عید پر کپڑے، چاند رات پر مہندی اور چوڑیاں۔ کون سی لڑکی ہے جو یہ سب نہیں چاہتی، لیکن شمائلہ کو نہ عید پر عیدی ملی، نہ کپڑے، نہ تعریف اور نہ تنخواہ۔ کہنے کو تو وہ علی انٹرپرائزز جیسی بڑی گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی تھی۔ وہاں اس کے ہاتھ سے بننے والا ڈینم جرمنی تک جاتا تھا، لیکن وہ خود کبھی بلدیہ ٹاؤن سے باہر نہیں گئی۔ گھر سے فیکٹری اور فیکٹری سے گھر، بس یہی زندگی تھی۔ یہ کہانی ہر اس محنت کش کی تھی، جو علی انٹرپرائزز میں کام کرتا تھا۔ پھر یہ کہانی ’’سانحہ بلدیہ فیکٹری‘‘ کے نام سے یکدم بدل گئی۔

شمائلہ کے ساتھ کیا ہوا؟

11 ستمبر 2012، شوال کی 24 تاریخ تھی، یعنی عید گزرے بھی تقریباً مہینہ ہو چکا تھا۔ شمائلہ کو امید تھی کہ آج تنخواہ ضرور مل جائے گی۔ ابھی مشین سنبھالے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ باہر شور مچ گیا۔ آگ، آگ، بھاگو، نکلو باہر، جلدی! پھر اسے تیز بو بھی محسوس ہوئی۔ ابھی شمائلہ اور دوسری خواتین اٹھنا ہی چاہتی تھیں کہ لائٹ چلی گئی۔ شور تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا اور جو ہو رہا تھا، اوپر کی منزل پر ہو رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد شمائلہ کے ڈپارٹمنٹ میں بھی دھواں بھرنے لگا، کالا اور گاڑھا دھواں۔ سب نے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن لائٹ بند ہونے کی وجہ سے الیکٹرک ڈور آٹو لاگ ہو گیا تھا۔ اس حصے میں نہ کوئی کھڑکی تھی، نہ روشن دان اس لیے بھگدڑ مچی اور ایسی مچی کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ پھر دھوئیں کے پیچھے سے آگ کی زرد اور نارنجی لپٹیں نظر آنا شروع ہو گئی۔ ہال میں موجود کپڑا اور مشینیں تیزی سے ان شعلوں کی لپیٹ میں آنے لگیں۔ شمائلہ ایک کونے میں کھڑی زور زور سے رو رہی تھی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ چیخ و پکار مچی ہوئی تھی۔ اسی افراتفری میں دھویں کا ایک مرغولا شمائلہ کی ناک سے ہوتا توا دماغ تک پہنچ گیا، چکر آیا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔

شمائلہ کی پندرہ سال کی بہن ثنا اور والدہ بلقیس خاتون فیکٹری کے باہر کھڑی ہیں اور ہر آتی جاتی ایمبولینس میں دیوانہ وار جھانک کر دیکھ رہی ہیں کہ شاید شمائلہ کا کوئی اتہ پتہ مل جائے؟ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری سے اب بھی شعلے اٹھ رہے ہیں۔ جن کھڑکیوں میں جنگلے نہیں تھے، وہاں سے لوگ جان بچا کر کود رہے ہیں۔ باقی لوگ سلاخوں کے پیچھے مدد کی فریاد کرتے کرتے جان دے رہے ہیں۔ عجیب قیامت کا سا منظر ہے۔ لوگ دروازے پکڑے پکڑے ہی کوئلا ہو گئے!

ایک گھنٹے سے زیادہ کی تاخیر کے بعد فائر بریگیڈ کا عملہ پہنچ گیا، لیکن ان کی گاڑی کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے پانی نہیں پھینک پا رہی۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ فائر فائٹرز کو پہنچنے نہیں دیا گیا یا رستہ ہی نہیں تھا فائر فائٹنگ والوں کے اندر آنے کا۔ عمارت میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے کہیں سے ایک سیڑھی ملی لیکن زیادہ لوگوں کے ایک ساتھ چڑھنے کی وجہ سے وہ کچھ ہی دیر میں ٹوٹ گئی۔

شمائلہ کو کہیں دیکھا ہے؟

ثنا کو اتنا معلوم تھا کہ اس کی بہن اسٹچنگ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی ہے، جو بیسمنٹ یا گراؤنڈ فلور پر ہے۔ اس لیے وہ ماں کو تسلیاں دے رہی ہے کہ آگ نیچے نہیں اوپر لگی ہے لیکن ماں کو چین نہیں آ رہا تھا، وہ ہر آتے جاتے سے منت سماجت کرتی کہ ’’میری شمائلہ کو کہیں دیکھا ہے؟‘‘ لیکن سب یہی کہہ رہے ہیں کہ عباسی یا سول جاؤ، یہاں تلاش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں!

وقت تیزی سے گزر رہا ہے، رات کے 9 بج چکے ہیں۔ اندھیرے میں جلتی فیکٹری کی عمارت کسی ’’منی جہنم‘‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ سیاہی سے لتھڑی دیواروں کے سامنے دُور تک ایمبولینسیں شور مچا رہی ہیں۔ ساتھ ہی میڈیا کی وینز اور وی آئی پیز کے پروٹوکولز کی گاڑیاں بھی کھڑی ہیں اور اندر سے صرف جلی اور جھلسی ہوئی لاشیں ہی باہر آ رہے ہیں۔ چادروں میں لپٹے بے جان جسم!

اس قیامت کی گھڑی میں ہر امدادی کارکن ایک سپر ہیرو کی طرح ڈٹا رہا، لیکن ایک شخص تھا جس نے درجنوں لاشیں اپنے ہاتھوں سے ایمبولینسوں تک پہنچائیں۔ وہ کوئی اور نہیں، عبدالستار ایدھی تھا!

ثنا، بلقیس بلکہ کوئی بھی چہرے نہ ٹھیک سے دیکھ پا رہا ہے اور نہ کسی کی شناخت ہو رہی ہے۔ بالآخر ماں بیٹی نے یہی فیصلہ کیا کہ عباسی شہید ہسپتال ہی کا رخ کیا جائے۔

یہ فیکٹری علی انٹرپرائزز عبد العزیز بھائیلہ اور ان کے دو بیٹوں ارشد اور شاہد کی ملکیت تھی۔ اتنی بڑی فیکٹری کو مختلف موقع پر expand بھی کیا گیا، جس کی وجہ سے عمارت بہت بے ہنگم تھی۔ ‏Expansion کے وقت نہ فائر exits کا خیال رکھا گیا، نہ کھڑکیوں کا، نہ الارم اور نہ فائر سسٹم کا۔ فیکٹری کی دوسری منزل تو جیل کی طرح تھی، جس سے نکلنے کا راستہ سیڑھیوں سے پہلی منزل کے اندر سے ہوتا ہوا جاتا تھا۔ اسی لیے جب آگ لگی تو دوسری منزل پر بھگدڑ مچ گئی، دھویں اور کم روشنی کی وجہ سے راستہ مل ہی نہ سکا

اور شمائلہ مل گئی

ثنا اور بلقیس خاتون عباسی شہید پہنچے، یہاں تو سیکڑوں لوگ پہلے ہی موجود ہیں۔ ہر چند منٹ کے بعد ایک ایمبولینس آتی اور ایمرجنسی کے باہر خالی اسٹریچر پر کوئی جھلسا ہوا زندہ جسم یا کوئی سوختہ لاش چھوڑ کر سائرن بجاتی واپس نکل جاتی۔ یقیناً ایمرجنسی میں جگہ نہیں، تبھی تو باہر درجنوں اسٹریچرز پڑے تھے اور ان پر یہ بے جان جسم بھی۔ جن باڈیز پر کپڑا پڑا ہوا تھا، لوگ انھیں ہٹا کر اپنے پیاروں کو شناخت کر رہے تھے لیکن ایسا کرنے کی نہ تو ثنا میں ہمت تھی اور نہ ہی اس کی والدہ میں۔ دونوں مسلسل الحمد شریف کا ورد کر رہی ہیں اور ساتھ ہی شمائلہ کو آوازیں دے رہی ہیں کہ شاید زخمیوں میں سے کوئی جواب آ جائے۔

تبھی ہوا کے ایک زور دار جھونکے سے کچھ لاشوں پر پڑی چادر ہٹ گئی۔ ان میں سے ایک پر شمائلہ کی لاش پڑی تھی، جسے ثنا نے پہچان لیا۔ وہ جا کر لاش سے لپٹ گئی، بلقیس خاتون بے یقینی کی کیفیت میں زور زور سے پکار رہی تھیں، ’’اٹھو شمائلہ! اٹھو بیٹا! گھر چلتے ہیں‘‘ لیکن اس کا جسم بے حس و حرکت ہے۔ رونے والے اور اپنے پیاروں کے دکھ میں ماتم کرنے والے اور بھی بہت سے لوگ یہاں موجود ہیں۔ جن میں اب شمائلہ اور بلقیس خاتون کا بھی اضافہ ہو گیا۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری کی تحقیقات

وقت تو بہت تیزی سے آگے بڑھا، لیکن انصاف کی رفتار بہت سست رہی۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے بعد پہلے تو پولیس نے علی انٹرپرائزز کے مالک اور ان کے بیٹوں کے علاوہ کمپنی کے جنرل منیجر اور چار چوکیداروں پر مقدمہ درج کیا۔ لیکن مالکان عدالت سے ضمانت لے کر ملک ہی چھوڑ گئے۔

تحقیقات میں نیا موڑ

تین سال گزر گئے، متاثرین انصاف کے لیے ترستے رہے کہ 2015 میں اچانک کیس میں ایک نیا موڑ آ گیا۔ پاکستان رینجرز نے سانحہ 9 رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی سانحہ بلدیہ فیکٹری پر رپورٹ ہائی کورٹ میں یپیش کی۔ اس ٹیم میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، رینجرز اور ایف آئی اے کے اہلکار، سب شامل تھے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ معاملہ مالکان کی غفلت کا تھا ہی نہیں، بلکہ بھتے کا تھا اور بھتہ بھی دس، بیس لاکھ نہیں، بلکہ 20 کروڑ کا۔ پانچ سال بعد 2020 میں تمام گواہوں کو سننے اور ثبوتوں کی روشنی میں عدالت نے فیصلے میں یہی کہا کہ آگ لگی نہیں، بلکہ ایک سازش کے تحت لگائی گئی تھی۔ لیکن فیصلے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ یہ ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے، پہلے یہ جانتے ہیں کہ فیکٹری مالکان سے بھتہ کن حالات میں مانگا گیا اور آگ کیسے لگائی گئی؟

فیکٹری میں آگ کیسے لگائی گئی؟

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق فیکٹری اکاؤنٹنٹ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے عینی شاہدوں میں سے ایک تھا، اس نے اپنے بیان میں بتایا

مجھے اُس روز گودام کے پاس عجیب سی بو محسوس ہوئی۔ میں قریب گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گودام کے مختلف حصوں میں ٹکڑیوں کی شکل میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے، جو تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ میں نے فوراً شور مچایا کہ مین سوئچ بند کرو، بریکرز گراؤ، آگ لگ گئی ہے۔ جس پر کسی نے ایسا کیا بھی، لیکن آگ بہت تیزی سے پھیلتی ہی چلی گئی

اسی رپورٹ میں ایک بیان فیکٹری کے پروڈکشن منیجر کا بھی ہے۔ اس کے بقول

میں نے اکاؤنٹنٹ کو فوری طور پر فائر بریگیڈ لانے کے لیے بھجوایا، لیکن ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد بھی آگ بجھانے والے عملے کا کوئی اتا پتا نہیں تھا، اور جب گاڑی آئی تو اس میں کوئی تکنیکی خرابی ہو گئی

ویسے موقع پر موجود کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ فیکٹری میں آگ بجھانے والی گاڑیوں کا داخلہ ممکن ہی نہیں تھا۔

جے آئی ٹی میں انکشاف کیا گیا کہ یہ آگ زبیر عرف چریا نامی شخص نے لگائی تھی، جو فیکٹری کے فنشنگ ڈپارٹمنٹ کا انچارج تھا، اور ایم کیو ایم سے اپنے گہرے تعلق کی بنیاد پر دھونس دھمکی والا رویہ بھی رکھتا تھا۔ اُس نے یہ کیسے لگائی؟

رپورٹ کے مطابق سانحہ بلدیہ فیکٹری کے روز، زبیر اپنے چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ فیکٹری کے گودام کے اِردگرد منڈلا رہا تھا۔ حالانکہ اُس کا یہاں کوئی کام نہیں تھا، زبیر کے ساتھ جو لوگ تھے، وہ اس فیکٹری میں کام کرنے والے نہیں تھے بلکہ ان سب کو متحدہ قومی موومنٹ کے سیکٹر انچارج بلدیہ ٹاؤن رحمٰن بھولا نے کچھ سامان دے کر یہاں تک پہنچایا تھا۔ وہ سامان تھا میگنیشیم میٹل، ایک بہت تیزی سے اور بہت دیر تک جلنے والا کیمیکل۔ بھولا نے ان لوگوں کو فیکٹری کے گیٹ تک خود پہنچایا، لیکن ان کے ساتھ اندر نہیں آیا۔

فیکٹری اکاؤنٹنٹ نے بتایا کہ شروع میں، میں یہی سمجھا کہ بد بو شاید زبیر اور اس کے دوستوں کی چرس بھری سگریٹوں کے دھویں سے پھیل رہی ہے، جو وہ مستقل پی رہے تھے۔ لیکن پھر یہ بو ایک عجیب قسم کے تعفن میں بدل گئی، جب زبیر نے چاروں پانچوں ساتھیوں کو کالے شاپر پکڑائے، جنھوں نے ان شاپروں کو گودام میں مختلف جگہوں پر پڑے کارٹنز پر اچھال دیا۔ اس کے ساتھ ہی آگ بھڑک اٹھی۔

اکاؤنٹنٹ کے شور مچانے پر 10، 15 کارکن بھاگے بھاگے آئے اور آگ بجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔ لیکن یہ کوئی معمولی آگ نہیں تھی، یہ بہت تیزی سے بلند اور گرم ہوتی گئی۔ کچھ ہی منٹوں میں گودام تو مکمل طور پر آگ کی لپیٹ میں آ گیا، بلکہ اب تو وہ اوپر کی منزل پر بھی جا پہنچی تھی۔ وہاں کام میں مصروف لوگوں میں زبردست بھگدڑ مچ گئی۔ ہر کوئی کسی نہ کسی طرح فیکٹری سے نکلنا چاہتا تھا۔ اس کوشش میں آدھے لوگ زینے سے نیچے اور آدھے اوپر کو بھاگے۔ لیکن بد قسمتی دیکھیں کہ عمارت کی چھت کا دروازہ لاک تھا، یا یوں کہہ لیں کہ آگ لگانے سے پہلے لاک کر دیا گیا تھا۔

ایسے میں ایک سیڑھی کام آ گئی، جس کے ذریعے تقریباً 50 لوگوں کو ایک ایسی کھڑکی سے باہر نکالا گیا، جس پر جنگلا نہیں تھا لیکن اندر پھنسے سینکڑوں لوگ بھی کسی نہ کسی طرح سیڑھی پر سوار ہونا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ واحد سیڑھی ٹوٹ گئی۔ اب لوگ آگ کی حدت سے گھبرا کر عمارت سے کود رہے تھے، اس بات کو نظر انداز کر کے کہ وہ کون سی منزل پر ہیں اور نیچے کیا ہے؟

یہ آگ تقریباً 24 گھنٹے بعد ٹھنڈی ہوئی، کہا جاتا ہے کہ جو لوگ واقعے کے فوراً بعد اندر گئے تھے، اُن میں سے کئی باہر آکر بے ہوش ہو گئے۔

سانحے میں حماد صدیقی کا کردار

زبیر چریا نے بعد میں مجسٹریٹ کے سامنے بیان بھی دیا اور بتایا کہ میں نے حماد صدیقی کو فون کیا اور کہا کہ کام کر دیا ہے، جس پر وہ بولا کہ اب پارٹی ایم این اے اور ایم پی ایز یہاں آئیں گے۔ تم اُن سے ملو اور کارکنوں کے ساتھ مل کر فیکٹری کے باہر لوگوں کی مدد کرو تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ بقول زبیر، حماد صدیقی کی بات مانتے ہوئے اس نے کارکنوں کے ساتھ 4 سے 5 دن تک فیکٹری کے باہر امدادی کیمپ بھی لگائے رکھا، جس میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کے بعد ہونے والی سرگرمیوں کے دوران وہ میڈیا کیمروں کے سامنے بھی آتا رہا۔

آگ لگی تھی یا لگوائی گئی تھی؟

شروع میں ایف آئی آر درج ہوئی تو اس میں آگ لگنے کی وجہ شارٹ سرکٹ بتائی گئی تھی، یعنی آگ حادثے کی وجہ سے لگی۔ یوں ساری ذمہ داری فیکٹری مالکان پر آ گئی کہ فیکٹری میں نہ تو آگ بجھانے والا سامان تھا اور نہ ہی لوگوں کے بچ نکلنے کا مناسب راستہ۔ لیکن بعد میں جب جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آئی تو اس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر واقعی شارٹ سرکٹ ہوا ہوتا تو فیکٹری کا وہی حصہ متاثر ہوتا اور آگ پر قابو پا لیا جاتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شارٹ سرکٹ ہوا گودام میں اور آگ کچھ ہی منٹوں میں کہیں دُور فیکٹری کے دوسرے حصوں میں بھی پہنچ گئی؟

کہا جاتا ہے بعد میں کے الیکٹرک نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ انہیں شارٹ سرکٹ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

اب یہ تو طے ہو چکا تھا کہ آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔ لیکن کیوں لگائی؟ یہ تھا اصل سوال۔

فیکٹری مالکان سے بھتے کا مطالبہ

یہ مہینہ تھا جولائی کا، یعنی سانحے سے تقریباً دو مہینے پہلے۔ فیکٹری کے پروڈکشن منیجر محمد منصور کے بقول 20 جولائی 2012 کو رحمٰن بھولا خود فیکٹری آیا، اور بہت دیر تک مالکان سے بات کرتا رہا۔ اگلے دن پتہ چلا کہ اس نے ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کا نام لیکر 25 کروڑ کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسرا راستہ یہ دیا گیا کہ فیکٹری میں پارٹنر شپ دی جائے۔ شروع میں تو مالکان یعنی بھائیلہ اینڈ سنز نے ایک کروڑ روپے پر بات نمٹانے کی کوشش کی، لیکن بھولا پچیس سے بیس پر آگیا اور کہا اس سے ایک پائی کم نہیں ہوگی۔

یہاں پر ایک اہم سوال اٹھتا ہے۔ بھتے نہ دینے پر مالکان یا ان کے گھر والوں کو اغوا کیا جا سکتا تھا، جو اس وقت متحدہ کے آزمودہ طریقوں میں سے ایک تھا، لیکن اس کے باوجود ایک ایسی فیکٹری میں آگ لگائی گئی جہاں کام کرنے والے زیادہ تر اردو اسپیکنگ تھے۔

بہرحال، زبیر کو جلد ہی گرفتار کر لیا گیا، لیکن بڑے ملزم اب بھی فرار تھے۔ جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آنے کے بعد، اگلے ہی سال یعنی 2016 میں پولیس نے نئے سرے سے تحقیقات کا آغاز کیا۔ ٹیم کے سربراہ تھے ڈی آئی جی سلطان خواجہ۔ پولیس نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ یہ واقعہ اصل میں دہشت گردی کا تھا اور ملزمان سے جو تفتیش کی گئی ہے، اس کے بعد یہ ثابت ہو رہا ہے کہ فیکٹری میں منظم منصوبہ بندی کے تحت آگ لگائی گئی۔ اسی سال دسمبر میں رحمٰن بھولا بنکاک میں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کیا گیا اور پھر اسے پاکستان واپس لایا گیا۔

رحمٰن بھولا کا اعتراف

رحمٰن بھولا نے مجسٹریٹ کے روبرو اعتراف کیا کہ اس نے علی انٹرپرائز میں زبیر چریا کی مدد سے نہ صرف آگ لگائی، بلکہ وہ ایم کیو ایم کے ڈیتھ اسکواڈ کا اہم رکن بھی ہے، جسے پارٹی کے کرتا دھرتا اور اعلیٰ قیادت، الطاف حسین کے حکم پر لوگوں کی جانیں لینے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ اُس نے بتایا بلدیہ فیکٹری میں آگ لگانے کی ہدایات اسے حماد صدیقی نے دی تھیں، جنھوں نے خود کچھ عرصہ پہلے ہی اسے بلدیہ کا سیکٹر انچارج لگایا تھا۔ ایک اور بڑا انکشاف بھولا نے یہ بھی کیا کہ ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی نے واقعے کے بعد فیکٹری اونرز کے ساتھ چار، پانچ کروڑ روپے کی ڈیل کرلی تھی اور کیس ختم کرانے کے لیے پولیس پر دباؤ بھی ڈالا تھا۔ اس الزام کی بنیاد پر عدالت نے آرڈر جاری کیا کہ رؤف صدیقی کا نام چالان میں ملزمان کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔

مگر آج بھی کچھ حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں پولیس کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کرنا، پھر جے آئی ٹی بنانا اور ازسر نو تحقیقات کے بعد سارا ملبہ ایم کیو ایم پر ڈالنا، دراصل کسی اور مقصد کے لیے تھا۔

حماد صدیقی کہاں ہے؟

خیر، اس سے پہلے کہ ہم اور آگے چلیں، یہ جان لیں کہ اس کیس میں اگر کوئی مرکزی ملزم اب تک گرفتار نہیں ہوا، تو وہ ہے ’’حماد صدیقی‘‘ جو آج تک مفرور ہے۔ اس کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے ریڈ وارنٹ تک جاری ہوئے، 2017 میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ حماد صدیقی کو UAE سے گرفتار کر لیا گیا ہے، لیکن یہ خبریں بس خبریں ہی نہیں۔ آج حماد صدیقی کہاں ہے؟ کچھ نہیں پتہ!

خیر، سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس آگے بڑھتا گیا اور 2019 آگیا، جب ستمبر کے مہینے میں فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ نے بیان دیا کہ بھتے والی بات درست ہے، ہمیں متحدہ قومی موومنٹ کو 25 کروڑ روپے دینے کو کہا گیا تھا۔ رؤف صدیقی کے دباؤ پر سانحہ کا مقدمہ ہمارے ہی خلاف درج کر دیا گیا اور نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے۔ مگر اُسی سال ایک اور اہم پیش رفت ہوئی، ماضی میں مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان دینے والے رحمٰن بھولا اور زبیر اچانک اپنے بیان سے مکر گئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید اس سے کیس کو طول دے کر بچ نکلنے کا کوئی راستہ بن جائے گا، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔

دو ستمبر 2020، ملکی تاریخ کے سب سے بڑے صنعتی سانحے کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا، پورے آٹھ سال بعد۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں، بلکہ سازش کر کے لگائی گئی۔ گرفتار مرکزی ملزم رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو سزائے موت سنائی گئی لیکن رؤف صدیقی سمیت چار ملزمان کو کم شواہد ہونے کی وجہ سے بری کر دیا گیا۔ عدالت نے چوکیداروں کو بھی نہیں بخشا، چاروں کو عمر قید کی سزا سنائی اور چار، چار لاکھ روپے جرمانے بھی عائد کیے۔

عالمی عدالت میں بلدیہ فیکٹری مقدمہ

سانحہ بلدیہ فیکٹری کے بعد مزدور حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے عالمی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا جو علی انٹرپرائزز کا سامان خریدنے والی جرمن کمپنی KIK سے ہرجانہ لینے کے لیے تھا۔ تنظیمیں مقدمہ تو ہار گئیں، لیکن جرمن کمپنی نے بہت فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور ایک بہت بڑی رقم بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کے حوالے کی لیکن پھر بھی کہا جاتا ہے متاثرین کے ساتھ مکمل انصاف نہیں ہوا۔ حکومت نے بھی جن پیسوں کا وعدہ کیا، ان کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں، کس کو ملے اور کسے نہیں؟

ہاں! مزدوروں کی فیملیز کو پنشن ملنے لگی ہے۔ جو جانیں گئیں، ان کا کوئی مداوا تو نہیں ہو سکتا، لیکن جو لوگ خصوصاً خواتین اس واقعے میں زندہ بچ گئیں، یا جن کے مرد چل بسے، ان کی داستانیں سنیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہی نہیں، جب پیسہ ملنا شروع ہوا تو پرائے بھی اپنے ہو گئے، جو مظلوم تھے ان کی داد رسی کے بجائے مزید ظلم ڈھائے گئے۔

اس سانحے سے سبق حاصل کرنے کے بجائے کراچی کی فیکٹریوں نے علی انٹرپرائزز کے مالکان کو کلین چٹ ملنا اپنے لیے نیک شگون سمجھا اس لیے حالات آج بھی ویسے ہی ہیں، یہ فیکٹریاں نہیں، ٹائم بم ہیں۔ ان میں کام کرنے والے مزدوروں کی قیمت ہے، چند لاکھ روپے، وہ بھی مرنے کے بعد!

تو یہ تھی کہانی پاکستان کے نائن الیون ’’سانحہ بلدیہ فیکٹری‘‘ کی۔ مغرب نے اپنے نائن الیون سے کیا سبق حاصل کیا، اور ہم کیا حاصل کر پائے؟ یہ ضرور سوچیے گا۔

شیئر

جواب لکھیں