بہار کے دنوں کی ایک خوشگوار صبح ہے۔ محکمہ موسمیات میں کام کرنے والا سراج دفتر جانے کی تیاری کر رہا ہے لیکن اس کے دماغ میں شام کا پروگرام چل رہا ہے، جب وہ اپنی بیوی تہمینہ کو میکے سے واپس لائے گا۔ خوشی کے عالم میں وہ سیٹیاں بجاتے ہوئے صحن میں آئینے کے سامنے شیو کر رہا ہے۔ ابھی آدھی شیو بھی نہیں بنی ہوگی کہ اچانک فضا میں شوں کی آواز ابھری۔

سراج کو آئینے میں کچھ چمکدار سا دکھائی دیا۔ سر گھما کر آسمان کی طرف دیکھنا ہی چاہا تھا کہ زور دار دھماکا ہو گیا۔ اتنا زور دار کہ وہ اچھل کر دُور جا گرا۔ دھمک کم ہوئی تو اس کے کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں۔ پھر اسے گلی سے خواتین کے چلانے اور بچوں کے رونے کی ہلکی سی آوازیں آنے لگیں۔ کچھ دیر میں حواس بحال ہوئے تو سراج نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا، پنڈی کے مصروف علاقے مری روڈ پر افراتفری کا عالم تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کسی سے کچھ پوچھتا، ایک اور دھماکا ہو گیا۔ اور پھر تو دھماکوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

یہ سب کیا ہے؟ کیا بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے؟ یا پھر قیامت آ چکی ہے؟ آسمان سے آگ برستے دیکھنے والوں کے لیے تو یہ واقعی کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ یہ پتہ چلتا ہے 12 بجے ریڈیو پاکستان پر۔

السلام علیکم! یہ ریڈیو پاکستان ہے۔
آج صبح اوجڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو میں آگ لگنے سے کچھ اسلحہ دھماکے سے پھٹ گیا ہے اور اس کے خول آبادی والے علاقوں میں بھی گرے ہیں۔ شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ متعلقہ محکمے اپنا کام کر رہے ہیں اور امید ہے کہ صورتحال پر جلد قابو پالیا جائے گا۔

یہ اوجڑی کیمپ کیا تھا؟ آخر دھماکے کیوں اور کیسے ہوئے؟ اور اس واقعے کے بعد کیا ہوا؟ یہ پوری کہانی ہم آپ کو رفتار پر بتائیں گے۔

دس اپریل 1988۔ وقت صبح نو بج کر 50 منٹ۔ جب جڑواں شہر راولپنڈی اور اسلام آباد میں اچانک دھماکے شروع ہوئے اور پھر وقفے وقفے سے تقریبا ایک گھنٹے تک ہوتے رہے۔ ان دھماکوں کا مرکز تھا اوجڑی کیمپ۔ پنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر فیض آباد اور ہوائی اڈے کے نزدیک گھنے درختوں سے گھرا ایک پرانا اسلحہ خانہ۔

یہ آگ وہیں سے برس رہی تھی۔ وجہ کسی کے علم میں نہیں اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ یہ سلسلہ کب رکے گا؟ ہر طرف آگ ہی آگ تھی، کسی کو پل کا بھروسا نہیں تھا کہ کب اس کے سر پر بھی کوئی میزائل یا راکٹ آگرے۔ جو گھر تباہ ہو گئے، ان سے بچنے والے شہری سڑکوں پر شور مچا رہے تھے۔ عورتیں چادروں اور دوپٹوں کی پروا کیے بغیر گھروں سے باہر نکل آئی تھیں۔ کسی کو اپنے مرنے والوں کا دکھ تھا تو کوئی ملبے کے نیچے پھنسے پیاروں کی تلاش میں مدد کے لیے التجائیں کر رہا تھا۔ لوگ سمجھے کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے کیونکہ رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلی فون بھی ڈس کنیکٹ ہو چکا تھا۔

یہاں ریڈیو نے اپنا کام دکھایا، جس سے مسلسل ہدایت دی جا رہی تھیں کہ لوگ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ جب چکلالہ میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ بند ہونے کی خبر آئی تو سراج ڈر گیا۔ اسے لگا شاید بھارت کے حملے والی بات ٹھیک ہے اور خبروں میں اسے چھپایا جا رہا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ صورت حال واضح ہوتی گئی۔

یہ اوجڑی کیمپ کے اسلحہ خانے کی آگ ہی تھی جس نے سینکڑوں مائنز، اسٹنگرز، ایس اے سیون، بلیو پائپس، ملان اینٹی ٹینک میزائلز، ملٹی پل بیرل راکٹس، فاسفورس بومبز اور مارٹرز کو اپنی لپیٹ میں لیا اور پھر یہ خطرناک دھماکے نے اپنی انجانی منزلوں کی جانب چل پڑے۔ آگ اُس وقت لگی جب 122 ملی میٹر کے راکٹس سے بھرا ایک باکس سلائیڈ کرتے ہوئے گر پڑا۔ زمین سے ٹکرانے یہ وجہ سے یہ باکس پھٹا اور نتیجے میں زور دار دھماکے کے ساتھ آگ لگ گئی۔ عام طور پر ایسے راکٹس میں سیفٹی فیوز لگے ہوتے ہیں، لیکن ان راکٹس میں ایسا کچھ نہیں تھا، اس لیے انھوں نے تو فوراً ہی آگ پکڑ لی۔ جدید گولا بارود کا یہ ذخیرہ امریکا یا اس کے کسی اتحادی ملک سے لایا گیا تھا، جسے پاکستان سے افغانستان جانا تھا۔ وہاں سوویت افغان وار چل رہی تھی اور پاکستان اس جنگ میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ اسلحہ اوجڑی کیمپ کی امیونیشن اسٹوریج کی لمٹ سے دوگنا تھا، جسے انتہائی بے ہنگم اور نان پروفیشنل انداز میں رکھا گیا تھا۔ اس لیے آگ لگی تو یہ اسلحہ خانہ آناً فاناً آتش فشاں پہاڑ کی شکل اختیار کر گیا۔

سب سے زیادہ نقصان سراج کے دوست کامران کے علاقے گلشن دادن خان میں ہوا، علاقے پر کئی گھنٹوں تک دھوئیں کے کالے بادل منڈلاتے رہے۔ پنڈی کے علاوہ اسلام آباد میں بھی صورت حال بہت خراب تھی۔ اندھے میزائلوں اور راکٹوں نے بڑی تباہی مچائی۔ جن بلند عمارتوں کے قریب راکٹ گرے تھے، وہ اتنی بری طرح لرزیں کہ لوگ سمجھے زلزلہ آ گیا ہے۔ کئی لوگ تو مارگلہ کی پہاڑیوں کی طرف نکل گئے۔

پاکستان ٹیلی وژن اسٹیشن کی عمارت تک مکمل طور پر خالی ہو گئی تھی کیونکہ اس کے قریب ہی ایک میزائل گرا تھا۔ اس کی وجہ سے لوگ اسے فضائی حملہ سمجھ کر چلے گئے، کیونکہ عموماً جنگ میں کمیونی کیشن سسٹمز کو تباہ کرنا دشمن کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔

معروف صحافی اظہر سہیل اپنی کتاب ’سندھڑی سے اوجڑی کیمپ تک‘ میں لکھتے ہیں:

اوجڑی ایمونیشن ڈپو آئی ایس آئی کے اُسی شعبے کی نگرانی میں چل رہا تھا جو افغانستان جہاد اور افغان پناہ گزینوں سے متعلق معاملات کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھا۔ اوجڑی ڈپو میں اس انداز میں بے احتیاطی کے ساتھ اسلحہ جمع کیا گیا تھا جیسے لکڑی کے ٹال پر فالتو لکڑیاں بکھری پڑی ہوں۔

واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد کا تو اندازہ نہیں، لیکن اسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ خواتین اور بچوں سمیت زیادہ تر مریض شدید جلے ہوئے جسموں کے ساتھ لائے جا رہے تھے۔ حکومت نے تمام دفاتر اور تعلیمی ادارے بند کر دیے اور فوری طور پر تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کر دیا۔

دوپہر میں جب دھماکوں کی آوازیں تھمنا شروع ہوئیں تو سراج باہر گلی میں نکلتا ہے۔ چوک پر واقع ایک گھر میں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہیں اسے پتہ چلا کہ محمد خاقان عباسی بھی اس واقعے میں چل بسے، جو وفاقی وزیر برائے پیداوار تھے۔ دراصل اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس تھا، جس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ اتنے میں دو راکٹ فضا میں بلند ہوئے اور ان کی پچاس ساٹھ کلومیٹر کی رفتار سے جاتی گاڑی کو ہٹ کیا۔ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ اُن کے بیٹے اور مستقبل میں وزیر اعظم بننے والے شاہد خاقان عباسی کے بھائی زاہد عباسی شدید زخمی ہوئے۔ زاہد عباسی کے دماغ سے منسلک اعصابی نظام کو ایسا نقصان پہنچا کہ وہ پھر 14 سال تک کومے میں رہے اور بالآخر انتقال کر گئے

قیامت کی اس گھڑی میں ملک کی قیادت کہاں تھی؟

صدر جنرل ضیاء الحق منی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے کویت میں تھے۔ چونکہ واقعہ ایک فوجی تنصیب میں ہوا تھا، اس لیے آن ڈیوٹی جنرل کے لیے یہ بات بہت تشویش ناک تھی۔ جسے ہی اطلاع ملی، انھوں نے اُس وقت کراچی میں موجود وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے رابطہ کیا جو اسی رات کراچی سے لاہور اور لاہور سے پنڈی پہنچے، جہاں انھیں ایئرپورٹ پر ہی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اسی شام یعنی 10 اپریل کو وفاقی وزیر برائے انصاف اور پارلیمانی امور وسیم سجاد نے سرکاری بیان جاری کیا، جس کے مطابق

فوج کے بارودی ذخیرے میں اُس وقت آگ لگی، جب گولا بارود سے لدے ایک ٹرک میں آگ لگ گئی، جس نے پورے ذخیرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ موقع پر موجود جوانوں نے آگ پر قابو پانے کی تو کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔ جس کے بعد بہت سے دھماکے ہوئے، بعض راکٹ جڑواں شہروں کے کئی علاقوں میں جا گرے اور جانی و مالی نقصان ہوا۔ آگ لگنے کی وجہ جاننے کے لیے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔

اس اعلان میں 103 ہلاکتوں اور 1300 سے زیادہ لوگوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی۔ یہ پہلا سرکاری اعلان تھا جس میں باقاعدہ طور پر اوجڑی کیمپ کے حادثے کی تحقیقات کا اعلان کیا گیا۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے اسے حکومت کی ناکامی قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ واقعے کی مکمل انکوائری سپریم کورٹ کے جج سے کرائی جائے۔

اگلے ہی روز یعنی 11 اپریل کو صدر جنرل ضیاء الحق کانفرنس ادھوری چھوڑ کر اسلام آباد واپس آگئے اور چند ایک میٹنگز کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ہر لحاظ سے بھرپور انکوائری جاری ہے کہ آیا یہ غفلت تھی، حادثہ یا پھر سازش؟ انھوں نے وعدہ کیا کہ انکوائری رپورٹ جلد پبلک کی جائے گی کیونکہ موجودہ حکومت عوام سے کچھ نہیں چھپانا چاہتی۔ صدر یہ تک کہہ گئے کہ وہ ذاتی طور پر بھی حقائق پر پردہ ڈالنے کے عادی نہیں ہیں۔

اس موقعے پر صحافیوں نے ان سے سوالات بھی کیے۔ ایک سوال تھا کہ اتنا گولہ بارود ایک گنجان آبادی والے علاقے میں بغیر اطلاع کے کیوں رکھا گیا؟ جس پر انھوں نے کچھ یوں کہا کہ اوجڑی کیمپ پاکستان بننے سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے، بلکہ اس کی تعمیر دوسری جنگ عظیم میں ہوئی تھی۔ یہاں اُسی زمانے سے فوجی یونٹس رہتے ہیں۔ ‏1979 میں اسے آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ نے اوجڑی کیمپ کو اسلحہ کے عارضی ذخیرے کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا، جہاں ضرورت کے وقت ہتھیار لائے اور لے جائے جا سکتے تھے۔ اس سوال پر کہ عوام کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا؟ صدر کا کہنا تھا کہ ملکی سلامتی سے متعلق ہر بات عوام تک پہنچانا ضروری نہیں ہوتی۔

اوجڑی کیمپ سے متعلق ایک اور جگہ لکھا ہے کہ بیرونِ ملک سے اسلحہ طیاروں کے ذریعے راولپنڈی کی چکلالہ ایئر بیس پر اترتا اور اسے سویلین ٹرکوں کے ذریعے راتوں رات اوجڑی کیمپ منتقل کردیا جاتا۔ اگر ٹرانزٹ کیمپ ایئرپورٹ سے دور ہوتا تو شاید رازداری کو قائم رکھنا مشکل ہوجاتا۔ اسی طرح شہر سے قریب ہونے کی وجہ سے دشمن کو یہ شک گزرہی نہیں سکتا تھا کہ یہاں کوئی ایمونیشن ڈپو بھی ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اوجڑی کیمپ آٹھ سال تک ہر خطرے سے محفوظ رہا۔

خیر، پریس کانفرنس میں جنرل صاحب سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا یہ بارود اور ہتھیار افغان مجاہدین کو دیے جانے تھے؟ جس کو انھوں نے اسے افواہ کہہ کر مسترد کردیا۔ اسی طرح صحافیوں نے تخریب کاری کے کسی امکان کا بھی خدشہ ظاہر کیا، لیکن صدر ضیا ایک ایک کر کے انہیں یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ پہلے انکوائری مکمل ہونے دیں۔

صدر کی آمد، بریفنگ اور پریس کانفرنس سے پہلے امریکی ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان پہنچ چکی تھی۔ اس کا کام بظاہر تو باقی بچ جانے والے اسلحے کو ضائع کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا تھا، لیکن جتنی جلد بازی میں یہ ٹیم پاکستان آئی بلکہ صدر ضیاء الحق سے بھی پہلے پہنچ گئی، اس پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی حکومت امریکا کی ناک کے نیچے سے یہ اسلحہ بیچ رہی ہو؟ اور یہ خبر لیک ہونے پر ریکارڈ مٹانے کی نیت سے جان بوجھ کر تباہی پھیلائی گئی ہو؟

معاملے کی انکوائری کے لیے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ خان کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا گیا، جس میں سب فوجی افسر تھے۔ ظاہر ہے یہ فوج کی انٹرنل یا محکمانہ انکوائری تھی، جس کی جانب سے روایتی سی رپورٹ پیش کی جاتی، لیکن پھر ایک بڑی پیش رفت ہو گئی۔ اگلے ہی دن یعنی 12 اپریل کو وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ وہاں وزیر مواصلات محمد اسلم خان خٹک کی سربراہی میں ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی جس کی ذمہ داری تھی اوجڑی کیمپ حادثے کی وجوہات اورممکنہ غفلت کا پتہ لگانا اس میں دفاع کے وزیر مملکت رانا نعیم محمود بھی شامل تھے اور پھر کمیٹی نے اپنا کام شروع کردیا اور پھر واقعے کے ٹھیک چار روز بعد اچانک بہت بڑی خبر آ گئی۔ افغان مزاحمت کاروں اور سوویت یونین کے درمیان جنیوا میں معاہدہ ہو گیا۔ یوں سوویت فوجیں افغانستان چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا۔

اس معاہدے کووزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بڑی کامیابی قرار دیا لیکن جنرل ضیا نے کہا کہ یہ معاہدہ جلد بازی میں کیا گیا۔ وہ اس فیصلے پر وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے خوش نہیں تھے۔ وزیر اعظم جنیوا میں موجود پاکستان کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور زین نورانی پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ہر صورت معاہدے پر دستخط کر کے ہی پاکستان واپس آئیں۔ بہرحال، پارلیمانی کمیٹی اپنی تحقیقات کر رہی تھی، اور اسے لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ خان کی رپورٹ کو بھی ویریفائی کرنا تھا لیکن ابھی یہ رپورٹ اُن تک پہنچی بھی نہیں تھی کہ خبر آئی پریزیڈنسی میں صدر کی ایک اعلیٰ سطحی ٹیم نے اس رپورٹ کو رجیکٹ کر دیا۔ اس ٹیم کے کرتا دھرتا تھے صدر پاکستان کے چیف آف اسٹاف لیفٹینٹٹ جنرل سید رفاقت۔ یوں پارلیمانی کمیٹی حیران و پریشان تھی کہ رپورٹ آبھی جائے تو اس کا کیا جائے؟

اس سے پہلے کہ ہم آگے چلیں ، پہلے یہ جان لیں کہ رپورٹ میں لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ خان نے انکشاف کیا کیا؟

حادثے کے وقت اوجڑی کیمپ میں موجود جوانوں اور افسران کے انٹرویوز کی روشنی میں عمران اللہ خان نے لکھا کہ جس مقام پر پہلا دھماکہ ہوا وہاں 16 لوگ موجود تھے، جو فوجی نہیں بلکہ تمام کے تمام اجرت پر کام کرنے والے غیر تربیت یافتہ سویلین مزدور تھے۔ حیران کن طور پر ان میں سے ایک شخص بھی ہلاک نہیں ہوا، یہ سب کے سب معمولی زخموں کے ساتھ اسپتال لائے گئے اور وہاں انھوں نے ابتدائی طور پر اس واقعے کو ایک حادثہ بتایا۔ لیکن بعد میں دوسری بار انٹرویوز کیے جانے پر یہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور کہا کہ ہم بے ہوش ہوگئے تھے، جس کے بعد ہمیں کچھ یاد نہیں۔

ایوان صدر کی جانب سے یہ ساری فائنڈنگز اعتراضات لگا کر مسترد کردی جاتی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ خان اعتراضات کا جواب دینے کے لیے چوبیس گھنٹے مانگتے ہیں، جس کی پارلیمانی کمیٹی بھی سفارش کرتی ہے لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ آخر کیوں؟ کیونکہ خود کابینہ کمیٹی میں ہی اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ وزیر مواصلات محمد اسلم خان خٹک نے خود کو کمیٹی کا سربراہ کہہ کر اصرار کیا کہ وہ پروسیڈنگز پر خود اپنے قلم سے رپورٹ بنائیں گے۔ تقریباً دس روز بعد وہ مختصر سی رپورٹ کی ایک کاپی لائے اور کابینہ ارکان سے کہا کہ وہ یہیں پڑھ کر اس پر دستخط کر دیں۔ اس پر وزیر مملکت برائے دفاع سمیت تین ممبرز نے اختلاف کیا کہ یہ طریقہ غلط ہے، ہمیں کم از کم دو تین دن دیے جائیں، لیکن بعد میں پتہ یہ چلا کہ اس رپورٹ کی کاپی وہ پہلے ہی صدارتی محل میں پیش کرچکے تھے اور نہیں چاہتے کہ کیس میں ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے کسی بھی طرح وزارت دفاع کی کوئی مداخلت ہو، جو کہ سویلین حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔ یعنی اسلم خٹک کمیٹی کی اس مجوزہ امینڈمنٹ کا خاتمہ چاہتے تھے کہ جس کے تحت ذمہ داروں کو سزا پاکستان ڈیفنس رولز کے علاوہ کسی اور ضابطے کے تحت دی جائے۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا تاثر کیوں پیدا ہوا؟ اصل میں جب جنرل عمران اللہ جب وزارتی کمیٹی کے سامنے پہلی بار پیش ہوئے تو رانا نعیم محمود نے ان سے دو سوال کیے۔

پہلا سوال : اس کیمپ کا قیام کس کی ذمہ داری تھی؟
جنرل نے جواب دیا: اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی۔

دوسرا سوال: جنرل اختر عبدالرحمٰن جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، کیا کیمپ بنانے کا فیصلہ ان کا تن تنہا تھا یا کسی سے منظوری لی گئی تھی؟
جنرل نے جواب دیا: متعلقہ افسر کسی سے صلاح مشورہ کرنے کا پابند نہیں۔

رانا نعیم محمود نے اس کے بعد کمیٹی کے دیگر دو ارکان قاضی عابد اور ابراہیم بلوچ کے ساتھ مل کر اپنی فائنڈنگز شامل کیں جس میں واضح طور پر لکھا کہ کیمپ کا قیام اور اس کا انتظام مکمل طور پر آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کی ذمہ داری تھا اور ہے، اس لیے سفارش کی جاتی ہے کہ سابق ڈی جی جنرل اختر عبدالرحمٰن اور موجودہ جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی کی جائے۔ وزیراعظم جونیجو بھی چاہتے تھے کہ ان رپورٹس کی روشنی میں تمام تر حقائق حسب وعدہ قوم کے سامنے پیش کے جائیں بلکہ اس کی روشنی میں صدر مملکت جنرل ضیاء الحق کو سفارش کی جائے گی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن اور جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی کریں۔

اسی دوران وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا کے دورۂ جنوبی کوریا آ گیا۔ انھیں تو اپنی منتخب حیثیت پر اتنا ناز اور یقین تھا کہ دورے پر روانہ ہونے سے پہلے ہی رپورٹ صدر مملکت کے سامنے رکھ دی۔ جب صدر نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو وزیر اعظم صاحب نے دھیمے لہجے میں جواب دیا

سائیں! یہ کمیٹی کی رپورٹ ہے۔ آپ ان پر غور کریں، وطن واپسی پر آپ کی مشاورت سے فیصلہ کروں گا۔

جنرل ضیاء الحق نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ایسے ساتھیوں کے خلاف کارروائی ہو، جو ان کے اقتدار کو طویل کرنے کا سبب ہیں۔ یوں سانحہ اوجڑی کیمپ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے اقتدار کا سانحہ بھی ثابت ہوا اور ان کے اقتدار کا اختتام ہو گیا۔ یہی کہانی ہے سندھڑی سے اوجڑی تک کی!

بعد میں وزیر مملکت برائے دفاع رانا نعیم محمود نے بتایا کہ وہ رپورٹیں صدر سمیت پانچ یا چھ لوگوں کے علاوہ کسی نے نہیں دیکھیں۔ جونیجو حکومت کی برطرفی کے فوراً بعد ان کی کاپیاں پراسرار طور پر دفاتر سے راتوں رات غائب ہو گئیں۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ خان کی ابتدائی رپورٹ اور صدارتی محل سے اعتراضات لگنے کے بعد اس پر ان کی جوابی رپورٹ بھی شامل تھی۔ ان کاغذات نے ناصرف حادثے کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈالی تھی بلکہ یوں کہیے کہ اس پر فرد جرم تک عائد کر دی تھی۔ کاغذات رانا نعیم محمود کے بقول یہ تمام آئی ایس آئی کے کارندے راتوں رات اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

تب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے لیفٹیننٹ جنرل حمید گل، جن کا سانحہ اوجڑی کیمپ کے بارے میں موقف ہمیشہ بہت واضح رہا۔ حمید گل کو مارچ 1987 میں ضیاء الحق نے جنرل اختر عبدالرحمٰن کی جگہ آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تھا۔ وہ دو سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں سوویت جنگ اپنے اختتامی مراحل میں تھی۔ بقول حمید گل کہ یہ حادثہ اُس وقت ہوا جب افغانستان میں قیام امن کے معاملات کو فائنلائز کیا جا رہا تھا۔ یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ اب مزید جنگ و جدل نہیں ہوگی ایسے میں امریکا کو فکر ہوئی کہ جنگ کے لیے انھوں نے پاکستان میں اسلحہ کے انبار لگا رکھے ہیں، وہ واپس کیسے آئیں گے؟ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں تھا۔ یہ اسلحہ براہِ راست امریکہ سے یہاں نہیں پہنچا تھا، بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی وینڈرز یا اسلحے کے تاجروں نے امریکی ادائیگی پر اسے یہاں تک پہنچایا تھا۔ ان وینڈرز میں مصر بھی شامل تھا اور بقول سابق آئی ایس آئی چیف اوجڑی کیمپ میں پھٹنے والی اسلحے کی پیٹی بھی مصر سے ہی آئی تھی۔

ان دنوں یہ خبر بھی آئی کہ کچھ امریکی سٹنگر میزائل ایران کے ہاتھ لگ گئے ہیں اور اس معاملے کو دبانے کے لیے اوجڑی کیمپ میں دھماکے کیے گئے البتہ جنرل حمید گل نے اس کی تردید کی اور کہا کہ کوئی میزائل کسی تیسرے ملک کو نہیں دیا گیا، یہ انھی مقاصد کے لیے استعمال ہوا جس مقصد کے لیے دیا گیا تھا۔

بہرحال، جنرل ضیاء الحق اور محمد خان جونیجو کے درمیان اختلافات تو جنیوا معاہدے کے بعد سے ہی سامنے آ گئے تھے کیونکہ وزیر اعظم جونیجو کسی بھی صورت افغان جنگ سے نکلنا چاہتے تھے جبکہ ضیاء الحق کی سوچ مختلف تھی۔ لیکن اوجڑی کیمپ کے حادثے اور پھر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ نے جنرل ضیاء الحق کو موقع فراہم کر دیا کہ وہ محمد خان جونیجو کو حکومت سے نکال باہر کریں اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اس معاملے میں جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینے پر اسلم خٹک کو بعد میں سینیئر وزیر بھی بنایا گیا۔ جونیجو نے کہا کہ ان بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ تیار تھی، اور وہ یہ اعلان بھی کر چکے تھے کہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی، لیکن اس سے پہلے ہی ان کی حکومت برطرف کر دی گئی۔ ان زمانے میں جنرل ضیاء نے ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک روز باقاعدہ رومال نکال کراپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ سیاسی حکومت، کرپٹ اوراسلام بیزار ہے۔ لیکن محمد خان جونیجو کی حکومت کا خاتمہ indirectly اسی سانحے کا نتیجہ تھا۔

بہرحال، حادثے کی انکوائری رپورٹ کبھی پبلک نہیں ہوئی۔ پاکستان میں ہونے والے کئی اور واقعات کی طرح یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ سانحہ اوجڑی کیمپ کی وجہ کیا تھی؟ آج 32 سال بعد بھی نہیں!

وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور 17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق جنرل اختر عبد الرحمن سمیت ایک فضائی حادثے میں چل بسے۔ اور اوجڑی کیمپ کا راز، آج بھی ایک راز ہی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں