کچھ لوگ اُسے پیر و مرشد مان رہے ہیں ۔۔۔ تو کچھ لوگ زانی!

کبھی وہ مبینہ آڈیو میں فحش گفتگو کرتا سنائی دیتا ہے ۔۔۔ تو کبھی اقوام متحدہ میں اسلام کا جھنڈا اٹھائے نظر آتا ہے!

کبھی کارنرڈ ٹائیگر بن جاتا ہے، گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے ڈٹا نظر آتا ہے تو دوسری طرف عین غین کے چکر میں پھنسا نظر آتا ہے ۔ جنازوں میں بھی جانے سے گھبراتا ہے۔

ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم کو اپنا لیڈر بتاتا ہے، دوسری طرف سوشل میڈیا کے تاتاریوں کا سپہ سالار بن جاتا ہے۔

غریبوں کے لیے لنگر خانے بناتا ہے ، مگر گھر آئے مہمان کو چائے بھی نہیں پلاتا ۔

کرکٹ میں نیوٹرل امپائر لایا ، مگر سیاست میں کچھ اور ہی نظر آیا۔

سب کو ساتھ لے کر چلنے والا کپتان یا پھر اپنی ذات میں مگن خود غرض انسان؟

سلیکٹڈ یا باغی ؟ اللہ کا ولی یا داغی؟

اصلی عمران خان کون ہیں؟ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے

لیکن اس وڈیو میں ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو بتا سکیں کہ اصلی عمران خان کون ہیں اور کیا وجہ ہے کہ پچھلے پچاس سالوں میں بڑے بڑے آئے اور چلے گئے ، لیکن ۔۔۔ شوکت خانم کی گود سے ابھرنے والا سورج غروب ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔

آج کل عمران خان اپنی سیاست کے عروج پر ہیں مگر یہ واقعہ ان کے کرکٹنگ کیریئر کے عروج کا ہے۔

فہد کیہر (اسپورٹس ایڈیٹر، رفتار): پاکستان کرکٹ تاریخ کے ایک بہت بڑے بیٹسمین ہیں جاوید میانداد۔ اور جاوید میانداد کی سب سے بڑی اننگز ہے 280 رنز کی۔ وہ بھی ناٹ آؤٹ۔ کرکٹ تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہوگا کہ کوئی کھلاڑی ایک بہت بڑے سنگِ میل کے قریب کھڑا ہوا ہو اور کپتان نے اننگز ڈکلیئر کر دی ہو۔ یہ کارنامہ کیا ہے ہمارے عمران خان نے۔ 1983 کا پاک-بھارت حیدرآباد ٹیسٹ۔ پاکستان سیریز میں ‏2-0 سے آگے تھا۔ اور اس میچ میں بھی ایسی کوئی پوزیشن نہیں پاکستان کی کہ وہ ہارنے والا ہو۔ میانداد تیسرے دن صبح کھیلنے آئے، 280 رنز پر پہنچے اور عمران خان نے اچانک اعلان کر دیا کہ وہ اننگز کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ میانداد بتاتے ہیں کہ نہ مجھے صبح بتایا گيا تھا کہ اننگز ڈکلیئر کی جائے گی اور نہ اس کے بعد انھیں ٹیم یا عمران خان کی جانب سے کوئی وضاحت دی گئی کہ انھوں نے اننگز کیوں ڈکلیئر کی۔ پاکستان یہ سیریز بہت آسانی سے جیتا بعد میں، اور یہ میچ بھی بہت آسانی سے جیتا۔لیکن یہ میچ عمران خان کی وکٹوں اور کارنامے کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ اس میں انھوں نے جاوید میانداد کو ٹرپل سنچری نہیں کرنے دی۔

ایسا ہی ایک واقعہ ان کرکٹ کیریئر کے آغاز کا بھی ہے ۔ 1971 میں ٹیم کا حصہ بنے تو ان کے کزن ماجد خان بھی ٹیم میں موجود تھے عمران ٹیم میں آئے تو ماجد خان نے ان کی کافی مدد کی مگر لکھنے والے لکھتے ہیں کہ عمران خان جب کپٹن بنے تو انہوں نے ماجد خان کو ٹیم سے باہر کردیا۔

ایک طرف میانداد جیسے سپراسٹار کی ٹانگیں کھینچنے والا کپتان جب وزیراعظم بنا تو تونسہ کے چھوٹے سے علاقے میں گمنامی کے اندھیرے میں چارپائی پر اکیلے بیٹھے بزدار کو راتوں رات سب سے بڑے صوبے کے تخت پر بٹھادیا۔ سارے صحافی حیران پریشان تھے۔ حد تو یہ کہ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ اور 'لمبر ون والے' بھی حیران تھے۔

عمران خان کی زندگی ایسے ہی لاتعداد تضادات کا مجموعہ ہے۔ مگر پھر کیا بات ہے کہ وہ جو کام کرنے کی بھی ٹھان لیں وہ پورا ہو کر رہتا ہے؟

سیاسی ناقدین اور حمایتی اس کامیابی کی بہت سی الگ الگ وجوہات بیان کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اسمارٹ ہے ، کسی کو وہ باکردار لگے ہیں ، کچھ احساس کرنے والا انسان کہتے ہیں ، کوئی ایماندار کہتا ہے تو کوئی قسمت کا دھنی ۔۔۔ کچھ لوگ انہیں بیانیے کا بادشاہ بتاتے ہیں تو کچھ انہیں عالم اسلام کا لیڈر جانتے ہیں ۔

چلیں دیکھتے ہیں کہ عمران کی کامیابی اور مقبولیت کی اصل وجہ کیا ہے ؟ چند باتوں پر روشنی ڈالتے ہیں :

سب سے پہلے "ہینڈسم" کے بارے میں بات کر لیتے ہیں۔ عمران خان کے چاہنے والوں کو وہ ہینڈ سم لگتے ہیں ۔ ویسے اگر معاملہ صرف ہینڈسم ہونے کا ہو تو شاید ان کے سیاسی مخالفین بھی اس سے انکار نہیں کریں گے ۔

عمران خان ہینڈ سم تو ہیں ۔ کرکٹ فینز ہوں ، ہالی ووڈ ، بالی وڈ کی اداکارئیں یا عالمی میڈیا وہ سب جگہ چھائے رہے ۔ مگر یہاں سوال یہ کہ کیا عمران خان کا ہینڈسم ہونا ہی ان کی مقبولیت کی وجہ ہے ؟ اگر ایسا ہے تو دنیا میں اور بھی بہت سےکھلاڑی اور سیاست دان ہینڈسم ہیں مگر کسی کو اتنی مقبولیت کیوں نہیں ملی؟

اب "کردار" پر بات کرتے ہیں۔ بات ہنڈسم ہونے تک تو ٹھیک ہے مگر بات کردار پر آئے تو عمران خان یہاں بھی کچھ ڈھکی چھپی نہیں رکھتے۔

عمران جب اپنی شہرت کے عروج پر تھے تو مغرب کے ساحلوں پر نیم برہنہ کپڑوں میں خواتین کے ساتھ نظر آتے ۔ مغرب ان کے بارے میں پلے بوائے لکھتا۔ کہا جاتا کہ ایسا اسٹار جو مسلم ملک سے ہے مگر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں لگتا ۔ کبھی کسی ہوٹل کے بیڈروم سے تصاویر آتیں تو کبھی نائٹ کلب سے۔ سیتا وائٹ کا معاملہ بھی ان کے کردار سے جڑا ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق 80 کی دہائی کے آخر میں عمران کی سیتا وائٹ سے ملاقات لندن کے نائٹ کلب میں ہوئی تھی ۔ پہلے دوستی ہوئی اور پھر جسمانی تعلق ۔ سیتا وائٹ کے ہاں ٹیریان کی پیدائش ہوئی مگر عمران خان اسے بیٹی تسلیم کرنے سے انکاری رہے ۔ سیتا وائٹ معاملہ امریکی عدالت میں لے گئی اور کورٹ نے عمران خان سے ڈی این اے کروانے کا کہا مگر عمران نہ مانے ۔ جس کے بعد عدالت نے ٹیریان کو عمران خان کی بیٹی ڈکلیئر کردیا، اس معاملے کو لے کر مخالفین آج بھی عمران خان پر کیچڑ اچھالتے ہیں ۔

اب ذکر ہوجائے عمران خان کے "مذہب سے لگاؤ" کا۔ سیاست میں آنے کے بعد 80 کی دہائی کا پلے بوائے مذہبی باتیں کرنے لگا ۔ ان کی باتوں سے مذہب کا لگاؤ نظر آنے لگا۔ دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے مگر اب ہاتھ میں تسبیح نظر آتی ہے اور پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا خواب دکھاتے نظر آتے ہیں ۔

اور شاید ہی کوئی گفتگو ایسی ہو جس میں وہ کوئی اسلامی بات یا حوالہ نہ دیں ۔ جو شخص دنیا کی حسین ترین خواتین کی دل کی دھڑکن ہوا کرتا تھا، وہ اب اقوام متحدہ میں حرمت رسول پر بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ سب اپنی جگہ مگر اسلام پر تو اور بھی بہت لوگ بات کرتے ہیں ۔ مگر ان کو اتنا فیم کیوں نہیں ملتا؟

اب ان لوگوں کے لیے جو عمران خان کو "احساس کرنے والا انسان" سمجھتے ہیں ۔ 1985 میں جب ان کی والدہ شوکت خانم کا انتقال کینسر سے ہوا تو وہ اس سے اتنے رنجیدہ ہوئے کہ انہوں نے کینسر ہاسپٹل بنانے کا ارادہ کیا اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے آج اس اسپتال کو دنیا کے کامیاب چیریٹی اسپتالوں میں شامل کیا جاتا ہے۔

حکومت میں آنے کے بعد بہت سی ناکامیاں اپنی جگہ مگر لنگر خانے بنا کر غریبوں کے لیے کھانے اور سر چھپانے کی کوشش ضرور کی۔

ایک طرف اتنے دیالو ہیں تو دوسری طرف اتنے کنجوس کہ گھر آئے آدمی کو چائے تک نہیں پوچھتے بلکہ جب وہ وزیراعظم تھے تو پی ایم ہاؤس آنے والوں کو چائے کے ساتھ بسکٹ مل جائیں تو بڑی بات سمجھی جاتی تھی ۔ خیر۔۔۔ یہاں سوال یہ ہے کہ عمران خان کا لوگوں کے احساس کا جذبہ ان کی کامیابی کی وجہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو ملک میں احساس کرنے والے تو اور بھی بہت ہیں ادیب رضوی ، عبدالباری ، بشیر فاروقی ، مرحوم عبدالستار ایدھی ، انہیں اتنا فیم کیوں نہیں ملا؟

اب ذرا ذکر ہوجائے ان کی "ایمانداری" کا۔ عمران خان کے چاہنے والے سینہ ٹھوک کر دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان سب کچھ ہو سکتے ہیں مگر کرپٹ نہیں ہو سکتے۔ یہ کس حد تک ٹھیک ہے ؟ یہ اس ان کی شخصیت سے جڑی کچھ اور باتیں ہم آپ کو اگلی وڈیو میں بتائیں گے ۔

شیئر

جواب لکھیں