یہ 1967 کی ایک رنگین شام ہے۔ چاروں طرف قہقہے ہیں اور ہاتھوں میں جام ہے۔ مگر لبرل اور سیکولر سوچ رکھنے والا ایک رئیس زادہ خاموش بیٹھا ہے۔ گہری سوچ میں ڈوبا ہے۔ ایسی سوچ جو اُس کی آنے والی کئی نسلوں کو حکمران بنا سکتی ہے۔

وہ اپنے خواب کی تعبیر چاہتا ہے، وہ ایک پارٹی بنانا چاہتا ہے۔ وہ دوست کے کان میں سر گوشی کرتا ہے کہ عوامی طاقت کیسے حاصل کی جائے؟ دوست کا مشورہ بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ یہ کہ بڑے گدی نشینوں کو اپنے ساتھ ملا لو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ اور پھر گدی نشین مل گیا! بلکہ پارٹی کی بنیاد ہی گدی نشین کے گھر پر رکھی اور اُس گدی نشین کو پارٹی میں اپنا نائب بنا لیا۔ بعد میں وہ رئیس زادہ خود بھی وزیر اعظم بنا، اس کی اولادیں بھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

  • وہ کون تھا؟
  • پارٹی کون سی ہے؟
  • اور وہ گدی نشین کون تھے؟
  • پاکستان کی سیاسی تاریخ میں گدی نشینوں اور پیروں کا کیا کردار رہا ہے؟
  • یہ گدیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟
  • اور کیا ان کا راج مستقبل میں بھی جاری رہے گا؟

پیروں کا پاکستان

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے پیر گھرانے کُل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں؟ مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اِن کی سیٹیں ہیں گیارہ فیصد۔ آخری اسمبلی میں ٹوٹل 446 میں سے 46 سیٹیں ایسی تھیں، جو پیر گھرانوں یا سید خاندانوں کے پاس تھی۔

اور ایسا اب سے نہیں؟ پاکستان بننے سے بھی پہلے سے ہے۔ ‏1920 اور 1946 کے الیکشن میں مسلمانوں کی تقریباً 19 فیصد دیہی آبادی کی نمائندگی پیروں کے پاس تھی۔

جی ہاں! یہی حقیقت ہے کہ پاکستان میں مذہبی ٹچ کے بغیر کوئی پارٹی نہیں بن سکتی اور نہ ہی کوئی حکومت۔ کیوں؟ سادہ سی بات ہے۔ گدی نشین کی گرفت میں عوام ہیں، اور سیاست کو عوام کی طاقت چاہیے۔ تو پیر کے کہنے پر رات کو دن اور دن کو رات ماننے والے لوگ، بیلٹ پیپر پر ٹھپا بھی وہیں لگائیں گے، جہاں پیر کہے۔ تو آخر سیاسی جماعتیں پیروں کے پیچھے کیوں نہ جائیں؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی پیر خانوں نے جنم لیا۔

پیر آئے کہاں سے؟

سن 1030، برصغیر پر سلطان محمود غزنوی کے جانشینوں کا راج تھا۔ ایک نوجوان تبلیغ کی غرض سے لاہور پہنچتا ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں اس کا جاننے والا کوئی نہیں۔ لیکن اس نے یہاں چالیس سال دین کی تبلیغ کی اور آج پورا شہر لاہور اس کا مرید ہے۔

یہ کوئی اور نہیں، پاکستان کی سب سے بڑی درگاہ ’’داتا دربار‘‘ میں مدفون ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری یعنی داتا گنج بخشؒ تھے۔

ان کے تقریباً دو سو سال بعد دین کی تبلیغ کے لیے معین الدین چشتیؒ بھی برصغیر آتے ہیں۔ انھی سے چشتیہ سلسلے کا آغاز ہوتا ہے، جس کی جڑیں آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں بہت مضبوط ہیں۔

اُسی زمانے میں پاک پتن کے وارث کی ولادت بھی ہوتی ہے۔ نام رکھا جاتا ہے فرید الدین مسعود، لیکن انھیں آج ہم جانتے ہیں بابا فرید الدین گنج شکر کے نام سے۔ یہ وہ دور ہے جو برصغیر میں صوفی ازم کو بڑا فروغ مل۔ دین کی تبلیغ ہوئی، تعلیم عام ہوئی مگر پھر دین کو پھیلانے والے بزرگوں کے مزارات بن گئے، اُن پر گدی نشین بیٹھ گئے، جو حکمرانوں کی ضرورت بن گئے۔ دین کہیں دُور رہ گیا، تعلیم کہیں دُور رہ گئی۔

آج پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہی کُل 598 مزارات ہیں۔ سب سے زیادہ لاہور میں ہیں 73، جس کے بعد ملتان کا نمبر آتا ہے 20 اور پھر راولپنڈی میں 17 مزارات۔

شاید آپ کو یقین نہ آئے، مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان پر حکمرانی کرنے والا ہر فوجی آمر یا سیاستدان، کسی نہ کسی پیر کا مرید رہا ہے، یا پھر کسی نہ کسی پیر سے ٹچ میں رہا ہے۔ مطلب پاکستان کی ساری حکومتیں اپنے پَیروں پر نہیں، پیروں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔

آغاز کرتے ہیں: پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل غلام محمد، پیر وارث علی شاہ کے مرید تھے۔ وہ تو اپنے پیر کو فالو کرتے ہوئے زمین پر سویا کرتے تھے۔

فیلڈ مارشل ایوب خان پیر صاحب آف دیول شریف کے مرید تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو جتنے بھی آزاد خیال ہوں، لیکن لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر حاضری لازمی دیا کرتے تھے۔ جب انھیں حکومت ملی تو لاہور میں داتا گنج بخشؒ اور سیہون میں لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر سونے کے دروازے لگوائے۔

بھٹو کے بعد ضیاء الحق آئے، جو خود تو پیروں کے پیچھے نہیں ہوتے تھے، لیکن اُن کے دور میں پیر گھرانوں کو باقاعدہ مجلس شوریٰ میں ضرور لایا گیا۔

پھر بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر آئیں، جو اپنے خاندانی پیر حسین شاہ آف قمبر کے پاس حاضر ہوتی تھیں۔

نواز شریف کا خاندان بھی پیروں کا پَیرو کار رہا ہے۔ وہ پیر علاؤ الدین قادری گیلانی کے ہاتھ پر بیعت تھا۔ اُن کے والد میاں شریف طاہر القادری کو بہت پسند کرتے تھے۔ بعد میں نواز شریف کے طاہر القادری سے اختلافات ہو گئے اتنے شدید کہ 2014 میں طاہر القادری عمران خان کا ہاتھ تھامے نواز شریف کی حکومت گرانے نکل پڑے تھے۔

عمران خان کی سجدہ ریز تصویر کے پیچھے بھی ایک پِیر ہے۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے 2015 سے۔ ابھی اقتدار نہیں ملا۔ لیکن اوکسفرڈ سے پڑھے ہوئے عمران خان کی اچانک بزرگان دین سے عقیدت بڑھ رہی تھی۔ وہ اکثر بابا فرید گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ انہی دنوں لودھراں میں اُن کی ملاقات political influence رکھنے والے ایک خاتون سے ہوتی ہے جو اگلے الیکشن کے لیے پیش گوئی کرتی ہیں کہ جہانگیر ترین جیت جائیں گے۔ عمران خان بہت خوش ہوتے ہیں۔ یہی ایک نہیں۔ مزید دو تین ایسی پیشگوئیاں ٹھیک ہو جاتی ہیں جو عمران خان کو متاثر کرتی ہیں۔

اب خان اُن سے سیاسی معاملات میں صلاح و مشورے کرنے لگتے ہیں۔ وہ خاتون کوئی اور نہیں۔ بشریٰ بی بی تھیں، جن سے بعد میں عمران خان نے شادی کر لی۔

پاکستان میں پیر صرف وزیر یا رکن اسمبلی ہی نہیں رہے، بلکہ ایک پیر تو وزیر اعظم بھی بن چکے ہیں یوسف رضا گیلانی۔ اور پھر بشریٰ بی بی بنیں وزیر اعظم کی اہلیہ یعنی پہلی ایسی خاتون اوّل جو پیرنی ہیں۔

بہرحال! بات ہو رہی ہے ’’پاک پتن‘‘ کی۔ یہاں دیوانِ پاک پتن کا بڑا political influence ہے۔ مانیکا خاندان سے اُن کی قریبی رشتہ داری ہے، جس کے کئی لوگ وزیر اور اسمبلی کے رکن رہے۔ چشتیہ سلسلے کی اور بھی کئی شاخیں ہیں، جن میں ایک شہر اقتدار میں بھی ہے، نام ہے گولڑہ شریف۔ ایک زمانے میں اس کا بڑا سیاسی اثر و رسوخ تھا۔ ایک بار گولڑہ شریف سے فتویٰ جاری ہو گیا کہ عورت کو ووٹ دینا غیر اسلامی ہے۔ اُس وقت فاطمہ جناح انتخابی میدان میں تھیں۔ اس فتوے کا انھیں نقصان تو پہنچا ہوگا۔ پھر جب بے نظیر بھٹو جلا وطنی کے بعد واپس آئیں تو گولڑہ شریف حاضری دی البتہ پیر سیّد نصیر الدین سے ملاقات نہیں ہو سکی۔

اب تو بلاول بھٹو بھی گولڑہ شریف جایا کرتے ہیں بلکہ ان کے والد آصف علی زرداری بھی پیروں کے اشارے سمجھ کر اپنی سیاسی چالیں چلتے تھے۔ جب وہ قید میں تھے اور جب ایوان صدر اُن کی قید میں تھا، دونوں صورتوں میں انہیں پیر کی ضرورت تھی۔

خیر، ہم بات کر رہے تھے گولڑہ شریف کی، جس کا تعلق سیال شریف سے بھی جڑتا ہے کیونکہ پیر سید مہر علی شاہ نے شمس الدین سیالوی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ جیسے گولڑہ شریف سے فاطمہ جناح کے خلاف فتویٰ آیا تھا، ویسے ہی سیال شریف سے تحریک چلی بے نظیر کے خلاف۔

حمید الدین سیالوی نے پی پی حکومت پر یہ بھی الزام لگایا کہ انہیں خاموش رہنے کے لیے دو کروڑ روپے کی آفر ہوئی تھی۔ دراصل حمید الدین سیالوی کی یہ گدی مسلم لیگ ن کے قریب تھی لیکن 2017 میں ان کے پانچ امیدواروں نے اچانک استعفا دے دیا اور ن لیگ کی حکومت کو بڑا دھچکا پہنچایا۔ اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، لیکن ان استعفوں سے ثابت کیا کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر پیروں کا کردار اب بھی کتنا اہم ہے۔

حمید الدین سیالوی خود سینیٹر رہے ہیں، شاید کچھ روحانی پابندیوں کی وجہ سے وہ سڑکوں پر عام نہیں آتے۔ ان کے والد خواجہ قمر الدین سیالوی کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ تحریک پاکستان میں ایکیٹو رکن تھے اور مولانا شاہ احمد نورانی سے پہلے جمعیت علمائے پاکستان کے صدر تھے۔ اس سے پہلے سیال شریف کے پیر تحریکِ خلافت، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ میں شامل رہے۔

اولیا کی سر زمین

اب رخ کرتے ہیں اولیا کی سرزمین شہر ملتان کا۔

عمران خان کے وفا دار، ڈٹ کر ساتھ کھڑے ہونے والے شاہ محمود قریشی کو تو آپ جانتے ہیں۔ لیکن میں آپ کو ایسے شاہ محمود قریشی سے ملواتا ہوں، جو انگریزوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے تھے۔ چلیے 1840 کی دہائی میں!

سکھوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر دی ہے۔ وہ آزادی مانگ رہے ہیں۔ تب شاہ محمود قریشی انگریزوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ وہ احمد خان کھرل کی گرفتاری میں گوروں کو مدد کرتے ہیں۔ کمشنر کے خبری بن جاتے ہیں۔ بدلے میں برٹش گورنمنٹ انہیں انعام و اکرام سے بھی نوازتی ہے۔

یہ شاہ محمود قریشی کون تھے؟ یہ تھے بہا الدین زکریاؒ اور شاہ رکن عالم کے گدی نشین اور سہروردی خاندان کے سربراہ شاہ محمود قریشی اوّل!

اور جنہیں آپ جانتے ہیں، یہ شاہ محمود دوم ہیں۔ جن کا نام اپنے پر دادا کا نام پر رکھا گیا ہے۔ فی الحال یہ والے شاہ محمود کی تو پچھلے دنوں اپنے بھائی سے لگ گئی تھی اور وجہ تھی کہ گدی پر کون بیٹھے گا؟

یہ کوئی معمولی گدی نہیں، اس کی طاقت سمجھانے کے لیے آپ کو پاکستان بننے سے بھی پہلے لے کر چلتا ہوں۔

ایک طرف قائد اعظم کی مسلم لیگ ہے اور دوسری طرف انڈین یونینسٹ پارٹی۔ تب یہاں کے گدی نشین تھے مخدوم مرید حسین قریشی۔ کیا لگتا ہے گدی کس کو سپورٹ کرے گی؟ غلط سمجھے، مسلم لیگ نہیں۔ بلکہ یونینسٹ پارٹی کو۔ مگر جیت گئی مسلم لیگ اور پھر پاکستان بن گیا۔

جانتے ہیں پھر ایک وقت میں گورنر پنجاب کون رہے؟ قائد اعظم کی مسلم لیگ کی مخالفت کرنے والے مرید حسین قریشی کے بیٹے سجاد حسین قریشی۔ اِس گدی نے ایک بار ایوب خان اور ضیاء الحق کی آمریت کا بھی ساتھ دیا تھا۔ اب اسی گدی پر شاہ محمود قریشی ہیں۔ اور گدی کی سپورٹ پی ٹی آئی کے پاس ہے۔

ویسے جس کے پاس گدی ہوتی ہے دولت کی گنگا بھی اس کی چوکھٹ پر ہی بہتی ہے۔ شاید اسی لیے شاہ محمود کے بھائی اُن سے کافی ناراض رہے۔

خیر! جیسے شاہ محمود قریشی اوّل و دوم ہیں۔ اسی طرح مخدوم امین فہیم بھی پہلے نہیں۔

‏1100 سال پہلے کی بات ہے۔ مخدوم امین فہیم کی درگاہ پر دو حاکم دوڑے دوڑے پہنچتے ہیں اور اپنی جیت کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ یہ دونوں تھے خانِ خاناں مرزا عبد الرحیم اور میرزا جانی بیگ۔

سن 911 میں ہالا میں ایک صوفی بزرگ کی پیدائش ہوئی، نام تھا لطف اللہ مگر دنیا انھیں جانتی ہے ’’مخدوم نوح سرور‘‘ کے نام سے۔ جی ہاں! وہ دونوں نوح سرور کے سجادہ نشین مخدوم امین فہیم کے پاس ہی آئے تھے۔ اور اب جو امین فہیم تھے، وہ سترویں سجادہ نشین تھے۔

خیر، یہیں وہ قصہ بھی مکمل کرتے ہیں جو آپ کو ابتدا میں سنایا تھا۔

وہ رئیس زادے تھے ذوالفقار علی بھٹو جو پیپلز پارٹی بنانے کا سوچ رہے تھے۔ اور گدی نشین تھے مخدوم امین فہیم کے والد محمد زمان عرف طالب المولیٰ۔ جی ہاں! گدی نشین طالب المولیٰ کی سپورٹ کا مطلب۔ گدی کے مریدوں کا ووٹ پی پی کو مل گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد طالب المولیٰ کے گھر پر ہی رکھی تھی بلکہ انہیں پارٹی کا وائس چیئرمین بھی بنا دیا تھا۔ خیر، بیٹے امین فہیم نے بھی پارٹی سے خوب وفا نبھائی چار بار الگ الگ سیاسی و فوجی ادوار میں وزارت عظمیٰ کی آفر ہوئی مگر پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ بات الگ ہے کہ اگر زرداری وعدہ نبھا کر امین فہیم کو وزیر اعظم بنا دیتے تو وہ پاکستان کے پہلے پیر وزیر اعظم ہوتے۔ ویسے ان کی جگہ جنھیں وزیر اعظم بنایا وہ بھی پیر ہی تھے۔ جی ہاں! مخدوم یوسف رضا گیلانی۔ صرف پیر ہی نہیں۔ جاگیر دار بھی۔ جنہوں نے 1983 میں پہلا الیکشن ضلع کونسل کا لڑا تھا۔ ‏35 سال بعد وزارت عظمیٰ تک پہنچے۔

یوسف رضا گیلانی دسویں صدی کے صوفی بزرگ موسیٰ پاک شہید کی درگاہ کے گدی نشین ہیں۔ ہندوستان کے جلیل القدر محدث شاہ عبد الحق دہلوی بھی موسیٰ پاک شہید کے مرید تھے۔

گیلانی 1988 میں اپنے رشتہ دار پیر پگارا کے مرید وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے رُخ موڑ گئے۔ یوں تو خاندان جاگیردار ہے، پاس گدی کی پاور بھی ہے مگر کشمکش تھم نہیں رہی تھی۔ ایک روز بے نظیر کے پاس کراچی چلے آئے۔ بے نظیر نے پوچھا جونیجو کو چھوڑ کر میرے پاس کیوں آئے ہو؟ جواب دیا محترمہ عزت کا طالب ہوں۔ اور یوں پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے۔

پیروں کو مرید سے تو ووٹ بس ایک حکم پر مل جاتا ہے۔ لیکن جب بات آئے پیر سے ووٹ لینے کی؟ تو جانتے ہیں کیا ہوتا ہے؟

وزیر اعظم کا پروٹوکول مین شاہراہ فیصل کے بیچ و بیچ رک جاتا ہے۔ وزیر داخلہ کو پروٹوکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ اور پھر پیر کو منانے کے لیے ہر مطالبہ مانا جاتا ہے۔

دراصل ذوالفقار مرزا نے پیر پگارا کے ایک مرید اور ڈپٹی کمشنر کو اٹھا لیا تھا۔ جس پر پیر پگارا ناراض تھے۔ مگر گیلانی نے وہیں بیٹھے بیٹھے اُن کی ناراضی دور کی۔

ایک طرف جہاں ریاست اور اس کی مذہب سے دُور اشرافیہ ایسے پیر گھرانوں سے legitimacy مانگتی ہے، وہیں جواب میں پیر گھرانے بھی سرکاری سرپرستی اور دیگر privileges چاہتے ہیں تاکہ ان کی طاقت بھی مضبوط ہو۔

‏65 کی جنگ میں ایوب خان کو بھارت کے خلاف پیر پگارا کے حُر مجاہدین کی ضرورت پڑی۔ ضرورت پوری ہوئی، حُر فرنٹ لائن پر خوب لڑے۔ میدان بھی جیتا اور بعد میں سیاست بھی۔ کیا وزیر اعظم کی کرسی اور کیا وزیر اعلیٰ؟ سب عہدے پیر پگارا کو پلیٹ میں رکھ کر دیے گئے۔

سندھ کے علاوہ پنجاب میں بھی مزارات اور پیر گھرانے دیہی آبادی اور ریاست کے درمیان ایک اہم لنک ہیں۔ صدیوں سے ریاست کی بھر پور سرپرستی حاصل ہے، اس لیے یہ گھرانے بڑے بڑے زمیندار بن گئے ہیں۔

مغلوں کے بعد سکھوں بلکہ برٹش rule میں بھی ایک حکمت عملی اپنائی گئی۔ دیہی علاقوں میں امن و سکون رہے، اس کے لیے وہاں کے با اثر لوگوں کو زمینیں بانٹی گئیں۔ انھیں خطابات ملتے، اعزازات بھی دیے جاتے۔ اس میں پیر خاندان بھی شامل رہے جنھیں صوبائی درباروں میں جگہ ملی، قانون ساز کونسلوں، ڈسٹرکٹ بورڈز اور پھر اسمبلیوں میں بھی۔ کچھ تو اعزازی مجسٹریٹ بنے، کچھ ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر اور ریونیو کلیکٹرز بھی۔ بلکہ ایک واقعہ یاد آگیا جب انگریز اپنی مرضی سے ایک پیر بنانے نکلے تھے۔ مگر وہاں انٹری ہوگئی، سوریا بادشاہ کی۔

ہوا کچھ یوں کہ سوریا بادشاہ کے والد یعنی پانچویں پیر پگارا انتقال کر گئے تھے اور انگریز پیر پگارا کے اُس بیٹے کو پیر بنانا چاہتے تھے جو ان سے مفاہمت رکھتا تھا۔ پانچویں پیر پگارا کی لاش برآمدے میں رکھی تھی، انگریز بس پہنچنے ہی والے تھے کہ مریدوں نے مرحوم کے چھوٹے بیٹے یعنی بارہ سال کے صبغت اللہ شاہ راشدی کو پگ پہنا دی۔

پاکستان کے پیر خانوں کی بات ایک نئے نویلے پیر کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔

2018 کے الیکشن میں اچانک ایک پارٹی سامنے آتی ہے۔ قومی اسمبلی میں 141 اور صوبائی اسمبلی میں 263 امیدوار کھڑے کرتی ہے۔ اور عجب یہ ہوا کہ ملک بھر سے کل 22 لاکھ 34 ہزار 265 ووٹ بھی مل جاتے ہیں۔ یہ قومی اسمبلی میں اور پاکستان کی پانچویں بڑی جماعت بنی، پنجاب میں تیسری سب سے بڑی پارٹی رہی۔ یہ ہے خادم حسین رضوی کی تحریکِ لبیک پاکستان یعنی ٹی ایل پی۔

یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ٹی ایل پی کو ووٹ فقط ایک نعرے کے بدلے ملتا ہے۔ اپنا زور دکھانے کے لیے یہ پارٹی دھرنا، جلاؤ گھیراؤ کی سیاست بھی کرتی ہے اور عجب یہ کہ مطالبہ پورا ہوئے بغیر اچانک دھرنے اور پُر تشدد واقعات ختم بھی ہو جاتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں پیروں کی ایک طویل فہرست اب بھی باقی ہے۔

پیر آف قمبر، اوچ شریف، کوٹ مٹھن، حجرہ شاہ مقیم، پیر موہڑہ شریف وغیرہ وغیرہ اور ان میں سے کئی ہیں جو ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ سیاسی کنکشن رکھتے ہیں۔ صرف وسطی پنجاب میں 25 مزارات ہیں ایسے جو براہ راست سیاست میں ہیں یعنی لوگ مزارات کو محبت دیتے ہیں، عزت دیتے ہیں، پیسہ دیتے ہیں اور ووٹ بھی۔ لیکن عملاً یہ حال ہے کہ یہ پیر اور ان کے خاندان نہ ہی تعلیم کے فروغ کے لیے کوئی عملی کام کرتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کے لیے۔ معروف مؤرخ کے عزیز کے الفاظ میں تعلیم تو ان کے لیے ایک طاعون ہے، جسے وہ اپنے ریوڑ میں پھیلانا نہیں چاہیں گے۔

اب زمانہ بدل رہا ہے، دیہی علاقوں کی طاقت وہ نہیں رہی، جدید شہری روایات زور پکڑتی جا رہی ہیں، جن کی وجہ سے ان گھرانوں کے اثرات میں کمی آنے لگی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اِن سیاسی گدیوں کی پاور کے بس آخری سال باقی رہ گئے ہوں۔

جو اصل کام تھا، وہ تو ویسے ہی صدیوں پہلے آبا و اجداد میں کسی بزرگ کا تھا۔ باقی اولادوں نے تو اس کام کا صرف اور صرف فائدہ ہی اٹھایا ہے۔ انھوں نے مزار بنائے، گنبد تعمیر کرائے، چادر بچھائی، لنگر خانے کھلوائے اور ان سب چیزوں کے لیے چندہ جمع کیا۔ یوں یہ ایک مستقل کاروبار بن گیا، صدیوں پر پھیلا ہوا اور کئی نسلوں کو کما کر دینے والا کاروبار جس میں ہر آنے والا بیٹا ہی گدی نشین بنتا ہے۔ عزت کردار کی نہیں، نسل کی ہونے لگی۔ یوں گدی ملوکیت کی صوفیانہ قسم بن گئی۔ مختصر یہ کہ پیر رہ گئے، فقیر نکل گئے!

شیئر

جواب لکھیں