پاکستان ورلڈ کپ جیت چکا ہے۔ پوری قوم کی نظریں عمران خان پر ہیں یہاں تک کہ وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی بھی۔ پرائم منسٹر کی جانب سے ورلڈ چیمپیئن ٹیم کو استقبالیہ دیا جاتا ہے جہاں ایک غیر ملکی صحافی نواز شریف سے کہتا ہے کہ اگر عمران خان سیاست میں آئیں تو وہ آپ کی ٹیم کے لیے رائٹ مین ہوں گے۔ نواز شریف جواب دیتے ہیں:
میں نے تو بہت پہلے عمران خان کو مشورہ دیا تھا، لیکن انھوں نے منع کر دیا، پتہ نہیں کیوں؟ لیکن میری آفر اب بھی برقرار ہے۔
نواز شریف کو اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان تو بہت پہلے سے سیاست دان تھے۔ سیاست نہیں، کسی اور میدان کے۔ جی ہاں! جس طرح آج عمران خان کا مقابلہ نواز شریف سے ہے، ویسے ہی پہلے اُن کا ٹاکرا ہوتا تھا اپنے کپتان جاوید میانداد سے۔
پاکستان کی سیاست ہو یا کرکٹ، دونوں کی تاریخ بہت ملتی ہے اسی لیے ہمیں کرکٹ میں سیاست بھی نظر آتی ہے، قیادت حاصل کرنے کی جدوجہد بھی تو بغاوت بھی۔
کہتے ہیں پاکستان کی پارلیمنٹ میں اتنی سیاست نہیں ہے، جتنی کرکٹ میں ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ جہاں انڈیا میں کرکٹ ’مذہب‘ ہے، وہیں پاکستان میں یہ کھیل ’سیاست‘ ہے اور اس سیاست کا آغاز ہوا تھا 1982 میں۔
کپتان کے خلاف بغاوت
سری لنکا کو ٹیسٹ کھیلنے کی نئی نئی اجازت ملی تھی اور اس کا پہلا ٹوؤر تھا پاکستان کا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے کپتان جاوید میانداد تھے، اور سیریز سے پہلے ہی اُن کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ عمران خان بھی اس بغاوت کا حصہ تھے۔ اُن کے ساتھ ایک، دو نہیں پورے سات کھلاڑی تھے، جن کا کہنا تھا وہ میانداد کی کپتانی میں نہیں کھیلیں گے کیونکہ وہ مغرور ہیں، اور ان کا attitude ٹھیک نہیں۔ ان کھلاڑیوں میں شامل تھے: عمران خان، ماجد خان، ظہیر عباس، محسن خان، وسیم راجا، اقبال قاسم، وسیم باری اور سرفراز نواز۔
تب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ایئر وائس مارشل نور خان تھے۔ ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت آدمی تھے، پھر انھوں نے ہی 23 سال کے میانداد کو کپتان بنایا تھا۔ انھوں نے کوئی پریشر نہیں لیا اور تمام باغی کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر نکال دیا۔ یہ بہت بڑا فیصلہ تھا اور اس کا دباؤ نظر بھی آیا۔ اقبال قاسم اور وسیم راجا نے مطالبات واپس لے لیے اور ٹیم میں آ گئے۔
پھر بھی پاکستان کو پہلے ٹیسٹ میں چار کھلاڑیوں کو debut کروانا پڑا: سلیم ملک، سلیم یوسف، طاہر نقاش اور راشد خان کو۔ پہلا ٹیسٹ کراچی میں ہوا، جو پاکستان جیت گیا لیکن دوسرے میچ میں ہارتے ہارتے بچا۔ یہی وہ دھچکا تھا جو باغی کھلاڑی ٹیم پاکستان کو پہنچانا چاہتے تھے اس لیے باغی کھلاڑیوں اور بورڈ میں بات ہوئی پھر تھرڈ ٹیسٹ میں عمران خان سمیت کئی کھلاڑی شریک ہوئے۔پاکستان سیریز 2-0 سے جیت گیا لیکن اس کے بعد جاوید میانداد نے resign کر دیا۔
کھلاڑیوں کے درمیان سرد جنگ
یوں شروع ہو گیا عمران خان کا دور اور ٹیم پاکستان کے اندر ہی ایک ’سرد جنگ‘ بھی۔ مدثر نذر کہتے تھے عمران اور جاوید کا love hate relationship تھا لیکن جاوید میانداد نے اپنی بایوگرافی "Cutting Edge" میں لکھا ہے:
میرے اور عمران خان کے درمیان صرف professional jealousy تھی، بس!
اور ہمیں یہ jealousy اپنے عروج پر پہنچتی نظر آئی جنوری 1983میں۔ یعنی عمران خان کے کپتان بننے کے صرف چھ مہینے بعد۔ یہ تھا پاک بھارت سیریز کا چوتھا ٹیسٹ، پاکستان سیریز میں 2-0 سے آگے تھا۔ جاوید میانداد اور مدثر نذر نے 451 رنز کی پارٹنرشپ کی۔مدثر نے ڈبل سنچری بنائی، لیکن جاوید میانداد کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ کھیلتے رہے، یہاں تک کہ 280 رنز پر پہنچ گئے یعنی ٹرپل سنچری سے صرف 20 رنز دور۔ تب پاکستان کے لیے صرف ایک کھلاڑی حنیف محمد نے ٹرپل سنچری بنائی تھی۔ جاوید میانداد کو یہ گولڈن چانس ملا تھا کہ اُن کا ریکارڈ بھی توڑ دیں۔ لیکن تیسرے دن کا پہلا سیشن چل رہا تھا، جب عمران خان نے اچانک اننگز declare کر دی۔
میانداد کیا، پوری دنیا ہی حیران ہو گئی کہ یہ کیا ہوا؟ پویلین واپس آتے ہوئے سنیل گاوسکر نے میانداد سے کہا:
میں ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا، بلکہ دنیا کا کوئی بھی کیپٹن ہوتا وہ اننگز ڈکلیئر نہیں کرتا۔
لیکن ایسا ہو چکا تھا، اس واقعے نے عمران خان اور جاوید میانداد کے درمیان ایسی لکیر کھینچ دی کہ کیریئر کے آخری دن تک دونوں کھلاڑیوں میں وہ بونڈ نظر نہیں آیا جو لیجنڈز کے بیچ ہوتا ہے۔
ویسے عمران خان نے اپنی کتاب میں جاوید میانداد کا ذکر کیا ہے۔ کچھ تعریف بھی کی لیکن اُن کی کپتانی کو بہت criticize کیا، immature کہا، bad مینجمنٹ اور impulsive نیچر والا کپتان تک کہا۔
کامیاب ترین دور میں بھی سیاست
90 کی دہائی، پاکستان کرکٹ کا کامیاب ترین دور تھا لیکن سب سے زیادہ سیاست بھی ہمیں اُسی دور میں نظر آئی۔ عمران خان ریٹائر ہوئے تو ایک مرتبہ پھر کپتانی ملی جاوید میانداد کو لیکن ایک سال بھی نہیں گزرا کہ ٹیم میں پھر بغاوت ہو گئی۔ اس بار وسیم اکرم اور وقار یونس تھے، جو جاوید میانداد کے خلاف تھے۔ میانداد کے مطابق اِس بغاوت میں بھی عمران خان کا ہاتھ تھا، اُنھی کے کہنے پر کھلاڑیوں نے یہ قدم اٹھایا۔
بہرحال، میانداد کی کپتانی پھر چلی گئی اور کپتان بنائے گئے وسیم اکرم یعنی جسے میانداد کرکٹ میں لائے تھے، وہی اُن کی جگہ کپتان بن گیا۔ مگر پھر وقار اور وسیم کا تعلق بھی ویسا ہی بن گیا جیسا کبھی عمران خان اور جاوید میانداد کا ہوتا تھا۔ جی ہاں! professional jealousy والا تعلق۔
میچ فکسنگ کا پنڈورا باکس
یہاں وسیم اکرم نہیں بچ پائے اور اُن کی جگہ سلیم ملک کپتان بنا دیے گئے۔ اُن کے دور میں جو کچھ ہوا، وہ شرمناک تھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم پر میچ فکسنگ کے الزامات لگے، یہاں تک کہ سلیم ملک پر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ اس حوالے سے رفتار اسپورٹس نے ایک الگ وڈیو بنائی ہے، آپ ضرور دیکھیے گا۔
خیر، وسیم اکرم 1999 آن اینڈ آف کپتان بنتے رہے، یہاں تک کہ میچ فکسنگ کا پینڈورا باکس کھلا اور وسیم اکرم کی کپتانی چلی گئی۔ اتنے بڑے اسکینڈل کے بعد پاکستان کرکٹ کے معاملات سیدھے ہو گئے۔ کپتان آتے جاتے رہے، لیکن بغاوتوں والے معاملات ذرا کم ہو گئے۔
سخت مزاج کپتان کی آمد
پھر اگلے چند سالوں کے دوران معین خان، وقار یونس، راشد لطیف اور انضمام الحق کپتان بنے اور پھر باری آئی یونس خان کی۔ ایک اور ایسے کپتان جن کے بارے میں مشہور تھا کہ سخت مزاج کے آدمی ہیں اور انھی کے دور میں ہمیں پاکستان کرکٹ میں ایک اولڈ اسٹائل rebellion نظر آئی۔
کہا جاتا ہے کہ ٹیم کے آٹھ کھلاڑی سابق کپتان انضمام الحق کے پاس گئے اور ان سے یونس خان کی شکایت کی۔ یہاں کھلاڑیوں نے قرآن مجید پر حلف بھی لیا کہ وہ یونس کی کپتانی میں نہیں کھیلیں گے۔ بات چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ تک پہنچ گئی۔ ان کھلاڑیوں میں شاہد آفریدی، شعیب ملک، محمد یوسف، مصباح الحق، سعید اجمل، کامران اکمل، رانا نوید الحسن اور عمر اکمل شامل تھے۔ اور حالات ایسے بن گئے کہ یونس خان کو کپتانی چھوڑنا پڑ گئی۔
کہا تو یہی جاتا ہے کہ یہ پورا سین create کیا تھا شعیب ملک نے۔ لیکن یونس خان کہتے ہیں اُن کے خیال میں situation کا فائدہ اٹھایا شاہد آفریدی نے۔ وہ اس بات کو بھی نہیں مانتے کہ ان کے captaincy style اور سخت مزاج کی وجہ سے شکایت کی گئی، بلکہ یونس سمجھتے ہیں کہ یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ شاہد آفریدی کپتان بننا چاہتے تھے۔
منکسر مزاج کپتان کا آنا جانا
بالآخر یونس کی کپتانی چلی گئی اور ٹیسٹ کیپٹن بنے محمد یوسف۔ وہ ذرا سیدھے آدمی تھے، اُن کے لیے ایسی سیاست کرنا مشکل تھا۔ وہ تو اتنے پریشر میں آ گئے کہ پہلی سیریز کے آخری میچ میں شاہد آفریدی کو کپتان بنا دیا۔
آسٹریلیا کا ٹوؤر پاکستان کے لیے ہمیشہ پریشان کرنے والا ہوتا ہے، 2009-2010 کے بعد بھی ایسا ہی ہوا۔ پاکستان دورے کے تمام ٹیسٹ، سارے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز ہارا۔ انکوائری کمیٹی بیٹھی اور پھر آپریشن کلین اپ ہوا۔ یونس خان اور محمد یوسف پر پابندی لگی، شعیب ملک اور رانا نوید الحسن کو ایک، ایک سال کے لیے ٹیم سے نکال دیا گیا۔ اور شاہد آفریدی اور اکمل برادرز پر جرمانے لگے۔
اسپاٹ فکسنگ کا داغ
اور یہاں نیا کپتان بنایا گیا سلمان بٹ کو۔ ایک پڑھا لکھا نوجوان، جس سے بڑی امیدیں تھی۔ لیکن جتنی زیادہ امیدیں، اتنا بڑا heartbreak۔ پاکستان 2010 میں انگلینڈ کے ٹوؤر پر گیا جہاں سلمان بٹ کی نگرانی میں اسپاٹ فکسنگ جیسا جرم کیا، کپتان اپنے ساتھ دو اسٹار کھلاڑیوں کو بھی لے ڈوبے۔
مستحکم دور کی شروعات
یہ بہت بڑا سبق تھا، پاکستان نے تجربہ کار اور سنجیدہ کھلاڑی مصباح الحق کو کپتان بنایا جنھوں نے ایک مشکل دور میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو سنبھالا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کپتانی کے لحاظ سے یہ بڑا stable دور تھا۔ مصباح عزت سے کھیلے، عزت سے ریٹائر ہوئے اور ان کے جانے کے بعد بھی اب تک ٹیم میں کوئی بڑی بغاوت نظر نہیں آئی۔
ہاں! بورڈ سے تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ ضرور کیا گیا، بالکل 1977 کی طرح۔ مطالبہ مان بھی لیا گیا، لیکن ورلڈ کپ کی وجہ سے بابر اعظم کی کپتانی چلی گئی۔ یعنی 77 میں مشتاق محمد کی کپتانی گئی تھی، 2023 میں بابر اعظم کی گئی۔ بظاہر ٹیم میں بابر کے خلاف کوئی نہیں، ہاں! باہر سے ایک آواز ضرور آئی۔ شعیب ملک نے 2022 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل ہارنے کے بعد ٹوئٹ کیا:
آخر اب اتنی شانتی کیوں؟ وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ کپتان بننے کا شوق لیگ کرکٹ میں پورا ہو جاتا ہے، influence جمانے کو جگہ بھی مل جاتی ہے اور پھر پیسہ بھی۔ یا پھر کرکٹ بورڈ اب سمجھ دار ہو گیا کہ پلیئر پاور پیدا نہیں ہونے دیتا۔