‏16 دسمبر 1971، ایک ایسا دن جو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ وہ دن جب قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا۔ کس نے توڑا؟ کوئی کہتا ہے شیخ مجیب الرحمٰن نے، کوئی الزام لگاتا ہے ذوالفقار علی بھٹو پر تو کسی کا زور فوجی آمر جنرل یحییٰ خان پر چلتا ہے۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟

آج پاکستان ٹوٹے 52 سال گزر چکے ہیں، اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ آخر ملک کس نے توڑا کیوں؟ کیونکہ اس سوال کا جواب اتنا سیدھا نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب نے اپنا حصہ ڈالا، اپنا کردار ادا کیا، یہاں تک کہ انھوں نے بھی، جن کا کوئی نام نہیں لیتا، مثلاً ایوب خان!

پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کی تمام تر بنیادیں ایوب خان کے دور میں ہی رکھ دی گئی تھیں۔ اُن کے فیصلے، اُن کا رویہ، اُن کا انداز، یہ سب بنگلہ دیش بننے کی بنیاد بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں ایوب خان کا دورصنعتی انقلاب کا دور تھا، بالکل تھا۔ لیکن یہ ساری ترقی ہو کہاں رہی تھی؟ صرف اور صرف مغربی پاکستان میں۔ اور اس بات کی گواہی خود اعداد و شمار دیتے ہیں۔

1949-50 میں پاکستان کی فی کس آمدنی تھی 311 روپے اور دونوں بازوؤں کو الگ الگ دیکھیں تو: مغربی پاکستان میں یہ 338 تھی اور مشرقی پاکستان میں 287 روپے یعنی 51 روپے کا فرق تھا۔ 1959-60 میں یعنی دس سال بعد بھی یہ فرق موجود رہا، بلکہ اور بڑھ گیا۔ اس عرصے میں تو مشرقی پاکستان کی فی کس آمدنی 287 سے کم ہو کر 278 روپے رہ گئی۔ اور پھر آیا سب سے بھیانک دور۔ ‏1969-70 تک یہ فرق بڑھتے بڑھتے 206 روپے تک پہنچ گیا۔ ‏1961 سے 1970 کے دوران، دس سالوں میں پاکستان کی مجموعی فی کس آمدنی 424 روپے ہوئی۔ مغربی پاکستان میں 537 اور مشرقی پاکستان میں 331 روپے۔

جی ہاں! ان دس سالوں میں، ایوب خان کے ’’سنہرے دور‘‘ میں بھی مشرقی پاکستان کی آمدنی میں صرف 53 روپے کا اضافہ ہوا جبکہ مغربی پاکستان میں یہ اضافہ 171 روپے تھا یعنی تین گُنا سے بھی زیادہ۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کا تقریباً 60 فیصد تھی، محتاط اندازہ بھی رکھیں تو قریب قریب 56 فیصد تو بنتا ہی ہے۔

لیکن 1950-51 تک اسے وفاقی حکومت کے اخراجات میں سے صرف 20 فیصد ملتا تھا۔ 1965-70 کے پنج سالہ منصوبے میں بھی، جس منصوبے کے گُن آج تک گائے جاتے ہیں، اس میں بھی مشرقی پاکستان کا حصہ صرف 36 فیصد تھا۔ تبھی تو مجیب الرحمٰن کہتے تھے

مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے

بات سخت تھی لیکن اتنی غلط نہیں تھی۔ ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا، جس کا نتیجہ بہرحال، یہی نکلنا تھا۔ ایوب خان کے ایک سیکریٹری اطلاعات تھے الطاف گوہر۔ انھوں نے ایک کتاب لکھی ’’ایوب خان: فوجی راج کے پہلے دس سال‘‘۔ اس میں انھوں نے ایک عجیب واقعہ لکھا کہ ایک بار وہ ایوب خان سے گفتگو کر رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کا ذکر آیا تو ایوب خان ناراض ہو گئے اور کہنے لگے جب بھی بنگالیوں کا ذکر آتا ہے، تم جذباتی ہو جاتے ہو۔ پھر کہا کہ میں نے انھیں دوسرا دارالحکومت اس لیے دیا ہے کہ ایک دن انھیں اس کی ضرورت پڑے گی، وہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں گے۔ یعنی بنگلہ دیش کا بیج مغربی پاکستان میں بویا گیا تھا، بلکہ اُس کے حکمرانوں نے بویا۔

اگرتلا سازش بھی ایوب خان کے دور میں ہی ہوئی۔ یہ چھ جنوری 1968ء تھا، جب کئی لوگ گرفتار ہوتے ہیں، ان پر الزام ہے کہ انھوں نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان توڑنے کی سازش کی ہے۔ مقدمے میں عوامی لیگ کے سربراہ مجیب الرحمٰن کا نام بھی شامل ہے۔ سب کو گرفتار کر کے قید کر دیا جاتا ہے، کچھ تو جیل ہی میں مار بھی دیے جاتے ہیں۔ اس پر مشرقی پاکستان میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے، عوام کے جذبات عروج پر ہیں۔ یہاں تک کہ 1969 میں یہ مقدمہ واپس لے کر مجیب الرحمٰن کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ مجیب پہلے سے بھی زیادہ مقبول ہو گئے، اور خطرناک بھی۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سقوط ڈھاکا کی بنیادیں اصل میں ایوب خان دور میں رکھ دی گئی تھیں۔ اس پر بنگلہ دیش کی تعمیر ہوئی اگلے دور میں، یعنی یحییٰ خان کے دور میں۔

پاکستان کے سیاہ و سفید کے اگلے مالک تھے یحییٰ خان جو پاکستان کے صدر بھی تھے، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی، وزیر دفاع بھی اور وزیر خارجہ بھی۔ انھوں نے ملک میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ پھر دسمبر 1970 میں وہ الیکشن ہوئے، جس نے پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ سارے اندازے غلط ثابت ہوئے، مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں کلین سوئپ کر دیا۔ انھیں اتنی بڑی اکثریت مل گئی کہ انھیں وزیر اعظم بنانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا لیکن یحییٰ خان نے یہ راستہ نہیں چنا۔ انھوں نے مغربی پاکستان میں زیادہ سیٹیں جیتنے والے ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور 25 مارچ 1971 کو مشرقی پاکستان میں ایک آپریشن کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک ایسا قدم جس نے دونوں ملکوں کے درمیان فاصلے اور بڑھا دیے۔

ملک 'پوائنٹ آف نو ریٹرن' پر پہنچ گیا یہاں تک کہ 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں نے ڈھاکا میں ہتھیار ڈال دیے۔ قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا۔

دنیا کی تاریخ ہے کہ اقلیت جدوجہد کے ذریعے اکثریت سے الگ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوا، یہاں 16 دسمبر 1971 کو اکثریت نے اقلیت سے جان چھڑائی اور بنگلہ دیش بنا لیا۔ پاکستانی قوم کو بہت گہرا گھاؤ لگا تھا۔ زخمی قوم کو قربانی کے ایک بکرے کی ضرورت تھی یحییٰ خان سے اچھا کون ہو سکتا تھا؟ ایک رنگین مزاج آمر سے بہتر کون ہو سکتا تھا؟ یحییٰ ہمیشہ کے لیے ولن بن گئے۔ بننے بھی چاہیے تھے، آخر اپنی ہی قوم کے خلاف ظالمانہ آپریشن کرنے کا حکم بھی تو انھی کا تھا۔

ہاں! کچھ حصہ ذوالفقار علی بھٹو کا بھی تھا۔ ‏1970 کے الیکشن کے بعد بھٹو کا بیانیہ وہی تھا جو اسٹیبلشمنٹ کا تھا، وہ اُن کے کھیل کے اہم کھلاڑی تھے۔ تین مارچ 1971 کو جب آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ڈھاکا میں ہونا تھا، تب یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے اس کی مخالفت کی۔ اُن کا مشہور زمانہ جملہ تھا ’’جو ڈھاکا جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے‘‘۔ ‏28 فروری 1971 کی یہی تقریر تھی، جس پر صحافی عباس اطہر نے وہ سرخی جمائی تھی، جو آج بھی بھٹو سے چپکی ہوئی ہے، ’’اِدھر ہم، اُدھر تم‘‘۔

پاکستان توڑنے والے تمام کرداروں میں صرف مجیب ہی ایسے ہیں، جنھوں نے اپنا کردار تسلیم کیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد بی بی سی کو انٹرویو میں مجیب نے کہا

میری زندگی میں خوشی کا سب سے بڑا دن تھا، جب بنگلہ دیش بنا

جب سوال کیا گیا کہ آپ بنگلہ دیش بنانے کا کب سے سوچ رہے تھے؟ انھوں نے کہا ’’بہت سالوں سے‘‘ لیکن مغربی پاکستان میں سب خاموش رہے۔ حکومت پاکستان نے اتنے بڑے سانحے کی تحقیقات کا آغاز کیا، چیف جسٹس حمود الرحمٰن کی قیادت میں ایک کمیشن بنایا۔ تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات لیے گئے۔ پھر پہلی رپورٹ 1972 میں اور دوسری 1974 میں پیش کی گئی لیکن اس رپورٹ کو ایسے سنبھال کر رکھا گیا، جیسے ہم نے اپنے ایٹمی اثاثے محفوظ کر رکھے ہیں۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ آج تک منظرِ عام پر نہیں آئی، کم از کم سرکاری سطح پر تو نہیں لائی گئی

پاکستان ٹوٹنے میں صرف اِن شخصیات کا ہی نہیں، اور بھی کئی factors کا ہاتھ تھا۔

پہلی وجہ، مغربی پاکستان کی نوکر شاہی اور عسکری قیادت کو خطرہ تھا کہ اگر سیاسی نظام کو جمہوری انداز میں چلایا گیا تو بنگالی ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے۔ وہ آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ تھے، اس لیے جمہوریت آپشن ہی نہیں تھا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو پنجاب کے غلام محمد نے برطرف کیا۔ اور ایسی بدعت شروع ہوئی کہ اس کا خمیازہ بعد میں آنے والی کئی جمہوری حکومتوں نے بھگتا۔

دوسری وجہ، پاکستان کے یہ دونوں بازوؤں کے درمیان ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ انھیں جوڑنے والا رشتہ صرف ایک تھا: اسلام۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد حکمرانوں نے اسلام میں کوئی دلچسپی ہی نہیں دکھائی۔ مشرقی پاکستان میں سوشلسٹ اور سیکولر نظریات پھلتے پھولتے رہے اور بالآخر نتیجہ ملک ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔ پاکستان بننے پر وعدہ کیا گیا تھا کہ ایک انصاف پر مبنی معاشرہ بنایا جائے گا۔ اہلیت کو اولیت دی جائے گی۔ لیکن اس ملک میں ظلم و جبر قانون بن گیا۔ اقتدار نا اہلوں کے ہاتھوں کھلونا بن گیا۔ ایسا ملک کہاں چلتا؟

ایک اہم وجہ پاکستان کی قیادت کا بلا وجہ جذباتی پن بھی تھا۔ بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ نہ دینا زیادتی تھی اور ’’سرکاری زبان صرف اردو ہوگی‘‘ ایک جذباتی نعرہ تھا۔ اردو تو آج تک سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ ہاں! اس جذباتی نعرے سے بنگلہ دیش ضرور بن گیا۔

ایک اور اہم وجہ تھی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد جانا۔ کراچی ہر قوم کا شہر تھا، یہ اردو اور سندھی بولنے والوں کا شہر بھی تھا تو بنگالی بولنے والوں کا بھی۔ لیکن نیا دارالحکومت راولپنڈی میں بنایا گیا، جی ایچ کیو کے دامن میں۔ سب پر واضح ہو گیا کہ اب جو حکومت چلے گی، وہ جی ایچ کیو کی گود میں بیٹھ کر چلے گی۔

پھر ایک کے بعد دوسرا بھیانک فیصلہ ہوتا گیا۔ جیسے 70 کے انتخابات کے بعد عوامی لیگ کو اقتدار نہیں دیا گیا۔ اور یہ سب فوج اور مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے مل کر کیا۔ مجیب الرحمٰن نے تو یہ تک کہا تھا کہ ’’چھ نکات بھی نافذ ہوں گے اور پاکستان بھی ایک رہے گا‘‘۔ جیت کے بعد مشرقی پاکستان کو قانونی اور آئینی حق ملنا چاہیے تھا، نہیں دیا گیا۔ الٹا اُن کے خلاف ایک ایسا آپریشن کیا گیا، جس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اتنی آسانی سے تو گھر نہیں ٹوٹتے، یہ تو ملک تھا۔

مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا، یہ کسی ایک بندے کے بس کی بات ہی نہیں تھی، ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ یہ پاکستان کی قیادت کی مجموعی غفلت، سازش اور بھیانک غلطیوں کا نتیجہ تھا۔

شیئر

جواب لکھیں