یکم جنوری1957۔ کراچی کے کینٹ اسٹیشن پر ایک ٹرین آکر رکتی ہے۔ پچیس چھبیس سال کا ایک دھان پان سا نوجوان اترتا ہے۔ ڈوبتے سورج کی لہو رنگ کرنیں اُس کے قدم چھو کر اُس کا استقبال کرتی ہیں۔ لیکن کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ نوجوان جلد ہی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اردو دنیا کے ادبی افق پر سورج بن کر جگمگائے گا۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ میرے، آپ کے، سب کے جانے پہچانے ’’جون ایلیا‘‘ تھے!

ہندوستان کا شہر امروہہ تقسیم سے پہلے بھی ایک چھوٹا سا قصبہ ہی تھا، مگر اس چھوٹے سے قصبے نے بڑے بڑے نام پیدا کیے۔ اتنے بڑے کہ اردو ادب میں امروہے کا نام آتے ہی نگاہیں ادب سے جھک جاتی ہیں۔ فلسفہ، شاعری، تاریخ، فلم وہ کون سا شعبہ ہے جس کے نامور افراد نے یہاں جنم نہیں لیا؟

اسی امروہے کے ایک نامور سید گھرانے میں 14 دسمبر 1931 کو ایک بچہ آنکھ کھولتا ہے۔ نام رکھا جاتا ہے سید حسین جون اصغر۔ ویسے تو پورا امروہہ ہی علم و ادب کا گہوارہ تھا مگر جون کے گھرانے کو اُن میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اور جون اپنے خاندان کے پہلے شاعر نہیں تھے بلکہ یہ سلسلہ تو نسلوں سے چلا آ رہا تھا۔ جون خود لکھتے ہیں:

شاعری، تاریخ دانی، علم و ادب کا سلسلہ ہمارے خاندان میں پشت ہا پشت سے چلا آرہا ہے۔ میرے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا کے چار بھائی تھے اور چاروں کے چاروں شاعر تھے۔ میرے دادا، پر دادا اور اُن کے دادا اور پر دادا بھی شاعر واقع ہوئے تھے۔

جون ایلیا کے تین بڑے بھائی تھے جنھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں بڑا نام پیدا کیا۔ سب سے بڑے بھائی رئیس امروہوی نے شاعری اور صحافت پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔ وہ روزنامہ جنگ کے لیے تقریباً پچاس برس تک روزانہ ایک تازہ قطعہ لکھتے رہے۔ اس کے علاوہ سیاسی، علمی، ادبی اور مذہبی کالم اور مضامین بھی لکھتے تھے۔ دوسرے بھائی سید محمد تقی مفکر، فلسفی اور ادیب تھے۔ وہ پہلے دلی میں شمع رسالے اور بعد میں پاکستان آکر جنگ کے مدیر رہے، مگر زیادہ شہرت ان کو فلسفے کی دنیا میں ملی۔ انھوں نے کارل مارکس کی مشہور کتاب ڈاس کیپیٹال کے علاوہ کئی فلسفیوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ تیسرے بھائی سید محمد عباس بھی علم و ادب سے شغف رکھتے تھے۔ اپنی فکر میں انقلابی اور اشتراکی نظریے سے متاثر تھے۔

امروہے میں بچوں کو عرفیت سے پکارنے کا رواج بہت زیادہ تھا، یہی وجہ ہے کہ اس علمی و ادبی گھرانے میں بھی بچوں کو ان کے عرفی ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ رئیس صاحب کی عرفیت ’’اچھّن‘‘، تقی صاحب کی ’’چھبّن‘‘، محمد عباس کی عرفیت ’’بچّن‘‘ اور سید حسین اصغر کی عرفیت ’’جون‘‘ تھی۔

خاندان کے بچوں نے ان پیار کے ناموں پر ایک شعر بھی بنا رکھا تھا جسے وہ لہک لہک کر پڑھتے تھے کہ

اچھّن، چھبّن، بچّن، جون
ان چاروں میں اچھا کون؟

عالم و فاضل والد اور علم و دانش کے دلدادہ بھائیوں کے سائے میں جون کی پرورش اور تربیت ہوتی ہے۔ بلکہ سید حسین اصغر کو جون ایلیا بنانے میں والد کے ساتھ ساتھ اِن بھائیوں کا بھی بڑا ہاتھ رہا۔ جون خود اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

میں نے اپنے بھائیوں سے جتنا سیکھا ہے، اس کا شاید ہی کسی کو اندازہ ہو۔

بھائیوں کے علاوہ جون اپنے چچا زاد بھائی کمال امروہوی سے بھی متاثر تھے۔ کمال امروہوی بھی شاعر، ادیب اور صحافی تھے مگر زیادہ شہرت انھیں فلمساز کے طور پر ملی۔ ان کی فلمیں پکار، محل اور پاکیزہ بالی وڈ کی کامیاب اور شاندار ترین فلموں میں شامل ہیں۔ جون اپنی چھوٹی بہن شاہ زنان نجفی سے بھی بہت محبت کرتے تھے اور اپنی شاعری سب سے پہلے انھیں سنایا کرتے تھے۔

تعلیم و تربیت

جون ایلیا نے ابتدائی تعلیم امروہہ کے مدرسوں میں حاصل کی۔ مدارس میں تعلیم کی وجہ سے ہی جون نے اردو کے ساتھ ساتھ عربی فارسی پر بھی گہری مہارت حاصل کر لی۔ انھوں نے مولوی عالم، فاضل عربی، فاضل فلسفہ، فاضل منطق کی اسناد حاصل کیں۔ الہ آباد بورڈ سے کامل فارسی کا امتحان پاس کیا اور پھر ایم اے اردو، ایم اے فلسفہ میں ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ بھی لکھ رہے تھے لیکن اپنی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے اسے مکمل نہ کر پائے۔ اتنی اعلیٰ تعلیم اور فلسفے و منطق پر عبور کے باوجود جون کہتے ہیں وہ بچپن میں تعلیم سے جی چراتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

میں انتہائی بد شوق قسم کا طالب علم رہا ہوں۔ عام طور پر تھرڈ ڈویژن میں پاس ہو پاتا تھا۔ میں ایک ابو جہل قسم کا لڑکا تھا اور اپنی جماعت کے شوقین اور محنتی لڑکوں کو ہمیشہ نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ مجھے کورس کی کتابوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا اس لیے میں کورس کی کتابوں کے بجائے دوسری کتابیں پڑھتا تھا اور دن رات پڑھتا تھا۔

شاعری اور عشق

شاعری اور عشق کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سو جون نے عشق اور شاعری ایک ساتھ شروع کیں، وہ بھی اُس عمر میں جب بچے کھلونوں سے کھیلا کرتے ہیں۔ جون کا پہلا شعر کچھ یوں ہے:

چاہ میں اس کی تمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

بہت سے لوگ جون کے اس بیان پر شک کا اظہار کرتے ہیں، ان کے خیال میں اس عمر میں بچے تو ہوش بھی نہیں سنبھالتے لیکن جون عام بچے کہاں تھے؟ وہ تو خاص الخاص تھے۔ بچپن کے عشق کے بعد جون نے لگاتار کئی عشق کیے اور لڑکپن میں ہی منجھے ہوئے شاعر بن گئے۔ محلے کی لڑکیاں ان سے غزلیں، قصیدے اشعار کی فرمائشیں کیا کرتی تھیں۔ انھیں میں ایک پریا نام کی لڑکی بھی تھے جس کی اجلی رنگت اور چمکیلی آنکھوں نے جون کی اپنا اسیر کر لیا۔ وہ بھی جون سے شاعری لکھواتی تھی، مگر کسی اور کے لیے۔ جون کو اس وقت پتا چلا جب اس کی شادی اپنے محبوب سے ہو گئی، وہ کٹ کر رہ گئے۔

اس کے بعد بھی جون کو کئی لڑکیوں سے عشق ہوا مگر سب ناکامی سے دوچار ہوئے۔ بارہ سال کی عمر میں جون ایک خیالی محبوبہ صوفیہ کو خط بھی لکھا کرتے تھے۔ لڑکپن کے ایک عشق کی کسک اُن کے دل میں عمر بھر رہی، خاندان کی اس لڑکی کا نام ظاہر نہ کرنے کے لیے جون نے اسے اپنی شاعری میں فارہہ کا نام دیا۔

ہندوستان میں اکیلے!

1947ء میں ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ سب سے پہلے رئیس امروہوی پاکستان آئے، کچھ عرصے بعد سید محمد تقی اور سید محمد عباس نے بھی ہجرت کرلی۔

امروہے میں جون، شفیق حسن ایلیا، والدہ نرجس اور بہن شاہ زنان نجفی رہ گئیں۔ جون کے والد درویش انسان تھے، انھیں معاشی معاملات سے زیادہ دلچسپی تھی نہیں۔ آبائی زمینوں کی معمولی آمدن سے گھر چلتا تھا۔ اس معاملے پر جون کی والدہ اپنے شوہر سے الجھتی رہتی تھیں۔ جس کا ذکر جون نے کچھ یوں کیا ہے:

میں نے اپنے گھر میں دنیا کے معاملوں، زندگی کے خارجی مسئلوں اور عملی حقیقتوں کے بارے میں کبھی کوئی گفتگو ہوتے ہوئے نہیں سنی۔ میں ایک ایسے ماحول میں پروان چڑھا جسے دِرم اور شکم سے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سروکار بھی نہیں تھا۔ جب مجھ میں شعور پیدا ہوا تو اپنے ماحول کی یہ صورت حال دیکھ کر میرے دل میں ایک انجانی اُداسی کی کیفیت نے جنم لیا جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ میرے اندر جو اذیت ناک احساس پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ ہمارا گھر کسی بھی لمحے تباہ ہو سکتا ہے اور یہ کہ آئندہ ہمیں شاید بھیک مانگ کر زندگی گزارنا پڑے گی . میں اپنے گھر کی یک سر بے بنیاد معاشی صورت حال کا ذمہ دار اپنے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا کو قرار دیتا ہوں۔

جون نے مزید لکھا کہ

اگر وہ میرے باپ نہ ہوتے، ان کے بجائے کوئی اور شخص، کوئی معقول اور دنیا شناس شخص ہوتا تو میں آج وہ نہ ہوتا جو میں ہوں۔ میں ایک کامیاب ترین، صحت مند اور قابلِ رشک آدمی ہوتا اور میری زندگی عیش ہی نہیں بلکہ بے حد شان دار عیاشی کے ساتھ گزر رہی ہوتی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ شفیق حسن ایلیا اپنے بچوں کو مال و دولت تو نہیں دے سکے لیکن علم و ادب کی جو دولت اُن کے بچوں کو ورثے میں ملی، اسی کی وجہ سے آج دنیا بھر میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ معاشی ناآسودگی، محبت میں پے درپے ناکامیوں، گھریلو تلخیوں نے جون کو نوجوانی میں ہی تپِ دق کا مریض بنا دیا تھا۔ پھر جب تینوں بھائی پاکستان چلے گئے تو جون مزید بے حال ہو گئے۔ بھائیوں کی جدائی میں اماں روتی رہتیں، یہاں تک کہ 1954 میں اُن کا انتقال ہو گیا اور 1956 میں والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ بہن کی شادی ہو چکی تھی اور وہ دلی منتقل ہو چکی تھیں، تب جون امروہہ میں تنہا رہ گئے۔ اس تنہائی کو انھوں نے یوں بیان کیا ہے:

اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ساری گلی سنسان پڑی تھی بادِ فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

جون اپنے محبوب شہر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے مگر بہن اور دوست احباب کے سمجھانے پر وہ پاکستان جانے کے لیے تیار ہوئے اور 30 دسمبر 1956 کی شام امروہہ سے روانہ ہو گئے۔ اپنی ڈائری میں لکھا:

آج میرا گھر ہمیشہ کے لیے برباد و ویران ہو رہا ہے۔
میں اس وطن میں گھر کی آخری رونق تھا۔
آج بابا اماں کی قبریں اس شہر میں بے چراغ ہوئی جا رہی ہیں۔
اماں سلام، اب میں روانہ ہو رہا ہوں۔
آہ! میں اماں کی قبر کے قریب سے گزر رہا ہوں۔
میں جا رہا ہوں کراچی …. بہت جلد آ جاؤں گا۔

مگر یہ ’’بہت جلد‘‘ کئی برسوں تک نہ آ سکا۔

جسم کراچی میں، روح امروہہ میں

جون اپنا ٹوٹا اور زخمی دل لیے پاکستان آ چکے تھے مگر ان کی روح ہمیشہ امروہے کی گلیوں میں پھرتی رہی۔ کراچی پہنچ کر وہ کھارادر میں اپنے بڑے بھائی رئیس امروہوی کے ساتھ رہے۔ رئیس صاحب ان دنوں ایک ہفت روزہ اخبار شیراز بھی نکالتے تھے جس کا دفتر نیو کلاتھ مارکیٹ بولٹن مارکیٹ پر تھا۔ دفتر کیا تھا، علم و ادب کا ایک مرکز تھا۔ شہر بھر کے شاعر و ادیب رئیس امروہوی کے دربار میں حاضر ہوتے تھے۔ کوئی شاعری پر اصلاح لیتا تھا تو کوئی ان سے نظمیں، سہرے لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرواتا تھا۔

جون کو مصروف رکھنے اور انھیں معاشی طور پر مضبوط کرنے کے لیے رئیس امروہوی نے ’’انشا‘‘ نام کا ایک ماہنامہ جاری کیا۔ یہ ایک ادبی رسالہ تھا، بعد میں اسے ڈائجسٹ میں بدل دیا گیا۔ اور نام رکھا گیا ’’انشا عالمی ڈائجسٹ‘‘، جو بعد میں صرف ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ رہ گیا۔ جون نے اس رسالے میں اداریہ لکھنا شروع کیا تو لوگوں کو اندازہ ہوا کہ اُن کی نثر بھی نظم سے کم نہیں۔ وہ انشائیہ کے نام سے جو تحریریں لکھتے تھے اُن کا شمار اردو کی شاہکار تحریروں میں کیا جاتا ہے۔ یہ انشائیے بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے، جو جون صاحب کے انتقال کے کئی برس بعد شائع ہوئی۔ مگر اس کتاب کا نام ’’فرنود‘‘ انھوں نے خود رکھا تھا۔ خیر، اُس دور میں ہی جون نے مشاعروں میں شرکت شروع کی اور کراچی کے ادبی حلقے میں اپنی پہچان بنا لی۔ رئیس صاحب کو بھارت میں چھوڑی گئی جائیداد کے بدلے گارڈن ایسٹ کراچی میں 2700 گز کی ایک کوٹھی کلیم میں مل گئی۔ سارا خاندان وہیں منتقل ہو گیا، جون بھی وہاں رہنے لگے تھے۔ وہ اپنے کمرے کو حجرہ کہتے تھے۔

جون ایلیا اور زاہدہ حنا

عالمی ڈائجسٹ کے ابتدائی دنوں میں جون کی واقفیت زاہدہ حنا سے ہوئی۔ وہ تب اسکول یا کالج میں پڑھتی تھیں اور ان کے افسانے اور مضامین انشا عالمی ڈائجسٹ میں شائع ہوتے تھے۔ جون ان کی ذہانت اور علم سے جلد متاثر ہو گئے۔ دونوں کی اکثر ملاقاتیں ہونے لگیں اور 1970 میں دونوں نے شادی کر لی۔ زاہدہ حنا جون سے پندرہ سال چھوٹی تھیں۔ جون کے خاندان کی کچھ خواتین نے اس شادی کی بڑی مخالفت کی تھی مگر جون نے کب کسی کی پروا کی تھی جو وہ اب کرتے؟

شادی کے بعد کچھ سال تو بہت اچھے گزرے۔ جون کی پہلی بیٹی Fenana کی پیدائش 1975، دوسری بیٹی Sohaina کی ولادت 1975 اور بیٹے زریون کی پیدائش 1981 میں ہوئی مگر زاہدہ حنا اور جون کے رشتے میں پیدا ہونے والی دراڑیں کم نہیں ہوئی، بلکہ اور گہری ہوتی چلی گئیں۔

جون اور زاہدہ کی عمروں میں ہی نہیں، مزاج میں بھی بہت فرق تھا۔ جذبات کا دریا اترا تو یہ فرق اپنے بھیانک خد و خال کے ساتھ نمودار ہو گیا۔ جون زاہدہ کو گھریلو خاتون دیکھنا چاہتے تھے اور زاہدہ انھیں ان ایک ذمے دار شوہر اور باپ۔ جون شراب تو نوجوانی سے پیتے تھے مگر گھر میں تلخیاں بڑھیں تو استعمال اور بڑھا دیا۔ ظاہر ہے اس سے معاملات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 80 کی دہائی کے وسط میں دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ جون ایلیا لکھتے ہیں:

زاہدہ کا ادیبہ ہونا مجھے تباہ کر گیا دراصل اس کے اندر ایسی انا پیدا ہو چکی تھی جو ہمارے درمیان علیحدگی کا سبب بن گئی لیکن اس کی یہ انا میں نے خود ہی پیدا کی تھی۔ شادی کے بارے میں یہ کہوں گا کہ بیوی کو گھریلو خاتون ہونا چاہیے۔ اگر آپ دونوں ادیب یا شاعر ہیں تو پھر دونوں کی انا کسی نہ کسی مسئلے پر ٹکراتی رہے گی۔

جون تو اپنی شادی کی ناکامی پر زاہدہ کو قصور وار ٹھہراتے تھے لیکن واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ اصل قصور وار خود جون صاحب تھے۔ وہ اچھے شاعر اور ادیب تو تھے لیکن گھریلو ذمے داریاں انجام دینا اُن کے بس کا روگ نہیں تھا۔ جون کے بچے بھی اپنے والد کو ہی اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ زاہدہ اور بچوں سے دُوری نے جون پر قیامت ڈھا دی، وہ مزید تنہائی پسند اور حساس ہو گئے۔ مشاعروں میں جانا اور لوگوں سے ملنا بھی چھوڑ دیا۔ تب ایک دوست سلیم جعفری ملے، جنھوں نے جون کو دوبارہ مشاعروں میں شرکت پر راضی کیا۔ اور اُن کے اعزاز میں دبئی میں ایک شاندار مشاعرہ منعقد کیا۔

جون مشاعروں میں بھی اپنے مخصوص اور منفرد حلیے میں آتے تھے اور شعر پڑھنے کا بھی ان کا خاص انداز تھا۔ جھوم جھوم کر گردن کو جھٹکے دے کر شعر پڑھتے۔ لمبے بال چہرے پر آ جاتے تو انھیں اپنے ہاتھ سے یا ایک خاص ادا سے گردن جھٹک کر پیچھے کرتے۔ کبھی زانو پر ہاتھ مارتے تو کبھی اسٹیج پر یا سامعین میں بیٹھے کسی شخص کو مخاطب کرکے اس پر کوئی جملہ کستے یا حال احوال دریافت کرتے یعنی وہ لوگوں کی توجہ مکمل طور پر اپنی طرف رکھتے تھے۔ پھر ان کے شعر بھی ایسے تھے کہ برچھی کی طرح دل میں اتر جاتے اور لوگ واہ واہ پر مجبور ہو جاتے۔

جون شاعری کے افق پر تو چھائے ہوئے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر اب تک اُن کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ دراصل جون نے اپنے والد شفیق حسن ایلیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے بابا کی تمام کتابیں چھپوائیں گے لیکن یہ وعدہ پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے جون شرمندہ تھے اور اپنی کتابیں چھپوانے سے گریز کر رہے تھے۔ بالآخر دوستوں کے اصرار پر اُن کی پہلی کتاب ’’شاید‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی۔ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی اور ان کا لکھا گیا دیباچہ بھی اردو کا شاہکار قرار پایا۔ بس یہی جون کی زندگی میں شائع ہونے والا پہلا اور آخری مجموعہ کلام تھا۔ باقی کتابیں یعنی، گمان، گویا، لیکن، مبادا ان کے انتقال کے بعد چھپیں۔ جون کی شہرت تو شاعری کی وجہ سے لیکن انھوں نے نثر میں بھی بڑا کام کیا۔

شاعر جون، نثر نگار جون

جون نے عربی کی کئی نادر کتابوں کے ترجمے کیے، جن میں حسین بن منصور حلاج کی کتاب الطواسین اور اخوان الصفا کے انسائیکلوپیڈیا کی بیس جلدوں کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ پھر 1968 سے 1974 تک وہ ترقی اردو بورڈ سے بھی وابستہ رہے اور ’’اردو لغت تاریخی اصول پر‘‘ کی تدوین میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن زیادہ شہرت ملی جون کی شاعری کو۔ ان کی شاعری پر تو پی ایچ ڈی کے مقالے تک لکھے گئے اور لکھے جاتے رہیں گے۔ یہ سب جانتے اور مانتے ہیں کہ وہ اپنی طرز کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کی غزل اور نظم چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ اس کا خالق کون ہے؟

ہر بڑے شاعر کی طرح جون نے بھی غمِ دنیا اور غمِ جاناں دونوں پر شاعری کی ہے لیکن مزے کی بات، جون صاحب میر تقی میر کے سوا اردو کے کسی شاعر کو نہیں مانتے تھے۔ کہتے ہیں:

شاعر تو دو ہیں، میر تقی اور میر جون
باقی جو ہیں وہ شام و سحر خیریت سے ہیں

حالانکہ جون کی جو مقبول شاعری ہے وہ ’’سہلِ ممتنع‘‘ ہے یعنی بظاہر آسان اور سادہ نظر آنے والے شاعری، مگر حقیقت میں ایسی شاعری کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سہل ممتنع میں غالب کا کلام بہت مقبول ہے، جون نے انھی کی روایت کو آگے بڑھایا مگر وہ غالب کو بھی چھوٹا شاعر سمجھتے تھے۔ اپنی فارسی اور عربی دانی کی وجہ سے جون نے اردو شاعری کو نئی لفظیات بھی دیں۔

ملحد جون، متشکک جون، انارکسٹ جون؟

پھر جون کو عموماً دہریہ یا ملحد سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے کلام میں جا بجا ایسے شعر ملتے ہیں۔

ہم نے خدا کا رد لکھا نفی بہ نفی لا بہ لا
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پر گراں گزر گئے

اے خدا (جو کہیں نہیں موجود)
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

حاصل کن ہے یہ جہانِ خراب
یہ ہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

مگر انھوں نے اپنی تحریروں اور دوستوں سے گفتگو میں خود کئی جگہ یہ اعتراف کیا ہے کہ وہ ملحد نہیں بلکہ متشکک ہیں یعنی atheist نہیں بلکہ agnostic۔ ’’شاید‘‘ کے دیباچے میں لکھا کہ فلسفے کے مطالعے نے ان کو یقین سے محروم کردیا تھا۔ یقین سے محرومی کے علاوہ زندگی کی محرومیاں بھی تھیں جس نے انھیں نفی پسند بنا دیا تھا۔ وہ خود مانتے تھے کہ وہ ایک anarchist تھے، ہر چیز کی نفی کرنا چاہتے تھے۔ مگر خدا کے معاملے میں تھک ہار کر انھیں یہی کہنا پڑا کہ

بڑا بے آسرا پن ہے سو چپ رہ
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ کہ خدا نئیں

جون نے کئی غیر ملکوں کے دورے بھی کیے۔ وہ پاکستان آنے کے بعد دو بار بھارت گئے۔ امروہہ کی زمین پر لیٹ کر اس کی مٹی کو چوما کرتے تھے۔ نوے کی دہائی میں وہ امریکا اور کینیڈا کے دو مہینے کے دورے پر روانہ ہوئے، وہاں کئی دلچسپ واقعات پیش آئے۔ کئی جگہوں پر جون ایلیا کو لمبے بالوں اور لمبے اوور کوٹ کی وجہ سے خاتون سمجھ لیا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ انھوں نے جو اوور کوٹ پہن رکھا تھا وہ لیڈیز تھا۔

اپنی ذات اور اپنے لباس سے بے پروا جون کو اُن دنوں صرف اپنے بچوں کی دُوری کی غم کھائے جاتا تھا اور وہ پی کر اس غم کو بھلانے کی کوشش کرتے تھے۔ اپنے بچوں کے لیے ہی انھوں نے بھائیوں کے اہل خانہ سے لڑ جھگڑ کر گارڈن ایسٹ والی کوٹھی بکوا دی اور اپنے حصے کے ستر اسی لاکھ روپے اپنے بچوں کے نام کردیے، حالانکہ اس کوٹھی کا نام ان کی والدہ کے نام پر نرجس رکھا گیا تھا۔ اور اسی کوٹھی کے ایک کمرے میں ان کے بڑے بھائی رئیس امروہوی کو دہشت گردوں نے قتل کر دیا تھا۔

جون اور زریون

جون نے اپنے بیٹے زریون سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ شاعر و ادیب انور احسن صدیقی بتاتے ہیں کہ بیوی سے علیحدگی کے بہت عرصے بعد جون کی ایک جگہ بیٹے سے ملاقات ہوئی۔ اُس نے انھیں پہچاننے کے باوجود بے رخی برتی۔ اس پر جون پوری رات روتے رہے اور ایک شاہکار نظم ’’درخت زرد‘‘ لکھی جس کے کچھ اشعار ہیں

نہیں معلوم زریون اب تماری عمر کیا ہوگی
وہ کن خوابوں سے جانے آشنا، نا آشنا ہوگی
تمہارے دل کے اس دنیا سے کیسے سلسلے ہوں گے
تمھیں کیسے گماں ہوں گے، تمھیں کیسے گلے ہوں گے
تمہاری صبح جانے کن خیالوں سے نہاتی ہو
تمہاری شام جانے کن ملالوں سے نبھاتی ہو

جون نے اس طویل نظم میں بھی اپنے خون تھوکنے کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ خون تھوکتے رہے، شاعری کرتے رہے اور اپنوں اور زمانے کے دیے گئے زخموں کو بھرنے کے لیے شراب اور خواب آور دواؤں کا سہارا لیتے رہے۔ صحت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی گئی، یہاں تک کہ آخری عمر میں اپنے بھتیجے علامہ کرار حسین نقوی کے گھر مقیم ہو گئے۔ دوست احباب ان سے وہیں ملنے آتے تھے۔ جہاں بالآخر 8 نومبر 2008 کو اردو کا یہ روشن ستارہ غروب ہوگیا۔

عبید اللہ علیم نے کیا خوب کہا ہے،

یار ہمارا ایلیا، ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں، ایلیا ایلیا کرو

شیئر

جواب لکھیں