اسلم خان سے چوہدری اسلم۔ اسسٹنٹ سب انسپکٹر سے ایس پی، سی آئی ڈی اور انچارج اینٹی ایکسڑیمزم کرائم۔ یہ سفر بہت لمبا تھا اور اس کی کہانی بھی بڑی ہولناک اور چونکا دینے والی ہے۔ جس میں کہیں آپ کو بارود کی بو محسوس ہوگی تو کہیں محبت کی مہک۔ رفتار کی ڈاکیومنٹری Bad Cops of Karachi میں ہم نے ان پولیس افسروں کا ذکر کیا تھا جنھوں نے 1992 کے آپریشن کلین اپ میں حصہ لیا تھا اور بیشتر اپنی جان کی بازی بھی ہار گئے۔ اسلم خان بھی انھی کرداروں میں سے ایک تھے، ایک ایسا کردار جس نے بہت بڑے کینوس پر کام کیا۔
- یہ ایسا کردار ہے کہ جس کا ذکر سنتے ہیں ذہن میں سوال امڈتے چلے آتے ہیں، مثلاً
- اسلم خان کا اصل چہرہ کون سا تھا؟
- ایک فرض شناس پولیس افسر تھے یا انکاؤنٹر اسپیشلسٹ؟
- اس نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا؟ یا کئی معصوموں کے ماورائے عدالت قتل کیے؟
- چوہدری اسلم کا رائٹ ہینڈ کون تھا؟
- ان کی موت کا ذمہ دار کون تھا؟
چوہدری اسلم 1964 میں ضلع مانسہرہ کی تحصیل ڈھڈیال میں پیدا ہوئے۔ 31 اکتوبر 1984 میں وہ سندھ ریزرو پولیس کے ایگل سکواڈ میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ کراچی کی ریگولر پولیس فورس کا حصہ بن گئے۔
چوہدری اسلم ہیرو تھے یا ولن؟ یہ فیصلہ تو آپ رپورٹ پڑھنے کے بعد کریں گے جس میں میرے سوالوں کے جواب دیں گے انوسٹی گیٹیو صحافی مبشر فاروق، چوہدری اسلم کی اہلیہ نورین خان، چوہدری اسلم کے ساتھی ڈی ایس پی طارق اسلام اور سینیئر صحافی نور العارفین۔
کیا اسلم خان واقعی ’’چوہدری‘‘ تھے؟
میں ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ وہ ذات پات، خاندان کے لحاظ سے چوہدری تو ہرگز نہیں تھے۔
مبشر فاروق: کراچی آپریشن کے معروف کردار چوہدری اسلم مشہور تو چوہدری اسلم کے نام ہی سے تھے لیکن ان کا اصل نام محمد اسلم خان تھا میرے جب ان سے کنکشن تعلقات بنے تو پھر ہماری اچھی دوستی ہوگی تو اس وقت میں نے ان سے یہ سوال کیا تھا کہ یار ہزارہ میں تو چوہدری نہیں ہوتے آپ کے نام کے ساتھ چوہدری کیسے لگا؟ تو انھوں نے کہا کہ اس کا جواب میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا۔
اسلم جب کراچی میں آیا تو اس کی پہلی رہائش رتی لین میں تھی۔ رتی لین کا کچھ کچا علاقہ ہے جہاں بہت ساری کالونیاں ملتی ہیں تو رتی لین میں اس کی رہائش تھی وہاں اس کا چھوٹا سا مکان تھا اس مکان میں آپ سر اٹھا کر چل نہیں سکتے تھے رکوع میں جا کرچلنا پڑتا تھا اور واش روم بھی نہیں تھا مجھے اسلم نے پھر بعد میں بتایا کہ واش روم تو پوری آبادی میں نہیں ہے وہ تو ہم لوٹا ہی بھرتے ہیں دو ٹرینوں کے درمیان بیٹھ کر معاملات حل کر لیتے ہیں۔
اسلم اپنی مصروفیات کے حساب سے دن تعین کرتا تھا اور اس دن اسلم اپنی آبادی اور علاقے کے مسائل جوبھی جھگڑے تھے ان کو حل کرتا تھا اس وجہ سے وہاں کے لوگوں نے اس کو چوہدری کہنا شروع کردیا اس طریقے سے اس کے نام کے ساتھ چوہدری لگ گیا اور یہ نام چوہدری کو خود بھی اچھا لگنے لگا اس طرح وہ پورے کراچی اور پورے پاکستان میں چوہدری کے نام سے مشہور ہوگیا۔
نورین خان: چوہدری اسلم جب ایس ایچ او گل بہار بن کر آئے جب انھوں نے پہلا آپریشن 1994 میں لیڈ کیا اس وقت یہ چوہدری بن گئے لوگوں نے ان کے حلیہ سے اندازہ لگایا کہ یہ چوہدری ہیں، حقیقت میں وہ پٹھان ہیں۔
کم گو اسلم یا دبنگ چوہدری؟
چوہدری اسلم کو آپ نے میڈیا پر ہمیشہ دبنگ الفاظ میں للکارتے دیکھا ہوگا مگر شاید آپ یہ بات نہیں جانتے کہ ہمیشہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور ہاتھ میں پسٹل تھامے چھاتی تان کر چلنے والا یہ شخص بہت کم گو اور شرمیلا بھی تھا۔
نورین خان: یہ رشتہ پسند نہیں تھا مجھے شروع سے یہ پولیس کو پسند نہیں کرتی تھی اس لیے کہ یہ ٹائم نہیں دیتے تھے جو بھی دل نہیں مانتا تھا اس وقت میرا لائف اسٹال الگ تھا چوہدری اسلم بالکل سادہ میں اپنی ماں سے کہتی تھی میری گدھے گاڑی والے سے شادی کروا دینا اس بندے سے نا کروانا مجھے پسند نہیں اس کی عادتیں نہیں اچھی لگتی مجھے عجیب سا بھرم میں رہتا ہے میری امی کہتی ہیں آپ کو میری لاش سے گزرنا ہوگا دوپٹہ رکھ دیا زمین پر میں نے کہا امی آپ کیا گناہ گار کر رہے ہیں اسلم ایسے ہی چوکھٹ میں کھڑے دیکھ رہے ہیں اس کی آخری امید یہ تھی کہ رشتہ نہیں ہوگا کیونکہ پسند اس کی تھی یہ سب کو پتہ ہے میری اور ان کی فیملی کو پتہ ہے جب میری ماں کا آنسو گرتا ہے تو میں نے کہا جاؤ یہ بیٹی زندگی نہیں جیے گی تمہاری قربانی ہو گی اس کی تو قربانی ہوئی ہے پھر شادی ہوجاتی ہے شادی ہونے کے بعد کافی اسٹرگل ہے لائف میں تکلیفیں تو کروڑوں ہیں اس میں مگر میرا فخر چوہدری ہے۔
چوہدری اسلم کیسے مشہور ہوئے؟
1992 کا وہ دور جب کراچی میں ہرطرف خوف اور دہشت کا راج تھا۔ ان حالات میں چوہدری اسلم کو سب سے خطرناک تھانے گلبہار میں بطور ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے چوہدری اسلم کی زندگی کا وہ سفر جس نے کئی کہانیوں کو جنم دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چوہدری اسلم سے متعلق اُن کے قریب اور دُور رہنے والوں کی رائے ایک جیسی نہیں۔
مبشر فاروق: اسلم کو شہرت گل بہار تھانے سے ملی ایس ایچ او گل بہار کی حیثیت سے کہ جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوچکا تھا اور تب ماورائے عدالت کے معاملات ہوئے گرفتاریاں چھاپے ساری چیزیں تھیں جس سے اسلم کو شہرت ملی۔
طارق اسلام: جب یہ ایس ایچ او گلبہار تھے جب ان کو آپریشن میں دو تین سال ہو گئے تھے اس زمانے میں ایک امت اخبار آتا تھا یہ اخبار صلاح الدین صاحب کا تھا جن کا تکبیر رسالہ بھی تھا تب امت اخبار کے اندر انھوں نے ایک ریڈ کی تھی چوہدری صاحب نے کسی گھر پر اور راو انوار صاحب نے بھی اسی زمانے میں کی تھی تو امت اخبار میں آتا تھا کہ ان کے خلاف کیس کیا جائے تو وہ روزانہ اخبار آتا تھا آج سات دن ہو گئے آج آٹھ دن ہو گئے آج پچاس دن ہو گئے آج سو دن ہو گئے تو روزانہ جب آپ کی تصویر اخبار میں آنا شروع ہوجائے گی پھر تو آپ مشہور ہوجائیں گے میرے خیال سے وہ ایسے مشہور ہوئے۔
آپریشن کلین اپ کے لیے چوہدری اسلم کو کیوں چنا گیا؟
کراچی کی صورتحال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ مختلف مذہبی، لسانی، فرقہ وارانہ گروہوں نے بھی صرف گولی سے بات کرنا شروع کردی۔ ان حالات پر قابو پانے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہر بھر میں آپریشن کلین آپ کیا جائے۔ اس آپریشن کے نتائج تو کسی حد تک تو بہتر رہے مگر اس خیال نے بھی جنم لیا کہ یہ آپریشن صرف ایک مخصوص جماعت کے خاتمے کے لیے کیا گیا اور اس کے لیے چوہدری اسلم جیسے کرداروں کو خاص طور پر چنا گیا ہے،
نورین خان: جو تنظیموں کے اندر دہشت گرد ہوتے ہیں چوہدری ان کا خاتمہ کرتا ہے چوہدری کی کسی پارٹی کا دشمن نہیں ہے چوہدری دھرتی کے دشمنوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ 94 سے پہلے آپریشن لیڈ ہوتا ہے اس کے بعد ہوتے ہی گئے چوہدری کہیں پر رکا نہیں۔
نور العافین: دو نمبر لوگوں سے نمپٹنے کے لیے ہم کو ولن کریکٹر کی ضرورت ہوتی ہے آپ کو ٹی ٹی پی والوں سے نپٹنا ہے غنڈہ عناصر سے نپٹنا ہے تو آپ کو چوہدری اسلم چاہیے لیکن اس کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ کسی پھل والے کو اٹھانا ہو تو اس کے لیے بھی چوہدری چاہے کسی نقیب اللہ کو اٹھانا ہو تو اس کے لیے راؤ انوار ہونا چاہیے بہت سارے لوگوں کے لیے وہ ہیرو تھے اور بہت ساروں کے لیے وہ ولن تھے اچھا پوری ایم کیو ایم ہی اسٹیٹ کے لیے خطرہ تھی اسٹیٹ کے آرگنز نے خود ایم کیو ایم کو بنایا تھا تو میں اب کیا نام لینا شروع کروں الطاف حسین سے لینا شروع کروں اور آخر میں مصطفیٰ کمال پر آنا ہے تو میرا خیال ہے پورا انٹرویو اسی میں چلا جائے گا
رہ گئی یہ بات کہ آپریشن کلین آپ میں کس حد تک کامیاب ہوئے فلموں میں دیکھایا جاتا ہے کہ آپریشن کا مقصد ہوتا ہے کریمنل ایلیمنٹ کو ایلیمینیٹ کرنا وہ کریمینل ایلیمنٹ جو آپ کو سوٹ نہیں کرتے درحقیت آپریشن ان کا ایلیمینیٹ کرنے کے لیے وضع کیے جاتے ہیں سندھ میں کراچی میں پاکستان میں ایم کیو ایم کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا ایم کیو ایم کے ان لوگوں کو آپ نے ایلیمینیٹ کیا جن سے آپ کام لے چکے تھے مثال کے طور پر صولت مرزا کی گرفتاری میں بھی چوہدری اسلم کا بڑا عمل دخل تھا لیکن پھر فیصل موٹا اور اس طرح کے دیگر کردار بھی موجود ہیں رحمان بھولا جیسے بھی لوگ موجود ہیں جن کو آپ باہر سے جا کرکے پکڑ کر لیے آئے تھے اس امید اور آسرے پر کہ شاید ان کو پھانسی ہوگی لیکن اب انھوں نے اتنی لمبی لمبی داڑیاں رکھ لیں ہیں ماتھے پر مہراب سجا لیے ہیں اور ابھی تک وہ میرے اور آپ کے سینوں پر۔
پولیس مقابلوں پر سوالیہ نشان
تب سینکڑوں پولیس مقابلے ہوتے ہیں، جن میں کچھ انتہائی مشکوک اور متنازع مقابلے بھی شامل ہوتے ہیں۔ سو سے زیادہ مقابلے تو صرف چوہدری اسلم نے کیے،یوں ان کا نہ صرف شہر بلکہ میڈیا میں بھی بڑا نام بنا۔ لیکن متنازع اور ماورائے عدالت قتلوں سے بھی ان کا نام جڑ جاتا ہے۔ یہاں چند سوال جنم لیتے ہیں۔
- کیا اسلم چوہدری کی انٹیلی جینس اتنی اسٹرانگ تھی جو ہر ملزم یا مجرم ان کے ریڈار پر آسانی سے آجاتا تھا؟
- کیا یہ پولیس مقابلے واقعی اصلی ہوتے تھے ؟
- اور آخر اُن مقابلوں کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی تھی ؟
مبشر فاروق: اسلم کی طاقت ہیڈ کانسٹیبل جاوید تھا اسلم کچھ بھی نہیں تھا سارا نیٹ ورک جاوید کا تھا جاوید کیوجہ سے اسلم کو مقبولیت ملی مگرمیڈیا والے تو اس کو پہچانتے ہیں جس کا چہرہ سامنے ہو تو لوگ اسلم کو پہچانتے تھے جاوید کو نہیں پہچانتے تھے جاوید بعد میں ترقی کرکے اے ایس آئی بنا اور اسلم کے عروج کے زمانے تک جاوید زندہ رہا اس کے بعد پھر جاوید مارا گیا اسلم کو زیادہ پریشانی بھی جاوید کے بعد ہوئی کیونکہ جب تک جاوید زندہ تھا اسلم کو کوئی پرابلم نہیں ہوئی جاوید کے مرنے کے بعد اسلم کا انٹیلی جینس نیٹ ورک ٹوٹ گیا پہلے اسلم ایک گروپ کے لیے کام کرتا تھا پھر وہ دوسرے گروپ کے لیے کام کرنے لگا۔
اچھا ایسا نہیں ہوتا تھا کہ سارے مقابلے چوہدری اسلم نے کیے ہوں بعض اوقات صرف ایسا ہوتا تھا کہ لاشیں ملتی تھیں لاشوں پر گولیاں چلا کر اس کو شو کرتے تھے اسلم کا ایک مقابلہ بھی اوریجنل نہیں ہے ورنہ بعض مقابلے ایسے بھی ہیں نا جو ریئل ہیں اس میں کوئی دو نمبری نہیں مگر چوہدری اسلم کا تو کوئی بھی نہیں ہے اسلم نے اس وقت سو سے زیادہ بندے مارے اس وقت اسلم کہتا تھا کہ میں سنچری کروں گا۔
نورین خان: مجھے یہاں اسلم کی ایک بات ضرور یاد آئے گی کہ بیان کون دینے جائے؟ گواہی دینے کون جائے؟ میں اس میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ عدالتوں کا سارا گناہ ہے عدالت گواہی پر چلتی ہے اسلم نے کہا تھا کہ عوام اتنا کرے کہ گواہی دے کہ ملزم چھوٹ نا سکے جب گواہی نہیں ہوگی تو جج کیا کریں گے؟ پھر مسئلہ کچھ اور بھی تھا کہ دھمکیاں تو سب کو ملتی ہیں بڑے ہائی فائی لیول پر ہوتی ہیں جب یہ باتیں تو پھر اسلم انکاؤنٹر کرتا ہے۔
نور العارفین: چوہدری اسلم ایک کردار ہے جو اس ڈنڈے کو ڈسکرائب کررہا ہے جو اسٹیٹ نے اٹھایا ہوا ہے آپ کے خیال میں کیا یہ لوگ خود بندے مارتے ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب کے پاس ہے مگر کوئی دینا نہیں چاہتا باعث اوقات بندے مار کر فوٹوسیشن کے لیے ان کو سامنے بلایا جاتا تھا کہ آؤ فوٹو بنوا لو بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندے اٹھا کر ان لوگوں سے پیسے لیے جاتے ہیں کہ ہمیں اتنے پیسے دو کہ اس کے بدلے میں تم کو یہ دیں گے وہ دیں گے چوہدری اسلم ہی کیا چوہدری اسلم جیسے کرداروں کی پی آر کے لیے میڈیا استعمال ہوتا رہا ہے ہمیشہ ہر دور میں اور یہ مفت میں نہیں ہوتا اس کے لیے بہت پیسے لیے جاتے ہیں اس کے بدلے میں بڑی خدمات لی جاتی ہیں۔
چوہدری اسلم بمقابلہ ذیشان کاظمی
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلی ڈاکیومینٹری Bad cops of Karachi میں ذکر ہوا تھا کہ انکاؤنٹرز پر مختلف ایس ایچ اوز کے درمیان جوا کھیلا جاتا تھا۔ ہارنے اور جیتنے والوں میں پروفیشنل جیلیسی بھی پائی جاتی تھی۔ چلیں آپ کو ایک ایسا واقعہ سناتا ہوں جس کی خبر میگزین تکبیر نے شائع کی تھی۔ کراچی آپریشن کے نامور انسپکٹر ذیشان کاظمی اور چوہدری اسلم کے درمیان شدید مخالفت تھی۔
ذیشان ٹارگٹڈ لوگوں کومارتا تھا جبکہ چوہدری اسلم جو مجرم ہتھے چڑھا ماردیتا تھا۔ چوہدری اسلم کو فخر تھا کہ دہشت گرد اُس کی دہشت سے تھر تھر کانپتے ہیں مگر پھر ایک ایسا دن آیا جب چوہدری کو لینے کے دینے پڑگئے۔
شیریں جناح کالونی میں منشیات کا دھندہ کرنے والا ایک گروپ تھا جسے قندھار کا رہائشی طور خان چلا رہا تھا۔ وہ اتنا خطرناک آدمی تھا کہ اس نے پولیس ملازمین کو تنخواہ پر اپنے پاس رکھا تھا اور پولیس اس کے لیے کام کرتی تھی۔ جنرل نصیر اللہ بابر کو خبر ملی کہ طور خان نے حیدر آباد سے بھاگنے والے ایم کیو ایم کے افراد کو پناہ دی ہے۔ اس ایشو کو solve کرنے کے لیے چوہدری اسلم کو ٹاسک دیا گیا۔
طور خان کے ڈیرے پر ریڈ کی تو کیا ہوا؟
مبشر فاروق: چوہدری اسلم جب اپنی پولیس فورس کے ساتھ وہاں پہنچے تو طور خان نے زبردست مقابلہ کیا اور پولیس پارٹی کو بھاگنا پڑا اسلم کی ایس ایم جی وہاں رہ گئی جو طور خان کے قبضے میں چلی گئی اب پولیس میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ سے سرکاری اسلحہ چھن جائے تو آپ کی نوکری جا سکتی ہے اسلم کو ٹینشن ہو گئی کہ میری تو نوکری جا سکتی ہے میں اس کا کیا حل نکالوں گا؟
چوہدری اسلم نے معافی کیوں مانگی؟
تب طورخان نے اسلحہ واپس کرنے کےلیے چوہدری اسلم کے سامنے ایک شرط رکھ دی۔
مبشر فاروق: طور خان بولا کہ اسلم نے کیوں ریڈ کیا؟ اسلم کو معاف ایک شرط ہر کروں گا کہ اسلم مجھ سے پاؤں پکڑ کر معافی مانگے اس طریقے سے اسلم کو معافی مانگنی پڑی اور اس طرح اسلم کو ایس ایم جی ملی۔
طور خان ایک بہت بڑا ٹارگٹ تھا جو کسی سے پورا نہیں ہو رہا تھا تو یہ ٹاسک ذیشان کاظمی کو ملا ذیشان کاظمی تھوڑا تیز آدمی تھا اس نے دیکھا کہ طور خان کو کنٹرول کرنا آسان کام نہیں ہے پھر ایسا ہوا کہ طور کا باڈی گارڈ پولیس کا اے ایس آئی تھا پہلے وہ حاضر سروس تھا جب معلوم ہوا تو اس کو برطرف کردیا گیا تھا ذیشان نے اس اے ایس آئی نعیم سے رابطہ کیا اور اس کو کہا کہ میں ایک ریڈ کرنا چاہتا ہوں تمہارا صرف اتنا کام ہوگا کہ طورکو گولی مار دو اگر تم طور کو مار دو گے تو باڈی میں اپنے قبضے میں لے لوں گا اور تمہاری نوکری میں بحال کروا دوں گا نعیم اس بات پر راضی ہوگیا ذیشان نے جب محاصرہ کیا تو نعیم نے طور کو گولی مار دی اور اس طرح ذیشان نے طور کی باڈی اپنے قبضہ میں لے کر نعیم کو بھی مار دیا۔
چوہدری اسلم کی میڈیا سے دوستی
چوہدری اسلم پریشان تھے کہ یہ اسٹوری اخباروں میں شائع ہونے کے بعد ان کی عزت پرحرف آجائے گا۔ انھوں نے مبشر فاروق سے رابطہ کیا اور بھاری رقم کے عوض انفارمر کا نام بتانے کا کہا۔ مبشر فاروق نے کسی بھی قیمت پر انفارمر کا نام بتانے سے انکار کر دیا۔ وہیں چوہدری اسلم نے انھیں دوستی کی پیش کش کی اور یوں مبشر فاروق سے ان کی دوستی ہوگئی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کچھ ریٹائرڈ پولیس افسران نے بتایا کہ کہ اسلم چوہدری نے بڑے عہدوں پر بھی کام کیا مگر وہ تفتیش کار اور انتظامی امور پر بالکل بھی مہارت نہیں رکھتے تھے یہ ہی وجہ تھی کہ انھوں نے کئی کیسز خراب کیے۔
مبشر فاروق: میرا اسلم سے بہت دیر تعلق رہا میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ بہت شاطر اور چالاک آدمی تھا وہ طاقت کو سلام کرتا تھا حکومت وقت کے جو لوگ ہیں اگر انھوں نے کوئی آفر کی یا کوئی ادارے ان کے افسران سے تو وہ کسی کے لیے کچھ بھی کرسکتا تھا۔
مثال کے طور پر جو امریکن کیس تھا پی آئی ڈی سی کیس جس میں امریکنز کا مرڈر ہوا تھا یہ پاکستان کا بہت حساس کیس تھا اور آپ کو پتہ ہے کہ امریکن کسی اور کی تحقیقات پر یقین نہیں کرتے تو اس وقت ایسا ہوا کہ میں ڈی آئی جی کا ایڈوائزر تھا تب اسلم نے ایم کیو ایم کے سلیم گنجے کو اس مرڈر میں ڈال دیا میں اسلم کے پاس آیا میں نے اسلم کو کہا کہ آپ جو یہ کیس بنا رہے ہو یہ سارا جعلی ہے آپ کو معلوم ہے کہ اس کیس میں ایم کیو ایم نہیں ہے اور مجھے معلوم ہے کہ اس کیس میں جو ریئل کلر ہیں وہ کون ہیں لیکن میں اس کو فی الحال ڈسکلوز نہیں کرنا چاہتا یہ دو نمبری نا کرو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن اسلم نہیں مانا اس نے مجھے جواب دیا کہ تم میرے آئی جی ہو یا رانا مقبول میرا آئی جی ہے میں نے کہا کے رانا مقبول آئی ہے مگر وہ آج ہے کل نہیں رہے گا میں تمہارا دوست ہوں میں تم کو کبھی غلط مشورہ نہیں دوں گا اس کا نقصان یہ ہوا کہ سلیم گنجے کے سو سے زائد کیسز تھے اسلم نے سلیم گنجے کو کہا کہ اگر تم امریکن کیس کا ذمہ لے لو تو میں تمہارے سارے کیسز کمزور کردوں گا اس طرح سلیم گنجے کے کیسز کمزور ہوئے اور امریکن کیسز نہ ثابت ہونے پر سلیم گنجا باعزت بری ہوگیا۔
چوہدری اسلم کا مشکل انٹرویو
سینیئر جرنلسٹ نور العارفین کہتے ہیں کہ میں جب کسی کا انٹرویو کرتا تھا تومیرے سوالات کا جواب دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی یہی وجہ تھی کہ اسلم چوہدری میرا سامنا نہیں کرتے تھے۔ بالآخر نور العارفین نے یہ انٹرویو کیا، کیسے؟
نور العارفین: چوہدری اسلم کے بارے میں ایکس آئی جی جو انٹیلی جینس بیورو سے ٹرانسفر ہو کر آئی جی پی بنے تھے ان کے انٹرویو میں۔ میں نے دیدہ ودانستہ سوالات کیے چوہدری اسلم سے متعلق اور انھوں نے جواب نہیں دیا جبکہ اسلم ان کا ماتحت تھا پھر میں نے اس وقت کے سی سی پی اور غلام قادر تھیبو سے سوال کیا انھوں نے بھی چوہدری اسلم سے متعلق بات کرنے سے انکار کردیا، ایک دن اسلم کی کال آئی اور اس نے کہا کہ تم یہاں وہاں کیا باتیں کررہے ہو میرے بارے میں تم مجھ سے آکر بات کیوں نہیں کرتے میں نے پھر چوہدی کا انٹرویو کیا جس کے بعد یہ ہوا کہ مجھ پر فائرنگ کی گی آج ٹی وی آفس کے باہر اور اسلم کی کال آئی اب کرو گے انٹرویو؟
چوہدری اسلم کے ‘‘اوپر‘‘ تک تعلقات
کیا چوہدری اسلم ریاستی اداروں کی ایما پرکام کرتے تھے؟ اور اس کام کا وہ فائدہ بھی اٹھاتے تھے؟ اس رپورٹ کو بناتے ہوئے ایک ایسا واقعہ بھی ملا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوہدری اسلم کا تعلق اپنے افسران سے بھی بہت اوپر تک تھا۔
مبشر فاروق: چوہدری اسلم ہارس ٹریڈنگ میں بھی بہت اہم پولیس آفسر سمجھے جاتے تھے پیپلز پارٹی کی حکومت تھی پیپلز پارٹی نے یہ پلان بنایا کہ یہ تاثر دیا جائے کہ ایم کیو ایم کے ایم این اے اور منسٹرز ہیں یہ بنیادی طور پر الطاف حسین کے دباو کیوجہ سے پارٹی کا حصہ ہیں اگر یہ ایم کیو ایم کو چھوڑ کر ہماری کابینہ میں آجائیں تو یہ الطاف حسین کے خلاف منفی تاثر جائے گا انھوں نے یہ پلان کیا اس پلان کے لیے حافظ اسامہ قادری کا انتخاب کیا گیا حافظ اسامہ قادری جو 1987 میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے جس میں پہلی بار ایم کیو ایم بڑی فتح حاصل کی تھی اس میں اسامہ قادری گلبہار کے علاقہ میں کونسلر بنے تھے اس کے بعد والے الیکشن میں ایم کیو ایم نے انھیں ایم پی اے بنا دیا اب جب یہ کراچی آپریشن ہوا بے نظیر کےدوسرے دور حکومت میں 94 میں جس میں عبداللہ شاہ چیف منسٹر تھے اس دور میں اسلم کو ٹاسک ملا کہ آپ اسامہ قادری کو تیار کرو جب اسامہ قادری کو لے کر آئے تو اسامہ قادری پر ٹارچر کیا گیا مگر اسامہ راضی نہیں ہوئے اس کے بعد بڑی عجیب حرکت ہوئی اسامہ قادری کو ننگا کردیا گیا اور تھانہ کے گیٹ سے باندھ دیا گیا ان کی والدہ کو بلا کر یہ منظر دیکھایا فیروزہ بیگم یہ سب دیکھ کر رو پڑیں اور اسلم نے کہا کہ آپ کو اوپر ڈیل کرنی پڑے گی۔
ہائی پروفائل کیسز کا انجام
نہ صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ بلکہ پورے ملک میں اسلم چوہدری کی پہچان اس لیے بھی بنی کہ انھوں نے ہائی پروفائل کیسز کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ان کیسز کو انجام تک بھی پہنچایا۔ صولت مرزا کیس ہو یا شعیب خان رحمان ڈکیت کا خاتمہ۔ یا پھر شدت پسند طالبان کے خلاف کارروائیاں، ہر طرف چوہدری اسلم کا ڈنکا بجتا تھا۔ کیا ان تمام کامیابیوں کو سمیٹنے میں اکیلا چوہدری ہی کافی تھا؟
نورین خان: شام تھی چار بجے کا وقت تھا چوہدری اسلم اور اس کے ساتھ تین آدمی جاتے ہیں ایک ڈرائیور اور ایک گن مین بغیر اسلحہ کے ایک گرین کار آلٹو میں وہ (صولت مرازا) شارجہ سے کینیا کے لیے آتا ہے ساتھ افریقہ جانے کے لیے اسلم کے پاس انفرمیشن ہوتی ہے اور اسلم اس کو وہاں سے لے آتا ہے جو اس کیس میں اسلم کی منتیں کی ہیں اس کا مجھے کچھ اندازہ ہے۔
مبشر فاروق: صولت والا واقعہ یہ ہوا کہ اسلم ایس ایچ او تھا گل بہار کا انور زیب ڈی ایس پی ہوتے تھے تو معلومات انور زیب کے پاس آئیں یہ بات مجھے زیب نے بتائی جب یہ گرفتاری ہوئی تو وہ بہت رو رہا تھا اس نے کہا کہ اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا میں نے اسلم کو اعتماد میں لیا تھا اسلم نے کسی جگہ پر اوپر بھی نہیں بتایا اور یہ شو نہیں کیا کہ میرا بھی کوئی حصہ ہے اور میں اس سے لڑ بھی نہیں سکتا کیونکہ میں ڈی ایس پی ہوں مگر طاقت ور تو اسلم ہے تو اس طرح اسلم نے دوسرے آدمی کی معلومات حاصل کرکے صولت والا کریڈٹ لے۔
اب رہی بات جو آپ کہتے ہیں کہ کے ایس ای کے جو ایم ڈی تھے شاہد حامد ان کے مرڈر کا واقعہ تو دیکھیں جب یہ واقعہ ہوا تو مجھے بھی یہ معلومات ملیں تھیں کہ اس میں صولت مرزا ہے مگر اس زمانے میں کرائم برانچ نے بہت کام کیا انھوں نے ایک پوری رپورٹ بنائی اس رپورٹ میں جو انکشاف ہوا تھا اس کے مطابق شاہد حامد کے لیبر ڈویژن میں جو معاملات چل رہے تھے کے ای سی میں اس کے اندر ڈاکٹر فاروق ستار اور نسرین جلیل ملوث تھے تو آپ اگر یہ دیکھیں کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ صولت کو سزا ہوئی وہ سہی تھی یا غلط وہ ساری چیزیں اپنی جگہ پاکستان میں یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ جو ماسٹر مائنڈ ہوتا ہے وہ بچ جاتا ہے اور جسے استعمال کیا جاتا ہے وہ پھنس جاتا ہے کیا کبھی فاروق ستار اور نسرین جلیل کے خلاف انکواری ہوئی ؟ان کو کبھی نامزد کیا گیا ؟ پوچھ گچھ ہوئی؟
چوہدری اسلم کا ’’یو ٹرن‘‘
یہاں سے شروع ہوتا ہے چوہدری اسلم کا دوسرا دور، جب جنرل پرویز مشرف اپنا اقتدار سنبھالتے ہیں۔ ریاست کی توجہ اب ایم کیو ایم پر نہیں ہے، اور اس مرتبہ چوہدری اسلم کو دوسرے شکار پکڑنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اب چوہدری اسلم کی بندوق ایم کیو ایم کی طرف نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے مخالفین کی طرف ہے۔
چوہدری اسلم نے شعیب خان کو خود گرفتار کیا؟
اس دور میں لیاری کا رحمان ڈکیت اور شعیب خان ایم کیو ایم کے شدید دشمن سمجھے جاتے تھے۔ شعیب خان کا تعلق تو داؤد ابراہیم سے جا ملتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ داؤد ابراہیم 12 مارچ 1993 کو انڈیا کے شہر ممبئی میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملزم ٹھیرایا جاتا ہے اور وہ انڈیا کا سب سے مطلوب ملزم بھی تھا۔ شعیب خان کئی مقدمات میں مطلوب تھا اور اس پرالزام تھا کہ اس نے 27 دسمبر 1996 کو ایم کیو ایم کے دو کارکنوں ادریس پریڈی اور محمد اکبر کو قتل کیا تھا اس نامی گرامی ملزم کو چوہدری اسلم نے لاہور سے گرفتار کیا۔
نورین خان: مجھے آج بھی یاد ہے کہ کراچی میں جب سندھ پولیس کو ٹاسک ملا کوئی کور نا کرپایا شعیب کو معلوم تھا کہ چوہدری کے علاوہ اس کو کوئی نہیں پکڑ سکتا ایک میری گاڑی ٹائیگر تھی اور چار پانچ لوگ تھے ساری رات یہ ڈیفنس میں خود گشت کرتا اس پہلے عشرت العباد اور آئی جی بلا کر خود بولا کہ یہ ٹاسک ہم آپ کو خود دے رہے ہیں اسلم نے کہا کے ضمیر تو نہیں مانتا کیونکہ ہم تو سندھ پھنکے ہوئے لوگ ہیں اس وقت حکومت جب تبدیل ہوتی ہے تو پھر یہ یہاں آتے ہیں کام کے لیے لائے جاتے ہیں تو بولا ہماری مجبوری کوئی نہیں ہے کراچی سندھ کی مجبوری ہے ہم سے کام لینا پھر آئی جی صاحب نے لیٹر نکال دیا کہ آپ کو حکم ہے کہ آپ یہ کام کریں اور دو ماہ کا وقت دے دیا گیا تھانہ کوئی استعمال نہیں ہوگا چوہدری بیٹھو گے نہیں آپ کسی بھی جگہ پوسٹنگ سندھ میں ہی رہے گی کام چاہے ایسے حالات میں کوئی افسر کام نہیں کرے گا پھر یہ لاہور گے اور شعیب کو پکڑا خبر سب سے پہلے میرے پاس تھی اسلم نے بتایا کہ وہ داتا دربار پر ہیں پھر بائی روڈ لایا گیا پیر آباد میں رکھا گیا پھر وہاں سے کہیں اور شفٹ کرتے رہے پھر آئی جی صاحب نے لیاری ٹاسک فورس بنائی اس طرح کراچی میں پھر ایک بار چوہدری اسلم آیا
نور العارفین: کون گرفتار کرتا ہے ان کو یار سب کام ماموں لوگ کرتے ہیں انٹیلی جینس ادارے کرتے ہیں ان کو بندے پکڑ کر دے جاتے ہیں ان کی کیا اوقات ہے بندہ پکڑںے کی۔
معشوق بروہی کی جگہ رسول بخش کی موت
چوہدری اسلم جب لیاری ٹاسک فورس کے سربراہ تھے تب ایک پولیس مقابلہ ہوتا ہے اور اس پولیس مقابلہ نے چوہدری اسلم کو طویل عرصہ تک پریشان رکھا۔ جی ہاں! 11 جولائی 2006 کو گڈاپ کی حدود میں ’’معشوق بروہی‘‘ نامی شخص جو مار دیا جاتا ہے جو قتل، اقدام قتل، اغوا اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث تھا۔ مگر افسوس اس بار مرنے والا شخص معشوق بروہی نہیں تھا وہ تو معصوم ’’رسول بخش‘‘ تھا۔ اس طرح سے یہ معشوق بروہی کیس کی تحقیقات شروع ہوجاتی ہیں۔ معشوق بروہی کیس میں اسلم چوہدری اٹھارہ ماہ جیل میں رہے مگر سپریم کورٹ نےعدالتی کاروائی کے بعد اسلم چوہدری اور ان کے ساتھیوں کو بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کردیا۔ اس طرح چوہدری اسلم اپنے عہدہ پر دوبارہ بحال ہو گئے۔
رحمان ڈکیت کا خاتمہ
9 اگست 2009 میں بدنام زمانہ گینگسٹر رحمان ڈکیت پولیس مقابلے میں چوہدری اسلم کے ہاتھوں مارا گیا مگر لیاری کے لوگ اور کئی سینیئر صحافیوں کا دعویٰ ہے رحمان کو بارڈر پار ہی مار کر کراچی لایا گیا تھا اور ڈیڈ باڈی چوہدری اسلم کے حوالے کردی گئی۔ رحمان ڈکیت کے مرنے کے بعد چوہدری اسلم کو سی آئی ڈی میں تعینات کردیا گیا۔ یہاں چوہدری اسلم نے شدت پسندوں مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردوں اور طالبان انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی شروع کی۔
چوہدری اسلم پر قاتلانہ حملہ کس نے کیا؟
چوہدری اسلم لشکر جھنگوی اور مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی کرنے والےعناصر کے ساتھ ٹکر لینے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ 11 نومبر 2010 کو سول لائنز میں سی آئی ڈی کے دفتر پر بارود بھری گاڑی نے ٹکر ماری۔ نتیجے میں 20 لوگ مارے اگئے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور لشکر جھنگوی نے قبول کی۔ چوہدری اسلم خوش قسمتی سے اس واقعے میں بچ گئے۔
مبشر فاروق: چوہدری اسلم کا تعلق کیونکہ ہزارہ سے تھا آپ کو پتہ ہے کہ جہادی جماعتوں میں ہری پور ہزارہ کے لوگ کافی ہیں اسلم کو یہاں کافی پرسنل نیٹ ورک کے لوگ بھی ملے باقی انٹیلی جینس اداروں کی معلومات بھی ان کے پاس ہوتی تھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ جہادی جماعتوں سے متعلق کوئی بھی بندہ خود فیصلہ کرلے ابھی تک اس کی یہ ہی پالیسی ہے اس وقت تک کاروائی نہیں ہوگی جب تک متعلقہ اسٹیبلیشمنٹ کو اطلاع نا ہوجائے وہ اس بندے کو ریڈ کریں گے اور جو آڈر دیا جائے گا وہ ہی ہوگا کوئی بھی پولیس آفیسر اس میں آزاد نہیں ہے جہادی نیٹ ورک صرف لوکل نہیں رہتا یہ تو بہت پھیلا ہوا ہے تو اس نیٹ ورک کو پکڑنے کے لیے اسٹیبلیشمنٹ ہی ورک کرتی ہے اسلم کو اوپر سے آڈر ملتا تھا اسی کے مطابق اسلم نے کام کیا اسلم کے اپنے نیٹ ورک سے ٹچے ٹچے جہادی آئے۔
19 ستمبر 2011 کو ڈیفنس میں چوہدری اسلم کے گھر پھر حملہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گھر تو تقریباً تباہ ہوجاتا ہے مگر یہاں بھی قسمت کے دھنی چوہدری اسلم اور ان کے بچے بچ جاتے ہیں۔ اس حملے میں دہشت گردوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے چھ گھر پر تعینات پولیس اہلکار ایک راہگیر خاتون اور اس کا بیٹا تھا۔ عسکریت پسند تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے دعویٰ کیا کہ آئندہ بھی مزید پولیس حکام کو نشانہ بنایا جائے گا۔
نورین خان: طالبان یہ سمجھتے تھے کہ چوہدری ڈر گیا ایسا تو نہیں ہے نا ایک کال آئی تھی جو چوہدری اپنی فیملی سے چھپاتا ہے دو ماہ ہی چھپائی کیونکہ پھر اس کے بعد شہادت ہوگی پھر میں نے کہیں سے تصدیق کی تو پتہ چلا کہ یہ بات ٹھیک ہے چوہدری نے گالیاں دی اور کہا کہ میں کراچی صاف کردوں پھر وہیں کفن باندھ کر اتروں گا مر گیا تو شہید بچ گیا تو فیملی کا ہو جاؤں گا یا کراچی والوں کا رہوں گا۔
موت کا پروانا آ ہی گیا
تقریباً اڑھائی سال کے بعد 9 جنوری 2014 کے دن چوہدری اسلم خود دہشت گردی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف تحریک طالبان پاکستان ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کر تی ہے تو دوسری طرف پاکستان کی قید میں موجود انڈین جاسوس کلبھوشن یادو کہتا ہے کہ چوہدری اسلم کے قتل میں را ملوث تھی۔ بلکہ اس کا کہنا تھا کہ ان کے قتل کا آرڈر را کے چیف انیل Anil Dhasmana نے دیا تھا۔
اس حملے سے چند گھنٹے قبل بھی انھوں نے ناردرن بائی پاس پر منگھوپیر کے علاقے میں ہونے والے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں تین طالبان شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسلم خان سے چوہدری اسلم کے اس سفر کی داستان کئی برس یاد رکھی جائے گی لیکن کس حیثیت سے؟ کیا دنیا چوہدری اسلم کو ایک ہیرو کی حیثیت سے یاد رکھے گی؟ یا ایک ولن کے طور پر؟ اس سوال کا جواب آپ ہمیں بتائیے گا۔