چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد پہلا اہم کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے۔ یہ کیس ہے بحریہ ٹاؤن عمل درآمد کا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ  تشکیل دیا گیا ہے جو 18 اکتوبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔

رجسٹرار سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن، اٹارنی جنرل، ایڈوکیٹ جنرل سندھ اور چیئرمین نیب سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔

Bahria Homes - Bahria Town

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں غیرقانونی الاٹمنٹ کے الزامات پر  بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب روپے جرمانہ کیا تھا۔ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے جرمانے کی یہ رقم قسطوں میں جمع کرانے کی یقین دہائی کرائی تھی۔

بعد میں ایک اسکینڈل اس وقت بھی سامنے آیا جب ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کی 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم اور جائیداد برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی نے ضبط کرلی تھی۔ ملک ریاض اور ان کے بیٹے پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا کیونکہ وہ  اس رقم کی منی ٹریل دینے میں ناکام رہے تھے۔ بعد میں اس شرط پر تصفیہ ہوا کہ یہ رقم پاکستان حکومت کو واپس کردی جائے۔ مگر یہ رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں آنے کے بجائے سپریم کورٹ کے جرمانے میں جمع کرادی گئی۔

اس سلسلے میں عمران خان کی حکومت پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے ملک ریاض سے معاہدہ کرکے یہ رقم حکومت کے اکاؤنٹ میں حاصل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے جرمانے میں ایڈجسٹ کی اور اس کے بدلے القادر ٹرسٹ کے لیے زمین اور مالی فائدے حاصل کیے۔

Raftar Bharne Do
بحریہ ٹاؤن کیس، قاضی فائز عیسیٰ کا امتحان 1

پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے کیونکہ ان کے پاکستان کے تمام حکمرانوں سے اچھے تعلقات ہیں۔

یہ الزام بھی سامنے آیا کہ ملک ریاض کی جو 190 ملین پاؤنڈ کی رقم برطانیہ میں ضبط کی گئی اس میں سے 50 ملین پاؤنڈ ملک ریاض نے حسین نواز کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹ خریدنے کے بدلے دیے تھے۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کی قیمت 30 ملین پاؤنڈ تھی لیکن نواز شریف کو خوش کرنے کے لیے 20 ملین پاؤنڈ زیادہ دیے گئے۔

اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک ریاض کے آصف زرداری سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ یہ الزام بھی لگتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن لاہور میں کروڑوں روپے مالیت کا بلاول ہاؤس ملک ریاض کی طرف سے تحفۃً دیا گیا ہے۔ سندھ حکومت پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے بحریہ ٹاؤن کراچی اور بحریہ آئیکن ٹاور کے لیے زمینیں غیرقانونی طور پر الاٹ کی ہیں۔

اسی طرح سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں یہ اسکینڈل سامنے آیا تھا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار ملک ریاض کے بزنس پارٹنر ہیں۔ بعد میں خود چیف جسٹس افتخار چودھری نے اس کیس کی سماعت کرکے اپنے بیٹے کو کلین چٹ دے دی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ملک ریاض کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی بحریہ ٹاؤن پر بھاری رقم کا جرمانہ تو کردیا لیکن بے ضابطگیوں پر کسی کو سزا نہیں سنائی۔

Keys for Career Success According to Malik Riaz Hussain

اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے یہ کیس مقرر کیے جانے کو ان کا امتحان بھی قرار دیا جارہا ہے کہ کیا وہ واقعی بحریہ ٹاؤن سے اس کی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا حساب لیں گے یا صرف یہ کیس این سی اے سے ملنے والی رقم اور القادر ٹرسٹ تک محدود رہے گا تاکہ عمران خان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاسکے۔

یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ اس کیس کی کارروائی بھی لائیو نشر کرنے کی اجازت دیں تاکہ ٹرائل کی شفافیت یقینی بنائی جاسکے اور لوگوں کو پتا چلے کہ ان بڑے بڑے اسکینڈلوں میں کون کون سے بڑے نام ملوث ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں