‏17 اکتوبر 1998ء کی ایک منحوس صبح، حکیم صاحب آج بھی نماز فجر کے فوراً بعد مطب پہنچ گئے۔ ڈرائیور، محافظ اور ایک ذاتی محافظ ساتھ تھا۔ ابھی دن کی روشنی بھی پوری طرح نہیں ہوئی تھی، سڑکیں بالکل ویران تھیں۔ حکیم صاحب دواخانے کے باہر اپنی گاڑی سے اترے کہ اچانک کچھ تیز رفتار گاڑیاں آرام باغ روڈ پر آتی نظر آئیں۔ حکیم صاحب ابھی اپنے ماتحتوں سے مل ہی رہے تھے کہ اچانک ان گاڑیوں سے فائرنگ ہو گئی۔ ایک، دو، تین لاشیں گریں اور شہر کراچی پر دہشت کے سائے اور گہرے ہو گئے۔

وہ دن ہے اور آج کا دن، اس شہر کا کبھی سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوا کیونکہ حکیم صاحب کوئی معمولی اور گمنام آدمی نہیں تھے، وہ تھے حکیم محمد سعید۔ طب اور حکمت پر دنیا کے بڑے ناموں میں سے ایک۔ ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی بنانے والے۔ اپنی پوری زندگی پاکستان کی خدمت کے لیے وقف کرنے والے۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ صرف ایک شخص نے علم و آگہی کے لیے اتنی خدمات دی ہوں۔ وہ زندگی بھر سعید رہے، اور مرتے دم شہید بھی بن گئے۔

حکیم سعید کے آبا و اجداد

حکیم محمد سعید کے آبا و اجداد کا تعلق چینی ترکستان سے تھا، یعنی سنکیانگ سے۔ سولہویں صدی میں اُن کا خاندان ہجرت کر کے پشاور آیا اور پون صدی بعد ملتان کو اپنا گھر بنایا۔ اٹھارہویں صدی میں اس خاندان نے دلّی ہجرت کی، پھر پانی پت اور پھر کوہِ ہمالیہ کے دامن میں پیلی بھیت۔ جہاں 1883 میں حکیم محمد سعید کے والد حافظ عبد المجید پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد اس خاندان نے واپس دلّی کی راہ لی، جہاں 1900 میں حافظ عبد المجید کا نکاح رابعہ بیگم سے ہوا۔

حافظ عبد المجید کو دوا سازی میں بہت دلچسپی تھی۔ اس شوق کی وجہ سے انہوں نے دلی میں حکیم اجمل خاں کے مشہور دواخانے میں ملازمت لی اور پھر 1906 میں اپنا دواخانہ ’’ہمدرد‘‘ کھولا۔ اس کام میں حکیم عبدالمجید کی اہلیہ رابعہ بیگم کا بھی بڑا کردار تھا، لیکن رابعہ بیگم کا اس سے بھی بڑا کارنامہ تھا اپنے بچوں کی تربیت۔

حکیم محمد سعید کا بچپن

یہ 9 جنوری 1920 کا دن تھا، جب دلّی کے محلہ کوچہ کاشغری میں دونوں کے ہاں پانچویں اولاد پیدا ہوئی، نام رکھا گیا: محمد سعید۔ سعید پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑی حمیدی بیگم، پھر عبد الحمید، محمودی بیگم، عبد الوحید اور آخر میں محمد سعید۔

ابھی سعید کی عمر ڈھائی سال ہی تھی کہ 22 جون 1922 کو والد کا انتقال ہو گیا۔ حکیم محمد سعید کہتے تھے:

میری والدہ ایک نرم مزاج خاتون ہونے ہونے کے ساتھ ساتھ گرم مزاج بھی تھیں۔ اصول کے خلاف کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ ان کی تربیت کا سارا زور اخلاق پر تھا اور بد اخلاقی پر سخت سزا دیتی تھیں۔

رابعہ بیگم دواخانے کی دن بھر کی آمدنی سے کچھ رقم پس انداز کر لیتی تھیں۔ حکیم عبد المجید کو سب علم تھا مگر وہ بے خبر بنے رہتے۔ کئی سال بعد کاروبار کی توسیع کے لیے ایک عمارت خریدنے کی ضرورت پڑی۔ سرمایہ نہیں تھا تو حکیم عبد المجید پریشان ہو گئے۔ رابعہ بیگم نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ سامنے والی دکان کی ضرورت ہے، مگر اس کی جو رقم مانگی جا رہی ہے وہ موجود نہیں۔ رابعہ بیگم نے کسی خفیہ مقام سے ایک تھیلی نکالی اور وہ پس انداز کی گئی رقم شوہر کے حوالے کر دی۔ اس طرح وہ عمارت خرید لی گئی جہاں ’’ہمدرد‘‘ آج بھی قائم ہے۔

چھوٹے سے محمد سعید کو دلّی کے معروف عالم مولانا احمد نے قرآن مجید کی پہلی آیت پڑھائی اور پھر پانچ برس کی عمر میں ہی انہوں نے قرآن مجید ختم کر لیا۔ حکیم سعید بتاتے ہیں کہ ناظرہ قرآن پڑھنے کے دوران ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک دن استانی جان ہمیں پڑھتا چھوڑ کر محلے میں دورے پر نکل گئیں۔ جانے میرے دل میں کیا آیا کہ سیڑھی چڑھ کر کبوتروں کی کا بُک میں پہنچ گیا اور اندر گھس کر سب سے زیادہ خوب صورت موٹے سے کبوتر کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا اور لگا پیار کرنے۔ وہ بڑا طاقت ور نکلا، زور مارا اور میرے ہاتھوں سے تو نکل گیا مگر اس کی دُم میرے ہاتھ میں ہی رہ گئی۔ اب ایک کبوتر کی تکلیف کہ اُس کی پوری سفید دم میرے ہاتھ میں رہ گئی اور وہ بغیر دُم رہ گیا، دوسرا مجھے یہ خوف کہ استانی جان اور ان کے شوہر چچا جان پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا؟ پھر اس حادثے کے عینی گواہ بھی پندرہ سولہ بچے تھے۔ رات گزر گئی۔ صبح مدرسے آیا تو چچا جان دونوں کبوتروں کو دانہ کھلارہے تھے۔ ان میں وہ بے دُم کبوتر بھی تھا جسے دیکھ کہ میرا تو دم ہی نکل گیا۔

چچا جان نے سوال کیا: سعید بیٹے! اس کبوتر کی دم کو آخر کیا ہو گیا؟ میں نے گہرا سانس لیا اور پھر جو حقیقت گزری تھی، سچ سچ بیان کر دی۔ اس سچ پر استانی جان کا تاثر تو یہ تھا کہ کیسا نڈر ہے؟ منہ در منہ باتیں کر رہا ہے؟ مگر چچا جان کے تاثرات بالکل مختلف تھے۔ میری سچائی پر وہ واقعی خوش ہوئے اور صرف یہ کہا کہ کبوتر کو تکلیف ہوئی ہے۔

بہرحال، والدہ رابعہ بیگم نے فیصلہ کیا کہ اب محمد سعید اپنے والد کی طرح قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ دلّی میں ایک مسجد تھی، جسے گاڑی بانوں کی مسجد کہا جاتا تھا، اس کے مدرسہ تعلیم القرآن میں محمد سعید کو داخل کرا دیا گیا۔ پھر 1927ء میں انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ پہلی بار حج بیت اللہ بھی کیا اور دو سال بعد صرف 9 سال کی عمر میں حفظِ قرآن بھی مکمل کر لیا۔

ننھے سعید نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی اور 15 سال کی عمر تک وہ اردو، عربی اور فارسی پر عبور حاصل کر لیا لیکن اِن سب سے بڑھ کر تھی اُن کی والدہ کی تربیت۔ حکیم محمد سعید نے ایک بار بتایا:

جب میں پانچ سال کا تھا تو والدہ ہمیں جے پور لے گئیں۔ دونوں بڑے بھائی عبد الحمید اور عبدالوحید بھی ساتھ تھے۔ مجھے اب تک جے پور کا چڑیا گھر دیکھنا یاد ہے۔ سب سے زیادہ مجھے وہاں شیر پسند آئے تھے۔ خیر جی ابھی دن ڈھلا ہی تھا کہ بڑے کالے بادل آسمان پر آئے۔ گرج چمک نے ہمیں ڈرا دیا۔ موسلا دھار بارش ہوئی۔ گھنٹہ بھر بعد اچھی خاصی ٹھنڈ ہو گئی۔ اتنے میں کیا دیکھا کہ ایک آدمی قلفی فروخت کرتا آیا۔ قلفی والا بھی جانتا تھا کہ اگر یہ نہ بکیں تو ضائع ہوں گی۔ وہ بیچنے کے لیے بے چین تھا اور ہم کھانے کے لیے تیار۔ اس نے ساری قلفیوں کے پانچ روپے مانگے۔ ہم نے اسے آٹھ آنے میں لینے کی بات کی۔ اگر موسم اچھا ہوتا تو یہ دس روپے کا مال تھا۔ اس زمانے میں آٹھ آنے بھی بڑی رقم ہوتی تھی۔ ہم نے قلفی والے کی مجبوری کا بڑا فائدہ اٹھایا۔ اس بیچارے نے آٹھ آنے میں ہمیں ساری قلفیاں دے دیں۔ بارش جاری تھی اس لیے ٹھنڈ بڑھ گئی تھی لیکن ہم سب نے ٹھنڈ کے باوجود خوب قلفیاں کھائیں۔ اور رات کو تینوں بھائیوں کو بخار ہو گیا۔ والدہ پریشان ہو گئیں۔ خیر علاج تو ہوا مگر والدہ نے جو بات کی وہ مجھے آج تک یاد ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ تم نے کل شام قلفی والے کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا تھا، اس نے بد دعا کی، اس لیے یہ بخار آیا ہے۔ کسی کا حق مارنے کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالی نے دی ہے۔

مشروبِ مشرق: روح افزا

محمد سعید کو صحافت کا شعبہ بڑا پسند تھا مگر بڑے بھائی کے کہنے پر وہ حکمت کی طرف آ گئے۔ ‏1936 میں محمد سعید نے حکیم محمد اجمل خاں کے طِبیہ کالج میں داخلہ لیا۔ پھر 1938 میں دلّی یونیورسٹی کے فارمیسی اینڈ میڈیسنل کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوئے، 1942 میں ڈگری حاصل کی اور پھر اپنے خاندانی ادارے ہمدرد وقف لیبارٹریز سے منسلک ہوگئے۔

اُس زمانے میں ہمدرد دواخانہ اپنی ادویات کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز کے لیے بہت مشہور تھا، یہ تھا شربت روح افزا۔ جو آج دنیا کے معروف ترین مشروبات میں سے ایک ہے اور اسے مشروبِ مشرق یعنی drink of the east کہتے ہیں۔

اس شربت کا ذائقہ واقعی ایسا ہے کہ یہ روح افزا کہلانے کا مستحق ہے۔ لیکن یہ نام آیا کہاں سے؟ یہ نام رکھا تھا حکیم محمد سعید کے والد حکیم عبد المجید نے۔ انہوں نے یہ نام پنڈت دیاشنکر نسیم لکھنوی کی ’’مثنوی گلزارِ نسیم‘‘ کے ایک کردار سے لیا تھا، جس کا نام تھا ’’روح افزا‘‘۔ پھر روح افزا کا وہ مشہور زمانہ لیبل بھی تیار ہوا، جو حکیم عبد المجید کے دوست مرزا نور حسین نے ڈیزائن کیا تھا۔ شربت بھی امر ہو گیا اور اس کا ڈیزائن بھی۔

حکیم بنے دولہا

حکیم محمد سعید کی شادی سن 1943ء میں اُن کی خالہ زاد محترمہ نعمت بیگم سے ہوئی۔ نعمت بیگم ایک وفا دار، خدمت گزار اور صابر و شاکر خاتون تھیں۔ حکیم سعید کہتے تھے :

اگر مجھے ایسی معصوم شریک حیات نہ ملتی تو شاید میں وہ سارے کام نہ کر سکتا کہ جو میں نے کر لیے ہیں۔ انہوں نے ہر تکلیف برداشت کر کے میری راحت کو ہر راحت پر مقدم رکھا۔ جب غربت کا دور دورہ تھا تو بھی وہ ثابت قدم رہیں۔ ہم دونوں نے خاموشی سے فاقے بھی کر لیے۔

لیکن اس شادی سے پہلے ہی ہندوستان میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو چکی تھی۔

آزادی کا متوالا

23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک تاریخی جلسہ ہوا، جس میں ایک قرارداد منظور ہوئی، جسے آج ’’قرارداد پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت 20 سال کے حکیم سعید بھی وہاں موجود تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی تقریریں اُن کو بہت متاثر کرتی تھیں۔ پھر حکیم سعید کا شہر دلّی خود ہندوستان کا سیاسی مرکز تھا، جہاں بڑے غور و فکر کے بعد وہ ایک نتیجے پر پہنچے۔ خود لکھتے ہیں:

بھارت میں جس انداز کی حکومت قائم ہوگی میں اس کا وفا دار نہیں رہ سکتا، لہٰذا مجھے پاکستان جانا ہوگا۔

اور پھر ایسا ہی ہوا۔ 14 اگست 1947ء کا سورج طلوع ہوا، برصغیر تقسیم ہو گیا اور مملکت خدادادِ پاکستان وجود میں آ گئی لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے حکیم محمد سعید کا دل چھلنی کر دیا۔ انہوں نے تقسیم کے فسادات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ دلّی میں ان کے کئی چاہنے والے شہید ہوئے، عزتیں لٹ گئیں، علم و ادب کے خزانے جلا دیے گئے۔ اِس قتل عام نے تو 1857 کی یادیں تازہ کر دی تھیں۔ دوست احباب اپنا سب کچھ لٹا کر ہجرت کرنے پر مجبور تھے پھر انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوگئی اور حکیم سعید نے بھی اپنے ارادوں پر عمل کرنے والے تھے۔

مہاجر حکیم

ہندوستان میں ادارہ ہمدرد عوام کی خدمات کے لیے وقف ہو چکا تھا۔ انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ نوزائیدہ مملکت پاکستان کے عوام کی بھی خدمت کی جائے۔ اس لیے حکیم محمد سعید نے رشتے داروں، دوستوں اور چاہنے والوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔

یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس فیصلے سے نہ بھائی خوش تھے، نہ ماں راضی تھیں۔ ایسا بھائی اور ایسی ماں جن کے سامنے انہوں نے زندگی میں کبھی نہ نہیں کہی تھی۔ اب ہر طرف آنسو تھے، جذبات تھے لیکن ارادہ نہیں بدلا۔ ماں اور بڑا بھائی سمجھا سمجھا کر بالآخر ہار مان گئے، اجازت مل گئی۔ والدہ بولیں:

سعید! میں تم کو اپنی نشانی کیا دوں؟ لو یہ میری چادر اور لو یہ میرا تکیہ۔ بس تم ان دونوں کو اپنے پاس رکھنا۔ تم مجھ سے جدا تو ہو رہے ہو لیکن دلّی آتے جاتے رہنا۔ میرا دل تم کو ڈھونڈتا رہے گا۔

حکیم سعید کہتے ہیں کہ اتنا کہہ کر وہ بھی خوب روئیں اور میں بھی بہت رویا۔ میں ‏9 جنوری 1948ء کو اپنی والدہ اور اپنے محسن بھائی کو اداس چھوڑ کر، اپنی ہر جائیداد اور اپنا پیارا شہر دلّی چھوڑ کر پاکستان آ گیا، کیونکہ میں بھارت کا وفا دار نہیں ہو سکتا تھا۔ میرے عزیز و اقارب کو میرا بھارت چھوڑنا گوارا نہ تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔ میرے بزرگ بلکہ دوست حضرت خواجہ حسن نظامی کی رائے بھی یہی تھی کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا چاہیے، مگر میں نے اصول کی خاطر ہر چیز قربان کر دی اور خالی ہاتھ پاکستان چلا آیا۔

یوں حکیم محمد سعید بیوی، بیٹی اور ماں کی دی گئی نشانیوں کے ساتھ دلّی سے کراچی پہنچ گئے۔

پاکستان کا ہمدرد

ایک امیر خاندان کا چشم و چراغ، اب یہاں ایک عام انسان تھا، بالکل خالی ہاتھ۔ نت نئے مسائل اب منہ کھولے سامنے کھڑے تھے، جن میں سب سے بڑھ کر تھا غمِ روزگار۔ مگر حکیم سعید ہمت ہارنے والے نہیں تھے، تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ایک اسکول میں کئی مہینے بچوں کو پڑھایا بھی اور پھر 10 بائے 10 فٹ کا ایک کمرے میں ہمدرد مطب کی بنیاد رکھی۔ لوگ بتاتے ہیں کہ کاغذ پر ’’ہمدرد مطب‘‘ اپنے ہاتھ سے لکھ کر لگایا اور یوں کام شروع ہو گیا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا، یہ کام بڑھ گیا۔

کراچی کی ایک معروف سماجی شخصیت تھی ایڈلجی ڈنشا کی۔ ان کے توسط سے حکیم سعید کو آرام باغ میں فریئر روڈ پر ایک دکان مل گئی۔ جہاں 19 جون 1948کو وزیر تعلیم پیر الٰہی بخش نے ہمدرد مطب کا افتتاح کیا۔ پھر دوا سازی کے لیے جگہ کی ضرورت پڑی، تو مطب کے سامنے ہی ایک اور جگہ مل گئی۔ دلّی سے نکلتے ہوئے شربت ’’روح افزا اور ’’نونہال گرائپ واٹر‘‘ کی ایک بڑی مقدار انہیں دی گئی تھی۔ یہ اسٹاک فروخت ہونے سے حکیم سعید کو بہت مدد ملی۔ یوں ’’ہمدرد پاکستان‘‘ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔

محنت، خلوص اور جذبہ خدمت، بہت کم عرصے میں ہمدرد ملک کے کامیاب ترین اداروں میں سے ایک بن گیا لیکن تمام تر کامیابیوں کے باوجود حکیم سعید کبھی اپنی ماں کو نہیں بھولے، ان کی دی گئی چادر اور تکیہ ہمیشہ اپنے پاس رکھا اور اسی پر سوتے۔ ایک دن اُن کی بیگم نے تکیے کا غلاف دھونے کے لیے اتارا اور انہیں محسوس ہوا کہ تکیے میں کچھ ہے۔ کھول کر دیکھا تو اندر پچیس ہزار روپے کے نوٹ تھے۔ انہوں نے حکیم صاحب کو دکھائے تو بڑے خوش ہوئے اور انہیں سمجھ آ گئی کہ ماں نے یہ نشانی انہیں کیوں دی تھی؟ یہ اُس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی، جس سے مطب اور دواخانے کو بڑھانے اور نئے شہروں میں شاخیں کھولنے میں بڑی مدد ملی۔

آپ نے 1953 میں مشرقی پاکستان میں ہمدرد کی بنیاد رکھی۔ 1971 میں جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو حکیم سعید نے اسے وہیں کی انتظامیہ کے حوالے کر دیا۔ یہ حکیم یوسف ہارون کی سربراہی میں آج بھی قائم ہے ’’ہمدرد بنگلہ دیش‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

بہرحال، 50 کی دہائی میں ڈھاکا کے علاوہ لاہور کے علاقے انارکلی میں بھی ایک ہمدرد مطب قائم ہوا۔ پھر پشاور، راولپنڈی، ملتان اور سکھر میں بھی مطب قائم ہوئے بلکہ ایک لندن میں بھی بنا۔ طب کے فروغ کے لیے انہوں نے کراچی میں ہمدرد طبیہ کالج قائم بھی کیا، جس کا افتتاح 14 اگست 1958 کو مادر ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے کیا۔

ایک بار حکیم سعید کسی کام سے بینک گئے تو بینک آفیسر نے بتایا کہ نیشنل بینک آف انڈیا سے ایچ ایم سعید کے نام پر 72 ہزار روپے کی رقم آئی ہے، اس ہدایت کے ساتھ اگر پاکستان میں نہیں چاہیے تو دلّی واپس کر دی جائے۔ یہ وہ رقم تھی جو حکیم سعید اپنے دلّی والے بینک اکاؤنٹ میں چھوڑ آئے تھے۔ انہوں نے فوراً یہ رقم نکلوائی اور ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد رکھی، اور یہیں سے ہمدرد فاؤنڈیشن کی راہ ہموار ہوئی۔ سن 1969 میں ہمدرد پاکستان بالآخر ’’ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان‘‘ بن گیا۔

حکیم سعید کے معمولات

حکیم محمد سعید کی زندگی طب کے لیے وقف تھی۔ وہ نماز فجر سے عصر تک اپنا مطب چلاتے اور اس دوران ڈھائی تین سو مریضوں کو دیکھتے۔ کسی سے معائنے کی فیس نہیں لیتے تھے بلکہ مستحق مریضوں کو دوائیں بھی مفت ملتیں۔ کچھ مریضوں کی تو پرچیوں پر لکھ دیتے کہ دوائی کے ساتھ ان کو کچھ مالی مدد بھی دی جائے۔

بچے تو اُن کی کمزوری تھے، اپنی دراز میں ٹافیوں کے پیکٹ اور کھلونے رکھتے۔ کسی مریض کے ساتھ کوئی بچہ ہوتا یا مریض ہی بچہ ہوتا تو اس کو تحفے دیتے۔ مریضوں سے بڑی نرمی سے بات کرتے۔ کوئی لطیفہ بھی سنا دیتے جس سے مریض اپنا مرض بھول جاتا۔ کہتے تھے کہ معالج میں روحانیت کا عنصر ہونا چاہیے۔ جب وہ نبض چھوتا ہے تو انگلیوں سے شعاعیں نکل کر مریض میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ اگر معالج پاکباز ہوگا تو مریض لازماً شفایاب ہوگا۔

حکیم محمد سعید نے اپنی زندگی میں تیس لاکھ مریضوں کا علاج کیا، جن میں کئی ملکوں کے سربراہ بھی تھے اور نچلی سطح تک کے عام لوگ بھی۔ دولت تو بہت سے لوگوں نے کمائی، لیکن حکیم صاحب اُن سب سے مختلف تھے۔ انہوں نے یہ دولت قومی زندگی کو شاندار اور مالدار بنانے کے لیے وقف کر دی اور خود درویشی کی زندگی گزاری۔

ان کا ادارہ ہمدرد بھی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے، جس کی تمام تر آمدنی ریسرچ اور دیگر فلاحی خدمات پر صرف ہوتی ہے۔

حکیم محمد سعید کو 1993 میں گورنر سندھ بنایا گیا لیکن کچھ ہی عرصے میں انہوں نے یہ عہدہ چھوڑ دیا۔ وجہ بتائی کہ گورنر ہاؤس میں رہ کر مریضوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔ وہ جولائی 93 سے جنوری 94 تک گورنر رہے اور مختصر وقت میں بھی چار یونیورسٹیاں قائم کروا گئے۔ سرسید یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، بقائی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی اور جناح یونیورسٹی فار ویمن۔

اس پورے عرصے میں حکیم سعید نے نہ سرکاری گاڑی لی اور نہ سرکاری رہائش گاہ۔ تمام سرکاری سفر بھی اپنے خرچ پر کرتے۔ ایک بار سرکاری خرچ کے لیے ملنے والی رقم واپس کی جو 92 ہزار روپے تھی۔ جب یہ رقم وزارتِ خزانہ میں جمع کروائی تو ایک افسر نے حکیم سعید سے کہا کہ یہ تو آپ غلط روایتیں قائم کر رہے ہیں۔

حکیمی صحافت

ہم نے آپ کو شروع میں بتایا تھا کہ حکیم محمد سعید صحافی بننا چاہتے تھے۔ ‏1932 میں دلّی میں ’’ہمدرد صحت‘‘ کا اجرا ہوا اور 1937 میں اس کی ادارت حکیم سعید کو ملی جو 1941 تک جاری رہی۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے 1951 میں کراچی سے ہمدرد صحت جاری کیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے رسالے بھی آئے، جن میں سب سے مشہور تھا ’’ہمدرد نونہال‘‘۔ یہ حکیم میمد سعید کی ایک بڑی legacy بچوں ہے۔ یہ رسالہ 1953 سے شائع ہو رہا ہے بلکہ آج تقریباً پون صدی کے بعد بھی بچوں کا سب سے مقبول رسالہ ہے۔

یہ حکیم سعید کا بچوں سے تعلق اور محبت ہی تھی، جس کی وجہ سے ہی حکومتِ پاکستان نے 9 جنوری کو پاکستان میں بچوں کا دن قرار دیا، جی ہاں! حکیم محمد سعید کی سالگرہ کا دن! نونہال کے عروج کے زمانے میں بچوں کا بھی حکیم سعید سے بڑا گہرا تعلق ہوتا تھا۔ پشاور میں ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل گیا کہ میں حکیم سعید کے پاس جا رہا ہوں۔

خیر، حکیم سعید اردو اور انگریزی کی تقریباً دو سو کتابوں کے مصنف ہیں۔ حکیم سعید کے کئی سلوگن تھے مثلاً جاگو جگاؤ، آوازِ اخلاق، پاکستان سے محبت کرو پاکستان کی تعمیر کرو۔ وہ پاکستان کا یوم آزادی 14 اگست کی بجائے 27 رمضان کو منانے کا مطالبہ بھی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اردو زبان کی ترویج و ترقی بھی ان کا بڑا مقصد تھا۔ مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی سے جوڑنے کے لیے انہوں نےالبیرونی، ابنِ سینا اور ابن الہیثم کی کتابوں کے ترجمے کرائے۔ ان پر عالمی کانفرنسیں بھی کروائیں۔ کویت میں طبِ اسلامی مرکز قائم کیا، ڈبلیو ایچ او کے تحت طب کے لیے الگ شعبے بنوائے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں حکیم صاحب امورِ طب کے مشیر بنے اور طبی بورڈ کو نیشنل کونسل فار طب کا درجہ دلوایا۔ تب نیشنل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن قائم ہوئی۔ بلدیاتی اداروں کو طبی ڈسپنسریاں قائم کرنے کی ہدایت ہوئی۔ سرکاری اداروں میں طبیبوں کو بھی پینل پر رکھا گیا۔ ملٹی نیشنل فارما کمپنیز ایسا ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان دوا سازی میں خود کفیل بنے اور یہ مارکیٹ ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اس لیے جب حکیم صاحب کی راہ میں بہت روڑے اٹکائے گئے تب انہوں نے اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا اور پھر 15 دسمبر 1983 کو ’’مدینۃ الحکمت‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔

مدینۃ الحکمت

مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا آٹھویں اور نویں صدی عیسوی، اور اس عروج کی وجہ تھی علم۔ بغداد دنیا بھر کے علوم کا مرکز تھا اور شہر میں علم کا سب سے بڑا مرکز تھا بیت الحکمت۔ حکیم محمد سعید نے اسی طرز پر کراچی شہر سے باہر بارہ سو ایکڑ پر ایک شہرِ علم بنایا، نام رکھا گیا مدینۃ الحکمت۔

اس شہر میں کئی ادارے قائم کیے گئے: ہمدرد میڈیکل کالج، ہمدرد کالج، ہمدرد پبلک اسکول، ہمدرد ولیج اسکول، ہمدرد کالج آف ایسٹرن میڈیسنز، ہمدرد انڈسٹریل سٹی، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس مرکز اور سب سے بڑھ کر ہمدرد یونیورسٹی۔ یہ یونیورسٹی 1985 میں بنی۔ حکیم محمد سعید پہلے دن سے اپنی شہادت کے دن تک اس کے وائس چانسلر رہے۔

حکیم محمد سعید کی شہادت

یہ 17 اکتوبر 1998 کی صبح تھی۔ حکیم مسعید آرام باغ روڈ پر اپنے مطب پہنچے، گاڑی سے اترے ہی تھے ان پر اندھا دھند فائر کھول دیے گئے۔ کئی گولیاں حکیم محمد سعید کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر دیکھا۔ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔ شہادت کے وقت بھی حکیم محمد سعید روزے سے تھے۔

یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ پورا پاکستان ہل کر رہ گیا۔ پولیس کے مطابق حکیم سعید کے قتل میں ہونے والی ایک گاڑی پکڑی گئی اور الزام لگایا گیا کہ اس قتل میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے لوگ ملوث ہیں۔ ایم کیو ایم اُس وقت سندھ میں ہی نہیں بلکہ وفاق میں نواز شریف کی حکومت میں بھی اتحادی تھی۔ یہ بہت بڑا الزام تھا، جسے ایم کیو ایم نے رد کر دیا اور احتجاجاً حکومت چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ یوں سندھ حکومت تحلیل ہو گئی اور صوبے میں گورنر راج لگ گیا۔ لیکن معاملہ بڑھتا چلا گیا۔

ایم کیو ایم کے کئی کارکن اس کیس میں نامزد ہوئے اور پکڑے بھی گئے۔ پہلے خصوصی فوجی عدالت میں کارروائی ہوئی۔ جب فوجی عدالتوں کو ختم کر دیا گیا تو یہ کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پہنچ گیا۔ جہاں تمام ملزمان کو سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن مئی 2001 میں پہلے سندھ ہائی کورٹ نے یہ سزا کالعدم کی اور پھر 26 اپریل 2014 کو سپریم کورٹ نے بھی یہی اعلان کیا۔ تمام ملزمان با عزت طور پر بری کر دیے گئے۔

حکیم محمد سعید کا خون کس نے کیا؟ یہ آج تک پتہ نہیں چل سکا۔

حکیم کا پاکستان

حکیم سعید سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ آپ کو کبھی پاکستان آنے پر کوئی پچھتاوا ہوا؟ آپ بولے:

نہیں۔ ہر گز نہیں۔ یہ سودا ہم نے خود کیا تھا۔ میرے بڑے بھائی میرے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ میں دہلی ہی میں ان کا ہاتھ بٹاؤں۔ لیکن مجھے لفظ پاکستان سے عشق تھا، لہذا ادھر چلا آیا۔ اللہ تعالی نے کرم کیا اور وہ ادارہ جس کی بنیاد میں نے بارہ روپے سے رکھی تھی آج پاکستان کے چند بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ سب پاکستان سے عشق کا کمال ہے۔ ہاں کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ میری موت حمید بھائی سے پہلے ہو۔ وہ میرے جنازے پر آئیں، میرے چہرے سے چادر سرکا کر دیکھیں اور پھر آہستہ سے مسکرا کر کہیں کہ ہاں سعید! تمہارا فیصلہ درست تھا۔

حکیم عبد الحمید اپنے چھوٹے بھائی سے بہت محبت کرتے تھے اور حکیم محمد سعید کے کردار سے اتنے مطمئن تھے کہ ایک موقع پر کہا کہ اگر سرسید مرحوم مسدسِ حالی اللہ کے سامنے پیش کریں گے تو میں حکیم سعید کو پیش کر دوں گا۔

بھائی نے تقسیم کے وقت بھائی کی ہجرت کا صدمہ تو برداشت کرلیا، لیکن اُن کے قتل کا دھچکا نہیں سہہ پائے۔ حکیم سعید کی شہادت کے صرف 9 مہینے بعد جولائی 1999 میں انہوں نے بھی دلی میں اپنی آخری سانس لیں۔

حکیم محمد سعید کے ماتحت کہتے ہیں کہ حکیم صاحب ہمیشہ شگفتہ موڈ میں رہتے تھے۔ ہم نے کبھی انہیں تلخی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ جب کبھی آتے جاتے کسی کو دیکھتے تو کہتے کہ اور بھئی لڑکے، کیا حال ہے؟ اُن کی شہادت کے بعد ہم سب بوڑھے ہو گئے ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں