ایک مرتبہ امریکی صدر فرینکلِن رُوس وَیلٹ نے ڈومینیکن ری پبلک کے ایک طاقتور ڈکٹیٹر Rafael Trujillo کے بارے میں کہا تھا:

He may be a b*****d, but he's our b*****d

یہ کہانی ایک ایسے لڑکے کی ہی جو صرف چند سالوں میں کلرک سے کراچی کا کنگ بن گیا۔

ذات کا راجپوت اور کام میں کماؤ پوت
اس کے ہاتھوں سیکڑوں قتل ہوئے۔ مگر وہ قاتل نہیں
زمینوں پر قبضے کے الزام لگے۔ مگر وہ قابض نہیں
جو گرفتار تو ہوا۔ مگر جیل نہیں گیا
وہ سر سے پیر تک جرائم میں ڈوبا رہا۔ مگر وہ مجرم نہیں
پورا سسٹم اُس کے تابع تھا۔ مگر وہ کوئی بادشاہ نہیں

سمجھ تو گئے ہوں گے۔ جو نہیں سمجھے وہ پوگو دیکھیں!

لائیسنس ٹُو کِل

1993 کی بات ہے۔ کراچی اب بھی جل رہا تھا مگر فوج کو واپس پنڈی بلا لیا گیا۔ آپریشن کی کمان اب بدنام زمانہ سندھ پولیس کے ہاتھ میں تھی۔ اس کی قیادت کے لیے انتخاب کیا جاتا ہے راولپنڈی کے ڈی آئی جی شعیب سڈل کا۔ فیصلہ ہوتا ہے کہ کراچی کی گلیوں میں بہتے خون کو خون سے ہی صاف کیا جائے گا۔

معروف صحافی مظہر عباس بتاتے ہیں:

جو دہشت گرد ہیں اس میں خاص طور پر ایم کیو ایم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کو عدالتوں سے سزا کرانا مشکل ہے، گواہ نہیں آتے، اسی لیے یہ فیصلہ ہوا کہ ان کو پولیس والوں کو بھی مارتے ہیں ان کو بھی ماورائے عدالت، یہ ریاست نے پالیسی بنائی، اس میٹنگ میں پالیسی بنائی اس میں آئی جی افضل شگری بھی موجود تھے۔ انہوں نے مخالفت کی کہ کسی کو فارغ کرنا بھی ہے تو پالیسی کا حصہ نہ بنائیں کیونکہ جب آپ پالیسی بنائیں گے تو پھر بہت سے پولیس افسران اس کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔

اور غلط استعمال ہوا! کیونکہ لائیسنس ٹُو کِل ملنے کے بعد کراچی کی گلیاں ہی خون میں نہیں ڈوبیں، کالی وردی پر بھی سُرخ دَھبے لگے۔ مگر یہ لائیسنس ٹُو کِل سب کے لیے نہیں تھا، بلکہ ’’یَس سَر‘‘ کہنے والے چند پولیس افسروں کو ہی ملا۔ ان میں نمایاں تھے راؤ انوار احمد خان!

راؤ انوار کون؟

‏1981 میں رامسوامی، کراچی کے ایک راجپوت گھرانے کا تیز طرار لڑکا۔ ایس پی ہاربر کے انڈر کلرک بنا، اور ایک سال بعد ہی سن انیس سو بیاسی اے ایس آئی بن گیا۔ انوار احمد خان جلد ہی کراچی کے بدنام تھانے جیکسن کے ایس ایچ او بھی لگ گئے جہاں تیل کی دھار ہی الگ تھی۔ لیکن انوار احمد کو ترقی پانے کی بہت جلدی تھی، اس لیے وہ گھات لگاتے اور اڈوں پر چھاپے بھی مارتے۔ مگر یہ راستہ غلط تھا۔ ایسا میں نہیں کہہ رہا ہے، انوار احمد کو ایک ایس ایس پی صلاح دیتے ہیں!

مظہر عباس بتاتے ہیں:

کراچی میں جو جوئے کے اڈے چلتے ہیں بڑے سرپرستی میں ہی چلتے ہیں۔ راؤ انوار کو جو مشورہ دیا ایس پی نے ان کے ہیڈ نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ گارڈن میں جو اڈہ چلتا ہے اس کا خیال کرو۔ ایس پی نے کہا کہ راؤ انوار کو میں نے بھی یہی مشورہ دیا ور کہا کہ پرفارمنس پر ترقی نہیں ہوتی۔ تابعداری پر ہوتی ہے۔

پھر یہی مشورہ راؤ انوار کے ذہن میں بیٹھ گیا۔ ویسے آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اردو اسپیکنگ انوار احمد خان الطاف حسین کو بہت پسند آئے تھے۔ سُنتے ہیں دونوں میں دوستی بھی ہو گئی تھی۔ اس وقت جب انوار احمد خان ایف آئی اے میں تھے۔

صحافی ذیشان شاہ بتاتے ہیں:

ایف آئی اے میں انہوں نے چار سے پانچ سال نوکری کی تھی، نجی محفلیں ہوتی تھیں، اس میں راؤ انوار بھی بلائے جاتے تھے، الطاف حسین سے دوستی ہو گئی تھی۔ مزے کی بات بتاؤں الطاف حسین نے راؤ کو نائن زیرو آنے کی دعوت بھی دی تھی۔

مگر کل کا کسی کو پتہ نہیں، نہ الطاف حسین جانتے تھے اور نہ راؤ انوار کہ وہ بہت جلد دشمن بننے والے ہیں۔ سال انیس نواسی میں راؤ انوار سندھ پولیس میں واپس آتے ہیں اور ایم کیو ایم کے گڑھ نارتھ ناظم آباد میں ایس ایچ او بنتے ہیں۔ مگر فکر کی کوئی بات نہیں۔ ایم کیو ایم والوں سے تو ان کی اچھی دوستی ہے۔ یہاں آتے ہی ایک واقعہ پیش آیا، پی ایس ایف یعنی پیپلز پارٹی کے اسٹوڈنٹ ونگ کے ایک نامی لڑکے انوار احمد خان نے اٹھا لیے اور خوب ٹھکائی لگائی۔ مشہور ہو گیا کہ بھئی یہ تو ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والا ایس ایچ او ہے۔ مگر پھر۔

ذیشان اس بارے میں بتاتے ہیں:

اس وقت ایک ایم این اے ہوتے تھے ایم کیو ایم کے کنور خالد یونس، وہ کسی مسئلے میں آئے، تاہم اس دوران ان کو کسی چیز پر غصہ تھا جو ایم این اے تھے اور انہوں نے تھانے کے اے ایس آئی کو تھپڑ مار دیا۔ راؤ انوار نے ایم این اے کو تھانے میں بند کیا، اور ایف آئی آر کر دی۔

مظہر عباس بتاتے ہیں:

راؤ انوار اپنے اس میں اتنے آگے چلے گئے تھے، راؤ سمیت اور بھی افسران کہ ایم کیو ایم کے ساتھ براہ راست جھگڑا بن گیا تھا، ایم کیو ایم سمجھتی تھی کہ ان کا ٹارگٹ ہم ہیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ حکومت کراچی میں لاش کے بدلے لاش کا فیصلہ کر چکی تھی۔ چوہدری اسلم، راؤ انوار، ذیشان کاظمی، توفیق زاہد، جنہیں لائیسنس ٹُو کِل دیا گیا۔ کراچی آپریشن میں کیا کچھ ہوا؟ اس بارے میں 'رفتار' نے کئی ڈاکیومنٹریز بنائی ہیں، جیسے بیڈ کاپس آف کراچی اور چوہدری اسلم کی زندگی پر بھی۔ یہ ویڈیوز آپ پر کئی راز افشا کریں گی، ضرور دیکھیے گا۔

ابھی چلتے ہیں کہ ان آپریشنز میں ہوتا کیا تھا؟ یہ ٹارگٹڈ آپریشن نہیں تھا۔ شہر میں محاصرہ ہوتا تو شریفوں کی عزت کا بیچ بازار تماشا لگ جاتا۔

صحافی افضل ندیم ڈوگر بتاتے ہیں:

اس محاصرے میں وانٹڈ لوگ جو چاہیں ان کی تعداد دس پندرہ چالیس ہے ناں، آپ نے اس علاقے کے دو ہزار لوگوں کو پٹی باندھ کر قمیض اتار کر گراؤنڈ میں بٹھاتے تھے اور تفتیش کرتے تھے، پندرہ سو کو حراست میں لیا، چودہ سو اسی کو چھوڑ دیا اور بیس لوگوں کو مزید پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا، چودہ سو اسی کو جو ننگا کر کے بٹھاتے تھے، تو بھائی ان کا کیا قصور تھا؟ جرم یہ تھا کہ اس علاقے میں رہتا تھا۔ آپ سوچ نہیں سکتے پولیس اگر پکڑ لیتی ہے تو مسز جائیں گی، بہنیں جائیں گی، بچیاں جائیں گی۔ اس وقت بھی یہی ہوتا تھا، شوہر کی زندگی بچانے کے لیے بیوی گئی ہے، تو کہاں کھڑی ہے؟ اس کو ہر طرح قیمت کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔

انوار احمد خان سے راؤ انوار

کراچی میں بہن بیٹی کی عزت محفوظ تھی اور نہ نوجوانوں کی جان۔ بس ایک خوف تھا کہ جانے کب پولیس کی گولی کسی نوجوان کے سینے کے پار ہو جائے۔ انھی حالات میں سال آ گیا انیس سو پچانوے کا۔ انوار احمد خان ’’راؤ انوار‘‘ بن چکے تھے۔ انہیں وہ تھانہ ملا جو کراچی کے تھانوں میں سب سے خاص ہے: یعنی ایئرپورٹ تھانہ۔ جہاں راؤ انوار ایس ایچ او بنتے ہیں۔

آخر راؤ انوار کا نیٹ ورک کیسا تھا؟ وہ فیلڈ میں کیسے کام کیا کرتے تھے؟

افضل ڈوگر ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں:

یہی تھا ان کا طریقہ کار، پکی پکائی چیز مل جاتی تھی جیسے میں نے آپ کو بتایا، کسی ایجنسی نے کسی کو کہاں سے گرفتار کیا، پولیس نے گرفتار کیا تو ایجنسی کو دے دیا، ایجنسی مہینوں تفتیش کرتی تھی، قسمت کا فیصلہ کرتے تھے کیا کرنا ہے، مارنا ہوتا تھا تو راؤ انوار کو دے دیتے تھے، گرفتاری شو کرنی ہوتی تھی تو چوہدری اسلم یا کسی اور کو دے دیتے تھے، فیلڈ میں اپنا نیٹ ورک ان کا نہیں تھا، ان کو صرف بندے ملتے تھے جو بھی کریا کرم کرنا ہوتا تھا وہ کرتے تھے۔

ذیشان شاہ بتاتے ہیں کہ ایک اصطلاح چلتی ہے ہاف فرائی فل فرائی، جو آدمی زخمی حالت میں گرفتار ہوگا سیدھی ٹانگ میں گولی ہوگی اس کے کیونکہ الٹی ٹانگ میں گولی لگنے کے بعد ڈیتھ کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ فل فرائی اب نہیں ہوتا کیونکہ عدالت ایکشن لے لیتی ہے پولیس کے خلاف۔

فاروق دادا کی گرفتاری اور قتل

1995 میں ہی جولائی کے اختتامی دنوں کی ایک رات تھی، ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔ گارڈن کی سنسان گلیوں میں پولیس موبائلیں لال نیلی لائٹیں جلاتی داخل ہوتی ہیں۔ آٹھ دس پولیس والے ایک چار منزلہ عمارت میں گھستے ہیں۔ بوٹوں کی دھمک اریب قریب کے فلیٹوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ نشاندہی پر ایک فلیٹ کی تلاشی ہوتی ہے، ساری چیزیں اُتھل پُتھل کر دی جاتی ہیں۔ لیکن وہ نہیں ملتا، جس کی تلاش تھی، ایم کیو ایم کا بدنام زمانہ فاروق پٹنی عرف فاروق دادا۔

افضل ڈوگر اس بارے میں بتاتے ہیں:

آدھے پون گھنٹے کی سرچ کے بعد جب یہ لوگ واپس جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ فاروق دادا کی گاڑی وہاں کھڑی ہوئی تھی، چوکیدار سے پوچھا بابا یہ بندہ تو گھر پر نہیں ہے گاڑی کون کھڑی کر گیا ہے، بولا یہ گاڑی تو اس کی نہیں ہے، تو گاڑی کس کی ہے وہ تو اوپر والا فلیٹ ہے اس کا۔ پھر وہ دوبارہ گئے، فلیٹ سے فاروق دادا اپنی مسز کے ساتھ تھا، گرفتار کر کے لے کر گئے۔

تو فائنلی فاروق دادا زندہ سلامت گرفتار ہو گیا۔ مگر پھر دو اگست کی اخباروں میں چھپتا ہے کہ فاروق دادا انکاؤنٹر میں 3 ساتھیوں سمیت مارا گیا۔

افضل ڈوگر نے مزید بتایا کہ انٹلی جنس کے لوگ تھے، انٹیروگیٹ کیا، ہیڈ منی تھی اس پر۔ سخت آرڈر تھے کہ دہشت گرد کو مارنا ہے، قسمت کا فیصلہ وہی ہوا اور راؤ انوار اور اس کی ٹیم کے حوالے کیا گیا۔

وقت چُنا جاتا ہے سورج طلوع ہونے سے ذرا پہلے کا۔ اور جگہ کا انتخاب بھی ایسا جہاں آدم نہ آدم زاد۔

اس پر مزید روشنی ڈالی افضل ڈوگر نے:

ایک طرف قبرستان، ایک طرف ایئرپورٹ کی دیوار تو ظاہر ہے وہ بہت زبردست محل و وقوع تھا۔

صبح صبح اخباروں اور نیوز ایجنسیوں کے دفاتر میں فون کی گھنٹیاں بجتی ہیں۔ بذریعہ پیجر ملنے والی اطلاعات بھی ہلچل مچا دیتی ہیں اور کچھ ہی دیر میں فاروق دادا اور اس کے تین ساتھیوں کی لاش پر کیمروں کی فلیش لائٹس چمک رہی ہیں۔ دیکھنے والے منظر دیکھ کر حیران ہیں۔

فوٹوگرافر اطہر حسین اس بارے میں بتاتے ہیں:

اُس شیراڈ کی تصویریں لے رہے تھے، اور باڈیاں تو وہیں پڑی ہوئی تھیں روڈ پر ہی پڑی تھیں کچھ گاڑی سے نکل رہی تھیں کچھ گاڑی میں پڑی تھیں، میں وہاں دیکھ رہا تھا، ایک شیراڈ گاڑی میں اتنی چیزیں نکل سکتی ہے مطلب، پانچ لوگ بھی بیٹھے ہوں۔

افضل ڈوگر نے اس واقعے کے بارے میں بتایا:

دس سے بارہ گھنٹے پورا ڈرامہ وہاں رچایا گیا، لوگوں کو انوائٹ کیا گیا، کوئی اسلام آباد سے پہنچا کوئی کراچی سے پہنچا، کوئی کہاں پہنچا، بہت بڑا سلیبریشن تھی میں سمجھتا ہوں اس وقت کراچی پولیس کی، لاشیں بھی اسی طرح پڑی رہیں، سامان تو گاڑی میں تھا ہی نہیں تھا بیسکلی، سامان تو آپ نے سجا دیا سارا کا سارا۔

مظہر عباس نے دلچسپ بات بتائی:

ایک پولیس افسر نے مجھے بتایا تھا کہ بہت سے جعلی گرینیڈ رکھے جاتے تھے جب ہم نمائش کیا کرتے تھے، اس طرح کا فرق بتایا تھا کہ یہ جعلی ہوتا ہے، اس طرح کی اسلحہ ک نمائش ہوتی تھی، اسٹار میں کام کرتا تھا تو اس کی لیڈ اسٹوری دی تھی کہ پولیس کا پورا اسلحہ خانہ خالی ہو گیا تھا۔

راؤ انوار کی پروڈکشن یا ایگزیکیوشن کوالٹی پر تو سوال اٹھ ہی رہے تھے، ساتھ ایم کیو ایم پر بھی سوال اُٹھے کہ آخر انہوں نے انصاف کیوں نہیں مانگا؟

افضل ڈوگر نے اس پر یہ رائے دی:

چار لوگ اس گاڑی میں بٹھا دیں جو مقابلہ کر سکیں، دوسری بات فرض کرو اگر انہوں نے انکاؤنٹر کیا جو گاڑی تھی وہ چھلنی تھی گولیوں سے تو یار دستی بم وغیرہ کسی کو گولی نہیں لگی، تو یہ ساری لاجکس تھیں، اگر اس کو پراپر انویسٹی گیٹ کیا جاتا، یا ایم کیو ایم ہی مدعے کو اٹھاتی یا تحقیقات کا مطالبہ کرتی، اس وقت نہیں ہو سکتا تھا بعد میں تو کرتی، آج بھی انویسٹی گیشن کرائی جائے تو راؤ انوار اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔

فہیم کمانڈو بھی مارا گیا

ابھی فاروق دادا کی موت سے ماتھے پر پڑے شکن ختم نہ ہوئے تھے کہ تین مہینے بعد بارہ اکتوبر 1995 کو وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے ایک پریس کانفرنس کی۔ انھوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کا فہیم فاروقی عرف فہیم کمانڈو تین ساتھیوں سمیت مارا گیا ہے۔

فاروق دادا کی گرفتاری کا تو چلیں کسی کو علم نہیں تھا، اسی لیے مقابلے میں مارنا آسان تھا۔ مگر فہیم کمانڈو کی گرفتاری تو ظاہر تھی، بلکہ انہیں تو جیل کسٹڈی بھی ہو گئی تھی۔ تو فہیم کمانڈو کو مارنے کا حکم کس نے دیا؟ یہ بھی بڑا دلچسپ واقعہ ہے جو آپ رفتار کی اس ڈاکیومینٹری میں جان سکتے ہیں۔

ابھی ہم یہ جانتے ہیں کہ پہلے گرفتار فہیم کمانڈو کو جیل سے نکال کر کیسے مار دیا گیا؟ جب راؤ انوار انہیں لینے پہنچے تو کیا ہوا؟

مظہر عباس نے اس کے جواب میں کہا:

اب یہ بات مجھے خود راؤ انوار نے بتائی تھی کہ فہیم کمانڈو جب گیا مجھے دیکھا اس نے تو فہیم کمانڈو نے یہ کہا کہ اب میرا وقت آگیا ہے، اس نے کہا کہ راؤ انوار سے یہ تو مجھے پتہ ہے کہ تم مجھے ماردو گے لیکن گولی میرے سینے پر مارنا، پیٹ پر مت مارنا۔

افضل ڈوگر نے واقعے کے بارے میں بتایا:

چوہدری اسلم اور راؤ انوار یہ جوائنٹ آپریشن تھا ان کا، وہی چار یا پانچ بجے کا ٹائم تھا، یہ ان کو لے گئے کراچی سینٹرل کے علاقے میں وہاں ایک زیر تعمیر عمارت تھی وہاں ان کا انکاؤنٹر کیا، چار لوگ اس انکاؤنٹر میں مارے گئے، جو آپ بات کر رہے ہتھکڑی لگی کہ پہلے سے تیار تھا اسکرپٹ، راؤ اتنا دانشور نہیں کہ خود سمجھ سکے، اسکرپٹ دی تھی۔ ہتھکڑی لگا ہوا بندہ ہے پولیس افسر یا کسی نے پکڑا ہے ناں اس کو، جب چاروں طرف سے فائرنگ ہوتی ہے جن لوگوں نے ان کو پکڑا ہوا ہے ان کو کچھ نہیں ہوا۔

ذیشان اس پر سوال اٹھاتے ہیں:

اور اس پر سوال ایک اور بنتا ہے کہ اتنا بڑا، اتنا ہائی ویلیو، اس کو اتنا ایزی ہینڈل کیوں کیا گیا کہ وہ سامنے تھا اور دوسروں کی گولی لگ گئی۔

یہ وہ دور تھا۔ جب پولیس کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا۔ اُن کی دہشت ہی نہیں بڑھ رہی تھی، جیبیں بھی بھرتی جا رہی تھیں۔ بے گناہ لوگوں کو زندہ واپس کرنے کے لیے گھر والوں سے رشوت لی جاتی۔ گرفتار ملزموں کو مفرور ظاہر کر کے عدالت سے ہیڈ منی رکھوائی جاتی اور پھر لاش پر انعام وصول کیا جاتا۔

اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو راؤ انوار کو وزیر اعظم ہاؤس بلاتی ہیں اور کیش انعام سے نوازتی ہیں۔ سندھ حکومت کی طرف سے بھی انعامات دیے جاتے ہیں۔ سب کچھ بہترین چل رہا تھا۔ ہر چیز اسکرپٹ کے مطابق تھی۔ ہاں! مقابلے زیادہ ہو گئے تو اسکرپٹ میں کچھ improvisation کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

افضل ڈوگر اس بارے میں مزید بتاتے ہیں:

بڑا بدنام ایم کیو ایم کا ورکر تھا، پکڑ کر محمود آباد میں لے گئے، بتایا گیا کہ پولیس کی حراست میں فرار ہوتے ہوئے ہلاک ہو گیا، نیا اسکرپٹ دیا جاتا تھا۔

اب راؤ انوار کا امیج بہت ہی خطرناک پولیس افسر کا ہو چکا تھا۔ وہ افسر جو ایم کیو ایم کا دشمن تھا۔ وہ افسر جو کبھی بھی، کہیں بھی کچھ بھی کر سکتا تھا۔ کیا واقعی راؤ انوار اتنے بہادر تھے بھی؟

افضل ڈوگر اس کا جواب یوں دیتے ہیں:

نہیں یہ صرف ایک پروفائل تھی، کہ بہت خوفناک ہیبت ناک، میں وٹنس ہوں اس بات کا کہ راؤ انوار نائن زیرو پر چھاپہ مارتے ہیں غضنفر کاظمی نائن زیرو کے ایس ایچ او اور راؤ انوار، کافی لوگوں کو لاتے ہیں، ایک مرحوم منسٹر شعیب بخاری بھی تھے، ان کی نیل پڑی ہوئی تصویر بھی وائرل ہوئی تھی، الزام لگا راؤ انوار پر کہ انہوں نے شعیب بخاری پر تشدد کیا ہے، لیکن جب ہم ایئرپورٹ تھانے پہنچے تو دیکھا راؤ انوار وہاں ان کی خدمت کر رہے تھے۔ میں نے خود راؤ انوار کو سگریٹ کا پیکٹ لے جاتے ہوئے دیکھا۔

مڈ نائنٹیز، کراچی آپریشن میں کمی آ چکی ہے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل دعویٰ کرتے ہیں کہ مارچ سے جون 1996 کے درمیان قتل و غارت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ آپریشن بلیو فاکس یا آپریشن کلین اپ ختم ہوا۔ مگر اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا پایا کہ اس دوران کالی وردی پر ایسے خون کے دھبے لگے ہیں جو مٹائے نہیں مٹ سکتے۔

مظہر عباس کہتے ہیں:

ایسا بھی نہیں ہے کہ راؤ انوار نے ماورائے عدالت قتل جو ہے وہ اپنی ہی ایک پالیسی بنا کر کیے، پالیسی ریاست نے بنائی، راؤ انوار جیسے کرداروں کو استعمال کیا گیا، ان کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں ہوئی، کیونکہ اگر کاروائی کرتے تو وہ کہتے کہ ہمیں تو اسٹیٹ نے کہا تھا، تو آپ اسٹیٹ کو ذمہ دار قرار دیں، آپ ایک بلینک چیک دے رہے ہیں کہ جاؤ اور مارو تو وہ کسی کو بھی مار دیں گے اور ڈکلیئر کر دیں گے کہ یہ دہشت گرد ہے تو مسئلہ تو حل نہیں ہوا)

افضل ڈوگر بتاتے ہیں:

پندرہ ہزار لوگ مارے گئے ہیں تو اس میں پانچ ہزار لازمی بے گناہ مارے گئے ہیں، اس لیے کیونکہ اگر فاروق دادا ہاتھ نہیں آتا تو بلڈ ریلیشن کا بندہ اٹھا لیتے تھے اور اسی چارج میں فٹ کر دیتے تھے، اگر فہیم کمانڈو ہاتھ نہیں آ رہا تو اس کے چارج میں باقی لوگوں کو فٹ کر دیتے تھے، عبید کے ٹو یا نعیم شری، اور بہت ساری تعداد ایسی تھی، اگر وہ بے گناہ تھانے میں بیٹھا ہے کوئی جرم نہیں کیا تو کم از کم ایک بہترین مجرم بن کر نکلتا ہے، اگر ایک بندہ خراب تھا تو باقیوں کو خراب پولیس یا اداروں نے کیا۔

نوے کی دہائی کی شروعات راؤ کا عروج تھا اور تو نوے کی دہائی کا اختتام ان کا زوال۔ پرویز مشرف حکومت میں تھے۔ ریاستی پالیسی بدل چکی تھی۔ ایم کیو ایم پاور میں آ گئی اور وہ سب جنہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا وہ خطرے میں۔

افضل ڈوگر کہتے ہیں:

زرداری کا بہادر بچہ تھا، تو آج آپ کے سامنے ہے جن کا بہادر بچہ تھا تو خود ثابت کیا ہے انہوں نے، باقی سب کو دوسرے علاقوں میں ڈیوٹیاں کرائی گئیں سندھ کے، لیکن راؤ انوار نے کہاں ٹرانسفر کرایا، بلوچستان، کوئٹہ۔

ذیشان شاہ اس بارے میں کہتے ہیں:

پھر جو سارے پولیس اہلکار جو پولیس افسران نے آپریشن میں حصہ لیا تھا ان کے تعلقات ایم کیو ایم سے بحال ہو گئے تھے، اس وقت راؤ انوار نے ابتدائی طور پر چھٹیاں لی تھیں اس نے اپنا ٹرانسفر کرالیا بلوچستان، ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں بنی تھی۔

مظہر عباس اس کی وجہ یوں بتاتے ہیں:

کیونکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ایم کیو ایم اسے معاف نہیں کرے گی کیونکہ ایم کیو ایم کے ایسے ایسے لوگوں کو اس نے مارا تھا کہ یہ ممکن تھا کہ ایم کیو ایم اُسے معاف کر دیتی۔

پھر 2008 میں پیپلز پارٹی دوبارہ پاور میں آئی اور راؤ انوار کی بھی کراچی واپسی ہو گئی۔ اب وقت آگیا تھا کہ ’’یَس سَر‘‘ کے بدلے عہدے وصول کیے جاتے، راؤ انوار کو ایک بار پھر بدنام تھانہ جیکسن تھانے ملا۔ وہیں پر انہیں ڈی ایس پی کا اضافی چارج بھی دیا گیا۔ کرم نوازی کی اگلی منزل بہت جلدی آئی اور ایک ہی مہینے میں راؤ انوار ڈی ایس پی پروموٹ کر دیے گئے۔ اور لیجیے، کیماڑی میں ٹاؤن پولیس افسر کا اضافی چارج بھی سنبھالیے۔

عہدوں کے راستے پر راؤ انوار چل نہیں بلکہ دوڑ رہے تھے اور دو ہزار گیارہ میں منزل بھی مل ہی گئی، راؤ انوار بن گئے ایس ایس پی ملیر۔ یہ ساری ترقیاں آؤٹ آف ٹرن پروموشن تھی، اس لیے ایک ہی سال بعد سپریم کورٹ کے حکم پر وہ دوبارہ بس ایک معمولی انسپکٹر بن گئے۔ ٹھہریے!

اس وقت کے صدر کو نہ بھولیے! جی ہاں، ایک زرداری سب پہ بھاری!

صدر زرداری! انھوں نے اپنے ایگزیکٹیو پاور کا استعمال کیا اور راؤ انوار کو دوبارہ ایس ایس پی بنا دیا۔ چونکہ راؤ انوار آؤٹ آف ٹرن پروموشن پاکر ایک رینکر افسر بنے، اس لیے سی ایس ایس کر کے آنے والے افسران سے اُن کی زیادہ بنی نہیں۔

ذیشان شاہ اس بارے میں بتاتے ہیں:

پی ایس پی اور رینکرز کی آپس میں ہمیشہ سے لگی رہی ہے، اس وقت ان کے سامنے سب ہی کمزور تھے، جب راؤ انوار ایس ایس پی ملیر تھے۔ اس وقت ان کے سامنے ڈی آئی جی بھی کمزور تھے، راؤ انوار کا بڑا کنٹرول تھا وہاں پر۔

اب راؤ انوار کو ضلع ملیر میں اپنی رٹ قائم کرنا تھی۔ مگر وہی بات۔ عادت سی پڑ گئی تھی انعام و اکرام لینے کی۔ اس لیے اگر کہیں پولیس والوں کی شہادت ہو جاتی، تو اُسے بھی بڑی مہارت سے پولیس مقابلے میں تبدیل کر دیا جاتا۔

افضل ندیم ڈوگر ایک واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں:

نادرن بائی پاس پر تین پولیس والے شہید کیے گئے، انہوں نے ہمیں خبر دی کہ مقابلہ ہوا ہے، اور کچھ دیر میں وہاں مزید لوگ لا کر مار دیے اور دکھایا جیسے مقابلہ ہوا ہے اور ہیڈ منی وصول کی۔

اس زمانے میں بے نظیر قتل کیس کی تفتیش کے لیے ایک جے آئی ٹی بنائی جاتی ہے۔ اس میں راؤ انوار بھی شامل ہیں، جس نے پرویز مشرف کو مجرم قرار دیا تھا۔ مگر! راؤ انوار ایسا نہیں مانتے بلکہ رحمان ملک کی مخالفت میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور جے آئی ٹی پر سائن نہیں کرتے۔

مظہر عباس نے اس بارے میں بتایا:

اس میں بہت سے لوگوں نے گواہی نہیں دی جن کو بلایا گیا تھا، رحمان ملک ان میں سے ایک تھے۔ راؤ انوار نے بتایا کہ میں نے جے آئی ٹی پر سائن نہیں کیے اور جے آئی ٹی پر سائن نہ کرنے کی میری وجہ یہ تھی کہ زرداری سے کہا تھا کہ رحمان ملک کو شامل تفتیش کرنا چابیے کیونکہ وہ سیکیورٹی انچارج تھا۔ بقول راؤ انوار بے نظیر کا موبائل فون رحمان ملک کے پاس تھا، زرداری سے مل کر موبائل مانگا، مگر رحمان ملک نے نہیں دیا۔

اسی زمانے میں سہراب گوٹھ اور افغان بستی جیسے علاقے نو گو ایریا بن گئے تھے۔ تاجروں کو اغوا کر لیا جاتا تھا، لوٹ مار کی جاتی تھی۔ مختلف زبانیں بولنے والے علاقہ بدر ہو رہے تھے۔

ذیشان شاہ نے اس بارے میں بتایا:

انہوں نے خود کو اتنی خوفناک شکل دی کہ یہ نو گو ایریا ہے یہاں تو کوئی آ ہی نہیں سکتا، یہ افغانستان کی پہاڑیاں ہیں، وہاں پر راؤ انوار نے کلیئر کیا اس جگہ کو۔ اسی طرح سے سترہ رکنی گینگ تھا افغان بستی میں، ان کا کام یہ تھا کہ سڑک کنارے گاڑی کی اسٹیپنی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ لوگ اٹھانے آتے تھے تو انہیں لوٹ لیتے تھے۔ بسیں کمپاؤنڈ میں لے جا کر لڑکیوں کے ریپ کرتے تھے۔ اس میں سے چودہ لوگوں کو مارا تھا پولیس نے راؤ انوار کی کمانڈ میں۔

یہ کارنامے اپنی جگہ۔ لیکن راؤ انوار ضلع ملیر ہی کے ایس ایس پی کیوں بنے؟

ضلع ملیر: سونے کی چڑیا

اصل میں پولیس کی زبان میں ملیر کو ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ سپر ہائی وے یا نیشنل ہائی وے کی خالی زمینوں پر قبضہ ہو یا کسی لینڈ اونر کو زمین سے ہٹا کر کسی بڑے بلڈر کو قبضہ دلانا ہو یا پابندی کے باوجود ملیر ندی، پہاڑی برساتی نالوں اور اطراف کی سرکاری زمین سے ریتی بجری نکالنا ہو، یہ سب دھندے چلتے ہیں ضلع ملیر میں بلکہ وہاں کے چار تھانے: شاہ لطیف، سچل، میمن گوٹھ اور گڈاپ میں۔ ایس ایچ اوز یہاں پوسٹنگ کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں وصولی اس سے کہیں زیادہ ہو جائے گی۔

ذیشان شاہ نے اس بارے میں بتایا:

ملیر میمن گوٹھ درسانو چھنو میں ہم گئے ایک کمپاؤنڈ سا تھا وہاں ریت بھری پڑی تھی، بیس سے تیس ڈمپر میں ریت بھری جا رہی تھی، ہم پر حملہ ہوا، کیمرے چھین لیے گئے، راؤ انوار سے رابطہ ہوا، ان کو پریشرائز ہوا تو انکی کال آئی خیر ہمیں اگلے دن ہمارا کیمرا مل گیا تھا، کسی بھی ایریا میں پولیس کی سرپرستی کے بغیر کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔

افضل ندیم ڈوگر بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں:

اندازہ ہے کہ کروڑوں کا کاروبار کا ہے، ڈیلی بیسز پر ادائیگیاں ہوتی ہیں، ملیر کے اندر آس پاس کا جو علاقہ ہے وہاں سے بھی ریتی بجری نکالتے ہیں، پانی آتا ہے، خوفناک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، کئی لوگ مرے ہوتے ہیں، گڑھے ہو جاتے ہیں، بعد میں پتہ چلتا ہے انسانی باقیات ملی ہیں۔

راؤ انوار پر حملے

ایک زمانہ تھا راؤ انوار کے بتائے گئے مقابلوں کی خبریں چھاپی جاتی تھیں، اب راؤ انوار کی بتائی گئی خود پر حملوں کی خبریں بھی چینلز پر چلنے لگیں۔ مگر! کیا کہیے کہ جب راؤ کسی سے پولیس مقابلہ کرتے ہیں، تب بھی مرتا وہی ہے جو مقابلے پر ہے۔ اور جب کوئی راؤ کو مارنے آتا ہے، تب بھی موت حملہ آور کے نصیب میں آتی ہے۔ نہ راؤ کو خراش آتی ہے اور نہ ان کی ٹیم کو!

2012 میں عدالت جاتے ہوئے ان پر خود کش حملہ ہوتا ہے۔ پھر دو مئی 2015 کو ان کے قافلے پر دستی بم پھینکے جاتے ہیں۔ راؤ دھماکوں میں محفوظ رہتے ہیں اور جواب میں پانچ حملہ آور مار دیے جاتے ہیں۔ پھر 16جنوری 2018 کو ایک خود کش حملہ آور بھی ان کی بکتر بند سے ٹکرا جاتا ہے۔

افضل ڈوگر اس کی وجہ بیان کرتے ہیں:

جب آپ سے سیکیورٹی واپس لینے کی بات آتی ہے ناں، پھر کوئی ایسا نہ ایسا واقعہ رچا دیتے ہیں کہ سب کنٹینیو رہے، وہ حملے فیک تھے؟ بیشتر فیک تھے لیکن ایک ایسا جو خود کش تھا وہ میں کہوں گا بکتر بند میں تھے کچھ نہیں ہوا۔

ذیشان شاہ نئی بات بتاتے ہیں کہ اس دور میں ایک ایس ایچ او ہوتا تھا اعظم محسود، اس پر الزام آیا تھا اور وہ ڈس مس بھی ہوا تھا، اور ہوا تھا یہ کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے پلان کیا گیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

جنوری 2018 کی وہ کُہر آلود رات راؤ انوار پر قَہر بننے والی تھی۔ بڑے بڑے بال، اسٹائلش داڑھی، چوڑا سینا، لمبا تڑنگا ماڈل۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں فالورز ہیں اِس کے۔ مگر اچانک راؤ انوار نے تین دہشت گرد مارے جن میں نقیب اللہ محسود بھی تھا۔

کیا؟ یہ تحریک طالبان کا رکن ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کچھ ایسے ہی شوکنگ ری ایکشن تھے سوشل میڈیا پر۔

جبران ناصر اس واقعے کے بارے میں بتاتے ہیں:

کہیں سے وہ پروفائل ایک ہارڈ کور دہشت گرد کی نہیں لگ رہی تھی وہ تحریک طالبان جو نائی کی دکان کھولنے پر قتل کر دیتی تھی، اس سے تفتیش پیدا ہوئی، معاملہ میڈیا میں گیا، سہراب گوٹھ میں لوگ جانتے تھے علاقہ اکٹھا ہوا اور ہائی وے پر دھرنا دے دیا۔

نقیب اللہ شاید راؤ انوار کے ماورائے عدالت قتل کی فہرست میں آخری نام تھا۔ کیونکہ اس پر بہت احتجاج ہوا، بڑا شور مچا اور کیس کورٹ میں چلا گیا۔

جبران ناصر تفصیل بتاتے ہیں:

سہراب گوٹھ کے ایک مقامی چائے کے ہوٹل پر تین دوست حضرت علی، قاسم نقیب اللہ محسود بیٹھے ہوئے تھے کہ پولیس والے لے گئے۔ کہاں لے گئے خبر نہیں ملی۔ چھ اور سات کی درمیانی رات کو حضرت علی اور قاسم کو رہا کر دیا۔ سات تاریخ کو نقیب کے کچھ دوست احباب پولیس کے پاس گئے تو پتہ چلا وہ تو راؤ کے پاس ہے۔

افضل ندیم نے ایک منفرد پہلو بتایا:

راؤ انوار پولیس افسر ایک دہشت کیسے پھیلے گی علاقے میں جب تک مختلف علاقوں کے لوگوں کو ماریں گے نہیں، قتل نہیں کریں گے دہشت گرد بنا کر، دہشت پھیلانے کے لیے مختلف علاقوں کا کوئی نہ کوئی بندہ شامل کرتے تھے۔ بنیادی طور پر ایک اور بندہ تھا اس کا چالان سبمٹ ہو چکا تھا، اس کے نام پر انہوں نے اسے فٹ کر دیا، اور پتہ نہیں کتنے معصوم مارے ہوں گے۔

ڈی آئی جی ثنا اللہ عباسی کی قیادت میں بنی جے آئی ٹی نقیب کو بے قصور اور راؤ انوار کو مجرم قرار دیتی ہے۔ اب عدالت راؤ کو بلا رہی تھی لیکن کسی سے نہ ڈرنے والا راؤ اب غائب تھا۔

جبران ناصر شکوہ کرتے ہیں کہ پورے پاکستان کے آئی جی کو نہیں معلوم کہ راؤ کہاں ہے کہاں چھپا ہوا ہے۔ ایک خبر آتی ہے، راؤ فرار ہوتا ہوا نظر آتا ہے روک دیا جاتا ہے، نظر آتا ہے کہ کوئی راؤ کی معاونت کر رہا ہے۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ خود پولیس کی ٹاپ ہیرارکی یہ کہتی ہے کہ there are police officers who above IG۔ جب کہ افضل ڈوگر کے خیال میں راؤ انوار ملازم پولیس کا تھا، لیکن نوکری کہیں اور کی ہے۔ مگر پھر ایک نقطہ ایسا آ جاتا ہے کہ راؤ کو عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔

ٹھہریے! یہ آپ نے ذہن میں کیا امیج بنی ہے کہ راؤ انوار کے ہاتھ میں ہتھکڑی ہے اور وہ چار پولیس والوں کے درمیان کٹہرے میں کھڑے ہیں؟ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ راؤ کی انٹری الگ ہی دروازے سے ہوتی ہے۔ جہاں سے شاید کسی کو گمان بھی نہ ہو۔ جبران ناصر بتاتے ہیں کہ مارچ کے دوران فلمی انداز میں راؤ کی انٹری ہوتی ہے وہاں سے جہاں سے ججز انٹر ہوتے ہیں۔

راؤ کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ مگر قربان جائیے ایسی محبت پر۔ نظام ہی نہیں قانون کی پلکیں بھی راؤ کے سامنے جھک جاتی ہیں۔ اور راؤ کا گھر ہی اُن کے لیے جیل ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ کیس آگے بڑھتا ہے۔ نوے کی دہائی کی بات نہیں ہوتی۔ بلکہ 2011 سے 2018 تک 444 لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام لگتا ہے۔

افضل ندیم ڈوگر کہتے ہیں کہ راؤ انتہا کا ڈرپوک ہے، کوئی دلیر بہادری نہیں دیکھی۔ 444 لوگوں کو مارا ہے آپ کہتے ہیں، میں کہتا ہوں کوئی ایک سنگل گولی بھی نہیں چلائی۔ جتنا بڑا چوہدری اسلم تھا فائٹر، راؤ انوار قریب بھی نہیں ہے۔

جبران ناصر سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان کے سارے دہشت گرد مرنے کے لیے ملیر ہی آتے تھے اور مارنے والا ایک ہی رابن ہڈ تھا راؤ انوار۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب آپ کو لوگ پکڑ کر دیے جائیں اور آپ ڈرٹی لانڈری کا کام کر رہے ہو کہ جاؤ جا کر دھو دو۔

جب کیمرے کی آنکھ سب دیکھ رہی ہو۔ مائیک کان لگا کر سن رہا ہو۔ مگر نہ کیمرا کچھ دکھا سکے اور نہ زبان سچ بولے تو راؤ انوار جیسے کرداروں کا جنم ہوتا ہے۔

فوٹو گرافر اطہر حسین کہتے ہیں:

جب وہ ٹارچر سیل سے لوگ پکڑے، لاش پڑی ہوئی تھی ہاتھ بھی اس کے پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے، تو یار وہ ہمیں تصویر نہیں بنانے دی ناں کہ نہیں بنائیں، اور ہمارے ساتھی آکر کہتے ہیں رہنے دو شاہ صاحب رہنے دو۔ پولیس افسر کبھی بھی غلط کام نہیں کر سکتا جب تک کالی بھیڑیں ساتھ نہ ہوں صحافت کی، میں بھی کما سکتا تھا لیکن حرام کی طرف نہیں گیا۔

افضل ڈوگر نے بھی اس بارے میں بتایا:

یہ نقیب قتل کیس کے حوالے سے جب انٹیروگیشن ہوئی اس میں تین یا چار کرائم رپورٹر ایسے تھے جن کے اسٹیٹمنٹ ہوئے ہیں یہ وہ لوگ تھے جب راؤ انوار کو انکاؤنٹر کرنا ہوتا تھا تو یہ لوگ پہلے سے وہاں موجود ہوتے تھے۔ ایک شعر ہے شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے، ہمیں تو خبر ہے دشمن کے ہر ٹھکانے کی۔

مظہر عباس میڈیا کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہے کہ فیک انکاؤنٹر ہے مگر آپ پوری پولیس والی اسٹوری چلاتے ہیں اور پولیس مقابلے کے طور پر شو کرتے ہیں اور پولیس مقابلے میں جو سوالات بنتے ہیں وہ نہیں کرتے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ نقیب اللہ محسود کے خلاف کاٹی گئی تمام ایف آئی آرز خارج کر دی جاتی ہیں۔ یعنی ایک طرح ثابت ہو گیا کہ نقیب دہشت گرد نہیں تھا۔ مگر پھر یہ کیا؟ دوسری طرف راؤ انوار بھی بری الذمہ قرار دے دیے گئے۔

جبران ناصر اس عجیب و غریب معاملے پر کہتے ہیں:

عدالت نے لکھا ہی نہیں کہ جو الزام ہے ثبوت تباہ کرنے کا، اس میں ملزم بری ہوتا ہے یہ سزا یافتہ ہے، جو اسلحہ رکھا گیا اس انکاؤنٹر کو ثابت کرنے کے لیے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ ہی نہیں ہے۔ جج صاحب کے اس طرح کے کلمات ہیں کہ بھئی یہ گواہ بھی وزیرستان کا ہے، یہ بھی وزیرستان کا ہے، وہ جو پانچ آئے وہ بھی وزیرستان کے ہیں ہم نے آئی او سے پوچھا کوئی اور گواہ لیا، کہا نہیں، بھئی یہ تو سارے ایک ہی علاقے کے ہیں کیا اس پر یقین کیا جا سکتا ہے یہ سب تو اسی کی سائیڈ لے رہے ہوں گے۔

نقیب اللہ محسود کیس میں راؤ کو اسکرپٹ غلط ملا یا اسکرپٹ پر عمل صحیح نہیں کیا؟ چار الگ الگ علاقے کے لوگوں کو ایک انکاؤنٹر میں مارنا، کسی سے ہضم نہیں ہوا۔ راؤ انوار کو عدالت نے رہا تو کر دیا مگر جبران ناصر یہ بتاتے ہیں کہ وہ دوبارہ اس کیس کو لے کر۔ اپیل کے لیے جا رہے ہیں۔

آج راؤ انوار کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ کس طرح رہ رہے ہیں؟ ان کی ٹیم کہاں ہے؟ سنتے ہیں نقیب کیس کے بعد کچھ معطل تھے، کچھ مفرور تھے؟ ایسا کچھ نہیں۔ آپ حیران ہوں گے یہ جان کر کہ راؤ انوار ریٹائرڈ ہو چکے مگر ضلع ملیر اب بھی راؤ کی سلطنت ہے۔ ان کی ٹیم تو کرسیوں پر نہیں ہے، مگر نظام اب بھی وہی ہے۔

افضل ڈوگر پردہ اٹھاتے ہیں:

جو پولیس والے شریک جرم تھے نقیب کیس میں وہ تمام باہر ہیں، گینگ بنا رکھے ہیں، پولیس کی جاب تو نہیں ہے، پندرہ دس پولیس والوں کا گینگ بڑی گاڑیاں، زمین قبضہ کرنی ہو تو پچیس تیس لاکھ کے عوض وہ آپ کو تمام سروسز دیں گے۔ امان اللہ مروت آج بھی اپنا گینگ چلا رہا ہے، شاہ لطیف ٹاؤن تھانے کے سامنے مکان کرائے پر لیا ہوا ہے، حاجی صاحب کے نام سے مشہور ہے، حاجی صاحب جو فیصلہ کر دیں وہ ہوتا ہے، مفرور ہوئے سالوں گزر گئے مگر اس کی تصویریں آج بھی شاہ لطیف تھانے میں ہیں۔ جتنے ایس ایچ او اس کے بعد گئے کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ مروت کی تصویریں وہاں سے ہٹائے یا مروت کے وہاں سے نام کو ہٹا سکے تو اس سے بڑا خوف ان لوگوں کا کیا ہوگا۔

نقیب قتل کیس کے بعد راؤ انوار پر امریکا نے بھی پابندیاں لگائیں۔ ایک زمانہ تھا آصف زرداری انہیں سپورٹ کرتے تھے، انہیں ٹی وی پر ’’بہادر بچہ‘‘ کہتے تھے، مگر آج وہی بہادر بچہ زرداری کے راز کھول رہا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ بہادر بچہ زرداری کا نہیں، کسی اور کا ہے۔ اسی لیے تو آج آزاد ہے۔

شیئر

جواب لکھیں