یہ کہانی شروع ہوتی ہے محمود آباد سے، کراچی والے نہیں، ہندوستان والے! اور نہ ہی یہ کہانی ’’نصیب بریانی‘‘ کی ہے، بلکہ یہ داستان ہے ایسے بزنس کی، جس نے لاکھوں لوگوں کے نصیب بدل دیے اور پھر انہیں برباد بھی کر دیا۔

یہ کہانی ہے ایک ایسے بینک کی، جو اپنے عروج پر دنیا کا fastest growing بینک تھا۔ یہ بینک ملکیت تھا عربوں کی، رجسٹرڈ تھا لکسمبرگ میں اور اس کا ہیڈ کوارٹر تھا برطانیہ میں لیکن اس بینک کو بنایا تھا پاکستانیوں نے۔ ‏1972 میں بننے والا یہ بینک 80 کی دہائی میں اپنے عروج کو پہنچا۔ اس کے 14 ہزار ملازم تھے، ‏72 ملکوں میں 400 شاخیں تھیں، ‏13 لاکھ ڈپازٹرز اور 20 ارب ڈالرز سے زیادہ کے assets۔ کم از کم، آن پیپر تو ایسا ہی تھا۔ لیکن پھر آیا 1991، بینکنگ فراڈ کا الزام لگا اور سب کچھ ختم ہو گیا!

اسے دنیا کا most کرپٹ بینک قرار دیا گیا۔ منشیات، منی لانڈرنگ، خفیہ ہتھیاروں کی ڈیلز اور دہشت گردوں کی مالی مدد سے بھی جوڑا گیا، at least بتایا یہی سب گیا۔ لیکن بینک کے حامی آج بھی سمجھتے ہیں کہ یہ اصل میں مغرب کے فنانشل سسٹم کی سازش تھی۔ جو نہیں چاہتے تھے کہ تھرڈ ورلڈ کا کوئی ادارہ عالمی سطح کا بینک بنے۔ یہ بینک تھا، BCCI یعنی:

Bank of Credit and Commerce International

مگر مخالفین اسے کہتے ہیں:

Bank of Crooks and Criminals International

بی سی سی آئی، فراڈ یا سازش؟

شاعروں کا حال تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اپنی خودی میں مست بلکہ فقیر حال مست ہوتے ہیں۔

یہ کہانی بھی ایک شاعر کی ہے، بس یہ شاعر ایسا ہے جس کے ایک اشارے پر اربوں ڈالرز ادھر سے ادھر ہوتے تھے۔ یہ ہیں بی سی سی آئی کے بانی آغا حسن عابدی، جو دنیا کا سب بڑا بینک بنانا چاہتے تھے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب وہ خود کو بینک کی نوکری کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے۔

حسن عابدی کے ایک قریبی دوست تھے عبادت یار خان۔ وہ بھی شاعر تھے اور ادبی دنیا میں عبادت بریلوی کے نام سے مشہور تھے۔ وہ اپنی کتاب ’’غزالان رعنا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک دن انھوں نے آغا حسن عابدی کو بینک میں ملازمت کا مشورہ دیا۔ جس پر جواب ملا، ’’یار! کیسی باتیں کرتے ہو؟ میں اور بینک کی ملازمت؟ تم تو مجھے جانتے ہو، یہ میرے مزاج کا کام نہیں‘‘۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، حسن عابدی کو نہ چاہتے ہوئے بھی بینک جوائن کرنا ہی پڑا۔

حسن عابدی اصل میں انگلش لٹریچر اور قانون کے طالب علم تھے، لیکن 1946 میں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بینکر بن گئے۔ اُن کی عمر 24 سال تھی، جب انھوں نے اسٹارٹ لیا حبیب بینک سے۔ پاکستان آزاد ہوا تو حبیب بینک کا ہیڈ کوارٹر بھی دارالحکومت کراچی شفٹ ہو گیا، یوں حسن عابدی بھی یہیں آ گئے۔ کچھ ہی عرصے میں وہ بینک کے decision makers میں سے ایک بن گئے لیکن پھر حبیب فیملی کے ساتھ اختلافات ہو گئے اور یوں حسن عابدی نے حبیب بینک چھوڑ دیا۔

آغا حسن عابدی نے 1959 میں سہگل گروپ کی investment سے کھڑا کیا یونائیٹڈ بینک۔ صرف 11 سال میں، صرف 11 سال میں ملک میں یونائیٹڈ بینک کی 912 شاخیں ہو گئیں اور یہ حبیب بینک کے بعد ملک کا دوسرا بڑا بینک بن گیا۔ یہی پہلا نان عرب مسلم بینک تھا، جس نے متحدہ عرب امارات میں بھی برانچ کھولی۔ اِس ایک فیصلے سے حسن عابدی کی قسمت نے ایک نیا ٹرن لیا

تھرڈ ورلڈ کا ورلڈ بینک

عابدی صاحب شاید ویسے ہی ایک عالمی بینک بنانا چاہتے تھے، لیکن دو واقعات ایسے پیش آئے، جو فوری محرک بنے۔ پہلا سقوط ڈھاکا اور دوسرا بھٹو حکومت کا پرائیویٹ اداروں کو نیشنلائز کرنے کا فیصلہ۔ یونائیٹڈ بینک بھی بھٹو کے اس ایڈونچر کی زد میں آ گیا۔

پاکستان سے دلبرداشتہ ہو کر عابدی نے اپنا رخ عرب دنیا کی طرف کرلیا۔ لیکن انٹرنیشنل لیول پر بینک بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے لیے تین چیزیں بہت ضروری تھیں: ایک غیر معمولی اعتماد، دوسرا تعلقات کا بڑا نیٹ ورک اور تیسرا بہت سارا پیسہ۔ پہلی دو چیزیں تو حسن عابدی میں خوب موجود تھیں اور تیسری چیز کی تلاش میں وہ ایک بار پھر پہنچے متحدہ عرب امارات۔ جب 60sمیں یونائیٹڈ بینک کی برانچ کھولنے وہ پہلی بار عرب امارات گئے، تب انھوں نے ابو ظبی کے حکمران شیخ زاید بن سلطان النہیان کو ایک نایاب قالین پیش کیا تھا۔ اس تحفے کا نتیجہ نکلا دوستی کی صورت میں، اس بعد جب بھی شیخ زاید پاکستان آتے، اُن کے رہنے، کھانے، پینے، ہر چیز کے انتظامات آغا صاحب کے ذمے ہوتے لیکن اب یہ دوستی بزنس پارٹنر شپ میں بدلنے والی تھی۔

1972 میں شیخ زاید کی 75 فیصد اور بینک آف امریکا کی 25 فیصد سرمایہ کاری سے ایک بینک کی بنیاد رکھی گئی۔ نام رکھا گیا ’’بینک آف کامرس اینڈ کریڈٹس انٹرنیشنل‘‘ جس کا مخفف بنا بی سی سی آئی۔ رجسٹرڈ کروایا گیا یورپ کے ملک لکسمبرگ میں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں رجسٹرڈ کروانے کا مقصد ایک ہی تھا: ملک کے نرم قوانین کا فائدہ اٹھانا۔ بی سی سی آئی کا آغاز طوفانی تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تیل کی دریافت اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں عرب ملکوں پر دولت کی بارش برسا رہی تھیں۔

‏1970 میں ابو ظبی کی آمدنی 80 کروڑ ڈالرز تھی، جو پانچ سالوں میں دس گنا بڑھ کر آٹھ ارب ڈالرز تک پہنچ گئی۔ یہ پیسہ کہاں رکھا جاتا؟ ظاہر ہے کسی بینک میں اور اس کے لیے فرسٹ چوائس بنا: بی سی سی آئی۔ مغربی بینکوں کے مقابلے میں بی سی سی آئی کو ایک بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ یہ عربوں کا اپنا بینک تھا، اس لیے وہ خود کو بی سی سی آئی کے قریب محسوس کرتے تھے اور اس کے کسٹمرز بنتے چلے گئے۔ خیر، 1977 میں یعنی صرف پانچ سالوں میں برطانیہ میں ہی بی سی سی آئی کی 45 شاخیں تھیں۔ تھرڈ ورلڈ کا ایک بینک مغرب کے بنائے گئے عالمی فنانشل سسٹم کی ٹیبل پر اپنی کرسی مانگ رہا تھا۔ لیکن اس کرسی کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ میں اپنے قدم جمائے یعنی امریکا میں۔ اور یہ آسان نہیں تھا!

ایک قدم امریکا میں

امریکہ میں ایک قانون تھا میک فیڈن ایکٹ (McFadden Act) جس کے ہوتے ہوئے کسی بھی نیشنل بینک کے لیے مختلف ریاستوں میں بینکنگ تقریباً ناممکن تھی۔ اب کیونکہ بی سی سی آئی میں بینک آف امریکا کا بھی حصہ تھا، اس لیے وہ جہاں بھی بینک خریدنے کی کوشش کرتا۔ امریکی ریگولیٹرز اسے بینک آف امریکا کا حصہ سمجھ کر کوشش ناکام بنا دیتے مگر عابدی صاحب کہاں اتنی آسانی سے رکنے والے تھے؟ جب دروازہ بند ملا تو انھوں نے کھڑکی تلاش کرلی، بلکہ کھڑی بھی نہیں، روشن دان تلاش کیے۔ ایک سعودی انویسٹر کو فرنٹ مین بنا کر پہلے ایک چھوٹا ریاستی بینک خریدا، پھر اس بینک کے ذریعے واشنگٹن کے مشہور فرسٹ امریکن بینک کو خرید لیا۔ یوں بی سی سی آئی امریکا میں داخل ہو گیا۔ یہ بظاہر ایک بہت بڑی کامیابی تھی لیکن اصل میں یہ خاتمے کا آغاز تھا۔

مخالفین کہتے ہیں کہ بی سی سی آئی کی کامیابیوں کے پیچھے زیادہ تر ایسی ہی جگاڑ بازیاں تھیں اور یہی سب کچھ بعد میں بینکنگ history کا سب سے بڑا فراڈ کہلایا۔ کیسے؟ یہ بتائیں گے، لیکن آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ وہ تو سب ٹھیک ہے بھائی لیکن اس میں محمود آباد کا کیا قصور ہے؟ اور یہ کہانی آخر محمود آباد سے کیوں شروع ہوئی؟ تو جواب یہ ہے!

محمود آباد آغا حسن عابدی کا آبائی علاقہ ہے، وہ یہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لیکن بات صرف اتنی نہیں، اس علاقے کے جاگیردارانہ اور شاہانہ مزاج کی تاریخ کا بھی عابدی صاحب پر بہت اثر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی بیک گراؤنڈ نے اُن کی بینکنگ اپروچ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عابدی صاحب کے بینکنگ کے طریقے بھی جاگیردارانہ روایات سے ملتے جلتے تھے۔ جیسے سخاوت، وفاداری اور لوگوں کے سر پر ہاتھ رکھنا۔ آغا حسن عابدی کا ادارہ تو بینک سے زیادہ بادشاہت نظر آنے لگا۔ اپنے انویسٹرز اور پارٹنرز کے لیے ایسی ایسی پارٹیز ارینج کرواتے کہ ملکہ برطانیہ بھی شرمانے لگیں۔ آغا صاحب کا سارا مزاج اس ایک واقعے میں سمجھا جا سکتا ہے۔

اردو کے ایک نامور شاعر تھے عبید اللہ علیم۔ آغا حسن عابدی کے بڑے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے۔ ایک دن آغا صاحب نے انہیں کہا آپ میرا بینک جوائن کرلیں۔ عبید اللہ علیم نے جواب دیا: بھائی! میں شاعر آدمی ہوں، مجھے تو بینکنگ کی الف بے بھی نہیں آتی۔ آغا صاحب نے پھر بھی اپنی آفر واپس نہیں لی جب عبیداللہ علیم نے تنخواہ پوچھی، تو آغا صاحب کا جواب سن کر ہوش اڑ گئے۔ وہ اگلے پانچ سو سال تک بھی مشاعرے کرتے رہتے، تب بھی کبھی اتنا نہیں کما سکتے تھے لیکن عبید اللہ علیم نے کہا کہ تنخواہ تو بہت اچھی ہے، مگر آپ اس تنخواہ کو خرچ کرنے کا وقت نہیں دے رہے۔

حسن عابدی نے لندن میں اردو مرکز بورڈ بنایا اور افتخار عارف کو اس کا سربراہ بنایا۔ یہ تو وطن سے دُور اردو ادیبوں کا اڈا بن گیا۔ خیر، عابدی صاحب صرف اپنے قریبی دوستوں کو ہی نہیں نواز رہے تھے، ایک وقت ایسا بھی تھا جب ان کے پے رول پر بہت بڑے بڑے نام تھے۔ مثلاً گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان راشد احمد، ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک نظیر الدین احمد، پاکستان بینکنگ کونسل کے سابق چیرمین علی پیر بھائی اور مشتاق احمد یوسفی۔ جی ہاں! یہ وہی مشتاق احمد یوسفی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہم اردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔ پھر مشہورِ زمانہ وزیرِ خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق، جنرل ضیاء الحق کے چیف آف ملٹری اسٹاف جنرل رحیم الدین خان، انٹیلی جنس بیورو کے چیف اکرم شیخ اور پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن کے چیف آئی ایچ عثمانی بھی۔

یعنی کہانی تو شاعروں سے کہیں آگے نکل گئی تھی۔ لیکن بھانت بھانت کے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے سے بینک کا کلچر بری طرح متاثر ہوا۔ اس کی ایک مثال ہمیں ایک پاکستانی بزنس مین سے ملتی ہے، جنھوں نے ایک بار عابدی صاحب سے یورپ میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بی سی سی آئی کے سینیئر ایگزیکٹوز بھی موجود تھے۔ ملاقات کے دوران بزنس مین عابدی صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے، باقی لوگ کچھ فاصلے پر موجود تھے۔ جب کافی پیش کی گئی تو حسن عابدی نے اپنے سینیئر ایگزیکٹوز سے کہا: کپ رکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی میز لائیں۔ یہ سنتے ہی چاروں سینیئر ایگزیکٹوز کھڑے ہو گئے۔ سب نے ایک چھوٹی سے میز اٹھائی، سب نے ایک، ایک کونا پکڑا اور آہستہ آہستہ اسے عابدی کے پاس لے آئے۔ اس طرح کی حرکتوں کو کارپوریٹ ورلڈ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن عابدی صاحب کو کیا پروا؟ وہ تو محمود آباد سے تھے اور وہاں ایسا ہی ہوتا تھا۔

BEGINNING OF THE END

آخرکار مسائل پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ جیسے جیسے اس کا پھیلاؤ بڑھتا گیا، بینک کے آپریشنز میں ابہام اور شکوک بڑھتے چلے گئے۔ ‏70 کی دہائی کے آخر تک بی سی سی آئی فراڈ کی کئی activities میں ملوث ہو چکا تھا۔ بینک آف انگلینڈ کے مطابق جب یہ دھوکا دہی شروع ہوئی تو بی سی سی آئی کی administration دو مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایسے مسائل، جو بینک کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتے تھے۔

پہلا مسئلہ تھا کرنسی اور کموڈٹی ٹریڈنگ پر ہونے شدید losses۔ بند ہونے سے صرف ایک سال پہلے 1990 میں بینک نے 50 کروڑ ڈالر گنوا دیے۔ مجموعی طور پر تو یہ نقصان بلین ڈالرز سے اوپر جا چکا تھا۔

دوسرا مسئلہ تھا مڈل ایسٹ کے نامی گرامی کاروباریوں کو بڑے بڑے قرضے دینا، وہ بھی بغیر قانونی تقاضے پورے کیے۔ یہی وجہ ہے کہ 1991 میں جب بینک بند ہوا، تو اس کا قرض کا پورٹ فولیو 3.1 ارب ڈالر تک تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے قرضے بی سی سی آئی یا اس کے ایگزیکٹوز سے قریبی تعلقات رکھنے والے لوگوں کو دیے گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک بلین ڈالر کی بھاری رقم تو صرف تین لوگوں کو دی گئی: ایک سعودی فائنانسر، ایک سابق سعودی انٹیلی جنس چیف اور ایک گلف گروپ۔ یوں، وہ بینک جو بنا تھا تیسری دنیا کوسہارا دینے کے لیے، غریبوں کا استحصال ختم کرنے کے لیے، امیروں کو قرضے دیتا رہا، وہ بھی ایسے قرضے، جنہیں سالوں تک ادا نہیں کیا گیا۔

یہاں بی سی سی آئی نے نقصان سے بچنے کا ایک طریقہ نکالا، اس نے چھپانا شروع کر دیا اور ایک اسکیم بنائی، جسے آڈیٹرز آج بینکنگ history کا سب سے پیچیدہ فراڈ کہتے ہیں۔ اس اسکیم میں اکاؤنٹ ٹرن اوور میں اضافہ اور فنڈز کی روانی کو چھپایا گیا۔ اکاؤنٹ بیلنس کرنے کے لیے ڈپازٹس تک چھپائے گئے، ایک اندازے کے مطابق یہ ڈپازٹس 60 کروڑ ڈالرز سے زیادہ کے تھے۔ اس پیچیدہ اسکیم کو دیکھ کر جہاں آڈیٹرز کا سر چکرا رہا تھا، وہیں یہ کام بینک کے قابو سے باہر بھی ہوتا جا رہا تھا۔ آخر ایسا کب تک ہو سکتا تھا؟ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے تھے اور پھر سو کے لیے دس ہزار بولنے پڑے۔ بی سی سی آئی پر اور بھی کئی الزامات تھے، جیسے منی لانڈرنگ، کرپشن، terror financing اور اسلحے کے غیر قانونی لین دین میں مدد وغیرہ

اس موضوع پر ایک بہت اچھی کتاب ہے: False Profits: The Inside Story of BCCI، لکھا ہے Peter Truell اور Larry Gurwin نے۔ اس کتاب کے مطابق بی سی سی آئی دنیا بھر کے dictators، ڈرگ cartels اور دہشت گردوں کا کالا دھن سفید کرنے کا گڑھ بن چکا تھا۔ اس بینک کے اکاؤنٹ ہولڈرز میں عراق کے صدر صدام حسین بھی تھے تو فلپائن کے ڈکٹیٹر Ferdinand Marcos بھی، پاناما کے Manuel Noriega بھی تو فلسطین کی تنظیم ابو ندال بھی۔ اور تو اور امریکا کی خفیہ ایجنسی CIA تک بی سی سی آئی کے ساتھ تھی، اس نے افغان جہاد میں رقوم کے لیے بی سی سی آئی کو ہی استعمال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بی سی سی آئی اتنے عرصے سے دھڑلے سے کام ہی اس لیے کرتا رہا، کیونکہ سی آئی اے اس کے ساتھ تھا۔ اس کتاب میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حسن عابدی کے اُس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی اے William Casey کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور دونوں خفیہ ملاقاتیں بھی کرتے تھے، لیکن پھر حالات بدلنے لگے۔

آپریشC-Chase

یہ 1987 کے ابتدائی دن تھے۔ امریکا کی ریاست فلوریڈا کے شہر ٹیمپا میں ایک مالدار بزنس مین بی سی سی آئی کی برانچ پہنچا اور اکاؤنٹ کھولنے کی درخواست جمع کروائی۔ اس بزنس مین کا نام تھا Bob Musella۔ چار مہینے لگے، اور ان کا اکاؤنٹ بی سی سی آئی کی پاناما برانچ میں کھل گیا اور پھر چیک جمع ہونے لگے۔ ایک دن کسی چیک پر لکھی رقم کے نمبرز اور ورڈز کچھ مختلف تھے۔ وضاحت کے لیے پاناما برانچ کے افسر آفتاب حسین نے انہیں فون کیا، گفتگو ہوئی۔ آفتاب نے ملاقات کرنا چاہی۔ وہ باب کے بزنس کے بارے میں جاننا اور انہیں بی سی سی آئی کی مختلف سروسز کے بارے میں بتانا چاہتے تھے۔ ملاقات ہوئی، جس میں آفتاب نے باب کو بتایا کہ کوئی رقم خفیہ طریقے سے کیسے ایک سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتی ہے؟ پھر تو ملاقاتیں کا سلسلہ ہی شروع ہو گیا، جس میں باب نے بتایا کہ اس کا اصل کام ڈرگز کا ہے، اور یہ سارا پیسہ بھی اسی کا ہے۔ تب آفتاب نے باب کی ملاقات اپنے کچھ کولیگز سے کروائی، جن میں ایک تھے امجد اعوان۔ اگلے کچھ مہینوں میں آفتاب، امجد اور دوسرے افسروں نے باب کے 1.4 کروڑ ڈالرز launder کیے۔

یہ 26 جون 1988 تھا، جب نیویارک کے فرسٹ امریکن بینک سے ٹرانزیکشنز کا آغاز ہوا۔ کل 7 ٹرانزیکشنز ہوئیں، جن میں ٹوٹل 68 لاکھ ڈالر منتقل ہوئے۔ یہ باب کے لیے تو بڑی خوشی کی بات تھی، آفتاب اور امجد بھی بڑے خوش ہوئے ہوں گے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ بی سی سی آئی کے لیے اچھی خبر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ باب کا اصل نام تھا Robert Mazur اور وہ ڈرگز کا کام نہیں کرتے تھے، بلکہ یو ایس کسٹمز کے خفیہ ایجنٹ تھے۔ اُن کا کام تھا، ڈرگز کے نیٹ ورکس اور خفیہ اکاؤنٹس کا پتہ چلانا اور اس کے لیے اُن کا ادارہ ایک خفیہ آپریشن کر رہا تھا، جس کا نام تھا: آپریشن سی چیز Operation C-Chase

رابرٹ کے پاس ہر وقت ایک خفیہ ٹیپ ریکارڈر ہوتا تھا جس کی ایک ریکارڈنگ ہوتی ہے جون 1988 میں۔ اس میں امجد اعوان رابرٹ کو کہتے ہیں کہ میں ہر مہینے ایک کروڑ ڈالر کی منی لانڈرنگ آسانی سے کر سکتا ہوں۔ ثبوت پکے تھے اور پھر اکتوبر میں ڈپارٹمنٹ نے اِن بینکرز پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن ایک مسئلہ تھا مختلف مقامات پر موجود 10 لوگوں کو ایک ساتھ کیسے گرفتار کیا جائے؟ آفتاب حسین کے علاوہ یہ تھے:

  1. ضیا الدین علی اکبر، جو بی سی سی آئی کے ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے
  2. اقبال اشرف، منیجر لاس اینجلس برانچ
  3. امجد اعوان، لیٹن امریکا ریجن کے لیے مارکیٹنگ آفیسر
  4. آصف باکزا، ڈائریکٹر کارپوریٹ یونٹ، لندن
  5. اکبر بلگرامی، لیٹن امریکا کے لیے مارکیٹنگ ہیڈ
  6. نذیر چنائے، ریجنل جنرل منیجر برائے یورپ
  7. سبط حسن، چنائے کے اسسٹنٹ
  8. این ہاورڈ، کنٹری منیجر فرانس
  9. سعد شفیع، کنٹری منیجر بہاماس

رابرٹ نے جو پلان بنایا، وہ کمال تھا۔ انھوں نے اپنی شادی کا اعلان کر دیا اور بی سی سی آئی کے ان تمام ‘‘دوستوں’‘ کو فلوریڈا آنے کی دعوت دی۔ نو اکتوبر کی شام آئی، امجد اعوان، آفتاب حسین، اکبر بلگرامی، سبط حسن اور این ہاورڈ یہ سب شادی کی دعوت سے گرفتار ہوئے۔ آصف باکز اور نذیر چنائے کی گرفتاری لندن سے عمل میں آئی اور باقی لوگ مختلف مقامات پر گرفتار ہوئے۔ اب انہیں کیس کا سامنا تھا، جو چلا جنوری 1990 میں۔ رابرٹ کے پاس ٹیپ ریکارڈنگز بھی تھی، یعنی پکے ثبوت تھے لیکن یہ معاملہ بڑی 'خوش اسلوبی' سے طے پا گیا۔ بی سی سی آئی نے وعدہ کیا کہ وہ پانچ سال کے اندر اندر فیڈرل ریزرو سسٹم کے ہر قانون کی پیروی کرے گا اور ڈیڑھ کروڑ ڈالر جرمانہ بھی ادا کرے گا۔ جسٹس ڈپارٹمنٹ نے مان بھی لیا۔ ان لوگوں کو individually سزائیں تو ہوئیں، لیکن بطور ادارہ بی سی سی آئی کو کچھ نہیں کہا گیا۔ بینک بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا، لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟

Sandstorm

بی سی سی آئی نے جو عمارت تعمیر کی تھی، وہ ہاؤس آف کارڈز تھی۔ جون 1991 میں بالآخر یہ عمارت گرنا شروع ہو گئی۔ امریکا میں گرفتاریوں اور کیس کے جو شور اٹھ رہا تھا، اسے روکنے والا اب کوئی نہیں تھا۔ بینک آف انگلینڈ نے PricewaterhouseCoopers سے کہا کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کرے۔ پھر آئی 45 صفحات کی رپورٹ، جس میں طوفان مچانے والے اس بینک کے لیے سینڈ اسٹورم کا کوڈ نیم استعمال کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بی سی سی آئی بڑے پیمانے پر دھوکا دہی میں ملوث ہے بلکہ اسے بینکنگ history کے پیچیدہ ترین فراڈز میں سے ایک کہا۔ پانچ جولائی 1991 کو لندن میں بی سی سی آئی کے ہیڈ کوارٹرز کو گھیر لیا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد بینک کے دروازوں پر پوسٹرز لگے ہوئے تھے کہ بینک آ ف انگلینڈ کے حکم کے مطابق بی سی سی آئی کے آپریشنز بند کر دیے گئے ہیں۔ پھر امریکا، فرانس، اسپین، سوئٹزرلینڈ یہاں تک کہ لکسمبرگ نے بھی ایسا ہی کیا۔ اور بی سی سی آئی بند ہو گیا!

آغا حسن عابدی اور سی ای او صالح نقوی کے علاوہ کئی لوگوں پر مقدمے قائم ہوئے۔ حسن عابدی تب پاکستان میں تھے، وہ بیماری کی وجہ سے 1988 میں ہی بی سی سی آئی سے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ امریکا نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ حسن عابدی کی تفتیش کے لیے ان کے حوالے کیا جائے، لیکن پاکستان نے انکار کر دیا۔ عابدی صاحب نے اپنے آخری دن کراچی میں گزارے، جہاں پانچ اگست 1995 کو ان کا انتقال ہوا۔

سازش یا حقیقت؟

پاکستان میں بی سی سی آئی بند کرنے کو آج تک ایک بڑی سازش سمجھا جاتا ہے۔ لوگ تو جو کہہ رہے تھے، یہاں تو میڈیا تک نے یہی کہا۔ ایک پاکستانی اخبار نے تو اداریہ لکھ دیا کہ آخر کون سا امریکی یا برٹش بینک ہے جس نے منی لانڈرنگ نہ کی ہو؟ تو بی سی سی آئی کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ ایسا اس لیے سمجھا گیا کیونکہ پاکستان میں آغا حسن عابدی کی بہت زیادہ خدمات تھیں۔ ایک تو پاکستان میں اُن کا بینک بہت منافع بخش تھا۔ پھر بی سی سی آئی نے پاکستان میں صحت اور تعلیم کے منصوبوں پر بھی بڑے پیسے خرچ کیے، نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اور فاؤنڈیشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (فاسٹ) بنوائیں، سر سید یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ بنوانے میں اہم کردار ادا کیا، ایس آئی یو ٹی اور این آئی سی وی ڈی جیسے اداروں کے لیے فنڈز دیے۔ اس لیے حسن عابدی سب کے لیے قابلِ احترام تھے۔

قدرت اللہ شہاب تک نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھا کہ

اکتوبر 81 میں انھوں نے مشہور رسالے New Statesman کا ایک پرچا دیکھا۔ ٹائٹل پر آغا حسن عابدی کی تصویر تھی، اور نیچے لکھا تھا: ہائی اسٹریٹ بینکر، جو حکومتیں خرید لیتا ہے۔ اندر چار صفحات کے مضمون کا ہر جملہ حسد، دشمنی، خوف اور نفرت ظاہر کر رہا تھا۔ کیونکہ بی سی سی آئی ایسا بینک تھا جو تیزی سے دنیا کے ہر گوشے میں پھیل رہا تھا، اور یہ انگلینڈ کے بینکوں کے لیے ایک خطرے کا نشان تھا۔

وہ تو اتنے متاثر ہوئے کہ بعد میں آغا حسن عابدی سے ملاقات بھی کی۔ بی سی سی آئی کی ایک اہم شخصیت کے بیٹے ایم بی ملک نے تو کتاب لکھ ڈالی Double Standards - BCCI: The Untold Story جس میں انھوں نے کہا کہ بی سی سی آئی گرا نہیں، بلکہ اسے زبردستی بند کروایا گیا ایک back-door attack تھا اور منی لانڈرنگ کبھی ثابت ہی نہیں ہوئی۔

حبیب میٹرو بینک کے CEO سراج الدین عزیز بھی بی سی سی آئی میں کام کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ

بی سی سی آئی میں اپنے 14 سالوں میں انھوں نے ایک بھی ایسا لین دین نہیں دیکھا جو غیر قانونی ہو۔ بی سی سی آئی کی اعلیٰ انتظامیہ انتہائی ایماندار تھی۔ اس لیے مڈ لیول بینکروں نے اگر قوانین کی خلاف ورزی کی بھی تو بی سی سی آئی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

انھوں نے بتایا کہ UAE کے حکمران بی سی سی آئی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی liquidity فراہم کر چکے تھے۔ سراج الدین عزیز کہتے ہیں کہ

پہلی خلیجی جنگ کے بعد مسلم دنیا بحران کا شکار تھی، اس لیے مغربی دنیا کے لیے یہ بینک بند کرنے کا نادر موقع تھا۔

یہ تھی اس بینک کی کہانی جو پوری دنیا پر راج کرنا چاہتا تھا، لیکن پھر وہ ایسا گرا کہ اس کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ بی سی سی آئی کے زوال کی وجہ جو بھی وجہ ہو، تھرڈ ورلڈ کا ورلڈ بینک ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ کیا بی سی سی آئی کو واقعی مسلم دنیا کا بینک ہونے کی وجہ سے ٹارگٹ کیا گیا؟ کیا دنیا بھر میں قدم جمانے کا ارادہ رکھنے والا یہ بینک کسی عالمی سازش کا شکار ہوا؟ یا پھر بی سی سی آئی ایک فراڈ بینک تھا جسے بالآخر بند ہونا ہی تھا؟ کمنٹس میں ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔

شیئر

1 تبصرہ

جواب لکھیں