کہتے ہیں کہ دنیا میں کچھ کاروبار ایسے ہیں جن پر کبھی زوال نہیں آ سکتا۔ ان ہی کاروباروں میں سے ایک ’’فارما بزنس‘‘ یعنی دواؤں کا کاروبار ہے۔ اور ان میں سر فہرست وہ کمپنیاں ہیں جو دوائیں بناتی ہیں۔ ویسے منافع کمانا کوئی بری بات نہیں، مگر پاکستان میں فارما انڈسٹری کا دھندا ایک ’’گورکھ دھندا‘‘ بن چکا ہے۔ یہ رفتار پوڈکاسٹ بھی فارما انڈسٹری سے متعلق ہے جس پر بات کرنے کے لیے ہمارے ساتھ موجود ہیں شوکت علی جاوید صاحب جو پلس انٹرنیشنل اور پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ آپ درجنوں عالمی اور پاکستانی اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں پاکستان کے ہیلتھ سسٹم اور فارما بزنس کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ ہمارے ساتھ گفتگو میں انہوں نے پاکستان کی فارما انڈسٹری کی کارکردگی اور اس کے پیچھے موجود عوامل پر تفصیل سے بات چیت کی۔ اس ضمن میں رشوت ستانی کے الزامات، معیارات کے مسائل اور ان اداروں کو در پیش مشکلات سمیت مختلف پہلوؤں کا بغور جائزہ لیا۔

شوکت جاوید نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دواسازی کی صنعت میں رشوت ستانی عام بات ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ڈاکٹر فارما کمپنیوں سے رشوت لیتے ہیں اور جواباً اسی کمپنی کی دوائیں مریضوں کو لکھتے ہیں جس سے ادارے کا کاروبار فروغ پاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فارما کمپنیاں ڈاکٹروں کے یوٹیلٹی بل، بچوں کے فیسیں حتیٰ کہ حج اور عمرے کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہیں بلکہ اب تو ڈاکٹروں کی کانفرنسو، دعوتیں اور پکنک بھی کروا رہی ہیں۔ اس کے بدلے ڈاکٹر کیا کرتے ہیں؟ ہمارے مہمان نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کئی ایک عملی مثالیں بھی سامنے رکھیں۔

دواسازی معیارات کو بہتر بنانے کی اہمیت پر بھی گفتگو ہوئی۔ شوکت صاحب نے بتایا کہ نقصان دہ یا ضمنی اثرات والی دواؤں کی پاکستان میں مارکیٹنگ اور فروخت بھی دیکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ادویات کے منفی اثرات سے متعلق اطلاع دینے میں بھی ڈاکٹروں کی جانب سے کوتاہی برتی جاتی ہے اور مریض بھی کسی دوا سے فائدہ نہ ہونے یا الٹا نقصان ہونے کی اطلاع دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ انہوں نے ریگولیٹری اداروں کی افادیت اور کوالٹی کنٹرول کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی سوالات اٹھائے۔

شوکت جاوید صاحب نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ انہوں نے ضرورت مندوں کو مفت علاج فراہم کرنے پر ایس آئی یو ٹی اور انڈس اسپتال جیسے اداروں کی تعریف کی۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی اور بین الاقوامی ذرائع سے ملنے والے عطیات سے چلنے والی فلاحی سرگرمیاں حکومتی کوششوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مشکلات بدستور موجود ہیں تاہم فارماسیوٹیکل سیکٹر میں مثبت تبدیلی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں، شفاف مالیاتی رپورٹنگ اور صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔

پاکستان میں ادویات سازی کی آڑ میں کیا اچھا ہو رہا ہے، کیا برا ہو رہا ہے اور دراصل کیا ہونا چاہیے؟ اگر آپ بھی یہ جاننا چاہتے ہیں تو مکمل پوڈکاسٹ ملاحظہ کیجیے۔

شیئر

جواب لکھیں