دعوت نامے پر 8 بجے کا وقت لکھا ہوا تھا لیکن اب 12 بجنے والے تھے۔ مہمان تو سب آ چکے تھے مگر میزبان کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ ہر ٹیبل پر سر گوشیاں ہو رہی تھیں لیکن پھر ایک مہمان تنگ آ کر چلّا اٹھا۔ یہ کیا طریقہ ہے؟ چار گھنٹے ہو چکے ہیں، ہمیں یہاں بٹھایا ہوا ہے ، میں اور انتظار نہیں کر سکتا۔ پھر اُس نے باقی مہمانوں سے مخاطب ہو کر کہا ’’اگر آپ سب کو اِس مہا راجا کا انتظار کرنا ہے تو کریں، میں گھر جا رہا ہوں‘‘۔ اور پھر وہ ناراض مہمان دعوت چھوڑ کر گھر واپس چلا گیا۔

اگر آپ کے گھر کی کسی دعوت میں ایسا ہو تو اپ کا کیا ری ایکشن ہوگا؟ یقیناً آپ اس ناراض مہمان کو کال کریں گے، معذرت کریں گے۔۔۔ منائیں گے۔۔۔ کرنا بھی یہی چاہیے، غلطی جو آپ کی ہے۔ لیکن اس مہمان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

رات ایک بجے کے قریب اس کے گھر کا دروازہ زور زور سے بجایا جانے لگا۔ دروازہ کھلا تو درجنوں سیکیورٹی اہلکار اس کے گھر میں بیڈ روم تک گھستے چلے آئے۔ مہمان کو گریبان سے پکڑا اور پھر مارتے ہوئے پولیس اسٹیشن لے گئے۔ اس دعوت کو چھوڑ کر آنا اس مہمان کو اتنا مہنگا پڑا کہ اگلی صبح اسے ملک ہی چھوڑ کر جانا پڑا۔

یہ دن تھا 2 جولائی 1974 کا۔ مقام تھا پرائم منسٹر ہاؤس۔ مہمان تھے، سابق وزیر اور موجودہ سفیر جلال الدین عبدالرحیم۔ اور میزبان تھے، قائد عوام: ذوالفقار علی بھٹو!

ریاستی غنڈا گردی

اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں کہ پی ٹی آئی آج کل ریاستی جبر اور تشدد کی زد میں ہے۔ بدترین مخالفین بھی یہ بات مان رہے ہیں۔ لیکن ایک سوال ہے جو بار بار سوشل میڈیا میں اٹھایا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ کیا ایسا پہلی بار ہو رہا ہے؟ اس وڈیو میں ہم کوشش کریں گے کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈ سکیں۔

جب بھی ریاستی جبر، سنسر شپ، ظلم کا ذکر ہوتا ہے تو ایک نام لازمی لیا جاتا ہے، جنرل ضیاء الحق۔

یہ بات کافی حد تک ٹھیک بھی ہے۔ مذہبی منافرت، حدود قوانین کے سخت استعمال اور اخبارات پر پابندی سے لے کر عوامی مقامات پر کوڑے مارنے تک ضیا صاحب کا ریکارڈ کافی داغ دار ہے۔ لیکن اسے ہماری بدنصیبی کہہ لیجیے کہ جب بھی حکمرانوں کے بُرے کاموں کا موازنہ کیا جاتا ہے تو competition بڑا سخت نظر آتا ہے۔ اسکندر مرزا سے لے کر آج تک ایک سے بڑھ کر ایک مثالیں نظر آتی ہیں۔ مگر ایک نام ہے جو پاپولر مین اسٹریم میڈیا میں اس ساری گند سے الگ تھلگ ہے۔ وہ نام جسے لبرلز اور مذہبی طبقہ دونوں قائد اعظم کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر سمجھتے ہیں۔ جسے روشن خیالی، ترقی پسندی اور عوامی راج کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ وہ لیڈر جسے دنیا سے گئے تو چالیس پچاس سال گزر گئے مگر وہ آج بھی زندہ ہے۔

’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘

آج بھٹو کا ایک ایسا چہرہ دکھائیں گے جو آپ نے آج سے پہلے شاید کبھی نہ دیکھا ہو۔ یقیناً بھٹو بہت بڑے لیڈر تھے، لیکن کیا وہ ایک اچھے لیڈر بھی تھے؟ اس وڈیو میں بیان کیے گئے تمام واقعات انتہائی مستند کتابوں اور اخبارات کی ریسرچ کر کے حاصل کیے گئے ہیں، جن کا مقصد صرف اور صرف آپ تک تمام حقائق انتہائی غیرجانبداری کے ساتھ پہنچانا ہے تاکہ آپ پاکستان کی تاریخ کو مکمل طور پر سمجھ سکیں اور آنے والے دنوں میں پاکستان کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کا پہلا نشانہ

‏1972 کی بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں اپنی کمر دکھاتے ہوئے کہا ہم نے جمہوریت کے لیے بڑی ماریں کھائی ہیں۔ اس پر جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر احمد نے جواب دیا کہ پیٹھ پر زخم تو بھاگنے والوں کو لگتے ہیں، سینے پر کوئی زخم کھایا ہے تو دکھائیں۔ کچھ ہی دن بعد ڈیرہ غازی خان میں ڈاکٹر نذیر احمد کو اپنے ہی کلینک میں قتل کر دیا جاتا ہے۔

سن 1974، 11 اور 12 نومبر کی درمیانی رات، وقت رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے، مقام: لاہور۔ شہر کی ویران سڑکوں پر ایک گاڑی چلتی چلی جا رہی ہے۔ شادمان کالونی سے نکلنے کے بعد اب اِس کا رخ ہے اپنی منزل ماڈل ٹاؤن کی طرف لیکن شاہ جمال کالونی کے قریب، ایک چوراہے پر گاڑی پر تین طرف سے فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ ڈرائیو کرنے والا شخص 34 سال کا ہے، جس کے ساتھ اگلی سیٹ پر باپ اور پیچھے ماں اور خالہ بیٹھی ہیں۔ وہ بغیر رکے، پوری رفتار سے گاڑی چلاتا ہوا گولیوں کی بوچھاڑ سے نکل جاتا ہے لیکن جب اُسے لگتا ہے کہ وہ خطرے سے باہر نکل گیا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ باپ کو گولی لگ گئی ہے اور وہ بُری طرح زخمی ہے۔ حواس پر قابو رکھتے ہوئے وہ گلبرگ کے ایک ہسپتال پہنچتا ہے لیکن ہر اس کی ہر کوشش بیکار جاتی ہے، 71 سالہ باپ کچھ دیر بعد دم توڑ دیتا ہے۔ مرنے والے شخص کا نام تھا: محمد احمد خان قصوری۔

بھٹو کا پاکستان

‏71 کی جنگ کے بعد ایک نیا پاکستان جنم لے چکا تھا، یا یوں کہہ لیں بچا کچھا پاکستان تھا۔ قائد کا پاکستان نہیں، بھٹو کا پاکستان۔ اس کی پہلی جمہوری طور پر elected حکومت تھی۔ بھٹو، ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے، شاید اسی لیے ڈکٹیٹر شپ اُن کے سیاسی ڈی این اے میں شامل تھی۔ مگر سیاسی پارٹیوں میں فوج جیسا ڈسپلن نہیں ہوتا۔ اس لیے بھٹو کا اپنے ساتھیوں سے اختلاف بڑھتا جا رہا تھا۔ اور پارٹی میں موجود اِنھی مخالفین میں سے ایک تھے: محمد احمد خان قصوری، جن کا اُس رات بھیانک انداز میں قتل ہوتا ہے۔ لیکن وہ اکیلے نہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمد رفیق ، آفتاب احمد شیرپاؤ کے بھائی حیات محمد خان شیرپاؤ ، محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی اور جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر احمد سمیت دو درجن سے زیادہ ایسے سیاسی رہنما ہیں، جو ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں قتل کیے گئے۔

پاکستانی گسٹاپو: ایف ایس ایف

کچھ مہینے گزر گئے اور مارچ 1975 آ گیا جب تحریکِ استقلال کے چیئرمین اصغر خان پر ایک حملہ ہوا۔ تحقیقات ہوئیں، ایف آئی اے قاتلوں کو ٹریس کرتے کرتے ایف ایس ایف تک پہنچ گئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ ایف ایس ایف کیا بلا ہے؟ جی ہاں! یہ واقعی ایک بلا تھی۔ یہ تھی بھٹو کی بنائی گئی ’’فیڈرل سکیورٹی فورسز‘‘۔ نام تو منشیات اور اسمگلنگ کے خاتمے کا لیا گیا، لیکن اس کا اصل کام تھا بھٹو کے مخالفین پر نظر رکھنا۔ تقریباً 20 ہزار لوگ اس فورس کا حصہ تھے مگر ایف ایس ایف صرف نظر نہیں رکھ رہی تھی۔ وہ بھٹو کی نظر میں کھٹکنے والے ہر کانٹے کو بھی ہٹاتی جا رہی تھی۔

بھٹو کا دور اور قتل پر قتل

دن ہے 20 دسمبر 1972 کا۔ بچے کھچے پاکستان پر پیپلز پارٹی کے اقتدار کا پہلا سال مکمل ہوا۔ اس پر اپوزیشن یومِ سیاہ منانے کا اعلان کرتی ہے۔ لاہور میں بھی ایک جلوس نکالا گیا، جس میں شرکت کے بعد خواجہ محمد رفیق گھر واپس جا رہے تھے کہ ان پر بھی قاتلانہ حملہ ہو گیا اور وہ بھی جان سے چلے گئے۔ الزام لگا ایف ایس ایف پر۔

مارچ 1973 آیا، اب ولی خان پر قاتلانہ حملہ ہوتا ہے، وہ اور اجمل خٹک بال بال بچتے ہیں۔ الزام پھر ایف ایس ایف پر۔

دو دسمبر 1973 کو عبدالصمد اچکزئی کے گھر پر دستی بم حملہ ہوتا ہے۔ وہ جان سے چلے جاتے ہیں۔ الزام دوبارہ ایف ایس ایف پر۔

یہ جتنے بھی لوگ تھے، سب مختلف جماعتوں کے تھے۔ مختلف نظریات رکھنے والے۔ مختلف علاقوں کے رہنے والے لیکن سب میں ایک چیز common تھی، یہ کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کے بڑے مخالف تھے۔ ایک کے بعد دوسرا سیاسی رہنما مرتا جا رہا تھا لیکن بھٹو پر کون انگلی اٹھاتا؟ یہ تو چلیں سیاسی مخالفین تھے، بھٹو کی تلوار تو اپنوں پر بھی خوب چلی۔

پیپلز پارٹی کا سیاہ دن

دو جولائی 1974۔ کابینہ کے وزیروں اور قریبی ساتھیوں کے لیے بھٹو کی دعوت ہے۔ دعوت نامے پر وقت لکھا ہے: رات 8 بجے۔ تمام ہی مہمان وقت پر پہنچ گئے ہیں۔ لیکن یہ کیا؟ رات کے 12 بج چکے ہیں، لیکن بھٹو صاحب کا کچھ اتا پتا نہیں؟ سب وزیر امیر کبیر سر جھکائے بیٹھے ہیں، لیکن ایک شخص کی برداشت کی حد ختم ہو چکی ہے۔ وہ اٹھتا ہے اور زور سے چلاتا ہے، ’’آپ لوگ مہا راجا لاڑکانہ کا انتظار کریں، میں چلا!‘‘

جی ہاں! یہی وہی تھے جلال الدین عبدالرحیم، مشہور تھے جے اے رحیم کے نام سے۔ پیپلز پارٹی کے بنگالی رہنما۔ سوشلسٹ نظریات رکھنے والے پارٹی بانیوں میں سے ایک۔ وہ محمد علی بوگرہ کی حکومت میں فارن سیکریٹری بھی رہے جب 30 نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی بنائی، تو اس نئی پارٹی کا دستور جے اے رحیم نے ہی بنایا تھا۔ یہ جو نعرہ تھا نا، ’’اسلام ہمارا مذہب، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سر چشمہ عوام‘‘ یہ نعرہ جے اے رحیم ہی نے بنایا تھا۔ انہیں پیپلز پارٹی کا پہلا سیکریٹری جنرل بنایا گیا اور جب بھٹو کی حکومت قائم ہوئی تو دفاعی پیداوار کے وزیر بھی بنے۔

جس زمانے میں بنگلہ دیش بن جانے والے مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن کے autocratic اسٹائل پر تنقید ہو رہی تھی بالکل اُسی زمانے میں پاکستان میں بھٹو کا انداز بھی یہی تھا، جس سے جے اے رحیم بالکل مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے اختلاف کیا اور کھل کر کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں وزارت سے نکال دیا گیا اور سفیر بنا کر فرانس بھیج دیا گیا۔ وہ اچانک وطن واپس آئے اور اس اجلاس میں بھی پہنچ گئے۔ وہاں سے وہ غصے میں نکل تو آئے، لیکن اُن کی یہ حرکت بھٹو کو بالکل پسند نہیں آئی۔

رات ایک بجے ایف ایس ایف کے اہلکار ان کے گھر میں گھس گئے۔ پہلے دروازہ پیٹا، پھر جے اے رحیم کو اور خون میں لت پت حالت میں تھانے پہنچا دیا۔ اگلے روز وہ ملک ہی چھوڑ گئے۔

جے اے رحیم اکیلے نہیں تھے، پیپلز پارٹی کے دوسرے کئی رہنماؤں کے ساتھ بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے۔ معراج محمد خان، پیپلز پارٹی کے ایک بہت ہی اہم رہنما تھے۔ اتنے اہم کہ ایک بار بھٹو نے کہا میرا جانشین معراج محمد خان ہے لیکن اُن سے بھی اختلافات ہوئے۔ جو بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ انہیں بھی جیل بھجوا دیا۔ پھر مختار رانا، جو فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی تھے ، انہیں تو فوجی عدالت سے پانچ سال قید کی سزا بھی دلوا دی۔ اسمبلی کی رکنیت بھی چلی گئی اور ملک بھی چھوڑ دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کا دور اور آزادی صحافت

یہ تو تھے سیاستدان مگر صحافی بھی بھٹو کے فاشزم کا بہت نشانہ بنے۔ ایوب خان کے دور میں ایک ادارہ بنایا گیا تھا ’’نیشنل پریس ٹرسٹ‘‘۔ اگلے dictator یحییٰ خان نے بھی اسے قائم رکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا تو اسے ختم ہونا چاہیے تھا، لیکن بھٹو نے اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ پہلے تو حکومت پر تنقید کرنے والے تمام اخباروں اور رسالوں کے اشتہار بند کر دیے پھر صحافیوں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع ہو گئی۔ اعجاز حسن قریشی، الطاف قریشی اور حسین تقی جیسے بڑے صحافی جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ ڈان، جسارت اور کئی اخباروں کے ایڈیٹرز بھی گرفتار ہوئے۔

ایڈیٹر ڈان الطاف گوہر کو بھی قید کیا گیا۔ وہ ویسے ایک بیوروکریٹ تھے، لیکن لکھتے بہت اچھا تھے۔ ایک بار کراچی میں ان کی بھٹو سے ملاقات ہوئی، جس میں دونوں کی ان بن ہو گئی۔ یہی ٹینشن بعد میں تاشقند میں بھی نظر آئی، جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان معاہدہ ہوا تھا اور بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ الطاف گوہر 1969 میں ریٹائر ہوئے اور پھر صحافت جوائن کر لی۔ وہ مشہور اخبار ڈان کے ایڈیٹر بنے، جس میں ایک دن یہ اداریہ چھپا: Mountains Don’t Cry، نشانہ تھی بھٹو کی خراب پالیسیاں۔ پھر کیا تھا؟ بھٹو نے اگلا پچھلا سارا حساب برابر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُسی رات پولیس الطاف گوہر کے گھر میں داخل ہو گئی۔ اُن کے بیڈروم میں گھسی، گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا اور جیل میں ڈال دیا۔ سندھی اخبار ’’مہراﮠ‘‘ کے سید سردار علی شاہ بھی گرفتار ہوئے۔ اُن کا اخبار تو چھ مہینے تک بند بھی رہا۔ صحافیوں کو دیوار سے لگا دیا گیا اور سرکاری ٹاؤٹ اخباروں کو کھلی آزادی دے دی گئی۔

پیپلز پارٹی آج جمہوریت کی سب سے بڑی چیمپیئن بنتی ہے، کل بھی ایسا ہی تھا تب بھی ان کے لیے democracy is the best revenge تھا لیکن یہ ’’revenge‘‘ دھونس، دھمکی، مخالفین کو دبانے، کچلنے سے لیا جاتا۔ اس لیے احمد خان قصوری کا کیس بھی اکتوبر 1975 میں بند کر دیا گیا۔ لیکن کب تک بند رہتا؟

احمد خان قصوری قتل کیس

ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت ختم ہوا تو ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگ گیا۔ پہلا حکم ہی ایف ایس ایف کے خاتمے کا تھا۔ 20 دن بعد 24 جولائی 1977 کو ایف ایس ایف کے دو اہلکار گرفتار ہوتے ہیں، جو اعتراف جرم کرتے ہیں۔ پھر گرفتاریوں کا سلسلہ ہی چل پڑتا ہے، کئی وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں۔ یہاں تک ذوالفقار علی بھٹو بھی گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ محمد احمد قصوری قتل کیس میں انہیں سزائے موت ہو جاتی ہے، جس پر چار اپریل 1979 کو عمل درآمد ہوتا ہے۔ اس پھانسی کو آج تک ’’عدالتی قتل‘‘ کہا جاتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ کا اتنا بڑا واقعہ ہوا اور ملک میں کوئی بڑی تحریک برپا نہیں ہوئی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ ظلمت دیکھ چکے تھے، بلکہ اُس میں اتنا کچھ دیکھ چکے تھے کہ یہ ظلم بھی انہیں بہت چھوٹا لگا۔ پاکستان میں برٹش ہائی کمشنر تھے سر مورس جیمز، ایک بار انھوں نے لکھا تھا:

میرے خیال میں بھٹو دوسرے لوگوں کی عزت اور قدر نہیں کرتے۔ میں نے یہ بات اُن کی سنگ دلی کی وجہ سے محسوس کی۔ اُن کے بھیجے گئے تحفوں کے باوجود میں نے جان لیا تھا کہ ایک دن بھٹو خود کو برباد کر کے رہیں گے۔ کب اور کیسے؟ یہ میں نہیں بتا سکتا۔ 1965 میں برٹش ہائی کمشنر کی حیثیت سے میں نے پاکستان سے جو آخری خطوط بھیجے تھے، ان میں سے ایک میں لکھا تھا کہ بھٹو پیدا ہی پھانسی گھاٹ کے لیے ہوئے ہیں۔ 14 سال بعد یہ بات درست ثابت ہوئی۔

شیئر

جواب لکھیں