دوپہر کا وقت تھا، آسمان سے بھارتی طیارے پاکستان کے دل لاہور پر آگ برسا رہے تھے۔ کبھی دُور اور کبھی قریب گرنے والے بموں کی آوازوں سے پورا گھر لرز رہا تھا۔ سارے گھر والے ایک کمرے میں جمع ہو کر آیتِ کریمہ کا ورد کر رہے تھے، مگر۔۔۔۔ ’’وہ‘‘ وہاں نہیں تھا۔ ’’وہ‘‘ ایک گھنٹے سے اپنے بستر پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔ چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔ پھر ’’وہ‘‘ اچانک اٹھا، الماری سے اپنی رائفل نکالی اور دندناتا ہوا باہر چلا گیا۔

یہ واقعہ ستمبر 1965 کا ہے۔ لاہور میں افواہ گرم تھی کہ بھارتی پیراٹروپرز شہر میں اتر چکے ہیں۔ ہر طرف خوف تھا، بڑے بڑے لوگ گھبرائے ہوئے تھے لیکن تیرہ سال کا وہ بچہ لڑنا چاہتا تھا، اپنے وطن کے لیے مرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے جب محلّے میں اعلان ہوا کہ علاقے کے دفاع کے لیے رضاکاروں کی ضرورت ہے تو وہ بھی اپنی رائفل لے کر پہنچ گیا۔ جب بڑوں نے بچہ کہہ کر واپس بھیجا تو مجبوراً گھر واپس آنا پڑا۔ ماں نے اپنے لعل کو غصے میں دیکھا تو سینے سے لگا کر بیٹھ گئی۔ کوئی عام ماں ہوتی تو بچے کا غصہ ٹھنڈا کرتی، دل بہلانے کی باتیں کرتی مگر وہ کوئی عام ماں نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ آج تو اس کے بیٹے کو واپس آنا پڑا ہے لیکن زندگی کے ہر موڑ پر اسے خوفناک جنگوں کا سامنا ہوگا۔ اور لاکھ خواہش کے باوجود وہ ہر جنگ میں اس کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ انہیں اپنے بیٹے کو ان دیکھی لڑائیوں کے لیے تیار کرنا تھا۔۔۔۔ اسی لیے اس رات وہ اسے دیر تک ٹیپو سلطان کی کہانیاں سناتی رہیں جن میں سے ایک بات اس کے بچے کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئی:

شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

یہ مقام تھا زمان پارک، لاہور۔ ماں تھی شوکت خانم۔ اور ’’وہ‘‘ تھا عمران احمد خان نیازی۔

عمران خان کون؟

بیڈروم سے لے کر ڈریسنگ روم تک عمران خان کی زندگی کے بہت کم ہی پہلو ہیں جن کے بارے میں لوگ نہیں جانتے۔ مگر ہم آپ کو چند ایسی کہانیاں بتائیں گے جو شاید آپ نے پہلے نہ سنی ہوں۔ ویسے تو کسی بھی انسان کو ایک سانچے میں بند کرنا مشکل ہوتا ہے مگر عمران کے کیس میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔

مرشد عمران یا مرید عمران
صوفی عمران یا پلے بوائے عمران
اوکسفرڈ کا یا میانوالی کا عمران
جمائما کا یا بشریٰ بی بی کا عمران
شہزادہ عمران یا ملنگ عمران
بالر عمران یا بیٹسمین عمران

آخر عمران احمد خان نیازی کون ہے؟ چلیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

کبھی کبھی کیمرہ کچھ ایسے مناظر ریکارڈ کر لیتا ہے جو کبھی بھلائے نہیں جاتے۔ دہائیاں گزر جاتی ہیں مگر ان کا اثر کم نہیں ہوتا، جیسے انسان کا چاند پر پہلا قدم، صدام حسین کے مجسمے کا گرایا جانا، معمر قذافی کے اخری لمحات، ترکی کے ساحل پر ایلان کردی کا بے جان جسم اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملہ۔

ایسی ہی ایک وڈیو پاکستانی سیاست کے متعلق بھی ہے مگر اس وڈیو کی خاص بات یہ ہے کہ جب اسے ریکارڈ کیا گیا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ دس سیکنڈ کی وڈیو میں کہے گئے الفاظ کی گونج اگلے تیس سالوں تک دنیا بھر میں سنائی دے گی۔ مگر آفر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آفر کر کون رہا ہے۔ تھوڑا سا پیچھے چلتے ہیں۔۔۔۔۔

نواز شریف کوئی عام وزیرِ اعظم نہیں۔ وہ دو بار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ ملک کی تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد آئی جے آئی کے سربراہ بھی ہیں اور اس اتحاد کو طاقتور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ نواز شریف پچھلے دس سالوں سے اس اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے ترین سیاستدان ہیں۔ تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زبان تو نواز شریف کی ہے مگر اصل میں آفر کسی اور کی ہے۔

عمران نے اس آفر سے انکار کیوں کیا؟ وہی جانتے ہیں لیکن پھر چار سال بعد انھوں نے وہی کیا جو ان سے اچھا کوئی نہیں کرتا۔ انہیں یو ٹرن لے لیا۔ مگر عمران کی سیاست پر بات کرنے سے پہلے کچھ ذکر عمران خان کے غیر سیاسی کیرئیر کا۔

کرکٹر عمران خان

جون 1968۔ عمران خان کا لاہور سٹی کی کرکٹ ٹیم میں سلیکشن ہو گیا۔ چار بہنوں میں پلنے والے، ایچی سن کالج میں پڑھنے والے، انگریزی میڈیم عمران خان کو پہلی بار اپنے ایلیٹ ببل سے باہر نکلنا پڑا اور یہی آغاز تھا اُن کی زندگی کی پہلی جنگ کا۔ اپنی کتاب ’’پاکستان: اے پرسنل ہسٹری‘‘ میں وہ لکھتے ہیں:

لڑکے میرا مذاق اڑاتے، میں اُن میں آؤٹ سائیڈر لگتا تھا۔ ہمارا تعلیمی اور کلچرل گیپ بہت زیادہ تھا۔ اُن کے لطیفے الگ تھے، پسندیدہ فلمیں الگ بلکہ دنیا کے بارے میں سوچ بھی مختلف تھی۔ تب پہلی بار اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ کس طرح دو حصوں میں تقسیم ہے۔ بلکہ یہ بھی سمجھ آ گئی کہ ایچی سن کی بہترین facilities کے باوجود ہم اِن لڑکوں کو نہیں ہرا سکتے۔ یہ ہم سے زیادہ مضبوط بھی ہیں اور ان میں کامیابی کی تڑپ بھی ہم سے زیادہ ہے۔

اس کے باوجود عمران خان یہ جنگ جیت گئے۔ ‏1971 میں وہ قومی کرکٹ ٹیم تک پہنچ گئے، مگر اُسی سال پاکستان اپنی جنگ ہار گیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ سارا مغربی پاکستان صدمے میں تھا۔ عمران کا دل بھی ٹوٹ گیا۔ اس نے کرکٹ ہی نہیں پاکستان بھی چھوڑ دیا۔

عمران خان اوکسفرڈ میں

لاہور کی ہائی سوسائٹی میں جوان ہونے والا عمران اب برطانیہ کی ایلیٹ کلاس کا حصہ بن چکا تھا۔ شروع شروع میں تو گھر اور لاہور بہت یاد آیا مگر پھر آہستہ آہستہ دل لگنے لگا۔ وہ ایک آزاد معاشرہ تھا۔ فری سیکس، ڈرگز اور گالم گلوچ کے فیشن بننے کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔ برطانیہ بدل رہا تھا اور ٹیپو سلطان کی کہانیاں سن کر بڑا ہونے والا عمران احمد خان نیازی پھسل رہا تھا۔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ

تب میرا مذہب سے تعلق صرف شناخت کی حد تک رہ گیا۔ مسجد جاتا، لیکن تب جب لاہور میں ہوتا۔ روزے بھی تبھی رکھتا، جب گھر آتا۔

یہاں عمران کی دوستی ایک بھارتی شہری وکرم مہتا سے ہو گئی۔ ایجوکیشنل سبجیکٹس سے لے کر کرکٹ تک اُن دونوں میں بہت کچھ کامن تھا۔ اور یہی وہ زمانہ ہے جب عمران خان کی ملاقات ہوئی پنکی سے۔ پاک پتن نہیں، لاڑکانہ والی پنکی یعنی بے نظیر بھٹو سے۔

اُس وقت عمران احمد خان نیازی تو ’’عمران خان‘‘ نہیں تھے، مگر بے نظیر بے نظیر تھیں، بھٹو کی جانشین۔ بے نظیر اس وقت اوکسفرڈ کی اسٹوڈنٹ یونین کا صدر بننے کی مہم چلا رہی تھیں۔ ہر اتوار کو لیڈی مارگریٹ ہال میں ایک اسٹوڈنٹ گیدرنگ ہوتی جس کی میزبان بے نظیر ہوتیں اور یہیں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی۔ عمران خان کو اسٹوڈنٹ پالیٹکس میں تو کوئی دلچسپی نہیں تھی پھر بھی وہ باقاعدگی سے ہر اتوار وکرم کے ساتھ لیڈی مارگریٹ ہال پہنچ جاتے۔ عمران خود تو اس حاضری کی وجہ وہاں کا بہترین اور مفت کھانا بتاتے ہیں لیکن برطانوی جرنلسٹ کرسٹوفر سینڈفرڈ اس آنے جانے کی کچھ اور ہی وجہ بتاتے ہیں:

بے نظیر بھٹو عمران خان سے واضح طور پر متاثر تھیں، بلکہ غالباً وہی پہلی شخصیت تھیں جنھوں نے عمران خان کو ’’شیرِ لاہور‘‘ کا نام دیا تھا۔ ایک دو مہینوں تک ہر تقریب میں واضح نظر آتا کہ دونوں کافی قریب تھے۔

Imran Khan: The Cricketer, The Celebrity, The Politician, Page: 82

برطانوی صحافی آگے جا کر یہ بھی لکھتے ہیں:

شوکت خانم تو دونوں کی شادی کروانے کی بھی خواہشمند تھیں، لیکن بات نہیں بن سکی۔

Imran Khan: The Cricketer, The Celebrity, The Politician, Page: 122

ویسے عمران خان بے نظیر سے دوستی تو تسلیم کرتے ہیں، لیکن کسی بھی قسم کے رومانوی تعلق کی ہمیشہ تردید کی ہے۔

بہرحال، عمران خان نے 1975 میں اوکسفرڈ سے گریجویشن کر لیا اور اس کے بعد ان کا ایک ہی معمول تھا، سردیاں پاکستان میں اور گرمیاں انگلینڈ میں۔ یہیں اُن کا ایک نیا امیج بنا، پلے بوائے عمران خان کا امیج!

پلے بوائے عمران خان

اوکسفرڈ سے گریجویشن مکمل ہو چکی تھی۔ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں ایک بار پھر قدم رکھ دیا۔ 1975 سے لے کر 1992 کے 17 سالوں میں شاید ہی کوئی کرکٹر ہو جسے عمران جیسی کامیابیاں اور شہرت ملی ہو۔ وہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا وہ سونا بن جاتی لیکن اس کی حکمرانی صرف کرکٹ کے میدانوں پر ہی نہیں۔ کرکٹر تو اور بھی تھے، کچھ تو عمران سے زیادہ ہینڈسم بھی تھے، لیکن پھر بھی نہ جانے عمران خان میں ایسی کون سی کرشماتی کشش تھی کہ پاکستان جیسے کنزرویٹو معاشرے میں بھی لاکھوں لڑکیاں کھلے عام ان سے محبت کا اظہار کرتی نظر آتی تھیں۔ بظاہر شرمیلے نظر آنے والے عمران اپنی love لائف میں خاصے اوپن مائنڈڈ ہوتے جا رہے تھے جس کا انہیں آگے جا کر بہت نقصان بھی ہوا۔

80 کی دہائی میں ہالی ووڈ سے لے کر بالی ووڈ تک شاید ہی کوئی ہیروئن یا ماڈل تھی جس کا نام خان کے ساتھ نہیں لیا گیا ہوا اور پھر 1992 آ گیا وہ سال جب عمران اپنے کرکٹ کیرئیر کا آخری ورلڈ کپ کھیلنے آسٹریلیا پہنچے۔ مگر چالیس سال کے عمران کے بازوؤں میں اب وہ سوئنگ بالنگ کرانے کی جان نہیں تھی جس سے دنیا کے بڑے سے بیٹسمین گھبراتے تھے۔ زندگی بھر گیند بازی کرنے والے عمران نے بلا اٹھا لیا اور پھر کسی فلمی کہانی کی طرح کمزور ترین ٹیم کے باوجود وہ ہو گیا جو آج تک پھر نہ ہو سکا۔

مگر اس بڑی کامیابی کے ٹھیک تین ماہ بعد ایک اور واقعہ ہوا۔ ایک ایسا واقعہ جو آج تک عمران خان کو haunt کر رہا ہے۔ کیلی فورنیا کے ایک اسپتال میں ایک انگلش بزنس مین گورڈن وائٹ کی بیٹی سیتا وائٹ نے ایک لڑکی کو جنم دیا۔ اس کا نام ٹیریان رکھا گیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ اس لڑکی کا باپ کوئی اور نہیں عمران احمد خان نیازی ہے۔ انڈائریکٹلی عمران اپنی love لائف کی غلطیوں کا اقرار بھی کرتے رہے ہیں۔

لیکن ٹیریان کو اپنی بیٹی ماننے سے نہ کبھی انکار کیا ہے اور نہ ہی اقرار۔ پھر بھی جب 2004 میں سیتا وائٹ کا انتقال ہوا تو وصیت میں انھوں نے عمران خان کی بیوی اور اپنی دوست جمائما کو اس بیٹی کا قانونی سرپرست بنایا۔ تب عمران خان نے اسے لے پالک بچی ضرور مان لیا۔

بہرحال، جمائما سے عمران خان کی شادی کیسے ہوئی؟ اور یہ شادی طلاق تک کیسے پہنچی؟ مگر پہلے کچھ ذکر عمران کے کرکٹ کیرئیر کا۔ عمران نے جیسی کرکٹ کھیلی، پاکستان تو چھوڑیں پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بہت سے ریکارڈ تو ایسے ہیں جو دہائیوں بعد بھی نہیں توڑے جا سکے۔ مگر اس وقت میں ہم آپ کو ان کے کیریر کی وہ سائیڈ دکھائیں گے جو شاید آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

کرکٹ کا بادشاہ

ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ عمران خان نے سیاست کا آغاز 1996 میں کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اس سے کہیں پہلے سیاست کر رہے تھے۔ سیاسی اکھاڑے میں نہیں، کرکٹ کے میدانوں پر۔ یہ سال تھا 1982 کا، سری لنکا ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھ چکا تھا اور اس کا پہلا ٹوؤر پاکستان کا تھا۔ تب پاکستان کے کپتان جاوید میانداد تھے لیکن سیریز سے پہلے کپتان کے خلاف بغاوت ہو گئی۔ کئی بڑے نام جاوید میانداد کے خلاف تھے، جن میں عمران خان بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا ہم جاوید میانداد کی کپتانی میں نہیں کھیلیں گے کیونکہ وہ مغرور ہیں، اور ان کا attitude بھی ٹھیک نہیں۔

تب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ایئر وائس مارشل نور خان تھے۔ ڈسپلن کے معاملے میں بڑے سخت آدمی تھے۔ کوئی پریشر نہیں لیا اور تمام باغی کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر نکال دیا۔ یہ بہت بڑا فیصلہ تھا اور اس کا دباؤ نظر بھی آیا۔ پاکستان کو پہلا ٹیسٹ چار ڈیبوٹنٹس کے ساتھ کھیلنا پڑا، پہلا میچ تو جیت لیا لیکن دوسرے میں ہارتے ہارتے بچا۔ تب بورڈ نے باغیوں سے بات کی اور تھرڈ ٹیسٹ میں عمران خان اور کئی کھلاڑیوں کی واپسی ہوئی۔ پاکستان میچ اور سیریز جیتا اور لیکن جاوید میانداد سمجھ گئے تھے کہ انہیں بیٹنگ یا کپتانی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اور پھر میانداد نے انہوں نے کپتانی چھوڑ دی۔ پھر شروع ہوا عمران خان کا دور۔

ملک پر ضیا کی ڈکٹیٹر شپ تھی اور وہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ عمران خان، ایک ایسا کپتان جو صرف اپنی ٹیم نہیں پورے بورڈ پر بھاری تھا۔ وہ جسے چاہتا ٹیم میں لاتا، جسے چاہتا کھڈے لائن لگا دیتا۔

ماجد خان، ظہیر عباس، وسیم باری سمیت بڑے بڑے نام ایک ایک کر کے ٹیم سے باہر جاتے رہے۔ مگر جاوید میانداد سروائیو کرتے رہے۔ مدثر نذر کہتے تھے عمران اور جاوید کا love hate relationship تھا لیکن جاوید میانداد نے اپنی بایوگرافی ’’Cutting Edge‘‘ میں کہا کہ میرے اور عمران خان کے درمیان صرف professional jealousy تھی، بس!

ہمیں یہ jealousy اپنے عروج پر نظر آئی جنوری 1983 میں یعنی عمران خان کے کپتان بننے کے صرف چھ مہینے بعد۔ یہ پاک-انڈیا سیریز کا چوتھا ٹیسٹ تھا، پاکستان سیریز میں ‏2-0 سے آگے تھا۔ میچ شروع ہوا اور پاکستان چھا گیا۔ جاوید میانداد اور مدثر نذر نے 451 رنز کی پارٹنر شپ کی۔ مدثر نے ڈبل سنچری بنائی لیکن میانداد کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ کھیلتے رہے اور 280 رنز پر پہنچ گئے یعنی ٹرپل سنچری سے صرف 20 رنز دور۔ جاوید میانداد کے لیے گولڈن چانس تھا لیکن جب عمران خان نے اچانک اننگز declare کر دی۔ میانداد کیا؟ پوری دنیا ہی حیران ہو گئی کہ یہ کیا ہوا؟ پویلین واپس آتے ہوئے سنیل گاوسکر نے میانداد سے کہا

میں ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا، بلکہ دنیا کا کوئی بھی کیپٹن ہوتا وہ اننگز ڈکلیئر نہیں کرتا۔

کہا جاتا ہے کہ 92 ورلڈ کپ میں بھی جاوید میانداد عمران خان کے قومی اسکواڈ کا حصہ نہیں تھے لیکن پھر ان دونوں کی جوڑی نے ہی پاکستان کو ورلڈ کپ بھی جتوایا۔

غیر سیاسی عمران خان

مگر بانوے سے پہلے 1987 میں ہوم گراؤنڈ پر عمران خان کو ایک ایسی ناکامی کا بھی سامنا ہوا جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا انہوں نے صرف پینتیس سال کی عمر میں کرکٹ چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ تب وقت کے حکمران ضیاء الحق نے ان سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ یہ بات تو عمران خان نے مان لی لیکن دوسری بات نہیں مانی۔ جی ہاں! عمران خان کو سیاست میں لانے کی پہلی پیشکش ضیاء الحق نے ہی کی تھی۔

یہ جولائی 1988 تھا جب ایک دوست اشرف نوابی عمران خان کو فون کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ضیا کی کابینہ میں وزیر بنو گے؟ لیکن عمران خان نے منع کر دیا۔ ایک دن بعد ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق کی کال آ گئی۔ انھوں نے حکومت میں شامل ہونے پر زور دیا لیکن عمران خان نے پھر بھی حامی نہیں بھری۔ اور پھر کچھ ہی دنوں بعد ضیاء الحق ایک حادثے میں چل بسے۔ عمران نے پیشکش کیوں مسترد کی اس کا حتمی جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد سے عمران کے دماغ پر کرکٹ کے علاوہ ایک جنون سوار تھا، شاید کرکٹ سے بڑا جنون۔

اسپتال کا منصوبہ

بانوے آ گیا اور انہونی ہو گئی۔ پاکستان ورلڈ کپ جیت گیا۔ لیکن عمران کے دماغ پر اب کرکٹ نہیں صرف کینسر اسپتال تھا۔ وہ اسپتال جس کا سنگ بنیاد وہ کچھ ماہ پہلے لاہور میں رکھ چکے تھے۔

عمران خان خود بتاتے ہیں کرکٹ سے میری محبت 1987 میں ہی ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد جتنا بھی کھیلا، اپنے اسپتال کے لیے کھیلا۔ یہ عمران خان کی پہلی تبدیلی تھی، جو آئی 1985 میں۔ عمران خان کی والدہ، ان کی زندگی کی سب سے اہم شخصیت، شوکت خانم کینسر کی وجہ سے چل بسیں۔ ان کی وفات نے عمران خان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ انھوں نے عہد کیا کہ وہ کینسر کے مریضوں کے لیے ایک اسپتال بنائیں گے۔

اسی دوران عمران خان کو ایک اور آفر آئی۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کی طرف سے۔ عمران نے یہ آفر بھی ٹھکرا دی۔ پھر 1993 میں نگران حکومت معین قریشی نے بھی کابینہ کا وزیر بننے کی پیشکش کی۔ لیکن نہیں! عمران خان کی نظر صرف ایک ہی چیز پر تھی، شوکت خانم میموریل اسپتال۔ لیکن عمران خان کو اندازہ نہیں تھا پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی کام کرنے کے لیے پاور کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ اسپتال بنانا ہی کیوں نہ ہوا۔

عوام سے پہلا تعلق

یہ 1994 ہے۔ ورلڈ کپ فیور اتر چکا ہے، اب کوئی اس کے نام پر پیسے نہیں دے رہا۔ اسپتال تعمیر کے آخری مرحلے میں ہے لیکن پیسے پورے ختم ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے کئی ملکوں کے دورے کیے لیکن حال یہ کہ جہاں جاتے، امیر ڈونر بھاگ جاتے کہ یہ پھر اسپتال کے لیے پیسے مانگنے آ گیا۔ اسپتال کو 40 لاکھ ڈالر کی ضرورت تھی۔ تب عمران خان نے پاکستان ٹوؤر کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیالکوٹ سے مہم شروع ہوئی۔ پہلے ہی دن پانچ لاکھ روپے جمع ہوئے اور پھر عمران 29 شہروں میں گئے۔ اسکولوں سے لے کر گلیوں، محلوں اور سڑکوں تک۔ یہ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے عمران کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ وہ پہلی بار گلی کوچوں میں بیٹھے عام لوگوں سے مل رہا تھا، کچھ مانگ رہا تھا اور شاید یہی وہ موقع تھا جہاں عمران کو اپنے اور عوام کے بیچ موجود تعلق کا صحیح معنوں میں اندازہ ہوا۔ لوگوں نے اپنے گھر کا سامان، عورتیں نے اپنے زیورات تک ڈونیٹ کر دیے۔

عمران خان بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ پورا دن فنڈ ریزنگ کر کے مغرب کے بعد آرام کر رہے تھے کہ اچانک کچھ محلے کے لڑکے ان کے گھر آ گئے۔ حلیے سے انتہائی غریب دِکھنے والے ان بچوں نے عمران خان کو اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔ تھکن شدید تھی لیکن پیسوں کی بھی ضرورت تھی۔ عمران ان کے ساتھ چل دیے۔ کافی سفر کے بعد وہ لڑکے عمران خان کو گڑھی شاہو کے ایک محلے میں لے گئے۔ عمران فرسٹریٹ ہو رہے تھے کہ یہ مجھے کہاں لے جا رہے ہیں ؟ اتنی خواری کے بعد ایسے غریبوں کے محلے سے آخر کتنے پیسے مل جائیں گے۔ اسی تھکن اور غصے کے حالت میں بالآخر وہ ان لڑکوں کے ساتھ محلے ایک مسجد میں پہنچ گئے۔ منبر سے اعلان ہوا، ’’عمران خان آیا ہے، اسپتال کے فنڈ کے لیے دل کھول کر امداد کیجیے‘‘ اور پھر ایک ایک کر کے لوگ آنا شروع ہو گئے۔

نماز کا وقت نہیں تھا لیکن مسجد بھرنے لگی۔ کوئی بچہ ایک روپے کا نوٹ لا کر عمران کی جھولی میں ڈال دیتا، تو کوئی دس روپے۔ عمران کا غصہ آنسوؤں میں بدل گیا۔ وہ چھوٹے گھروں میں رہنے والے ان بڑے دل والوں کو دیکھ کر حیران تھا۔ عمران کے پاس ان کو دینے کے لیے اور کچھ تو نہیں تھا لیکن انہوں نے اس دن ان غریبوں سے ایک وعدہ کیا ایک ایسا وعدہ جو وہ آج تک نبھا رہے ہیں۔ عمران نے اعلان کیا کہ شوکت خانم میں غریبوں کا علاج مفت ہوگا۔ عام پاکستانیوں کی سخاوت نے عمران کا کام بنا دیا۔ چالیس لاکھ ڈالر جمع کرنے کی مہم پچاس لاکھ ڈالر جمع کر کے ختم ہوئی۔

پھر 29 دسمبر 1994 آ گیا۔ شوکت خانم اسپتال کا افتتاح ہوا۔ لاہور کی سخت سردی میں پچاس ہزار لوگ فورٹریس اسٹیڈیم آئے اور اگلے دن اسپتال کی 10 سالہ مریضہ سمیرا نے افتتاحی ربن کاٹا۔

عمران احمد خان نیازی کی کشمکش

عمران خان بتاتے ہیں کہ اس وقت کی وزیرِ اعظم اور اوکسفرڈ کی دوست بے نظیر بھٹو ان کے اسپتال کا افتتاح خود کرنا چاہتی تھیں لیکن عمران نے یہ پیشکش ٹھکرا دی اور یہ آغاز تھا ایک نئی کشمکش کا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ہاتھی خریدنا آسان ہوتا ہے پالنا مشکل، عمران کو اس بات کا اندازہ اب ہو رہا تھا۔

بیرون ملک سے جو سامان آتا، اسے کسٹمز پر روک لیا جاتا، رشوت طلب کی جاتی۔ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ غیر ملکی ڈونیشنز رکنے لگے۔ یہ سب غالباً حکومت کے کہنے پر ہو رہا تھا۔ تب عمران خان کے قریبی دوست یوسف صلاح الدین نے تو یہ مشورہ تک دیا کہ وہ پیپلز پارٹی جوائن کر لیں، ورنہ زرداری اسپتال تباہ کر دے گا۔ یہی وہ موقع تھا جہاں عمران خان نے پہلی بار سیاست میں آنے کا سوچا۔ قریبی دوستوں سے مشورے شروع ہو گئے۔ فیصلہ ہو گیا عمران کوئی پارٹی جوائن نہیں کریں گے بلکہ خود ایک تحریک شروع کریں گے، ’’انصاف کی تحریک‘‘۔ بات ابھی عمران کے قریبی لوگوں تک ہی محدود تھی کہ ’’اُن‘‘ کو خبر ہو گئی۔ وہ، جو عمران خان کو ڈرانا چاہتے تھے، راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔

‏15 اپریل 1996 کو تحریکِ انصاف کے اعلان سے صرف دس دن پہلے شوکت خانم اسپتال میں دھماکا ہو گیا۔ دو بچوں سمیت سات لوگ جان سے چلے گئے، پینتیس زخمی ہوئے کروڑوں کا نقصان ہوا۔ مگر عمران خان نہیں رکے۔ اسپتال سے بات نہیں بنی تو وہ گھر تک آ گئے۔ اگلا نشانہ بنایا گیا عمران خان کی فیملی کو، ان کی پہلی بیوی جمائما خان کو۔

پہلی شادی اور نئے مسائل

18 سال کی عمر میں عمران خان جب انگلینڈ گئے تھے تو شوکت خانم نے بس ایک ہی بات کہی تھی ’’کچھ بھی کرنا، کوئی گوری مت لے آنا‘‘۔ لیکن عمران خان سے رہا نہیں گیا۔ پورا کیریئر گوریوں کے جھرمٹ میں گزارنے کے بعد بالآخر شادی بھی کی تو اپنے سے آدھی عمر والی گوری سے۔ یہ تھیں گولڈ اسمتھ خاندان کی چشم و چراغ جمائما گولڈ اسمتھ۔ لندن کی ہائی سوسائٹی میں تو جمائما کو ہر کوئی جانتا تھا لیکن پاکستانیوں کے لیے جمائما صرف عمران خان کی بیوی تھیں۔ عام پاکستانیوں نے تو جمائما کو دل سے قبول کر لیا لیکن اس ’’ودیسی بھابی‘‘ نے عمران خان کے سیاسی مخالفین کو ایک سوفٹ ٹارگٹ فراہم کر دیا۔ شادی کو پاکستان کے خلاف صیہونی سازش قرار دے دیا گیا، فتوے آنا شروع ہو گئے اور کیا پی پی پی، کیا ن لیگ سب ایک ہو گئے!

Imran’s Political Winter

عمران کو لڑائیوں اور چیلنجز سے عشق تھا۔ کرکٹ کیریئر ہو یا پھر کینسر اسپتال۔ ہمیشہ اپنے لیے بظاہر ناممکن ٹارگٹس سیٹ کرتے اور پھر انہیں اچیو بھی کر لیتے اور اب ان کا ٹارگٹ تھا پاکستان کا سیاسی نظام۔

الیکشنز میں ابھی دو سال تھے۔ عمران کا خیال تھا کہ تب تک وہ تحریکِ انصاف کو اپنے پیروں پر کھڑا کر ہی لیں گے مگر صرف چھ ماہ بعد ہی نومبر 1996 میں صدر فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ فروری 1997 میں الیکشنز کا اعلان ہو گیا اور عمران خان نے چراغ اٹھا لیا۔ نوجوانوں نے اپنے کپتان کو ہاتھوں ہاتھ لیا، جلسے شروع ہوئے تو مخالفین کے اوسان خطا ہو گئے۔ کچھ مہینے پہلے بننے والی ’’تحریکِ انصاف‘‘ کے جلسوں میں ن لیگ اور پی پی پی سے بھی زیادہ لوگ تھے۔

اسی گھبراہٹ میں نواز شریف نے عمران خان کو ایک اور آفر کر دی، کہا آؤ ہاتھ ملا لیں، قومی اسمبلی میں 20 سیٹوں کی پیش کش بھی کردی۔ یہ آفر عمران خان کے لیے بہت حیران کن تھی کیونکہ اُن کی اپنی ورکنگ کے مطابق الیکشن میں پی ٹی آئی کا تین سے زیادہ سیٹیں جیتنا ناممکن تھا۔ کوئی اور ہوتا تو خوشی خوشی قبول کر لیتا لیکن مائنڈ گیمز کے ماسٹر عمران خان کو نواز شریف کی آفر سے ایک اور بات سمجھ آئی، وہ یہ کہ سیاست میں ریئلٹی سے زیادہ پرسیپشن اہم ہوتا ہے۔ اگر پرسپیشن یہ ہے کہ چھ ماہ پرانی تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے لیے خطرہ بن چکی ہے تو پھر اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ تو عمران خان نے یہ آفر رجیکٹ کر دی۔ ذرا سوچیں اگر اس وقت عمران اور نواز ساتھ بیٹھ جاتے تو آج ملک کی سیاست کا کیا نقشہ ہوتا؟

زندگی کا مشکل ترین سال

97 کی الیکشن مہم شروع ہو گئی اور ساتھ ہی جمائما کی کردار کشی بھی۔ ان پر بہت کیچڑ اچھالا گیا۔ پھر سیتا وائٹ کا نام سامنے آیا، ذاتی زندگی پر انگلیاں اٹھیں اور یہودی ایجنٹ بھی قرار پائے۔ ایک اخبار نے تو تصویر بھی چھاپ دی کہ جمائما کے والد عمران کو الیکشن مہم کے لیے 40 ملین پونڈ کا چیک دے رہے ہیں۔ انتخابات کے نتائج نے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا۔ نواز شریف کو دو تہائی اکثریت مل گئی اور عمران خان اپنی سیٹ تک نہ جیت سکے۔ جمائما ہمت ہار گئیں، کہا سیاست میں کبھی قدم نہیں رکھنا چاہیے تھا، کرکٹ اور اسپتال کی وجہ سے عزت ملی تھی لیکن اب تو وہ بھی محفوظ نہیں۔

عمران اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 1997 ان کی زندگی کا مشکل ترین سال تھا۔ الیکشن ہارے، پیسے ختم ہو گئے، اسپتال خسارے میں چلا گیا۔ اور پھر اگست کے مہینے میں نصرت فتح علی اور ڈیانا جیسے دوست بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ عمران خان کہتے ہیں اس سال کی واحد خوشی ایک ہی تھی: سلیمان کو بڑے ہوتے دیکھنا۔

جیسے تیسے کچھ سال اور گزر گئے۔ پھر ایک اور حادثے نے عمران کو اقتدار کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔ 1999 میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے والے آرمی چیف پرویز مشرف کو بڑے سیاسی خاندانوں کے متبادل کی تلاش تھی اور اسی تلاش میں ان کی پہلی نظر پڑی عمران خان پر۔ ایک اور آفر ہوئی، بات نہیں بنی۔

2002 میں الیکشن ہوئے تو اس بار عمران خان میانوالی کی اپنی سیٹ جیت کر بمشکل عزت بچانے میں کامیاب ہوئے۔ تحریکِ انصاف پہلی بار پارلیمنٹ میں پہنچی بھی تو وہ بھی ایک ڈکٹیٹر کی پارلیمنٹ میں۔ عمران الیکشن تو جیتے لیکن جمائما کو ہار گئے۔ 2002 کی پوری مہم میں جمائما نے کوئی شرکت نہیں کی، دونوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں۔ جمائما نے ایک سال کے لیے انگلینڈ جانے کا کہا، عمران خان نے انکار نہیں کیا۔ وہ سمجھ گئے تھے یہ خاتمے کا آغاز ہے۔ اور پھر 2004 میں دونوں نے طلاق کا اعلان کر دیا۔

عمران خان کہتے ہیں طلاق سے پہلے اور اس کے بعد کے چھ مہینے میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ عمران خان کے علاوہ یہ تحریکِ انصاف پر بھی ایک مشکل دور تھا لیکن تب ایک چھوٹی سی تبدیلی آئی جس نے انھیں مکمل تباہی سے بچا لیا۔ پاکستان میں پرائیوٹ ٹی وی چینلز کا آغاز ہو گیا۔ عمران خان کو اسکرین ٹائم ملنے لگا۔ ان کی بات لوگوں تک پہنچنے لگی انھیں سنا جانے لگا۔ نواز شریف اور بے نظیر دونوں میدان سے باہر تھے۔ عمران خان نے بڑی قیادت کی عدم موجودگی کا خوب فائدہ اٹھایا۔

مگر پھر این آر او ہو گیا۔ سیاسی میدان گرم ہونے لگا۔ نواز شریف اور بے نظیر واپس آ گئے۔ عمران خان پر ایک بار پھر زمین تنگ ہونے لگی۔ یہاں تک کہ 14 نومبر 2007 کا وہ دن آ گیا۔

پہلی بار جیل میں

عمران خان نظر بندی توڑ کر اسٹوڈنٹس سے انٹریکشن کے لیے پنجاب یونی ورسٹی پہنچے۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم ’’جمعیت‘‘ کے لڑکے بھی وہاں پہنچ گئے۔ ہلڑ بازی اور شور شرابا شروع ہو گیا۔ عمران خان اپنی بات کرتے رہے مگر پھر عمران خان کے ساتھ وہ ہوا جو ان کی زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ ہلڑ بازی فزیکل اسالٹ میں بدل گئی، دھکے اور مکے چلنے لگے۔ جمیعت کے لڑکوں نے عمران خان کو گریبان سے پکڑ لیا اور دھکے مارتے ہوئے یونی ورسٹی سے باہر انتظار کرتی پولیس کے حوالے کر دیا۔ چند دن بعد وہ تمام لڑکے جمیعت سے نکال دیے گئے۔

عمران کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوا؟ اور اس کے پیچھے کون تھا؟ یہ بات آج تک واضح نہیں ہو سکی۔ خیر جمعیت سے بچ کر عمران خان کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔

ایک دن بعد آدھی رات کو جب وہ سو رہے تھے تو اچانک پولیس والے ان کے سیل میں آئے، انہیں نیند سے اٹھایا اور ایک ٹرک میں ڈال دیا۔ نومبر کی اس سرد رات، عمران خان صرف ایک کمبل اوڑھے ٹرک کے پچھلے حصے میں بیٹھے تھے۔ خیر، سفر شروع ہو گیا۔ ٹرک چلتا رہا چلتا رہا۔ پوری رات گزر گئی، صبح ہو گئی، مگر منزل نہیں آئی۔ صبح پولیس والے چائے پینے رکے تو پتہ چلا کہ اُن کی منزل ڈیرہ غازی خان ہے۔ جہاں دوسرے سیاسی رہ نما گھروں میں نظر بند تھے، وہیں مشرف عمران خان سے اپنی خصوصی محبت کا اظہار انہیں ایک دور دراز کی جیل بھیج کر کر رہے تھے۔

ان پر دہشت گردی کا کیس ڈال دیا گیا۔ وہ آٹھ دن قید رہے۔ وہ اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ باقی سب مسائل اپنی جگہ، لیکن مجھے لگتا تھا میں بوریت سے مر جاؤں گا، وقت گزرتا ہی نہیں تھا میں ہمیشہ سے آؤٹ ڈور لڑکا تھا۔ لاہور کی سخت گرمیوں میں بھی میری ماں مجھے گھر پر نہیں روک پاتی تھیں۔ پھر 2005 سے میں اپنے بنی گالا فارم ہاؤس پر رہ رہا تھا، جسے میں اپنی جنت سمجھتا تھا۔ پہاڑوں میں گھرا، راول جھیل کے منظر کے ساتھ اور ہمالیہ کے دامن میں اور اب میں چار بائے چار کے اس سیل میں قید تھا۔ میں نے ہمیشہ ایک مصروف زندگی گزاری۔ میرے لیے تو چوبیس گھنٹے بھی کم ہوتے تھے لیکن جیل میں وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔ تنگ آ کر چھٹے دن عمران خان نے بھوک ہڑتال کر دی۔ اور اگلے دن انھیں آزاد کر دیا گیا!

تحریکِ انصاف بنے بارہ سال ہو چکے تھے لیکن کرکٹ کا بادشاہ سیاست میں دربدر ہو رہا تھا۔ الیکشن ہوئے ن لیگ اور پی پی پی نے مل کر اتحادی حکومت بنالی اور عمران خان بائیکاٹ کر کے میدان سے باہر ہی کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ ایسا لگ رہا تھا ان کا سیاسی کیریئر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ عمران ڈیسپریٹ ہونے لگے اور اسی ڈسپریشن میں انہوں نے وہ سودا کیا جس کے وہ ہمیشہ سے خلاف تھے۔ عمران کے سیاسی کیریئر میں تبدیلی آ گئی۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملا لیا۔

تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگیں

90 کی دہائی میں گلی گلی شوکت خانم اسپتال کے لیے چندہ دینے والے بچے اب بڑے ہو گئے تھے۔ وہ اب صرف چندہ نہیں ووٹ بھی دے سکتے تھے۔ ادھر مشرف کی طرح کیانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی نواز زرداری نیکسس کے خلاف نئے چہروں کی تلاش تھی۔ نہ الیکشن کا وقت تھا نہ کوئی اور سیاسی سرگرمی۔ 30 اکتوبر 2011 کو تحریکِ انصاف نے مینارِ پاکستان پر جلسے کا اعلان کیا۔ جلسے کا دن آیا اور ساتھ ہی پورا لاہور بھی گھروں سے نکل آیا۔ عمران کا بلا چلنے لگا۔

لاہور کے بعد کراچی میں جلسے کا اعلان ہوا۔ آگے بڑھنے سے پہلے عمران خان کے سوشل میڈیا سے پرانے تعلق کا ایک واقعہ بتاتے چلیں۔ جس وقت پاکستان میں کوئی سیاسی رہ نما تو دور، زیادہ تر عام عوام بھی بلاگنگ اور یو ٹیوب سے بے خبر تھی، عمران اس زمانے سے ہی سوشل میڈیا سرگرم ہو چکے تھے۔

یہ 23 دسمبر 2011 کی شام ہے۔ سیکنڈ پاکستان بلاگ ایوارڈ کے لیے کراچی کے بلاگرز ریجنٹ پلازہ میں اکٹھے ہیں۔ اچانک دروازہ کھلتا ہے اور عواب علوی، عمران خان کو ساتھ لیے اندر داخل ہوتے ہیں۔ اسٹیج سے اعلان ہوتا ہے، لیڈیز اینڈ جنٹلمین کیپٹن از ان دا روم۔ تالیاں بجنے لگتی ہیں اور سب کھڑے ہو جاتے ہیں۔

عمران خان نے بلاگرز کو 25 دسمبر 2011 کے جلسے میں آنے کی دعوت دی۔ کچھ دیر ٹھہرے اور چلے گئے۔ لیکن چند سو بلاگرز کی اس چھوٹی سی گیدرنگ میں خود آکر عمران نے ایک واضح پیغام دیا۔ ان کی نظر میں سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی بہت اہمیت ہے۔ پھر سوشل میڈیا بھی عمران کا سب سے طاقتور ہتھیار بن گیا۔

2013 الیکشنز آ گئے۔ عمران خان پنجاب سے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا صفایا کر چکے تھے۔ تمام بڑے بڑے رہ نما بنی گالا کے چڑھتے سورج کو سلامی دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ عمران کے سیاسی کیریر کا 92 مومنٹ آ گیا ہے لیکن الیکشن سے چند دن پہلے عمران حادثے کا شکار ہو گئے۔ عمران کے کرین سے گرنے کے خوفناک مناظر پوری قوم نے دیکھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے۔

ریسکیو والے جس وقت ان کا جسم اسٹریچر پر ڈال کر جا رہے تھے اسی وقت پورا پاکستان shock میں تھا۔ قوم نے ابھی کچھ سال پہلے ہی بے نظیر کی موت دیکھی تھی۔ وہ ایک اور لیڈر کو کسی حادثے کا شکار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ ایک ایک منٹ، گھنٹہ بن گیا۔ رات گئے خبر آئی کہ عمران کی حالت خطرے سے باہر ہے اور پھر اس کے چند گھنٹوں بعد عمران کا وڈیو پیغام آیا۔

لیکن ابھی عمران کا ٹائم نہیں آیا تھا۔ 2013 کا الیکشن 1987 ورلڈ کپ ثابت ہوا۔ انہیں صرف ایک صوبے میں حکومت ملی۔ ویسے ایک بات بہت قابل غور ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1957 میں کیا تھا اور 1958 میں ہی وہ اسکندر مرزا کے وزیر بن گئے۔ نواز شریف نے 1976 میں سیاست کا آغاز کیا اور صرف چار سال بعد ہی پنجاب کے وزیر خزانہ بن گئے۔ عمران احمد خان نیازی نے سیاست کا آغاز کیا 1996 میں اور پاور کوریڈورز میں اُن کی پہلی انٹری ہوتی ہے سترہ سال بعد، 2013 میں۔ لیکن عمران کے لیے ’’کے پی کے‘‘ کافی نہیں تھا۔ ان کی نظریں اسلام آباد پر تھیں۔

چند ماہ بعد ریکور ہوتے ہی وہ پھر سڑکوں پر نکل آئے۔ مطالبہ تھا 13 حلقوں کی تحقیقات۔ جو لوگ عمران خان کو جانتے ہیں وہ یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ عمران خان بہت ہی سنگل فوکس ٹائپ کے آدمی ہیں۔ جس چیز کا ارادہ کرلیں، اسے کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔ لیکن سیاست میں یہ اپروچ ہمیشہ کام نہیں کرتی۔

2014 کا دھرنا ناکام ہو گیا۔ اس دھرنے سے عمران کو کچھ ملا ہو کہ نہیں مگر دوسری بیوی ضرور مل گئی۔ مگر یہ شادی بھی زیادہ دیر نہ چل سکی۔ ذاتی زندگی کو لے کر عمران کے ستارے گردش میں تھے لیکن 3 اپریل کی رات جب وہ بنی گالہ میں سو رہے تھے تو ان کی قسمت جاگ گئی۔ پاناما پیپیرز شائع ہو گئے اور جن چیزوں کا الزام کئی دہائیوں سے شریف خاندان پر لگ رہا تھا، اب ایک بین الاقوامی ادارے نے ان جائیدادوں کے ثبوت دنیا کے سامنے رکھ دیے۔

عمران نے ایک اور تحریک شروع کردی۔ لانگ مارچ، دھرنا، لاک ڈاؤن، تحریکِ انصاف پوری قوت کے ساتھ شریف سرکار پر حملہ آور تھی لیکن انہیں بریک تھرو تب ہی ملا جب پنڈی میں بیٹھے ان کے دوست مدد کے لیے میدان میں اترے۔ نواز شریف نااہل ہو گئے۔

عمران خان کو لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی۔ ان کے لیے میدان صاف تھا اور اب ان کی جیت یقینی تھی۔

انتخابات 2018

26 جولائی کی شام تھی۔ پولنگ ختم ہوئے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ اب تک کے نتائج کے مطابق پی ٹی آئی ملک کی سب جماعتوں سے آگے تو تھی لیکن اب بھی بہت سے نتائج غیر مکمل تھے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بہت شور مچایا لیکن فیصلہ ہو چکا تھا۔ اقبال کے شاہین کی طرح اکیلے پرواز کو پسند کرنے والے عمران کو وزیرِ اعظم بننے کے لیے ایک نہیں کئی بے ساکھیوں کی ضرورت تھی۔ انہیں بہت سے آزاد امیدواروں، ق لیگ اور متحدہ قومی موومنٹ کو ساتھ بٹھانا پڑا۔ یہ سارے سہارے صرف ایک جگہ سے ہی مل سکتے تھے۔

تو عمران خان کی بھی بات ہو گئی۔ سارے پنچھی ان کے گھونسلے پر بیٹھ گئے۔ عمران احمد خان نیازی ’’وزیرِ اعظم عمران خان‘‘ بن گئے۔ لیکن وزیرِ اعظم عمران خان سے پہلے کچھ ذکر ’’مرید عمران خان‘‘ کا۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران کو وزیرِ اعظم بنانے میں ایک اور کردار بھی بہت اہم تھا اور وہ تھیں بشریٰ بیگم عرف پنکی!

مرید عمران خان

اکتوبر 2015 میں ریحام خان سے طلاق کے فوراً بعد عمران خان کی چھوٹی انگلی میں ایک بڑے سے پتھر والی انگوٹھی نظر آنے لگی۔ سوالات ہونے لگے۔ بریکنگ نیوز چلنے لگیں۔ مگر اس وقت مرحومہ قندیل بلوچ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عمران خان کس کے کہنے پر یہ انگوٹھیاں پہن رہے ہیں:

لیکن قندیل بلوچ کو لوگ سیریس نہیں لیتے تھے اس لیے بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر سچ یہی تھا کہ عمران خان کو ایک روحانی رہ نما کی تلاش تھی اور تلاش میں وہ بابا فرید گنج شکر کے مزار تک پہنچ گئے۔

عمران 66 سال کے ہو چکے تھے اور ریحام خان سے تلخ طلاق کے بعد کوئی سوچ بھی نہیں سکتا وہ ایک بار پھر گھر بسانے کا سوچیں گے لیکن عمران خان نے ایک بار پھر شادی کرلی۔ جب بشریٰ بی بی کی تصاویر چھپیں تو سب حیران ہو گئے۔ گوریوں کے جھرمٹ میں زندگی گزارنے والے عمران خان نے ایک مکمل پردہ دار عورت کا ہاتھ کیسے تھام لیا؟

شادی ہو گئی مگر کیا کہیں کہ عمران خان کا عورت والا خانہ ہمیشہ گردش میں رہا ہے۔ سیتا وائٹ سے لے کر جمائما اور ریحام خان سے لے کر بشریٰ بی بی تک، نکاح اور عدت کو لے کر اسی وقت باتیں شروع ہو گئیں جو آج تک ان کا درد سر بنی ہوئی ہیں۔ بہر حال عمران خان کا وقت آ چکا تھا یا پھر نئے پیر کی کرامات تھیں۔ بائیس سال بعد عمران خان وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچ گئے۔

حلف اٹھانے کے بعد عمران خان پہلی مرتبہ یومِ دفاع کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے جی ایچ کیو آئے۔ یومِ دفاع کی تقریب ایک عمران خان فین کلب کا ایونٹ لگ رہا تھا۔ بڑے بڑے افسران سے لے کر ان کی فیملیز تک عمران کو اپنے درمیان دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ جنرل باجوہ عمران خان کے آگے پیچھے گھوم رہے، ایک ایک چیز سمجھا رہے تھے۔ ملک کا سب سے پاپولر لیڈر اور سب سے طاقتور افسر ایک پیج پر تھے۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ مگر پھر صرف چند ماہ بعد ہی ایک عجیب و غریب ڈیولپمنٹ ہوئی۔

16 جون 2019 کو خبر آئی کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر کا تبادلہ ہو گیا ہے اور جنرل فیض پاکستان کے نئے ’’اسپائی ماسٹر‘‘ ہوں گے۔ لوگ حیران تھے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری تو تین سال کی ہوتی ہے تو پھر صرف دس مہینوں میں ایسا کیا ہوا کہ ڈی جی کو بدلنا پڑا؟ بات آئی گئی ہو گئی لیکن اگر آج دیکھا جائے تو شاید یہ عمران کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ چند ماہ بعد جنرل باجوہ کے ایکسٹینشن نوٹی فکیشن کو لے کر پوری ہو گئی۔

اگست میں وزیرِ اعظم ہاؤس سے نوٹی فکیشن آ گیا۔ عمران خان نے جنرل باجوہ کو تین سال کی ایکسٹینشن دے دی لیکن پھر باجوہ کا پہلا ٹرم ختم ہونے سے چند دن پہلے سپریم کورٹ میں ایک حیران کن ڈیویلپمنٹ ہوئی جس سے پورا پنڈی ہل گیا۔ چیف جسٹس نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا۔ تین دن کیس چلا اور پھر سپریم کورٹ نے جنرل باجوہ کو 6 ماہ کی عارضی توسیع دیتے ہوئے حکومت کو نئی قانون سازی کا حکم دے دیا۔ لیکن شاید جنرل باجوہ کو جون کے بعد ہی شک ہو گیا تھا کہ عمران خان کو مینج کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اس لیے وہ پہلے ہی بیک اپ پلان پر کام شروع کر چکے تھے۔

جیل میں بیٹھے نواز شریف سے اسٹیبلشمنٹ کے رابطے بحال ہو چکے تھے۔ ادھر پیغام رسانی شروع ہوئی ادھر نواز شریف کی حالت خراب ہوتی گئی اور پھر بالآخر باجوہ کا پہلا ٹرم ختم ہونے سے دس دن پہلے ہی نواز شریف لندن روانہ ہو گئے۔ اس ڈیل کا پہلا مرحلہ جنوری دو ہزار بیس میں مکمل ہوا جب ن لیگ کی بھرپور حمایت کے ساتھ قومی اسمبلی سے آرمی چیف ایکسٹینشن کا قانون پاس کر لیا گیا۔ کوووڈ میں ایک بار پھر فوج اور حکومت ایک پیج پر نظر تو آئی لیکن عمران کی فرسٹریشن بڑھتی جا رہی تھی۔ بھرپور کوششوں اور اپنا ڈی جی آئی ایس آئی لگانے کے باوجود بھی وہ اس کرپٹ مافیا کو سزائیں دلوانے میں ناکام تھے جس کے خلاف بیانیہ بنا کر وہ اقتدار میں آئے تھے۔ ادھر نواز شریف ان کی ناک کے نیچے سے نکل کر لندن جا چکے تھے اور وہاں بیٹھ کر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو دھمکیاں دے رہے تھے۔

عمران خان ناکام اور بے بس نظر آ رہے تھے۔ ادھر ان کی ٹیم سلیکشن اور گورننس کو لے کر بھی بہت سے سوالات اٹھ رہے تھے۔ دونوں صوبوں میں کمزور وزرائے اعلیٰ ان کی لائیبیلیٹی بن چکے تھے۔ معاشی میدان میں بھی ان کا فیورٹ پلئیر اسد عمر چند ماہ میں ناکام ہو کر واپس پویلین میں لوٹ چکا تھا اور یہ اہم ترین وزارت بھی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ امیدوار حفیظ شیخ کو مل چکی تھی۔ آپسی لڑائیاں، اتحادیوں کی ناراضگیاں اور اپوزیشن کے ہنگامے سب کچھ ایک ساتھ ہو رہا تھا۔ ادھر مین اسٹریم میڈیا بھی عمران خان کے تلواریں نکالے کھڑا تھا۔ کرکٹ کے میدانوں میں بڑی سے بڑی ٹیم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا کپتان سیاست کے میدان میں مار کھا رہا تھا۔ اور پھر مارچ 2021 آ گیا۔ بلی تھیلے سے باہر آ گئی۔ جس چیز کا سارے پاکستان کو کئی مہینوں سے شک تھا اب اس کے واضح ثبوت بھی ملنے لگے۔ عمران کا جن اسٹیبلشمنٹ کی بوتل سے باہر نکلنا چاہ رہا تھا۔

یہ پیغام کسے دیا جا رہا تھا؟ سارا پاکستان جانتا تھا۔ مگر باجوہ بھی تیار تھے۔ انہوں نے ایک انتہائی ہائی رسک موو کی اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کا ٹرانسفر کر دیا۔ عمران خان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی ڈائریکٹ رپورٹنگ وزیرِ اعظم کے پاس ہوتی ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ انہیں آن بورڈ لیے بغیر جنرل فیض کا ٹرانسفر ہو گیا؟ وزیرِ اعظم ہاؤس نے نوٹی فکیشن نکالنے سے انکار کر دیا۔

اب عمران اور اسٹیبلشمنٹ کا سیم پیج مکمل طور پر پھٹ چکا تھا، اور دوسری طرف ایک نیا پیج بنایا جا رہا تھا۔ تاریخ رقم ہو گئی اور پہلی بار ایک وزیرِ اعظم کو تحریک عدم اعتماد سے گھر بھیج دیا گیا۔ لیکن پھر ایک اور نیا کام ہوا۔

اس سے پہلے جب حکومتیں گھر بھیجی جاتی تھیں تو مٹھائیاں بٹتی تھیں جشن منایا جاتا تھا لیکن جب عمران خان کو نکالا گیا تو ان کے ساتھ پورا پاکستان بھی نکل آیا اور پھر ان کی سیاست کے مشکل ترین دور کا آغاز ہو گیا۔ قاتلانہ حملہ، قریبی ساتھیوں کی بے وفائی، ان گنت مقدمات، گرفتاری اور پھر سزائیں۔

آج پورا سسٹم عمران خان کے خلاف ہے لیکن عمران خان زندگی بھر اپنے لیے ناممکن ٹارگٹس سیٹ کرتے آئے ہیں۔ 80 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں ہرانے۔ 40 سال کی عمر میں ورلڈ کپ جیتنے۔ 1 کروڑ جیب میں رکھ کر 70 کروڑ کا شوکت خانم اسپتال بنانے سے لے کر۔ ایک سیٹ کی پارٹی سے وزیرِ اعظم بننے تک عمران احمد خان نیازی کا جیت سے پرانا یارانہ ہے بلکہ اگر پرائیوٹ لائف کو ہٹا کر دیکھا جائے تو عمران خان کا شمار دنیا کے کامیاب ترین انسانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آج وہ اپنی 72 سالہ زندگی کی سب سے مشکل اور شاید آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ 92 میں ٹیم کو ’’کارنرڈ ٹائیگرز‘‘ بنانے والا آج خود اڈیالہ جیل کے ایک سیل میں بند ہے۔ آگے کیا ہوگا؟ کوئی نہیں جانتا۔

شیئر

جواب لکھیں