عمران خان کو اڈیالا جیل میں سہولتوں کی فراہمی اور  فیملی، وکلا اور ذاتی معالج سے ملاقات کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے سماعت کی۔

وکیل شیر افضل مروت نے دلائل میں کہا کہ سنگل بنچ کے فیصلے میں کوئی ہدایت نہیں کہ وہ جن سہولیات کے اہل ہیں وہ دی جائیں، سنگل بنچ نے فیصلے میں بی کلاس دینے کا حکم بھی نہیں دیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ ابھی کتنے مقدمات عمران خان کے خلاف چل رہے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ ابھی وہ سائفر کیس میں جیل میں ہیں۔

عدالت نے پوچھا کہ ابھی عبوری حکم میں آپ کیا مانگ رہے ہیں ؟ عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ہم جیل میں ورزش کے لیے مشین مانگ رہے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ اس کا طریقہ کار کیا ہو گا؟

عمران خان کو اڈیالا جیل میں کوئی سہولت حاصل نہیں

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اٹک جیل میں تو آپ کو سہولیات حاصل تھیں؟ اس پر وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ اٹک جیل میں بھی عمران خان کو سہولیات حاصل نہیں تھیں نہ اڈیالا جیل میں حاصل ہیں۔ انھیں ذاتی معالج، فیملی اور وکلا سے ملاقاتوں کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم دوسری طرف کو نوٹس جاری کرکے جواب مانگ لیتے ہیں، ہم ان سے عمل در آمد رپورٹ بھی طلب کر لیتے ہیں۔

عدالت نے شیرافضل مروت سے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں جیل رولز کیا کہتے ہیں؟ آپ اس حوالے سے بھی عدالت کی معاونت کریں۔

اس پر وکیل شیر افضل مروت کی جانب سے جیل رولز عدالت کے سامنے پڑھے گئے۔ انھوں نے کہا کہ سنگل بنچ کا فیصلہ آئے ایک ماہ گزر گیا لیکن جیل حکام نے اجازت نہیں دی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ہم نے جیل کا وزٹ کیا وہ تو خود بیماریوں سے بھرا ہوا ہے۔ انھوں نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آپ کی درخواست کے حوالے سے ہم تحریری آرڈر پاس کریں گے۔

شیئر

جواب لکھیں