‏24 جون 1938، سہارن پور میں برٹش انڈین آرمی کے صوبیدار میجر عبدالمجید کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، نام رکھا گیا سلطان محمد۔

یہ وہی سہارن پور جہاں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد پڑی۔ وہی دارالعلوم دیوبند جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔

وجہ سہارن پور تھا یا گھر کے ماحول کا اثر کہ سلطان نے بچپن میں ہی قرآن پاک تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا۔ ابھی دس سال کا بھی ہیں ہوا ہوگا کہ تقسیم کی گھڑی آ گئی۔ والد سلطان اور پورے خاندان کو لے کر نئے ملک پاکستان کے دارالحکومت کراچی آ گئے اور پھر وہاں سے راولپنڈی شفٹ ہو گئے۔ لیکن اس مذہبی ماحول، ڈسپلن رکھنے والے فوجی گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ اردو اسپیکنگ بچہ بعد میں پنجابی سنیما کا کامیاب ترین اداکار بنا۔ اتنا کامیاب کہ اسے پاکستان کا ’’کلنٹ ایسٹ ووڈ‘‘ کہا گیا۔

آج ہم آپ کو اسی ہیرو کی کہانی بتا رہے ہیں، جس کے کردار کے کئی رخ اور کئی پرتیں ہیں۔

سلطان راہی کون؟

مضبوط جسم اور گرج دار آواز کا مالک سلطان پنڈی میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام کر رہا ہے، لیکن ذہن پر ایک ہی شوق سوار ہے، اداکاری کا۔ وہ دوستوں یاروں کی محفلوں میں اس وقت کے مشہور ہیروز کی نقلیں اتارتا اور ان کے ڈائیلاگز دہراتا رہتا ہے۔ البتہ والد کو یہ سب بالکل پسند نہیں، وہ کم گو اور نرم مزاج آدمی تھے، اس لیے چُپ رہتے۔ جب سلطان کو محسوس ہونے لگا کہ پنڈی میں بات نہیں بنے گی، کیونکہ یہاں انڈسٹری ہے ہی نہیں، تو اس نے قریب ترین واقع فنّی قبیلے لاہور کے حق میں فیصلہ کر لیا۔ والد اس فیصلے سے خوش نہیں تھے لیکن بیٹا جوان اور زور آور تھا اور بظاہر قابل بھی تھا، اس لیے زیادہ نہ روک پائے۔ یوں سلطان کی پہلی منزل بنی زندہ دلوں کے شہر لاہور کا تھیٹر!

تھیٹر کا راہی

سہارن پور کے گھرانے کا چشم و چراغ ہو اور اردو پر عبور نہ ہو؟ ایسا کیسے ممکن ہے؟

لاہور میں ایک تھیٹر پلے ’’شبنم روتی رہی‘‘ میں نوجوان سلطان کی گرج دار آواز اور انداز بیاں نے سب کے دل جیت لیے۔ مشہور براڈ کاسٹر عارف وقار کہتے ہیں:

’’شبنم روتی رہی‘‘ دیکھنے کے بعد کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بہترین تلفظ اور شین قاف کے ساتھ نستعلیق اردو بولنے والا یہ نوجوان ایک روز خون آلود گنڈاسوں اور گولیاں اگلتی کلاشنکوفوں والی خونخوار پنجابی فلموں کا سپر اسٹار بنے گا۔

بہرحال، یہ تھیٹر پلے دیکھنے کے بعد کچھ فلم پروڈیوسرز نے سلطان راہی کو اپنی فلموں کے لیے کاسٹ کیا، بطور ایکسٹرا۔ ان میں سے ایک اقبال کاشمیری بھی تھے۔ ‏1971 میں اُن کی فلم ’بابل‘ ریلیز ہوئی، جس میں سلطان راہی نے ایک آؤٹ آف کنٹرول بد معاش کا کردار ادا کیا، ایسا کردار جو ان پر خوب جچا بھی۔ بلکہ کسی حد تک انہیں ہیرو سے زیادہ نوٹس کیا گیا۔ اس کی وجہ شاید تھیٹر کا تجربہ تھا، جہاں فی البدیہہ ڈائیلاگز بولنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یوں اپنی ووکیبلری اور کوئک ریسپانسس سے سلطان ڈائریکٹرز کے ساتھ ساتھ فلم رائٹرز کو بھی حیران کر دیتے تھے۔

اُس دور میں ایکسٹراز کا بس اتنا ہی کام ہوتا تھا کہ وہ اپنے وقت کے ٹاپ اداکاروں سنتوش کمار، درپن، لالہ سدھیر، مظہر شاہ، ساون اور الیاس کاشمیری سے بطور غنڈہ بد معاش مار کھائیں اور ہیروئن کو مجبوراً ہیرو کے حوالے کر کے بھاگنے پر مجبور ہو جائیں لیکن اپنی جاندار اداکاری اور فیس ایکسپریشنز کے ذریعے سلطان نے خود بھاگنے کے بجائے ایک، ایک کر کی ہیروز ہی کی چھٹی کرانا شروع کر دی۔

بشیرا کا راہی

پہلی چھٹی ہوئی فلم سٹار ساون کی، جس میں کسی حد تک اُن کا اپنا بھی قصور تھا۔ دراصل ہوا یہ کہ 1972 میں ڈائریکٹر اسلم ڈار نے پنجابی فلم بشیرا بنانے کی ٹھانی۔ اس کے لیے انھوں نے ساون سے رابطہ کیا تو اُنھوں نے اتنے پیسے مانگے کہ اسلم صاحب کے کانوں سے دھواں نکل اٹھا۔ مانگے بھی کیوں نہیں؟ وہ اس سال کی سب سے کامیاب مووی ’’خان چاچا‘‘ کے ہیرو جو تھے۔ لیکن اسلم ڈار انہیں اتنا معاوضہ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لہٰذا سیکنڈ چوائس کے طور پر انھوں نے بابل کے بد معاش سلطان محمد راہی کو کاسٹ کر لیا۔ سلطان نے اس فلم کو اپنے لیے ترپ کا پتہ جانا اور اتنی محنت اور لگن سے کام کیا کہ بشیرا پنجابی زبان کی ایک مشہور فلم بنی۔ بشیرا کی مقبولیت نے اب بڑے ڈائریکٹرز کے بھی کان کھڑے کر دیے کہ ’’کوئی نواں آیا اے‘‘، جس نے انڈسٹری میں تھرتھلی مچا دی ہے۔

مولا جٹ کا راہی

اب زمانہ آ رہا ہے وحشی جٹ اور مولا جٹ جیسی ٹرینڈ سیٹر موویز کا، اور یہاں سلطان راہی کو ایک نئی شناخت ملتی ہے یا یوں کہہ لیں وہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو ایک نئی شناخت دیتے ہیں۔ ایسی فلموں پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ آخر یہ مولا جٹ کا آئیڈیا آیا کہاں سے؟

یہ تھے اردو کے با کمال افسانہ نگار، شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی، جنھوں نے 70 کی دہائی کے آس پاس ’’گنڈاسا‘‘ نامی ایک افسانہ لکھا۔ اس افسانے پر پی ٹی وی نے ایک ڈرامہ بنایا، جس میں اداکار منور سعید ہیرو تھے۔

اس ڈرامے کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے ہدایت کار حسن عسکری نے ’’وحشی جٹ‘‘ بنائی۔ بابل اور بشیرا کی کامیابی کے بعد سلطان راہی ہی ان کی آئیڈیل چوائس تھے، جنھیں مولا کا رول دے کر مولا جٹ کی بنیاد رکھ دی۔ فلم ساز سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک 1979 میں وحشی جٹ کا اسی نام سے سیکوئل بنایا اور پھر مولا جٹ نے پنجابی سنیما کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔

اب سلطان راہی باقی ہیروز کے مقابلے میں ایک دیو کی طرح کھڑے تھے، جن کے آگے پیچھے سب بونے لگنے لگے تھے لیکن ایک طرف جہاں سلطان راہی کا گنڈاسا، کلاشنکوف اور جرم و سزا کا کلچر مشہور ہو رہا تھا، وہیں یہ تاثر بھی ابھر رہا تھا کہ پنجابی فلمی کلچر تہذیب سے دور جاتا جا رہا ہے۔

وحشی جٹ اور مولا جٹ سے پہلے جو فلمیں بنا کرتی تھیں ان کے نام ’غیرت تے قانون‘ ٹائپ کے ہوا کرتے تھے، جن میں اچھی دھنوں پر مبنی گانے، کرافٹڈ ڈائیلاگز، سوشل نارمز اور رومانٹک سینز کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا لیکن پھر مولا جٹ کے بعد سینیریو بدلنے لگا۔

یہ پبلک ڈیمانڈ تھی یا فلمسازوں کی ذاتی پسند، پتہ نہیں۔۔ لیکن مار دھاڑ، اسلحے کی نمائش اور آگ و خون کا سیاہ بادل تیزی سے پنجابی فلمی صنعت پر چھانے لگا جس کا ایک بہت بڑا ذمہ دار خود سلطان راہی بھی تھا۔

مولا جٹ، بھٹو اور ضیا

جس سال مولا جٹ ریلیز ہوئی یعنی 1979 میں، یہ وہی سال تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر ان کا سیاسی قتل کیا گیا۔

مولا جٹ ریلیز ہوتی ہے 11 فروری کو اور بھٹو پھانسی چڑھائے جاتے ہیں 4 اپریل کو۔ اِس بیچ باون دنوں میں فلمیں پسند کرنے والے زیادہ تر پاکستانیوں نے اپنے طور پر تقریباً یہ طے کر لیا تھا کہ ضیاء الحق ’’نوری نت‘‘ ہے، اور بھٹو ’’مولا جٹ‘‘ یعنی ضیا ولن اور بھٹو نیک ہیرو۔ ضیا مفادات کے لیے ظلم کا راستہ اختیار کرنے والا اور بھٹو حق کی خاطر سولی پر چڑھ جانے والا۔

اس پولیٹیکل کو اِنسڈنس کی وجہ سے بھی فلم کو بڑی شہرت ملی، لیکن ظاہر ہے ضیا کو یہ شہرت نہ ہضم ہونی تھی، نہ ہوئی۔ انھوں نے سنسر بورڈ پر فلم روکنے کے لیے پورا دباؤ ڈالا مگر سرور بھٹی ہوا کا رخ بھانپ چکے تھے، سمجھ دار آدمی بھی تھے، عدالت سے بر وقت اسٹے آرڈر لے لیا اور یوں فلم کی نمائش جاری رہی۔ بلکہ جاری کہنا چھوٹا لفظ ہے، کہا جاتا ہے کہ سنیماؤں کے باہر کھڑکی توڑ رش دو ڈھائی سال تک رہا۔

پبلک نے مولا جٹ ایک بار نہیں، بار بار دیکھی اور ان میں سے بہت سے بھٹو کو یاد کر کر کے روتے بھی رہے۔ ایک مشہور کمپیئر اور فنکار ہوتے تھے دلدار پرویز بھٹی، اُس زمانے میں اپنے پنجابی شو ’’ٹاکرا‘‘ میں انھوں نے کہہ دیا ’’ملک میں مارشل لا اور مولا جٹ اکٹھے چل رہے ہیں۔‘‘ اس جملے پر پبلک سے تو انہیں بہت داد ملی، لیکن اگلے ہی دن دلدار پرویز بھٹی کو پی ٹی وی سے چلتا کر دیا گیا۔

مولا جٹ پر پابندی

اس سے پہلے کہ ہم آگے چلیں، یہ جان لیجیے کہ جٹوں اور نتوں کی دشمنی کی اس کہانی کے لیے، یعنی مولا جٹ فلم میں کام کرنے لیے سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نے ستر، ستر ہزار روپے لیے تھے جبکہ اسکرین پلے لکھنے والے ناصر ادیب کو فلمساز سرور بھٹی نے صرف سات ہزار روپے دیے۔ یہ وہی سرور بھٹی تھے، جو اخباری اشتہار میں اپنے نام کے ساتھ ’شہرہ آفاق فلمساز‘ لکھوایا کرتے تھے۔

ستر اور اسی کی دہائی میں دلّی سے ایک رسالہ نکلتا تھا ’’شمع‘‘، جس میں یونس دہلوی کا کالم شائع ہوا، جس میں انھوں نے لکھا:

ہندوستان میں اگر ریکارڈ توڑ فلم ’’شعلے‘‘ بنی ہے تو پاکستان میں ریکارڈ توڑ ہی نہیں کرسی توڑ فلم ’’مولا جٹ‘‘ بنی۔ کرسی توڑ اس لیے کہ ‘مولا جٹ’ لاہور میں مسلسل 216 ویں ہفتے تک چلتی رہی، اس کے باوجود کہ درمیان میں ضیا حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔

جی ہاں جناب! فلم کو جب 104 ہفتے ہو گئے، تمام سنیما گھروں میں پولیس بھیج کر مولا جٹ کو روک دیا گیا۔ لیکن پھر قانون حرکت میں آیا اور ہائی کورٹ نے صرف 27 دن میں فیصلہ دے دیا اور حکومتی آرڈرز کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ لیکن ایسا ایک نہیں، تین بار ہوا یعنی مارشل لا کے ضابطہ ایم ایل او 81 کے تحت مزید دو بار پابندی لگی۔

ایک بار تو فلمساز سرور بھٹی خود ضیا صاحب سے ملے اور انہیں یقین دلایا کہ فلم دیکھنے والوں کی سوچ صرف ظالموں کے خلاف ہے، خدا خواستہ اس سے آپ کے مارشل لا کو کوئی خطرہ نہیں۔ خیر، سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی آگے چل کر مولا جٹ جیسی کئی پنجابی فلموں میں آئے۔

پبلک نے نیکی اور بدی کے کرداروں پر مشتمل اس جوڑی کو ہر بار پہلے سے زیادہ پسند کیا۔ یہ پسندیدگی اتنی زیادہ تھی کہ ضیاء الحق اگلے نو سال تک ملک پر قابض رہے، لیکن پھر بھی سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کو روک تک نہیں سکے۔

گبر اور نوری

اسے اتفاق کہیں یا چوری، لیکن پڑوسی ملک سے یہ الزام لگا کہ مولا جٹ میں مصطفیٰ قریشی نے 1975 کی انڈین فلم شعلے کے گبر سنگھ کو کاپی کیا ہے۔ مثلاً، گبر کہتا ہے ’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ اور بالکل اسی انداز میں نوری کہتا ہے ’’نواں آیا ایں سوہنیا؟‘‘

بظاہر دونوں کرداروں کے لہجے کا سُر اور تیور ایک جیسا تھے، لیکن ناصر ادیب اور سرور بھٹی نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔ ہاں! البتہ بھارت میں مولا جٹ کے بعد ایسی جتنی فلمی بنیں، انھیں انگلیوں پر گننا بھی مشکل ہے۔ ویسے کہتے ہیں کہ 80s میں بھارت سے پاکستان آنے والے سکھ یاتری ننکانہ صاحب پر ماتھا ٹیکنے کے بعد سیدھے شبستان سنیما جاتے اور مولا جٹ کو دیکھ کر مکمل سکون پاتے۔

مولے کے عاشق

یہاں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سلطان راہی کو پسند کرنے والی عوام کون تھی اور اُسے اِس خونخوار جٹ میں بھلا کیا نظر آتا تھا؟ سنیما critics کا خیال ہے کہ یہ وہ طبقہ تھا جو ضیا دور میں ریاستی، طبقاتی اور معاشرتی لیول پر اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بدلہ سلطان راہی کی دھاڑ اور گنڈاسے کے ذریعے لیتا محسوس کر رہا تھا۔

راہی جب ظالموں کے خون کی ندیاں بہاتا، تو تالیاں اور سیٹیاں بجتیں، نعرے گونجتے۔ لوگ لہو سے بھرے کپڑے دیکھ کر ڈسٹرب ہونے کے بجائے تین تین گھنٹے اس نان اسٹاپ خون خرابے کو انجوائے کرتے۔

ضیاء الحق نے اس دور میں طوائف، شراب، جوا، بوس و کنار سب سینسر کروا دیا لیکن وائلنس کو کھلا چھوڑ دیا۔ ہیرو دشمن کی انگلی توڑے یا کلاشنکوف کا پورا برسٹ اس کے سینے میں اتار دے، Quentin Tarantino کا باپ بن جائے، ضیا صاحب کو کوئی پرابلم نہیں تھا اور اسی نو پرابلم ایٹیٹیوڈ کا ورثہ چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔

ضیا تو چلے گئے مگر وائلنس رہ گیا، گنڈاسا رہ گیا، کلاشنکوف رہ گئی۔

گولڈن پیریڈ آف سلطان راہی

‏1989ء میں سلطان راہی نے 36 فلموں میں کام کیا، یعنی ہر مہینے ان کی تین فلمیں سنیماؤں میں لگتیں۔ ایک سال میں زیادہ سے زیادہ فلموں کا یہ ایک منفرد ریکارڈ ہے، اور شاید عالمی ریکارڈ ہو۔ ‏80 کے اوائل میں تو ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ 12 اگست 1981 کو ان کی پانچ فلمیں شیر خان، ملے گا ظلم دا بدلہ، اتھرا پتر، چن وریام اور سالا صاحب ایک ہی دن ریلیز ہوئیں، اور تمام کی تمام سوپر ہٹ ثابت ہوئیں۔

سلطان راہی نے اپنے کیرئیر میں ٹوٹل 804 فلموں میں کام کیا، جن میں سے 756 سنیماؤں میں لگیں۔ ان میں 538 فلمیں پنجابی،157 اردو،5 پشتو اور ایک سندھی فلم شامل بھی شامل ہے۔ پاکستان کا ہر دوسرا پروڈیوسر انہیں ہیرو کاسٹ کرنے کے چکر میں رہتا، اس لیے 430 فلمیں ایسی ہیں، جن کے ٹائٹل رول ہی سلطان راہی نے ادا کیے۔ ان نمبرز کو لے کر ایک غلط فہمی بڑے عرصے تک رہی، کہ سلطان راہی کا نام بک آف گنیز ورلڈ ریکارڈ میں ہے، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔

ایک بہت اہم وجہ سے ان کی 54 فلمیں ادھوری رہ گئی جو ہم آپ کو آگے چل کر بتائیں گے، لیکن آپ کو یقیناً یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سلطان راہی کی 28 فلمیں ڈائمنڈ جوبلی، 54 فلمیں پلاٹینم جوبلی اور 156 فلمیں سلور جوبلی رہیں۔

ایوارڈز کی بات کریں تو سلطان راہی نے مجموعی طور پر 150 سے زائد اعزازات اپنے نام کیے، جن میں فلم بابل، بشیرا اور مولا جٹ کے لیے پاکستانی فلمی صنعت کے معتبر ترین نگار ایوارڈز بھی شامل ہیں۔

کھویا ہوا راہی

مولا جٹ کے اسٹائل میں درجنوں کامیاب پنجابی فلمیں بنیں، جن میں ہدایت کاروں نے سلطان راہی کو ایک وحشی درندہ بنا کر پیش کیا اس وقت کی تقریباً ہر فلم میں یہ ڈائیلاگ ضرور ہوتا ’’میں تینوں چھڈاں گا نئیں‘‘ اور پھر سلطان راہی تنِ تنہا کشتوں کو پشتے لگا دیتا۔ بدمعاشوں کے غول کے غول اُس کے گنڈاسے سے کٹ جاتے یا کلانشکوف سے بھون دیے جاتے۔ یہ سوپر ایکشن بلکہ سوپر ڈوپر الٹرا پرو میکس ایکشن فلمیں لوگوں کو پسند بھی آ رہی تھیں، پیسہ بھی آ رہا تھا تو کسی کو کیا اعتراض ہوتا؟

لیکن اس بیچ سلطان راہی کا اپنا بڑا نقصان ہو گیا، بطور اداکار ان میں جو ٹیلنٹ تھا، جو گُن تھے، وہ گنڈاسا کلچر والے غیر فطری کرداروں میں کہیں کھو کر رہ گئے۔ وہ لڑکا جس نے اپنے شاندار اردو ایکسینٹ، ٹھیٹ سہارن پوری اسٹائل اور رعب دار آواز سے تھیٹر پر لوگوں کو حیران کر دیا تھا، وہ اب غضب ناک دیسی اسٹائل کی چنگھاڑ کے ساتھ خون آلود گنڈاسا پکڑے اپنے دشمنوں کو للکارتا نظر آ رہا تھا۔

معروف اداکار سہیل احمد بتاتے ہیں کہ سلطان راہی نے سوٹ پہن کر محمد علی اور وحید مراد کی طرح فلموں میں نظر آنے کی خواہش تو کی، لیکن وہ جہاں جاتے پروڈیوسر انھیں ڈبل معاوضے کی آفر کے ساتھ گنڈاسا یا کلاشنکوف پکڑا دیتے۔ سلطان راہی اپنے اس درد کا اظہار قریبی دوستوں سے بھی کیا کرتے لیکن ایسا نہیں تھا کہ جو کچھ وہ کر رہے تھے، اُس سے ناخوش تھے لیکن اپنی شناخت اور اپنے اوپر پڑنے والے چھاپ کے حوالے سے فکر مند ضرور رہتے۔

کچھ سنیما critics نے یہاں تک لکھا کہ لالچی پروڈیوسرز نے سلطان راہی کو اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹنے پر مجبور کیا۔ ان کو بار بار یہ احساس دلایا جاتا کہ وہ پنجابی فلموں کے علاوہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں۔ یوں کمرشل تقاضے ایک اچھے خاصے ٹیلنٹڈ اداکار کی راہ میں حائل ہوگئے۔

ویسے آپ کو ایک عجیب بات بتاؤں!

اتنا بڑا ہیرو بننے کے بعد بھی سادہ لوح والد پنڈی کے ہر وزٹ پر اپنے بیٹے کو سمجھاتے کہ یہ فلموں والا کام چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کی نوکری کرے۔ اور بیٹا، محبت سے باپ کی پیشانی چوم کر واپس چلا جاتا، وہاں، جہاں سے واپسی اب شاید ناممکن تھی، یا پھر اتنی آسان نہیں تھی۔

تقدیر کہاں لے آئی

اوروں کو احساس ہو یا نہ ہو، اپنی شخصیت میں آنے والے بگاڑ کا احساس خود سلطان راہی کو ضرور تھا بلکہ یہ احسان بہت شدت سے تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اسی لیے انھوں نے اچانک 180 ڈگری کا یو ٹرن لیا۔ جیب سے انویسٹمنٹ کی اور بطور ہدایت کار اردو زبان میں فلم ’’تقدیر کہاں لے آئی‘‘ بنانا شروع کر دی۔ شاید سلطان راہی چاہتے تھے کہ ان پر لگی پنجابی فلموں کے وحشی جٹ کی چھاپ ہٹ جائے اور وہ مین اسٹریم سنیما میں کانٹریبیوٹ کر سکیں لیکن ضروری نہیں کہ جو آپ چاہیں، ویسا ہی ہو۔ پبلک کو نہ یہ فلم پسند آئی اور نہ ہی سلطان راہی کا یہ روپ۔ اس فلاپ فلم اور ٹوٹے دل کے بعد سلطان راہی پھر کبھی ڈائریکشن کی طرف واپس نہیں آئے۔

قاری سلطان راہی

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ سلطان راہی قرآن کریم کی تلاوت بہت عمدگی سے کیا کرتے۔ انہیں اس کا شوق بھی تھا۔ ظاہر ہے جب آپ کا لڑکپن ہی میں تجوید اور تفسیر سے تعارف ہو جائے تو یہ چیزیں دل میں گھر کر لیتی ہیں۔ سلطان راہی نے عبادت کے لیے ایور نیو اسٹوڈیو میں ایک مسجد بھی بنوائی۔ کہتے ہیں کہ جب وہ یہاں بیٹھ کر اونچی آواز میں تلاوت کرتے تو لوگ سننے بیٹھ جاتے اور ایک سماں بندھ جاتا۔

ویسے ایک بار آصف علی زرداری نے سلطان راہی سے پوچھا کہ آپ مصروف آدمی ہیں، پیسے والے بھی ہیں، اپنے لیے کوئی باڈی گارڈ کیوں نہیں رکھتے؟ اس پر سلطان راہی نے مولا جٹ کا بے مثال ڈائیلاگ مارا ’’زرداری صاحب۔۔۔ مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئیں مرسکدا‘‘ لیکن پھر مولا کا حکم آ گیا۔ ایک دن آیا جب سلطان راہی کو موت نے اچانک آ دبوچا۔

راہی کا قتل

یہ 9 جنوری 1996 کا دن تھا، سلطان راہی اسلام آباد لاہور جا رہے تھے۔ گاڑی پرانے اور قابل اعتماد ڈرائیور حاجی احسن چلا رہے تھے۔ کار جیسے ہی گوجرانوالہ بائی پاس پر پہنچی، کوئی چیز ٹائر سے ٹکرائی اور ٹائر پھٹ گیا۔ ڈرائیور نے اسپئیر وہیل نکالا ہی تھا کہ دو نقاب پوش ڈاکوؤں نے ان دونوں کو آ لیا اور گن دکھا کر پیسوں کا مطالبہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان راہی نے انکار کیا اور زور زبردستی میں ڈاکوؤں سے گتھم گتھا ہوگئے۔ گولی چلائی گئی یا اس چھینا جھپٹی میں چل گئی، اللہ ہی جانے، لیکن یہ سلطان راہی کے سر میں لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

خبر بہت بڑی تھی، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پرستار دیوانہ وار اسپتال اور ان کے گھر پہنچنا شروع ہوگئے۔ ‏14 جنوری 1996 کو انہیں لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ قبر پر کھڑے ہو کر اُس روز اداکار مصطفیٰ قریشی نے کہا:

آج مولا جٹ مر گیا اور نوری نت کو تنہا چھوڑ گیا۔

سلطان راہی قتل کی تحقیقات

فوجی حکام سے رابطہ کر کے ایبٹ آباد سے سراغ رساں کتے منگوائے گئے، درجنوں لوگوں کے بیان قلم بند کیے گئے، گواہوں کو سنا گیا، یہاں تک کے سلطان راہی کی چند ہفتوں میں سرکاری شخصیات سے ہونے والی ملاقاتوں کا ریکارڈ بھی چھانا گیا لیکن آج تک پتہ نہیں چلا کہ سلطان راہی کا اصل قاتل کون تھا؟

ویسے ایک مبینہ ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا، اور ایک کمزور تفتیش کی وجہ سے یوسف تیلی نامی ملزم بری ہو گیا۔ یوں پولیس نے اپنے طور پر کیس نمٹا کر چین سے بیٹھ گئی۔

دلوں کا راہی

سلطان راہی کے قتل سے 54 فلمیں ادھوری رہ گئی، لیکن بعد سی ایسی تھیں جو مکمل ہو چکی تھیں اور ریلیز بھی ہوئیں۔ قتل کے بعد سلطان راہی کی پہلی فلم اکو دس نمبری آئی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان راہی کو اسکرین پر دیکھ کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور پھر کئی منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔ اُن کی بے وقت موت سے پنجابی فلمیں تو ایسی ڈوبتیں، کہ پھر دوبارہ کبھی نہیں اٹھ سکیں بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان فلم انڈسٹری نے کبھی ویسا عروج نہ دیکھا۔

سلطان راہی تو چلا گيا، لیکن مولا جٹ آج تک راج کر رہا ہے۔

دسمبر 2013 میں نئے دور کے ڈائریکٹر بلال لاشاری نے اعلان کیا کہ وہ مولا جٹ کا سیکوئل بنا رہے ہیں۔ فلم بن گئی لیکن ایک کے بعد دوسری وجہ، 9 سال تک سنیماؤں میں نہ آ سکی۔ بالآخر انتظار ختم ہوا اور 2022 میں جب دی لیجنڈ آف مولا جٹ کی انٹری ہوئی تو سب حیران رہ گئے۔ فلم میں فواد خان نے مولا اور حمزہ علی عباسی نے نوری کا کردار نبھایا۔ کہتے ہیں کہ فواد خان کو سلطان راہی جیسا بننے کے لیے بیس کلو وزن بڑھانا پڑا۔ پھر پنجابی زبان اور لہجہ سیکھنے اور گنڈاسا چلانے کے لیے باقاعدہ ٹیوشن بھی لی۔

فواد اور حمزہ کی پاپولیرٹی اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد یہ فلم سلطان راہی کی یاد میں دیکھنے گئی۔ وہ ڈائیلاگز سننے گئی، جن سے کبھی شبستان سنیما گونجا کرتا تھا۔ مولے کی دھاڑ پر وہ تالیاں اور سیٹیاں، گونجتے نعرے اور ہاں! ضیا اور بھٹو کے موازنے بھی۔

اب تو نہ ویسے سنیما رہے، نہ وہ جوش و خروش، نہ ضیا، نہ بھٹو۔ لیکن مولا اب بھی زندہ ہے، اور تب تک زندہ رہے گا، جب تک مولا چاہے گا۔

شیئر

جواب لکھیں