5 جولائی 1977 کو آرمی چیف جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا۔ ضیاءالحق نے انھیں حراست میں لے کر مری ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کردیا تھا۔ تین ہفتے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تو انھوں نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے دورے کیے جہاں ہزاروں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ بھٹو نے ضیاءالحق اور سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ انداز اپنایا۔
ضیاءالحق نے 90 دن میں انتخابات کا وعدہ تو کیا تھا مگر شاید ان کی نیت میں پہلے سے کھوٹ تھا یا ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت دیکھ کر انھیں یہ خوف محسوس ہوا ہوگا کہ اگر اقتدار دوبارہ بھٹو کو مل گیا تو وہ آئین شکنی کے جرم میں سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ بھٹو کے خلاف پرانے مقدمے ڈھونڈے جانے لگے اور بالآخر3 ستمبر 1977 کو انھیں نواب احمد قصوری کے قتل کے الزام میں کراچی میں ان کے گھر سے گرفتار کرلیا گیا۔ نواب احمد قصوری پیپلزپارٹی کے منحرف رکن احمد رضا قصوری کے والد تھے جنھیں 11 نومبر 1974 کو لاہور میں قتل کردیا گیا تھا۔
دس دن بعد یعنی 13 ستمبر 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پنجاب ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی اور انھیں رہا کردیا گیا لیکن ضیا سرکار کو یہ منظور نہیں تھا۔ اس لیے صرف 4 دن بعد انھیں مارشل لا کے ضابطے کے تحت گرفتار کرلیا گیا تاکہ کسی عدالت میں ان کی ضمانت نہ ہوسکے۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی
نواب احمد قصوری کے قتل کے الزام میں 18 مارچ 1978 کو پنجاب ہائی کورٹ نے انھیں موت کی سزا سنائی۔ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس کے بعد بھٹو کو لاہور کی کوٹ لکھ پت جیل سے راولپنڈی کی سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے کورٹ کے سات رکنی بنچ نے تین کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے ان کی اپیل مسترد کردی۔ نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد ہوئی۔ 2 اپریل 1979 کو ضیاءالحق نے رحم کی اپیلیں بھی مسترد کردی۔
بھٹو کو 16 مئی 1978 کو راولپنڈی جیل لایا گیا تھا اور اس کے بعد انھوں نے اپنی زندگی کے آخری 323 دن اسی قید خانے میں گزارے۔ جیل میں سیکیورٹی کا ذمے دار کرنل رفیع الدین کو مقرر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی مشہور کتاب ’بھٹو کے آخری 323 دن‘ میں اس تمام عرصے کی مکمل تفصیلات درج کی ہیں۔
کرنل رفیع الدین کے مطابق بھٹو کو 3 اپریل تک یہ یقین نہیں تھا کہ انھیں سزائے موت دی جائے گی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے سر کی قیمت پاکستان ہے۔ یعنی اگر انھیں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تو پاکستان محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ 3 اپریل کو جب سہالا ریسٹ ہاؤس میں نظر بند نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو آخری ملاقات کے لیے لایا گیا تب ذوالفقار علی بھٹو کو اندازہ ہوا کہ ان کی موت کے پروانے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ اس ملاقات کا احوال کرنل رفیع الدین اور خود بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’ڈاٹر آف دی ایسٹ‘ میں بیان کیا ہے۔
کرنل رفیع الدین کے مطابق بیگم اور بیٹی سے ملاقات صبح ساڑھے 11 سے دوپہر 2 بجے تک جاری رہی۔ شام 6 بج کر پانچ منٹ پر جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد، سیکیورٹی کمانڈر لیفٹننٹ کرنل رفیع الدین، مجسٹریٹ بشیر احمد اور جیل ڈاکٹر صغیر حسین بھٹو کی کوٹھری میں آئے۔ وہ گدے پر لیٹے ہوئے تھے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے بھٹو کو بلیک وارنٹ پڑھ کر سنایا۔ ’’آپ، مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے 18 مارچ 1978ء کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ آپ کی اپیل سپریم کورٹ پاکستان نے 6 فروری 1979ء کو نامنظور کر دی اور ریویو پیٹیشن کو بھی 24 مارچ 1979ء کو نا منظور کر دیا گیا۔ صدر پاکستان نے اس کیس میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے آپ کو اب پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا ہے ۔‘‘
جیل سپرنٹنڈنٹ جب یہ حکم سنا رہا تھاتو بھٹو صاحب گدے پر اسی طرح بغیر کسی گھبراہٹ یا پریشانی کے لیٹے رہے۔ بھٹو صاحب نے جس خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی پھانسی کی خبر سنی اس پر میں نہ صرف حیران ہوا بلکہ میرے اندر میرا ضمیر مجھ سے بغاوت کر رہا تھا۔ میں اپنے آپ سے کہہ رہا تھا کہ اس لیڈر کو ہم پھانسی لگارہے ہیں جو اپنی موت کی خبر اس خندہ روئی اور بے نیازی سے سن رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی پھانسی کا یقین آیا تو ان کی کیا حالت ہوئی؟
پھانسی کا حکم نامہ سننے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے رشتے داروں اور وکلا سے ملنے کا مطالبہ کیا۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ اگر وہ وصیت لکھنا چاہیں تو ان کو کاغذ فراہم کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد کرنل رفیع الدین کے سوا سب لوگ باہر چلے گئے۔ کرنل رفیع لکھتے ہیں کہ ’’ بھٹو صاحب نے مشقتی عبدالرحمن کو آواز دی جو فوراً سیل میں آیا اور بھٹو صاحب نے اسے گرم پانی لانے کو کہا اور کہنے لگے کہ میں شیو کرنا چاہتا ہوں (لمبی بھوک ہڑتال کے دوران انھوں نے شیو تک کرنا چھوڑ دیا تھا) پھر کہا کہ میں بلڈی ملّا نہیں کہ ایسی حالت میں خداوند تعالیٰ کے سامنے جاؤں۔ بھٹو صاحب نے مشقتی کو گرم پانی لانے کو کہا اور بعد میں میری طرف متوجہ ہوئے، کہنے لگے! رفیع یہ کیا ڈراما کھیلا جارہا ہے۔
میری لمحہ بھر خاموشی پر دوبارہ کہا: رفیع یہ کیا ڈراما کھیلا جارہا ہے؟ میں نے جواب دیا: جناب میں نے کبھی آپ کے ساتھ مذاق کیا ہے؟
انھوں نے فوراً کہا: تمھارا کیا مطلب ہے؟ پھر دہرایا، تمھارا کیا مطلب ہے؟
میں نے جواب دیا: جناب آخری حکم مل گیا ہے، آج آپ کو پھانسی دی جارہی ہے۔
مسٹربھٹو میں پہلی مرتبہ میں نے وحشت کے آثار دیکھے۔ انھوں نے اونچی آواز میں اپنے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے کہا بس ختم؟ بس ختم۔
میں نے جواب میں کہا: جی جناب۔
بھٹو صاحب کی آنکھیں وحشت اور اندرونی گھبراہٹ سے جیسے پھٹ گئی ہوں۔ ان کے چہرے پر پیلاہٹ اور خشکی آگئی جو میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ میں اس حالت کو صحیح بیان نہیں کرسکتا۔
انھوں نے کہا: کس وقت؟ پھر کہا: کس وقت اور پھر کہا، آج؟ میں نے اپنے ہاتھوں کی سات انگلیاں ان کے سامنے کیں۔
انھوں نے کہا: سات دن بعد۔
میں نے ان کے نزدیک ہو کر سرگوشی میں بتایا: جناب گھنٹے۔
انھوں نے کہا آج رات سات گھنٹوں بعد؟ میں نے اپنا سرہلاتے ہوئے ہاں میں جواب دیا۔
بھٹو صاحب جب سے پنڈی جیل میں لائے گئے اس وقت سے وہ ایک مضبوط اور سخت چٹان بنے ہوئے تھے لیکن اس موقع پر وہ بالکل تحلیل ہوتے دکھائی دے رہے تھے جس نے مجھے زندگی کی حقیقت سے روشناس کردیا۔ چند لمحوں کے وقفے کے بعد انھوں نے کہا: رفیع بس! میں نے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے ہاں کا اشارہ کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا پیپلز پارٹی اور اپنے وکیل سے شکوہ
کرنل رفیع الدین اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میں نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ بیگم بھٹو اور محترمہ بے نظیر نے ان سے آخری ملاقات کے بعد مجھ سے ملاقات کی تھی اور میں نے ان کی اپیل جنرل ضیاء الحق صاحب تک پہنچانے میں کیا کردار سرانجام دیا۔ اس دوران بھٹو صاحب مجھے گھبراہٹ کے عالم میں اور بے حد کمزور محسوس ہوئے تو میں نے ان کو سہارا دے کر سیل میں پڑی کُرسی پر بٹھانا چاہا۔ انھوں نے بیٹھتے وقت مجھے اشارہ کیا کہ ان کے بجائے میں بیٹھوں لیکن میں نے انھیں زبردستی کرسی پر بٹھا دیا اور نزدیک کونے میں پڑے کموڈ کے ڈھکن کو اس کے اوپر بند کرتے ہوئے اٹھایا اور ان کی کرسی کے سامنے رکھ کر اس کے اوپر بیٹھ گیا اور بیگمات کی اپیل کا قصہ ان کے گوش گزار کردیا اور امید ظاہر کی کہ شاید بیگم صاحبہ اس وقت تک جنرل ضیاء الحق صاحب سے مل چکی ہوں گی اور امید کرتا ہوں کہ اللہ کوئی بہتر صورت پیدا کردے۔ بہرحال میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے۔ مسٹر بھٹو جذبات کے تحت اپنی کرسی سے آگے لپکے اور مجھے اپنی چھاتی سے لگالیا اور فرمایا: تم ایک بہادر شخص ہو، کاش میں تمہیں پہلے سے جانتا ہوتا۔ اس حالت میں، میں نے ان کے جسم میں ایک خفیف سی لرزش محسوس کی لیکن ان کی گھبراہٹ کافی حد تک کم ہو چکی تھی اور میں نے انھیں تقریباً نارمل حالت میں محسوس کیا۔
تھوڑے وقفے کے بعد انھوں نے خودکلامی کے انداز میں کہا:
’میرے وکلا نے اس کیس کو خراب کیا ہے۔ یحییٰ میری پھانسی کا ذمے دار ہے۔ وہ مجھے غلط بتاتا رہا۔ اس نے اس کا ستیاناس کیا ہے۔ اس نے ہمیشہ سبزباغ دکھائے۔‘
پھر کہنے لگے ’میری پارٹی کو مردہ بھٹو کی ضرورت تھی زندہ بھٹو کی نہیں۔‘
ذوالفقار علی بھٹو کا وصیت لکھنا اور پھاڑ دینا
کرنل رفیع الدین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے رات 10 بج کر دس منٹ سے 11 بج کر 5 منٹ تک کچھ کاغذات پر وصیت لکھی تھی مگر بعد میں انھیں جلا دیا تھا۔ اس کے بعد وہ سونے کے لیے لیٹ گئے۔ رات بارہ بجے کے قریب جیل حکام نے انھیں جگانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں جاگے۔ جیل ڈاکٹر نے معائنہ کرکے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔ رات ایک بج کر دس منٹ پر وہ خود اٹھ بیٹھے۔ کرنل رفیع الدین لکھتے ہیں کہ ’’ حکم کے مطابق بھٹو صاحب کو4/3اپریل1979ء کی درمیانی شب کو دو بجے‘ انسپکٹرجنرل جیل خانہ جات کی موجودگی میں پھانسی لگانی تھی۔ بھٹو صاحب کی لمبی بھوک ہڑتال کی وجہ سے ان کی جسمانی حالت دیکھ کر ایک اسٹریچرکا بھی بندوبست کرلیا گیا تھا کہ اگر وہ پھانسی گھاٹ تک چل کر نہ جا سکیں تو ان کو اس پر لے جایا جائے گا۔
رات ایک بج کر پینتیس منٹ پر سپرنٹنڈنٹ جیل چودھری یار محمد، کمانڈر سیکیورٹی فورس لیفٹیننٹ کرنل رفیع الدین، مجسٹریٹ درجہ اوّل ڈسٹرکٹ کورٹ راولپنڈی مسٹر بشیر احمد خان، راولپنڈی جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خواجہ غلام رسول سیکیورٹی وارڈ گئے۔
مجسٹریٹ مسٹر بشیر احمد خان نے کہا کہ کیا وہ کوئی وصیّت چھوڑنا چاہتے ہیں۔ بھٹو صاحب خاموش رہے۔ بھٹو صاحب کا رنگ بالکل پھیکا اور زرد پڑ چکا تھا اور وہ جسمانی لحاظ سے نقاہت کی حالت میں تھے۔ ان کی آواز خفیف، بے حد کمزورتھی اور صاف سنائی نہیں دے رہی تھی۔ انھوں نے کوشش کر کے کہا
“I had ...tried...but...my...thoughts...were...so… upset...that...I...could ...not ...do...it...I...have... burnt...it.”
میں........نے کوشش..........کی.........لیکن.........میرے..........خیالات..........اتنے..........درہم برہم.............تھے .........
کہ میں..............نہ لکھ............سکا............میں...........نے ...............اسے ............جلا دیا۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
کرنل رفیع الدین اپنی کتاب کے باب ’آخری لمحات‘ میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے قریب جا کر ان سے کہا’’ جناب آپ چل کر جائیں گے یایہ آپ کو اٹھا کر لے جائیں‘‘ انھوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا بلکہ میری آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے۔ چند لمحوں بعد میں نے اسی فقرے کو دہرایا۔ وہ مجھے اسی طرح دیکھتے رہے اور پھر کہا’’ مجھے..........افسوس..........ہے‘‘ ’’ "I.....Pity" ‘‘( انھوں نے کچھ کہا لیکن ہم میں سے کوئی بھی کچھ نہ سمجھ سکا)
میں نے آگے جا کر ان کے اوپر جھک کر کہا۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو سمجھ نہیں سکا۔ انھوں نے اسی فقرے کو دہرایا‘ لیکن میں آخری ایک دو لفظ پھر بھی نہ سمجھ پایا۔ میں ان کے چہرے پر پوری طرح جھک گیا اور پھر ان سے کہا۔ معاف کیجئے گا میں آپ کو سمجھ نہیں سکا۔
وہ بے حد کمزوری اور وقفے وقفے کے ساتھ بولے۔
" I.......Pity......My......wife......left"
(مجھے........افسوس..........ہے ............میری............بیوی............چلی گئی.............ہے)
وہ بے حد پر اضطراراوردلسوز حالت تھے۔ میں بھٹو صاحب کے جواب کے ساتھ خاموش ہو گیا۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ وہ چل نہیں سکتے مگریہ بھی نہیں چاہتے کہ انھیں اٹھا کر لے جایا جائے۔ شاید وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ اگر ان کی بیوی موجود ہوتی تو وہ انھیں سہارا دے کر لے جاتی۔
میں ان کے اس جواب پر بالکل شل اور بے حس و حرکت ہو گیا۔
مجسٹریٹ نے دوبارہ آگے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ آ پ وصیت کرنا چاہتے ہیں؟ بھٹو صاحب خاموش رہے۔ مجسٹریٹ نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ وصیت لکھوانا چاہیں گے؟ انھوں نے جواب دیا
"Yes....I....would.....like......to.....dictate.
ہاں........میں..........لکھوانا...........چاہوں گا۔
اس لمحے وقت ختم ہو چکا تھا اور جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہیڈ وارڈر کو حکم دیا کہ وہ اپنے آدمی اندر لائے اور مسٹر بھٹو کو اٹھالیں۔ چار وارڈر اندر داخل ہوئے اور دو نے بھٹو صاحب کے بازو اور دو نے ان کے پاؤں اور ٹانگیں پکڑ کر ان کو اوپر اٹھا لیا جب ان کو اٹھایا جا رہا تھا تو انھوں نے کہا۔
’’مجھے چھوڑدو‘‘ جب ان کو سیل سے باہر نکالا جا رہا تھا تو ان کی کمر تقریباً فرش کے ساتھ لگ رہی تھی، ان کی قمیص کا پچھلا حصہ ان وارڈروں جو ان کی ٹانگوں کو پکڑے ہوئے تھے، کے پاؤں کے نیچے آیا اور قمیص پھٹنے کی آواز آئی۔ میں نے اس قمیص کا معائنہ تو نہیں کیا لیکن وہ بازوؤں کے نیچے تک ضرور ادھڑ گئی ہو گی یعنی ٹانکے کھل گئے ہوں گے۔ دالان میں ان کو اسٹریچر پر ڈال دیا گیا۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں ان کے پیٹ کے سامنے ہتھکڑی لگا دی گئی۔ اتنی دیر میں مشقّتی عبد الرحمٰن چائے کی پیالی لے کر سامنے آیا جو بھٹو صاحب نے ہمارے داخل ہونے سے پہلے اس سے کہی ہو گی۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ جیل کی دیوار کے پار پرائم منسٹر ہاؤس میں بھٹو صاحب نے جو بھی چاہا دنیا کے کسی بھی حصے سے ان کے لیے فوراً مہیا کیا گیا اور آ ج ان کی یہ آخری اور معمولی سی خواہش بھی پوری نہ ہوسکی کہ چائے کی ایک پیالی بھی پی سکیں۔
چاروں وراڈروں نے اسٹریچر کو چاروں کونوں سے اٹھالیا۔ بھٹو صاحب نے اپنا سر گردن پر تھامے ہوئے اوپر اٹھائے رکھا مگر ویسے بالکل بے حس رہے۔ ان کے پاؤں پیلے زرد نظر آرہے تھے جیسے کہ جسم میں خون بالکل کم ہو گیا ہو۔ سیل سے تقریباًدو سو یا دو سوپچاس(250) گز پھانسی گھاٹ تک وہ بالکل خاموش اور بغیر حرکت کے رہے۔ پھانسی کی جگہ وارڈروں نے اسٹریچر کو زمین پر رکھا اور دو نے بھٹو صاحب کی بغلوں کے نیچے سے مدد کی اور وہ پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو گئے۔ میں بھٹو صاحب کے نزدیک ترین رہا، صرف میں۔ میں نے اپنے پاؤں پھٹے سے بچا کر رکھے لیکن میرے کان ان کے چہرے سے ایک یا دو فٹ ہی دور رہے ۔ ان کے ہاتھوں سے ہتھکڑی نکال کر ان کے بازو اور ہاتھ ان کی کمر کے پیچھے ایک جھٹکے سے لے جائے گئے اور پھر ہتھکڑی لگا دی گئی۔ اسی دوران تارا مسیح نے ان کے سر اور چہرے پر ماسک چڑھا دیا۔ یا تو انھیں چہرے پر ماسک کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہوئی یا ہاتھوں کو مروڑتے ہوئے جب ان کو کمر کے پیچھے ہتھکڑی لگائی گئی تو لوہے کی ہتھکڑی نے ان کی کلائیوں کو دبایا جس کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوئی ۔اس لیے انھوں نے کہا ’’یہ مجھے‘‘ شاید وہ کہنا چاہتے ہوں کہ یہ مجھے تکلیف دے رہی ہے۔ میں ان کے بالکل نزدیک تھا یعنی میں تختے سے بچتے ہوئے آ گے ان کی طرف اتنا جھکا ہوا تھا کہ ان کے منہ اور میرے کانوں میں ایک، دو فٹ کا فاصلہ ہوگا مگر میں ان کی یہ آ خری بات پوری نہ سن سکا۔
ٹھیک دو بج کر چار منٹ پر، چار اپریل 1979ء کو جلاد نے لیور دبایا اور بھٹو صاحب ایک جھٹکے کے ساتھ پھانسی کے کنویں میں گر پڑے۔ میں اوپر سے سیڑھیوں کے ذریعے اتر کر کنویں کے کھلے رخ کنویں کے نیچے گیا اور دیکھا کہ بھٹو صاحب کا جسم معمولی ہل رہا تھا جو اوپر سے نیچے گرنے کی وجہ سے تھا لیکن وہ اس وقت مردہ حالت میں تھے۔
میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے پاس ان کرسیوں پر آکر بیٹھ گیا جو لٹکی ہوئی لاش کے سامنے رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب کا سر ان کی گردن پر بائیں طرف جھک گیا تھا کیونکہ پھانسی کے پھندے کا رسا ان کی دائیں طرف سے اوپر گیا ہوا تھا۔
بھٹو صاحب کی لاش کا اس طرح لٹکنا میرے لیے ایک نہ بھلا سکنے ولا منظر ہے۔ میں آ ج تک جب بھی اس کا تصوّر کرتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔