آرمی چیف بنے ان کا پہلا ہی دن تھا کہ جی ایچ کیو راولپنڈی سے دو ٹوک اور سخت حکم جاری ہوا۔ نئے سپہ سالار نے اعلان کیا:

فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم پاکستانی قوم کے ملازم میں ہیں اور اس لحاظ سے ہر اس پارٹی کے بھی جسے عوام اقتدار میں لے کر آئے۔

بظاہر تو اس حکم میں کوئی متنازع بات نہیں تھی لیکن کچھ صحافیوں کے ذہن میں سوال اٹھنے لگے کہ اس طرح کا خصوصی اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ 14 جون 1948 کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں قائد اعظم کے اس تقریر کے بعد۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔

مجھے فوج کے چند سینیئر ترین افسران سے گفتگو کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوا ہے کہ شاید آپ لوگوں کو اس حلف کی سنجیدگی کا احساس نہیں ہے جو آپ سب نے اٹھایا ہوا ہے۔ اسی لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ سب کی یاد دہانی کے لیے اس حلف کو یہاں آپ سب کے سامنے سناؤں۔ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ حلف اٹھاتا ہوں کہ میں ہمیشہ آئین اور حکومت پاکستان کا وفا دار رہوں گا۔

قائد اعظم کے الفاظ

قائد یہیں نہیں رکے بلکہ مزید فرمایا

میں چاہتا ہوں کہ آپ سب آئین کو اسٹڈی کریں تاکہ آپ مکمل طور پر سمجھ جائیں کہ آئین اور حکومت سے وفاداری کا اصل مطلب ہے کیا؟ یہ بات کبھی نہیں بھولیے کہ تمام اختیارات حکومت کے سربراہ یعنی گورنر جنرل کے پاس ہیں۔

قائد اعظم کے الفاظ

پاکستان میں مشہور ہے کہ جہاں لکھا ہو کہ کچرا پھینکنا منع ہے لوگ اسی جگہ سب سے زیادہ گندگی کرتے ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اگلے اٹھارہ سالوں میں جتنی سیاست اس آرمی چیف نے کی اس کی پاکستان جیسی سیکورٹی اسٹیٹ میں بھی مثال نہیں ملتی۔

  • فیلڈ مارشل
  • آرمی چیف
  • وزیر دفاع
  • وزیر داخلہ
  • وزیر اعظم (جی ہاں وہ چند گھنٹوں کے لیے وزیر اعظم بھی بن گئے تھے)
  • چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر
  • صدر

اس آرمی چیف کی شمع ہر رنگ میں جلتی رہی۔ ہم آپ کو بتائیں گے پاکستان کے سب سے ہائی پروفائل آرمی چیف اور صدر ایوب خان کی کہانی! مگر کون سا ایوب؟

  • شمالی پنجاب میں روشنیاں پھیلانے والا
  • یا پھر مشرقی پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلنے والا
  • پروگریسو اور لبرل ایوب یا پھر متعصب ایوب
  • بیسک ڈیموکریسی لانے والا یا فاطمہ جناح کا مینڈیٹ چرانے والا

ایوب خان کون؟

ہم میں سے اکثر لوگ اپنی پہچان کسی علاقے سے کرواتے ہیں، جیسے گجراتی، یوپی والے، دلی والے حیدر آبادی ، بہاری، یا لاہوری۔ مگر کبھی کبھی یہ ریلیشن شپ اُلٹا بھی ہو جاتا ہے کچھ لوگ اتنے بڑے بن جاتے ہیں کہ اپنے علاقوں کی پہچان بن جاتے ہیں۔ یہی رشتہ ہے ایوب خان اور ہزارہ کا۔

14 مئی 1907 کو جب چھوٹے سے گاؤں ریحانہ میں یہ بچہ پیدا ہوا تو اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک سو چودہ سال بعد بھی دنیا اس کی کہانیاں سنا رہی ہوگی۔ ایوب خان رسالدار میجر میر داد خان کی دوسری بیوی کی پہلی اولاد تھے۔ علی گڑھ میں تعلیم شروع کی مگر پھر برٹش رائل ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ چلے گئے اور 1928 میں برطانوی فوج میں بحیثیت افسر بھرتی ہو گئے۔ یوں آغاز ہوا ایک ایسے فوجی کیریر کا جس کے بوٹوں کی گونج آج بھی پاکستان کے طاقت کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔

ایوب خان شروع سے ہی سے ذرا جذباتی طبیعت کے مالک تھے۔ اکثر خود کو کچھ ایسے سچویشنز میں پھنسا لیتے جو بالکل غیر ضروری ہوتیں۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی جانب سے برما میں لڑتے ہوئے اپنی پوزیشنز سے کہیں دور ایک خطرناک گڑھے میں گر گئے۔ ایوب کی خوش قسمتی کے ان ساتھیوں نے ان کی چیخ و پکار سن لی اور شدید گولہ باری کے بیچو بیچ انہیں وہاں سے ریسکیو کر لیا۔ ایوب کی خوش قسمتی کا یہ پہلا واقعہ تھا مگر پھر ان کی اپنی قسمت سے کچھ ایسی یاری لگی کہ زندگی کے ہر اہم موڑ پر ان کا راستہ خود بخود صاف ہوتا گیا اور ان کی کایا پلٹتی ہی چلی گئی۔

حادثاتی آرمی چیف

جنوری 1951 کی بات ہے برطانوی جنرل گریسی کا ٹینیور ختم ہو رہا تھا۔ ان کی جگہ پہلے مقامی کمانڈر ان چیف کی تعیناتی معاملہ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے تھا۔ وہ جانتے تھے کہ کس طرح جنرل گریسی کی غلط پالیسیوں کی وجہ کشمیر کا جیتا ہوا محاذ پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے جنرل افتخار کا نام فائنل کر لیا۔ لاہور میں ہونے والی ملاقات میں وزیر اعظم نے انہیں اپنی اپائنٹمنٹ کی خوش خبری سنائی، ساتھ ہی انہیں بتایا کہ اپنی نئی ذمہ داریوں کے لیے مکمل طور پر تیار ہونے کے لیے وہ فوری طور پر برطانیہ سے امپیریل ڈیفنس کورس مکمل کر کے وطن واپس آ جائیں اور چارج سنبھالیں۔

مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ نامزد آرمی چیف کا جہاز کراچی ائربیس سے برطانیہ کے لیے اڑا مگر کچھ دیر بعد جنگ شاہی کے مقام پر کریش کر گیا۔ جنرل افتخار اپنی اہلیہ اور قریبی ساتھیوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔ ایوب خان جن کا نام وزیر اعظم کو بھیجی جانے والی لسٹ تک میں نہیں تک اچانک حادثاتی طور پر پاکستان کے پہلے مقامی آرمی چیف بن گئے۔ یہ تھا قسمت کا ایوب خان کو دوسرا تحفہ!

مگر اس اپائنٹمنٹ میں ایک اہم کردار اسکندر مرزا بھی تھے جنہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے سامنے ایوب کا کیس کچھ اس انداز سے لڑا کہ قائد ملت انکار نہ کر سکے۔ اور یہیں سے آغاز ہوا ایک ایسی پارٹنر شپ کا جس نے اگلے ستر سالوں تک کے لیے پاکستانی سیاست کی ڈائریکشن سیٹ کر دی۔

ایوب خان بطور آرمی چیف

مارچ 1951 کی بات ہے۔ ایوب خان کو آرمی چیف بنے ابھی چند ہفتے ہی ہوئے تھے کہ ایک دن اپنی الیکشن کیمپین کے بیچوں بیچ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے انہیں اچانک سرگودھا ریلوے اسٹیشن پر طلب کر لیا۔ وزیر اعظم نے انہیں بتایا کہ ان کے نمبر ٹو اور چیف اف جنرل اسٹاف جنرل اکبر سمیت سینیئر ترین آرمی افسران حکومت کو گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔ اگلے ہی دن لیاقت علی خان نے کئی سینیئر آرمی افسران اور فیض احمد فیض سمیت درجن بھر افراد کی گرفتاری تفصیلات قوم سے شئیر کر دیں۔

کراچی کی سویلین حکومت کے خلاف راولپنڈی کی فوجی سازش پکڑی جاچکی تھی۔ اور نئے نویلے آرمی چیف کے لیے اس سے بڑی شرمندگی کی بات یہ تھی کہ ان کی ناک کے نیچے ہونے والی اس سازش کی خبر وزیر اعظم کو آرمی انٹیلی جنس نے نہیں بلکہ سرحد حکومت نے دی تھی۔

راولپنڈی سازش کے تمام کردار گرفتار تو کر لیے گئے لیکن لیاقت علی خان کچھ انتہائی طاقتور لوگوں حلق کا ایسا کانٹا بن چکے تھے جسے نکالے بغیر ان کا اپنا سروائیول ناممکن تھا اسی لیے جب جی ایچ کیو میں پکنے والی ایک سازش پکڑی گئی تو پھر گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اور ٹھیک چھ مہینوں بعد جی ایچ کیو سے صرف ایک کلومیٹر دور کمپنی باغ میں لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ ان دونوں واقعات کا اپس میں کیا تعلق؟ اصل میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خلاف راولپنڈی سازش کرنے والے تمام کرداروں کی سزائیں 1955 میں صرف چار سال بعد اچانک معاف کر دی گئیں اور ان میں سے جنرل اکبر تو بھٹو کی حکومت میں وزیر دفاع تک بنا دیے گئے۔ مگر یہ تو کچھ نہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو کس نے مارا؟ یہ تو سب جانتے ہیں مگر کس نے مروایا اور کیوں مروایا؟ اور جب راولپنڈی سازش کے تمام کردار گرفتار ہو چکے تھے تو پھر وہ کون تھا جس نے چند ماہ بعد اکتوبر میں بالآخر لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹا کر ہی دم لیا؟ ہم آپ کو بتائیں گے مگر پہلے ذرا تھوڑا سا ذکر ایوب خان کی ذاتی زندگی کا۔

ایوب خان کی ذاتی زندگی

ایوب خان مغرب سے بے حد متاثر تھے مگر برطانیہ نہیں امریکا سے۔ ان کی امریکا سے یہ محبت ان کے کی چال ڈھال حلیہ اور زبان ہر چیز سے واضح تھی۔ اسی لیے بطور آرمی چیف امریکا کی آشیر باد کی سر توڑ کوشش کرنے کے بعد۔ بالآخر جب صدر بنے تب بھی برطانوی پارلیمانی نظام کو لپیٹ کر امریکی صدارتی سسٹم کے قریب قریب نظام پاکستان میں بھی نافذ کر دیا۔ مگر یہ ون وے افئیر نہیں تھا۔ جہاں ایوب خان امریکا کے دلدادہ تھے وہیں امریکیوں نے بھی کئی بار ایوب خان پر ایسی نوازشیں نچھاور کیں جو بہت سخت محنتوں کے باوجود بھی آنے والے کسی ڈکٹیٹر کے نصیب میں نہ آ سکیں۔

خیر ذرا ان کی شخصیت کی جانب واپس آتے ہیں۔ بلا کا اعتماد تو تھا ہی مگر ساتھ شوق بھی بڑے نرالے تھے۔ اسی لیے گھر میں کتا بلی نہیں بنگال ٹائیگر پالا ہوا تھا۔ جس کا نام شیر خان تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ شیر خان کے لیے ایوان صدر کے ساتھ ہی ایک خصوصی ایر کنڈیشنڈ کمرہ بھی بنایا گیا تھا۔ جب کبھی فرصت ہوتی تو دن میں بطخوں کے شکار سے اور شام ڈھلے مشروب مغرب سے دل بہلاتے۔ ارد گرد بھی انہی لوگوں کو رکھتے جو حضور کا گلاس فُل اور اقبال بلند رکھتے۔

ایوب خان سیاست میں

1951 میں فوج کو سیاست سے دور رکھنے کا حکم جاری کرنے والے ایوب خان 1954 میں مجبوراً بوگرا کابینہ کے وزیر بن گئے۔ یہاں بھی ان کے پارٹنر اسکندر مرزا ان کے ساتھ تھے۔ غیر سیاسی خیالات رکھنے والے جنرل ایوب مشرقی پاکستان کے سیاسی اثر رسوخ سے بہت پریشان تھے، اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ مغربی پاکستان کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا جائے اور یوں انہوں نے انتہائی متنازع ’’ون یونٹ سسٹم‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں مشرقی پاکستان کا مقابلہ کرنے کی نیت سے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو یکجا کر دیا گیا۔ پھر بھی بات نہیں بن رہی تھی تو ایک اور حکم جاری ہوا اور 56 فیصد آبادی کے مشرقی اور 44 فیصد آبادی کے مغربی پاکستان کو دو برابر اکائیاں قرار دے دیا گیا۔

بنگالی تو ساری صورت حال سے پریشان تھے ہی مگر مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبے بھی اس قانون سے سخت ناراض ہو گئے۔ ملک میں افراتفری اور سیاسی ٹمپریچر بڑھتا جا رہا تھا۔ پاکستان نیچے جا رہا تھا مگر اسکندر مرزا اور ایوب کی طاقت اور اختیارات میں بڑھتے جا رہے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکندر مرزا صدر کی کرسی تک جا پہنچے۔

مرزا اور ایوب کی پارٹنر شپ اب بھی جاری رہی یہاں تک کہ جب ۷ اکتوبر 1958 کو صدر مرزا نے غیر قانونی طور پر فیروز خان نون کی جمہوری حکومت کا تختہ پلٹا اور مارشل لا لگایا تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے لیے بھی ایوب خان کا ہی انتخاب کیا۔ ایوب خان بتاتے ہیں کہ میں پانچ اکتوبر کی شام صدر مرزا سے ملنے پریذیڈنٹ ہاؤس کراچی پہنچا۔ ہم دونوں ایوان صدر کے لان میں بیٹھے تو میں نے صدر سے سوال کیا، ’’سر! کیا آپ حتمی طور پر اپنا دماغ بنا چکے ہیں؟‘‘ اسکندر مرزا نے جواب دیا، ’’ہاں!‘‘ میں نے پوچھا، ’’کیا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں؟‘‘ اسکندر مرزا نے جواب دیا، ’’ایبسولوٹلی ناٹ!‘‘

کہتے ہیں شیطان کا سب سے بڑا دھوکا یہ ہے کہ وہ آپ کو یقین دلاتا ہے کہ اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں۔ ایوب خان بھی مرزا کے ساتھ یہی کھیل کھیل رہے تھے۔ تابعداری اور جی حضوری کا لبادہ اوڑھے خاموشی سے وہ اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ ساری بدنامی اور رُسوائی اسکندر مرزا اور ساری طاقت ان کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ دوسری طرف اسکندر مرزا اپنے غیر قانونی اقدامات کو فوج اور مغربی طاقتوں کی سپورٹ سے Legitimacy دلوانے کی کوشش میں یہ بھول رہے تھے کہ بظاہر وفا دار نظر آنے والے ایوب خان ایک انتہائی ایمبیشس انسان ہیں۔ اور اس امبیشس جنرل کی نظریں پلیٹ نہیں پتیلے پر تھیں۔ اور یہی وہ موڑ تھا جہاں 7 سال پرانے دوستوں کی راہیں راتوں رات الگ ہو گئیں۔ سی ایم ایل اے بننے کے صرف تین ہفتوں بعد ہی 27 اکتوبر کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کو کراچی کے پریذیڈنٹ ہاؤس سے گرفتار کروا دیا ۔

ایوب خان کا قوم سے خطاب

صدر پاکستان میجر جنرل اسکندر مرزا اپنے تمام اختیارات سے سبکدوش ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے تمام اختیارات میرے حوالے کر دیے ہیں۔ لہذا میں نے آج رات سے بطور صدر پاکستان چارج سنبھال لیا ہے۔

اس طرح دس کروڑ انسانوں کے ملک کی باگ ڈور کسی بکری یا گائے کی طرح ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں لے لی گئی۔

خیر ، پرانی دوستی کا پاس تھا یا پھر کچھ اور ایوب خان نے اسکندر مرزا پر یہ احسان ضرور کیا کہ انہیں جیل میں ڈالنے کے بجائے لندن جلا وطن کر دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم ایوب خان کے بطور صدر دور کی طرف بڑھیں پہلے لیاقت علی خان کی قتل تحقیقات سے متعلق ایک حیران کن بات آپ کو بتائیں۔

لیاقت علی خان کے قاتل اکبر خان کے متعلق تو شاید آپ یہ تو جانتے ہوں گے کہ وہ ایک سرکاری ملازم تھا اور اس کی بیوہ کو کئی دہائیوں تک اس کی پینشن تک ملتی رہی۔ مگر کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ لیاقت علی خان پر گولی چلانے کے بعد پولیس اسے زندہ پکڑ چکی تھی مگر پھر اچانک کسی اندھی گولی سے وہ بھی مار دیا گیا۔ یہ گولی کس افسر نے چلائی؟ کیوں چلائی؟ یہ بات آج تک ایک راز ہے۔ شہادت کے فوراً بعد حکومت نے ایک انکوائری کمیشن بنایا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد سے انکوائری مکمل بھی کی گئی مگر اس رپورٹ کی کوئی بھی تفصیل کسی کے سامنے نہ آ سکی۔ اور حد تو یہ ہوئی کہ جب تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ اسپیشل برانچ کے آئی جی نئے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے سامنے وہ رپورٹ پیش کرنے کراچی آ رہے تھے تو ان کا طیارہ بھی کریش کر گیا اور ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام ثبوت اور شواہد بھی ہمیشہ کے لیے جل کر راکھ ہو گئے جو لیاقت علی خان کے اصل قاتلوں کا پتہ بتا رہے تھے۔

ایوب خان بحیثیت صدر

ایوب اقتدار میں تو آ گئے تھے لیکن انہیں اپنے غیر قانونی اقتدار کے لیے قانونی جواز کی۔ ان کی یہ مشکل آسان کی 1954 میں نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھنے والے جسٹس منیر احمد نے۔ لیکن دو حصوں میں بٹے دس کروڑ افراد کے ملک پر حکمرانی کے لیے صرف قانونی جواز کافی نہیں تھا۔ ایوب کو عوامی حمایت کی بھی ضرورت تھی اور پھر اپنے چال ڈھال رہن سہن میں مکمل طور پر ویسٹرن ویلیوز کا پرچار کرنے والے ایوب نے سہارا لیا ’’اسلام‘‘ کا۔

1959 میں سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ قائم کیا اور پھر فروری 1960 میں اعلان کر دیا کہ جی ایچ کیو کے عقب میں بننے والے نئے دار الخلافہ کا نام بھی اسلام آباد ہوگا۔ مگر بات نہیں بن رہی تھی تو جمہوریت اور سیاست دانوں سے خائف ایوب کو مجبوراً ملک میں جیسی تیسی جمہوریت نافذ کرنا پڑی۔ اور اس جمہوریت کا نام تھا ’’بیسک ڈیموکریسی‘‘۔

بظاہر اس نظام کا مقصد عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے طاقت اور اختیارات کا نچلی سطح پر ٹرانسفر تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح ایوب خان ’’سجّا‘‘ دکھا کر ’’کھبّا‘‘ مارنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایوب خان کو اقتدار سنبھالے دو سال ہو چکے تھے اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط تھی لیکن اب بھی ان کے دماغ میں اپنی پاپولیریٹی کو لے کر بہت سے شکوک و شبہات تھے۔ اسی لیے انہوں نے خود کو انتخاب کے لیے براہ راست دس کروڑ عوام کے سامنے کے پیش کرنے کے بجائے چند ہزار بیسک ڈیموکریٹ کے ذریعے اِن ڈائریکٹ انتخاب کا فیصلہ کیا۔

اسی دوران انہوں نے انتہائی سفاکانہ شہرت رکھنے والے جاگیردار نواب اف کالا باغ امیر محمد خان کو مغربی پاکستان کا گورنر مقرر بھی مقرر کر دیا جنہوں نے ہر قسم کی اپوزیشن کا سر کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایوب نے جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک کونسٹی ٹیوشن کمیشن بھی تشکیل دیا مگر جب کمیشن کی سفارشات سامنے آئیں تو ایوب نے انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور پھر اپنی طرف سے ایک ایسا آئین تشکیل دیا جس کا مقصد ان کے اپنے اقتدار کی ضمانت دینا تھا۔ ادھر سفارتی اور ملٹری فرنٹ پر امریکا کے ساتھ تعاون اتنا بڑھ گیا کہ جب 1959 میں چین اور بھارت کی جنگ چھڑی تو ایوب نے امریکا کے کہنے پر انڈیا کو چین کے خلاف متحدہ دفاعی محاذ بنانے کی پیش کش بھی کر دی جسے جواہر لعل نہرو نے مسترد کر دیا۔ پشاور ایئربیس سمیت متعدد فضائی اڈے تو پہلے ہی خفیہ معاہدوں کے تحت امریکیوں کے حوالے کیے جا چکے تھے مگر 1960 میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے ساری دنیا پر اس معاہدے کا پردہ فاش کر دیا۔

روسی دھمکیوں اور امریکا میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں سے پریشان ایوب خان نے بالآخر چین کا رخ کیا۔ اور 1963 میں تاریخی سائنو پاک فرنٹئیر معاہدے پر دستخط کر دیے۔ پاکستان کی سفارتی ڈائریکشن میں تبدیلی کو دیکھتے ہوئے روس نے بھی پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا یہاں تک کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے اختتام پر پونے والے تاشقند معاہدے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

1965 کی جنگ

1959 میں شروع ہونے والی چین بھارت جنگ تین سال بعد بھارت کی شکست پر ختم ہوئی تو ایوب خان نے بھی بھارتی فوج کی صفوں میں افراتفری کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور مسلح افراد کو کشمیر میں داخل کرنا شروع کر دیا۔ یہ سلسلہ جولائی 1965 میں اپنے عروج کو پہنچا۔ یہی وجہ بنی پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ کی ۔

آپریشن جبرالٹر کے تحت کشمیر میں بھارت کو سر پرائز کرنے کی حکمت عملی کافی حد تک کامیاب رہی تھی لیکن پاکستان آرمی کی توقعات کے خلاف بھارت نے جنگ کو بین الاقوامی سرحدوں پر بھی پھیلا دیا۔ پاکستان فوج اس رد عمل کے لیے بالکل تیار نہیں تھی اسی لیے بھارتی فوج بنا کسی رکاوٹ کے پاکستان کے اندر کئی کلومیٹر تک گھس آئی۔ چند ہفتوں تک جاری رہنے والی اس گھمسان کی جنگ میں کوئی بھی فریق حتمی طور پر فتح یاب نہیں ہو سکا۔ تنازع لمبا ہوتا جا رہا تھا دونوں طرف جانی نقصان تقریباً برابر تھا بھارت سیالکوٹ اور اس پاس کے علاقوں میں تقریباً 7 سو مربع میل پاکستانی سرزمین پر قبضے کا دعوی کر رہا تھا تو ادھر پاکستان بھی چمبھ اور راجستھان سیکٹر میں کوئی سو کلومیٹر بھارتی زمین پر اپنے جھنڈے گاڑ چکا تھا۔ جنگ کے جانی اور مالی نقصانات سے پریشان دونوں فریق بالآخر تاشقند میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے۔ جنوری 1966 میں وہ تاریخی معاہدہ ہوا جس سے ایوب خان کی مقبولیت کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور دھکا لگ گیا۔ پاکستانی میڈیا پر جیت کے دعوے کرنے کے بعد جب ایوب محاذ سے پیچھے ہٹے تو عوام کو یہ بات بالکل ہضم نہیں ہوئی۔ ایوب اس عوامی ری ایکشن سے اتنا پریشان ہوئے کہ اگلے کئی ماہ منظر عام پر ہی نہیں آئے۔ بالآخر 14 جنوری کو قوم سے خطاب میں تاشقند معاہدے کی وجوہات بیان کیں مگر 1965 صرف فوجی نہیں سیاسی لحاظ سے بھی ایوب کے لیے انتہائی سخت سال ثابت ہوا۔

ایوب خان بمقابلہ فاطمہ جناح

1964 میں ایوب خان اپنی مقبولیت کو لے کر کمفرٹیبل محسوس کرنے لگے تھے۔ اسی لیے انہوں نے ملک میں پہلے صدارتی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ انہیں توقع تھی کہ وہ بآسانی یہ الیکشنز جیت جائیں گے لیکن جب متحدہ اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کا نام فائنل کیا تو ایوب خان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔

فاطمہ جناح نہ صرف قائد اعظم کی بہن تھیں بلکہ خود بھی ایک شاندار کردار کی مالک تھیں مگر سیاسی طور پر ان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ نہیں لیکن مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان سے مولانا مودودی کی حمایت کے بعد وہ ایوب خان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی تھیں۔ اور پھر آغاز ہوا ایک ایسی شرمناک اور پر تشدد الیکشن مہم کا جس کا ذکر آج تک پاکستانی سیاست میں زندہ ہے۔ کہیں فاطمہ جناح کے کردار پر حملے ہوئے تو کہیں انہیں غدار ہی بنا دیا گیا۔ بات پھر بھی نہ بنی تو کراچی کے علاقے لالو کھیت میں فاطمہ جناح کے حمایتیوں پر کھلے عام گولیاں تک چلا دی گئیں۔

بھرپور دھاندلی کے باوجود ایوب خان عوامی حمایت حاصل نہ کر سکے۔ فاطمہ جناح پاپولر ووٹ جیت گئیں مگر پھر ایجنسیوں اور بیورو کریسی کی بھرپور مدد سے ایوب خان 80 ہزار میں سے 49 ہزار نمائندوں کو اپنی طرف گھسیٹنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور عوامی حمایت جیتنے کے باوجود فاطمہ جناح صدر کا الیکشن ہار گئیں۔

یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان میں ڈنڈا جیت گیا اور جھنڈا ہار گیا۔

ایوب خان کا ’’سنہرا دور‘‘

ایوب خان کے زمانے کو پاکستانی معیشت کا ’’سنہرا دور‘‘ بھی کہا جاتا یہاں تک کے عمران خان بھی اپنی تقریروں میں اس دور کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ صرف پاکستانی نہیں بین الاقوامی حلقوں میں بھی ایوب خان کی معاشی کارکردگی کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ فرانس کے دی گال سے لے کر امریکی صدر جونسن تک ہر کوئی پاکستانی معیشت کی ترقی کا معترف تھا۔ ورلڈ بینک کے پریذیڈنٹ روبرٹ میکنمارا نے تو یہ تک کہ دیا کہ ایوب کا دور دنیا بھر کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب دور میں زبردست معاشی ترقی ہوئی، مہنگائی انڈر کنٹرول رہی اور پلاننگ کمیشن جیسے شاندار ادارے قائم کیے گئے جہاں دنیا بھر کے بہترین ذہنوں کو کام کرنے کا موقع بھی دیا گیا۔ یہ وہ دور ہے جب کوریا جیسا ملک بھی پاکستان سے انسپریشن لے رہا تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس دور کے معاشی نمبرز ایک پوزیٹیو اسٹوری سناتے ہیں مگر ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا اوپر اوپر سے اچھی نظر آنے والی معیشت اندر سے بھی مضبوط تھی؟ کیا پورا پاکستان ترقی کر رہا تھا یہ صرف چند خاندان؟

1959 میں جب ایوب نے اقتدار سنبھالا تو ایک پاکستانی کی سالانہ اوسط آمدن 318 روپے تھی جو دس سال بعد بڑھ کر 424 روپے ہو گئی۔ اگر صرف یہ نمبر دیکھا جائے تو یہ اس کارکردگی کو کسی بھی لحاظ سے برا نہیں کہا جا سکتا لیکن۔ اگر ہم اس نمبر کو مغربی اور مشرقی پاکستان کے لیے الگ الگ دیکھیں گے تو ہمیں معاشی استحصال کا ایک بھیانک ٹرینڈ نظر آئے گا۔ 1959 میں مشرقی اور مغربی پاکستانیو کی اوسط آمدن میں 88 روپے یا 24 فیصد کا فرق تھا جو ایوب دور کے اختتام پر 206 روپے تک بڑھ چکا تھا۔ مغربی پاکستانیو کی آمدن میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا لیکن بنگالیو کی آمدن صرف 18 فیصد بڑھی۔ 60 فیصد آبادی کے باوجود مشرقی پاکستان کو ایوب حکومت کے فنڈز کا صرف 35 فیصد ملتا رہا۔ نتیجہ؟

جہاں مغربی پاکستان بھارت اور چین سے بھی زیادہ تیزی سے ترقی کر رہا تھا وہیں مشرقی پاکستان بمشکل گزارا ہو رہا تھا۔ مگر مغربی پاکستان میں بھی ترقی چند علاقوں تک ہی محدود کی جا رہی تھی۔ سارا ترقیاتی بجٹ انہی علاقوں پر صرف کیا جا رہا تھا۔


دنیا بھر میں انڈسٹریل شہر سمندر کنارے آباد کیے جاتے ہیں تاکہ ایکسپورٹ کرنے میں آسانی ہو لیکن ایوب خان کو شمالی پنجاب سے ایسا عشق تھا کہ نہ صرف دارالحکومت کراچی سے وہاں لے گئے بلکہ معاشی ترقی کا مرکز بھی کراچی سے وہیں منتقل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ میں انفرا اسٹرکچر پر زبردست سرمایہ کاری کی گئی۔

ایوب کی معاشی ترقی صرف جغرافیائی نہیں انسانی لحاظ سے بھی محدود تھی یہی وجہ ہے کہ ایک وقت تو ایسا آیا کہ صرف چنیوٹی برادری ملک کی مجموعی انڈسٹریل ویلتھ کے پچاس فیصد سے زائد کی مالک بن چکی تھی۔ جب ایوب ہی کے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن محبوب الحق نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ صرف بیس خاندان ملک کی دو تہائی صنعتوں اور 75 فیصد بینکنگ کے مالک بن چکے ہیں تو ملک میں طوفان برپا ہو گیا۔

ایوب کا وقت تمام ہوا

صدارتی انتخاب میں فاطمہ جناح سے بمشکل جیتنے اور تاشقند معاہدے کی فوجی محاذ پر پسپائی کے بعد ایوب حکومت اب معاشی محاذ پر بھی ہچکولے کھا رہی تھی۔

انگریزی میں کہاوت ہے کہ Desperate times call for desperate measures اور اسی ڈیسپریشن کا شکار ایوب خان نے 1967 میں مشرقی پاکستان کے مقبول ترین رہ نما شیخ مجیب کو ڈیڑھ ہزار ساتھیوں سمیت اگرتلہ سازش میں گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ بھارت کے مدد سے پاکستان سے علیحدگی کی سازش کر رہے ہیں۔ یہ الزام بالکل بے بنیاد تو نہیں تھا لیکن شیخ مجیب اب ایک ایسا جن بن چکے تھے جسے بوتل میں بند کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ ڈھاکا کنٹونمنٹ میں ہونے والی خفیہ ٹرائل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ برسوں سے سلگتی چنگاری اب ایک خوفناک آگ بن گئی جس کی تپش سے ہزاروں میل دور اسلام آباد کے ٹھنڈے ماحول میں بیٹھے ایوب خان کو بھی پسینے آ رہے تھے۔

پھر پندرہ فروری 1968 کو اگرتلہ سازش کا ایک کردار سارجنٹ ظہور الحق فوج کی کسٹڈی میں مارا گیا۔ بیان جاری ہوا کہ ظہور نے فرار کی کوشش کی جس دوران وہ ہلاک ہو گیا لیکن مشرقی پاکستان میں کوئی اس بیان پر یقین کرنے والا نہیں تھا۔ ہلاکت کا ری ایکشن اتنا شدید تھا کہ ریاست سمجھ گئی کہ اب شیخ مجیب کے خلاف کوئی بھی کارروائی ممکن نہیں اسی لیے 22 فروری 1968 کو اگرتلہ کیس واپس لے لیا گیا اور شیخ مجیب ’’بنگ بندھو‘‘ بن گیا۔ اگرچہ اگرتلہ کیس میں جان تھی لیکن غلط ہینڈلنگ کی وجہ سے بھارت نواز عناصر کو کچلنے کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا اور شاید مشرقی پاکستان بھی۔

ادھر مغربی پاکستان میں ایوب کی گود سے ہی سیاسی جنم لینے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی مہنگائی اور معاشی ناانصافی کو لے کر ایک اور محاذ کھول دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہواؤں کا بدلتا رخ دیکھ کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپوزیشن کے ساتھ رابطے بڑھانا شروع کر دیے۔

چند سال پہلے تک فٹ فاٹ نظر آنے والے ایوب خان کو ان پے در پے ناکامیوں اور اسٹریس نے صرف 62 سال کی عمر میں بوڑھا کر دیا۔ فوج اور سیاست دانوں کے ساتھ اب ان کا جسم بھی ان کا ساتھ چھوڑ رہا تھا۔ پے در پے ہارٹ اٹیک، فالج اور نمونیا جیسی خطرناک بیماریوں کے حملوں نے ان کی کمر توڑ دی اور بالآخر۔ 25 مارچ 1969 کو ملکی سیاست میں اٹھارہ سال تک پاکستان کے سیاہ اور سفید کا مالک رہنے والے ایوب خان چپ چاپ استعفی دے کر گھر چلے گئے۔

شیئر

جواب لکھیں