دنیا بھر میں جنوبی افریقہ کی ایک ہی پہچان ہے: نیلسن منڈیلا ۔ لیکن ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب منڈیلا کے بعد ملک میں سب سے مشہور تھا یہ

ہینسی کرونیے کی تصویر

ساؤتھ افریقہ کی کرکٹ تاریخ کا greatest کیپٹن، بلکہ کیپٹن ہی نہیں، ایک بدلتے ہوئے ساؤتھ افریقہ کا نیا چہرہ بھی۔ ایسا چہرہ، جس پر بعد میں بہت داغ لگے، اور وہ کہیں منہ دکھانے کے لائق نہ رہا۔ شہرت کی بلندیاں چھونے والا، مکمل گمنامی میں چلا گیا، جہاں سے ایک دن اُس کی موت کی خبر آئی۔

جوہانسبرگ کے قریب ایک جہاز پہاڑی چوٹی سے ٹکرا کر تباہ ہوتا ہے۔ دو پائلٹوں کے علاوہ ایک مسافر کی موت کا پتہ چلتا ہے، وہ مسافر تھا: بتیس سال کا ہینسی کرونیے۔ وہ کہ جنہوں نے جنوبی افریقہ کی کرکٹ کو پاتال سے اٹھایا اور آسمان پر پہنچایا لیکن پھر خود گر گیا، دنیا کی نظروں گر گیا، ایسا کہ دوبارہ کبھی نہ اٹھ سکا۔

آج ہم آپ کو اُسی ہینسی کرونیے کی کہانی سنانے جا رہے ہیں!

ہینسی کرونیے کا ملک

پچاس سال پہلے کا جنوبی افریقہ آج سے بالکل مختلف تھا۔ ملک میں اکثریت تو سیاہ فاموں یعنی blacks کی تھی، لیکن حکومت گوروں کے قبضے میں تھی۔ جن کی پالیسی ایک ہی تھی: Apartheid یعنی نسلی بنیادوں پر تقسیم۔

ملک کی سیاست ہو، معیشت ہو یا پھر سماج کا کوئی بھی رُوپ۔ ہر پہلو پر گوروں کا راج تھا۔ گورے ملک میں صرف چالیس لاکھ تھے، لیکن ملک کے دو کروڑ سیاہ فاموں پر حاکم تھے۔ دونوں کے بیچ شادی تو بہت دُور کی بات، وہ ساتھ اٹھ بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے، ایک علاقے میں رہ بھی نہیں سکتے تھے۔ عبادت ایک ہی خدا کی کرتے، مگر عبادت گاہیں الگ ہوتیں۔

کھیل میں بھی یہی حال تھا۔ کرکٹ جیسا کھیل، جو کسی کی جاگیر نہیں، لیکن ساؤتھ افریقہ میں اِس پر بھی قبضہ تھا۔ صرف اور صرف گورے ہی نیشنل ٹیم میں آ سکتے تھے۔ اس بھیانک پالیسی کی وجہ سے 1970 میں ساؤتھ افریقہ پر بین لگ گیا۔ اُسے انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر کر دیا گیا۔ اور تقریباً انہی دنوں میں جنم ہوا ہینسی کرونیے کا۔

وہ 25 ستمبر 1969 کو سفید فاموں کے گڑھ، بلوم فونٹین میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن سے ایک ہی چیز سے پیار تھا: کرکٹ!

پیار ویار اپنی جگہ پر، بات یہ تھی کہ ہینسی اپنے ملک کے لیے کھیل نہیں سکتا تھا۔ جنوبی افریقہ انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیل سکتا تھا۔ کم از کم تب تک نہیں، جب تک ملک میں ’’تبدیلی‘‘ نہ آئے۔

اور تبدیلی آ گئی

یہ زمانہ ہی تبدیلیوں کا تھا۔ جرمنی میں دیوارِ برلن گر چکی تھی، سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا، ایک نئی دنیا کا جنم ہو رہا تھا۔ تب جنوبی افریقہ کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ نیلسن منڈیلا کو رہا کیا جائے۔

اور 11 فروری 1990 کا دن آ گیا جب منڈیلا نے 27 سال بعد آزاد فضاؤں میں سانس لیا۔ امید کی نئی کرن جاگی، ملک کے لیے بھی اور کرکٹ کے لیے بھی۔ زیادہ دن نہیں گزرے، انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے جنوبی افریقہ پر لگائی گئی پابندی کا خاتمہ کر دیا۔

ورلڈ کپ 1992، جو ہم سب کا پہلا پیار ہے، اس میں ہم نے گرین شرٹس پہنے ایک نئی ٹیم دیکھی۔ 26 فروری 1992 کو ساؤتھ افریقن پلیئرز پہلی بار ایکشن میں نظر آئے۔ ان کے ساتھ چمکتی آنکھوں اور چھوٹے چھوٹے بالوں والا نوجوان بھی تھا، ‏22 سال کا ہینسی کرونیے۔ زیادہ وقت نہیں لگا، اُس نے خود کو منوا لیا۔

ہینسی کرونیے کا پہلا بڑا امتحان

ایک طرف ساؤتھ افریقہ دنیا کے سامنے خود کو ثابت کر رہا تھا، تو دوسری طرف کرونیے۔ اور اس کی سب سے بڑی جھلک ہمیں نظر آئی 1994 میں۔

ساؤتھ افریقہ آسٹریلیا کے ٹؤر پر تھا۔ بارش کی وجہ سے پہلا ٹیسٹ تو ڈرا ہو گیا۔ لیکن دوسرے میں جنوبی افریقہ ہار کے بہت قریب پہنچ گیا۔ پہلی اننگز میں ‏123 رنز کے خسارے کے بعد دوسری اننگز صرف 239 رنز پر ختم ہوئی اور آسٹریلیا کو ٹارگٹ ملا صرف 117 رنز کا۔ آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرانا، وہ بھی ساؤتھ افریقہ جیسی نئی ٹیم کے لیے؟ یہ بالکل آسان نہیں تھا۔ جو کمی رہ گئی تھی، وہ ساؤتھ افریقہ کے کیپٹن کے زخمی ہونے سے پوری ہو گئی۔ اب تو جیت ناممکن تھی!

کپتانی ڈالی گئی 25 سالہ نوجوان ہینسی کرونیے کے کندھوں پر جو حوصلہ اور ہمت ہارنے والے بالکل نہیں تھے۔ خود دیکھیں: 51 رنز پر آسٹریلیا کا صرف ایک آؤٹ تھا لیکن ہینسی کرونیے کا جادو چلا، ایسا چلا کہ وہ 111 رنز پر ہی آل آؤٹ ہو گیا۔ ساؤتھ افریقہ ٹیسٹ میچ جیتا، صرف اور صرف پانچ رنز سے۔ اس جیت سے پورا ملک جذباتی ہو گیا، ہینسی کرونیے بھی۔ انھوں نے 10 وکٹیں لینے والے فانی ڈی ولیئرز کو خود کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس میچ نے بہت کچھ بدلا، ساؤتھ افریقہ کرکٹ کو بھی، کرونیے کو بھی بلکہ کچھ ہی دنوں بعد پورا ملک ہی بدل گیا۔

نیا ساؤتھ افریقہ

اپریل 1994 میں ساؤتھ افریقہ پہلے الیکشن ہوئے اور منڈیلا جیت گئے۔ ایک نئے ساؤتھ افریقہ نے جنم لیا، نیا رہنما، نیا کپتان، نئی امید، نیا جذبہ۔ ساؤتھ افریقہ خود کو دنیا کے سامنے ثابت کرنا چاہتا تھا، ماضی کی غلطیوں کو مٹانا چاہتا تھا۔ اور اس کے لیے کھیل سے بڑھ کر اور کوئی میدان نہیں تھا۔ اور یہ کھیل تھا کرکٹ کا۔ اور قوم کو بھی منڈیلا کے بعد جو سب سے زیادہ پسند تھا، وہ ہینسی کرونیے ہی تھا۔ کیونکہ وہی تھا، جس نے کرکٹ میں ساؤتھ افریقہ کو وہاں پہنچایا جہاں پہلے کوئی کرکٹ ٹیم نہیں پہنچی تھی۔

کوئی بھی فارمیٹ ہو، ساؤتھ افریقہ بیسٹ تھا۔ اس کی بیٹنگ بھی، بالنگ بھی، اور فیلڈنگ میں تو اس نے نئے اسٹینڈرڈز بنا دیے تھے، ایسے جن پر پورا اترنا دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ پھر دنیا کے ہر میدان میں جنوبی افریقہ نے خود کو ثابت کیا۔ آسٹریلیا کے علاوہ ہر ٹیم کو اُس کے ملک میں جا کر ہرایا۔

‏1997 میں پاکستان کو پاکستان میں ہرا کر چلے گئے ساؤتھ افریقہ والے۔ یہ نائنٹیز میں پاکستان کی اُن شکستوں میں سے ایک ہے، جو ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ کپتان یہی تھے، ہینسی کرونیے۔

ہینسی کرونیے کا پرسنل ریکارڈ بھی تو دیکھیں:

‏53 ٹیسٹ میچز میں جنوبی افریقہ کی کپتانی کی، ‏27 جیتے اور صرف 11 ہارے، یعنی تقریباً 51 پرسنٹ کا وننگ پرسنٹیج رہا۔ ون ڈے انٹرنیشنلز میں تو پھر کمال ہی ہے۔ ساؤتھ افریقہ نے 138 میں سے 99 میچز جیتے کرونیے کی کپتانی میں، یعنی تقریباً 72 پرسنٹ میچز۔ پرسنل ریکارڈز دیکھیں تو 68 ٹیسٹ میں 3714 رنز، چھ سنچریاں، 23 ففٹیز اور ساتھ ہی 43 وکٹیں بھی۔ ون ڈے میں 5565 رنز، دو ہنڈریڈز اور 39 ففٹیز کے علاوہ 114 وکٹیں بھی۔

یہ بندہ ایک پرفیکٹ پیکیج تھا کرکٹ کے لیے۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا اور پھر سن 2000 آ گیا۔

وہ منحوس دن آ گیا

یہ جنوری 2000 تھا۔ انگلینڈ ساؤتھ افریقہ کے ٹور پر تھا۔ سیریز کے چار ٹیسٹ میچز ہو چکے تھے، ساؤتھ افریقہ 2-0 سے آگے تھا۔ تب آخری ٹیسٹ ہوا سنچورین میں۔ ایک ایسا میچ جسے کبھی کوئی نہیں بھول پائے گا، کبھی بھی نہیں۔

ٹاس جیتا انگلینڈ نے اور ہینسی کرونیے کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ 155 رنز، چھ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ پہلے دن کا کھیل مکمل ہوا۔ اور پھر بارش آ گئی، ایسی آئی کہ اگلے تین دن تک ایک اوور بھی نہیں پھینکا جا سکا۔ اور جب کھیل ممکن ہوا تو میچ کا آخری دن تھا اور ابھی ساؤتھ افریقہ کی پہلی اننگز بھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ سیدھا سادا ڈرا میچ تھا۔

ساؤتھ افریقہ کی بیٹنگ کے بیچ اچانک انگلش کپتان ناصر حسین باہر چلے گئے۔ ہینسی کرونیے سے بات چیت کی اور پھر ساؤتھ افریقہ نے اپنی اننگز ڈکلیئر کر دی۔ کیوں؟ کسی کو پتہ نہیں تھا کیا ہوا ہے؟

اصل میں کرونیے نے ناصر حسین سے کہا تھا کہ میں ابھی اپنی اننگز ڈکلیئر کرتا ہوں، تم پہلی اننگز چھوڑو، میں دوسری چھوڑ دوں گا۔ اب اسکور بورڈ پر جو رنز موجود ہیں، وہی باقی دن میں تمھارے لیے ٹارگٹ ہوگا۔ انگلینڈ کو میچ جیتنے کا موقع دیا جا رہا تھا۔ کرکٹ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا، لیکن اُس دن ہو گیا۔

انگلینڈ کو 249 رنز کا ٹارگٹ ملا اور پھر زبردست مقابلہ ہوا۔ یہاں تک کہ انگلینڈ صرف دو وکٹوں سے میچ جیت گیا۔ دنیا حیران رہ گئی۔ اس ٹیسٹ میچ کو تاریخ کا عظیم ترین ٹیسٹ میچ کہا گیا۔ لیکن حقیقت کچھ اور تھی! جس کی کہانی شروع ہوتی ہے ایک دن پہلے۔

ہینسی کرونیے کی کمزوری

کہتے ہیں ناں کہ ہر شخص کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے۔ ہرشل گبز کے مطابق ہینسی کرونیے کی کمزوری تھی: easy money۔

سنچورین ٹیسٹ کے چوتھے دن ہینسی کرونیے کی ملاقات ایک ایسے آدمی سے ہوئی، جس نے اُس کی زندگی برباد کر دی۔ اس کا نام تھا مارلن ایرنسٹیم (Marlon Aronstam)۔ وہ ایک بُک میکر تھا، یعنی سٹے باز۔ اس نے کہیں سے ہینسی کرونیے کا نمبر حاصل کیا اور پھر اس سے ملاقات کا وقت مانگا۔ ہینسی نے اسے ہوٹل بلا لیا، کمرے میں ملاقات کی۔ اور اُسی کی تجویز کے مطابق اگلے دن ہینسی کرونیے نے ناصر حسین کو اننگز ڈکلیئر کرنے کا مشورہ دیا۔

مارلن بتاتا ہے کہ صبح ساڑھے 9 بجے اسے ہینسی کرونیے کا ٹیکسٹ میسج ملا کہ ناصر نہیں مان رہا۔ لیکن پھر سوا گیارہ سے ساڑھے گیارہ کے درمیان میسج آیا کہ ڈیل از آن! اور پھر اننگز ڈکلیئر ہو گئی، ایک نہیں، دو نہیں ایک ساتھ تین اننگز۔ وہ ہو گیا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ مارلن دوڑا دوڑا اسٹیڈیم پہنچا، انہونی ہو چکی تھی، میچ کا رزلٹ آ چکا تھا۔ دنیا کیا سمجھ رہی تھی اور پیچھے کیا چل رہا تھا؟

اگلے مہینے جنوبی افریقہ کا انڈیا ٹؤر تھا۔ وہ انڈیا، جو سٹے بازوں کا گڑھ تھا۔ جہاں ہر ہر چیز پر سٹہ کھیلا جاتا، ٹاس سے لے کر بالنگ چینج تک۔ اتنے اوورز میں کتنے رنز ہوں گے سے، میچ کون جیتے گا تک۔ یہ سٹے باز جن کھلاڑیوں کو قابو میں لینے کی پہلی کوشش کرتے ہیں، وہ ہوتے ہیں کپتان۔ ہینسی بھی نشانے پر تھے۔ لیکن کرونیے انڈیا میں جیتنا چاہتا تھا، ہر حال میں۔ اس نے وہ کر دکھایا، جو بہت سے نہیں کر پاتے تھے۔

ساؤتھ افریقہ نے انڈیا کو انڈیا میں ہرا دیا، پہلے دونوں ٹیسٹ جیتے اور سیریز جیب میں۔ ٹیم ملک واپس آئی، اتنے بڑے کارنامے پر داد بھی بہت ملی۔ سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ اور پھر وہ دن آ گیا، جب حقیقت دنیا کے سامنے کھل کر آ گئی۔

یہ 7 اپریل 2000 تھا۔ انڈیا کے دارالحکومت دلّی کی پولیس نے ایک پریس کانفرنس کی۔ جس میں بتایا گیا کہ پولیس نے کرمنل کانسپریسی، فراڈ اور چیٹنگ کا ایک کیس درج کیا ہے۔ کس کے خلاف؟ جنوبی افریقہ کے کپتان ہینسی کرونیے کے خلاف۔ اس خبر پر کون یقین کرتا؟ کم از کم کرکٹ ورلڈ میں تو اسے کسی نے نہیں مانا۔ اسے مذاق سمجھا گیا، کچھ لوگوں نے تو یہ تک کہا کہ انڈیا سے ہار برداشت نہیں ہوئی۔ کچھ کہنے لگے دوسروں کو فکسر کہہ کون رہا تھا؟ وہ انڈیا جس کے کپتان محمد اظہر الدین پر پابندی لگی، اور کئی کھلاڑی فکسر ثابت ہوئے؟

اس لیے جنوبی افریقہ نے بھی بڑا سخت ری ایکشن دیا۔ ساؤتھ افریقن کرکٹ بورڈ کے سربراہ علی باقر نے کہا کہ ہینسی کرونیے کی honesty اور integrity پر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ الزام توہین آمیز ہے، ہتک آمیز ہے، اس کی وضاحت کی جائے۔ ساؤتھ افریقن کی گورنمنٹ نے انڈیا سے آڈیو ٹیپس بھی مانگیں، وہ جو اس پورے کیس کا واحد ثبوت تھیں۔ ان آڈیو ٹیپس میں کیا تھا؟ اور آخر انڈیا کی پولیس کھلاڑیوں کی فون کالز کیوں ٹیپ کر رہی تھی؟

بھانڈا پھوٹ گیا

سن 2000 میں دلّی پولیس کی کرائم برانچ کا ایک آپریشن چل رہا تھا۔ یہ بھتہ خوری خلاف خفیہ آپریشن تھا۔ ایسے لوگوں کا پتہ چلانے کے لیے پولیس نے مشکوک فون کالز ٹیپ کرنا شروع کیں۔ ایک دن ایک ایسی فون کال ٹیپ ہوئی، جس میں نہ بھتے کا ذکر تھا، نہ کسی دہشت گردی کا، بلکہ بات ہو رہی تھی کرکٹ کی۔

پولیس کو تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا باتیں کر رہے ہیں؟ تب ایک پولیس اہلکار ایک آڈیو ٹیپ اپنے گھر لے گئے، جہاں ان کے بچوں نے بتایا کہ یہ آواز تو ہینسی کرونیے کی ہے۔ تحقیقات کی گئیں اور بات درست ثابت ہوئی، یہ آڈیو ٹیپ کرونیے اور ایک بک میکر کے درمیان کال کی تھی۔

اب پولیس پوری تیاری کے ساتھ کرونیے کی کالز ٹیپ کرنے لگی اور جب تحقیقات مکمل ہوئیں تو پریس کانفرنس کر کے کرکٹ ورلڈ پر بم گرا دیا۔ جب خبر سامنے آئی تو ہینسی کرونیے نے پہلی ری ایکشن یہی تھا، میں بے گناہ ہوں۔ لیکن تین دن بعد کچھ اور ہو گیا۔

ہینسی کرونیے کا اعتراف

رات دو بجے ایک پولیس افسر کو ہینسی کرونیے کی کال آتی ہے کہ ہوٹل میں میرے کمرے میں آؤ۔ یہاں وہ ایک تحریری بیان حوالے کرتا ہے اور کہتا ہے کچھ باتیں سچ ہیں۔ پھر کئی فونز کھڑکائے جاتے ہیں، آدھی رات کو ساؤتھ افریقہ کرکٹ میں بھونچال آ جاتا ہے۔ ٹیم مینیجر غلام راجا کو بلایا جاتا ہے تو انہیں یقین نہیں آتا، وہ کہتے ہیں کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن ہینسی کرونیے نہیں۔ لیکن جب وہ آئے اور ہینسی کو دیکھا تو کہا، ’’میں تم سے پھر کبھی بات نہیں کروں گا‘‘۔ پھر رات تین بجے علی باقر کو کال ملائی گئی اور ہینسی کرونیے نے بتایا کہ میں نے میچ فکسنگ نہیں کی، لیکن کچھ معلومات دینے کے لیے سٹے بازوں سے پیسے ضرور لیے ہیں۔

زلزلہ برپا ہو چکا تھا!

ہینسی کرونیے کو کپتانی سے ہٹا دیا گیا اور پورے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنا دیا گیا۔ جس نے 7 جون 2000 کو انکوائری کا آغاز کیا۔ یہ تقریباً وہی زمانہ تھا جب پاکستان کرکٹ میں فکسنگ پر قیوم کمیشن کی رپورٹ آئی اور بہت بڑے بڑے کرکٹرز کے نام خراب ہوئے۔ خود انڈیا میں اظہر الدین، منوج پربھاکر، اجے جڈیجا اور دوسروں پر پابندیاں لگیں لیکن ساؤتھ افریقہ کی تحقیقات اِس سب سے مختلف تھیں۔ کنگ کمیشن ٹی وی پر براہ راست نشر کیا گیا تھا، اگر پاکستان اور انڈیا ایسا کرتے تو شاید آج بہت سے لیجنڈز کی وہ عزت نہ ہوتی۔ بہرحال، کیونکہ کرونیے نے اقبالِ جرم کیا تھا، اس لیے انہیں جیل نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن سب کو دلچسپی اس بات میں تھی کہ وہ کہیں گے کیا؟

پینڈورا باکس کھل گیا

کمیشن میں سب سے پہلے بات ہوئی سنچورین ٹیسٹ پر۔ وہ ٹیسٹ جسے تاریخ کا عظیم ترین میچ سمجھا جا رہا تھا، اب شاید اسے بدترین میچ سمجھا جانا چاہیے۔ کرونیے نے تو انکار کیا، اور بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میچ کا رزلٹ لانا مقصد تھا بس! وہ فکس نہیں تھا۔ لیکن کرکٹ کے کئی ماہرین اسے فکس ہی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ فیصلہ تو ہو گیا نا کہ میچ ڈرا نہیں ہوگا؟ یہ فکس نہیں ہے تو کیا ہے؟

اس میچ کے بعد ہینسی کرونیے کو بیوی کے لیے ایک لیدر جیکٹ بھی دی گئی اور 50 ہزار رینڈ بھی۔ کرونیے نے کہا مجھے امید نہیں تھی کہ پیسہ مجھے ملے گا۔ یعنی انھوں نے پیسے لینے کا اعتراف کر لیا، لیکن ایک بار پھر کہا کہ انھوں نے میچ فکس نہیں کیا۔ لیکن سٹے باز کا ایک بیان ایسا تھا، جس نے واضح کر دیا، اس نے کہا کہ پیسہ کمانے کا سب سے آسان طریقہ ہے میچ ہارنا۔ اور ہرشل گبز نے تو یہی کہا، کرونیے کی سب سے بڑی کمزوری تھی: ایزی منی۔ تو دونوں کا ملاپ ہو اور میچ فکس نہ ہو؟ ایسا ہو نہیں سکتا۔

اگلے دن ہرشل گبز کی بھی پیشی ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ انڈیا کے ٹؤر پر ایک رات کرونیے میرے کمرے میں آئے اور کہا کہ میرا ایک دوست ہے، جو تمھیں 15 ہزار ڈالرز آفر کر رہا ہے۔ تم نے 20 سے کم رنز بنانے ہیں بس۔ گبز نے حامی بھر لی۔

پھر اُن کے روم میٹ ہنری ولیمز سے کہا، اگر تم اپنے اوورز میں 50 سے زیادہ کھاؤ تو تمھارے لیے بھی اتنے ہی پیسے ہوں گے۔ اس نے بھی کہا، میں ایسا ہی کروں گا۔

اگلے دن ناگ پور میں انڈیا ساؤتھ افریقہ سیریز کا پانچواں ون ڈے تھا۔ گبز کھیلنے کے لیے میدان میں آئے اور آتے ہی بالرز پر ٹوٹ پڑے۔ انھوں نے ہینسی سے کیا گیا وعدہ بھلا دیا اور 74 رنز کی اننگز کھیلی۔ ہنری نے بھی کچھ ایسا ہی کیا، تین اوورز پھینکے اور زخمی ہو کر باہر چلا گیا۔

یعنی دونوں نے وہ نہیں کیا جو کپتان نے کہا تھا۔ جنوبی افریقہ میچ بھی جیت گیا۔

کچھ دن بعد ہینسی کرونیے نے ہرشل گبز سے کہا، اس میچ کی وجہ سے میرے دوست کو 2 کروڑ رینڈ کا نقصان ہوا ہے۔ یہ بیان سامنے آیا اور واضح ہو گیا کہ بات کہیں آگے بڑھ چکی تھی۔ ہینسی نے صرف خود ہی غلط کام نہیں کیے، بلکہ دو نوجوان کرکٹرز کو بھی خراب کرنے کی کوشش کی۔ وہ بھی ایسے جو گورے نہیں تھے، نان وائٹ پلیئرز۔

ساؤتھ افریقہ جیسے ملک میں، یہ حرکت بہت بہت غلط تھی۔ انھوں نے کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا:

میں اپنے ملک سے بہت محبت کرتا ہوں، اپنے ٹیم کے ساتھ سے بھی، لیکن بد قسمتی سے پیسے سے بھی پیار کرتا تھا۔ مجھے پیسہ پسند ہے اور میں یہ بات نہیں چھپاؤں گا۔ ہاں! میں نے بک میکرز سے پیسے لیے۔ ہاں! میں نے انہیں اُن کی پوچھی گئی معلومات دیں۔ لیکن میں قسم کھاتا ہوں کہ میں جب بھی میدان میں اترا، ساؤتھ افریقہ کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگایا۔ میں نے کبھی کوئی میچ فکس نہیں کیا۔

یہ کہتے ہوئے ہینسی رو پڑے، بک میکر بھی رو پڑا بلکہ اس کمرے میں بیٹھا ہر شخص رو رہا تھا۔ ہینسی کرونیے پر تا حیات پابندی لگا دی گئی اور گبز اور ولیمز کو suspend کر دیا گیا۔

ہو سکتا ہے ہینسی کرونیے برا آدمی نہ ہو، جو لوگ اس کے قریب تھے، وہ تو یہ کہتے ہیں لیکن جب آپ کسی برے آدمی سے پیسے لیتے ہیں تو آپ خود کو ایسے پنجرے میں بند کر دیتے ہیں۔ جس سے آپ کبھی نہیں نکل سکتے۔

انسان غلطی کرتا ہے، لیکن جسے غلطی کا احساس ہوتا ہے وہ ایک بار کرتا ہے اور توبہ کر لیتا ہے۔ لیکن جسے احساس نہ ہو، وہ اس غلطی کو چھپاتا ہے بلکہ اسے چھپانے کے لیے کئی اور غلطیاں بھی کرتا ہے۔ پھر وہ لمحہ آتا ہے جب اس کی غلطیاں زمانے کے سامنے کھل جاتی ہیں۔ اس موقع پر اسے کیا کرنا چاہیے؟ ہینسی کی طرح اقرار کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہینسی کرونیے کی موت ہوئی تو پورا جنوبی افریقہ غم میں تھا بلکہ پوری کرکٹ ورلڈ بھی!

شیئر

جواب لکھیں