طبلے کی تال کے ساتھ دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی ہے۔ ہارمونیم کا ساز شریانوں میں خون کی گردش بڑھا رہا ہے۔ بلند ہوتی آواز سے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔ روح بے چین ہو رہی ہے، کیفیت بدل رہی ہے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ میں اپنے آپ میں نہیں ہوں، آس پاس کا ہوش نہیں، اب بے خود ہو چکا ہوں۔ اور پھر جیسے ہی اس نے دونوں ہونٹ ملا کر انتہائی محبت سے وہ نام پکارا، ’’یا محمد نور مجسم‘‘ تو میری روح سرشار ہو گئی۔ مجھے میرا جسم ہلکا ہلکا سا محسوس ہونے لگا۔ آج سے پہلے میری کبھی ایسی کیفیت نہ تھی۔ میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے ہو، جس نے مجھے اتنا بے چین کر دیا؟

یہ کیفیت تھی فرانس کے ہال میں بیٹھے کئی غیر مسلم نوجوانوں کی جو امجد صابری کی قوالی سن کر بے چین ہو گئے اور پھر مسلمان ہو گئے!

امجد صابری کے صاحب زادے مجدد صابری اس واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں:

وہاں پر بہت سارے لوگ فرانسیسی تھے۔ پاکستانی اور انڈین بھی تھے، لیکن زیادہ تر گورے تھے۔ وہاں کلام چل رہا تھا ’’یا محمد نور مجسم‘‘۔ ہر کلام کے بعد پانچ دس منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔ کلام ختم ہونے کے بعد بیک اسٹیج لوگ ابا کے پاس آئے۔ کہنے لگے ہمیں سمجھ نہیں آیا لیکن اندر سے بے تاب ہو رہے ہیں کہ آپ جو نام لے رہے ہیں، ہمیں اس کے بارے میں پتہ ہو۔ ابا (امجد صابری) کو یہ بات بڑی اچھی لگی۔ پھر ابا نے ان کو سب چیزیں بتائیں اور کلمہ بھی پڑھایا۔ پھر چار سو لوگ جو وہاں بیٹھے تھے سب کو کلمہ پڑھایا۔

امجد صابری کے بھائی طلحہ صابری اس بارے میں بتاتے ہیں کہ اس کے بعد اگلے دن ہوٹل میں ہمارے تقریباً ان میں سے چالیس پچاس لوگ آئے، جو پراپر طریقے سے مسلمان ہوئے۔ امجد بھائی نے انہیں سب کچھ بتایا، اس طرح کلمہ پڑھا جاتا ہے، اس طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے اور اس طرح روزہ رکھا جاتا ہے۔

وہ ’’صابری‘‘ تھا، مگر شرارتی تھا۔ وہ لحیم شحیم 40 برس کا تھا۔ مگر بچہ تھا۔ اس کا دنیا میں سفر لمبا مگر زندگی چھوٹی تھی۔ وہ دنیا بھر میں تبلیغ کر رہا تھا مگر اس کے گھر کے پاس شیطان اس کے قتل کی پلاننگ کر رہا تھا۔ دل کو چھوتا ہے وہ کلام، جو آخری تھا۔ ہاں! وہ امجد صابری تھا۔

شاید آپ نہیں جانتے ہوں گے مگر امجد صابری پر یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ ان پر کتنے حملے ہوئے۔ ان کی شادی کیسے ہوئی؟ بھارت میں ڈاکوؤں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ یہ سب آپ کو اِسی ڈاکومینٹری میں آگے چل کر بتائیں گے۔

امجد صابری کا بچپن

قوالی کی روایت 700 سال سے زیادہ پرانی ہے جب حضرت امیر خسرو نے دلّی میں اس کا آغاز کیا۔ صدیوں سے گزرتے گزرتے جب قوالی پچھلی صدی میں پہنچی تو اس کا ایک بڑا نام تھا غلام فرید صابری، پاکستان کے عظیم ترین قوالوں میں سے ایک۔ وہ مغل دور کے عظیم ترین گلو کار تان سین کی نسل میں سے تھے۔ وہ، ان کے بھائی مقبول احمد صابری اور ہمنوا پاکستان ہی نہیں ہندوستان میں بھی بہت مقبول تھے۔ بلکہ ان کے چاہنے اور سننے والے تو یورپ سے جنوبی افریقہ اور امریکا سے آسٹریلیا تک، ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے۔

انھی غلام فرید صابری کے گھر 23 دسمبر 1976 کو ایک بچے کی پیدائش ہوئی، نام رکھا گیا امجد فرید صابری۔ اس بچے نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی، اس کا نام پوری دنیا میں تھا۔ 80 کی دہائی وہ زمانہ تھا جب صابری برادران کی شہرت آسمان پر تھی۔ اور پھر نو سال کی عمر میں امجد کی قسمت بھی کھلنے لگی۔

والد اور چچا یعنی صابری برادران کے تعاون سے پاکستانی فلم ’’سہارے‘‘ کی شوٹنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔ اور اس نو سالہ بچے کو مین کریکٹر دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مگر ایک پریشانی ہے۔ والدہ راضی نہیں۔ وہ کہتی ہیں اگر ابھی سے ادا کاری، گلو کاری میں لگ گیا تو پڑھائی کا کیا بنے گا؟ وہ الگ بات ہے کہ آگے جا کر یہ بچہ پڑھائی کے معاملے میں اپنے والدین کو بہت پریشان کرنے والا ہے۔

بہر حال! فلم میں مین کریکٹر تو نہیں ملا مگر فلم کا پہلا شاٹ اسی بچے کی صورت سے شروع ہوتا ہے، جس میں وہ ’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ پھر اسی فلم کی مشہور قوالی بھر دو جھولی میں اپنے والد اور چچا کے درمیان بیٹھا نظر آتا ہے۔

پورے ریجن کے مشہور قوال غلام فرید صابری اور اصغری بیگم کے گھر سات بچے ہوچکے تھے۔ مگر ان میں سے کوئی والد کے ہنر کی گدی کا جانشین نہ ٹھہرا سوائے امجد صابری کے۔

سات سال کی عمر سے ہی امجد صابری نے سُروں سے دوستی کر لی۔ امجد صابری کی تربیت ان کے والد غلام فرید صابری کیا کرتے تھے۔ نماز فجر کے بعد ریاضت کا وقت شروع ہو جاتا تھا۔

جس امجد صابری کی قوالیاں سب کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ کبھی وہ بڑا ہی شرارتی بچہ ہوا کرتا تھا۔ بلکہ ان کے بچے تو کہتے ہیں کہ بابا بڑے ہو کر بھی شرارتی تھے۔ بچپن میں اسکول سے بار بار ان کی شکایتیں آتی تھیں۔ چھوٹے تھے مگر بڑے جھگڑے کیا کرتے تھے۔ کسی کو مار کر گھر لوٹتے تو کبھی خود پٹ کر۔

امجد کے بھائی بتاتے ہیں کہ ان کی ایک پوری گینگ تھی، مگر مذاق مستی کے حد تک۔ البتہ والد صاحب نے کبھی ان کی شکایت لی ہی نہیں، والد صاحب امجد بھائی کو بہت پیار کرتے تھے، جب تک والد صاحب اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے تھے، شکایت نہیں لیتے تھے۔

یہ سب اپنی جگہ۔ لیکن والدین کی سختی نے امجد کو پڑھائی جاری رکھنے پر مجبور ضرور کر رکھا تھا۔ اور ان کی منزل تھی انہیں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنانا۔ مگر پھر دنیا ہی بدل گئی۔ مجدد صابری اس بارے میں بتاتے ہیں کہ میرے والد صاحب چارٹڈ اکاؤنٹنٹ بنتے بنتے رہ گئے، میرے دادا کا انتقال ہو گیا تھا، پھر ابا کو گدی مل گئی صابری برادران کی، لیکن وہ ہم سے چاہتے تھے کہ جو وہ ڈگری پوری نہیں کر سکے میرے بچے پڑھ لکھ کر ڈگری ہولڈر ہوں۔

اب چاچا مقبول صابری نے ان کی تربیت شروع کر دی تھی۔ ان کے چچا زاد بھائی شمائل صابری نے بتایا کہ ابو کے ساتھ وہ ہوتے تھے امجد بھائی، ابو سے انہوں نے کافی ڈانٹ بھی کھائی ہے اور مار بھی کھائی ہے، ابو نے ان سے بولا کہ آج رات کو کنسرٹ میں جانا ہے، ٹائم پر تیار ہو جانا، ٹائم ہوا تو وہ آگے پیچھے ہو گئے دوستوں کے ساتھ، وہ بات ابو کو بہت عجیب لگی کہ بھئی کام کے لیے آئے ہیں یا کیا ہے، تو پھر ابو نے انہیں تھپڑ مارا زور سے، لیکن امجد بھائی نے اف تک نہیں بولا۔

والد کے انتقال کے دو سال بعد 1996 میں امجد صابری نے بھائیوں اور دوستوں پر مشتمل ایک گروپ بنایا۔ اس طرح صابری برادران کی ایک نئی پیڑھی اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے میدان میں آ گئی۔ بس پھر کیا؟ لوگوں کو امجد صابری کی آواز میں غلام فرید صابری نظر آ رہے تھے۔ اور پھر اگلے ہی سال 1997 میں انہوں نے اپنے والد اور چچا کے پڑھے ہوئے کلام ’’سرِ لا مکاں سے طلب ہوئی‘‘ کا ری میک بنایا۔ ’’بلغ العلیٰ بكماله‘‘ یہ ان کا پہلا البم تھا۔

اب تک تو امجد صابری اپنے والد اور چچا کے کلام ہی کو دنیا کے سامنے پیش کر کے داد وصول کر رہے تھے مگر پھر امجد صابری نے والد اور چچا کے پڑھے ہوئے کلام سے ہٹ کر پڑھنا شروع کیا اور کامیابی بھی ملی۔ صرف یہی منقبت نہیں، بلکہ ’’نہ پوچھیے کہ کیا حسینؓ ہیں؟‘‘ بھی بہت مقبول ہوئی۔

اب امجد صابری کی آواز کا ڈنکا بجنے لگا۔ سنگیت کی دنیا کے بڑے ناموں میں سے اب اس کا نام بھی شامل تھا۔ بلکہ ایک پرفارمنس میں تو انہوں نے اپنے والد کا مشہور زمانہ ’’اللہ‘‘ بول کر جو پبلک سے داد سمیٹی تو سونو نگم بھی حیران رہ گیا تھا۔ طلحہ صابری نے اس بارے میں بتایا کہ سونو اس وقت کہنے لگے امجد بھائی! آپ نے یہ بہت اچھا کیا اور اس نے کہا کہ کسی نہ کسی میں کاپی ضرور کروں گا آپ کا۔

پڑوسی ملک کے آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ عوام میں بھی چاہنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ بلکہ بھارت کا ہی ایک واقعہ یاد آگیا۔ جب امجد صابری کو ڈاکوؤں نے گھیر لیا۔

ہوا کچھ یوں کہ۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر للت پور میں امجد صابری پرفارم کر رہے تھے۔ فرمائشیں بڑھتی جارہی تھیں اور صابری کے کلام کا سحر لوگوں کو جکڑتا جا رہا تھا۔ اور اسی میں صبح سے رات ہو گئی۔ خیال آیا کہ فلائٹ پکڑنے دہلی بھی تو پہنچنا ہے۔ للت پور والوں سے رخصتی کی درخواست کی۔ مگر وہاں کے معزز لوگوں نے سمجھایا کہ صابری صاحب! رات کافی ہو چکی ہے۔ یہاں راستے میں ڈاکو ہوتے ہیں۔ مگر امجد صابری کہاں رکنے والے تھے؟ ضد کی اور نکل پڑے۔ لیکن للت پور والے خطرے کو بھاپ رہے تھے اسی لیے انہوں نے اپنا ڈرائیور اور دو پولیس والے بھی قوال اور ہم نواؤں میں شامل کر دیے۔

اب تاریک سڑک پر صابری اور ان کے دوستوں سے بھری کوسٹر اکیلی ہی چلی جارہی تھی۔ کہ اچانک ڈرائیور نے بریک لگایا۔ اور پیچھے مڑ کر بتایا کہ یہاں ایک ڈھابا آیا ہے۔ چائے وغیرہ پی لیجیے۔ تمام ہی لوگ اتر گئے۔ ڈرائیور کاؤنٹر پر آرڈر کرنے گیا تو وہاں کیسٹ میں ’’بھردو جھولی‘‘ قوالی چلائی جا رہی تھی۔ ڈرائیور نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور کاؤنٹر پر بیٹھے شخص سے پوچھا جانتے ہو یہ قوالی کس کی ہے؟ اس نے جواب دیا ہاں! پاکستانی قوال ہیں۔ ڈرائیور بولا۔ وہ قوال اس وقت میرے ساتھ یہاں موجود ہیں۔ ان دونوں کی یہ گفتگو ڈھابے پر بیٹھے کچھ لوگوں نے سن لی۔

جانتے ہیں وہ لوگ کون تھے؟ بڑی مونچھوں اور بڑی گنز والے ڈاکو۔ ڈاکوؤں کے اس گروہ نے امجد صابری اور ان کے ہم نواؤں کو گھیر لیا اور ضد کی کہ وہ لائیو ’’بھردو جھولی‘‘ سنائیں۔ بس پھر کیا؟۔ اس ڈھابے کے تخت اسٹیج بن گئے۔ ہارمونیم اور طبلے سجائے گئے اور پھر امجد صابری نے خوب داد سمیٹی بلکہ ڈاکوؤں نے اپنی ایک گاڑی بھی ان کے ساتھ روانہ کی تاکہ راستے میں انہیں کوئی اور گروہ لوٹ نہ لے۔

آپ کو حیرانی ہوگی یہ جان کر۔ کہ اس ڈھابے کے کاؤنٹر پر بیٹھے شخص سے لیکر ڈاکوؤں کے گروہ تک، کوئی مسلمان نہیں تھا۔ طلحہ صابری نے اس بارے میں بتایا کہ پرفارمنس کرنے کا ساری دنیا میں مزہ ایک طرف اور انڈیا میں مزہ ایک طرف، وہاں لوگ سمجھتے ہیں سنتے ہیں میوزک کو بھگوان مانتے ہیں اور ایک ایک باریکی پر داد دیتے ہیں۔

امجد صابری کی شادی

کم عمر میں بہت کچھ کرنے والے امجد صابری نے دو مہینوں میں دو شادیاں کی تھیں۔ یہ بات میرے لیے بھی حیران کن تھی۔ یہ نہیں کہ دو شادیاں۔ وہ تو لوگ کر ہی لیتے ہیں مگر پہلی شادی کے اگلے ہی مہینے دوسری شادی۔؟ یہ صرف امجد صابری ہی کر سکتے تھے۔ مجدد صابری نے اس بارے میں بتایا:

ایک ہی سال کے اگست میں دادی کی پسند سے شادی کی اور اگلے مہینے اپنی پسند سے۔ فیملی میں وٹہ سٹہ ہوا تھا، میری والدہ ابا کے پاس آئی تھیں اور پھپھو کی ماموں سے شادی ہو گئی تھی، پھر اس کے بعد ابا کو یہی تھا کہ دوسری کرنی ہے اور چاہتے تھے کہ دونوں اپس میں دوستی کرلیں اور سیٹل رہیں، لیکن فیملی میں اس وقت کنزور ویٹیو لوگ تھے، ابا نے اماں کی تو رکھ لیں لیکن پھر آپشن رکھا کہ اپنی پسند سے بھی کروں گا، تھوڑا سا ہنگامہ ہوا پھر سب سیٹ ہو گئے، ایک سامنے کمرے ممی کا ہوتا تھا اور ادھر امی کو ہوتا تھا، اور ابا دس دس دن دونوں کمروں میں رہتے تھے۔ صورتحال یہ ہوئی کہ ممی کے ساتھ ڈیڑھ سال بعد علیحدگی ہو گئی، کیونکہ ماموں اور پھپھو کی نہیں بن رہی تھی تو دونوں طرف سے شادی ختم ہو گئی۔

زندگی میں سب بہت بہترین چل رہا تھا۔ مگر جہاں ان کے چاہنے والوں کا دوست و احباب کا حلقہ بڑھ رہا تھا۔ وہیں خاموشی سے دشمن بھی ان کی تاک میں بیٹھا تھا۔ آپ میں سے بہت لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جس حملے میں وہ شہید ہوئے وہ پہلا تھا۔ جی نہیں! امجد صابری پر تین حملے ہو چکے تھے۔ مجدد صابری ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

بلوچ کالونی کا پل ہے انہوں نے اسٹریٹ فائر کیے تھے گاڑی کے ادھر ادھر لگے لیکن کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ابا کے دوستوں کے پاس اسلحہ تھا، انہوں بیک فائر کیا تھا تو نکل گئے۔ ابا گاڑی بھی تیز چلاتے ہیں۔ پھر ایک دفعہ فیملی کے ساتھ آ رہے تھے کہ کچھ لوگوں نے پیچھا کیا۔ تیسری دفعہ یہ کہ ابا امریکا چلے گئے اور گھر میں چار لوگ گھسے، انہوں نے پیسہ وغیرہ نہیں پوچھا سیدھا پوچھا کہ امجد صابری کہاں ہے؟ ابا نے گارڈز بھی رکھے تھے لیکن پھر ہٹا دیے، کیوں کہ وہ سمجھتے کہ گارڈ خود حرام خور ہوتے ہیں، پیسے کےلیے کسی کی بھی باتوں میں آ سکتے ہیں۔ ابا ایسے تھے کہ جہاں چلنا ہے چلو رات کے چار بج رہے ہیں چلو۔

اور پھر وہ دن آیا

22 جون 2016، سولہویں روزے کی سحری تھی۔ سما ٹی وی کے سیٹ پر امجد صابری کا انتظار ہو رہا تھا اور وہ آ بھی گئے، عنوان تھا ’’قبر کا عذاب‘‘۔

سید فصیح الدین سہروردی کلام پیش کرتے ہیں جو سن کر بیک اسٹیج امجد صابری سے رہا نہیں جاتا اور وہ مائیک لگا کر سیٹ پر آ جاتے ہیں۔ اتنے میں بلال قطب امجد صابری سے دو اشعار پیش کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ ایک نارمل پروگرام تھا مگر امجد صابری اس وقت نارمل نہیں تھے۔ نجانے وہ کس کیفیت میں تھے کہ وہ کلام یا دعا شروع کر دی۔

میں قبر اندھیری میں، گھبراؤں گا جب تنہا
امداد میری کرنے، آ جانا رسول اللہ

یہ کلام پڑھتے پڑھتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ پھر رُک گئے۔ ہال میں سناٹا چھا گیا اور پھر امجد نے دوبارہ کلام شروع کیا۔ یقین کیجیے یہ ڈاکومینٹری بنانے کے لیے آج بھی جب میں نے اس کلام کو اور اس ماحول کو محسوس کیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، یوں لگا کہ امجد دل سے رسول اللہ ﷺ کو پکار رہے ہیں، امداد مانگ رہے ہیں۔

اسی کیفیت میں وہ گھر چلے گئے۔ اب شام کو انہیں اے پلس میں مایا خان کے افطار شو میں جانا تھا۔ وہ بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔ انہیں بڑے پیار سے چومتے ہیں۔ بیوی کو شفقت سے دیکھ کر گھر سے نکل جاتے ہیں۔ لیاقت آباد سے حسن اسکوائر جانے والے روڈ پر امجد صابری کی گاڑی جیسے ہی غریب آباد پہنچتی ہے قاتل گاڑی کے آگے بائیک لگا کر روکتے ہیں اور امجد صابری پر فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔

مجدد صابری نے اس بارے میں بتایا:

ان (ٹارگٹ کلرز) کو پراپر پلاننگ معلوم تھی کہ امجد صابری گاڑی بھی تیز چلاتا ہے، اسلحہ بھی ہوتا ہے، پکڑے تو دو یا تین لوگ گئے ہیں لیکن بتایا یہ گیا تھا کہ گیارہ لوگوں کا ایک گروپ تھا، جو رکشے، ٹیکسی بائیک پر تھے، ان کو معلوم تھا امجد صابری گاڑی تیز چلاتا ہے انہوں نے ٹریفک میں ایک سائیڈ لگایا اور پھر یہ کیا۔

اُدھر اے پلس کے سیٹ پر مایا خان کو یہ خبر ملتی ہے تو انہیں یقین نہیں آتا اور وہ روتی ہوئی سیٹ چھوڑ جاتی ہیں۔ سارا ہی پاکستان سَکتے ہی حالت میں یہ خبر سن رہا تھا۔

امجد صابری سے بھلا کسی کی کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟

کچھ ہی عرصے بعد افواہیں گردش کرنے لگیں کہ امجد صابری کا تو بلڈرز مافیا سے جھگڑا تھا اور اسی وجہ سے ان کا قتل ہوا۔ صحافی ذیشان شاہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ یہاں غلط قسم کی خبریں پھیلتی ہیں اور لوگوں کو تصدیق نہیں ہوتی تو لوگوں نے عجیب سی چیز جوڑ دی تھی کہ امجد صابری نے کمرشل کیا تھا نارمل سا، تو لوگوں نے جوڑ دیا کہ قبضہ مافیا کا کام ہے۔ صاحب زادے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب کو یہ لگنے لگا کہ پراجیکٹ ہے ہی امجد صابری کا اور زیادہ تر لوگوں کو آ ج تک یہی لگتا ہے کہ ابا کا پروجیکٹ تھا۔

طلحہ صابری کہتے ہیں کہ امجد بھائی سے ایسی دشمنی کس کی ہوسکتی ہے کہ امجد بھائی کو شہید ہی کردے، نہیں معلوم کون تھا کیا تھا اور میرا آج بھی اس بندے سے یہی سوال ہے کہ کیوں مارا؟ کیا بگاڑا تھا؟

ذیشان شاہ نے قتل کی تفتیش کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:

سی ٹی ڈی کو ایک ٹپ ملی، جس میں ایک سعید کالو نامی شخص تھا۔ اس کا تعلق کالعدم تنظیم سے رہا تھا۔ جب اسلحے کی تفصیل معلوم کی تو اس نے ایک شخص کا بتایا فیروز لمبو۔ پھر اس نے نام لیا عاصم کیپری کا۔ دوسری جانب خول کی بھی ورکنگ جاری تھی، جو بعد میں اسلحہ برآمد ہوا ان لوگوں کے پاس سے۔ تقریباً چھ سے سات ماہ بعد اسحاق عرف بابی اور عاصم کیپری کو امجد صابری کی رہائش کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔

بہرحال! اب اکتوبر 2023 میں پولیس ایک اور ملزم قاسم رشید کی گرفتاری کا اعلان کرتی ہے۔ اور اسے امجد صابری قتل کیس کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتی ہے۔

امجد صابری دنیا سے چلے گئے لیکن گھرانہ ایک نئی مصیبت میں آ گیا۔ آئے روز کسی نہ کسی چینل کے اینکرز اپنی دکانیں چمکانے امجد صابری کے گھر پہنچ جاتے۔ یہ لالو کھیت یعنی لیاقت آباد کا وہی مکان تھا، جو غلام فرید صابری نے کبھی بنایا تھا۔ اپنے والد کی یاد میں امجد صابری نے یہ مکان کبھی نہیں چھوڑا، وہ آخر تک اسی مکان میں رہے۔

مجدد صابری نے بتایا کہ موو ہونے کی بات ہوئی تھی ابا کی زندگی میں ایک دفعہ۔ لیکن دادی نے کہا میں تو یہیں ہوں، پھر ابا ٹھنڈے ہو گئے کہ آپ نہیں جارہی تو میں بھی نہیں جارہا۔

لیکن یہاں اب جو تماشا ہو رہا تھا، آئے دن کوئی نہ کوئی آتا اور بیوہ اور بچوں کا غم پھر ہرا ہو جاتا۔ مجدد صابری کہتے ہیں کہ میری ماما ڈر جاتی ہیں، ہم لاہور بھی اسی لیے موو ہوئے تھے۔ وہ ایک آٹموسفائر سے نہیں نکل پا رہی تھیں۔ اس وقت یہ بھی ہوا تھا کہ پاکستان سے باہر شفٹ ہوجائیں گے۔ ویزہ تو مل جاتا لیکن وہ دس سال تک واپس نہیں آنے دیتے۔

ان حالات میں امجد صابری کی بیوہ بچوں کو لے کر لاہور شفٹ ہو گئیں آج ہمارے سامنے امجد صابری کی شکل میں ان کا بیٹا مجدد موجود ہے۔

شیئر

جواب لکھیں