ایسا لگتا تھا دنیا اِس 17 سالہ نوجوان کے قدموں میں ہوگی۔ ماضی کے عظیم بالرز اس کی صلاحیت دیکھ کر حیران تھے اور حال کے بہترین بیٹسمین پریشان۔ لیکن پھر ایسا غیر معمولی واقعہ پیش آیا، جس نے نہ صرف اس بالر بلکہ پاکستان کرکٹ کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل، جس نے محمد عامر کے پر کاٹ دیے۔ وہی محمد عامر جو 1992 میں آج ہی کے دن یعنی 13 اپریل کو پیدا ہوئے تھے۔ یعنی پاکستان کے ورلڈ کپ 1992 جیتنے کے محض چند دنوں بعد۔

محمد عامر نے 2009 میں انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھا اور نظر رکھنے والے وہیں سمجھ گئے تھے کہ یہ لڑکا بہت آگے جائے گا۔ عامر کا پہلا بڑا ٹورنامنٹ تھا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2009، جس میں ہم نے دیکھا عامر کی زندگی کا پہلا بڑا 'مومنٹ'۔ فائنل میں انھوں نے سری لنکا کے اِن فارم بیٹسمین تلکارتنے دلشان کو جس طرح پہلے اوور میں آؤٹ کیا، وہ آج بھی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تاریخ کی بہترین یادوں میں سے ایک ہے۔ یوں پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ چیمپیئن بننے میں عامر کا بھی بہت اہم کردار رہا۔

پھر عامر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور انگلینڈ میں سب کو متاثر کرنے کے بعد وہ 2010 میں پہنچے انگلینڈ۔ جہاں انھوں نے اپنی بالنگ سے ایلسٹر کک، کیون پیٹرسن اور ایون مورگن جیسے پلیئرز کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ صرف 4 ٹیسٹ میچز میں انھوں نے سب سے زیادہ 30 وکٹیں حاصل کیں اور پھر وہ دن آ گیا جو آج بھی بھلائے نہیں بھولتا۔

انگلینڈ کے ایک اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' نے خبر لگائی کہ محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر نو بالز کروائیں تھیں اور اس کے بدلے میں ایک سٹے باز سے بھاری رقم حاصل کیں۔ اس حرکت میں ٹیم کے کپتان سلمان بٹ بھی شامل تھے۔

آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب یہ خبر آئی ہوگی تو کیا ہوا ہوگا؟ مختصر یہ کہ کچھ ہی عرصے میں عامر، آصف اور سلمان بٹ تینوں پر پانچ، پانچ سال کی پابندی لگا دی گئی۔ آصف اور سلمان کا تو سمجھیں کیریئر ہی ختم ہو گیا لیکن عامر نے تو ابھی اسٹارٹ ہی لیا تھا، وہ اپنے کیریئر کے آغاز ہی میں اتنے بڑے اسکینڈل میں پھنسے جس سے نکلنا تقریباً ناممکن تھا۔ لیکن ابتدائی غلطی کے بعد عامر نے خود کو سنبھال لیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور برطانیہ کی عدالت سے تعاون کیا۔ سزا تو ختم یا کم نہیں ہوئی لیکن واپسی کا دروازہ ضرور کھل گیا۔

محمد عامر کا کرکٹ کیریئر

میچزوکٹیںبہترین بالنگایوریج‏5 وکٹیں
ٹیسٹ361197-6430.47‏4 مرتبہ
ون ڈے انٹرنیشنل61815-3029.62‏1 مرتبہ
ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل50594-1321.40‏0 مرتبہ
فرسٹ کلاس6926610-7222.63‏4 مرتبہ
لسٹ اے841235-3026.65‏2 مرتبہ
ٹی ٹوئنٹی2492876-1722.28‏2 مرتبہ

پانچ سال کی پابندی ختم ہونے کے بعد محمد عامر کو ٹیم میں واپس لانے کے لیے کافی کوششیں کی گئیں۔ ظاہر سی بات ہے سب اس کے حامی نہیں تھے۔ سابق کھلاڑیوں اور کرکٹ شائقین کا ایک بڑا حلقہ اب بھی عامر کے خلاف تھا بلکہ ٹیم میں بھی کئی کھلاڑی ایسے تھے جنھوں نے عامر کو دوبارہ شامل کرنے کی مخالفت کی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور پھر انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ وہیں سے جڑ گیا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔

پاکستان سپر لیگ میں اور ساتھ ہی انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی عامر نے کئی یادگار پرفارمنسز دیں۔ پی ایس ایل کے پہلے ہی سیزن میں کراچی کنگز کی جانب سے روایتی حریف لاہور قلندرز کے خلاف یادگار ہیٹ ٹرک اور پھر ایشیا کپ 2016 میں انڈیا کے خلاف وہ مشہورِ زمانہ اسپیل، جس نے گویا اعلان کر دیا کہ عامر اب واپس آ چکا ہے۔

اسی سال پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف لارڈز کے میدان پر یادگار ٹیسٹ کامیابی حاصل کی، جس میں عامر نے آخری وکٹ حاصل کر کے میچ کا خاتمہ کیا یعنی جس میدان سے وہ 6 سال پہلے سر جھکا کر باہر آئے تھے، اس مرتبہ سر اٹھا کر نکلنے کا موقع ملا۔

‏2017 میں پاکستان کو چیمپیئنز کا چیمپیئن بنانے میں اگر کسی کھلاڑی کا بہت بڑا کردار تھا تو وہ محمد عامر ہی تھے۔ انھوں نے فائنل میں روہت شرما، وِراٹ کوہلی اور شیکھر دھاون کی وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان نے بھارت کو کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں وہ شکست دی جس کا وہ دہائیوں سے انتظار کر رہا تھا۔

عامر کے لیے سب اچھا تھا، لیکن انھوں نے ایک غلط فیصلہ کر دیا۔ جب انھیں سر جھکا کر چلنے کی ضرورت تھی، انھوں نے اچانک ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا اور یہ بات پاکستان کرکٹ بورڈ کی نئی انتظامیہ کو اچھی نہیں لگی، جو ویسے ہی محمد عامر کے خلاف تھی۔ نتیجتاً ان کی وائٹ بال ٹیموں میں جگہ بھی چلی گئی اور بالآخر سینٹرل کانٹریکٹ بھی ختم کر دیا گیا۔

لیکن اب پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی 'پرانا پاکستان' واپس آ چکا ہے۔ نجم سیٹھی، جنھوں نے عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی میں اہم کردار ادا کیا تھا، ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ کیا عامر دوبارہ ٹیم میں واپس آ سکتے ہیں؟ کیا گراؤنڈ سے باہر محمد عامر کی جانب سے کی گئی تمام باتوں کو بھلا کر بابر الیون انھیں قبول کرنے کو تیار ہوگی؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2023 عامر کے انٹرنیشنل کیریئر کے لیے بہت ہی اہم سال ہوگا۔

شیئر

جواب لکھیں