پاکستان اور انڈیا کا میچ شروع ہونے والا ہے۔ دونوں ملکوں کے ترانے چل رہے ہیں۔ کراؤڈ فل چارج ہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا مقابلہ بس شروع ہونے والا ہے، لیکن۔۔۔۔۔۔!

لیکن یہ کیا؟

بھارت کے گیارہ اور پاکستان کے صرف پانچ کھلاڑی؟

پاکستان تو میچ ہار جائے گا!

جی ہاں! کیونکہ پاکستان کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کیا ہے؟ لیکن جب میدان سیاست کا ہو تو یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ اس لیے 1970 سے لے کر آج تک کے تمام الیکشنز کھول کر سمجھائے گا 'رفتار'۔

پاکستان 1947 میں آزاد تو ہو گیا تھا مگر 9 سال تک ملک کا قانون انگریزوں کا غلام رہا۔ ہمارے پاس اپنا آئین ہی نہیں تھا۔ پاکستان انگریزوں کے بنائے گئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 پر چلتا رہا۔ پھر 1956 میں آئین تو بن گیا، مگر الیکشن نہ ہو سکے۔ سیاسی جماعتیں فروری 1959 میں الیکشن کروانا چاہتی تھیں ، مگر اس سے چار مہینے پہلے ہی، اکتوبر1958 میں جنرل ایوب خان نے ملک پر قبضہ کر لیا اور 1962 میں اپنا ہی ایک آئین بنا ڈالا۔ نام نہاد الیکشن بھی کروائے، مگر یہ جنرل الیکشن نہیں تھے۔

یہ قانون تب تک چلتا رہا، جب تک ایوب خان اقتدار میں رہے۔ 1969 میں جاتے جاتے بھی وہ حکومت ایک اور فوجی جرنیل یحییٰ خان کو دے گئے۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ عوامی نمائندوں کو اقتدار دیں گے اور ملک میں الیکشن کروائیں گے۔ یوں پاکستان بننے کے 23 سال بعد ملک میں پہلی بار جنرل الیکشنز ہوتے ہیں۔ جی ہاں! اس ملک کے عوام نے اپنی جانیں دیں، سب کچھ قربان کیا اور انگریزوں سے آزادی حاصل کی مگر پھر بھی 23 سال تک انہیں اپنی مرضی کا حکمران چننے کا اختیار نہیں دیا گیا۔

اور پھر وہ دن آ گیا

‏17 دسمبر 1970۔ پاکستان کے پہلے عام انتخابات کا دن۔ لیکن کیا ان الیکشنز میں لیول پلیئنگ فیلڈ دی گئی تھی؟ 1970 کے الیکشنز، پاکستان کی تاریخ کے واحد انتخابات ہوں گے جنہیں عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ بہت شفاف تھے۔ لیکن یہ حقیقت نہیں۔ ان الیکشنز میں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی گئی تھی۔ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی عوامی لیگ پر بغاوت کا الزام لگایا گیا۔ اُن کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کو جیل میں ڈالا گیا۔ لیکن یہ سب کر کے بھی اُن کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں لائی جا سکی۔ پھر مغربی پاکستان میں تو الیکشن manage ہو گئے، لیکن مشرقی پاکستان میں کون کرتا؟

مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے وہاں سے کلین سویپ کر دیا لیکن انہیں مغربی پاکستان میں ایک سیٹ بھی نہیں ملی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان سے 86 سیٹیں جیتیں لیکن انہیں مشرقی پاکستان سے کچھ نہیں ملا۔ مجیب پر بھی الزام لگتا ہے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں کسی کی الیکشن مہم نہیں چلنے دی اور نہ کوئی ووٹ کاسٹ ہونے دیا۔ جو بھی ہو، عوامی لیگ کو 300 کے ایوان میں 167 سیٹیں مل گئیں۔ اب سادہ اکثریت مجیب کے پاس تھی ، حکومت بنانے کا حق تھا انہیں، لیکن انہیں یہ حق نہیں دیا گیا۔ وہ کھینچا تانی ہوئی کہ بالآخر ملک کے ہی دو ٹکڑے ہو گئے۔ ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ ہو گیا!

پاکستان کیسے ٹوٹا؟ کس نے توڑا؟ اس موضوع پر رفتار نے ایک الگ وڈیو بنائی ہے، ضرور دیکھیے گا:

الیکشن 1977

مارچ 1977 کے ابتدائی دن تھے۔ الیکشن سیل کے انچارج اور ایکس ڈائریکٹر آئی بی راؤ عبدالرشید گہری نیند سو رہے تھے کہ رات چار بجے ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ راؤ رشید نے فون اُٹھایا تو سامنے سے ہیلو کی آواز نے ان کی نیند اڑا دی کیونکہ فون پر کوئی اور نہیں، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بھٹو پوچھتے ہیں: راؤ یہ کیسے ہوا ہے؟ کسی نے گڑ بڑ تو نہیں کی؟ ہمیں الیکشن میں اتنی زیادہ سیٹیں کیسے مل گئیں؟

الیکشن کے نتائج پر ذوالفقار علی بھٹو خود حیران تھے۔ کیونکہ بھٹو 155 نشستوں پر کامیاب ہو گئے تھے جبکہ باقی گیارہ جماعتوں نے مل کر صرف 36 سیٹیں جیتی تھیں۔ الیکشن رزلٹ پر حیران بھٹو، ویسے جیت کے لیے ’’اُووَر کانفیڈنٹ‘‘ تھے۔ اتنے ’’اُووَر کانفیڈنٹ‘‘ کہ وقت سے پہلے ہی اپنی حکومت گرا کر الیکشن کا اعلان کر دیا (الیکشن اگست 1978 میں ہونا تھے، لیکن مارچ 1977 میں ہی کر دیے)۔

اب ایک طرف بھٹو تھے اور دوسری طرف آٹھ سیاسی جماعتوں پر مشتمل یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ، ایئر مارشل رٹائرڈ اصغر خان کی تحریک استقلال اور مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علما پاکستان۔ ابھی الیکشن سے پہلے تو یہ اپوزیشن بکھری ہوئی تھی مگر الیکشن کے اعلان نے انہیں متحد کر دیا۔ جیسے ابھی ’’پی ڈی ایم‘‘ بنی تھی، بالکل ویسے ہی۔ اسی طرح فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود نے اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائنس بنایا تھا۔ مگر کیا فائدہ؟ اقتدار، نظام اور اسٹیبلشمنٹ کی دعائیں، اور دوائیں، بھٹو کے پاس تھیں۔ جس کی وجہ سے بھٹو پر الزام لگتا ہے کہ انہوں نے لیول پلیئنگ فیلڈ اپنے حق میں لیول کر لی۔ حلقہ بندیاں نیوٹرل نہیں تھیں۔ پھر پیپلز پارٹی نے سرکاری وسائل کا پورا پورا استعمال کیا۔ سرکاری ملازمین پر دباؤ ڈالا ، حکم نہ ماننے پر 158 کو برطرف بھی کیا۔ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی کو اغوا کر کے اپنے نمائندے کو بلا مقابلہ منتخب کروایا۔ یہی نہیں، 19 نشستوں پر امیدوار ایسے ہی بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ اسے ملنے والے لاکھوں ووٹ ضائع کیے گئے۔ یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو اسلحہ بھی دیا گیا تاکہ الیکشن قابو میں رکھیں۔ الزامات کا شور مچتا رہا لیکن بھٹو نے کسی کو لفٹ نہیں کروائی۔

بالآخر اِن الزامات کی شدت وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچ ہی گئی۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان نے کہہ دیا کہ بڑے پیمانے دھاندلی کر کے ملک و قوم کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایسی دھاندلی ہوئی جیسے کوئی سجی سجائی دکان کو لوٹ لے جائے۔ پھر کیا تھا؟ گویا الیکشن کمیشن نے ہی دھاندلی پر مہر لگا دی۔

7 مارچ 1977 کو ہونے والی پولنگ کا پول 14 مارچ کو کھل گیا۔ تب بھٹو کے خلاف ایک زبردست تحریک شروع ہوئی۔ ’’سول نا فرمانی‘‘ کا آغاز ہو گیا۔ بڑے ہنگامے ہوئے۔ ‏250 لوگوں کی جان گئی ، ‏‏1200زخمی ہوئے اور ساڑھے تراسی ہزار افراد قید ہوئے۔ 700عمارتیں، دکانیں، دفاتر اور بینک جلے۔ کراچی، حیدر آباد میں کرفیو لگا۔

عوام اتنے خوف زدہ ہو گئے کہ بینکوں سے رقم تک نکلوا لی۔ قومی آمدن میں کمی ہو گئی، خزانہ خالی ہونے لگا۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے بھی نہ بچے۔ اور یہاں جلتی پر تیل کا کام کیا تحریک استقلال کے اصغر خان کے ایک خط نے۔ انہوں نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا۔ ایسا خط، جو مارشل لا کی طرف لے جانے کا پہلا قدم ثابت ہوا۔ پاکستان میں ہونے والے پہلے الیکشنز نے ملک توڑ دیا، اور دوسرے نے ایک بار پھر مارشل لا لگوا دیا۔ یہی نہیں، ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو بالآخر پھانسی چڑھ گئے۔

الیکشن 1985

ملک پر ایک پھر آمریت کے طویل سائے ہیں جن میں ایک الیکشن ہوتا ہے، 1985 میں۔ اس میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا ذکر ہی فضول ہے، کیونکہ ساری فیلڈ ہی ضیا صاحب کے پاس تھی۔ انتخابات غیر جماعتی تھے، مطلب اِن میں کوئی جماعت حصہ نہیں لے سکتی۔ سب امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے۔ یعنی پلیئر بھی اپنے اور فیلڈ بھی، تو لیول پلیئنگ کس بات کی؟

الیکشن 1988

پھر ایک دن آتا ہے، پاکستان کا سیاسی منظرنامہ یکدم بدل جاتا ہے۔ ‏17 اگست 1988 کو ضیاء الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔ وہ دنیا میں نہیں رہے اور دنیا بھی بدل گئی۔ اب بھٹو کی جانشین بے نظیر اور ضیا کا جانشین نواز شریف آمنے سامنے ہیں۔ بے نظیر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں اور الیکشن کی تاریخ لے لیتی ہیں۔ اور پھر وہ دن آ ہی جاتا ہے، 16 نومبر 1988 کا دن۔ تقریباً نو سال بعد بھٹو کے چاہنے والوں کو موقع ملتا ہے کہ ووٹ کے ذریعے پھانسی کا بدلہ لیں کیونکہ وہی کہتے ہیں:

Democracy is the Best Revenge

پھر میدان سجا اور لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے والے بھی active ہو گئے۔ جیسے بھٹو کے خلاف ایک اتحاد بنا تھا، ویسے ان کی بیٹی کے خلاف بھی ایک نئے اتحاد نے جنم لیا۔ ‏9 سیاسی جماعتوں کا اتحاد، ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘۔ بعد میں مرحوم جرنیل حمید گل نے اعتراف کیا کہ آئی جے آئی بنانے میں اُن کا ہاتھ تھا۔

اس کے بعد شروع ہوتا ہے: لیول پلیئنگ فیلڈ کا اگلا مرحلہ۔ طریقے وہی پرانے، مخالف کو غدار قرار دینا ، پھر کردار کشی ، جیسے آج عمران خان کو بد کردار کہا جا رہا ہے، ویسے ہی 1988 میں ایک عورت کے ساتھ ایسا کیا گیا، بے نظیر کی جعلی تصویریں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے شہروں میں پھینکی گئیں۔ اور جیسے آج عمران خان یہودی ایجنٹ ہیں، ویسے ہی اپنے زمانے میں بے نظیر بھٹو یہودی ایجنٹ تھیں۔ یہی نہیں، ایک اور قدم بھی اٹھایا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان نے اچانک آئین میں ترمیم کر دی کہ ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ لازمی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس حکم کو کالعدم قرار دیا لیکن انتخابات سے صرف چار دن پہلے یعنی 12 نومبر کو سپریم کورٹ نے حکم دے دیا کہ شناختی کارڈ ضروری ہے۔ اب چار دن میں لاکھوں ووٹرز کے شناختی کارڈ کہاں سے بنتے؟

پیپلز پارٹی دعویٰ کرتی ہے وہ لاکھوں ووٹوں سے محروم ہوئی کیونکہ اس کا زیادہ ووٹ بینک گاؤں دیہات کا تھا۔ یعنی یہاں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی مگر قسمت، عوام اور ہمدردی بے نظیر کے ساتھ ہیں۔ اُن کی پیپلز پارٹی کو 93 جبکہ آئی جے آئی کو 54 نشستیں ملتی ہیں۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا فارمولا ناکام ہو گیا۔ ہاں! بے نظیر کو اپنے ہی ایک بیان کی وجہ سے پنجاب میں دھچکا ضرور پہنچا۔ مرکز کے بعد صوبائی الیکشن ہونے والے تھے کہ بے نظیر کا بیان سامنے آ جاتا ہے کہ کسی پنجابی کو اپنا لیڈر کیسے مان لیں؟ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے اُن کے والد نے 70 کے انتخابات میں کسی بنگالی کو اپنا لیڈر ماننے کو تیار نہ تھے۔ نواز شریف کو سیاست کرنے کا موقع مل گیا، راتوں رات پنجاب کی دیواروں پر لکھ دیا گیا۔

جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ

اس ایک بیان کی وجہ سے بے نظیر کو پنجاب میں شکست ہو گئی، جہاں وزیر اعلیٰ بنتے ہیں میاں نواز شریف۔ کراچی میں نئی قوت ایم کیو ایم 13 سیٹوں کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یعنی اس الیکشن میں بھی پلیئنگ فیلڈ کا فارمولا ناکام ہو گیا۔ مگر کوئی بات نہیں، اگلے الیکشن میں پھر ٹرائی کریں گے۔

الیکشن 1990

اگلے الیکشن کا موقع آتا نہیں، لایا جاتا ہے۔ چھ اگست 1990 کو غلام اسحاق خان نے بے نظیر پر کرپشن کا الزام لگا کر اُن کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور ملک میں ایک بار پھر نئے الیکشن ہوتے ہیں۔ اب لیول پلیئنگ فیلڈ کا اسٹائل بھی بدل گیا۔ پیسہ چلا اور خوب چلا اور جیتے میاں محمد نواز شریف۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں جتوانے کے لیے قومی خزانے سے 14 کروڑ روپے نکالے گئے۔ اور یہ میں نہیں کہہ رہا، سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کے فیصلے میں کہا۔ یہ اصغر خان صاحب ہیں جو 1970 میں بھٹو کے خلاف مہم کا اہم حصہ تھے اور جن کے خط کے بعد ضیاء الحق نے مارشل لگا دیا تھا۔ تو 1990 کے الیکشن میں جو کچھ ہوا، چھ سال بعد، 1996 میں، وہ سارا کچا چٹھا لیکر سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں اور فیصلہ آتا ہے 2012 میں، یعنی 16 سال بعد۔ اور پتہ چلتا ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے کہنے پر قومی خزانے سے 14 کروڑ روپے فراہم کیے گئے جن میں سے چھ کروڑ سیاست دانوں میں بانٹے گئے اور یوں لیول پلیئنگ فیلڈ کے گیم میں ایک نیا کیریکٹر داخل ہوتا ہے، ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘۔

مگر افسوس، یہ راز 12 سال بعد افشا ہوئے۔ مرزا اسلم بیگ وضاحتیں پیش کرنے لگے کہ انہوں نے تو صدر غلام اسحاق خان کے کہنے پرکیا تھا، کیونکہ سپریم کمانڈر وہی تھے۔ اُس وقت کے لوگوں کو شاید لیول پلیئنگ فیلڈ سمجھنے میں مشکل ہوئی ہو، لیکن آج تیس سال بعد جب ہم 1990 کے الیکشن پر نظر ڈالتے ہیں تو مطلع ابر آلود نہیں، بلکہ بالکل صاف نظر آتا ہے۔

‏70 اور 88 میں ناکامی کے بعد 90 میں جو لیول پلیئنگ فیلڈ تیار کی گئی، وہ تو لا جواب تھی۔ نہ صرف پیسے بلکہ عہدوں کا زور بھی دکھایا گیا الیکشن کروانے کے لیے نگراں وزیر اعظم انہیں بنایا جو 1988 کے الیکشن میں بے نظیر کے خلاف تھے یعنی آئی جے آئی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی۔ صدر وہی تھے، جنہوں نے کرپشن کے الزام میں بے نظیر کی حکومت گرائی تھی یعنی غلام اسحاق خان۔ سندھ میں نگراں وزیر اعلیٰ بھی بے نظیر مخالف کو لگایا گیا یعنی جام صادق کو۔ بلکہ آپ کو سُن کر حیرت ہو گی کہ جام صادق خود اس الیکشن میں وزیراعلیٰ کے امیدوار تھے۔ پھر بے نظیر حکومت گرانے والے غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت سندھ میں وزیر داخلہ بنائے گئے۔ اور یوں ساری فیلڈ بے نظیر کے خلاف سیٹ تھی۔

پھر 24اکتوبر 1990 کا دن آتا ہے۔ الیکشن کا نتیجہ 1988 سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کا جادو چل جاتا ہے اور ‏105 نشستوں کے ساتھ نواز شریف کا پلڑا بھاری جبکہ بے نظیر کا پاکستان جمہوری اتحاد صرف 45 نشستیں لے پاتا ہے۔ یوں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بن جاتے ہیں

الیکشن 1993

ہم لوگ عارف علوی اور ممنون حسین جیسے صدور کا بہت مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ کچھ کر نہیں کر سکتے، ڈمی صدر ہیں بعض لوگ شعلے کے ٹھاکر اور کچھ منا بھائی فلم کے سبجیکٹ سے تشبیہہ دیتے ہیں لیکن آج کا صدرِ پاکستان اس لیے لاچار ہے کیونکہ وہ کل بہت طاقتور تھا۔

لیول پلیئنگ فیلڈ کے اگلے میدان میں جانے سے پہلے ذرا سا بیک گراؤنڈ جاننا بہت ضروری ہے۔ بے نظیر کی حکومت کو چلتا کرنے والے صدر غلام اسحاق خان کو تین سال بعد نواز شریف بھی کھٹکنے لگے۔ جنوری 1993 آیا، آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ سر پر دستِ شفقت برقرار رہے، اس لیے نواز شریف چاہتے تھے کہ کور کمانڈر لاہور جنرل محمد اشرف کو قائم مقام آرمی چیف لگا دیا جائے مگر غلام اسحاق خان ایسا نہیں ہونے دیتے، انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کیے اور آرمی چیف بنا دیا جنرل عبدالوحید کاکڑ کو نواز شریف نے بھی زبان کو لگام نہیں د ی، ریڈیو اور ٹی وی پر لائیو کہہ دیا

میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا

اور ساتھ ہی دھمکی دیتے ہیں کہ وہ آٹھویں ترمیم کر کے صدر کے اختیارات ہی ختم کر دیں گے۔ اب غلام اسحاق خان کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ اس سے پہلے کہ اُن پر حملہ ہو، وہ پہلے حملہ کر دیں۔ اب ایسا نہیں کہ بے نظیر ہمیشہ receiving end پر ہی ہوں، ان کا ٹائم بھی آ ہی گیا۔ بے نظیر نے موقع فائدہ اٹھایا اور نواز سرکار کو گرانے کے لیے غلام اسحاق خان سے ہاتھ ملا لیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اپوزیشن کے استعفے تک جمع کرا دیے۔ یہاں غلام اسحاق خان نے وہی پرانا راگ چلایا، کرپشن، آئین کی خلاف ورزی اور مسلح افواج کی اتھارٹی کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا اور نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ مگر میاں صاحب سپریم کورٹ پہنچ جاتے ہیں، وزارت عظمیٰ بحال بھی ہو جاتی ہے لیکن ایک بڑے سیاسی بحران کے بعد آتا ہے: کاکڑ فارمولا۔ صدر اور وزیر اعظم دونوں کے عہدے چلے گئے اور پھر آتا ہے ایک اور الیکشن۔

الیکشن 1993

یہاں لیول پلیئنگ فیلڈ کس کے حق میں ہو گی؟ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ جی ہاں! آصف زرداری قید سے آزاد کر دیے گئے، بلکہ انہیں نگراں وزیر بھی بنا دیا گیا۔ اب ہواؤں کا رخ بے نظیر کی طرف ہے۔ آئی جے آئی ختم ہو چکی۔ قاضی حسین احمد نے بھی نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا یہاں تک کہ اُن کی مسلم لیگ بھی ٹوٹ گئی۔ ایک بنی مسلم لیگ چٹھہ گروپ اور دوسری مسلم لیگ نواز۔ جیسے آج عمران خان سے بلے کا نشان لینے کی باتیں ہو رہی ہیں ویسے ہی 1993 میں نواز شریف سے سائیکل کا نشان چھین لیا گیا اور انہیں ملا نیا نشان، ’’شیر‘‘ جو اُس وقت نواز شریف کے لیے بڑا دھچکا تھا کیونکہ سائیکل اُن کی پرانی پہچان تھی۔

بہرحال، ایسی لیول پلیئنگ فیلڈ کے ساتھ 6 اکتوبر 1993 کو الیکشن ہوتے ہیں اور حیرت کی بات یہ کہ اس کے باوجود بے نظیر بہت بڑی اکثریت حاصل نہیں کر پائیں۔ انہیں 65 سیٹیں ملیں اور مسلم لیگ ن کو 56۔ پاکستان میں ویسے بھی sympathy کا ووٹ بہت ملتا ہے، شاید اس بار عوام کی ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔ بہرحال، حکومت بے نظیر نے ہی بنائی، چٹھہ گروپ اور آزاد ارکان کے ساتھ مل کر اور انہوں نے آتے ہی پہلا سیاسی پتہ پھینکا۔ اپنی ہی پارٹی کے رہنما فاروق لغاری کو صدر بنا دیا۔ وہ الگ بات کہ آخر میں اُن سے بھی دھوکا ہی ملا کیونکہ انہوں نے صدر تو اپنے بندے کو بنایا، لیکن اُس کے ہاتھوں سے 58 ٹو بی کی تلوار نہیں لی۔

پھر ایک واقعہ پیش آتا ہے، 20 ستمبر 1996 کو۔ وزیرِ اعظم بے نظير کے سگے بھائی مرتضیٰ بھٹو ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیے جاتے ہیں۔ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ جو وزیرِ اعظم اپنے بھائی کو نہ بچا سکی، وہ عام آدمی کا تحفظ کیسے دے گی؟ بے نظیر تو اس قتل کا الزام بھی فاروق لغاری پر لگا دیتی ہیں۔ دوسری طرف آصف قاتل کا نعرہ بھی بلند ہوتا ہے۔ بے نظیر نے تسلیم کیا کہ ان کے بھائی اور شوہر میں دُوریاں تھیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آصف قاتل ہیں۔

حالات بگڑتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ امریکا کا بیان بھی آ جاتا ہے کہ پاکستان میں کوئی اس کا فیورٹ نہیں، ہر رہنما قابل قبول ہو گا۔ سمجھیں گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کا اجازت نامہ آگیا۔ اور پھر آتی ہے پانچ نومبر 1996 کی رات!

بے نظیر بے خبر سو رہی تھی۔ رات ڈیڑھ بجے وزیر اعظم ہاؤس کی فیکس مشین کی گھنٹی بجتی ہے اور یہ گھنٹی اصل میں خطرے کی گھنٹی تھی۔ فیکس مشین سے جو پرچہ نکلا وہ ایوان صدر کا حکم نامہ تھا۔ بے نظیر کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور اسمبلی توڑ دی گئی ہے۔ اور پھر ملک بڑھتا ہے اگلے انتخابات کی طرف۔

الیکشن 1997

لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے والے اب اپنے تجربوں سے سیکھتے جا رہے ہیں اور اب ہر بار پہلے سے بہتر پلاننگ تیار کرتے ہیں۔ سُرخ لباس، سفید اسکارف۔ خطرے اور امن کے علامتی رنگ زیب تن کی ہوئی بے نظیر کن گھوڑوں کا ذکر رہی ہیں۔ پی ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر نیوز خالق سرگانہ لکھتے ہیں کہ بے نظیر کے وزیر اعظم ہاؤس چھوڑ جانے کے بعد آئے نگراں وزیر اعظم ملک معراج خالد۔ انہوں نے اُس وقت کے ڈائریکٹر نیوز پی ٹی وی حبیب اللہ فاروقی کو حکم دیا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں موجود گھوڑوں کے اصطبل شوٹ کریں جنہوں نے اس کام کے لیے خالق سرگانہ کو وزیر اعظم ہاؤس بھیجا جہاں مہنگے ترین گھوڑوں کا ایک اصطبل تھا، پتہ لگا کہ ایک گھوڑا ایسا بھی ہے جو ایک کروڑ روپے کا ہے۔ ملازمین نے بتایا کہ یہ گھوڑے دودھ پیتے ہیں، شہد کھاتے ہیں، سیب کھاتے ہیں اور ان کے اصطبل میں اے سی بھی لگے ہوئے ہیں۔ اور یہ سب دکھانے کا حکم اُس وقت کے نگران وزیر اعظم دے رہے ہیں ، جن کا کام یہ نہیں، الیکشن کرانا ہے۔ مگر وہ نکل پڑے ’’مشن احتساب‘‘ پر یا یوں کہہ لیجیے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ فارمولے پر۔ تو بے نظیر بھٹو کی پچھلی حکومت بدنام ہوتی چلی گئی۔ پھر گرفتاریوں کا آغاز ہوا، کئی اہم رہنما جیل گئے۔

رحمان ملک اُس وقت ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اپنے آفس میں کام میں مصروف تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور اپنے ماتحتوں نے ہی گرفتار کر لیا۔ احتساب کا دائرہ پھیلتا گیا اور بے نظیر کے حکومتی اتحادیوں تک پہنچ گیا۔ مولانا فضل الرحمان پر الزام لگا کہ انہوں نے ’’ڈیزل‘‘ کے پرمٹ میں کمیشن کھایا ہے۔ اور یہ طعنہ آج تک انہیں ملتا ہے۔

بہرحال! ‏1997 کے الیکشن سے پہلے بے نظیر انتخابی مہم میں نہیں، بلکہ احتساب سے بچنے کے لیے اپنے دفاع میں مصروف نظر آئیں۔ الیکشن میں کیا ہونے والا ہے؟ شاید انہیں اندازہ بھی نہیں تھا۔ جماعت اسلامی الیکشن کا بائیکاٹ کر چکی تھی، نواز شریف کا راستہ صاف تھا۔ مگر ٹھہریے! یہ کون آیا کہ اچانک نواز شریف گھبرا گئے؟

اتنا زیادہ گھبرائے کہ اُسے اتحاد کرنے کی دعوت دے ، صرف یہی نہیں 20 نشستیں بھی آفر کر دیں۔ مگر اس شخص میں اتنی اکڑ تھی کہ نواز شریف کو دھتکار دیا بلکہ الٹا اُن پر کرپشن کے الزام لگا دیے۔ وہ کوئی اور نہیں، ورلڈ کپ جیت کر آنے والا ’’عمران خان‘‘ تھا۔ جی ہاں یہ تھا عمران خان کا پہلا الیکشن۔ اور تب سے اُن کا یہی منشور تھا کہ کرپٹ کو لٹکانا ہے۔ وہ بات الگ کہ خود اُن کی حکومت میں کوئی کرپٹ نہیں لٹکایا گیا۔ عمران خان نے اپنی الیکشن کمپین کا آغاز اس نعرے کے ساتھ کیا

نئے چہرے نیا نام، اقتدار میں عوام

کیا آپ جانتے ہیں اُس وقت عمران خان کا انتخابی نشان کیا تھا؟ جی ہاں چراغ! اس چراغ کو بہت عرصے تک رگڑا گیا، پھر جا کر اس سے جن نکلا۔ بہرحال، 1997 کے الیکشن میں عمران خان نواز شریف کے حلقے میں ان کے مدمقابل کھڑے ہوئے۔ نواز شریف عمران خان کے خلاف بولتے بھی تو کیا؟ پہلا الیکشن تھا، کرپشن پر تو بات ہو نہیں سکتی تھی۔ لہٰذا انگلی اٹھائی کیریکٹر پر، سیتا وائٹ کیس۔ یہ ایسا کیس تھا جس پر عمران خان لب کشا نہ ہوئے۔ پھر جمائما سے شادی کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان نے انہیں یہودی ایجنٹ قرار دیا۔ بہر حال عمران خان کو نظر آنے لگا کہ وہ الیکشن ہار جائیں گے۔ انہوں نے بائیکاٹ کا سوچا مگر پارٹی رہنماؤں کے اختلاف کی وجہ سے عمران خان الیکشن میں کود پڑے۔

انتخابات کا دن آ جاتا ہے: 3فروری 1997۔ رمضان کے دن تھے، پولنگ عملے کو زبردستی افطاری کرنے بھیج دیا گیا اور ٹھپے لگنا شروع ہو گئے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا، عمران خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔ شاید رمضان کی وجہ سے ٹرن آؤٹ انتہائی کم، صرف 36.1 فیصد تھا۔ مگر نواز شریف کے لیے یہاں بہت بڑی خوش خبری تھی، ان کی جماعت نے کلین سویپ کر لیا تھا۔ یعنی دو تہائی اکثریت۔ قومی اسمبلی کی 203 میں سے 137 نشستیں ن لیگ کو مل گئیں، یعنی پچھلے الیکشن میں 73 کے مقابلے میں 137۔ یہ بہت بڑی جیت تھی۔

پیپلز پارٹی کا گراف بہت نیچے گیا، بے نظیر کے پاس سیٹیں 79 سے کم ہو کر صرف 18 سیٹیں رہ گئیں۔ عمران خان کوئی سیٹ نہیں جیت سکے اور انہوں نے بے نظیر کے ساتھ مل کر نواز شریف پر دھاندلی کے الزام لگائے۔ بہرحال! اب نواز شریف کے پاس بڑی اکثریت تھی، انہیں قانون سازی میں کوئی مشکل نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے پہلا وار کیا صدر کی کرسی پر۔ وہ کام جو کوئی نہیں کر سکا، نواز شریف نے کر دکھایا۔ انہوں نے اٹھاون ٹو بی کا خاتمہ کر دیا، یعنی صدر کے پاس وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کا اختیار ختم ہو گیا۔ نواز شریف کا اگلا ہدف تھا اپنی سب سے بڑی مخالف بے نظیر سے نمٹنا۔ اس کے لیے نیب کو بے نظیر اور زرداری کے پیچھے لگا دیا۔ زرداری جیل گئے اور بے نظیر تینوں بچوں سمیت ملک سے باہر۔ پھر ایک اور کام ہو گیا۔

جسٹس سجاد علی شاہ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ سنانے جا ہی رہے تھی کہ ن لیگ نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا۔ اسی تنازع کی وجہ سے فاروق لغاری مستعفی ہو گئے اور رفیق تارڑ نئے صدر بن گئے۔ اب ’’اُووَر کانفیڈنٹ‘‘ نواز شریف اگلے محاذ کی جانب سے بڑھے۔ اس بات سے بے خبر کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں کیونکہ اُن کا اگلا وار تھا کوئی اور نہیں، مسلح افواج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف۔ جب آرمی چیف کا جہاز فضا میں تھا، وہ سفر میں تھے، تب نواز شریف نے انہیں رخصت کرنے کی کوشش کی مگر یہ وار الٹا پڑ گیا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف ہی نہیں، پورا سسٹم ہی لپیٹ دیا۔

الیکشن 2002

ملک اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا تھا، اب اسے پہلے کی طرح نہیں چلایا جا سکتا تھا۔ اس لیے2002 میں عام انتخابات کروانے پڑے، جنہیں دیکھ کر 1985 کے غیر جماعتی الیکشن یاد آ گئے۔ خیر، یہ انتخابات غیر جماعتی تو نہیں تھے، لیکن یوں کہہ لیں جماعتوں کے اپنے ہی درمیان تھے۔ بے نظیر خود ساختہ جلا وطن تھیں، نواز شریف بھی سعودیوں کی ضمانت پر جان بچا کر لندن میں تھے۔ تو ان پارٹیوں کے کھلاڑیوں کے ذریعے نئی پارٹیاں بنائی گئیں۔ پوری فیلڈ ہی سیٹ تھی، کوئی لیول کیا کرتا؟ ن لیگ سے بھاگے ہوئے کھلاڑیوں سے ق لیگ بنائی گئی اور اقتدار بھی اسی کو ملا۔

الیکشن 2008

وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ مشرف نے ق لیگ سے آنکھیں پھیر لیں اور امریکا نے مشرف سے۔ صدر بش چاہتے تھے کہ مشرف عہدہ چھوڑ دیں۔ یہ بات خود انہوں نے اپنی کتاب Decision points میں لکھی ہے۔ اب پرویز مشرف تنہا محسوس کر رہے تھے اور یہیں پر نوے کی دہائی کے وہ کردار مل جاتے ہیں، جن کا کام تھا ایک دوسرے کی مخالفت، غلیظ الزامات لگانا اور ایک دوسرے پر مقدمات چلانا۔

’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط ہوتے ہیں مگر! بے نظیر اچانک یوٹرن لے لیتی ہیں، مشرف سے دبئی میں خفیہ ملاقات کرتی ہیں۔ اس پر نواز شریف چڑ جاتے ہیں کیونکہ یہ میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی تھی۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ بے نظیر مشرف سے چاہتی تھیں کہ وہ 1985 سے اب تک ان پر اور آصف زرداری بنائے تمام مقدمات ختم کریں۔ بدلے میں مشرف باوردی صدر کا عہدہ قبول کرنے کا کہہ رہے تھے۔ بالآخر مشرف این آر او دے دیتے ہیں یعنی سارے کیسز معاف۔ اُدھر نواز شریف سعودی عرب سے دباؤ ڈلوا کر وطن لوٹ آتے ہیں۔

لیول پلیئنگ فیلڈ فارمولے کے تحت بے نظیر ہی وزارت عظمیٰ کی کرسی کی حق دار تھیں۔ مگر پھر وہ ہوا ، جو کسی نے نہیں سوچا تھا۔ بے نظیر چل بسیں اور ہمدردی میں پڑنے والے ووٹ کے ذریعے آصف زرداری اقتدار میں آگئے۔ چوہدری شجاعت اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی مشرف سے ڈیل کے نتیجے میں اقتدار میں آئی۔ اور یہاں شروع سے ہوتی ہے ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کی نئی داستان۔

الیکشن 2013

پاکستان چھیاسٹھ برس کا ہو چکا ہے اور اب جا کر اسے یہ دن دیکھنے کو ملا کہ کوئی حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔ لیکن یاد رکھیں اُس وقت بھی ’’حکومت‘‘ نے مدت پوری کی تھی مگر ’’وزرائے اعظم‘‘ اس نعمت سے آج تک محروم ہیں۔ پی پی گورنمنٹ کرپشن کے کئی الزامات بھی اپنے ساتھ لے جار ہی ہے ، مگر کوئی نہیں۔ یہ پاکستان کا وہ دور تھا جب کہا جا سکتا تھا کہ ’’جمہوریت میں سب چلتا ہے‘‘۔

خیر، 2013 کے الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ آج سے ٹھیک دس سال پہلے، پیپلز پارٹی اور ن لیگیوں کے نعروں کے بیچ ایک نیا نعرہ بلند ہوتا ہے ’’تبدیلی آ گئی ہے یارو‘‘۔ یہ نعرہ تھا تو پاکستان کے لیے، مگر تبدیلی عمران خان کی جماعت میں آ رہی تھی۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما عمران خان کا ہاتھ تھام رہے تھے۔ یہاں مجھے عمران خان کے پہلے الیکشن کا بیانیہ یاد آگیا، یعنی ’’ نئے چہرے نیا نام، اقتدار میں عوام‘‘۔ خیر چھوڑیے!

زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں جو کچھ عوام نے دیکھا، اب اُن کے سامنے نیا چہرہ عمران خان ہی تھا۔ اُن کے بڑے بڑے جلسوں نے پورے ملک کو اپنے charisma میں جکڑ رکھا تھا۔ پھر الیکشن سے صرف چار دن پہلے یعنی سات مئی کو لاہور جلسے میں عمران خان کنٹینر سے گر کر زخمی جاتے ہیں۔ زخمی حالت میں ووٹ مانگنا، یعنی sympathy کا ووٹ بھی، عمران خان کی جیت پکی لگ رہی تھی۔

مگر لیول پلیئنگ فیلڈ دینے والوں کو کوئی اور ہی منظور تھا۔ یہ وہ دہائی تھی جب پاکستان دھماکوں سے گونج رہا تھا، سڑکیں لہو میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ملک میں شدت پسندوں کا زور تھا۔ یہ شدت پسند کس کی پیداوار تھے؟ اگر آپ یہ نہیں جانتے تو۔۔۔ چلیں چھوڑیں۔ بس سمجھ لیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ اسے نہ ملی جس نے سبق یاد نہ کیا۔ بالآخر! 11 مئی 2013 کا دن آ جاتا ہے۔ ووٹر ٹرن آؤٹ تاریخ میں سب سے زیادہ رہا، پاکستان کی آدھی آبادی نے ووٹ کاسٹ کیا مگر شام کے بعد دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جن کے پیچھے الیکشن کے نتائج بنتے ہیں۔ عمران خان الزام لگاتے ہیں کہ دروازے بند کر کے نواز شریف کے لیے ٹھپے لگوائے گئے۔

جو بھی ہوا، نواز شریف 167 نشستیں جیت کر پہلے نمبر پر آ گئے۔ پیپلز پارٹی 42 سیٹوں کے ساتھ دوسرے اور تحریک انصاف 35 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر آئی۔ آصف زرداری نے اس الیکشن کو قبول کر لیا۔ دھاندلی کا الزام تو لگایا مگر اپوزیشن لیڈر اپنا بنایا اور کہا کہ سسٹم میں رہ کر جنگ لڑیں گے۔ مگر عمران خان کو یہ سب ہضم نہیں ہوا اور 15 اگست 2014 کو طاہر القادری کا ہاتھ تھامے اسلام آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ یہاں سے شروع ہوئی پاکستان میں ایک نئی سیاست!

حکومت نے دھرنا ختم کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا۔ اُدھر شہباز شریف ہفتے میں تین تین بار آرمی چیف سے ملتے تو اِدھر عمران خان کہہ رہے تھے امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ اس دوران ستمبر میں الیکشن کمیشن اعتراف کرتا ہے کہ انتخابات میں آرٹیکل 62 اور 63 کا بھرپور اطلاق نہیں ہو سکا۔ مطلب الیکشن سے پہلے امیدواروں کی جانچ پڑتال ٹھیک سے نہیں ہوئی۔ مگر پھر ایک رپورٹ عدالتی کمیشن کی آتی ہے، جو دھاندلی کے سارے الزامات مسترد کر دیتی ہے۔

کہا گیا دھاندلی نہیں ہوئی، ہاں! بد انتظامی ہوئی ہے۔ اِدھر یہ ساری بحث چل رہی تھی، اور اُدھر عمران خان کا اگست کی گرمیوں میں شروع ہونے والا دھرنا دسمبر کی سرد راتوں میں داخل ہو گیا۔ امپائر کی انگلی تھی کہ اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔ یہاں تک کہ دسمبر کے وسط میں سانحہ اے پی ایس ہو جاتا ہے۔ عمران خان دھرنا تو ختم کر دیتے ہیں مگر نواز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اور پھر قسمت عمران خان کو ایک موقع اور دیتی ہے: 3 اپریل 2016 کو پانامہ پیپرز کی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ اس میں نواز شریف کا نام تو نہیں ہوتا، مگر کرپشن کے تانے بانے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جعلی اقامہ پر ہی سہی، لیکن نواز شریف کو نااہل کر دیا جاتا ہے۔

نواز شریف کے خلاف تین ریفرنسز بنائے جاتے ہیں اور وہ اپنی بیٹی سمیت جیل چلے جاتے ہیں۔ ان کیسز کی تفصیل اور اسپیشل ریلیف پر ہم نے اپنے ایک اور یوٹیوب چینل 'رفتار ایکسپلینر' پر یہ ویڈیو بنا رکھی ہے، آپ ضرور دیکھیے گا۔

خیر، نواز شریف کی پارٹی نے tenure تو مکمل کیا، مگر لیول پلیئنگ فیلڈ ان کے ہاتھوں سے نکل رہی تھی۔ نئے الیکشن کا وقت آ جاتا ہے، جسے یاد کریں تو لگتا ہے الیکشن 2024 کی بات ہو رہی ہے۔ بس کردار بدل گئے ہیں۔ جیسے؛

  • الیکشن 2018 میں نواز شریف نا اہل تھے، آج عمران خان نااہل ہیں!
  • الیکشن 2018 میں نواز شریف جیل میں تھے، آج عمران خان جیل میں ہیں!
  • الیکشن 2018 میں نواز شریف کے خاندان پر مقدمات تھے، آج عمران خان کی اہلیہ پر ہیں!
  • 2018 میں احتساب عدالت نواز شریف پر مقدمات کی سماعت کر رہی تھی، تو آج عمران خان کے خلاف بھی یہی احتساب عدالت کیس سن رہی ہے!
  • الیکشن 2018 سے پہلے نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف 'ووٹ کو عزت دو' مہم شروع کی، عمران خان نے بھی حکومت کے خاتمے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف 'امریکی غلامی نا منظور' مہم چلائی!
  • 2018 میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ٹی وی پر نواز شریف کا نام آنے پر بھی پابندی تھی، آج ٹی وی پر عمران خان کا نام لکھنے یا لینے پر بھی پابندی ہے!

ہاں! ایک فرق ضرور ہے۔ نواز شریف نے کچھ ہی وقت جیل میں گزارا اور باہر جانے کی ضد پکڑ لی لیکن عمران خان کہہ رہے ہیں ’’میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے میں کیوں باہر جاؤں ؟‘‘۔

الیکشن 2018 آ گئے!

صرف پانچ سالوں میں پاکستان کی سیاست کا نقشہ بدل چکا تھا۔ الطاف حسین پر پابندی لگا کر اُن کی سیاست ختم کر دی گئی تھی۔ پنجاب میں نواز شریف کا زور توڑ دیا گیا تھا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے ووٹ کاٹنے کے لیے پاک سرزمین پارٹی آ چکی تھی تو پنجاب میں ن لیگ کا ووٹ کھانے کے لیے تحریکِ لبیک پاکستان لانچ ہو چکی تھی۔ اور پیپلز پارٹی، وہ اب صرف سندھ تک محدود ہو گئی تھی اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد رکھنے والے سارے لوگ پاکستان تحریکِ انصاف میں تھے۔ پھر آگیا 25جولائی 2018 کا دن۔

ووٹ ڈالے گئے اور شام پانچ بجے کے بعد نتائج کا انتظار ہونے لگا۔ اور یہ انتظار بڑھتا ہی چلا گیا اور رات 9 بجے نتائج کا سلسلہ مکمل طور پر رک گیا۔ رپورٹرز پولنگ اسٹیشن کے باہر تھے اور خبریں اندر۔ رات 12 بجے یہ خبر ملتی ہے کہ Results Management System بیٹھ گیا۔ بہت طویل انتظار کے بعد اعلان کیا گیا کہ 126 سیٹیں رکھنے والی ن لیگ صرف 64 نشستوں پر آ گئی ہے۔ اور 2013 میں 28 سیٹیں جیتنے والی تحریکِ انصاف 115 نشستیں جیت گئی۔

عمران خان وزارت عظمیٰ تک پہنچ ہی گئے لیکن 2022 کے آغاز میں ہی اندازہ ہو گیا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا جادو چلانے والے اُن سے رخ موڑ بیٹھے ہیں۔ اُنھی کا نظام اُن کے خلاف ہو گیا۔ اور پھر 10اپریل 2022 کو رات 12 بجے اچانک عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد میں عمران خان کو چلتا کر دیا گیا۔ تحریکِ انصاف نے اسمبلیوں سے استعفے دیے اور سڑکوں پر نکل آئے۔

آج کیا صورت حال ہے؟ یہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں! میاں صاحب وطن واپس آ چکے ہیں، اُنھی ججز نے اُن کے کیسز ختم کر دیے ہیں، جنہوں نے سزائیں دی تھیں۔ نگراں حکومت کی توجہ بھی ہمیشہ کی طرح الیکشن پر کم اور احتساب پر زیادہ ہے۔ عمران خان کا ٹرائل چل رہا ہے اور نواز شریف کو پروٹوکول مل رہا ہے۔ صحافی حامد میر صحیح کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں کسی الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی گئی، 2024 میں بھی نہیں دی جا رہی۔ جب سوال ہوا لیول پلیئنگ فیلڈ کیسے ملے گی؟ تو جواب ملا کہ سپریم کورٹ چاہے تو ہو سکتا ہے! مگر وہ کیسے؟

‏2012 میں اصغر خان کیس کے فیصلے میں لکھا گیا تھا کہ بیورو کریٹس حکومت کے غیر آئینی احکامات ماننے کے پابند نہیں۔ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کو سیاست میں مداخلت اور انتخابات میں جوڑ توڑ سے گریز کرنا چاہیے۔ تو سوال یہ ہے کہ کوئی سوال ہی تو نہیں!

شیئر

جواب لکھیں