26 مارچ 2024 تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ ملک میں وفاق اور صوبائی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ وزیر اعظم اور دیگر وزرائے اعلیٰ اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن بھی ہونے والے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے سب ٹھیک چل رہا ہے لیکن پھر ایک ایسی خبر آئی جس نے ملک میں ہلچل مچا دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط بھیج دیا۔ اس میں الزام تھا کہ خفیہ ادارے عدالتوں میں مداخلت کرتے ہیں اور اس پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ یہ بھی کہا کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ججوں کے گھر والوں، دوستوں اور رشتے داروں کے ذریعے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کیا تھا؟ جیسے دھماکا ہو گیا۔

حکومت کو خط کے پیچھے سازش نظر آنے لگی۔ کہنے لگی جب حکومت بن گئی ہے تو خط کیوں سامنے آیا؟ اپوزیشن کو بھی موقع مل گیا۔ تحریک انصاف نے اسے ’’انقلاب‘‘ کا نام دے دیا۔

وزیر اعظم کو اپنی کرسی ہلتی محسوس ہوئی، سب وزیروں کو active کر دیا بلکہ خود بھی چیف جسٹس سے ملنے پہنچ گئے۔ اس کے بعد فیصلہ ہوا کہ اس خط کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنے گا! جی ہاں! ایک اور کمیشن۔

پاکستان کوئی اور چیز بنائے یا نہ بنائے، لیکن کمیشن بنانے میں خود کفیل ہے اور مزے کی بات! بلکہ افسوس کی بات کہنا چاہیے کہ آج تک جتنے بھی کمیشن بنے، ان کی رپورٹ کبھی بھی سامنے نہیں آئی اور اگر غلطی سے سامنے آئی بھی تو کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔

بڑے بڑے ہائی پروفائل کیسز آئے، جن کی تحقیقات لازماً ہونی چاہیے تھی لیکن نہ ہونی تھی، نہ ہوئی۔ اور اگر کی گئی تو رپورٹ دبا لی گئی۔ ایسے کون کون سی کمیشنز بنے؟ اس بارے میں آج ہم آپ کو بتائیں گے۔

لا پتہ افراد کمیشن

سمی بلوچ کی کہانی

تیرہ برس کی سمی بلوچ بلوچستان کے پسماندہ ضلع آواران میں رہتی ہے۔ والد ڈاکٹر ہیں، جن کا نام دین محمد بلوچ ہے۔ وہ ضلع خضدار کے علاقے اورناچ کے ایک کلینک میں کام کرتے تھے۔ اٹھائیس دسمبر دو ہزار نو کو بھی کام پر گئے، لیکن واپس نہ آئے۔ گھر والوں پر تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ آج بارہ سال گزر چکے ہیں۔ سمی کی دادی بھی بیٹے کی شکل دیکھنے کی ارمان لیے دنیا سے چلی گئیں لیکن دین محمد بلوچ کبھی واپس نہیں آئے۔

آج سمی بی ایس ان میڈیا جنرلزم کی ڈگری لے چکی ہے اور مسنگ وائس پرسنز کی سرگرم کارکن ہے۔ ہر فورم پر اپنے والد کے لیے بھی آواز اٹھاتی ہے اور بلوچستان کے دوسرے لا پتہ افراد کی بازیابی کے لئے بھی کیونکہ یہ کہانی صرف سمی کی نہیں بلکہ کئی گھرانوں کی ہے۔

پاکستان کے بنیادی مسئلوں میں سے ایک سنگین مسئلہ ہے جبری گمشدگیوں کا۔ ویسے تو یہ مسئلہ نیا نہیں، لیکن آج جو بھی حالات ہیں، ان کا آغاز ہوا تھا جنرل پرویز مشرف کے دور میں۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی چیئر پرسن ہیں آمنہ مسعود جنجوعہ۔ وہ بتاتی ہیں پاکستان میں پانچ ہزار سے زائد لوگ جبری طور پر غائب ہیں۔ اور یہ صرف وہ لوگ ہیں جن کی رپورٹ ان کے پاس موجود ہیں۔ خود آمنہ جنجوعہ کے شوہر بھی پندرہ سال سے لا پتہ ہیں۔

لیکن یہ لوگ غائب کیسے ہوتے ہیں؟ اس بارے میں انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ اس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ملوث ہیں لیکن وہ اس کی تردید کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ دعویٰ کرتے ہیں کہ لا پتہ افراد میں سے بہت سے لوگ یا تو افغانستان جا چکے ہیں، یا تحریک طالبان یا بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو یورپ میں غیر قانونی تارک وطن بن گئے اور بعض لا پتہ افراد ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔

حقیقت جو بھی ہے، لیکن جبری گمشدگی کا یہ معاملہ پاکستان پر بہت بڑا داغ ہیں اور پچھلے کچھ عرصے میں اس پر بہت زیادہ بات ہوئی ہے۔ اس کی وجہ تھی تربت سے اسلام آباد تک ہونے والا بلوچ یکجہتی مارچ۔ اس کی قیادت تھی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ہاتھوں میں۔ ان کا مطالبہ تھا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسنگ پرسنز کو رہا کیا جائے۔

تربت ہی کیوں؟

اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں پہلے یہ بتاتے چلیں کہ یہ مارچ تربت سے کیوں چلا؟ آخر وہاں کیا ہوا تھا؟

یہ انتیس اکتوبر دو ہزار تئیس کی رات تھی۔ بلوچستان کے شہر تربت میں کچھ نامعلوم افراد بالاچ بلوچ کو اس کے گھر سے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ کئی دن بعد پتہ چلتا ہے کہ بالاچ اور اس کے تین ساتھیوں کے خلاف کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ میں مقدمہ درج ہے۔ اور پھر تئیس نومبر کو اطلاع ملتی ہے کہ بالاچ سی ٹی ڈی کے ساتھ مقابلے میں مارا جا چکا ہے۔

اہل خانہ لاش لے کر سڑک پر آ جاتے ہیں، احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں بعد میں تربت ہی نہیں، پورے بلوچستان سے مختلف جماعتیں اور سول سوسائٹی بھی شریک ہو جاتی ہے۔ حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور پھر بالاچ اور دوسرے تین افراد کے قتل کا مقدمہ سی ٹی ڈی اہلکاروں پر درج ہو جاتا ہے۔ لیکن احتجاج جاری رہتا ہے یہاں تک کہ بلوچستان سے اسلام آباد تک پہنچ جاتا ہے۔

اس دوران کئی لوگ گرفتار ہوتے ہیں جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ جاتا ہے اور عدالت گرفتار افراد کی رہائی کا حکم دے دیتی ہے لیکن اصل معاملہ اب بھی وہیں لٹکا ہوا ہے!

لا پتہ افراد کمیشن کی رپورٹ

کچھ ہی مہینوں میں لا پتہ افراد کمیشن کی رپورٹ سامنے آ جاتی ہے۔ یہ کمیشن دو ہزار گیارہ میں پیپلز پارٹی کے دور میں بنا تھا۔

جنوری 2024 میں اس کمیشن نے جو رپورٹ دی، اس میں بہت حیرت انگیز انکشافات تھے۔ مثلاً لا پتہ افراد کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے کے پی کے میں، جہان تین ہزار چار سو پچاسی افراد لا پتہ ہوئے اور بلوچستان، جہاں یہ مسئلہ بہت عام نظر آتا ہے، وہاں سے دو ہزار سات سو باون افراد لا پتہ ہوئے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ مارچ دو ہزار گیارہ سے دسمبر دو ہزار تئیس تک چار ہزار چار سو تیرہ ایسے لوگ بھی ہیں، جو اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے، نو سو چورانوے مختلف حراستی مراکز میں اور چھ سو چونسٹھ ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

کمیشن تو یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ اس کے پاس آنے والے سات ہزار کیسز میں سے تقریباً پانچ ہزار حل ہو چکے ہیں۔

یہ تو تھی مسنگ پرسنز کمیشن کی رپورٹ، لیکن۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رپورٹ کچھ اور ہی کہتی ہے۔ جس کے مطابق بلوچستان سے ہی تقریباً سات ہزار شہری لا پتہ ہیں

یعنی ایک کمیشن کی رپورٹ سامنے بھی آئی تو اس پر لوگ یقین نہیں کر رہے۔ لیکن بہت سارے کمیشن ایسے ہیں جن کی رپورٹ کے بارے میں کبھی کچھ پتہ نہیں چلا اور یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جاری ہے۔

لیاقت علی خان کا قتل

سولہ اکتوبر 1951۔ مقام راولپنڈی کا لیاقت باغ۔ عوام کا سمندر تھا جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا خطاب سننے کے لیے موجود تھا اور پھر اچانک دو گولیاں چل جاتی ہیں۔ لیاقت علی خان سینے پر ہاتھ رکھ کر گر پڑتے ہیں۔ فائر کس نے کیا؟ یہ تو جلد ہی پتہ چل گیا لیکن کیوں کیا؟ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ کیونکہ پولیس نے قاتل کو موقع پر ہی فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

یہ ایسا واقعہ تھا، جس نے پاکستان کی تاریخ بدل دی۔ اس قتل کی تحقیقات کے لیے پاکستان کا پہلا بڑا کمیشن بنا لیکن آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس قتل کے پیچھے کیا سازش تھی؟

لیاقت علی خان کمیشن

ملکی تاریخ میں سب سے پہلا جوڈیشل کمیشن لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات کے لئے بنا۔ اس کی قیادت اس وقت کے جسٹس محمد منیر اور اختر حسین کو دی گئی۔ بجائے اس کے کہ کمیشن لیاقت علی خان کے قاتلوں کا پتہ چلاتا، الٹا انتظامی غفلت کی تحقیقات کرنے لگا۔

بہرحال، انکوائری کمیشن کی رپورٹ 17 اگست 1952 کو پیش کی گئی۔ لیکن اس رپورٹ سے نہ لیاقت علی خان کی بیوہ رعنا لیاقت علی خان مطمئن ہوئیں، اور نہ پاکستان کے عوام کیونکہ رپورٹ کے نتائج بہت مبہم تھے۔

لیاقت علی خان کا قاتل ایک افغان شہری تھا، جس کا نام سید اکبر تھا۔ اسے موقع پر ہی مار دیا گیا۔ خود لیاقت علی خان کے بیٹے کہتے ہیں کہ اسے خوامخواہ نشانہ بنایا گیا، اصل قاتل تو کوئی اور تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے والد کو گولی سامنے سے نہیں، بلکہ پیچھے سے ماری گئی۔

پھر اس انتہائی ہائی پروفائل قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی، نہ ہی تفتیش ہوئی، نہ چالان پیش کیا گیا اور نہ ہی مقدمہ چلایا گیا۔ صرف اور صرف ایک کمیشن بنا، جس کی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد ایک اور واقعہ پیش آیا۔

تحقیقات کرنے والے انسپکٹر اعتزاز الدین 26 اگست 1952 کو یہ رپورٹ لے کر کراچی روانہ ہوئے لیکن ان کا جہاز پُر اسرار طور پر حادثے کا شکار ہو گیا۔ جہاز میں موجود تمام لوگ جان سے گئے اور کمیشن کے کاغذات بھی جل کر راکھ ہو گئے۔ اس طرح یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے دب گیا۔

حمود الرحمٰن کمیشن

سال انیس سو اکہتر، پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔ قائدِ اعظم کا پاکستان کس نے توڑا؟ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیوں بنا؟ ایسٹرن کمانڈرز نے ہتھیار کیوں ڈالے؟ اس سازش کے مرکزی کردار کون تھے؟

اس کا پتہ لگانے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں ایک عدالتی کمیشن بنایا گیا۔ اس نے دو سو سے زیادہ لوگوں کے بیانات لیے اور تقریباً ستر شہادتیں قلم بند کیں۔ لیکن رپورٹ ٹاپ سیکرٹ قرار دے دی گئی، اور کئی سال تک صیغۂ راز میں رکھی گئی۔

یہاں تک کہ پرویز مشرف کے دور میں ایک انڈین اخبار نے رپورٹ کے کچھ حصے شائع کر دیے۔ تب مجبوری میں حکومتِ پاکستان کو وہ رپورٹ شائع کرنی پڑی۔ لیکن تب بھی رپورٹ کے صرف دو حصے ہی سامنے لائے گئے باقی آٹھ حصے کا آج تک کچھ نہیں پتہ۔ بہرحال، جو شائع ہوا۔ وہ بھی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی تھا۔

سقوط ڈھاکا میں ملوث افراد بے نقاب ہوئے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ذمہ داروں نے اختیارات کا بے رحمانہ استعمال کیا۔ یہ سول معاملات میں فوجی مداخلت تھی۔ اقتدار کی ہوس تھی اور محلاتی سازشیں بھی تھیں، جنہوں نے اتنے بڑے سانحے کو جنم دیا۔

ہنگامہ خیز انکشافات

سقوط ڈھاکا کا سب سے بڑا مجرم جنرل یحییٰ خان، جنرل عبد الحمید خان، جنرل پیرزادہ اور جنرل مٹھا کو ٹھیرایا گیا۔ انہوں نے مارچ 1969 کو ایوب خان کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی۔ سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالا، انہیں دھمکایا، روپے پیسے کا لالچ دیا اور انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرانے کی کوشش کی۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر نے سیاسی جماعتوں کو اکسایا اور پھر عوامی لیگ نے سول نا فرمانی شروع کر دی۔ پھر 25 مارچ کو فوجی ایکشن شروع ہو گیا۔ لگ بھگ پچاس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

پھر جنرل یحییٰ کے زمانے میں ایوانِ صدر میں ہونے والی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا انکشاف بھی ہوا۔ کمیشن کی رپورٹ میں ایک درجن سے زیادہ خواتین کے نام درج ہیں، جو ایوان صدر آتی جاتی رہتی تھیں۔

سقوط ڈھاکا کا دوسرا بڑا مجرم گورنر جنرل غلام محمد خان تھے۔ انہوں نے لا محدود اختیارات کی ہوس میں پہلے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا اور پھر دستور ساز اسمبلی بھی توڑ دی۔ یہی نہیں، کابینہ میں کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان اور میجر جنرل اسکندر مرزا کو بھی شامل کر لیا۔ ان اقدامات سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ایوب خان کو پارلیمانی جمہوریت کا قاتل اور جنرل یحییٰ کو سہولت کار ہونے کی بنا پر مجرم قرار دیا۔

کیا مجرموں کو سزا ملی؟

حمود الرحمٰن کمیشن نے کہا کہ جنرل یحییٰ خان، جنرل عبد الحمید خان، جنرل پیرزادہ، جنرل مٹھا اور ان کے پندرہ ساتھیوں کے خلاف کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ اور کہا کہ یہ تمام لوگ اپنے مشترکہ مفادات، نااہلی، کرپشن، بدعنوانی اور بد کرداری کی وجہ سے ملک توڑنے کے ذمہ دار ہیں، ان سب کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔

ہر کمیشن کی طرح اس کمیشن کی تحقیقات بھی ردی کی ٹوکری میں گئیں اور سفارشات پر بھی کوئی عمل نہیں ہوا۔

بھٹو کمیشن

چار اپریل سن 1979۔ رات کا دوسرا پہر۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ پھانسی کیوں ہوئی؟ کن حالات میں دی گئی؟ یہ جاننے کے لئے ہمیں تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔

یہ سن 1974 ہے، دس اور گیارہ نومبر کی درمیانی رات۔ جب احمد رضا قصوری، ان کے والد، والدہ اور خالہ پر ایک جان لیوا حملہ ہوتا ہے۔ نواب محمد احمد خان جان سے چلے جاتے ہیں جبکہ دوسروں کو معمولی زخم آتے ہیں۔

احمد رضا قصوری اپنے والد کے قتل کا ذمہ دار وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قرار دیتے ہیں اور قتل کی ایف آئی آر بھی انہی پر درج ہوتی ہے۔

الزام بھٹو پر ہی کیوں؟

سن 1966، لاہور ریلوے اسٹیشن۔ بھٹو کی احمد رضا قصوری سے ملاقات ہوتی ہے اور یہ ملاقات دوستی میں بدل جاتی ہے۔ دسمبر 1970 میں احمد رضا قصوری پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قصور سے قومی اسمبلی کے رکن بنتے ہیں۔ لیکن زیادہ وقت نہیں لگتا کہ دوستی میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔

70 کے الیکشن کے بعد جب بھٹو اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ تب سے بھٹو اور قصوری میں اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ احمد رضا قصوری سے کہا جاتا ہے کہ وہ رکنیت چھوڑ دیں، لیکن وہ انکار کر دیتے ہیں۔ اس پر انہیں پارٹی رکنیت سے ہی معطل کر دیا جاتا ہے۔

قصوری ان تین لوگوں میں شامل رہے، جنہوں نے 1973کے آئین کی منظوری پر دستخط نہیں کیے تھے۔ اس اجلاس میں بھی بھٹو اور قصوری میں تلخ کلامی ہوئی تھی۔ ایک انٹرویو میں احمد رضا قصوری نے بتایا کہ میرے والد نے اسمبلی میں کہہ دیا تھا کہ بھٹو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، کیفر کردار تک پہنچاؤں گا۔ اور پھر کچھ ہی عرصے بعد ان پر قاتلانہ حملہ ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے ایک کمیشن بناتے ہیں۔ جسٹس شفیع الرحمٰن کا ٹربیونل 26 فروری 1975 کو اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے اور یہ رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں آتی، کبھی بھی نہیں۔ اور قاتلوں کا سراغ نہ ملنے پر اکتوبر 1975 میں یہ کیس بھی کلوز کر دیا گیا۔

بھٹو کو کس نے پھنسایا؟

پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو تین ہفتے کے لئے نظر بند کر دیا گیا۔

ضیاء الحق نے 90 دن میں انتخابات کا وعدہ تو کیا لیکن وہ بھٹو کی مقبولیت سے ڈرتے تھے۔ انہیں خوف محسوس ہوا کہ اگر اقتدار دوبارہ بھٹو کو مل گیا تو کیا ہوگا؟ پھر بھٹو کے خلاف پرانے مقدمے ڈھونڈے جانے لگے۔ تب ہاتھ لگا وہ مقدمہ، جس نے بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا۔

تین ستمبر 1977 کو پہلی مرتبہ بھٹو کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے دس دن بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ پھر 17 ستمبر 1977 کو مارشل لا قوانین کے تحت گرفتاری عمل میں آئی۔ اور ایک مہینے بعد بھٹو کا ٹرائل شروع ہو گیا۔

بھٹو کا ٹرائل

بھٹو کا مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں چلا۔ جسٹس مشتاق حسین نے اپنی سربراہی میں کمیشن بنایا۔ جس میں جسٹس ذکی الدین تھے، جسٹس ایم ایس قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گلباز خان بھی۔ بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو بنچ سے باہر رکھا گیا۔ پھر 18 مارچ 1978 کو بھٹو پر مجرمانہ سازش اور قتل کا جرم ثابت ہو گیا۔

ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنا دی۔ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی، جسے سات رکنی بنچ نے چار تین کی اکثریت سے مسترد کر دیا۔ بھٹو کی نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی۔ اور پھر دو اپریل 1979 کو ضیاء الحق نے رحم کی اپیلیں بھی مسترد کر دیں۔ یوں 4 اپریل 1979 کو رات کے وقت ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دے دی گئی۔

کیس ری-اوپن ہو گیا

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے تقریباً بتیس سال بعد صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا۔ اس ریفرنس پر سپریم کورٹ میں چھ سماعتیں ہوئیں۔ دو جنوری 2012 سے 12 نومبر 2012 کے درمیان لیکن اس کے بعد تو ریفرنس کو گویا فراموش ہی کر دیا گیا۔

اب چوالیس سال بعد اس کیس کو ری-اوپن کیا گیا۔ آن کیمرا سماعت ہوئی، جسے پوری دنیا نے دیکھا اور پھر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے 9 رکنی بنچ نے اپنی مختصر رائے دی۔ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا یعنی کیس کا تفصیلی فیصلہ اب بھی باقی ہے!

ضیاء الحق پر بھی کمیشن

جن کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگی، خود ان کی موت پر بھی کمیشن بنا، یہ تھے صدر ضیاء الحق جو 17 اگست 1988 کو ایک طیارہ حادثے میں جان سے گئے۔ اس جہاز میں صرف ضیاء الحق ہی نہیں، 29 دوسرے لوگ بھی سوار تھے، کئی ہائی پروفائل شخصیات تھیں۔ لیکن۔ ایک بھی زندہ نہیں بچ سکا۔

اس واقعے کو چھتیس سال ہو چکے ہیں لیکن آج تک یہ پتہ نہ چل سکا کہ یہ حادثہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوا تھا؟ یا یہ قتل کی سازش تھی؟ اگر تھی اس کے پیچھے کون تھا؟

اس واقعے کی تحقیقات کے لئے بھی کمیشن بنایا گیا تھا، شفیق الرحمان کمیشن۔ لیکن اس کی رپورٹ بھی ہر رپورٹ کی طرح کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ ایک مشہور رائٹر ہیں محمد حنیف نے A Case of Exploding Mangoes کے نام سے ایک ناول لکھا۔ اس میں آموں کی کچھ پیٹیوں کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ وہ پیٹیاں تھیں، جو ضیاء الحق کو تحفے میں دی گئی تھیں اور یہ تحفہ دیا تھا مئیر بہاولپور اور ایک صوبائی وزیر نے۔ تفتیش کے لیے انہیں بھی پولیس نے گرفتار کیا تھا، لیکن کچھ نہیں ملا۔

طیارہ سازش کیس

پاکستان کے اگلے آمر تھے پرویز مشرف۔ ضیاء الحق ڈرامائی انداز میں اقتدار سے گئے، پرویز مشرف ڈرامائی انداز سے اقتدار میں آئے۔

یہ 12 اکتوبر 1999 تھا۔ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سری لنکا کے دورے کے بعد وطن واپس آ رہے تھے۔ لیکن ان کے جہاز کو کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترنے سے روک دیا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ نیچے نظام بدل چکا تھا۔

نواز شریف نے خواجہ ضیا الدین کو نیا آرمی چیف بنا دیا تھا۔ لیکن۔ جو نواز شریف چاہتے تھے وہ نہیں ہوا۔ فوج نے نئے آرمی چیف کے بجائے پرویز مشرف کے حق میں قدم اٹھائے۔ کراچی ایئر پورٹ پر قبضہ کیا اور پرویز مشرف کے نیچے اترتے ہی نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ بعد میں نواز شریف کو دہشت گردی، قتل کی سازش، ہائی جیکنگ جیسے الزامات میں گرفتار کر لیا۔ اسے ’’طیارہ سازش کیس‘‘ کہا جاتا ہے۔

جنوری سن دو ہزار میں کراچی میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی اور اپریل میں نواز شریف کو ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنادی گئی۔

نواز شریف تو دسمبر 2000 میں سعودی عرب اور لبنان کی مہربانیوں کی وجہ سے بچ گئے۔ عمر قید کی جگہ دس سال کی جلا وطنی ملی، لیکن کیس کا کیا بنا؟ تحقیقات کہاں تک پہنچی؟ یہ بھی آج تک نہیں پتہ۔ ایک اور کیس فائلوں میں دب گیا۔

لیکن ہماری کمیشن کہانی ابھی جاری ہے، اور اس مرتبہ معاملہ ذرا انٹرنیشنل ہے۔ دو مئی 2011، جب اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکا نے آپریشن کیا۔

اسامہ بن لادن آپریشن کا کمیشن

ایبٹ آباد شہر کے قریب امریکی فوج نے ایک خفیہ آپریشن کیا اور دنیا کے موسٹ وانٹڈ مین اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا۔ یہ آپریشن راتوں رات ہوا، امریکی ہیلی کاپٹرز پاکستان کی سرحدی حدود میں اندر تک چلے آئے۔ گھنٹوں آپریشن کیا، نہ کسی پاکستانی ادارے نے کوئی جوابی کارروائی کی اور نہ ہی انہیں پتہ جلا۔

آج تک کسی فوج نے پاکستان میں اتنی اندر تک کارروائی نہیں کی تھی۔ یہ واقعہ پاکستان کی سیکیورٹی پر بھی کئی سوالات اٹھا گیا۔

ایک یہ کہ نائن الیون حملوں کا ذمہ دار، موسٹ وانٹڈ آدمی، پاکستان میں کیسے روپوش تھا؟ وہ بھی ایسے شہر میں جو پاک فوج کا گڑھ سمجھا جاتا ہے؟

دو۔ غیر ملکی فوج نے حملہ کیا، اپنے تمام ٹارگٹس اچیو کیے، اسامہ بن لادن کی لاش اور دوسرا اہم سامان بھی ساتھ لے گئے؟ کیسے؟

حکومت پاکستان نے تو کبھی یہ بات مانی ہی نہیں کہ اسے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا پتہ تھا۔ کسی سول یا فوجی عہدے دار نے بھی اتنے بڑے سیکورٹی breach کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تب وہی ہوا، جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے، ایک اور کمیشن بنا۔

اس کمیشن نے دو سال بعد جنوری 2013 میں اپنی رپورٹ پیش کی، پورے 700 صفحات کی۔ اس رپورٹ میں کیا تھا؟ کسی کو نہیں بتایا گیا بلکہ حکومت نے رپورٹ کو خفیہ قرار دے کر شائع کرنے سے انکار کر دیا۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بار بار رپورٹ پبلک کرنے کا کہا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یوں ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بھی کسی سرکاری دفتر کی کسی الماری میں فائلوں کے نیچے دبی پڑی ہے۔

میمو گیٹ کمیشن

یہ میمو گیٹ کیا ہے؟ امریکا میں پاکستان کے ایک سفیر تھے حسین حقانی۔ انہوں نے مئی 2011 میں امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن کو خط لکھا۔ اس میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو رکھا جائے۔ اور پھر برطانیہ کے اخبار فنانشل ٹائمز نے خبر چھاپ دی۔ اس میں الزام لگایا گیا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد پاک فوج میں بغاوت پھوٹ پڑی۔ اس فوجی بغاوت کو روکنے کے لئے حکومت پاکستان نے امریکا سے مدد مانگی۔ تب حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا۔

پاکستانی نژاد امریکن بزنس مین منصور اعجاز نے دعویٰ کیا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو مائیک مولن تک پہنچانے کو کہا۔ پھر خبروں میں آیا کہ یہ میمو حسین حقانی نے صدر زرداری کے کہنے پر بھیجا تھا۔ اس خبر کا پاکستان میں شدید رد عمل ہوا۔ میڈیا پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ اپوزیشن نے تو زرداری کی حکومت پر غداری کا الزام لگا دیا اور کہا اس میمو کے ذریعے پاکستان کے عسکری اداروں کی توہین کی گئی ہے۔

نواز شریف تو اس معاملے کو سپریم کورٹ تک لے گئے۔ حسین حقانی کو ملک واپس لانے اور ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کے مطالبات زور پکڑنے لگے۔ حقانی وطن واپس آئے، ان پر مقدمہ چلا، انہیں اپنے عہدے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ پہلے انہوں نے منصور اعجاز سے کسی بھی قسم کے رابطے سے انکار کر دیا لیکن کچھ ماہ بعد تسلیم کر لیا لیکن میمو بھیجنے سے وہ پھر بھی انکار کرتے رہے۔

پھر میمو گیٹ اسکینڈل پر تین رکنی جوڈیشل کمیشن بن گیا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی لکھا تھا۔ پھر 14 فروری 2019 کو آٹھ سال بعد سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس نمٹا دیا۔ حسین حقانی تو بیرونِ ملک چلے گئے، وہاں سے ٹوئٹر وار لڑتے رہتے ہیں لیکن کمیشن کی رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی، ہر رپورٹ کی طرح۔

سانحۂ اے پی ایس کمیشن

تاریخ 16 دسمبر 2014، وقت صبح نو بجے، مقام: آرمی پبلک اسکول، پشاور۔

سات سال کی خولہ کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ اس کے والد الطاف حسین اسی اسکول میں انگریزی کے استاد تھے۔ خولہ بہت ایکسائٹڈ تھی اور خوشی خوشی والد کے ساتھ اسکول گئی۔ کلاس میں بیٹھی تھی کہ اچانک گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ پتہ چلا کہ اسکول پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے۔

خولہ کے علاوہ ایک سو سینتالیس بچے اور استاد دہشت گردی کا نشانہ بن گئے۔ اسکول قبرستان بن گیا۔ یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف بڑے آپریشن کا اعلان کر دیا۔
ضرب عضب شروع ہوا۔ نیشنل ایکشن پلان بھی ایکٹو ہو گیا اور ساتھ ہی واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بھی بنا۔ دو سال بعد جون 2020 میں کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کی اور تین ہزار صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔

پچیس دسمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے یہ رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا لیکن وہ رپورٹ ہی کیا جو پبلک ہو جائے؟

یہ وہ واقعات تھے، جنہوں نے پاکستان کی تاریخ پر گہرے اثرات ڈالے۔ ملک کے سیاسی اور معاشی حالات کو بدل دیا۔ لیکن ان واقعات کے پیچھے کیا تھا؟ آج تک پتہ نہیں چلا، کیونکہ کبھی کسی کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی۔ ہمیشہ بہانہ بنایا گیا ملکی سلامتی کا، کہ وہ خطرے میں پڑ جائے گی۔

اگر کبھی غلطی سے کسی کمیشن کی رپورٹ سامنے آ بھی گئی ہو، تو ملوث افراد کے خلاف کارروائی کبھی نہیں کی گئی۔ بلکہ کچھ واقعات تو ایسے بھی ہیں جن میں مرکزی کرداروں کو ترقیاں ملیں، انعامات دیے گئے۔ یہ کہانی پھر کسی دن، ابھی تو بس اتنا کہنا ہے کہ یہ جوڈیشل کمیشن والا چونچلا بس اب بند کر دیں۔

جب کمیشن کی رپورٹ سامنے لانی ہی نہیں تو کیا ضرورت ہے اس کی؟

شیئر

جواب لکھیں