ملک بنے ہوئے صرف 9 سال ہوئے ہیں اور سب سے بڑی عدالت یہ بات مان رہی ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک نہیں۔ جی ہاں! وطنِ عزیز میں یہ بھی ہو چکا ہے۔

پاکستان داستان ہے دو نظریات کی۔ ایک نظریہ، جس نے ملک بنایا یعنی دو قومی نظریہ اور دوسرا نظریہ جس نے اس کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں۔ یہ دوسرا نظریہ کون سا تھا؟ اس کا خواب کس نے دیکھا تھا؟ اس کا ذکر ہوگا آج!

آج میں آپ کو پاکستان کا عدالتی نظام اور اس کے کچھ ایسے فیصلوں کی کہانی سناؤں گا، جنہوں نے جمہوریت کا گلہ گھونٹا اور آمریت کے لیے راستہ بنایا۔

11 نومبر 1954

ایک شخص برقع پہن کر رکشے میں بیٹھتا ہے اور سندھ چیف کورٹ، میں داخل ہو جاتا ہے، جسے سندھ ہائی کورٹ کہتے ہیں۔ یہ شخص کوئی چور ڈاکو نہیں تھا، اسے تو بس انصاف چاہیے تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا اسے عدالت میں پیش ہی نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ اس کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی ہو رہی تھی۔ یہ کوئی عام آدمی نہیں تھا۔ اس بندے کا نام تھا مولوی تمیز الدین، جو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر تھے۔

سینیئر وکیل خواجہ نوید بتاتے ہیں:

Unfortunate دور جو تھا، وہ تھا ہماری جوڈیشری کا ہمارے لیے جسے بلیک دور کا نام دیا گیا ہے، وہ شروع ہوتا ہے مولوی تمیز الدین کیس سے۔ مولوی تمیز الدین کیس کیا تھا؟ کہ اس وقت گورنر جنرل تھے۔ غلام محمد اور ان کو جب پتہ چلا کہ اسمبلی ان کے خلاف no confidence کر رہی ہے تو ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ اسمبلی توڑ دیں۔ انھوں نے اسمبلی توڑ دی کہ نہ اسمبلی ہوگی اور نہ ہی no confidence کا ووٹ ہوگا۔ اس وقت قانون بھی تھا، جو اب بھی ہے کہ جب ایک دفعہ جب نو کانفیڈینس کا نوٹس آ جاتا ہے تو اس کے بعد اسمبلی نہیں ٹوٹتی، اس وقت مولوی تمیز الدین صاحب اسپیکر تھے۔ انھوں نے تب پٹیشن داخل کی سندھ ہائی کورٹ میں۔ تب اس وقت بھی حالات ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں، پٹیشنر کا عدالت میں آنا ناممکن تھا اور تب مولوی تمیز الدین صاحب برقع پہن کر ہائی کورٹ میں آئے اور وہاں انھوں نے برانچ میں پٹیشن درج کروائی اس طرح یہ پٹیشن کورٹ میں لگ گی۔

چیف کورٹ نے مولوی تمیز الدین مقدمے کی سماعت کی اور پھر گورنر جنرل غلام محمد کے حکم کو ناصرف کالعدم قرار دیا، بلکہ آئین ساز اسمبلی کو بھی بحال کر دیا۔ مگر راستہ نکالنے والے تو کہیں سے بھی راستہ نکال لیتے ہیں۔ پھر کیا تھا؟ گورنر جنرل غلام محمد فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلے جاتے ہیں۔ مولوی تمیز الدین کا مقدمہ ان کے وکیل ڈی ایم پرٹ کے ہاتھوں میں تھا اور غلام محمد کی وکالت سر آئیور جیننگز کر رہے تھے۔ آپ کو حیرت ہوگی گورنر جنرل نے وکیل کو جو فیس دی تھی، وہ اس وقت کے چیف جسٹس کی تنخواہ سے بھی سات گنا زیادہ تھی۔ دوسری طرف بیچارے مولوی تمیز الدین کے پاس وکیل کو دینے کے لیے بڑی رقم نہیں تھی، اس طرح ان کی وکالت کی آئی آئی چندریگر نے۔

خواجہ نوید مزید بتاتے ہیں:

اب حکومت نے اس آرڈر کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں داخل کی کیونکہ یہ ہائی کورٹ کا آرڈر تھا اور اس کی اپیل سپریم کورٹ جاتی ہے۔ وہاں جسٹس منیر صاحب تھے۔ انھوں نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد اس آرڈر جو ختم کر دیا اور گورنر غلام محمد کا آرڈر برقرار ہو گیا اور اسمبلی ٹوٹ گئی۔ وہاں سے حالات خراب ہونا شروع ہو گے اور وہاں سے جسٹس منیر صاحب کی تنقید اخباروں میں بھی ہوئی عوام میں بھی ہوئی وکلا نے بھی کی، وہ آج تک چل رہا ہے جب ہم طالب علم تھے ہم نے جسٹس منیر کی کتابیں بھی پڑھیں لیکن جب ان کا یہ ججمنٹ آیا تو ان کی ساری قابلیت وہ زیرو ہو گئی۔

اب ذرا پکچر کو تھوڑا کلیئر کرتے ہیں۔

یہ جو کہانی ہے اس کے تین کردار تھے، یہ ایسی معلومات ہے جو آپ کو اور مجھے بھی مطالعہ پاکستان میں نہیں پڑھائی گئی۔ تو مولوی تمیز الدین کو کھڈے لائن لگانے والے تین کردار تھے: گورنر جنرل غلام محمد، جسٹس محمد منیر اور جنرل ایوب خان۔ جب پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبد الرشید ریٹائر ہوئے تو سینیارٹی کے اعتبار سے بنگالی جج جسٹس اے ایس ایم اکرام کی تقرری کی تیاری ہوتی ہے۔ مگر اس تقرری پر گورنر جنرل غلام محمد اور جنرل ایوب خان بالکل خوش نہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب جنرل ایوب اور جونیئر جج جسٹس منیر کا بڑا یارانہ تھا۔ دونوں کی ملاقاتیں بھی خوب تھیں بلکہ یہ مل کر شکار پر بھی جاتی تھیں۔ اور پھر ججز کو مینیج کیا جاتا ہے اور بنگالی جج اے ایس ایم اکرام کا راستہ روک کر جونیئر جج جسٹس منیر کو چیف جسٹس بنا دیا جاتا ہے۔ یوں گورنر جنرل غلام محمد، جنرل ایوب اور جسٹس منیر کی ٹرائیکا گویا اپنی کمپنی بنا لیتی ہے۔ اور یہیں سے پاکستان کے مستقبل کا منظرنامہ طے پایا جاتا ہے اور "ملک کے وسیع تر مفاد میں" نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ وہی نظریہ، جس نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں۔۔۔

ملک کے قیام کے صرف نو سال بعد۔ مولوی تمیز الدین کیس کی سماعت کے دوران ہی۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے جج جسٹس منیر کہتے ہیں کہ پاکستان ایک آزاد ملک نہیں۔ برطانوی کراؤن کے نمائندے گورنر جنرل غلام محمد ہی سب کچھ ہیں۔ ان کے سامنے پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ اسمبلی سالوں کی مشقت کے بعد کوئی قانون بنا بھی دے تو بادشاہ کے نمائندے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھنک دے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور قانون دان حامد خان اپنی کتاب "کانسٹی ٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان" میں لکھتے ہیں:

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جسٹس منیر بطور جج قابلیت اور علمی اعتبار سے بہت آگے تھے، لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک ہوتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مولوی تمیز الدین کیس تو اسمبلی کی تحلیل کے خلاف انصاف حاصل کرنے کا سیدھا سا مقدمہ تھا۔

غلام محمد کا قدم بالکل غیر قانونی تھا، جس کے بعد جسٹس منیر نے جو فیصلہ سنایا، اس کے نتائج بڑے سنگین ہوئے۔ اسمبلی بھی ٹوٹی اور ملک کے 46 قوانین بھی کالعدم ہو گئے۔ اس کی وجہ سے کارِ ریاست بُری طرح سے متاثر ہوئے اور ملک بڑے بحران میں چلا گیا

پھر صورتحال کو سنبھالنے کے لیے ایک ہنگامی آرڈینینس جاری ہوتا ہے اور گورنر جنرل غیر معمولی اختیارات لے کر ملک کا مزید بیڑا غرق کر دیتے ہیں۔ حامد خان کہتے ہیں کہ اُس وقت بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ اس ساری کارروائی میں فوج کی تائید شامل تھی کیونکہ چیف جسٹس منیر کے فیصلہ کے بعد گورنر جنرل غلام محمد کی جانب سے جو کابینہ بنائی گئی، اس میں کمانڈر اِنچیف ایوب خان کو وزیرِ دفاع کا عہدہ دیا گیا۔

"نظریہ ضرورت" کی بنیاد تو خیر مولوی تمیز الدین کیس میں ہی رکھی جاچکی تھی مگر قانون کے کچھ ماہرین کہتے ہیں 1958 میں جسٹس منیر نے ایک اور فیصلہ کیا جس نے پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کی راہ میں پہاڑ جیسی رکاوٹ ڈالی۔ ڈوسو کیس میں تو یہ نظریہ ضرورت کھل کر سامنے آ گیا۔ لیکن یہ ڈوسو کیس کیا تھا؟ یہ وہ کیس تھا، جس نے اسکندر مرزا کے مارشل کو ناصرف ان ڈائریکٹ چیلنج دیا بلکہ بری طرح سے ایکسپوز بھی کر دیا۔ یہ پاکستان کا پہلا مارشل تھا جو 7 اکتوبر1958 کو لگا۔

پاکستان کا عدالتی نظام اور ڈوسو کیس

پاکستان کا سب سے پہلا آئین 1956 میں بنا۔ اس کے بعد پہلا constitutional کیس یہی ’’ڈوسو کیس‘‘ تھا۔ یہ ڈوسو کسی انگریز کا نام نہیں، وہ بلوچستان کے ڈسٹرکٹ لورالئی کا ایک عام آدمی تھا، جس کے ہاتھوں 1958 میں ایک شخص کا قتل ہو جاتا ہے۔ لوگ اسے پکڑ کر جرگے میں لے جاتے ہیں، جو 1901 میں دیے گئے گورے کے قانون یعنی فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) کے مطابق اسے موت کی سزا سنا دیتا ہے۔

‏1956 کے آئین سے پہلے یہ قبائلی علاقوں پر یہی قانون لاگو ہوتا تھا۔ آئین کیونکہ نیا نیا بنا تھا، مکمل implementation بھی نہیں ہوئی تھی، اس لیے قبائلی علاقوں میں یہی قانون چل رہا تھا۔ ایف سی آر قانون تھا بڑا سخت، اس میں متاثرہ آدمی کی بات زیادہ سنی جاتی تھی، دوسرے فریق کی نہیں۔

جب ڈوسو کے رشتہ داروں کو پتہ چلا کہ ملک میں تو آئین بن چکا ہے، تو انھوں نے اسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یوں یہ کیس آ گیا لاہور ہائی کورٹ میں۔ جو آرٹیکل 5 اور 7 کے مطابق ڈوسو کی سزا ختم کر دیتی ہے۔ لیکن پکچر ابھی باقی ہے!

اس فیصلے کے بعد ایک نیا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔ ایک نیا سوال جنم لیتا ہے کہ 56 کے آئین کے مطابق جرگوں نے جو بھی فیصلے سنائے، وہ سب غیر قانونی اور غلط ہو گئے۔ اب صورتحال بڑی نازک ہو چکی تھی۔ بات یہیں نہیں رکتی۔

فیڈرل گورنمنٹ سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ سپریم کورٹ ڈوسو کیس کی ہیئرنگ کے لیے 13 اکتوبر 1958 کو فیڈرل گورنمنٹ اور لاہور ہائی کورٹ کو طلب کرتی ہے۔ مگر 7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا ملک میں مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی 1956 کا آئین ختم ہو گیا۔

اب ملک ایک عبوری نظام کے چلایا جاتا ہے۔ اس سچویشن نے سپریم کورٹ کو بری طرح سے کنفیوز کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے ڈوسو کیس کا فیصلہ 1956 کے آئین کے مطابق سنایا تھا۔ اب اگر سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تو 1956 کا مرا ہوا آئین زندہ ہو جاتا اور مارشل لا آٹو میٹک غلط ثابت ہو جاتا۔

اب سپریم کورٹ بند گلی میں ہے۔ ڈوسو کیس اس کے گلے کی ہڈی بن جاتا ہے مگر حل نکالنے والے حل نکال ہی لیتے ہیں، یہاں ایک بار پھر جسٹس منیر آ جاتے ہیں اور نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ اگر ڈوسو کیس 7 اکتوبر سے پہلے آ جاتا تو شاید جسٹس منیر اتنی بری طرح ایکپسوز نہ ہوتے۔

خیر، جسٹس منیر نے اس مارشل لا کو ایک انقلاب کا درجہ دیتے ہوئے legalize کر دیا۔ یوں سمجھ لیجیے ملک میں پہلے مارشل لا پر سپریم کورٹ کی طرف سے مہر ثبت ہو گئی۔

سینیئر ایڈوکیٹ اختر حسین بتاتے ہیں:

دیکھیں، نظریہ ضرورت کا کبھی فائدہ نہیں ہو سکتا، یہ ہوا ڈوسو کیس سے۔ ڈوسو بلوچستان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کو فرنٹ ائیر کرائم ریگولیشن ایکٹ کے تحت سزا سنائی جاتی ہے اور اس سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ ہائی کورٹ نے ان کی پٹیشن الاؤ کی اور سپریم کورٹ میں منیر صاحب نے اس ججمنٹ کو ڈسمس کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ لا کونٹینینس آرڈر ہے، اس کی اہمیت ہے اور مارشل لا سکسیس فل ہے۔ اس طرح نظریہ ضرورت جسٹس منیر نے بنایا۔ یہاں سے آپ نے مارشل لا کی بنیاد رکھ دی۔ پاکستان میں جوڈیشل کرائسز کی وجہ ’’نظریہ ضرورت‘‘ ہے۔

اب تک کی اسٹوری میں جن تین کرداروں کا نام بار بار آیا ہے، انھوں نے ناصرف مغربی پاکستان کا بیڑا غرق کیا بلکہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی بنیادیں بھی رکھیں۔ ججز، جرنیلز اور پولیٹیشنز کا ٹرائیکا کیسے بنتا ہے؟ یہ سبق بھی انھی تین کرداروں نے پڑھایا۔

اختر حسین مزید کہتے ہیں:

جسٹس منیر نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایوب خان نے مجھے کہا تھا کہ صاحب! اگر آپ ایسٹ پاکستان کے لیڈر سے جا کر ملیں اور کسی طرح سے راستہ نکالیں کہ ہم ایسٹ پاکستان سے کس طرح جان چھڑوا سکتے ہیں۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ایسٹ پاکستان کی علیحدگی کا جو مسئلہ ہے، وہ خود ویسٹ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور فیوڈل کلاس، وہ ایسٹ پاکستان کو الگ کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ اسے وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔

یحیی خان کا جو مارشل لا ہے، اس مارشل لا کے لیگل فریم ورک آرڈر کو اگر آپ پڑھ لیں تو اس کی ایک شق ایسی ہے کہ جو خود مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔ مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ ون یونٹ توڑ دو اور فیڈرل اسٹیٹ قائم کرلو اور پرووینشنل اٹانمی دو تو اس پرووینشنل اٹانمی کا ایشو کے اوپر آکر ایک اور مارشل لا پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔ یحیی کے مارشل لا نے پہلا کام یہ کیا کہ ون یونٹ توڑ دیا اور ون مین ون ووٹ ایکسیپٹ کیا اور کہاں کہ صاحب ون مین ون ووٹ کی بنیاد کے اوپر الیکشن ہوں گے۔

آپ کے شیخ مجیب الرحمن نے 6 پوائنٹ دیے۔ اب میکسی مم 6 پوائنٹ کی بنیاد آپ نے خود فراہم کی۔ ان کی پوائنٹس کی بنیاد پر الیکشنز ہوئے اور ان پوائنٹس کی بنیاد پر انھوں نے الیکشن جیت لیا۔ تو پھر آپ کیسے کہ سکتے ہیں یہ وہ 6 پوائنٹس پر کانسٹی ٹیوشن نہیں بنائی؟

اس لیگل فریم آرڈر میں یحیی صاحب نے ایک پروویژن رکھی کہ اگر آئین ساز اسمبلی نے آئین پاس کر دیا لیکن صدر صاحب نے اگر اسے منظور نہ کیا، یعنی ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا، تو آئین ساز اسمبلی توڑ دی جائے گی۔

تو نتیجہ تو پھر ایسٹ پاکستان کی علیحدگی ہی تھا۔ تو مغربی پاکستان کا جاگیر طبقہ اور اسٹیبیشمنٹ ایسٹ پاکستان سے جان چھڑوانا چاہتی تھی۔ یہ بات منیر نے اپنی کتاب ایوب خان کے وقت بھی لکھی ہے کہ ایوب چاہتے تھے کہ ایسٹ پاکستان اس طرح سے الگ ہو۔ اس وقت وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے ایسٹ پاکستان کی لیڈر شب سے بات کی تو انھوں نے کہا کے میجورٹی میں ہم ہیں یا آپ ہیں؟ ہم مجورٹی میں آپ سے زیادہ ہیں اور اگر پاکستان کی مینورٹی الگ ہونا چاہتی ہے تو ہوجائے۔

تو ‏1956 کے آئین کو جس طرح بے آئین کیا گیا، اس کے بعد تو منہ کو ایسا خون لگا کہ آمر چاہتا تو دن کو رات کہتا اور سیاہ کو سفید۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح بھی سیاسی زندگی میں واپس آئیں تو ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ 1956 کا آئین بحال کروائیں گی اور واپس چلی جائیں گی۔ مگر ایسا نہ ہوا، کیونکہ ایوب خان ایسا چاہتے ہی نہیں تھے۔ اسی لیے انھوں نے آئین میں اپنی من مرضی کی ترامیم کروانا چاہیں۔ مقصد تھا کہ نیا صدر آنے تک اقتدار خود ایوب خان کے ہاتھ میں رہے۔ مگر قومی اسمبلی کی میجارٹی ان ترامیم کے حق میں نہیں تھی۔پھر کیا تھا؟ دھونس، دھاندلی اور لالچ کے ذریعے حزب اختلاف کے 8 اراکین کو ساتھ ملا لیا گیا۔

یہ سب ہونے سے پہلے ایوب خان نے سیاسی جماعتوں سے متعلق ایکٹ میں خود یہ شرط رکھوائی تھی کہ اگر قومی یا صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن اپنی جماعت سے الگ ہوگا تو اسے اسمبلی کی نشست بھی چھوڑنا پڑے گی۔ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ان 8 بھگوڑوں میں سے ایک کو تو لاہور ہائی کورٹ کا جج بھی بنا دیا گیا۔ بس کیا کہیں؟ ایوب خان ہے تو ممکن ہے۔

اختر حسین بیان کرتے ہیں:

اس وقت ہم کہتے تھے ایوب خان فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہے، یعنی تمام راستے presidency میں جاتے ہیں، تمام پاورز presidency میں ہیں۔ بیرسٹرز وہ بناتے تھے، ججز وہ بناتے تھے۔

ایک واقعہ آپ کو بتاتا ہوں۔ ایوب خان کا ایک بیٹ مین تھا، حوالدار تھا، اس کا بیٹا وکیل بن گیا۔ وہ بیٹ مین ایوب کے پاس گیا اور کہا کہ میرے بیٹے کو جج بنا دیں۔ تو انھوں نے لا سیکریٹری کو کہا کے اس کے بیٹے کو جج بنا دو۔ انھوں نے اس کو ہائی کورٹ کا جج بنا دیا اور نوٹس جاری ہو گیا۔ جب بیٹے کو پتا چلا کہ وہ ہائی کورٹ کا جج بن گیا ہے تو اس نے کہا کہ میں نے تو سِول جج کے لیے کہا تھا، ہائی کورٹ کے جج کا نہیں کہا تھا۔ وہ پھر بات president تک جاتی ہے تو president نے کہا کہ میں تو ہائی کورٹ کا ہی جج بناتا ہوں، سِول کا تو نہیں۔ تو پھر لا سیکریٹری کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ اس کو سمجھاؤ اور پھر لا سیکریٹری نے کہا کے لکھو I agree، تو اس طرح اس نے لکھ دیا I agree۔ تو پھر انھوں نے کہا کہ اب تم ہائی کورٹ کے جج کے لیے فٹ ہو۔

یعنی president کی تب یہ طاقت تھی گو کہ آئین میں تو لکھا ہوا تھا کہ president کنسلٹ کرے گا چیف جسٹس سے آف پاکستان سے۔ پھر صوبے میں صوبائی چیف جسٹس اور پھر گورنر سے لیکن تمام طاقتیں ایوب خان کے ساتھ تھیں تو اس طرح ایوب خان جو چاہتے تھے وہ ہی کرتے تھے۔

پاکستان کی تاریخ بہت تلخ ہے، مگر اس سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کیونکہ یہ تاریخی واقعات ہی ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کو ایکسپوز کرتے ہیں۔

مارشل لا کی ٹوپی

کیا آپ جانتے ہیں اس ملک میں غیر فوجی قائدین نے بھی فوجی عہدوں کا حلف اٹھایا اور مارشل لا کی ٹوپی پہن لی؟ جی ہاں، جب 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان نے ہتھیار ڈال دیے اور قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا تو کچھ دن بعد ہی 20 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹر بن گئے اور غلام مصطفی کھر نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر زون اے (پنجاب) کا حلف اٹھایا۔

کیا یہ درست تھا؟ کیا جمہوریت کا نعرہ لگانے والے یوں مارشل لا کے اختیارات کا حلف اٹھاتے ہیں؟ کیا اس طرح سے سیاست دان خود مارشل لا کو جائز اور محترم نہیں بناتے؟ جی ہاں یہی وہ ٹرائیکا ہے، جس کا ذکر میں پہلے دو بار کر چکا ہوں۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

ویسے تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سب ایسے ہی ممکن نہیں ہوا تھا۔ تب جناب ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے لیے پہلے اقلیم اختر رانی سے ملتے تھے تاکہ جنرل محمد یحییٰ خان سے ملاقات کے لیے سفارش کروائیں۔

اقلیم اختر ’’جنرل رانی‘‘ کے نام سے مشہور تھیں، جو بتاتی ہیں کہ غلام مصطفیٰ کھر بھی کئی کئی گھنٹے ان کے پاس بیٹھ کر گپ شپ لگاتے تھے، ان کی لکھی ہوئی نظمیں سنتے، جن میں ایک نظم وہ بھی تھی جس میں اقلیم اختر نے جنرل یحییٰ خان کے صدر بننے کی پیش گوئی کی تھی۔خیر، اقلیم اختر کی کہانی بڑی لمبی ہے، وہ پھر کبھی سہی۔

تو ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل رانی، میرا مطلب ہے اقلیم اختر سے، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے لیے سفارشات کی تھیں۔ اسی طرح ضیاء الحق نے بھی آرمی چیف کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلے۔

چلیں، ایک واقعہ آپ سے شیئر کروں۔ بھٹو صاحب کے گھر میں ایک ملازم تھے نور محمد، وہ اصل میں ضیاء الحق کے مخبر تھے۔ ایک بار ضیاء الحق نور محمد کے ساتھ لاڑکانہ میں بھٹو کے والد کی قبر پر گئے۔ وہاں جا کر خود جھاڑو لگاتے ہوئے نور محمد سے کہا کہ یہ بات اپنے صاحب کو ضرور بتانا۔ یہی نہیں، ضیاء الحق نے ایک بار اپنے رومال سے ذوالفقار علی بھٹو کے جوتے بھی صاف کیے، جس پر ذوالفقار علی بھٹو اکڑ گئے اور اپنے پاؤں اوپر کرتے ہوئے کہا، جوتے ٹھیک سے صاف کرو۔ بھٹو کو کیا پتا تھا کہ یہی ضیاء الحق آرمی چیف بننے کے بعد ان کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لیں گے۔

جب 1977 کے انتخابات ہوئے تب متحدہ اپوزیشن نے ذوالفقار علی بھٹو پر دھاندلی کا الزام لگایا۔ اپوزیشن کی تحریک اتنی زور پکڑ گئی کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد بن گیا: پاکستان نیشنل الائنس، مختصراً پی این اے۔ اسی الائنس کو ضیاء الحق نے ایز اے ٹول استعمال کیا۔

پی این اے کی تحریک دھاندلی کے الزام سے شروع ہوئی اور پھر تحریکِ نظامِ مصطفیٰؐ بن گئی۔ یہاں تک کہ فوجی جوانوں نے مظاہرین پر پہلی بار گولی چلانے سے انکار کر دیا۔ صورتحال یہ ہو گئی کہ بریگیڈ کمانڈرز نے مستعفی ہونا شروع کر دیا یعنی لوگ جانیں دینا فرض سمجھ رہے تھے اور فوجی جوان جان لینا گناہ۔ صورت حال کشیدہ ہو گئی اور موقع کا فائدہ اٹھانے لگے ضیاء الحق۔ یہاں ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے مذاکرات شروع ہو گئے اور دو متضاد باتیں سننے کو ملیں۔ مذاکرات میں شامل پی این اے کے کچھ لوگوں کا کہنا تھا بھٹو صاحب نے ہمارے سارے مطالبات مان لیے ہیں جبکہ کچھ کا کہنا تھا انھوں نے ری الیکشن سے انکار کر دیا ہے۔

سینیئر وکیل خواجہ نوید بتاتے ہیں:

چار جولائی کی رات کو معاہدہ ہو گیا، پی این اے کی ٹیم کا اور بھٹو صاحب کی ٹیم کا، نئے الیکشن کروانے کا۔ تو وہ جو چھ کے چھ مطالبے تھے، انھوں نے منظور کرلیے اور یہ سوچ کر کہ اب اس بات کے بعد تحریک ختم ہوجائے گی۔ چار جولائی کی رات کو یہ بات کر کے آگئے اور پرائم منسٹر ہاؤس میں اس میں جشن ہو رہا تھا۔ اس جشن میں یہ سب شریک تھے۔ حفیظ پیرزادہ صاحب، ممتاز بھٹو صاحب، کوثر نیازی صاحب اور خود بھٹو صاحب تھے تو اس رات جب یہ پارٹی منا کر جب گھر گئے اس کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہر گھروں سے ٹیلی فونز کی لائینز کاٹ دی گئیں۔ اس پر مولانا کوثر نیازی صاحب نے کتاب بھی لکھی ہے ’’اور لائن کٹ گئی‘‘۔ ادھر سے پرائم منسٹر ہاؤس کی ساری لائینز کاٹ دی گی۔

پھر بھٹو صاحب کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور ان کو یہ نام دیا گیا کہ ’’یہ مری کے مہمان ہیں‘‘۔ صبح کی خبریں تھیں سب سے پہلی خبر یہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا معاہدہ ہو گیا ہے مگر حیران کر دینی والی بات یہ ہے کہ جیسی ہی معاہدہ والی خبر ختم ہوئی تو نیوز کاسٹر نے اگلی خبر نشر کی کہ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ پاکستان میں مارشل لا لگ گیا ہے اور جنرل ضیاء الحق نے ٹیک اوور کر لیا ہے۔

یہاں ایک بار پھر شروع ہوا عدلیہ کا امتحان۔ اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عدلیہ فیل ہی ہوئی۔ سب ججز نظریہ ضرورت کی بنیاد پر پی سی او کا حلف اٹھاتے ہیں، ماسوائے جسٹس فخر الدین کے۔

حلف عارضی، لیکن اقتدار گیارہ سال کا۔جنرل ضیا نے مذہب کارڈ کا خوب استعمال کیا۔ وفاقی شرعی عدالت سے قانون ساز ادارے کا کام لیا۔ سب اچھا چل رہا تھا، آمر بھی خوش اور ججز بھی۔

اختر حسین اس بارے میں کہتے ہیں:

آپ PAKISTAN MANUAL OF MILITRY LAW دیکھیں، اس کے شروع میں لکھا ہوا تھا (شاید اب یہ بات نکال دی ہو، میرے پاس وہ پرانی کتاب موجود ہے) اس کتاب میں ضیاء الحق صاحب کہتے ہیں کہ میں حلف لیتا ہوں کے 90 دن کے اندر اندر الیکشن کرواؤں گا اور میرا مقصد صرف الیکشن ہی کروانا ہے۔

اب آپ دیکھیں ایک آدمی حلف لیتا ہے الیکشن کروانے کے لیے وہ 90 دن کیا نو سال تک حکمران رہتا ہے۔ ساتھ اس نے مذہب کو استعمال کرنا شروع کر دیا سوشل چینج کے لیے پھر انھوں نے فیڈرل شریعت کورٹ بنا دی۔ اب آپ فیڈرل شریعت کورٹ کو بھی دیکھ لیں کہ فیڈرل شریعت کورٹ انھوں نے قائم کی۔ ہمارا اسلامک کانسٹی ٹیوشن جو ہے سکیم آف اسلامک کانسٹی ٹیوشن 1973 کا تو اس میں یہ بات ہے کہ THERE WIL BE A ISLAMIC IDEAOLGY COUNCIAL اس اسلامک آئیڈیا لوجی کونسل کے اندر مختلف علما ہوں گے مختلف مکتبہ فکر کے اور وہ مختلف قوانین کی STUDY کریں گے اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی قانون قرآن اور اسلام سے متصادم ہے تو وہ پارلیمنٹ کو بھیج دیں گے، صدر کے ذریعے سے قانون سازی کے لیے۔

یہاں پارلیمنٹ کی بقا قائم ہے یعنی قانون سازی کی پاور پارلیمنٹ کی ہی ہے مگر فیڈرل شریعت کورٹ کے اندر انھوں نے ایک یہ بھی شق رکھی کہ ایک تو وہ ہیں جو حدود آرڈینینس کے خلاف اپیل کا اختیار ہے اور دوسرا یہ کہا کہ اگر کوئی قانون یا قانون کی کوئی شق اسلام سے متصادم ہے تو وہ فیڈرل شریعت کورٹ از خود یا کوئی پٹیشن فائل کر کے چیلنج کرسکتا ہے اور وہ جو ججمنٹ دیں گے وہ ججمنٹ تین ماہ کے اندر یعنی کوئی قانون اگر کسی اسلام سے متصادم ہے تو وہ پارلیمنٹ کو کہیں گے کہ تین ماہ یا چھ ماہ میں آپ اس کی ترمیم کر دیں اگر وہ نہیں ترمیم کرتی تو IT SELF BECOME A LAW۔

ہم نے جو قانون کی بنیاد پڑھی ہے وہ تو یہ ہے کہ کورٹ بس INTERPETION کرتی ہے legislation نہیں کرتیں LEGISLATION کا کام تو صرف پارلیمنٹ کا ہی ہے مگر یہاں قانون سازی کی پاور لے کر شریعت کورٹ کو دے دی گی کہ شریعت کورٹ کا فیصلہ ملک کا قانون ہوجائے یہ سب ضیاء الحق نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کیا آج تک اس شرعی عدالت نے سود کا مسئلہ تو حل نہیں کیا لیکن اس کورٹ نے لینڈ ریفارمز کو کہا کے یہ اسلام کے خلاف ہے یعنی مذہب کو جاگیردارانہ سسٹم کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔

بھٹو کی پھانسی

پھر بھٹو کی پھانسی میں بھی عدلیہ نے جو کردار ادا کیا، اس پر ہمیشہ سوال اٹھتا ہے اور الزام ضیاء الحق پر بھی آتا ہے کیونکہ انھوں نے جنرل ایوب کی طرح اپنی مرضی کے ججز تعینات کر رکھے تھے۔ ماہرِ قانون حامد خان ایڈوکیٹ اپنی ایک کتاب "پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ" میں لکھتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے بینچ میں صرف ان ججز کا انتخاب کیا جو بھٹو سے شدید نفرت کرتے تھے۔ ان میں ذکی الدین پال، بھٹو کے سخت مخالف تھے جبکہ آفتاب حسین، مولوی مشتاق کے اپنے خاص آدمی تھے۔ باقی دو ججز اختلافی فیصلے نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔ مولوی مشتاق کا تو بھٹو سے کوئی ذاتی عناد اور نفرت تھی، جس کا فائدہ ضیاء الحق نے اٹھایا۔ یوں لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔

اس فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت چھ فروری 1979 کو سپریم کورٹ میں ہوتی ہے جو چار اور تین کے تناسب سے ہائی کورٹ کی سزا بحال رکھتی ہے۔ اس بینچ میں جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے کسی بھی کارکن سے پوچھ لیں، وہ کہے گا کون جسٹس نسیم؟ وہ بزدل جسٹس؟ جی ہاں! انھوں نے بھٹو کی پھانسی کی توثیق کی تھی۔ ایک بار جسٹس نسیم شاہ سے پوچھا گیا آپ کی ذاتی رائے تو یہ تھی کہ بھٹو کی سزا میں کمی ہو سکتی ہے اور ان کا کیس بڑا مضبوط تھا؟ تب ان کا جواب تھا:

مجھے اس فیصلہ کے بعد افسوس رہا۔ بھٹو صاحب کو شک کا فائدہ ملنا چاہے تھا۔ کم از کم ان کی جان تو بچ جاتی۔ میرے خیال میں اس میں تھوڑی سی ہماری کمزوری تھی۔

ایک بار تو انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ جج اتنے بہادر نہیں ہوتے کہ اپنی نوکری قربان کر دیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا عدالت میں رہنا ادارے اور قوم کے لیے بہتر ہے۔

کیونکہ اگر مجھے نکال دیا، میری جگہ کوئی ایسے ہی آگیا تو وہ جو بھی فوجی کہیں گے وہ کرتا رہے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ایک آدھ کیس، جس میں فوج زیادہ دلچسپی لیتی ہے، اس میں کچھ لچک دکھائی جائے مگر اپنی سیٹ بچا لی جائے۔

12 اکتوبر 1999

کولمبو ائیر پورٹ سے پی آئی اے کی پرواز کراچی کے لیے اڑان بھرتی ہے۔ اس جہاز میں پاکستان کے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود ہیں۔ کم از کم جہاز کے پائلٹ اور مسافروں کے لیے، اور خود اپنے لیے بھی، وہ چیف آف آرمی اسٹاف ہی تھے لیکن وفاق کے ایک قانونی مگر غیر معمولی حکم نامے کے مطابق وہ ان دونوں عہدوں سے ہٹا دیے گئے تھے۔ اس تبدیلی کی خبر ٹیلی ویژن پر اچانک نشر ہوئی۔

اب سینیارٹی میں چوتھے درجہ پر موجود جنرل خواجہ ضیاء الدین چیف آف دی آرمی اسٹاف تھے۔ یہی نہیں، اس کے بعد ایک اور غیر معمولی حکم آیا کہ پی آئی اے کے طیارے کو پاکستان کے کسی بھی ہوائی اڈے پر اترنے نہ دیا جائے۔ یہ ایسا فیصلہ تھا، جس سے سازش کی بو آ رہی تھی، مگر یہ تمام سازشیں قانون کے لبادے میں لپٹی ہوئی تھیں اور پھر سازش کی کوکھ سے ایک اور سازش نے جنم لیا۔

ایک اور ہنگامی اعلان ہوا اور سول حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اب سازشی شیر خود پنجرے میں ہے یعنی نواز شریف حراست میں ہیں۔ آئین، قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں سب معطل۔ صرف پاکستان کا عدالتی نظام معمول کے مطابق کام کر رہا تھا، ہمیشہ کی طرح۔

‏13 اکتوبر کو خبریں شائع ہوتی ہیں کہ نئی حکومت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف ہیں۔ انھوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سعید الزمان صدیقی سے ملاقات کی اور نئے حکومتی ڈھانچے کے قانونی اور آئینی پہلوؤں پر مشورے بھی کیے۔ سعید الزمان نے اس پہلی ملاقات میں انہیں مشورہ دیا کہ وہ شریف الدین پیرزادہ سے رابطہ کریں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ شریف الدین پیرزادہ کون تھے؟ یہ تھی پاکستان میں ہر فوجی آمر کی بیساکھی۔ جی ہاں انھوں نے ہی ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو اقتدار میں رہنے کے آئینی اور قانونی راستے بتائے۔ دوسری زبان میں کہیں تو چور دروازے۔

‏14 اکتوبر کو ایمرجینسی کا فرمان اور پی سی او جاری ہوتے ہیں، جن میں ذکر کیا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کے جہاز کو کراچی اترنے کی اجازت نہیں دی گئی، اس لیے یہ ایک بحرانی کیفیت تھی۔ تو یہ فرمان بھی نظریہ ضرورت کی کڑی بن گیا۔ مگر تھوڑا فرق واضح کر دوں۔ پہلے جتنے بھی مارشل لا لگے ان میں مارشل لا کے نفاذ کا فرمان از خود BASIS OF POWER پر مبنی تھا مگر اس بار ایمرجینسی یعنی ہنگامی حالات کو جواز بنایا گیا۔

یہ سلسلہ آج تک رکا نہیں۔ پاکستان شاید دنیا کی واحد ریاست ہوگی جہاں آمروں، کرپٹ سیاست دانوں اور عدلیہ کا گھٹ جوڑ ہے، جو مل کر جمہوریت کا گلہ گھونٹتے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ کوئی نہیں جانتا۔

شیئر

جواب لکھیں