16 اکتوبر 1951، شام تقریباً چار بجے کا وقت۔ کمپنی باغ، راولپنڈی میں دو گولیاں چلتی ہیں۔ قائدِ ملت، کچھ ہی دیر میں شہید ملت بن جاتے ہیں۔ ایک لمحہ، جس نے ملک کے حالات بھی بدل دیے اور مستقبل بھی۔

پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھوں سے نکلتی چلی گئی۔ پہلے شاہی کے خونیں پنجوں میں گئی اور پھر آمروں کے آہنی شکنجے میں۔ عوام کو قائد کا پاکستان پھر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا ہائی پروفائل قتل تھا، لیکن آخری ہر گز نہیں۔ آج 72 سال بعد بھی پاکستان کی سیاست خون سے رنگین ہے۔ آئیں آپ کو پاکستان کی تاریخ کی ایسی high profile political شخصیات کے بارے میں بتائیں، جو قتل ہوئیں۔

محمد علی جناح

پاکستان میں ہائی پروفائل سیاسی قتل کی تاریخ کو کچھ لوگ قائد اعظم محمد علی جناح سے جا ملاتے ہیں۔ اُن کے خیال میں بیمار قائد کی وفات بہت پُر اسرار انداز میں ہوئی تھی، اتنے پُر اسرار انداز میں کہ لوگوں کو قتل کا شبہ ہوتا ہے۔ قائد اعظم کو ٹی بی کا مرض تھا اور یہ بات انھوں نے سب سے چھپا رکھی تھی۔ وجہ؟ اپنی سیاسی تحریک کو نقصان سے بچانا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ انھیں ٹی بی جیسی بیماری ہے، جو اس زمانے میں بہت خطرناک سمجھی جاتی تھی۔ تو مخالفین پاکستان نہیں بننے دیں گے۔ تو اس best kept secret کے ساتھ پاکستان بن گیا۔

لیکن اس کے بعد قائد کی صحت بہت بگڑ گئی۔ وہ آرام کے لیے کچھ دن زیارت، بلوچستان گئے لیکن بہتری پھر بھی نہیں آئی، بلکہ صحت اور خراب ہو گئی۔ تب ‏11 ستمبر 1948 کو انھیں کراچی واپس لایا گیا۔ یہاں ماری پور ایئر بیس سے ایک فوجی ایمبولنس سے انھیں گورنر جنرل ہاؤس لایا جا رہا تھا لیکن گاڑی راستے میں ہی خراب ہو گئی۔ جب تک دوسری ایمبولنس آتی، تب تک بہت دیر ہو گئی اور قائد کی طبیعت اتنی بگڑ گئی کہ اُسی رات اُن کا انتقال ہو گیا۔ یوں پاکستان ایک سال بعد ہی یتیم ہو گیا! بظاہر تو یہ طبعی موت تھی، لیکن جس طرح کے انتظامات کیے گئے تھے، بہت سے حلقوں کو اِس میں بھی قتل کی سازش نظر آتی ہے۔

Raftar Bharne Do
پاکستان کے سب سے ہائی پروفائل سیاسی قتل 1

لیاقت علی خان

بہرحال، اُس کے بعد پاکستان میں ہائی پروفائل سیاسی قتل کی تاریخ کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے اور پہلا نشانہ بنتے ہیں وزیر اعظم لیاقت علی خان۔ یہ 16 اکتوبر 1951 کی شام تھی، راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ہزاروں لوگ موجود تھے۔ لیاقت علی خان کی تقریر شروع ہوئی، ابھی اُن کی زبان سے دو الفاظ ہی ادا ہوئے تھے کہ پہلی صف سے دو گولیاں چل گئیں۔ اکبر خان نامی ایک افغان نے اپنے پستول سے قائدِ ملت پر سیدھے فائر کر دیے تھے۔ اس حملے میں نہ لیاقت علی خان زندہ بچے اور نہ اکبر خان۔ لیکن اکبر خان نے ایسا کیوں کیا؟ اِس کی تحقیقات شروع ہوئیں۔

جس طرح ایک جھوٹ چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، اسی طرح شاید ایک قتل چھپانے کے لیے بھی کئی قتل کرنے پڑتے ہوں گے۔ لیاقت علی خان قتل کیس میں لگتا ہے ایسا ہی ہوا۔ معاملے کی تحقیقات کر رہے تھے آئی جی نوابزادہ اعتزاز الدین۔ تحقیقات مکمل ہوئیں، وہ اہم ڈاکیومنٹس لے کر دارالحکومت کراچی آ رہے تھے کہ جہلم کے قریب اُن کا جہاز گر کر تباہ ہو گیا۔ اہم شخصیات اور کاغذات، سب جل کر راکھ ہو گئے۔ یوں لیاقت علی خان کے قتل نے پاکستان کو ایسے بحران میں ڈال دیا کہ آج پون صدی بعد بھی ملک نکلتا ہوا نظر نہیں آتا۔

حسین شہید سہروردی

اس قتل کے بعد ملک میں ہائی پروفائل assassinations کا سلسلہ ہی چل پڑا، کئی وزیر اعظم بھی اپنی جان سے گئے، مثلاً پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہروردی۔ ‏1956 اور 1957 میں پاکستان کے وزیر اعظم تھے، لیکن پھر اُن سے زبردستی استعفا لیا گیا۔ ایوب خان کا دور شروع ہوا تو سیاست دانوں پر بڑی مشکلات آئیں۔ تب دوسرے بہت سے رہنماؤں کی طرح حسین شہید کو بھی جیل میں ڈالا گیا، اُن پر بھی پابندی لگی، یہاں تک کہ وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں جبراً باہر بھیجا گیا تھا۔ اور پھر ‏5 دسمبر 1963 کو بیروت، لبنان میں وہ اپنے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ موت کی وجہ ویسے تو ہارٹ اٹیک کہی جاتی ہے مگر اُن کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کے مطابق حسین شہید کی موت طبعی نہیں تھی، بلکہ انھیں مروایا گیا تھا۔

Raftar Bharne Do
پاکستان کے سب سے ہائی پروفائل سیاسی قتل 2

یہ وہ دور تھا جس میں ایوب خان کا مقابلہ بلکہ سامنا کرنا بھی مشکل تھا۔ تب ملک کو ضرورت تھی ایسی شخصیت کی جس میں اتنا عزم اور حوصلہ ہو، اور یہ فاطمہ جناح کے علاوہ کوئی اور ہو نہیں سکتا تھا۔

محترمہ فاطمہ جناح

قائد اعظم کی بہن اور تحریکِ پاکستان کی اہم رہنما، جنھوں نے بھائی کی موت کے بعد بہت کچھ بدلتے دیکھا۔ فاطمہ جناح نے بڑی مخالفتوں کا سامنا کیا، غدار کے الزامات تک برداشت کیے۔ اُن کی کتابیں سینسر ہوئیں، انھیں ریڈیو پر بات کرنے سے روکا جاتا، لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹیں۔ یہ ایسا دور تھا جسے پاکستان کی تاریخ کا dark chapter کہنا چاہیے۔ تب فاطمہ جناح نے آمر جرنیل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ملک میں ہر طرف ایک ہی نام تھا، ’’فاطمہ‘‘۔ لیکن حیران کن طور پر وہ ایوب خان سے ہار گئیں۔

اس کے بعد تو فاطمہ جناح کی زندگی عذاب کر دی گئی۔ کبھی اُن کے گھر کا پانی بند کر دیا جاتا تو کبھی چھاپے مارے جاتے۔ یہاں تک کہ 9 جولائی 1967 کو اچانک فاطمہ جناح کا انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا اُن کی موت دل کے دورے سے ہوئی ہے لیکن ایک حلقہ آج تک یہی سمجھتا ہے کہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ محترمہ کے بھانجے اور مشہور ماہرِ قانون اکبر پیر بھائی کو بھی شبہ تھا کہ وہ قتل کی گئی تھیں۔یہ سب کس نے کیا؟ آج تک پتا نہیں چلا۔ اس وقت کے وزیرداخلہ قاضی فضل اللہ کی سربراہی میں ایک انکوائری رپورٹ تیار بھی کی گئی مگر وہ کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو

پاکستان کا اگلا ہائی پروفائل سیاسی قتل تھا ایک اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا۔ ویسے خود بھٹو کے دور میں بڑے سیاسی قتل ہوئے تھے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ تب یہ کام بہت ہی systematic انداز میں ہوا۔ ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد قتل کر دیے جاتے ہیں۔ پھر لاہور میں خواجہ رفیق اور نواب محمد احمد خان قصوری سمیت کئی ہائی پروفائل شخصیات بھی قتل ہوتی ہیں۔ پشاور میں حیات محمد خان شیر پاؤ کا قتل ہوتا ہے تو کوئٹہ میں عبدالصمد خان اچکزئی کی پراسرار موت بھی بھٹو دور میں ہی ہوتی ہے لیکن اِن میں سے محمد احمد خان قصوری کا قتل ایسا ہے، جو خود بھٹو کے گلے پڑ جاتا ہے۔

اس کیس میں بالآخر انھیں پھانسی کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ یہ 4 اپریل 1979 تھا، جب سینٹرل جیل راولپنڈی میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ دنیا آج بھی اسے ایک "عدالتی قتل" قرار دیتی ہے جس کے ذریعے ایک آمر نے ملک کے سب سے بڑے سیاسی رہنما کو اپنے راستے سے ہٹا دیا۔

شاہنواز بھٹو

ضیاء الحق کے دور میں اور بھی کئی اہم ہائی پروفائل اموات ہوئیں، مثلاً فرانس میں شاہنواز بھٹو کی پُراسرار موت، ذوالفقار علی بھٹو کے سب سے چھوٹے بیٹے، جو 18 جولائی 1985 کو فرانس میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ بھٹو خاندان آج تک کہتا ہے کہ شاہنواز کو زہر دیا گیا تھا اور اس میں اُن کی افغان بیوی ریحانہ کا کردار تھا۔

سچ کیا تھا؟ آج تک پتا نہیں چلا۔ لیکن حقیقت جو بھی ہو بھٹو کا جواں سال بیٹا، صرف 26 سال کی عمر میں جان سے ضرور چلا گیا۔

ضیاء الحق

‏17 اگست 1988 میں پاکستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ آتا ہے۔ پاک فضائیہ کا ایک سی 130 طیارہ بہاولپور سے پرواز کرتا ہے اور کچھ ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو جاتا ہے۔ طیارے میں کوئی اور نہیں، پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک صدر ضیاء الحق بھی سوار تھے۔ ہر طیارہ حادثے کی طرح اس میں بھی کوئی مسافر نہیں بچتا، ضیاء الحق بھی نہیں۔کئی حلقے اسے بھی ایک سازش قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حادثہ نہیں، بلکہ ضیاء الحق بھی قتل کیے گئے۔

Raftar Bharne Do
پاکستان کے سب سے ہائی پروفائل سیاسی قتل 3

مرتضیٰ بھٹو

ضیا کے بعد ملک میں جمہوری دور کا آغاز ہوتا ہے۔ لگ رہا تھا کہ اب بھٹو خاندان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی ختم ہو جائے گی لیکن بھٹو خاندان کی مشکلات ابھی باقی تھیں۔ بھٹو کے چھوٹے بیٹے نے فرانس میں جان دی، لیکن بڑے بیٹے کی آخری سانسیں کراچی میں لکھی تھیں، وہ بھی ضیا کے دور میں نہیں، بلکہ خود اپنی بہن بے نظیر کی حکومت میں۔ مرتضیٰ نے اپنے والد کی پھانسی کے بعد ایک مزاحمتی تنظیم بنائی تھی، نام تھا الذوالفقار۔ اس تنظیم نے بہت سی کارروائیاں کیں، ہائی جیکنگ تک میں ملوث رہی لیکن 20 ستمبر 1996 کی شام ان کی زندگی کا سورج بھی ڈوب گیا۔ اپنے ہی گھر کے سامنے، اپنی ہی بہن کی حکومت میں۔

مرتضیٰ بھٹو ایک پولیس مقابلے میں مار دیے جاتے ہیں۔ یہ واقعہ غلط فہمی کی وجہ سے پیش آیا؟ یا یہ ایک پری پلانڈ مرڈر تھا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس واقعے نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ کچھ ہی مہینوں میں بے نظیر کا تختہ الٹ دیا گیا۔ وہ پھر کبھی وزیر اعظم نہیں بن پائیں بلکہ انھیں ملک تک چھوڑنا پڑا۔ سالوں تک جلا وطنی کے بعد 2007 میں بے نظیر کی واپسی ہوئی اور پھر ہوا پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہائی پروفائل political قتل۔ یہ کیسے ہوا؟ اس سے پہلے ہم چلتے 90 کی دہائی کے کراچی کی طرف، جہاں قتل ایک معمول بن چکا تھا۔

عظیم احمد طارق

یہاں پہلا ہائی پروفائل سیاسی قتل ہوا مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین عظیم احمد طارق کا۔ تنظیم کے بانی اراکین میں سے ایک، اور معتدل مزاج رہنما جو 92 آپریشن کے بعد انڈر گراؤنڈ چلے گئے تھے۔ لیکن پھر اچانک منظرِ عام پر آئے اور اعلان کر دیا کہ میں کراچی کو خون خرابے سے بچانے آیا ہوں۔ گولی اور گالی کی سیاست کو بھی خیر باد کہہ دیا، جو الطاف حسین کے فلسفے سے بالکل الگ بات تھی۔ اور الگ بات کرنے کا نتیجہ کچھ ہی عرصے میں سامنے آ گیا۔

یکم مئی 1993 کو عظیم احمد طارق کو اپنے سسرال میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ جب آدھی رات کو چند نامعلوم افراد گھر میں داخلے ہوئے اور کلاشنکوف کے برسٹ مارکر انھیں قتل کر دیا۔

عمران فاروق

یہ ایم کیو ایم میں آخری ہائی پروفائل قتل نہیں تھا۔ عظیم احمد طارق کے ایک اور ساتھی عمران فاروق کے ساتھ بھی یہی ہوا لیکن 17 سال بعد اور کراچی سے ہزاروں کلومیٹرز دُور لندن میں۔ یہ دن تھا 16 ستمبر 2010 کا، عمران فاروق کام کے بعد گھر واپس آ رہے تھے جب چند نامعلوم افراد نے اُن پر خنجروں سے وار کیے اور قتل کر دیا۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے الطاف حسین کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے، یہاں تک کہ انھیں تین مرتبہ پارٹی سے بھی نکالا گیا تھا۔ عمران فاروق نے تو سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا لیکن پھر ایک روز، اچانک انھیں قتل کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی history میں یہ مرڈر ذرا مختلف تھا کیونکہ یہ لندن میں ہوا تھا اس لیے عمران فاروق کے قاتل کچھ ہی دن بعد گرفتار ہو جاتے ہیں اور 10 سال بعد انھیں عمر قید کی سزا دے دی جاتی ہے۔ غالباً یہ کسی بھی پاکستانی سیاسی رہنما کے قتل کا واحد واقعہ ہوگا، جو اپنے منطقی انجام تک پہنچا۔ ہاں! مگر یہ واحد قتل نہیں تھا، جس کا الزام ایم کیو ایم پر لگا۔ 

حکیم محمد سعید

عمران فاروق سے کہیں پہلے 1998 میں بھی ایک بڑی شخصیت کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر ہی لگتا ہے۔ یہ تھے معروف سماجی رہنما اور سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید۔ انھیں 17 اکتوبر 1998 کو اُن کے دواخانے کے سامنے قتل کر دیا جاتا ہے۔ حکیم سعید کی عمر اُس وقت 78 سال تھی۔ وہ معمول کے مطابق بعد نمازِ فجر آرام باغ، کراچی میں اپنے دواخانے پہنچتے ہیں اور وہیں پر چند گاڑیوں میں سوار دہشت گرد اُن پر فائر کھول دیتے ہیں۔ تمام عمر لوگوں میں زندگی بانٹنے والے حکیم سعید بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ کچھ ہی دن میں سندھ حکومت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور سندھ میں گورنر راج لگا دیا جاتا ہے۔ پولیس اور خفیہ اداروں کے مطابق یہ قتل ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے قاتلوں نے کیا لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم ہمیشہ اس کی تردید کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ سالوں بعد 2014 میں تمام ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔

اعظم طارق

پاکستان میں سیاسی قتل کی تاریخ میں ایک بڑا واقعہ پیش آتا ہے، چھ اکتوبر 2003 کو۔ اس مرتبہ نشانہ تھے کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ اعظم طارق جن کا قتل کراچی جیسے lawless city میں نہیں، بلکہ اسلام آباد میں ہوتا ہے، وہ بھی دن دیہاڑے۔ اعظم طارق پر پہلے بھی دو قاتلانہ حملے ہو چکےتھے، لیکن وہ بچ نکلے، لیکن اس بار حملہ آوروں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اسلام آباد شہر میں داخل ہوتے ہی ان کی گاڑی کو روکا گیا اور تین حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ صرف اعظم طارق کو 43 گولیاں لگیں، وہ اور گاڑی میں اُن کے چار ساتھی بھی موقع پر ہی چل بسے۔

اکبر بگٹی

مشرف دور ہی میں ایک ایسا قتل بھی ہوا، جس نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ تھا بلوچستان کے سابق گورنر اکبر بگٹی کا۔ یہ پرویز مشرف کی آمریت کا دور تھا، ملک میں حالات ویسے ہی بہت خراب تھے۔ تب اکبر بگٹی نے قوم پرست سرداروں کے ساتھ مل کر صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کر دیا۔ بات بڑھتی گئی، کچھ واقعات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مذاکرات کی کوششیں بھی ہوئیں، لیکن ناکام ثابت ہوئیں، یہاں تک کہ اکبر بگٹی پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ ‏26 اگست 2006 کو پاک فوج کارروائی کرتی ہے، جس میں اکبر بگٹی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مارے گئے۔ اس قتل سے بلوچستان میں وہ آگ لگی کہ آج تک پورا صوبہ ہی نہیں پاکستان بھی جل رہا ہے۔

بے نظیر بھٹو

اسی دوران پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی قتل ہوتا ہے، بے نظیر بھٹو کا۔ بے نظیر اپنے ہی دور میں مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور پھر حکومت کے خاتمے کے بعد ملک چھوڑ چکی تھیں یہاں تک کہ 2007 میں این آر او کے تحت واپس آئیں، یہ دن تھا 18 اکتوبر 2007 کا۔ ایک خوشی کا دن، جو غم کی شام میں بدل گیا جب استقبال کے لیے آنے والے کارواں میں زبردست دھماکا ہوا۔ بے نظیر تو بچ گئیں لیکن 150 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔

تقریباً ڈھائی مہینے بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ ہوا۔ وہی لیاقت باغ، جہاں 56 سال بعد لیاقت علی خان پر گولی چلی تھی۔ وہیں ایک نامعلوم شخص نے بے نظیر پر بھی فائرنگ کر دی۔ ساتھ ہی اُن کی گاڑی کے قریب ایک خود کش دھماکا بھی ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو بری طرح زخمی ہوئیں اور اسپتال پہنچ کر دم توڑ گئیں۔ اُن کے قتل کی منصوبہ بندی کا الزام کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود اور القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری پر لگایا گیا، مگر بہت سے لوگ دوسری جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہنگامہ اور انتشار پھیلا کہ ملک کئی دن تک جلتا رہا۔

سلمان تاثیر

پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل نے بھی ملک میں بہت انتشار پیدا کیا۔ انھوں نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیا تھا۔ اس کے ردِ عمل میں 4 جنوری 2011 کو سلمان تاثیر کے اپنے ہی محافظ ممتاز قادری نے انھیں قتل کر دیا۔

سانحۂ نشتر پارک

کچھ واقعات تو ایسے بھی پیش آئے، جن میں پوری پوری سیاسی قیادت ختم ہو گئی مثلاً کراچی کا سانحہ نشتر پارک۔ یہ 11 اپریل 2006 تھا، جب کراچی کے نشتر پارک میں 12 ربیع الاول کا جلوس تھا۔ اس میں ایک خود کش حملہ آور دھماکے سے پھٹ پڑا اور تقریباً 60 افراد کی جان لے گیا۔ مرنے والوں میں بریلوی مکتب فکر کی کئی نمایاں شخصیات تھیں، بلکہ سنی تحریک کی پوری اعلیٰ قیادت بھی شامل تھی۔

Raftar Bharne Do
پاکستان کے سب سے ہائی پروفائل سیاسی قتل 4

مولانا سمیع الحق

پاکستان میں آخری ہائی پروفائل سیاسی قتل ہوا مولانا سمیع الحق کا۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور مشہور مدرسے اکوڑہ خٹک کے سرپرست۔ مولانا کو اسلام آباد میں اُن کے گھر میں کسی نامعلوم شخص نے قتل کیا تھا۔ اُس وقت ان کا باڈی گارڈ اور ڈرائیور دونوں گھر پر موجود نہیں تھے، مولانا اکیلے تھے کہ کوئی گھر میں داخل ہوا۔ پہلے چھریوں کے وار کر کے زخمی کیا اور پھر گولی مار دی۔

چند ناکام قاتلانہ حملے

یہ ہے پاکستان کی خونیں سیاسی تاریخ، جس میں اور بھی کئی سیاسی رہنماؤں پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ مثلاً

  • مولانا ابو الاعلیٰ مودودی پر اکتوبر 1963 میں قاتلانہ حملہ ہوا، وہ بال بال بچے
  • پرویز مشرف پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے، بلکہ سب سے زیادہ attempts انھی کے خلاف ہوئی ہوں گی لیکن وہ سب میں بچ گئے
  • سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی قاتلانہ حملے کی زد میں آئے لیکن اُن کی زندگی بھی باقی ہے
  • عمران خان پر قاتلانہ حملہ پاکستان میں کسی ہائی پروفائل شخصیت پر آخری بڑا حملہ تھا جو تین نومبر 2022 کو ہوا۔ تب عمران خان حقیقی آزادی مارچ کی قیادت کر رہے تھے، جو اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھا۔ وزیر آباد میں عمران خان کی تقریر جاری تھی کہ اچانک ایک سمت سے فائرنگ ہو گئی۔ ایک گولی عمران خان کی دائیں ٹانگ پر لگی، خوش قسمتی سے زخم کاری نہیں تھا، عمران خان بچ گئے۔

پاکستان میں سیاسی قتل کی تاریخ اب بھی جاری ہے۔ آخر خون کا یہ سلسلہ کب رکے گا؟ آخر کب معاملات بات چیت سے حل کرنے کا چلن عام ہوگا؟ ہوگا بھی یا نہیں ہوگا؟

شیئر

جواب لکھیں