پاکستان کرکٹ سے ہمیں بڑی محبت تھی، لیکن پھر اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ آ گیا۔ 1999 کی جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ۔ ‏150 پیجز کا ایک ڈاکیومنٹ جو میچ فکسنگ کے خلاف تحقیقات میں پاکستان کا پہلا قدم تھا۔ بڑے الزامات لگے، بڑے بڑے کھلاڑیوں پر لگے، بہت دھول اڑی اور پھر نتیجہ آ گیا!

کس پر life ban لگا؟
کس کو warning دے کر چھوڑ دیا گیا؟
اور کون ہر الزام سے clear ہو گیا؟

90s میں پاکستان کرکٹ اپنے peak پر تھی۔ ٹیم ورلڈ چیمپیئن بھی بنی اور ورلڈ نمبر ون بھی۔ ذرا کھلاڑی تو دیکھیں: وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور، انضمام الحق، شعیب اختر، شاہد آفریدی، مشتاق احمد، معین خان، راشد لطیف، ثقلین مشتاق۔ ایک سے بڑھ کر ایک بڑا نام۔ اُس پر کامیابیاں بھی، ان کھلاڑیوں کے نام تو گھر گھر مشہور ہو گئے۔ پھر کیا شہر؟ اور کیا گاؤں؟ ہر گلی کا اپنا وسیم اکرم تھا اور ہر علاقے کا اپنا انضمام الحق!

جب ٹیم میں اتنے بڑے کھلاڑی ہوں، اور کامیابیاں بھی مل رہی ہوں تو امیدیں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ اتنی امیدوں اور اتنی مقبولیت کے ساتھ آیا پیسہ، بہت سارا پیسہ۔ صاف پیسہ بھی اور کالا دھن بھی۔ کیونکہ جہاں پیسہ ہوتا ہے، وہاں گڑبڑ تو ہوگی! پاکستان کرکٹ میں بھی یہی ہوا۔

پاکستان کرکٹ میں فکسنگ کی باتیں

پہلے فکسنگ کی صرف باتیں سامنے آئیں، ہلکی پھلکی سی افواہیں، چھوٹی موٹی سی خبریں اور پھر بات بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہاں تک پہنچ گئی کہ کرکٹ بورڈ نے حکومت سے کہا کہ جوڈیشل انکوائری کروائے۔ پھر کچھ کھلاڑیوں پر لائف بین لگا، تو کچھ کو زندگی بھر کی بدنامی ملی اور کچھ ایسے بھی ہیں جن پر آج تک شک کیا جاتا ہے۔

پاکستان کرکٹ میں فکسنگ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ‏1979-80ء‎ میں ٹیم کے کپتان تھے آصف اقبال۔ ان پر آج تک الزام لگایا جاتا ہے کہ انڈیا کے خلاف ایک میچ میں انھوں نے ٹاس پر فکسنگ کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ آصف اقبال نے ٹاس کے لیے کوائن پھینکا اور فوراً ہی اٹھا کر انڈین کیپٹن سے کہا، مبارک ہو، آپ ٹاس جیت گئے ہیں۔ لیکن 90s میں فکسنگ کی خبریں بہت بڑھ گئیں۔ خاص طور پر اس زمانے میں جب سلیم ملک کپتان تھے۔ تب پاکستان نے کئی ایسے میچز کھیلے، جن پر فکس ہونے کا شک ہے۔ ‏1994 کا نیوزی لینڈ ٹؤر ہو یا پھر 1995 کا زمبابوے ٹؤر، پاکستان کئی ایسے میچز ہارا کہ یقین نہیں آتا۔ اور یہیں پر کہانی میں انٹری ہوتی ہے دو کرداروں کی، کراچی کے راشد لطیف اور باسط علی!

ایک دن راشد لطیف اور باسط علی نے اچانک ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ اور پھر پردہ اٹھایا اُس دھندے پر سے جو پاکستان کرکٹ میں خوب چل رہا تھا۔ دونوں کی باتوں نے تو آگ ہی لگا دی، جو پہنچ گئی پاکستان کرکٹ بورڈ تک۔ اور پی سی بی کے کہنے پر حکومت نے 1998 میں ایک کمیشن بنایا، ملک محمد قیوم کی سربراہی میں جس کا کام تھا پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کرنا اور جو کھلاڑی اس کام میں ملوث نکلیں، انھیں سزائیں دینا۔ پھر شروع ہو گئیں investigations، جس میں جن کھلاڑیوں کا نام سب سے زیادہ لیا گیا، وہ تھے: سلیم ملک اور وسیم اکرم۔

فکسنگ کا پنڈورا باکس کھل گیا

تحقیقات کا آغاز ہوا تو کچھ میچز ایسے تھے جن پر خاص طور پر سب کو شک تھا۔ مثلاً

  • 1994 میں نیوزی لینڈ کے ٹؤر کا آخری ون ڈے
  • ستمبر 1994 میں سنگر ورلڈ سیریز میں پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ

انوسٹی گیشنز میں اور بھی کئی میچز سامنے آئے، جیسے

  • ورلڈ کپ 96 کا پاک-انڈیا کوارٹر فائنل
  • اپریل 99 میں انگلینڈ کے خلاف شارجہ کا ایک ون ڈے

اور جب بات کھلی تو کھلتی ہی چلی گئی۔ کمیشن نے ایک، ایک کر کے نئے، پرانے تمام کھلاڑیوں کو طلب کیا۔ سب سے پہلے سرفراز نواز آئے جن کا تب بھی یہی کام تھا، ہر میچ کو فکس کہنا۔ وہ آئے اور چھوٹتے ہی ورلڈ کپ 87 کے پاک آسٹریلیا سیمی فائنل کو ہی فکس کہہ دیا۔ پھر 1997میں پاکستان -انڈیا کا میچ، جس میں 183 چیز کرتے ہوئے پاکستان کا 79 پر صرف ایک آؤٹ تھا لیکن 149 پر پوری ٹیم آؤٹ ہو گئی۔

خیر، سرفراز نواز نے یہ بھی کہا کہ اس میچ کو سلیم ملک نے 40 لاکھ روپے لے کر فکس کیا تھا۔ انھوں نے وسیم اکرم کے علاوہ اعجاز احمد کا نام بھی لیا۔ سرفراز نواز نے تو 20 سال پرانے میچز بھی نکال لیے اور انھیں فکس کہا لیکن ثبوت اُن کے پاس کوئی نہیں تھا اور عدالت ثبوت مانگتی ہے۔

پھر پیش ہوئے سابق کوچ ہارون رشید۔ وہ کہتے ہیں، کچھ میچز تو واقعی فکس تھے۔ سب سے پہلے اُنھیں شک تھا ایشیا کپ 1997ء کے پاک-سری لنکا میچ پر جہاں 240 رنز چیز کرتے ہوئے پاکستان نے 9 وکٹوں پر 224 رنز بنائے اور صرف 15 رنز سے ہار گیا۔ پھر اُسی سال بھارت کے خلاف بھی ایک ون ڈے میں پاکستان ہارا تھا۔ ثقلین مشتاق کو تین اوورز میں 33 رنز پڑ گئے تھے۔ ہارون رشید کے خیال میں ثقلین جس لیول کے بالر تھے، ان سے یہ امید نہیں تھی۔ یعنی اُن کے مطابق یہ میچ بھی فکس تھا۔ اور تو اور انھوں نے 97 کے پاکستان ساؤتھ افریقہ میچ پر بھی انگلی اٹھائی۔ یہ فیصل آباد ٹیسٹ تھا۔ پاکستان کو یہ میچ جیتنے کے لیے ٹارگٹ ملا تھا 146 رنز کا لیکن پوری ٹیم صرف 92 پر آؤٹ ہو گئی ۔ ہارون رشید کے خیال میں سلیم ملک، وسیم اکرم اور اعجاز احمد میچ فکسر تھے۔ لیکن پھر وہی بات، ثبوت کوئی نہیں۔ صرف خیال اور اندازوں پر تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔

پھر آئے ایک اور سابق کوچ انتخاب عالم۔ انھوں نے بتایا کہ 1994 میں شارجہ میں ایک ٹورنامنٹ کا فائنل تھا۔ میچ سے پہلے انھیں کہیں سے فون آیا کہ میچ فکس ہو گیا ہے۔ تب انتخاب عالم نے پوری ٹیم نے قرآن مجید پر حلف لیا۔ پھر پاکستان انڈیا کے خلاف یہ فائنل جیت گیا لیکن انتخاب عالم کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں کرائسٹ چرچ میں ہونے والا پانچواں ون ڈے فکس تھا۔ اس میچ کا ذکر آگے آئے گا لیکن انتخاب عالم نے ایک اور طرف اشارہ کیا۔

انتخاب عالم کے خیال میں منڈیلا ٹرافی 94 بھی فکس تھی۔ بیسٹ آف تھری فائنلز میں پاکستان پہلے دونوں میچز ہارا اور بری طرح ہارا تھا۔ ‏216 رنز چیز کرتے ہوئے 178 آل آؤٹ اور پھر 267 چیز کرتے ہوئے 109 آل آؤٹ۔ تبھی تو انتخاب نے کہا کہ پاکستان جان بوجھ کر ہارا اور یہ بات انھیں ایک فون کال سے پتہ چلی جس کے مطابق ٹیم کے آٹھ کھلاڑی ایسے ہیں جو میچ فکسنگ کر رہے ہیں۔ سلیم ملک، وسیم اکرم اور اعجاز احمد کے علاوہ انضمام الحق، مشتاق احمد، معین خان اور وقار یونس کے علاوہ باسط علی بھی!

جی ہاں! فکسنگ کا پنڈورا باکس کھولنے والے باسط علی پربھی انگلی اٹھی۔ انتخاب عالم کے مطابق صرف رمیز راجہ، عاقب جاوید اور عامر سہیل ہی ایسے کھلاڑی تھے، جو فکس نہیں کرتے تھے۔

اب کمیشن میں پیش ہونے کی باری آئی، گریٹ خان، عمران خان کی۔ انھوں نے کہا کہ مجھے عطا الرحمٰن کے علاوہ کسی کھلاڑی کے بارے میں کچھ نہیں پتہ اور جو بھی فکسنگ کرے، اس پر لائف ٹائم بین لگنا چاہیے۔

انکوائری کمیشن میں ایک سٹے باز بھی آیا تھا، نام تھا سلیم پرویز۔ جس نے بتایا کہ آسٹریلیا کے خلاف ایک فائنل ہارنے کے لیے انھوں نے سلیم ملک اور مشتاق احمد کو ایک لاکھ ڈالرز دیے تھے۔ ان کے بقول مانگے تو زیادہ پیسے گئے تھے، لیکن بات ایک لاکھ ڈالرز پر بن گئی۔ اور آپ بالکل ٹھیک سمجھے، پاکستان یہ میچ ہار گیا تھا، 205 آل آؤٹ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان منڈیلا کپ کے فائنل اور ورلڈ کپ 96 کا کوارٹر فائنل بھی میچز جان بوجھ کر ہارا۔

میدان گرم ہو گیا

ابتدائی تحقیقات اور کئی لوگوں سے بات کے بعد اب میدان گرم ہو چکا تھا۔ اور یہی موقع تھا کہ کھلاڑیوں کو بھی بلایا جائے۔ اور سب سے پہلے کون پیش ہوا؟ جی ہاں! سلیم ملک۔ آپ کو پتہ ہوگا کہ آسٹریلیا کے دو کھلاڑیوں مارک واہ اور شین وارن نے بھی سلیم ملک پر الزام لگایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 1994 میں وہ پاکستان ٹؤر پر تھے، جب کراچی ٹیسٹ تھرو کرنے کے لیے سلیم ملک نے انھیں پیسے آفر کیے تھے۔ سلیم ملک سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا شین وارن نے تو اس لیے الزام لگایا کیونکہ میں اس سے آؤٹ نہیں ہوتا تھا۔

یہ تو چلیں سلیم ملک کی بات تھی، اعجاز احمد کی تو سنیں۔ وہ تو ان سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئ۔ کہنے لگے فکسنگ؟ یہ کیا ہوتی ہے؟ میں نے تو کبھی میچ فکسنگ اور سٹے بازی کے بارے میں کچھ نہیں سنا!

پھر جو کھلاڑی آئے، انھوں نے کھل کر بات کی، جیسے عاقب جاوید۔ انھوں نے جو بھی الزامات لگائے، ان کا ٹارگٹ صرف دو لوگ تھے: سلیم ملک اور وسیم اکرم۔ لیکن ثبوت؟ ثبوت اُن کے پاس بھی کوئی نہیں تھا!

پھر آتا ہے پہلا whistleblower، باسط علی۔ انھوں نے کہا کہ سلیم ملک اور دوسرے کھلاڑیوں کی وجہ سے ہی مجھے ریٹائرمنٹ لینی پڑی۔ ایک اور بڑے ملزم عطا الرحمٰن بھی، آئے جنھوں نے باربار بیان بدلا۔ پہلے کہا کرائسٹ چرچ ون ڈے میں خراب بالنگ پر وسیم اکرم نے انھیں ایک لاکھ روپے دیے لیکن جب وسیم اکرم نے اعتراض کیا تو پلٹ گئے اور کہا وسیم اکرم پر الزام بے بنیاد ہیں۔ وسیم اکرم کا تو کچھ بگڑا ہو یا نہ بگڑا ہو، عطا الرحمٰن نے اپنا کیس بہت خراب کیا۔ وقار یونس آئے تو سب الزامات سے انکاری ہو گئے، کہا کہ نہ کبھی کسی سے رقم لی، نہ گاڑی۔ اصل میں عاقب نے الزام لگایا تھا کہ ایک سٹے باز نے وقار یونس کو پجارو دی تھی۔

پاکستان کرکٹ کی بھیانک ترین یادوں میں سے ایک ہے ورلڈ کپ 96ء کا کوارٹر فائنل۔ پاکستان اور انڈیا history میں پہلی بار کسی ورلڈکپ ناک آؤٹ میچ میں آمنے سامنے تھے۔ پاکستان کی ٹیم بہت مضبوط تھی، کھیلی بھی اچھا لیکن ٹارگٹ chase کرتے ہوئے اچانک وکٹیں گرنا شروع ہو گئیں اور گرتی چلی گئیں۔ ‏288 رنز چیز کرتے ہوئے صرف 15 اوورز میں 113 رنز تھے اور ایک ہی آؤٹ تھا۔ لیکن پاکستان پھر بھی ہار گیا

اس میچ میں پاکستان کے کپتان تھے عامر سہیل جو وسیم اکرم کی جگہ اچانک کپتان بنائے گئے۔ عامر سہیل نے کمیشن کو بتایا کہ انھیں ٹاس سے پانچ منٹ پہلے پتہ چلا کہ آج وہ کیپٹن ہیں اور وسیم اکرم نہیں کھیل رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم ایک دن پہلے تو مکمل فٹ تھے، لیکن پھر اچانک پتہ چلا کہ وہ زخمی ہیں۔

یہاں دوسرا whistleblower انٹر ہوتا ہے، جس نے حالات بدل دیے، جذبات بدل دیے! یہ تھے وکٹ کیپر راشد لطیف۔ انھوں نے بتایا کہ 94 کے نیوزی لینڈ ٹؤر کا آخری ون ڈے تھا۔ پاکستان سیریز کے پہلے تینوں ون ڈے میچز جیت گیا تھا، سیریز جیب میں تھی۔ چوتھا ون ڈے ٹائی ہوا اور آخری مقابلہ ہوا کرائسٹ چرچ میں۔ راشد لطیف کا کہنا تھا کہ اس میچ سے پہلے سلیم ملک نے انھیں 10 لاکھ روپے آفر کیے۔ انھوں نے یہ رقم تو نہیں لی لیکن پاکستان پھر بھی میچ ہار گیا اور بقول ان کے یہ میچ جان بوجھ کر ہارا گیا تھا۔ راشد لطیف نے اس میچ میں ہار کی ذمہ داری سلیم ملک اور وسیم اکرم پر ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ میچ میں جب وقار یونس کی بال پر میں نے برائن ینگ کا کیچ پکڑا تو سلیم ملک نے مجھے ڈانٹا اور کہا ہمیں یہ میچ ہارنا ہے، ہر حال میں۔

کرائسٹ چرچ میں ہوا کیا تھا؟

جب ایک میچ کا بہت زیادہ ذکر آیا تو کمیشن نے اس میچ کی وڈیو منگوا لی۔ دیکھا تو پتہ چلا کہ پاکستانی بالرز نے کئی وائیڈز کروائی تھیں، لگ رہا تھا جان بوجھ کر ایسا کیا جا رہا ہے۔ دو وائیڈز تو اتنی بڑی تھیں کہ وکٹ کیپر راشد لطیف بھی نہیں پکڑ سکے۔ پھر نو بالز بھی ہوئیں، یوں مفت میں کئی رنز دیے۔ بیٹنگ بھی عجیب ہی کی، 50 اوورز میں صرف 145 رنز بنائے، وہ بھی بغیر آل آؤٹ ہوئے۔ سعید انور دو، عامر سہیل ایک، انضمام الحق چار، آصف مجتبیٰ تین، کپتان سلیم ملک 15، یہ تھا ٹاپ آرڈر کا حال۔ پھر باسط علی نے 57 اور اکرم رضا نے 23 رنز بنائے۔ تو اتنے چھوٹے اسکور کو ڈیفنڈ کرتے ہوئے پاکستانی بالرز نے 14 وائیڈز دیں اور تین نو بالز بھی، یعنی 25 رنز تو صرف ایکسٹراز کے دیے۔

خیر، راشد لطیف وہ پہلے آدمی تھے جنھوں نے ثبوت بھی پیش کیے۔ انھوں نے سلیم ملک کو سٹے بازوں سے ملنے والے چیکس کی کاپیاں بھی دکھائیں۔ اور ساتھ ہی عطا الرحمٰن اور سعید انور کی گفتگو کی آڈیو ٹیپس بھی کمیشن کے سامنے پیش کیں۔ اس کے بعد آئے جاوید میانداد اور راشد لطیف کی گرم کی گئی زمین کو اور دہکا دیا۔

جاوید میانداد کا چھکا

جاوید میانداد نے کہا کہ آسٹریلیا کے کھلاڑی بالکل سچ بول رہے ہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ 99 میں شارجہ سے آنے کے بعد استعفا کیوں دیا؟ تو انھوں نے کہا کہ اس ٹورنامنٹ میں انگلینڈ کے خلاف میچ کے بعد مجھے ایک کال آئی تھی۔ یہ کال ایک trusted آدمی کی تھی، جس نے بتایا کہ یہ میچ فکس تھا۔

انھوں نے شاہد آفریدی، معین خان، اظہر محمود، سلیم ملک اور انضمام الحق کے نام لیے، جنھوں نے میچ فکس کرنے کے لیے پیسے لیے یہاں ایک مزے کا سین ہوا، جاوید میانداد نے تو فون کال کرنے والے بندے کا نام نہیں لیا۔ ہاں اتنا ضرور بتایا کہ انھوں نے اس آدمی کی بات وسیم اکرم سے بھی کروائی تھی۔ جب کمیشن نے وسیم اکرم سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ فون کرنے والا داؤد ابراہیم تھا، تو پاکستان اس میچ میں 40 پر انگلینڈ کے پانچ آؤٹ کرتا ہے، لیکن پھر بھی وہ 206 رنز بنا جاتا ہے اور چیز کرتے ہوئے پاکستان صرف 135 رنز پر ہی ڈھیر ہو جاتا ہے۔ یعنی شک تھا تو بالکل ٹھیک تھا۔

اس کے بعد کمیشن نے پانچ کھلاڑیوں کو بلایا، شاہد آفریدی، معین خان، اظہر محمود، سلیم ملک اور انضمام الحق۔ سب نے کیا کہا؟ جی ہاں! ہم نے فکسنگ نہیں کی۔

کھل کر بات ہونے لگی

راشد لطیف کے بعد جس کھلاڑی نے سب سے زیادہ پاکستان کرکٹ میں فکسنگ پر کھل کر بات کی، وہ تھے عامر سہیل اپنی دوبارہ پیشی پر انھوں نے بتایا کہ سنگر ورلڈ سیریز کے میچ میں 12th man زاہد فضل ایک میسج لے کر میدان میں آئے اور کچھ ہی دیر بعد سعید انور ریٹائرڈ ہرٹ ہو کر چلے گئے۔ سمجھ نہیں آیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟

پھر جب ساؤتھ افریقہ کے ٹؤر پر سعید انور سے رنز نہیں بن رہے تھے تو عامر سہیل نے ان سے پوچھا جس پر سعید نے کہا یہ میرے گناہوں کی سزا ہے، جو میں نے میچ فکسنگ کی صورت میں کیے تھے۔ اس پر عامر سہیل نے انھیں توبہ کرنے کو کہا۔

آسٹریلیشیا کپ 94 کے فائنل پر عامر سہیل نے بتایا کہ میچ سے پہلے ایک انڈین bookie نے انھیں کال کی۔ اس نے کہا کہ اگر میں 10 رنز سے پہلے آؤٹ ہو جاؤں اور سعید انور کو رن آؤٹ بھی کرواؤں تو مجھے 25 لاکھ روپے ملیں گے۔ یہ وہی میچ تھا جس کے فکس ہونے کی خبریں کوچ انتخاب عالم تک پہنچ گئی تھیں اور انھوں نے پوری ٹیم سے قرآن مجید پر حلف لیا تھا۔

عامر سہیل کے مطابق زیادہ تر فکسنگ شارجہ میں ہوتی تھی۔ یہاں پر کاؤنٹر narrative بھی آیا، مثلاً وسیم اکرم کے وکیل نے کہا کہ جو کھلاڑی بھی فکسنگ کا الزام لگا رہے ہیں، سب ایک ہی ٹیم کے ہیں۔ جی ہاں! راشد لطیف، عاقب جاوید، عامر سہیل، رمیز راجہ اور عطا الرحمٰن سب کا تعلق الائیڈ بینک سے تھا۔ پھر باتیں تو بہت کی گئیں، لیکن ثبوت کسی کے خلاف نہیں تھا۔ صرف سلیم ملک ایسے تھے جن کے خلاف ثبوت تھے بلکہ ان کے خلاف تو آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی گواہیاں بھی تھیں۔

کرکٹ میں 'نئے' فکس میچز

اب تک جو تحقیقات ہوئی تھیں، اس میں بدنام میچز کے علاوہ بھی کچھ ایسے میچز سامنے آئے جن پر شک تھا۔ ایک تو سنگر ورلڈ سیریز کا پاکستان آسٹریلیا ون ڈے تھا۔ اس سیریز میں میزبان سری لنکا کے علاوہ انڈیا اور آسٹریلیا بھی تھے۔ سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ اور ون ڈے میچز کے بعد 15 دن کا وقفہ تھا، پوری ٹیم سری لنکا میں تھی لیکن سلیم ملک پاکستان واپس آئے۔ انھوں نے کہا کہ میرے بیٹے کی طبیعت خراب تھی، ٹیم مینجمنٹ کے مطابق وہ ایک شادی میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ لیکن راشد لطیف کا الزام تھا کہ سلیم ملک bookies کے ساتھ سیٹنگ کرنے کے لیے آئے تھے۔

یہی سیریز تھی جس کے بارے میں bookie سلیم پرویز نے بتایا تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف ہارنے کے لیے انھوں نے ایک لاکھ ڈالرز دیے تھے اور وہ خود بھی سری لنکا آئے تھے۔ میچ میں پاکستان صرف 180 چیز کرتے ہوئے 151 رنز پر آل آؤٹ ہو گیا تھا۔ یہی وہ مقابلہ تھا جس میں سعید انور 43 پر ریٹائرڈ ہرٹ ہوئے اور بعد میں آئے تو صرف تین رنز اور بنائے۔ اس میچ کے بعد انتخاب عالم نے سلیم ملک، وقار یونس اور باسط علی سے بات کی۔ سلیم ملک اور وقار یونس نے تو انکار کر دیا کہ انھوں نے کچھ فکس نہیں کیا۔ لیکن انتخاب عالم کے مطابق باسط علی نے مان لیا تھا۔ اس میچ میں باسط علی نے 13 گیندوں پر ایک رن بھی نہیں بنایا تھا۔

اور ایک اور مزے کی بات! یہی وہ میچ تھا جس پر آسٹریلیا میں بھی investigation ہوئی اور مارک واہ اور شین وارن نے مانا کہ انھوں نے پچ کی معلومات دے کر ایک انڈین bookie سے پیسے لیے تھے۔

پھر منڈیلا ٹرافی پر بھی انگلی اٹھی۔ یہ ٹورنامنٹ پاکستان، ساؤتھ افریقہ، نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان ہوا۔ پاکستان نے پہلے راؤنڈ میں چھ میں سے پانچ میچز جیتے، فائنل میں پہنچا۔ لیکن بیسٹ آف تھری کے پہلے دونوں میچز بری طرح ہارا۔ ان میچز کے بارے میں راشد لطیف کی رائے تھی کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنی چاہیے۔ لیکن سلیم ملک نے دونوں بار ٹاس جیتا اور ٹارگٹ chase کرنے کا فیصلہ کیا۔ راشد لطیف کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی اُن کی برداشت کی حد ختم ہو گئی۔ وہ پاکستان آئے، ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور وجہ بتائی کہ پاکستان کے کھلاڑی میچ فکسنگ کرتے ہیں۔

اور فیصلہ ہو گیا!

یعنی راشد لطیف نے جو ثبوت پیش کیے، وہ بھی سلیم ملک کے خلاف تھے۔ عاقب جاوید نے بھی جن دو کھلاڑیوں کا نام لیا، ان میں سے ایک سلیم ملک تھے۔ عمران خان نے بھی بتایا کہ انھیں پہلی بار ایک ڈومیسٹک کرکٹ میں فکسنگ کا پتہ چلا، یہ کام کر رہی تھی حبیب بینک کی ٹیم، جس کے کپتان تھے سلیم ملک۔ یعنی سب کی زبان پر ایک ہی نام تھا، سلیم ملک کا۔ اور پھر گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا ملا آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے بیان سے۔

سلیم ملک پر لائف بین لگ گیا، جس کے مطابق وہ کرکٹ نہیں کھیل سکتے اور ساتھ ہی دس لاکھ جرمانہ بھی لگا۔ ان کے علاوہ عطا الرحمٰن پر بھی تاحیات پابندی لگی، انھیں چار لاکھ جرمانہ پڑا۔ پھر کمیشن نے مشتاق احمد پر تین لاکھ کا جرمانہ لگایا اور کہا کہ لیگ اسپن بالر پر نظر رکھی جائے، انھیں کوئی عہدہ نہ دیا جائے۔ نہ انھیں کپتان بنایا جائے اور نہ ہی بورڈ میں سلیکشن کی کوئی ذمہ داری دی جائے۔

پھر وسیم اکرم کی باری آئی۔ اُن پر شک تھا 94 کے کرائسٹ چرچ ون ڈے کی وجہ سے لیکن اس پر عطا الرحمٰن نے اپنا بیان بدل دیا اور ورلڈ کپ 96 کوارٹر فائنل پر ٹیم فزیو ڈین کیزل نے کہہ دیا کہ وسیم اکرم کو معمولی انجری تھی۔ بس یہ دو گواہیاں وسیم اکرم کے کام آ گئیں لیکن کمیشن نے پھر بھی کہا کہ اسے وسیم اکرم پر شک ہے۔ ان پر تین لاکھ روپے جرمانہ لگا اور ساتھ ہی کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ وقار یونس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا، بس الزامات ہی رہے لیکن کمیشن نے کہا کہ وقار یونس کے خلاف investigations کی جائیں اور ہاں! ان پر ایک لاکھ جرمانہ بھی لگا۔

انضمام الحق اور اکرم رضا پر تعاون نہ کرنے پر ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ملی۔ باسط علی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ کہا گیا کہ وہ اتنے عزت دار تو تھے کہ بولے اور ریٹائرمنٹ بھی لی۔

سعید انور پر کچھ شبہ ظاہر کیا گیا اور ان پر بھی ایک لاکھ جرمانہ لگا۔ ہاں! اعجاز احمد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی زاہد فضل پر۔ کمیشن نے راشد لطیف کے کردار کو بہت اہم قرار دیا، اگر وہ یہ سب نہ کرتے تو شاید بات یہاں تک کبھی نہ پہنچتی۔ ثبوت بھی انھوں نے ہی پیش کیے جو آخر میں بہت اہم ثابت ہوئے۔

آگے کیا کرنا ہے؟

کمیشن نے آخر میں میچ فکسنگ کو روکنے کے لیے کئی recommendations دیں۔ کہا گیا نیا code of conduct بنائیں، کھلاڑیوں کے assets ہر سال چیک کیے جائیں۔ پھر میچز کے دوران موبائل فون کا استعمال بند کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ کھلاڑیوں کی تربیت کرنے کی بات بھی کی گئی اور شارجہ کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ ایسی جگہوں پر نہ کھیلا جائے، جو بدنام ہوں۔ اس کے ساتھ ہی شارجہ ماضی کی داستان بن گیا، پاکستان اور انڈیا نے کھیلنا بند کیا اور یہ تاریخی میدان ویران ہو گیا۔

ویسے کمیشن نے پے اسٹرکچر میں تبدیلی پر بھی زور دیا تھا۔ کہا گیا کہ جیسی پرفارمنس ہو، اتنی پے ملنی چاہیے۔ صاف صاف کہا گیا کہ اس وقت بورڈ کا پے اسٹرکچر اتنا خراب ہے کہ اگر سلیم ملک کو کھیلنے دیا جائے تو وہ شعیب اختر سے زیادہ تنخواہ لیں گے۔

پھر یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی کھلاڑی دوسرے ملک کے کھلاڑیوں سے بہت کم کماتے ہیں، اس لیے ان کی تنخواہیں بھی بڑھائی جائیں اور جیتنے پر وننگ بونس بھی ملے۔

کرکٹ میں فکسنگ رک گئی کیا؟

ان میں سے کتنی recommendations پر عمل ہوا؟ یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ اتنے بڑے ہنگامے کے بعد بھی پاکستان کرکٹ میں کچھ نہیں بدلا۔

‏2010 میں پاکستان کرکٹ میں بہت بڑا اسکینڈل آیا، ’’اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل‘‘ جس نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ ٹیم کے کپتان سلمان بٹ اور دو بالرز محمد آصف اور محمد عامر پر فکسنگ کا الزام ثابت ہو جاتا ہے۔ ان پر پانچ، پانچ کی پابندیاں لگتی ہیں۔ اس واقعے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلتا، کئی کھلاڑی بلکہ پاکستان سپر لیگ میں بھی فکسنگ کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ تو جب تک نظام کو بہتر نہیں بنایا جائے گا، یہ سب ہوتا رہے گا۔

شیئر

جواب لکھیں