بالآخر بھارت چین کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ بدھ کو جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے ڈیٹا کے مطابق بھارت کی آبادی اب 1.428 ارب ہو چکی ہے، جو چین کی آبادی 1.425 ارب سے زیادہ ہے۔

یعنی صرف بھارت پورے یورپ کی آبادی سے زیادہ لوگ رکھتا ہے، پورے افریقہ کی آبادی مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی بلکہ بر اعظم جنوبی و شمالی امریکا کی مشترکہ آبادی بھی بھارت سے کم ہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس صدی کے وسط تک بھارت کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور یہ 1.668 ارب تک جا پہنچے گی۔ تب چین کی آبادی سکڑ کر 1.317 ارب رہ جائے گی۔

نوجوان آبادی کا چیلنج

چین کی آبادی بڑھنے کی شرح تو ہے ہی کم لیکن اس کی اوسط عمر بھی کافی زیادہ ہے۔ البتہ بھارت کی آدھی آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے اور کام کرنے والی عمر یعنی 15 سے 64 سال کی عمر کے افراد کی تعداد کُل آبادی کا تقریباً 75 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت کے لیے سب سے بڑا چیلنج لاکھوں بلکہ کروڑوں روزگار مواقع پیدا کرنا ہے۔ اسی لیے ملک زراعت سے آگے بڑھ کر صنعت کے شعبے میں اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس میں اسے کتنی کامیابی ملے گی؟ اس کا انحصار حال میں لیے گئے فیصلوں اور مستقبل میں پیدا ہونے والے حالات پر ہوگا۔

جہاں چین کی معیشت 1978 سے اب تک تقریباً 10 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھتی ہے، وہیں اب اسے کچھ نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کرونا وائرس کے بعد مغرب سے محاذ آرائی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے صنعت کار اور سرمایہ کار چین کا کوئی متبادل ڈھونڈ رہے ہیں۔ بھارت اس خلا کو پُر کر سکتا ہے، اپنی بہت بڑی افرادی قوت کے ذریعے، لیکن کیا وہ چین کی معاشی مشکلات کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو پائے گا؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔

روزگار، روزگار، صرف روزگار

بھارت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔ یہ وہ ہدف ہے جو وہ اب تک حاصل نہیں کر پایا۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح ‏2017-18 میں اپنی بلند ترین سطح 6.1 تک پہنچ گئی تھی اور اس وقت یہ 4.1 فیصد ہے۔ لیکن یہ حکومت کا کہنا ہے، غیر جانب دار ذرائع کے مطابق اس وقت بھی بھارت میں بے روزگاری کی شرح 7.8 فیصد کو چھو رہی ہے اور شہری علاقوں میں تو یہ 8.5 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

ملک میں ہر سال افرادی قوت میں 50 لاکھ افراد کا اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت نے صنعت کے لیے جو اسکیم بنا رکھی ہے، اس کے تحت پانچ سالوں میں جا کر کہیں روزگار کے 60 لاکھ مواقع پیدا ہوں گے، یعنی یہ بڑھتی ہوئی لیبر مارکیٹ کے لیے کافی نہیں۔

یعنی بے روزگاری پچھلی دو دہائیوں میں بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ تھا، اب بھی ہے اور اس کے حل ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

انفرا اسٹرکچر پرانا لیکن۔۔۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک کے مطابق 2000 سے 2010 کے دوران بھارت میں سرمایہ کاری 10.5 فیصد تھی، لیکن 2011 سے 2021 کے دوران یہ آدھی ہو کر 5.7 فیصد رہ گئی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیںي بجلی کی فراہمی کے مسائل، سڑکوں اور ریل گاڑیوں کا پرانا نیٹ ورک اور سب سے بڑھ کر افسر شاہی۔ بھارت تیزی سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن اس کے پاس بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔

بھارت میں 20 سے 59 سال کی عمر رکھنے والی آبادی 2041 میں اپنے عروج پر پہنچے گي، جب ان کی تعداد 59 فیصد ہو جائے گی۔ اس کے بعد یہ شرح کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ یعنی بھارت کے پاس صرف 20 سال کا وقت ہے، اس میں اٹھائے گئے اقدامات اس کا مستقبل اور عالمی سطح پر اس کا مقام طے کریں گے۔ دیکھتے ہیں اگلی دو دہائیاں کس طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی صورت گری کرتی ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں