دہشت گرد! لفظ سنتے ہی سب سے پہلے ذہن میں کیا آتا ہے؟ مذہبی شدت پسند، داڑھی پگڑی والے، کلاشنکوف ہاتھ میں لیے طالبان۔ لیکن اُن سے کہیں پہلے، پاکستان میں ایک گروپ کی دہشت ہوا کرتی تھی۔ اس ٹیرر گروپ نے تو تباہی مچا رکھی تھی۔ جہازوں کو اغوا کرنے سے لے کر بم دھماکوں تک، کیا کچھ تھا جو اس گروپ نے نہیں کیا۔ کوئی عہدہ کوئی مقام ان سے محفوظ نہیں تھا۔ سٹنگ پریذیڈنٹ سے لے کر چیف جسٹس تک، سب ان کے نشانے پر تھے۔ ان کا نیٹ ورک دنیا کے تمام لیفٹ ونگ ٹیررسٹ گروپس سے کنیکٹڈ تھا۔ فورن فنڈنگ لیتے اور نشانہ بناتے پاکستان کو۔

القاعدہ سے کہیں پہلے بننے والے اس گروپ کا نام تھا الذوالفقار اور اس کے ماسٹر مائنڈز تھے بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ اور شاہنواز۔ الذوالفقار کافی پُر اسرار تنظیم تھی، جس پر ہمیشہ راز کے پردے پڑے رہے لیکن پھر مرتضیٰ بھٹو کے قریبی دوست راجا محمد انور نے 1996 میں ایک کتاب لکھی The Terrorist Prince جس میں مرتضی اور اس کی دہشت گرد تنظیم کے سب رازوں سے پردہ اٹھا دیا۔

20 ستمبر 1996 کو جب مرتضی بھٹو اپنے ہی گھر کے باہر اپنی ہی بہن کی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تو لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا۔ یقیناً مرتضیٰ کا انجام بہت ڈرامائی تھا مگر کیا اپ جانتے ہیں کہ صرف انجام نہیں ان کی پوری زندگی ہی۔ بہت فلمی تھی، ویلکم ٹو دا اسٹوری اف دا ٹیررسٹ پرنس۔

پسِ منظر

1979 میں چلتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حالات اچھے نہیں۔ ضیا کے مارشل لا کا دوسرا سال ہے۔ بھٹو قید خانے میں موت کا انتظار کررہے ہیں مگر پورے ریجن میں بھی طاقت کے ایوانوں میں زلزلے آ رہے ہیں۔ روس افغانستان میں داخل ہوچکا ہے۔ خمینی ایران میں انقلاب کے جھنڈے گاڑ چکا ہے، ایسا انقلاب، جس سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی پریشان ہے۔ مشرقی سرحد کے بعد اب ملک کی مغربی سرحد بھی غیر محفوظ نظر آ رہی ہے۔ جہاں بے نظیر اور نصرت بھٹو سیاسی محاذ پر لڑرہی تھیں وہیں پاکستانی نظام سے ناامید ہو کر مرتضیٰ اور شاہنواز نے دوسرا راستہ چننے کا فیصلہ کیا۔ وہ راستہ بیلٹ کا نہیں بلٹ کا راستہ تھا۔

پہلی مدد

اپریل 1978 میں مرتضیٰ نے بیروت میں یاسر عرفات سے ملاقات کی اور اُن سے مدد مانگی۔ جی ہاں! عسکری مدد! انھیں لیبیا کے صدر معمر قذافی اور شام کے حافظ الاسد سے مالی مدد مل چکی تھی۔ تب مرتضیٰ کی عمر 24 سال بھی نہیں تھی لیکن یاسر عرفات نے انھیں پھر بھی اسلحہ دے دیا، شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ لڑکا اتنا اسلحہ لے کر آخر کہاں جائے گا؟ اسے پاکستان کیسے پہنچائے گا؟ اور پہنچا بھی دے تو یہ اسلحہ چلائے گا کون؟

بہرحال، اس مدد نے مرتضیٰ کو بڑا حوصلہ دیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتے، اپریل 1979 میں وہ ہو گیا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ملک میں بہت بڑے پیمانے پر ردِ عمل کا خدشہ تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ لاوا شاید اندر ہی اندر پک رہا تھا، کم از کم بھٹو خاندان میں تو ایسا ہی تھا۔

مرتضیٰ باپ کی پھانسی کے ایک مہینے بعد کابل پہنچے جہاں وہ اپنے گھر میں فرش پر سوتے تھے، کیونکہ انھوں نے عہد کر رکھا تھا جب تک باپ کا بدلہ نہیں لوں گا تب تک بستر پر نہیں سوؤں گا۔ یتیم، جلا وطن، اکیلا، بدلے کی آگ میں جلتا اور پریشان حال مرتضیٰ!

پیپلز لبریشن آرمی

مرتضیٰ نے افغان حکام سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ میرے پاس بہت سا اسلحہ ہے جو بیروت، لبنان میں رکھا ہوا ہے، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے، بس یہ اسلحہ یہاں لانا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات تب بھی ایسے ہی تھے، جیسے آج ہیں یعنی بہت ہی خراب۔ اس لیے افغانوں نے فوراً ہاں بھی کر دی۔

مرتضیٰ کو کابل میں ٹھکانہ مل گیا اور پھر شہر میں وہ ایک نام سے مشہور ہو گئے، نام تھا: خواجہ سگ پرست۔ وہ کیوں؟

واقعہ یہ تھا کہ ایک بار مرتضیٰ کا کتا ’’وولف‘‘ گم ہو گیا۔ تلاش کے لیے افغان انٹیلی جینس کی وہ دوڑیں لگوائی گئیں کہ وہ تنگ آ گئے اور پھر انھوں نے ہی مرتضیٰ کو یہ نیا نام دیا: خواجہ سگ پرست یعنی ڈوگ لور۔ بہرحال، زیادہ دن نہیں گزرے، شام سے وہ جہاز بھی پہنچ گیا، جس کا انھیں بڑا انتظار تھا۔

جہاز کے کارگو میں سینکڑوں کلاشنکوفیں تھیں، ہینڈ گرنیڈ، مشین پسٹلز اور اینٹی ٹینک آر پی جیز بھی بلکہ کچھ سرفیس ٹو ایئر سیم 7 میزائل بھی تھے۔ اسلحہ تو آ گیا، اب اسے استعمال کرنے والے لوگ کہاں سے آئیں؟ اس کے لیے مرتضیٰ بھٹو نے سب سے پہلے رابطہ کیا میجر جنرل امتیاز علی سے۔ وہ بھٹو کے سابق ملٹری سیکریٹری تھے، جو مرتضیٰ کے بلانے پر آنے والے پہلے آدمی بنے۔

جون 1979 میں امتیاز علی دبئی سے کابل پہنچے۔ وہ فوج میں کمانڈو رہ چکے تھے، اس لیے فوراً سمجھ گئے کہ مرتضیٰ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے سمجھایا کہ فوج سے ڈائریکٹ ٹکر نہ لی جائے، طاقت سے فوج کو جھکانے کا خیال بے وقوفانہ ہے لیکن مرتضیٰ کا فلسفہ ایک ہی تھا: جو بندوق نہ اٹھائے، اسے اسی بندوق سے مار دینا چاہیے۔ اس لیے سن کر بھی ان سُنی کر دی، اور جنرل امتیاز واپس دبئی چلے گئے۔

زیادہ دن نہیں گزرے، مرتضیٰ کے دو قریبی ساتھی کابل پہنچ گئے، سہیل سیٹھی اور پرویز شنواری۔ انھیں پہلا مشن دیا گیا کہ یہ اسلحہ پاکستان پہنچانا ہے۔ سرحد تو پار کر لی، لیکن پشاور لاتے ہوئے اسلحہ پکڑا گیا۔ یوں مرتضیٰ کا پہلا آپریشن بُری طرح ناکام ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب الذوالفقار کا نام بھی نہیں رکھا گیا تھا، تب وہ اسے پیپلز لبریشن آرمی کہتے تھے۔ ایک ایسی آرمی جس میں ایک سپاہی بھی نہیں تھا۔

آرمی چیف مل گیا!

یہ نومبر 1980 تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک جیالے نے جمعیت کے کارکن کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ پولیس اس کی تلاش میں تھی، اس لیے وہ بھاگا اور افغانستان پہنچ گیا۔ وہ ایک بے خوف، مکار اور جانا مانا قاتل تھا، ایسا جو کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتا۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو چلتا پھرتا بم۔ کابل میں اُس کا انتظار کوئی اور نھیں، اُسی جیسا مرتضیٰ کر رہا تھا۔ ویسے ہی بچکانہ ایڈونچر ازم اور جذباتیت کا شکار مرتضیٰ۔

اِس لڑکے کا نام تھا: سلام اللہ ٹیپو۔ وہ بنا پیپلز لبریشن آرمی کا پہلا آرمی چیف!

کہتے ہیں نا، خوب بنے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ تو ان دونوں دیوانوں نے اگلے دو مہینے بیٹھ کر ایک پلان بنایا۔ منصوبہ تھا پی آئی اے کا کوئی جہاز ہائی جیک کرنے کا۔ اس پلان پر عمل کرنے کے لیے ٹیپو جنوری 1981 میں دوبارہ پاکستان آ گیا۔ اُس نے افغان بارڈر پار کیا اور پھر اُسی شہر پہنچ گیا، جہاں سے وہ جان بچا کر بھاگا تھا، یعنی کراچی۔

ٹیپو نے مرتضیٰ سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا بلکہ اس مشن کی فنڈنگ کے لیے کراچی میں دو ڈکیتیاں کیں۔ پھر ریکروٹمنٹ کی، اور دو بندوں کو ساتھ لیا۔

پہلا تھا کراچی یونیورسٹی کا ہی ناصر جمال۔ ناصر میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کا صدر بنا تھا اور اگلے ہی دن 26 فروری کو جامعہ میں پی ایس ایف اور جمعیت کا clash ہو گیا۔ فائرنگ ہوئی اور جمعیت کا ایک اور کارکن مارا گیا۔ ٹوٹل چھ لوگوں پر مقدمہ درج ہوا، جن میں ناصر کا نام بھی تھا۔ اب وہ بھاگنے کے چکر میں تھا، جب اس کی ملاقات ٹیپو سے ہو گئی۔ اس نے پہلی ہی ملاقات میں ناصر کو ہائی جیکنگ پر قائل کر لیا۔ یا یوں کہہ لیں کہ ناصر کے پاس پاکستان سے باہر بھاگنے کا دوسرا کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔

پھر تیسرا بندہ بھی ساتھ لیا، جس کا نام تھا ارشد علی۔ اس کی کہانی سب سے نرالی ہے، اس میں خود سے فیصلہ لینے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ اسی لیے ٹیپو نے اسے پھنسا لیا بلکہ اسے تو بتایا ہی نہیں گیا تھا کہ اصل پلان جہاز اغوا کرنے کا ہے۔ وہ تو اپنے دوستوں کو الوداع کہنے ایئرپورٹ آیا تھا، اس حال میں کہ وہ دفتر جانے کے لیے تیار تھا اور لنچ باکس بھی اُس کے پاس ہی تھا۔

ہائی جیکنگ

یہ تھا دو مارچ 1981 کا دن۔ کراچی سے پشاور جانے والی پرواز پی کے 326 تیار کھڑی تھی۔ ایئرپورٹ پر بیگیج ایکس رے یونٹ کام نہیں کر رہا اس لیے یہ تینوں ہائی جیکرز اسلحے سمیت با آسانی جہاز تک پہنچ گئے۔ جہاز میں کُل ڈیڑھ سو مسافر تھے، جن میں سوجی آنکھوں والے میجر طارق رحیم بھی شامل تھے۔ اپنے والد کی اچانک موت کی خبر سننے کے بعد وہ تہران سے روانہ ہوئے اور اب کراچی سے پشاور جا رہے تھے۔ وہ تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے ملازم تھے لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس جہاز میں بیٹھنے کے بعد وہ کبھی دوبارہ پاک سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکیں گے، بلکہ اُن کا قاتل بھی بوئنگ 720 طیارہ فضا میں بلند ہوا تو ٹیپو نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب میرا نام عالمگیر ہے، ناصر کا نام سراج اور ارشد کا خالد۔

جہاز اپنی منزل پشاور کی طرف رخ کر چکا تھا، وقت گزرتا جا رہا تھا لیکن ٹیپو کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ جہاز میں کچھ کمانڈوز موجود ہیں اور ہائی جیکنگ کا اعلان کیا تو اسے دبوچ لیا جائے گا۔ وہ اسی کیفیت میں بیٹھا رہا، یہاں تک کہ جہاز میانوالی کی فضاؤں تک پہنچ گیا۔

اب وقت نہیں تھا۔ ٹیپو نے اشارہ کیا، تینوں ہائی جیکرز نے اپنی پوزیشنز لیں اور پھر کاک پٹ میں گھس گئے۔ جہاز کو اغوا کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق یا لیبیا کے capital طرابلس لے جانے کا پلان تھا، اس لیے پائلٹ سے کہا گیا کہ جہاز کو دمشق لے چلو۔ جواب ملا کہ اتنا فیول ہی نہیں ہے۔ جس پر ٹیپو نے کہا کہ تو طرابلس لے چلو۔ یعنی اسے بنیادی جغرافیے کا پتہ ہی نہیں تھا، پائلٹ نے بتایا وہ تو دمشق سے بھی دُور ہے۔ تو جہاز میں موجود فیول کے لحاظ سے قریبی ترین غیر ملکی مقام ایک ہی تھا: کابل!

یعنی جہاز کی منزل وہی بن گئی، جو نہیں ہونی چاہیے تھے کیونکہ مرتضیٰ نے جہاز کو کابل لانے سے سختی سے منع کیا تھا۔ بہرحال، ٹیپو نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ

میرا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے مسلح ونگ پیپلز لبریشن آرمی سے ہے، ہمارا مقصد ہے بھٹو کے خون کا بدلہ لینا اور پاکستان میں جمہوریت کو بحال کرنا، ہم تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کروانا چاہتے ہیں۔ اس کا فوراً ڈاکٹر صلاح الدین سے رابطہ کروایا جائے۔

اب یہ ڈاکٹر صلاح الدین کون تھا؟ یہ مرتضیٰ بھٹو کا کوڈ نیم تھا۔ اُس زمانے میں افغان خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ کے سربراہ تھے نجیب اللہ۔ انھوں نے مرتضیٰ کو فون کیا۔ جہاز کے کابل پہنچنے کا سن کر مرتضیٰ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ اپنے افغان کنکشنز کو ایکسپوز نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن ایسا ہو چکا تھا۔

رات 10 بجے نجیب اللہ اور مرتضیٰ بھٹو ہائی جیکرز سے ملنے ایئرپورٹ پہنچے۔ ٹیپو کو جہاز سے اترنے اور دُم کے نیچے پہنچنے کا کہا گیا۔ وہاں مرتضیٰ بڑی گرم جوشی سے ملا، ٹیپو کا ماتھا چوما اور پھر پوچھا جہاز شام یا لیبیا کیوں نہیں لے گئے؟ جواب ملا اتنا فیول ہی نہیں تھا۔ بہرحال، پھر تمام مسافروں کے پیپرز اور ٹریول ڈاکیومنٹس چیک کیے گئے۔ پتہ چلا پانچ امریکن بھی جہاز میں سوار ہیں اور ایک پاکستانی ملٹری افسر بھی، جی ہاں! میجر طارق رحیم!

میجر طارق رحیم کا نام سامنے آتے ہی مرتضیٰ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے کہا لگتا ہے ہم نے کوئی بڑی مچھلی پکڑ لی ہے۔ کیونکہ مرتضیٰ سمجھا کہ طارق رحیم، ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل رحیم کے بیٹے ہیں۔ یہ مرتضیٰ کی غلط فہمی تھی۔ حکم ملا کہ طارق رحیم کو باقی مسافروں سے الگ کر دو۔

طارق رحیم کون تھے؟

اگر یہ طارق رحیم جنرل رحیم کے بیٹے نہیں تھے تو یہ کون تھے؟ یہ تھے بھٹو کے ADC یعنی ملٹری سیکریٹری طارق رحیم۔

سن 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو قبائلی علاقوں کے دورے پر گئے۔ طارق رحیم بھی ساتھ تھے، ایک جگہ ہیلی کاپٹر سے اترتے ہی دھماکا ہو گیا۔ طارق رحیم نے چھلانگ لگائی اور بھٹو کو دھماکے کی زد سے آنے سے بچا لیا۔ اس واقعے میں ایک سینیٹر کی جان گئی اور طارق رحیم خود بھی زخمی ہوئے۔ اس بہادری پر انھیں بھٹو نے بہت شاباش دی۔

لیکن کون جانتا تھا کہ ایک دن آئے گا اپنی جان پر کھیل جانے والا یہ فوجی بھٹو کے بیٹے کے حکم پر مار دیا جائے گا؟ جی ہاں! ہائی جیکنگ کے اگلے ہی دن سلام اللہ ٹیپو نے مرتضیٰ کی اجازت سے طارق رحیم کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ پھر جہاز کا دروازہ کھولا اور ان کی لاش باہر پھینک دی گئی/ مرتضیٰ نے 17 مارچ 1981 کو بی بی سی کو انٹرویو میں کہا:

شہید بھٹو کے اے ڈی سی طارق رحیم نے مارشل لا کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیا تھا، وہ ہماری ہٹ لسٹ پر تھا۔

کامیابی مل گئی!

جب حکومتِ پاکستان نے مطالبات پوچھے تو پتہ چلا کہ ہائی جیکرز کے پاس ایسی کوئی لسٹ ہے ہی نہیں، یعنی انھیں پتہ نہیں تھا کہ انھوں نے کس کو رہا کروانا ہے؟ فوری طور پر جو پانچ نام دیے گئے، یہ وہ لوگ تھے جو 26 فروری کو جامعہ کراچی سے پکڑے گئے تھے۔ یہ تمام نام ناصر جمال نے دیے تھے، کیونکہ وہ خود اس کیس میں مفرور تھا۔

بہرحال، مرتضیٰ بھٹو نے اِدھر اُدھر کالز گھمائیں اور بالآخر ایک لسٹ تیار ہو گئی۔ اس میں 49 لوگوں کے نام تھے۔ اگلے دن یعنی پانچ مارچ کو اس میں مزید نام شامل کیے گئے اور تعداد 69 تک پہنچ گئی۔ چھ مارچ کو اور لوگوں کا اضافہ کر کے 92 افراد فائنل کر لیے گئے۔ تب افغان خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ کے سربراہ نجیب اللہ نے یہ لسٹ دیکھی، انھوں نے وہ تمام نام نکلوا دیے جو افغانوں کے تھے۔ کہا کہ یہ ہمارے لوگ ہیں، ان کا معاملہ ہم دیکھ لیں گے، اس لسٹ میں کسی افغان کے نام کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے ایسا غالباً اس لیے کیا تاکہ پاکستان کو یہ ہائی جیکنگ افغان سازش نہ لگے۔

بہرحال، فائنل لسٹ میں 54 لوگ بچے، جو سب کے سب پیپلز پارٹی کے تھے۔ ‏48 گھنٹے گزرنے پر بچوں اور خواتین کو رہا کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی دھمکی بھی دی گئی کہ اب ہر چوبیس گھنٹے میں ایک مسافر کو مار دیا جائے گا۔ افغان صدر کے کہنے پر اس ڈیڈ لائن میں ایک دن کا اضافہ کیا گیا۔ لیکن پاکستان نے کوئی قیدی رہا نہیں کیا۔ اب مرتضیٰ کے لیے مشکلات بڑھنے لگیں، جب اس نے جہاز کو دمشق لے جانے کا حکم دیا۔ یوں بدقسمت جہاز نے ایک بار پھر اڑان بھری۔

اب اُس کی منزل تھی شام کا دارالحکومت جہاں شامی انٹیلی جینس کا سربراہ محمد الخولی منتظر تھے۔ ایک ڈیڑھ ہوشیار انٹیلی جنس آفیسر۔ اُسی نے ٹیپو کو مشورہ دیا کہ پاکستانیوں کو مارنے کی دھمکیوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ مطالبات منوانے ہیں تو پہلے امریکی مسافر مارنے کی دھمکی دو۔ کہو کہ امریکی مسافر سی آئی اے کے جاسوس ہیں، ہم انھیں ایک، ایک کر کے مار دیں گے اور یہ چال کام کر گئی!

امریکی پریشر میں پاکستان نے قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس سے پہلے ایک آخری پتہ کھیلنے کی کوشش ضرور کی۔ ٹیپو کے والد اور ناصر جمال کے بھائی کو دمشق لے جایا گیا۔ ناصر نے تو اپنے بھائی سے ملنے سے انکار کر دیا لیکن ٹیپو نے والد سے ملاقات کی۔ جب باپ نے کہا کہ سب مسافروں کو آزاد کر دو، تو ٹیپو نے جواب دیا:

میں آپ کو نہیں جانتا، میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں۔ میرے باپ کا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے اور ماں کا نام نصرت بھٹو۔ میری زندگی بھٹو خاندان کے نام ہے۔

اس حرکت پر باپ نے ایک ہی جواب دیا: تم اب میرے بیٹے نہیں، جو چاہو کرو۔ بالآخر تمام قیدی رہا ہوئے، انھیں شام لایا گیا، ہائی جیکرز کو بھی یہاں سیاسی پناہ مل گئی۔ لیکن اس کامیابی کا کریڈٹ صرف مرتضیٰ کو نہیں جاتا۔ اگر افغانستان میں نجیب اللہ اور شام میں جنرل خولی نہ ہوتے تو کبھی اتنی کامیاب ہائی جیکنگ نہ ہوتی۔ یہ اپنے وقت میں تاریخ کی سب سے طویل ہائی جیکنگ تھی جو 12 دن سے زیادہ چلی۔ جو لوگ رہا کروائے گئے، مرتضیٰ نے اُن سے کہا:

میں مرنے کے لیے تیار ہوں اور مارنے کے لیے بھی، جو ساتھ رہنا چاہتا ہے، میرے ساتھ کابل چلے۔

پھر 22 اپریل 1981 کو 25 لوگ بذریعہ دلّی کابل پہنچے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ہائی جیکنگ نے انھیں آزادی نہیں دی، بلکہ کچھ کو موت اور باقی کو سالہا سال کی جلا وطنی بخشی۔ وہ پاکستان کی جیلوں میں رہتے تو شاید دو، تین سال بعد آزاد ہو جاتے لیکن اس "رہائی" کے بعد انھیں سالوں تک ملک دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔

بہرحال، اس ہائی جیک کے 12 دن بعد اُسی دن الذوالفقار بنائی گئی۔ مرتضیٰ نے ٹیپو کو "بھٹو شہید میڈل" دیا، جو الذوالفقار کا نشانِ حیدر تھا۔ لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا، ٹیپو کو اپنی اندھی وفاداری پر اگلا تمغہ بھی ملا، سینے پر گولی کی صورت میں۔ کیسے؟ اس بارے میں بات کرنے سے پہلے چلتے ہیں الذوالفقار کی بڑی کارروائیوں کی طرف!

ضیاء الحق پر قاتلانہ حملے

الذوالفقار کی سب سے خطرناک کارروائی تھی، موسٹ ہائی ویلیو ٹارگٹ یعنی جنرل ضیاء الحق پر قاتلانہ حملہ۔

الذوالفقار نے ضیاء الحق پر تین حملے کیے، پہلا حملہ جنوری 1982 کی صبح راولپنڈی میں کیا گیا۔ اس مشن کے لیے جن دو افراد کا انتخاب کیا گیا، ان کے کوڈ نیم تھے فیصل اور عامر۔ یہ دونوں ہائی جیکنگ کے ذریعے رہا کروائے گئے قیدیوں میں شامل تھے۔ یہی افغانستان سے سیم-7 میزائلز بڑی مشکل سے اسمگل کرکے پنڈی لائے تھے۔ جب ضیاء الحق سعودی عرب سے وطن واپس آئے تو ان کے جہاز پر پہلا میزائل فائر بھی کیا گیا۔ لیکن ناتجربہ کاری اور ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے ہیٹ سیکنگ میزائل لاک ہونے سے پہلے ہی ٹرگر دبا دیا۔ جہاز میں ضیاء الحق کے علاوہ جنرل کے ایم عارف، وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان اور کئی اہم جرنیل سوار تھے۔

زیادہ دن نہیں گزرے کہ فیصل اور عامر کو اپنا دوسرا اور آخری میزائل آزمانے کا موقع بھی مل گیا۔ یہ سات فروری 1982 کی صبح تھی، جب ضیاء الحق کو لاہور جانا تھا یعنی ان کا فیلکن جہاز ایک بار پھر راولپنڈی سے اڑے گا۔ وقت تھا ساڑھے آٹھ سے نو بجے کے درمیان کا، یعنی رات کے اندھیرے میں نہیں، یہ کارروائی دن کے اجالے میں کرنا تھی۔

دونوں مری روڈ پر چاندنی چوک کے قریب ایک پارک پہنچے جہاں کچھ ہی دیر انتظار کے بعد پونے نو بجے ضیاء الحق کا طیارہ فضا میں بلند ہوا۔ عامر میزائل لانچر پر سے کپڑا ہٹا کر اسے اپنے دائیں کندھے پر اٹھا لیتا ہے۔ اس مرتبہ وہ کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا، جیسے ہی ہیٹ سیکنگ سیم-7 میزائل کا لاکنگ سسٹم گرین کا سگنل دیتا ہے، عامر ٹرگر دبا دیتا ہے۔ دھویں کا ایک بادل اٹھتا ہے اور پیچھے سے فیصل کی چیخ بلند ہوتی ہے، بھاگ عامر!

بھاگتے ہوئے دونوں جیسے ہی اوپر نظر دوڑاتے ہیں، ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ میزائل نے ایک بار پھر جہاز کو مس کر دیا۔ دونوں کو پتہ نہیں تھا کہ پائلٹ کو میزائل کی آمد کا پتہ چل گیا تھا، اس نے اس نے اچانک جہاز کا رخ موڑ دیا، اس manoeuvre سے جہاز کا توازن تو بگڑا لیکن وہ یقینی تباہی سے بچ گیا، صرف اور صرف چند گز کے فاصلے۔ یوں ضیاء الحق دوسری بار بھی بچ گئے۔

ضیاء الحق مضبوط اعصاب کے آدمی تھے، موت کو اتنا قریب سے دیکھنے کے باوجود panic نہیں ہوئے۔ جہاز کو واپس ایئرپورٹ لے جانے کا حکم نہیں دیا بلکہ سفر جاری رکھا۔ لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس سے بھی خطرناک حملہ ابھی باقی ہے۔ اس بار ضیاء الحق کو ٹارگٹ بنایا گیا انڈیا میں!

الذوالفقار انڈیا میں

اگست 1982: مرتضیٰ بھٹو اور الذوالفقار کا پورا سیٹ اپ کابل سے دلّی شفٹ کر دیا گیا۔ ستمبر سے پاکستان، افغانستان بلکہ ہر جگہ سے الذوالفقار کے کارندے انڈیا پہنچنا شروع ہو گئے۔ دلّی کے نواحی علاقے سوریا نگر میں الذوالفقار کا پہلا کیمپ بنا، جو انڈین خفیہ ایجنسی را نے بنایا۔

اگلے مرحلے میں دلّی سے تین، چار سو میل دُور ایک ٹریننگ کیمپ بنایا گیا۔ یہ گجرات کے شہر بھوج کے قریب تھا۔ یہاں سے ٹریننگ کے بعد ان کارندوں کو سوریا نگر واپس لایا جاتا۔ یہاں وہ مرتضیٰ اور شاہنواز سے ملتے اور پھر چار، چار کے گروپوں میں مختلف مشنز پر پاکستان بھیجے جاتے۔

اس دوران مرتضیٰ نے سب سے خطرناک کارروائی کا فیصلہ کیا وہ بھی اپنے سب سے خطرناک بندے سلام اللہ ٹیپو کے ذریعے، لیکن اس مشن سے پہلے ٹیپو کے ساتھ بہت کچھ ہوا۔

خطرناک ترین مشن

مرتضیٰ کا مزاج ایسا تھا کہ جو بھی ہو، سارا کریڈٹ اسی کو ملے، وہ کسی کو اپنے قریب بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے ابتدا ہی میں ٹیپو کو سائیڈ پر کرنا شروع کر دیا تھا۔

پھر ایسا دن بھی آیا کہ وہ ٹیپو، جس کے سر پر ضیاء الحق نے انعام رکھا ہوا تھا، کابل کی سڑکوں پر آوارہ پھرتا نظر آتا۔ نہ اس کے پاس ڈھنگ کا گھر تھا اور نہ ہی گاڑی۔ اس پر ٹیپو بہت غصے میں تھا، اور اس کی frustration کو مرتضیٰ نے بغاوت سمجھا۔ دسمبر 1981 میں مرتضیٰ نے ٹیپو کو مارنے کا حکم دیا۔ وہ واقعی وڈیرے کا بیٹا تھا، جو صرف ایک زبان جانتا تھا، بندوق کی زبان۔

مرتضیٰ کے موڈ سوئنگز نے ٹیپو کو بچا لیا۔ سزا ملی، لیکن چھوٹی، وہ یہ کہ ٹیپو کو لیبیا بھیج دیا گیا۔ وہ مارچ 1982 میں لیبیا پہنچا اور یہیں پر جنوری 83 میں مرتضیٰ ایک نئی اور زیادہ خطرناک اسکیم کے ساتھ پہنچا۔ فروری 1983 میں ضیاء الحق کو انڈیا کے دورے پر جانا تھا۔ را نے الذوالفقار کا پورے سیٹ اپ دلّی سے کہیں دُور بنگلور شفٹ کر دیا۔ مرتضیٰ سے بھی کہا گیا کہ وہ جنرل کی آمد کے موقع پر منظرِ عام سے غائب رہے۔ مرتضیٰ نے پہلے شام کا رخ کیا اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچے، بھائی اور والدہ دونوں کے ساتھ۔ حالات یہ تھے کہ انڈیا میں الذوالفقار کے کارندے را کی نگرانی میں تھے، کابل کیمپ ختم ہو چکا تھا، اس لیے آخری امید لیبیا میں موجود کارکن ہی تھے جن کے سامنے دلّی پلان پیش کیا گیا کہ انڈیا میں ضیاء الحق پر قاتلانہ حملہ کیا جائے گا۔

اس پلان کی کمان دی گئی ٹیپو کو، وہ تو خوشی سے اچھل پڑا۔ حوصلہ بڑھانے کے لیے ان لوگوں کی ملاقات نصرت بھٹو سے بھی کروائی گئی۔ یہ ملاقات طرابلس کے ایک ہوٹل میں ہوئی، جہاں بیگم بھٹو نے ٹیپو سے کہا:

دمشق ایئرپورٹ پر تم نے کہا تھا میں تمھاری ماں ہوں۔ اُسی دن سے تم میرے تیسرے بیٹے ہو۔ اپنی وفا داری اور لگن سے بھی تم نے یہ بات ثابت کی ہے۔

پھر اپنے گلے سے سونے کا ایک لاکٹ اتارا اور ٹیپو کے گلے میں ڈال دیا۔ اِس لاکٹ میں بھٹو کی قبر کی مٹی تھی۔ ٹیپو رو پڑا۔

خطرناک ترین منصوبہ

دلّی آپریشن کے لیے ٹیپو کے علاوہ تین بندوں کا انتخاب ہوا۔ یہ چاروں اردو اسپیکنگ مہاجر تھے۔ ٹیپو کو پندرہ ہزار ڈالرز دیے گئے اور ساتھ ہی وکٹر جونز کا کوڈ نیم۔ یہ سب جعلی برٹش پاسپورٹ کے ذریعے بذریعہ دبئی دلی روانہ ہوئے۔ امیگریشن ڈیسک پر سب نے الگ الگ انٹری دی۔ ٹیپو تو کسی طرح نکل گیا، لیکن باقی تینوں پھنس گئے۔ تحقیقات ہوئیں، پکڑے گئے اور جیل میں ڈال دیے گئے۔

ٹیپو دلّی پہنچا اور اکیلا ہی مشن پر لگ گیا۔ پلان کے مطابق ضیاء الحق کو حضرت نظام الدین اولیا کے مزار پر نشانہ بنانا تھا۔ کابل سے فون پر اسے بتایا گیا کہ کارروائی کے لیے اسلحہ دو دن پہلے پہنچ جائے گا۔ یہ ذمہ داری دی گئی تھی مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی پرویز شنواری کو۔ لیکن ٹیپو اُس کا انتظار ہی کرتا رہ گیا، یہاں تک کہ وقت نکل گیا۔ ضیاء الحق تیسری مرتبہ بھی بچ گئے!

ٹیپو اُن کے بہت قریب پہنچا، لیکن وہ کیا کرتا؟ بس ہاتھ ہی مسلتا رہا۔ ویسے ایک لمحے کے لیے سوچیں اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ شاید پاکستان اور انڈیا کی جنگ چھڑ جاتی! آخر پاکستان کا فوجی صدر انڈیا میں مارا جاتا، وہ بھی الذوالفقار کے ہاتھوں، جس کی ٹریننگ انڈین ایجنسی را کر رہی تھی پھر را کے ساتھ جو ہوتا، سو ہوتا، پاکستان میں بھی شاید پیپلز پارٹی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جاتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دلّی پلان ناکام ہوا، اور پھر ٹیپو اور الذوالفقار کی فرسٹریشن اور بڑھ گئی !

دہشت گردی کی مشہور کارروائیاں

پی آئی اے ہائی جیکنگ، کراچی ہائی کورٹ میں بم دھماکے، کراچی ایئرپورٹ پر ڈی سی 10 طیارے کی تباہی کے علاوہ الذوالفقار کے کریڈٹ پر کئی ناکام کارروائیاں بھی ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک تھا 1984 کا پلان۔ تب تک الذوالفقار کے 80 فیصد لوگ یا تو جیلوں میں تھے یا مارے جا چکے تھے۔ ان قیدیوں کو چھڑوانے کے لیے الذوالفقار نے ایک منصوبہ بنایا کہ 23 مارچ 1984 کو یونان میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کیا جائے گا۔ عملے کو اغوا کر کے پہلا مطالبہ ایک جہاز کا کیا جائے گا، جس میں تمام مغویوں کو لے کر کسی محفوظ ملک جائیں گے اور بدلے میں الذوالفقار کے تمام قیدی چھڑوائے جائیں گے۔

یہ مشن لیبیا میں موجود چھ کارندوں کو سونپا گیا، اور دلی سے بھی تین لوگ ان کے ساتھ ہو گئے۔ یہ لوگ جعلی برٹش پاسپورٹ پر تین، تین کی ٹکڑیوں میں ایتھنز پہنچے۔ آٹھ مارچ 1984 کو پہلا گروپ پہنچا اور آتے ہی دھر لیا گیا۔ انھیں فوراً واپس دمشق بھیج دیا گیا۔ اگلا ہدف بنایا گیا روم میں پاکستانی ایمبیسی کو۔ جہاں کارروائی کرنا تھی 12 جون 1984۔ کارندے مئی کے مہینے میں کشتیوں کے ذریعے شام سے نکلے۔ اٹلی تو پہنچ گئے لیکن اسلحے کا انتظام نہیں ہوا۔ یہ مشن بھی ناکام ہو گیا!

تیسرا ٹارگٹ تھا آسٹریا کا دارالحکومت ویانا۔ یہاں کے لیے نو افراد کو پندرہ پندرہ سو ڈالرز دیے گئے۔ ‏25 جون کو پہلا گروپ ویانا کی ٹرین میں سوار ہوا اور تیسرا 30 جون کو۔ مرتضیٰ روم کی طرح ویانا بھی خود پہنچے۔ کارندوں کو بتایا کہ اس مشن کے بعد ہم کیوبا جائیں گے، جہاں سیاسی پناہ لیں گے۔ منصوبہ تھا یکم جولائی کو کینیڈین سفارت خانے کی ایک تقریب سے پاکستانی سفیر اور کئی اہم شخصیات کو اغوا کرنا لیکن منصوبہ بندی کا عالم یہ تھا کہ یکم جولائی کو ایسی کوئی تقریب تھی ہی نہیں۔ مشن ختم ہوا، سب نے پیسے اڑائے، گھومے پھرے، مزے کیے اور پھر چھ جولائی کا دن آ گیا۔

پولیس نے ایک جگہ شک پر انھیں پکڑ لیا۔ تلاشی لی گئی تو برٹش پاسپورٹ نکلے، لیکن انگریزی صرف ایک کو آتی تھی اور جرمن تو کسی کو بھی نہیں۔ پولیس کا شک پکا ہو گیا۔ اس نے ہوٹل پر چھاپا مارا اور وہ اسلحہ نکال لیا جو یہ کارروائی کے لیے آسٹریا لائے تھے۔ ساتھ ان لوگوں کی لسٹ بھی ملی، جو پلان کے بعد پاکستانی جیلوں سے رہا کروائے جاتے۔ سب لوگ کو گرفتار کر لیا گیا اور ہتھیار اسمگل کرنے پر چار سے نو سال قید کی سزائیں دی گئی۔

ان تمام ناکامیوں کے بعد 1985 میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جو الذوالفقار کے خاتمے کا سبب بنا۔

الذوالفقار کا خاتمہ

18 جولائی 1985۔ الذوالفقار کے کارندے پاکستان کی جیلوں میں یا پھر افغانستان اور لیبیا میں موت سے بدتر زندگی گزار رہے تھے لیکن بھٹو خاندان تقریباً ایک سال سے فرانس میں تھا، جہاں اُس دن سب کچھ بدل گیا۔ شاہنواز بھٹو اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ بھٹو خاندان آج تک الزام لگاتا ہے کہ شاہنواز کی بیوی ریحانہ صلاح الدین نے انھیں زہر دیا۔ ریحانہ کو گرفتار بھی کیا گیا، فرانس میں مقدمہ بھی چلا، لیکن ان پر الزام ثابت نہیں ہوا۔ ریحانہ کی بہن فوزیہ مرتضیٰ بھٹو کی بیوی تھیں، وہی فوزیہ جن سے مرتضیٰ کو 1980 میں کابل میں محبت ہو گئی تھی۔ انھی سے فاطمہ بھٹو بھی پیدا ہوئیں۔ لیکن شاہنواز کی موت کے بعد مرتضیٰ نے فوزیہ کو طلاق دے دی۔ یہی نہیں، الذوالفقار کا بھی خاتمہ کر دیا اور اپنی بیٹی کو لے کر شام چلے گئے۔

لیکن ٹیپو کا کیا ہوا؟

ٹیپو کا انجام

دلّی پلان کی ناکامی کے بعد ٹیپو 12 مارچ 1983 کو کابل پہنچا۔ وہ مرتضیٰ سے اجازت لے چکا تھا، اس لیے کچھ دن بعد 15 مارچ کو پرویز شنواری کو قتل کر دیا۔ افغان انٹیلی جینس کو پرویز کی لاش مل گئی اور یہ پتہ چلانے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی کہ یہ کام اصل میں ٹیپو کا تھا۔ ‏‏20 مارچ کو اسے گرفتار کر لیا گیا اور یوں افغان انٹیلی جنس کو دلّی پلان کا بھی پتہ چل گیا۔

اس نے مرتضیٰ اور نصرت بھٹو سے رابطے کیے کہ شاید ٹیپو کو حق میں گواہی مل جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، تیسرا بیٹا قرار دینے والی ماں اب منہ موڑ چکی تھی۔ افغان انٹیلی جینس بھی کیا کرتی؟ کچھ عرصے بعد ٹیپو کی نظر بندی ختم کر دی اور وہ کابل میں ایک عام زندگی گزارنے لگا۔

مرتضیٰ کو پتہ چلا تو اس نے خود نجیب سے رابطہ کیا اور کہا ٹیپو کو شنواری کے قتل میں گرفتار کیا جائے۔ افغان ایسا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے ٹیپو سے جان چھڑانے کی کوشش کی، اسے دلّی کا ایئر ٹکٹ دیا اور کہا کہ وہ یہاں سے چلا جائے اور انڈیا جا کر نئی زندگی شروع کرے۔ لیکن خر دماغ ٹیپو نے ٹکٹ پھاڑ دیا اور دھمکی دی کہ دیکھتا ہوں مجھے یہاں سے کون نکالتا ہے؟

‏28 اگست 1983 کو افغان انٹیلی جنس نے ٹیپو کو گھر سے اٹھایا اور دلّی کی پرواز میں بٹھانے کے لیے ایئرپورٹ لے گئے۔ جہاں ٹیپو نے بڑا ہنگامہ کھڑا کیا۔ ایئر انڈیا کے کاؤنٹر پر جا کر چلّا کر کہنے لگا:

میں مشہور ہائی جیکر عالمگیر ہوں، کوئی ایئر لائن جان بوجھ کر کسی ہائی جیکر کو اپنی پرواز میں نہیں بٹھائے گی۔ اس لیے ایئر انڈیا میری سیٹ کینسل کرے۔ اگر زبردستی کی تو میں نئی دلی میں پریس کانفرنس کروں گا اور دنیا کو بتاؤں گا کہ اس ہائی جیکنگ میں نجیب اللہ اور مرتضیٰ کا کیا کردار تھا؟

اب تمام حدیں پار ہو چکی تھیں، یہ حرکت کر کے گویا ٹیپو نے اپنے ڈیتھ وارنٹ پر خود دستخط کر دیے۔ اس واقعے کے بعد مرتضیٰ نے پھر نجیب اللہ کو فون کیا۔ پھر چھ ستمبر کو پانچ افغان کمانڈو ٹیپو کے گھر میں داخل ہوئے۔ اور اسے اٹھا کر بدنام زمانہ جیل’’پلِ چرخی‘‘میں پھینک دیا۔ کچھ ہی دنوں میں ٹیپو کو اندازہ ہو گیا کہ اسے کس جہنم میں ڈالا گیا ہے۔ اکتوبر میں اس کے خلاف کیس چلا اور قتل کے الزام میں اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔

پھر ایک دن فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے موت کے گھاٹ بھی اتار دیا گیا۔ تب ٹیپو کی عمر صرف 28 سال تھی۔ وہ سر پھرا تھا، جذباتی تھا، لیکن جو بھی سمجھتا اور سوچتا تھا، اس سے مخلص ضرور تھا۔ لیکن ٹیپو جن کے ساتھ مخلص تھا، وہ ویسے نہیں تھے۔ بیگم نصرت بھٹو نے ایک نئی کہانی گڑھی کہ ٹیپو نے مرتضیٰ اور شاہنواز پر کلاشنکوف کا برسٹ کھول دیا تھا، یہ معجزہ ہی تھا کہ دونوں بچ گئے۔ شاید بیگم بھٹو کو اندازہ نہیں تھا کہ کلاشنکوف کے ایک برسٹ میں کتنی گولیاں ہوتی ہیں۔

پھر مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ بھٹو نے Songs of Blood & Sword میں لکھا کہ ٹیپو اصل میں ضیاء الحق کا ایجنٹ تھا۔ اُن کے مطابق ہائی جیکنگ کا پورا منصوبہ ٹیپو نے بنایا تھا۔

یہاں تک کہ بے نظیر نے بھی اپنی کتاب Daughter of the East میں لکھا کہ انھیں بالکل اندازہ نہیں کہ یہ ہائی جیکنگ کس نے کی؟ لگتا ہے ٹیپو اور اس کے بندوں کو جہاز ہائی جیک کرنے کا موقع دیا گیا تاکہ بحالی جمہوریت کی تحریک کو کچلا جاسکے۔

لیکن ہائی جیکنگ واقعے کے 12 سال بعد، 1993 میں نصرت بھٹو کا بیان آیا کہ مارچ 81 میں پی آئی اے کا جہاز جماعتِ اسلامی کے ایجنٹوں نے اغوا کیا تھا۔ مرتضیٰ نے ذمہ داری صرف اس لیے قبول کی تاکہ وہ مسافروں کی جان بچا سکیں۔ قوم کو اسے دہشت گرد کہنے کے بجائے اسے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے (حوالہ: حامد میر، جنگ لندن، 21 جنوری 1993)

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

مرتضیٰ کی پاکستان واپسی

مرتضیٰ بھٹو نومبر 1993 میں پاکستان واپس آئے، 17 سال بعد اپنی ہی بہن کے دورِ حکومت میں۔ گرفتار ہوئے، کیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں لیکن وجہ قانون نہیں تھا، اصل میں بھٹو خاندان میں کشیدگی بہت زیادہ ہو چکی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ حلقے مرتضیٰ کو بے نظیر کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔ اور ایسا ہوا بھی، ووٹ تقسیم ہوا یا نہیں، کم از کم بھٹو خاندان تو تقسیم ہو ہی گیا۔

نصرت بھٹو نے صلح کے لیے ایک حل پیش کیا، بے نظیر وزیر اعظم رہیں، مرتضیٰ وزیر اعلیٰ سندھ بنے۔ لیکن اس تجویز نے معاملہ اور بگاڑ دیا۔ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلایا اور ماں کو پی پی کی چیئرمین شپ سے ہٹا دیا۔ اب جو ہو رہا تھا کھل کر ہو رہا تھا۔ لیکن مرتضیٰ پر کوئی کیس ثابت نہیں ہوا، یہاں تک کہ پی آئی اے ہائی جیکنگ کیس بھی۔ مئی 1994 میں انھیں رہا کر دیا گیا اور 1995 میں انھوں نے پیپلز پارٹی شہید بھٹو بنا لی۔ بھٹو خاندان میں کشیدگی اپنے عروج پر تھی اور پھر 20 ستمبر 1996 کا دن آ گیا۔

وہ دن

یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لیکن اس دن سے پہلے بھی بہت کچھ ہوا۔

‏16 ستمبر 96 کو مرتضیٰ بھٹو اپنے کئی ساتھیوں کے ہمراہ اسلام آباد سے کراچی کی پرواز میں بیٹھے۔ اسی جہاز میں آصف علی زرداری بھی موجود تھے۔ کراچی ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد نہ صرف مرتضیٰ اور اس کے ساتھیوں نے زرداری کا پیچھا کیا، بلکہ اپنا اسلحہ لہرایا۔ خاندانی دشمنی میں ایک خطرناک علامت تھی۔

پھر بات یہیں رکی نہیں۔ جب پولیس نے مرتضیٰ بھٹو کے قریبی ساتھی علی محمد سنارا کو گرفتار کیا تو مرتضیٰ آپے سے باہر ہو گئے۔ وہ ایک تھانے پہنچے، پولیس اہلکاروں کے ہاتھ اوپر کروائے، پورے تھانے کی تلاشی لی۔ اہلکاروں کو دھمکی دی کہ اگر سنارا کو کچھ ہوا تو کوئی زندہ نہیں بچے گا۔ اگر مرتضیٰ وزیر اعظم کے بھائی نہ ہوتے تو شاید یہی ان کا آخری دن ہوتا۔

اور پھر 20 ستمبر کا دن آ گیا۔ مرتضیٰ بھٹو ایک جلسے سے خطاب کے بعد اپنے گھر 70 کلفٹن واپس آ رہے تھے۔ گھر کے قریب انھیں سڑک بند ملی۔ جب مرتضیٰ کا قافلہ روکا گیا تو گارڈز نے پولیس اہلکاروں پر بندوقیں تان لیں۔ درجہ حرارت بڑھتا گیا اور پھر فائرنگ ہو گئی۔ دو پولیس اہلکار زخمی ہو گئے اور پھر پولیس نے جوابی وار کر دیا۔ زیادہ دیر نہیں گزری، سات لوگ یا تو مار دیے گئے یا بُری طرح زخمی ہوئے۔ ان میں مرتضیٰ بھٹو بھی شامل تھے۔ انھیں قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں اُن کی موت واقع ہوگئی۔

پولیس کے مطابق یہ سازش نہیں بلکہ حادثہ تھا۔ لیکن مرتضیٰ کی دوسری بیوی غنویٰ بھٹو نے الزام بے نظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری پر لگا دیا۔ بے نظیر کا کہنا تھا یہ اُن کی منتخب حکومت گرانے کے لیے ایجنسیوں کی سازش تھی۔ حقیقت کیا تھی؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن اتنا سب جانتے ہیں کہ بھٹو کا آخری جانشین چل بسا۔

پاکستان میں اس ہائی پروفائل سیاسی قتل کے ایک مہینے 27 اکتوبر 1996 کو نجیب اللہ کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

الذوالفقار کے باقی لوگوں کا کیا ہوا؟

‏27 تو ایسے تھے جنھیں مرتضیٰ بھٹو نے خود مروایا۔ 1979 سے 1993 کے دوران درجنوں سر پھرے اپنی جان سے گئے۔ زیادہ تر تو کم عمری میں، 17 سے 27 سال کی عمر میں ہی دنیا سے چلے گئے۔ جو بچے وہ جلا وطن ہوئے، یا تو کابل میں بے نام ہو کر یا لیبیا میں دربدر ہو کر مرے۔ یوں الذوالفقار کی جدوجہد ناکام ہوئی!

اس کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں، سمجھ بھی آتی ہیں۔ لیکن ریاست سے صرف ریاست ہی لڑ سکتی ہے، الذوالفقار کسی بگڑے لڑکے یا وڈیرے کے بیٹے کا ذاتی revenge تو ہو سکتا ہے، لیکن حقیقی مزاحمت بالکل نہیں۔ لیکن یہ بالکل سمجھ نہیں آتا کہ زیادہ تر تجزیہ نگار پیپلز پارٹی کے اس violent ماضی کو کیسے نظر انداز کر دیتے ہیں؟ جب جماعتِ اسلامی کو آج تک البدر اور الشمس کے طعنے ملتے ہیں، تو کوئی الذوالفقار کو یاد کیوں نہیں کرتا؟

شیئر

جواب لکھیں