا آپ کو مرغا بنایا گیا؟ تو انہوں نے یہ بات ہنس کر ٹال دی اور کہا کے لوگ ڈیوٹی دے رہے تھے تو ان کو ڈیوٹی دینی چاہیے۔ ڈیوٹی دینے کی جو سب سے دلچسپ بات ہے کہ سانحہ کے بعد ڈپلائمنٹ ہوئی اور آنے جانے والوں پر سختی ہوئی لوگوں کو مرغا بنایا گیا لیکن جب سانحہ ہو رہا تھا تب کیوں ڈپلائمنٹ ختم کر دی گئی تھی؟ یہ ایک معما ہے۔

آخر یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟ چھ گھنٹے تک ان آبادیوں کو لا وارث کیسے چھوڑ دیا گیا؟ پولیس کہاں تھی؟ انتظامیہ سو رہی تھی؟ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مارنے والے کون تھے؟ آج تک ان سوالوں کا درست جواب کہیں سے نہیں مل سکا۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو الجھے واقعات کی گتھی سلجھانے میں مدد دوں۔

کراچی کے شمال میں جہاں سپر ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے، وہاں ’’سہراب گوٹھ‘‘ نامی ایک بستی ہے۔ جب سپر ہائی وے کا افتتاح ہوا تو یہاں صوبہ سرحد کے باشندوں نے ایک مارکیٹ کی بنیاد رکھی۔ یہاں زیادہ تر اسمگل کیا گیا سامان بکتا تھا۔

یہ مارکیٹ آج بھی اسی نام سے موجود ہے اور اسمگلنگ کا مال آج بھی ملتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہاں ڈرگز اور اسلحے کی ایک بڑی مارکیٹ بھی بن گئی۔

کہانی کو سمجھنے کے لیے ایک بار پھر تھوڑا سا پیچھے جاتے ہیں۔

تیس اکتوبر 1986 کو جب سہراب گوٹھ پر ایم کیو ایم کے جلوس پر فائرنگ ہوئی۔ تو پورے شہر میں ایک ہی مطالبہ تھا، سہراب گوٹھ کو منشیات اور اسلحے سے پاک کیا جائے، اور فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا جائے۔ ویسے، فائرنگ کرنے والے گرفتار ہوئے تھے اور بعد میں با عزت رہا بھی۔

سانحہ علی گڑھ سے صرف دو دن پہلے 12 دسمبر 1986 کی صبح فوج اور پولیس نے سہراب گوٹھ کا محاصرہ کر لیا۔ گھر گھر تلاشی لی گئی۔ اس پوری کارروائی کو نام دیا گیا ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کا، مگر اتنی بڑی کارروائی کے بعد بھی نہ اسلحہ ملا اور نہ ہی منشیات۔

حقیقت یہ تھی کہ اس آپریشن سے صرف ایک دن پہلے یہ سارا اسلحہ اور منشیات 40، 50 ٹرکوں میں بھر کر دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ حساس اداروں کو اتنی بڑی کھیپ کی منتقلی کا پتہ نہ چلا ہو؟

تو جس کی تلاش تھی، وہ تو نہ ملا، مگر فوج اور پولیس نے اپنی کارروائی جاری رکھی اور سہراب گوٹھ کی پوری بستی کو بلڈوز کرنا شروع کر دیا۔

یہ وہ علاقہ تھا جس پر ’’ایلیٹ کلاس‘‘ کی نظر تھی بلکہ اسے ایلیٹ کلاس کے بجائے ’’انڈر ورلڈ‘‘ کا نام دوں تو شاید غلط نہ ہو۔ تب گورنر سندھ تھے لیفٹینینٹ جہاں داد خان، ان کے پاس تو یہی کلاس جاتی تھی اور اسی نے یہ جگہ خالی کروانے کا معاملہ بھی سامنے رکھا۔

تب کور کمانڈر کراچی تھے لیفٹینینٹ احمد شمیم خان اور ڈی سی تھے سردار احمد۔ پھر گورنر، کور کمانڈر مل کر ایک ’’سیکرٹ پلان‘‘ تیار کرتے ہیں۔ اس پلان کے پیچھے کیا تھا؟ اسٹوری کے ساتھ جڑے رہیں، پکچر ابھی کلیر ہونے والی ہے۔

نصرت امین اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ مشہور ٹاؤن پلانر اور لکھاری عارف حسن نے اس آپریشن کے بارے میں اہم معلومات دیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ آپریشن اکاخیل قبیلے کے لوگوں کی امیدوں اور امنگوں کا قتل تھا۔ یہ 1972 سے سہراب گوٹھ میں مقیم تھے۔ اس آپریشن کا اصل مقصد یہ جگہ خالی کروانا تھا۔ کیوں؟ وجہ بہت سادہ تھی!

سہراب گوٹھ کے قریب علاقوں کی زمین بڑے اور با اثر لوگوں کی تھی، اگر غریبوں کو نکالا جاتا تو اس کی قیمت سو گنا بڑھ جاتی۔

صحافی نصرت امین اس پر مزید روشنی ڈالتے ہیں:

اس پورے عرصے میں، جب سے میں نے صحافت شروع کی ہے، تو عارف حسن صاحب ان لوگوں میں ہیں جن کی بتائی ہوئی کوئی بات اور ان کی دی ہوئی انفارمیشن مجھے نہ تو کبھی مشکوک لگی اور نہ ہی وہ کبھی غلط ثابت ہوئی تو اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی مافیا ہوسکتی ہے اس کے پیچھے بلڈر مافیا ہوسکتی ہے اس کے پیچھے وہ عناصر ہوسکتے ہیں جو شہر صوبے یا ملک کی سیاست کو خاص رنگ دینا چاہتے تھے تو میرے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ میں ان کی اس بات کو رد کروں۔

یوں، ایم کیو ایم کے جلوس پر فائرنگ کو جواز بنا کر بلڈرز مافیا کے لیے راستہ بنایا جا رہا تھا۔ مگر شاید خون بھری ایک اور کہانی بھی لکھی جاچکی تھی، جس کا مقصد اور بھی بڑا تھا۔

صحافی نصرت امین مزید بتاتے ہیں:

وہاں پر افغان وار کی بائی پروڈکٹ کے طور پر جو جن کا ظہور ہوا جو ڈرگ ڈیلرز تھے جن کے انٹرنیشنل ڈرگ مافیا سے لنکس تھے، وہ تو بہت سی معمولی تعداد میں وہاں چھپ کر رہ رہے تھے اور اپنا کاروبار بھی کر رہے تھے۔ ان کے خلاف آپریشن کی بنیاد پر یہ کارروائی کی گئی۔ ان دنوں مہاجر قومی مومینٹ رائیز کر رہی تھی، پروان چڑھ رہی تھی شہر کراچی اور حیدر آباد میں۔ سہراب گوٹھ علاقہ سے ان پر فائرنگ کی گئی جو فائرنگ کرنے والے لوگ تھے وہی بات ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد معلوم ہوا جب میں جرنلزم میں آیا اور میں نے پرانے لوگوں سے پوچھا تو کچھ سینیئر لوگوں نے بتایا کہ جو فائرنگ کرنے والے لوگ تھے ایم کیو ایم کی بسوں پر وہ پختون نہیں تھے وہ افغان تھے۔ مطلب وہ نسلن پختون ہو سکتے ہیں لیکن وہ پاکستان کے رہنے والے یا پاکستانی نہیں تھے جو سہراب گوٹھ کے رہائشی نہیں تھے وہ پاکستانی نہیں تھے۔ تب کچھ رپورٹرز نے بھی ان زخمی افغانیوں سے بھی ملاقات کی جو جوابی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے افغان بقول ان کے شاید ایک آدھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان سے کہا گیا تھا کہ یہاں سے کچھ ملک دشمن لوگ گزریں گے تو ان کے خلاف آپ نے یہ کارروائی کرنی ہے۔

جی ہاں ایک مخصوص جماعت کو طاقت ور بنانے کے لیے شطرنج پر مہرے اسی طرح سجائے گئے۔ پٹھان مہاجروں کو لڑوایا گیا، ان کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے اور سب کو بتایا گیا کہ سانحہ قصبہ و علی گڑھ کالونی منشیات اور اسلحہ مافیا کا رد عمل تھا۔ آئیں، اسٹوری کو اور MATUREکرتے ہیں اور نصرت امین صاحب کی یہ بات پڑھتے ہیں:

جب یہ کارروائی کی گئی تھی تو ہماری سیکورٹی فورسز کو پولیس کو سول بیورو کریسی کو کمشنر ڈپٹی کمشنر اور سول مجسٹریسی ان کو یہ بات بہت اچھے طریقے سے معلوم تھی کے کیا ہو سکتا ہے اور کن کن علاقوں میں رد عمل کا خطرہ ہو سکتا ہے وہاں باقاعدہ DEPLOYMENT کی گئی اس میں اورنگی ٹاؤن کے کچھ علاقے اور علی گڑھ اور قصبہ بھی شامل تھے۔ لیکن میری تیس سال بعد کی تحقیق کے مطابق ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی کہ یہ DEPLOYMENT جب واقع ہوا اس سے کچھ دیر پہلے ہٹا دی گئی، شاید ڈیڑھ دو یا تین گھنٹے پہلے وہ DEPLOYMENT اچانک UNEXPECTEDLY ختم کر دی گئی۔ اور اس کے اوپر جو ٹربیونل بیٹھا تھا اگرچہ اس کی فائنڈنگز کبھی بھی پبلک نہیں کی گئیں لیکن ہماری سورسز کو CONTENT تک جتنی رسائی تھی اس سے ہمیں یہ ہی بتایا گیا ہے اور ہمارے سامنے جو بات آ رہی ہے بظاہر وہ یہ ہی ہے کہ وہاں DEPLOYMENT مستقل تھی اور اس حملے سے تھوڑی دیر پہلے وہ وہاں سے ہٹا لی گئی۔ کس کے کہنے پر ہٹائی گئی؟ کس لیے ہٹائی گئی؟ ان تھک کوششوں کے باوجود اس پوری بیورو کریسی میں اس پورے سسٹم میں مجھے اس واقعے کے برسوں بعد کوئی بتانے والا نہیں تھا کہ یہ کیسے ہوا؟ ٹربیونل کی بات میں نے اس لیے کی کہ اس ٹربیونل میں جو معزز جج صاحبان تھے، انہوں نے اس بات پر کافی فکر کا اظہار کیا تھا کہ ایسا کیوں ہوا ہے اور انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ یہ کسی خاص مقصد کے تحت کیا گیا ہے کسی خاص کمیونٹی کو بھڑکانے کرنے کے لیے یا ٖپھر کسی خاص نتائج حاصل کرنے کے لیے۔

یہاں ڈبل گیم دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سانحہ قصبہ و علی گڑھ کے بعد ری ایکشن روکنے کے لیے بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ یہ کوئی WRONG PLANING نہیں بلکہ یہی تو RIGHT PLANING تھی۔

صحافی نصرت امین کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ لوگوں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ علی گڑھ اور قصبہ حملہ کے دوسرے یا تیسرے دن ’’بنگش کالونی‘‘ نام کی ایک جو سانحہ والے علاقے کے قریب ایک پختون لوکیلیٹی پر بھی حملہ ہوا اور جب بے یارو مدد گار وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس مدد کے لیے گئے، تو ان کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا اور شاید کہیں یہ بھی کہا گیا کہ جس طرح علی گڑھ کالونی میں شکار ہونے والوں تک کوئی ریسکیو نہیں پہنچا تھا تو آپ تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔

یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ اتنی جانفشانی کے ساتھ ایم کیو ایم کو سیاست میں لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

جواب یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کو جس چیز کا سب سے زیادہ خوف تھا وہ تھی پاکستان پیپلز پارٹی۔ اور بھٹو کی پھانسی کے بعد جو سب سے بڑا چیلنج ہو سکتا تھا، وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا لیڈر کے روپ میں آنا تھا۔

سب جانتے تھے کہ وہ جلا وطنی کاٹ کر سیاست سیکھ رہی ہیں۔ وہ سیاست پر لکھ رہی ہیں، بول رہی ہیں اور ارادہ کر چکی ہیں کہ جب بھی انہیں وطن واپسی کا موقع ملا تو وہ پاکستان آکر MAINSTREAM POLITICS کا حصہ بنیں گی۔ اور ایسا بعد میں ہوا بھی!

تو یہ خطرہ بھی بڑھ رہا تھا کہ کہیں نئی پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں میں نہ پھیل جائے۔۔ تو اس کو روکنا تو ضروری ہو گیا تھا۔

نصرت امین نے بتایا کہ ایک بار ڈاکٹر فاروق صاحب سے کسی نے سوال کیا تھا کہ کیا ضاء الحق کے دور میں آپ کو سپورٹ کیا گیا تھا کہ آپ کھل کر شہر میں کراچی میں حیدر آباد میں کام کر سکیں اور اپنے آپ کو ایک سیاسی طاقت منوا سکیں؟ تو بڑی ذمہ داری سے میں آپ کو یاد کر کے بتا رہا ہوں کہ فاروق ستار صاحب کا جواب تھا کہ شاید پیپلز پارٹی کے خوف سے ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے چند فیکٹرز نے ہمیں COMFORTABLE راستہ دیا ہو اگے بڑھنے کا کہ شاید ہم جا کر پیپلز پارٹی کو شہروں میں روک سکیں۔

ایک ایسی سوسائٹی جو غیر جمہوری ہو، سیاسی حالات ڈانواں ڈول ہوں، جہاں معاملات میں شفافیت نہ ہو، جہاں عدل نہ ہو۔۔ انصاف نہ ہو۔۔ جہاں مائیٹ اور پاور کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہو، جہاں سماج کے دو طبقات میں فاصلہ بڑھتا جا رہا ہو، وہاں جتنے بھی طاقت ور ایلیمنٹ ایکٹیو ہوں گے۔۔ ان میں یقیناً کچھ نہ کچھ تعلق تو ہوگا اور سب سے بڑا تعلق ’’انٹرسٹ‘‘ کا ہوتا ہے۔ جو جب چاہے، جس کو چاہے عرش پر لے جائے اور جسے چاہے فرش پر۔ ایسا ہی ہوا بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے ساتھ بھی۔

نصرت امین خلاصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے جنہوں نے پلان کیا تھا وہ پلان چل نہیں پایا اور کراچی کے فسادات، ہنگامے بدامنی کی شکل میں جو جن بوتل سے باہر نکالا گیا تھا دانستہ طور پر اس کو واپس بوتل میں ڈالنا ناممکن ہو گیا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں