جیمز بانڈ موویز دیکھی ہیں؟

ان میں ایک وِلن ہوتا ہے جو بہت طاقتور اور با اثر ہوتا ہے۔ بڑے بڑے اداروں میں بیٹھے لوگ اس کے پے رول پر ہوتے ہیں دہشت گردی سے لے کر ڈرگ اسمگلنگ، سائبر اٹیکس سے لے کر اغوا برائے تاوان تک کوئی جرم اس کی پہنچ سے باہر نہیں ہوتا۔ مگر یہ سب تو فلموں میں ہوتا ہے نا۔ ہم آج آپ کو سنائیں گے ایک اصلی کہانی جو شروع تو ہوئی کراچی کی بولٹن مارکیٹ سے اور ختم ہوئی میامی کی جیل میں۔

ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے والا شخص پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہائی پروفائل انٹرنیشنل کرمنل بن گیا۔ زمانے میں اس کا نیٹ ورک کراچی سے واشنگٹن اور دبئی سے سڈنی تک دنیا کے سینکڑوں شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ممبئی کا انڈر ورلڈ ڈان ہو یا میکسیکو کے ڈرگ لارڈز دنیا کے خطرناک اور طاقتور ترین لوگوں کو اس کا نمبر زبانی یاد رہتا تھا۔ یہ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ اس کا ایک اور بھائی بھی تھا جڑواں بھائی۔ اور لوگ ان بھائیوں کو Untouchable سمجھتے تھے۔

مگر پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ڈان کی طرح انہیں بھی دنیا کے سات ملکوں کی پولیس ڈھونڈنے لگی۔ ڈان تو بچ گیا تھا مگر ان بھائیوں کا انجام اچھا نہیں ہوا۔

دا ڈالر مین

2 مئی 1961 کو کراچی کے شدید گرم موسم میں عبد الستار خانانی کے گھر بہار آ گئی۔ اللہ نے اسے ایک ساتھ دو بیٹوں سے نوازا تھا۔ اس نے ایک کا نام الطاف اور دوسرے کا جاوید رکھا۔ ویسے تو زیادہ تر میمنوں کا بہت تیز کاروباری دماغ ہوتا ہے لیکن عبد الستار کے لڑکے کچھ الگ ہی تھے۔ چھوٹی سی عمر میں ہی بولٹن مارکیٹ کی گلیوں میں ان کا نام چلنے لگا۔

اسٹاکس سے لے کر پرائز بانڈز اور کموڈیٹیز تک۔ ان بھائیوں کے لیے کوئی دھندا چھوٹا نہیں تھا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم بھی نہیں تھا۔ مگر ایک کام تھا جو ان کی پہچان بن گیا۔

ان کے ایک اشارے پر کروڑوں ڈالر ایک ملک سے دوسرے ملک پلک جھپکتے پہنچ جاتے۔ نہ کوئی پوچھ گچھ، نہ پیپر ورک۔ ان کا سارا منی ٹرانسفر بزنس ان کے نام پر چلتا تھا۔ اور اسی لیے اسے حوالہ نیٹ ورک کہا جاتا تھا۔

حوالہ نیٹ ورک کیا ہے؟

حوالہ در اصل عربی زبان کا لفظ ہے جہاں اس کا مطلب ہے ٹرانسفر یا منتقل کرنا۔ اردو اور ہندی میں اس کا مطلب اعتماد، نام یا ریفرنس کے طور لیا جاتا ہے۔ حوالہ نیٹ ورک اس لفظ کے عربی اور اردو دونوں معنوں سے مل کر بنتا ہے۔

نیو یارک میں کام کرنے والا عمر کراچی میں اپنی فیملی کو پیسے بھیجنا چاہتا ہے۔ وہ حوالہ بروکر سلیم کے پاس جاتا ہے اور جتنے بھی پیسے بھیجنے ہوں وہ اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ سلیم اس سے کچھ دو یا تین فیصد کمیشن چارج کرتا ہے اور پیسے وصول کر لیتا ہے۔ سلیم کراچی میں بیٹھے اپنے پارٹنر حوالہ بروکر نعمان کو فون ملاتا ہے۔ اور اسے عمر کے گھر والوں کا کونٹیکٹ اور رقم کی تفصیلات بھیج دیتا۔ نعمان عمر کے گھر والوں کو فون کرتا ہے اور وہ رقم ان کے حوالے کر دیتا ہے۔

یہ تو ہو گیا عربی والا حوالہ یعنی ٹرانسفر لیکن اس پوری ڈیل میں فزیکلی کوئی بھی رقم یہاں سے وہاں نہیں بھیجی جاتی۔ دونوں بروکرز اپنے پاس الگ الگ کھاتے یا حساب رکھتے ہیں جس میں اپس کی ساری ٹرانزیکشنز درج کرتے رہتے ہیں۔

یہ ہے اردو کا حوالہ یا اعتماد والا پارٹ۔ دونوں بروکرز ایک دوسرے کے نام پر اعتماد کرتے ہوئے یہ سارے پیسے ادھر سے ادھر کرتے ہیں۔ اسی طرح جب کبھی عمر کے گھر والے اسے پیسے بھجواتے ہیں تو یہی پراسس الٹا ہو کر دہرایا جاتا ہے۔ کچھ مہینوں کے بعد حساب چیک کیا جاتا ہے اور دونوں بروکرز کے درمیان جو بھی بیلنس ہوتا ہے وہ یا تا بینک ٹرانسفر یا پھر فزیکلی انسانوں کے ذریعے کیش اسمگل کر کے سیٹل کر دیا جاتا ہے۔

حوالہ نیٹ ورک کے فائدے

عام شریف لوگوں کو حوالہ نیٹ ورک سے دو فائدے ہوتے ہیں:

  1. بینکس کے مقابلے میں یہ سسٹم کرنسی کے بہت بہتر ریٹس کوٹ کرتے ہیں۔
  2. حوالہ ٹرانسفر بینکس کے مقابلے میں انتہائی آسان اور تیز ہوتا ہے۔ پیپر ورک نہ ہونے کے برابر اور رقم بھی فوراً پہنچ جاتی ہے۔

مگر کالا دھن رکھنے والوں کے لیے حوالہ نیٹ ورک کے کچھ بونس فائدے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً حوالہ نیٹ ورک انفارمل یا ان رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے ان کا کالا پیسہ کسی سسٹم پر شو نہیں ہوتا۔ نہ ٹیکس کا پرابلم نہ اینٹی کرپشن اور نیب کا چکر۔ ایک بار پیسے اپنے ملک سے نکل گئے تو پھر باہر کوئی بھی ملک اپنے ملک کے اندر آنے والے پیسوں پر بہت زیادہ سوال جواب نہیں کرتا۔ اس ملک میں وہ اس پیسے سے گھر اور جائیدادیں بناتے ہیں۔ اور باقی زندگی آرام سے گزارتے ہیں۔ ’’ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس‘‘ میں شریف خاندان پر بھی یہی الزام ہے۔ اور وہ آج تک یہ نہیں بتا سکے ہیں کہ ان فلیٹس کے پیسے کہاں سے آئے؟

پاکستان میں بھلے کوئی اچھا کام ٹھیک سے نہ ہو مگر دو نمبر کام بالکل جینوئن اور تسلی بخش -طریقے سے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان بھائیوں کے کلائينٹس میں روز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ سال بعد انہیں پاکستان کی مارکیٹ چھوٹی لگنے لگی۔ اور الطاف نے رخ کیا دنیا کی ہاٹ منی کے مرکز دبئی کا وہاں الزرونی ایکسچینج کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا۔

سیکریسی، efficiency اور بڑی سے بڑی رقوم کو با آسانی ٹرانسفر کرنے کی قابلیت، ان سب کی وجہ سے وہ بہت جلدی انتہائی امیر اور خطرناک لوگوں کا بھی ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ بن گیا۔ پیسہ ڈرگ کا ہے یا دہشت گردی کا، اغوا برائے تاوان یا کرپشن کا، الطاف کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اس کے لیے دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں تھا وہ اپنا کمیشن رکھتا اور رقم آگے بھیج دیتا۔

امریکا کی نظر میں آنا

امریکی حکام کے مطابق خانانی برادران القاعدہ، طالبان اور جیشِ محمد جیسی تنظیموں کے لیے سالانہ 14 ارب ڈالرز تک لانڈر کر رہے تھے۔ سب کچھ کنٹرول میں تھا۔ حوالہ نیٹ ورک خاموشی سے چل رہا تھا مگر پھر 2008 میں وہی ہوا جو پاکستانی معیشت میں چار پانچ سال بعد ہوتا ہے۔ صرف چھ مہینوں میں ڈالر 55 روپے سے بڑھ کر 75 روپے کا ہو چکا تھا۔ ایف آئی اے نے الزام لگایا کہ خانانی اینڈ کالیا نے 10 ارب ڈالرز پاکستان سے غیر قانونی طور پر لانڈر کیے جس کی وجہ سے روپیہ گرا۔

8 نومبر کو خانانی اینڈ کالیا کے کراچی لاہور اور ایبٹ آباد آفسز پر چھاپے مارے گیے۔ جاوید خانانی سمیت 8 لوگ گرفتار بھی ہوئے۔ مگر الطاف خانانی دبئی میں ہونے کی وجہ سے بچ گیا۔ ایف آئی نے شیر پر ہاتھ تو ڈال دیا تھا مگر اسے قابو کرنا بہت مشکل تھا۔

جن طاقتور افراد کے کروڑوں اربوں ڈالرز خانانی برادران نے خاموشی سے امریکا اور برطانیہ اسمگل کیے تھے وہ کیسے یہ رسک لے سکتے تھے کہ خانانی ایکسپوز ہو؟ پھر وہی ہوا جو ہر بار ہوتا ہے۔ ایف آئی ار اور پروسیکیوشن میں ایسی ایسی بھونڈی حرکتیں کی گئیں کہ حد ہو گئی۔ ایبٹ آباد والے کیس میں غلطی سے انوسٹی گیشن آفیسر فائنل چالان میں ان کا نام ہی ڈالنا بھول گیا۔ مگر جب یہ سب بھی کافی نہیں تھا تو ایک نیا قانون ہی بنا دیا گیا۔ اور اس قانون میں اتنے بڑے بڑے ہولز رکھے گئے کہ خانانی برادران آرام سے ٹہلتے ہوئے اپنے کیسز سے باہر آ گئے۔ اور پھر بالآخر 2013 میں خانانی برادران اپنے اوپر بنے تمام کیسز سے با عزت بری ہوگئے۔

مگر اب خانانی برادران دنیا کے سب سے طاقتور انٹیلی جنس مونیٹرنگ سسٹم ’’فائیو آئیز‘‘ (FIVE EYES) کے ریڈار پر آ چکے تھے۔

یہ ’’فائیو آئیز‘‘ کیا ہے؟

سیکنڈ ورلڈ وار میں جرمنی کی شکست کے بعد امریکا، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے روس اور کمیونسٹ تھریٹ پر نظر رکھنے کے لیے ایک انٹیلیجنس الائنس بنایا۔ اس الائنس کا نام فائیو آئيز رکھا گیا۔ فائیو آئیز شروع میں تو بہت محدود اسکوپ کے ساتھ بنا لیکن آج 80 سالوں بعد وہ دنیا کے طاقتور ترین انٹیلی جنس شیئرنگ میں شمار ہوتا ہے۔ لوگ اسے “the most exclusive intelligence sharing club in the world,” بھی کہتے ہیں۔ ہماری ای میلز، فون کالز، آن لائن شاپنگ, بینک ٹرانسفرز، سوشل میڈیا پوسٹس اور تقریباً تمام ڈیجیٹل ایکٹیویٹیز فائیو آئیز کی پہنچ میں ہیں یہ کسی بھی ملک کے سسٹم کو آسانی سے بائی پاس کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تو کوشش کیجیے کہ ان سے بچ کر ہی رہیے۔

اربوں ڈالر ادھر سے ادھر جا رہے تھے سب جانتے تھے۔ کون لے جا رہا ہے؟ سب کو پتہ تھا۔ مگر کیسے جا رہے ہیں کوئی منی ٹریل۔ کوئی ثبوت نہیں تھا۔ صدیوں پرانا حوالہ نیٹ ورک جدید ترین ٹیکنالوجی کے ریڈار سے بالکل غائب تھا۔

امریکیوں نے ہاتھ اٹھالیے

22 اکتوبر 2014 کو امریکی ڈرگ انفوسمنٹ ایجنسی کے ورجینیا آفس میں ایک اہم اجلاس ہوا۔ دنیا بھر کے سو کے قریب ماہرین اور کھوجی سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ پلان تیار ہو گیا۔ ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کی خصوصی ٹیم بنا‏ئی گئی جس کا نام گروپ 44 رکھا گیا۔ اس ٹیم کے ہیڈ تھے روب کیسیٹا۔ وہ خانانی کو ان کے ہیروئن اسمگلرز کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ فائیو آئیز کا پلان تھا خانانی نیٹ ورک کے خلاف اسٹنگ آپریشن کرنے کا۔ مچھلی سامنے نظر آ رہی تھی جال بھی تیار تھا مگر پھر اچانک سارے پلان کو فل اسٹاپ لگ گیا۔

انڈر کور ایجنٹس کو ڈرگ ڈیلرز بنا کر چھوٹی چھوٹی رقوم کے لیے خانانی نیٹ ورک استعمال کرنے کی اسٹریٹجی کام تو کر رہی تھی۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ الطاف خانانی چالیس پچاس ہزار ڈالر کی ٹرانزیکشن کے لیے خود کو سامنے نہیں لا رہا تھا۔ اس کو اپنے سامنے ٹیبل پر بٹھانے کے لیے بڑی رقم کی ضرورت تھی۔ کم از کم ون ملین ڈالرز کی۔ اتنی بڑی رقم کا سن کر امریکیوں نے تو ہاتھ کھڑے کر دیے۔ کہا ہم اپنے ٹیکس پیئرز کے پیسے پر اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتے۔ سارا آپریشن روک دیا گیا۔

آپریشن پھر شروع ہوا

پھر دو آسٹریلوی ایجنسیز نے مل کر ساڑھے بارہ لاکھ ڈالرز جمع کیے۔ یہ اس طرح کے آپریشن میں استعمال ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی رقم تھی۔ رقم کا انتظام ہوتے ہی آپریشن دوبارہ شروع کیا گیا۔

اگلے کئی مہینوں تک لاکھوں ڈالرز خانانی نیٹ ورک کے ذریعے گھمائے جاتے رہے۔ انویسٹی گیٹرز حیران تھے کہ جس شہر سے بھی کیش اٹھانے کا کہا جاتا، وہاں چند گھنٹوں میں خانانی نیٹ ورک کا کوئی نہ کوئی آدمی پہنچ جاتا۔ ادھر سے کیش لیا جاتا اور چند دنوں بعد تین فیصد کمیشن کاٹ کر بتائے گئے اکاؤنٹ میں دبئی کی ایک کمپنی سے پیسے ٹرانسفر کر دیے جاتے۔ اگلے چند ہفتوں میں بارہ لاکھ ڈالر کی رقم ٹرانسفر کرنے اور ناقابل تردید شواہد اکٹھا کرنے کے بعد خانانی تک پیغام پہنچایا گیا کہ ہمارے باسز کو بہت جلدی ایک بہت بڑی رقم ٹرانسفر کرنی ہے لیکن اس کے لیے انہیں الطاف کی پرسنل گارنٹی چاہیے ہوگی۔

الطاف سامنے آ گیا

19 منٹ کی اسکائپ کال میں انڈر کور ایجنٹس نے خانانی سے ریکویسٹ کی کہ ہمارے باسز کا سارا پیسہ ڈرگز کا ہے اس لیے وہ تھوڑا ڈرے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کم از کم ایک بار اپ سے ملاقات کر کے تسلی کرلیں۔ خانانی کے مثبت جواب دے کر سب کو حیران کر دیا۔ ایجنٹس نے اگلا سوال کیا کہ کیا وہ ملاقات کے لیے پانامہ یا کوسٹا ریکا آ سکتے ہیں؟ خانانی نے جواب دیا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں!

ملاقات کے لیے پانامہ کا مقام اور 11 ستمبر 2015 کا دن چنا گیا۔ الطاف 4 بج کر 55 منٹ پر کے ایل ایم کی فلائٹ سے ٹوکومن انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچا۔ وہ بے خبر تھا کہ یہاں اس کے استقبال کے لیے ڈرگ ڈیلر کلائينٹس نہیں، فائیو آئیز کے درجنوں اہلکار کھڑے ہیں۔ اور پھر جہاز سے باہر آتے ہی اسے گرفتار کر لیا گیا۔

پاکستانی نظام سے بچ نکلنے والا الطاف خانانی اب انٹرنیشنل پاورز کی گرفت میں تھا۔ یہاں اسے بچانے کے لیے کوئی آنے والا نہیں تھا۔ الطاف کے سامنے چوائس رکھی گئی۔ اگر وہ اپنے جرائم کا اقرار کرتا ہے تو سزا 5 سال ہوگی اور اگر انکار کرے گا اور پھر جرم ثابت ہو گیا تو 20 سال۔ بولٹن مارکیٹ کا کنگ اب کوئی رسک لینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس نے اپنے جرائم کا اقرار کر لیا۔ الطاف خانانی کو امریکا میں ساڑھے پانچ سال قید اور ڈھائی لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

فلمی زندگی کا فلمی انجام

امریکا میں الطاف کی گرفتاری اور سزا کا سن کر پاکستانی حکومت کو بھی جھٹکا لگا۔ پھر کیس کھول دیا گیا۔ ایک بار پھر جاوید خانانی کو گرفتار کر لیا گیا۔ شور مچا۔ بریکنگ نیوز چلی لیکن۔ اس بار بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ مگر چند دنوں بعد ہی جاوید خانانی کو لے کر ایک اور بریکنگ نیوز آ گئی۔ خبر تھی کہ جاوید خانانی ایک عمارت کی چھت سے گر کر شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ہیں۔ جاوید نے خود کشی کی یا کسی نے دھکا دیا یہ شاید کبھی نہ پتہ چلے۔

الطاف خانانی کہاں گیا؟

الطاف خانانی 13 جولائی 2020 کو میامی کی جیل سے رہا ہو گیا تھا۔ مگر رہائی کے بعد اب وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ اس کا بھی اس کی منی ٹرانزیکشنز کی طرح کوئی نشان نہیں۔

کوئی کہتا ہے طاقتور ترین حکومتی وزیر کو رشوت نہ دینے کی سزا ملی تو کوئی کہتا ہے کومپیٹیٹر کے حسد کا شکار ہوئے۔ وجہ جو بھی تھی مگر خانانی نیٹ ورک تو ختم ہو گیا لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس سے حوالہ اور منی لانڈرنگ پر کوئی فرق پڑا؟

پاکستان کا ایک نظام ہے جس میں طاقتور لوگ اپنے سے کم طاقتور لوگوں سے کام لیتے ہیں اور پھر ضرورت پڑنے پر انہیں قربان بھی کر دیتے ہیں۔ سیاست ہو صحافت یا عدالت ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ کھلاڑی بدل دیے جاتے ہیں مگر کھیل جاری رہتا ہے۔ خانانی برادران کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں