یہ 2009 کی ایک عام سی صبح تھی۔ ویسے تو نوجوانی میں کوئی صبح عام نہیں ہوتی، لیکن یہ کچھ ہی دیر میں ایسی صبح بننے والی تھی جسے کم از کم میری نسل کے لیے تو بھلانا ممکن نہیں۔ امتحانات سے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں یار دوستوں کی ملاقات تھی۔ ہم نے اپنا گروپ پروجیکٹ جمع کروانا تھا۔ یہ کام کروا کر جیسے ہی ہم باہر نکلے، اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ جوانی تو اتنی دھماکے دار ہوتی ہے کہ یہ آواز سن کو بھی کوئی حیران نہیں ہوا، لیکن پھر بھی، لاہور میں ایسا بہت کم ہوتا ہے، اس لیے سب نے اپنے اپنے اندازے لگائے کہ آخر کیا ہوا ہوگا؟ ہمارے جو بھی بچکانہ اندازے تھے، یہ اس سے کہیں بڑا واقعہ تھا، کیونکہ یہ دن تھا 3 مارچ 2009 کا۔

کرکٹ تاریخ کا یومِ سیاہ

پاکستان کی کرکٹ تاریخ کا سیاہ ترین دن! لاہور ایک ٹیسٹ میچ کی میزبانی کر رہا تھا۔ ایسا میچ جس میں صرف دو دن میں 716 رنز بن چکے تھے۔ اور پھر اُس دن صبح صبح مہمان ٹیم پر حملہ ہو گیا۔ یہ کرکٹ کمنٹری والا بالر یا بیٹسمین کا حملہ نہیں، بلکہ دہشت گردوں کا وار تھا۔ گولیوں کی آوازیں وہیں سے آ رہی تھیں۔ نشانہ تھی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم، یعنی اس ملک کی، جس کے ساتھ پاکستان کرکٹ اور گورنمنٹ دونوں کے ہمیشہ بہت اچھے تعلقات تھے۔

یہ بہت بڑا دھچکا تھا، اتنا بڑا کہ کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ فوری ری ایکشن کیا ہونا چاہیے؟ لیکن اوپر فیصلے ہو چکے تھے، پاکستان جس سے چیمپیئنز ٹرافی 2009 کی میزبانی پہلے ہی لی جا چکی تھی، سے اب ورلڈ کپ 2011 سے بھی چھین لیا گیا۔

پاکستان کرکٹ کا dark period شروع ہو گیا۔ میدان سالہا سال کے لیے ویران ہو گئے، ملک سے انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہو گئی۔ ایسا تو نائن الیون کے بعد بھی نہیں ہوا تھا۔ تب پاکستان نے صرف دو سیریز ملک سے باہر کھیلی تھیں۔ لیکن پھر انٹرنیشنل کرکٹ چلتی رہی۔ نیوزی لینڈ، انڈیا، انگلینڈ، ساؤتھ افریقہ، ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش اور سری لنکا، ہر بڑی ٹیم نے پاکستان کا ٹؤر کیا۔ لیکن مارچ 2009 کے اس حملے نے سب کچھ ختم کر دیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کی اچھی پرفارمنس، 2009 میں ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ چیمپیئن بننا، چیمپیئنز ٹرافی کے سیمی فائنل تک پہنچنا، کچھ بھی کافی ثابت نہیں ہوا۔ پاکستان کرکٹ جلا وطن ہو گئی۔ یہاں تک کہ 2010 میں آسٹریلیا کے خلاف ہوم سیریز انگلینڈ میں کھیلنا پڑی اور گھر سے دُور ایک نیا گھر بسانا پڑا، یو اے ای۔ وہاں دبئی، ابوظبی اور شارجہ کے میدان کئی سال کے لیے پاکستان کے ہوم گراؤنڈز بنے۔ یہاں بڑی یادگار کامیابیاں حاصل کیں، بہت کچھ جیتا، لیکن اپنا گھر تو اپنا ہوتا ہے، اور اسے آباد کرنے کے لیے پاکستان کو بہت کچھ کرنا تھا۔ تب ایک پلان بنا، ایسا پلان جو ابتدا ہی میں ٹھپ ہو گیا، لیکن اس کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔

یہ پلان تھا پاکستان سپر لیگ یعنی PSL کا۔ اس نے پاکستان کرکٹ کو ایک نئی زندگی دی، اور آج پی ایس ایل ملک کا سب سے بڑا برانڈ ہے۔ آج جس لیگ کا نواں سیزن دیکھ رہے ہیں، اس کی اندر کی کہانی بہت دلچسپ ہے اور یہی کہانی آج ہم آپ کو بتائیں گے ’’رفتار اسپورٹس‘‘ پر۔

پاکستان سپر لیگ کا خیال

یہ آج سے 12 سال پہلے کی کہانی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں نئے چیئرمین آئے تھے ذکا اشرف۔ اُن کے پاس ایک ایسا پلان تھا، جس پر کام شروع کر دیا گیا اور ایک سال بعد اس پلان کو باقاعدہ introduce بھی کروا دیا گیا۔ آپ نے پی ایس ایل کا لوگو دیکھا ہے نا؟ لیکن کیا یہ والا لوگو آپ کو یاد ہے؟ نہیں نا؟

Raftar Bharne Do
پہلے پلان کے مطابق پاکستان سپر لیگ کا لوگو یہ تھا.

پاکستان نے آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹو ہارون لورگاٹ کی خدمات بھی حاصل کی تھیں، اور پلان تھا مارچ 2013 سے پی ایس ایل کے باقاعدہ آغاز کا۔ اس میں پانچ ٹیموں نے ڈبل لیگ کی بنیاد پر کھیلنا تھا۔ پھر سیمی فائنل اور فائنل ہوتے اور 23 میچز اور 15 دن کے ساتھ پی ایس ایل کا پہلا سیزن مکمل ہوتا۔

یہ پلان تین سالوں کے لیے بنایا گیا تھا، جس کے بعد ٹیموں کی تعداد پانچ سے بڑھا کر آٹھ کی جاتی۔ یوں میچز بھی 23 سے بڑھ کر 59 ہو جاتے۔ پلان اچھا تھا، اس کے ذریعے غیر ملکی کرکٹرز بھی پاکستان آتے اور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی واپس آنے کا دروازہ کھلتا، لیکن جنوری 2013 میں جب بورڈ لیگ کا پلان بنا رہا تھا تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ مئی میں الیکشنز ہیں۔ وہ بھی ایسے جنھیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے خونی الیکشن کہنا چاہیے۔ سکیورٹی فورسز نے لیگ کو سکیورٹی فراہم کرنے سے منع کر دیا۔ یوں پہلا پلان بری طرح ناکام ہوا۔ ایک مہینے بعد ہی بورڈ نے اعلان کر دیا کہ لیگ ملتوی کر دی گئی ہے۔

ایسے وقت میں جب انڈین پریمیئر لیگ چھائی ہوئی تھی، آسٹریلیا کی بگ بیش بھی شروع ہو چکی تھی، ویسٹ انڈیز میں کیریبیئن پریمیئر لیگ کا اسٹارٹ بھی ہو چکا تھا بلکہ بنگلہ دیش نے بھی اپنی بی پی ایل کے ساتھ میدان میں قدم رکھ دیا تھا، پاکستان کے لیے بہت ضروری تھا کہ دنیائے کرکٹ کی چوتھی بڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے لیگ کرکٹ میں آئے۔ لیکن کیسے؟ اس کے لیے پاکستان کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔

‏2013 میں الیکشن ہوئے، نواز شریف کی حکومت بنی، جنھوں نے نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ کا نیا چیئرمین بنا دیا۔ اب بورڈ میں میوزیکل چیئرز کا گیم شروع ہو چکا تھا اور پی ایس ایل کا پروگرام وہی ہوا جو شیر افضل مروت کا مشہور جملہ ہے، ’’پروگرام تو وڑ گیا‘‘۔ خیر، نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کی آوت جاوت کے بعد اگست 2014 میں 80 سال کے شہریار خان کو بورڈ کا نیا چیئرمین بنایا گیا۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بیچاری پی ایس ایل کا کیا بنا؟

اصل میں الیکشن 2013 نے عمران خان کے بعد جس کو سب سے زیادہ ہٹ کیا، وہ پی ایس ایل ہی تھی۔ بورڈ میں نئی انتظامیہ آئی، اس نے نیا پلان بنایا اور فیصلہ کیا کہ پی ایس ایل دسمبر 2014 اور جنوری 2015 میں یو اے ای میں ہوگی، لیکن یہ پلان بھی فیل ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ ٹیمیں خریدنے کی خواہشمند چھ کمپنیوں میں سے صرف دو ہی ایسی تھیں، جنھوں نے بینک گارنٹی جمع کروائی۔

اگست 2014 میں ایک اور ناکامی کے اعلان کے بعد ایسا لگتا تھا یہ منصوبہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔

امید کی کرن

‏2014 کے آخری دنوں میں کینیا نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان 'اے' کے خلاف ایک سیریز کھیلی۔ یوں وہ پہلی انٹرنیشنل ٹیم بنی جس نے 2009 کے اُس منحوس مارچ کے بعد پاکستان کا ٹور کیا، اور پھر مئی 2015 میں انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں واپس آ گئی۔ زمبابوے نے لاہور میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے سیریز کھیلی اور چھ سال بعد لاہور میں #CricketComesHome ہوا۔ لگتا تھا خوشیاں لوٹ آئی ہیں، پرانے دن واپس آ گئے ہیں۔۔۔۔ لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔

ان دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ میں بہت سا نیا اور جوان خون بھی آیا، یہ ایسے لوگ تھے جن میں کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ انھی میں سے ایک تھے شعیب نوید، جو امریکا کی این ایف ایل میں کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ یہ تجربہ پاکستان کے بہت کام آیا، کیونکہ شعیب نوید کے تھیسس پر ہی پی ایس ایل پروجیکٹ کی بنیادیں رکھی گئیں۔ جون 2014 میں جب سب کا گرمی سے برا حال تھا، پاکستان کرکٹ کے چاہنے والوں کے لیے تازہ ہوا کا ایک جھونکا آیا، پی سی بی نے ایک بار پھر پاکستان سپر لیگ کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے پانچ بڑے شہروں کے نام پر ٹیمیں بنائی گئیں اور پھر فیصلہ ہو گیا کہ دسمبر 2014 میں تیسری بار اعلان کر دیا گیا کہ پی ایس ایل ہوگی اور ضرور ہوگی۔ اس مرتبہ جنوری 2016 کی تاریخ دی گئی اور میزبان بنایا گیا یو اے ای کو۔

اعلان تو ہو گیا، لیکن اصل بات یہ تھی کہ یہ سب ہوگا کیسے؟ خاص طور پر جب بورڈ کے اندر بھی لوگ تقسیم ہوں۔ جی ہاں! اعلان کے بعد بھی بورڈ میں کئی لوگ قائل نہیں تھے کہ لیگ ہونی بھی چاہیے یا نہیں۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان تو پرانے زمانے کے آدمی تھے، وہ تو ٹی ٹوئنٹی کو پسند ہی نہیں کرتے تھے لیکن نجم سیٹھی اس بات کے قائل تھے کہ پی ایس ایل کرکٹ ہی نہیں پاکستان کے لیے بہت اہم ہوگی۔

بالآخر کچھ بڑوں اور کچھ چھوٹوں نے فیصلہ کر لیا تھا اور کام تیز ہو گیا، لیکن ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے ہر پاکستانی کو خون کو آنسو رلایا۔

‏16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ یہ اتنا بڑا واقعہ تھا کہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اپنے بچوں کو بچانا ہے یا کچھ "ناراض اپنوں" کو۔ ‏24 دسمبر کو حکومت نے اعلان کیا کہ دہشت گردی کو مٹانا ہے اور اس کے لیے نیشنل ایکشن پلا سامنے آ گیا۔ ساتھ ہی دہشت گردوں کی "کمر توڑنے" کا عمل شروع ہو گیا۔ کراچی سے لے کر خیبر تک کئی آپریشنز ہوئے اور دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آنے لگی۔ ملک میں امن قائم کرنے اور دنیا کو دکھانے کے لیے ہمارے سکیورٹی ادارے بھی کرکٹ میں دلچسپی لینے لگے۔ اس بارے میں آگے بات کریں گے، ابھی ذرا پی ایس ایل پر واپس آتے ہیں!

تو 2015 میں نہ صرف پی ایس ایل کو ری لانچ کیا گیا، بلکہ دسمبر 2015 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے پانچ شہروں، کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، اور کوئٹہ کی فرنچائز ٹیمیں بھی بیچ دیں، پورے 93 ملین ڈالر میں۔ کراچی کنگز کی ٹیم سب سے مہنگی فرنچائز تھی، جسے اے آر وائے گروپ نے 26 ملین ڈالر میں خریدا۔ ملک کا سب سے بڑا سیلولر نیٹ ورک موبی لنک اور کاروباری دنیا کا بڑا نام عارف حبیب اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ قطر آئل نے 25 ملین ڈالر میں لاہور کی ٹیم حاصل کی۔ تب کسی نے یہ خبر بھی اڑا دی تھی کہ لاہور کی ٹیم کا نام شیر دل ہوگا، یہ تو بعد میں لاہور قلندرز نکلے۔ خیر، ہائیر گروپ نے 16 ملین ڈالر میں پشاور زلمی کی فرنچائز لی۔ مزے کی بات یہ کہ پی ایس ایل کا پہلا فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیمیں سب سے سستی تھیں۔ لیونائن گلوبل اسپورٹس نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے حقوق 15 ملین ڈالر میں حاصل کیے تھے جبکہ عمر ایسوسی ایٹس نے صرف 11 ملین ڈالر دے کر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم خریدی۔ بورڈ نے لیگ کی ٹائٹل اسپانسرشپ بھی ایوارڈ کی، جو ملی ایچ بی ایل کو۔ ایک ایسا ساتھ، جو آج بھی جاری ہے۔

تو 24 میچز کا پہلا سیزن ہوا۔ اس میں پلے آف کے تین میچز بھی کھیلے گئے۔ پہلی بار امریکن اسپورٹس کی طرز پر پلے آف کا طریقہ کسی پاکستانی ایونٹ میں آزمایا گیا۔ طریقہ ذرا پیچیدہ ہے، اس لیے ہم جیسے سادہ لوگوں کو مشکل سے سمجھ آیا۔ بہرحال، براڈکاسٹنگ رائٹس کا 80 فیصد پانچ ٹیموں میں بانٹنے کا وعدہ کیا گیا۔ اسپانسرشپ کے حقوق میں بھی ہونے والی کمائی ففٹی ففٹی تقسیم ہوئی۔ بلکہ گیٹ منی یعنی ٹکٹوں کی فروخت کی رقم بھی ففٹی ففٹی۔ اس لیے کیونکہ بورڈ دبئی اور شارجہ کے میدانوں کی قیمت خود جیب سے دے رہا تھا۔ ویسے بھی ان دنوں رواج تھا کہ آئی پی ایل، بی پی ایل ساری کی ساری گیٹ منی فرنچائزز میں بانٹ دیتی تھی۔

خیر، پھر باری آئی ڈرافٹ کی یعنی کون سی ٹیم کن کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلے گی؟ جب پی ایس ایل 1 کے لیے 100 سے زیادہ اوورسیز کھلاڑیوں نے خود کو رجسٹر کروایا تو ہمیں پہلی بار یقین آیا کہ پی ایس ایل واقعی ہونے جا رہی ہے۔ یہ ڈرافٹ دو دن تک لاہور میں چلتا رہا اور کئی بڑے نام پی ایس ایل کا حصہ بنے۔ کرس گیل، کیون پیٹرسن، شین واٹسن، آندرے رسل، ڈیرن سیمی اور تلکارتنے دلشان۔ اور پھر وہ دن آ گیا!

چار فروری 2016 کا دن

پاکستان سپر لیگ کا خواب جو بار بار دیکھا گیا، جو کئی بار ٹوٹا، اب حقیقت بن کر سامنے کھڑا تھا۔ لیگ کے لیے دن رات ایک کرنے والوں کی آنکھیں نم تھیں اور دل خوش اور مطمئن۔ کہتے ہیں پی ایس ایل 1 کے لیے اتنا زیادہ کام کیا گیا کہ لیگ میں شامل ایک شخص کا بریک اپ ہو گیا۔ وہ صاحب روتے بھی رہے، لیکن اپنے کام میں ذرا کوتاہی نہیں دکھائی۔ کسی نے صحیح کہا ہے قربانیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔

پھر افتتاحی تقریب ہوئی، چیئرمین نے اپنی تقریر کا آغاز کیا،

ہم پُر امن لوگ ہیں، ہمیں کرکٹ کھیلنی آتی ہے اور کھلانی بھی آتی ہے!

وہ دن یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی تین مارچ 2009 کی شام بھی یاد آ جاتی ہے جب آج کے ’’واٹس ایپ گروپ‘‘ کا درجہ رکھنے والی ہماری دوستوں کی آرکٹ کمیونٹی میں سب کے دل دکھی تھے۔ کسی نے یہ تک کہا کہ اب 20 سال تک پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس نہیں آئے گی، لیکن سات سال سے بھی کم وقت میں، پاکستان نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی کہ 20 سال والا کام کچھ ہی سالوں میں ہو گیا۔

پہلے ہم بات کر رہے تھے سکیورٹی اداروں کی پی ایس ایل میں دلچسپی کی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پاکستان کی تاریخ کو واحد ورلڈ چیمپیئن وزیر اعظم نے کبھی پی ایس ایل کا کوئی میچ نہیں دیکھا، لیکن سابق آرمی چیف نے اپنے دور میں کئی مرتبہ پی ایس ایل کو رونق بخشی۔

بہرحال، پہلے سیزن میں دبئی اور شارجہ کے میدانوں میں 24 میچز ہوئے، اسلام آباد یونائیٹڈ پہلا چیمپیئن بنا۔ فائنل میں پاکستان کے ٹیسٹ کیپٹن مصباح الحق نے وننگ رن لیا۔ اسے فلمی کہانی کہیں تو تو غلط نہیں ہوگا۔ لیکن یہ صرف آغاز تھا، پی ایس ایل شروع ہو چکا تھا لیکن اسے پاکستان لانا تھا اور اس نیک کام میں زیادہ دیر نہیں لگی۔

پاکستان سپر لیگ ‘‘گھر‘‘ میں!

کہاں لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ لیگ چار سال بعد ملک میں واپس آئے گی لیکن دوسرے ہی سیزن میں پہلا قدم اٹھ گیا۔ اکتوبر 2016 میں جب پی ایس ایل 2 کا ڈرافٹ ہوا تو نجم سیٹھی نے کہا کہ اگلے سیزن کا فائنل لاہور میں ہوگا۔ دیوانے کا خواب لگتا تھا، لیکن نجم سیٹھی اینڈ کمپنی نے کر دکھایا۔ فائنل سے پہلے کھلاڑیوں کو لاہور آنے پر قائل کرنا ایک پہاڑ جیسا کام تھا۔ چلیں، آپ کو ایک بات بتاتے ہیں، اس فائنل سے پہلے دبئی میں لیگ کے ملازموں کے inner سرکل کی ایک میٹنگ ہوئی۔ لیگ انتظامیہ میں ایک بڑے عہدے پر موجود شخصیت تو باقاعدہ رو پڑی کہ فائنل پر کام کرنے والے سب لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ یہ میچ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، لیکن سب نے یہی کہا کہ یہ نوکری نہیں، نیشنل ڈیوٹی ہے۔ اس میٹنگ میں شامل ایک شخص نے بتایا کہ میں اپنے اعصاب کو مضبوط کیے ہوئے تھا۔ دعا کی طاقت پر یقین تھا کہ سب خیر سے ہو جائے گا۔ اور پھر وہ موقع آیا جب صبر کا دامن چھوٹ گیا۔ جب لاہور کا کراؤڈ ہر ڈر اور خطرے کے باوجود میچ دیکھنے آیا اور جب سب نے ایک ساتھ دل دل پاکستان گایا تو آنکھوں میں آنسو روک نہیں پایا۔

بہرحال، کوئٹہ کے کئی غیر ملکی کھلاڑی پاکستان نہیں آئے، جس کا نقصان انھیں مسلسل دوسرے فائنل میں بھی ہارنے صورت میں اٹھانا پڑا۔ پھر جو سلسلہ ایک میچ سے شروع ہوا، 2018 میں لاہور میں دو اور کراچی میں ایک میچ تک آ پہنچا،۔ اور 2019 میں تو پی ایس ایل کے آٹھ میچز پاکستان میں ہوئے۔ وہ بھی کس وقت؟ جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ پلوامہ واقعہ ہوا، اس کے بعد بالاکوٹ واقعہ، پھر پاکستان کا انڈیا پر جوابی حملہ بھی اور ایک انڈین جہاز گرانے کا واقعہ بھی۔

اب حالات یہ تھے کہ پاکستان کی ایئر اسپیس انڈین جہازوں کے لیے بند تھی اور انڈین ایئر اسپیس پاکستانی جہازوں کے لیے۔ تب لیگ کے رائٹس رکھنے والی پروڈکشن کمپنی دست بردار ہو گئی۔ آپ جانتے ہیں کہ کمپنی کون سی تھی؟ یہ تھی ’’ریلائنس گروپ‘‘۔ بھارت کے امیر ترین آدمی اور نریندر مودی کے قریبی دوست مکیش امبانی کی کمپنی۔

لیکن پھر بھی پی ایس ایل کو کوئی روک نہیں پایا۔ پاکستان نے 2020 میں پورا سیزن ملک میں کروانے کا اعلان کر دیا۔ باوجود اس کے کہ کرونا نے لیگ کو دو حصوں میں توڑ دیا، کئی تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں، لیکن یہ کام ہو گیا۔ پاکستان سپر لیگ، صرف اور صرف پاکستان کی ہو گئی!

ایک وہ دن تھا جب پاکستان میں ایک میچ کے لیے لوگ ترستے تھے، آج آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ سمیت دنیا کی ہر بڑی ٹیم پاکستان کھیلنے آتی ہے، اور ان تمام ٹیموں کی آمد کی دروازے کھولے پی ایس ایل نے، اس میں کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں نے۔ کچھ کھلاڑی تو پاکستان سپر لیگ سے ایسے جڑ گئے جیسے پاکستان ان کا گھر ہو۔ جیسے ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی، پاکستان نے انھیں 2020 میں اعلیٰ ترین اعزاز ’’نشانِ پاکستان‘‘ دیا۔ اور پھر ملک کی اعزازی شہریت بھی، یعنی ڈیرن سیمی پاکستان کے شہری ہیں۔ کچھ کھلاڑی ایسے بھی نکلے، جو دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔ انگلینڈ کے ڈیوڈ ملان، ہیری بروک، ٹائمل ملز، ساؤتھ افریقہ کے رائلی روسو، آسٹریلیا کے ٹم ڈیوڈ اور ہاں! نمیبیا کے ڈیوڈ ویزے بھی۔

پاکستان کے اس وقت تقریباً سارے ہی اسٹارز اصل میں پی ایس ایل کی پروڈکٹ ہیں۔ بابر اعظم سے لے کر صائم ایوب تک، فخر زمان سے عبد اللہ شفیق تک، شاداب خان سے حسن علی تک، شاہین آفریدی سے حارث رؤف اور نسیم شاہ تک، ان سب کو بنایا پی ایس ایل نے۔

پاکستان سپر لیگ 2024

آج پی ایس ایل جوان ہے، نواں سیزن کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن نجانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ لیگ کی کوالٹی اور اچھے اوورسیز کھلاڑیوں میں کمی آئی ہے۔ خاص طور پر آخری تینوں سیزنز میں ایسا صاف نظر آ رہا ہے۔ آخر کیوں؟

اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ نواں سیزن تو پاکستان کی سیاست کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک میں سیاسی گرما گرمی ہے، الیکشن کے بعد ایک بھونچال مچا ہوا ہے۔ ایسے میں عوام کی توجہ کرکٹ کی طرف کرنا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اچھے پلیئرز کی نظر بھی پی ایس ایل کی طرف نہیں۔ اس کی ایک وجہ تو کئی نئی انٹرنیشنلز لیگز کا آنا ہے۔ جو ہو سکتا ہے پی ایس ایل جتنی significant نہ ہوں، لیکن پیسہ بہت دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کھلاڑیوں کی ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہے۔

اب پاکستان سپر لیگ بگ بیش، بی پی ایل، آئی ایل ٹی ٹوئنٹی، ایس اے ٹی ٹوئنٹی اور آئی پی ایل کے بیچ میں سینڈوچ بنی ہوئی ہے۔ اس لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کچھ کرنا ہوگا، کچھ ایسا جو ان دونوں لیگز کے بیچ میں کرکٹ ورلڈ کو کچھ نیا دے۔ کیا پی ایس ایل وہ مقام حاصل کر پائے گی جو اُس کے شایانِ شان ہے؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

ویسے آپ کا کیا خیال ہے؟

شیئر

جواب لکھیں