نواز شریف کی واپسی کا شور ہے۔ کبھی ٹکٹیں بک کرانے کی خبر آتی ہے تو کبھی پورا طیارہ چارٹر کرانے کی۔ ن لیگ والے دھوم دھڑکے سے استقبال کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔
ایسے میں نواز شریف کی ایک تصویر سامنے آئی ہے جس میں وہ لال پینٹ، لال جوتے اور لال مفلر پہنے کھڑے ہیں۔ اب پتا نہیں یہ انھوں نے یہ کپڑے واپسی کی تیاریوں کے سلسلے میں پہنے ہیں یا کوئی پرانی تصویر ہے۔ لیکن اس پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔
ایک بحری جنگی جہاز اپنے سمندری مشن پہ تھا کہ اچانک دشمن کے ایک جہاز سے سامنا ہوگیا، جہاز کے کپتان نے اپنے اسٹاف سے کہا:
“میرا سرخ کوٹ لے آؤ”
کوٹ پہن کر کپتان نے توپچی سے ٹھیک ٹھیک نشانوں پہ فائر کروائے اور یوں دشمن کا جہاز اپنے عملے سمیت غرق ہو گیا۔
جہاز کے تمام اسٹاف نے اپنے کپتان کی خوب تعریف کی اور سب نے یہ سوال بھی پوچھا کہ جناب دشمن کے جہاز کی خبر ملتے ہی آپ نے سرخ کوٹ منگوا کر کیوں پہنا تھا؟ اس پہ کپتان نے بتایا :
“اس لیے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اگر میں زخمی ہوجاؤں تو میرے جسم پہ خون کا رنگ نظر آئے اور اسے دیکھ کے میرے ساتھی ہمت ہار بیٹھیں یا پریشان ہو جائیں”
تمام عملہ اپنے کپتان کی اس اعلیٰ حکمت کی تعریف کر ہی رہا تھا کہ جہاز کے راڈار آپریٹر نے چیختے ہوئے اعلان کیا کہ دشمن کے دس جہازوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
یہ اعلان سن کر کپتان نے ٹھنڈی آہ بھری اور مری ہوئی آواز میں عملے کو حکم دیا :” میری پیلے رنگ کی پینٹ لے آؤ۔
تو کیا میاں صاحب نے بھی یہ لال لال کپڑے بہادری دکھانے کے لیے پہنے ہیں؟
ویسے لطیفے سے ہٹ کر بھی شریف برادران کی ایسی ڈریسنگ پر بہت تنقید ہوتی ہے۔ پچھلے سال جولائی میں بھی نواز شریف کی کی سرخ پینٹ میں ایک تصویر وائرل ہوئی تھی تو کسی نے کہا تھا کہ سرخ رنگ انقلاب کی علامت ہوتا ہے، مگر اس کا اظہار سرخ شرٹ یا ٹی شرٹ پہن کر کیا جاتا ہے، سرخ پینٹ پہن کر نہیں۔
تنقید نواز شریف کے جوتوں پر بھی کی جارہی ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق ان برانڈڈ جوتوں کی قیمت 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر شہباز شریف کو چاہیے کہ انتخابی جلسوں میں وہ اپنے کپڑے بیچنے کے بجائے بڑے میاں صاحب کے کپڑے جوتے بیچ کر مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کریں تو شاید عوام کچھ اعتبار بھی کرلیں گے۔