ہجوم نے رخ بدلا اور اب وہ سر گنگا رام کے اسٹیچو پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے۔ ایک نے تو بت کے منہ پر تارکول تک مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر اچانک پولیس آ گئی اور گولیاں چلنے لگیں۔ جو گنگا رام کے بت کو جوتوں کا ہار پہنا رہا تھا وہ شدید زخمی ہو چکا تھا، اور اب اسے مرہم پٹی کے لیے سر گنگا رام ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔
پہلے حصے میں ہم نے سعادت حسن منٹو کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالی تھی۔ ایک ایسا جب بچہ جو باپ کی ضد میں ہر کام الٹ کرتا۔ اسکول اور کالج میں بار بار فیل ہو کر بھی مشکل سے مشکل کتابوں کے ترجمے کر ڈالتا۔ کبھی ریڈیو تو کبھی فلموں کے اسکرپٹ لکھتا، مگر ایک لفظ بھی بدل جائے تو گالیوں سے طبیعت صاف کر دیتا۔ ہاں مگر وہی منٹو بیوی کے سامنے کبھی آواز اونچی نہ کرتا۔ وہ ایک وقت خاندان میں اتنا بدنام ہوا کہ اس کی شادی میں رشتہ دار تو دور، سگی بہن بھی شریک نہ ہوئیں۔ پھر منٹو بمبئی سے کراچی آ گئے، بقول ان کے، وہ اتنے مسلمان تو تھے ہی کہ مارے جا سکیں۔
آپ کو منٹو کا نام بڑا اٹریکٹ کرتا ہے، مگر بک شیلف اُن کے افسانوں سے خالی ہے۔ لیکن ایسا کرنے میں آپ اکیلے نہیں۔ منٹو کو پڑھنا اور سمجھنا واقعی بڑے حوصلے کا کام ہے، جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ لیکن ذرا سوچیں کہ جو یہ افسانے لکھ رہا تھا اس میں کس بلا کا حوصلہ ہوگا۔ وہ اپنی تحریروں پر لگے فحاشی کے الزامات پر کبھی عدالت جاتا تو کبھی جیل تو کبھی پاگل خانے۔ مگر اس کی زندگی میں پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ پیسوں کی خاطر افسانے بیچنے لگا، شراب کے لیے بھیک مانگنے لگا، بلکہ ایک وقت تو ایسا آیا کہ بیمار بچی کی دوا لینے نکلا اور انہی پیسوں کی شراب پی گیا۔
سعادت حسن منٹوکی لکھی کہانیاں محض جنسیت سے بھری اور فحش ہیں یا واقعی ان میں کوئی مقصد یا پیغام بھی چھپا ہے؟ آئیے ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں۔
منٹو نے یوں تو ہر موضوع پر لکھا، لیکن یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ان پر فحش لکھنے کی جو چھاپ پہلے دن سے لگی تھی وہ آج بھی برقرار ہے۔ وہ آج بھی اتنے ہی متنازع ہیں جتنے اپنی زندگی میں تھے۔ ایسا نہیں کہ فحش لکھنے پر ان کے خلاف مقدمے پاکستان بننے کے بعد بنے ہوں۔ یہ کام تو برٹش انڈیا کے دور ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ان کے تین افسانوں کالی شلوار، دھواں اور بُو کے شائع ہونے پر فحش لکھنے کا لیبل لگا، لیکن ہر بار انہیں بَری کر دیا جاتا۔
منٹو کیا واقعی فحش نگار تھا؟
اس پر دو طرح کی رائے سامنے آتی رہی ہیں۔ ادبی حلقوں کے نزدیک منٹو کی تحریروں کو فحش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ان افسانوں میں اسی معاشرے کے چلتے پھرتے کردار ہیں۔ منٹو کا قصور یہ تھا کہ اس نے ان تلخ حقیقتوں پر بھی بات کی جس سے لوگ عام طور پر نظریں چراتے ہیں۔
ذوالفقار امروہی کہتے ہیں:
وہ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچ رہے تھے، انہیں پاگل خانے بھیج دیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں کوئی سچ نہیں بولنا چاہتا۔ 75 سال پرانے معاشرے میں سچ بول رہے تھے۔ انتہائی رجعت پسند معاشرہ تھا وہ۔
سیگمنڈ فرائڈ کی طرح سعادت حسن منٹو بھی جنس کو ہوا، پانی، اور غذا کی طرح انسان کی بنیادی ضرورت قرار دیتا۔ اس کے ایک افسانے ’’ڈارلنگ‘‘ پر بہت تنقید ہوئی۔ مذہبی حلقوں نے اسے انتہائی واہیات تحریر کہا۔ منٹو نے اس میں ایک ایسی خاتون کا کردار بتایا ہے جسے ایک شخص اندھیرے میں اپنے ساتھ تعلق پر آمادہ کرتا ہے۔ جب روشنی ہوتی تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ عورت تو نہایت بدصورت ہے۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس بات سے عورت اتنی فرسٹریٹڈ ہوتی ہے کہ اس کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو جاتا ہے۔ اس پر وہ شخص کہتا ہے، ’’میں نے ایک نہیں دو قتل کیے، ایک عورت کا اور دوسرا اس کے جذبات کا۔‘‘
منٹو کا کمال یہ تھا کہ وہ انسانیت سے حیوانیت اور حیوانیت سے انسانیت نکالنے کا ہنر جانتا تھا۔ الفاظ کے چناؤ پر انگلیاں اٹھتیں تو منٹو کچھ یوں جواب دیتا:
اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے وہی کہوں گا۔ مونگ پھلی، میز یا استرا نہیں۔ مگر اس کا کیا علاج کہ بعض حضرات کے نزدیک تو عورت کا وجود ہی فحش ہے۔
سعادت حسن منٹو نے اپنی کئی کہانیاں طوائفوں پر لکھیں۔ اکثر منٹو پر لعن طعن ہوتی کہ وہ طوائف ہی کو کیوں موضوع بناتا ہے۔ منٹو کہا کرتا:
ویشیا یعنی طوائف کا وجود خود ایک جنازہ ہے جسے سماج اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔
ایک اور جگہ منٹو لکھتے ہیں:
گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لئے الگ قسم کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ ویسے ہی ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکتوں سے بھرے ہوتے۔
ایک کہانی ’’کالی شلوار‘‘ لکھنے پر بھی انہیں کورٹ جانا پڑا۔ اس میں سلطانہ نامی ایک مسلمان طوائف محرم آنے پر کالی شلوار خریدنا چاہتی ہے تاکہ عزت سے عاشورہ منا سکے۔ مگر اس کے لیے اسے اپنا جسم بیچنا پڑتا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے جج سے سوال کیا:
سلطانہ جیسی زندہ لاش کی کہانی کو کوئی فحش کیسے کہہ سکتا ہے؟ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔
بالآخر عدالت کو قائل ہونا ہی پڑا۔
نوید صدیقی کہتے ہیں کہ کیا ضروری ہے کہ جو بھی کوئی کری ایٹو آرٹسٹ ہو رائٹر ہو جو بھی ہو وہ ہمارے اخلاقی معیار پر پورا اترے، الکحل کی عادت ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور انہیں نے کبھی ایسا فسارٹ کری ایٹ کرنے کے کوشش اس کے باوجود وہ اردو لٹریچر کے بہترین افسانے نگاروں میں سر فہرست رہا ہے اور بہت عرصے تک رہے گا، ہی واز ریلی پرولفک رائٹر، ہی کریمڈ آ لوٹ ان دوز فورٹی تھری ایئرز۔
منٹو کے ایک افسانے ’’کھول دو‘‘ پر بہت شور مچا، اِس پر بھی فحاشی کا الزام لگا دیا گیا۔ اس افسانے میں تقسیم کے دوران ایک ایسی لڑکی کا حال بیان کیا گیا ہے جو بار بار جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ وہ نیم مردہ حالت میں بستر پر پڑی ہے کہ ڈاکٹر کمرے میں آ کر سورج کی روشنی کے لیے آواز لگاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذرا کھڑکی کھول دو مگر اس نیم بے ہوش لڑکی کو صرف ’’کھول دو‘‘ کے الفاظ سنائی دیتے ہیں، اور اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنے ازار بند پر چلا جاتا ہے۔ یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والا منظر ہے۔
سعادت حسن منٹو کی ایک اور کہانی ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ پر بھی بہت لے دے ہوئی۔ اسے بھی فحش قرار دے کر باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا۔ احمد ندیم قاسی صاحب نے اسے چھاپنے سے انکار کچھ ان الفاظ میں کیا:
منٹو صاحب! معاف کیجیے گا، افسانہ بہت اچھا ہے، لیکن میرے میگیزین کے لیے بہت گرم ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جب ایک اور میگیزین نے اسے شائع کیا تو تمام کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔
مصنف اور صحافی سہیل دانش کہتے ہیں کہ وہ وہ ہمیشہ لائن پھلانگنے کے چکر میں رہتے تھے، وہ تو لگ رہا ہے وہ چھلانک لگا رہے ہیں لیکن وہ جس قبیلے کے سوچ کے رائٹر تھے وہ میرے خیال مین ضرورت سے زیادہ بلنٹ تھے جس کی وجہ سے یہ تک ہوتا ہے کہ ناول وغیرہ ٹھنڈا گوشت گھر میں بھی نہ رکھی کہ کوئی پڑھ نہ لے۔
بنیادی طور پر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ ایک مرد کے جذبات سرد ہو نے یا ضمیر کے بوجھ تلے نفسیاتی طور پر نامرد ہو جانے کی کہانی ہے۔ اس میں ایک سکھ لڑکی کلونت کور کا کردار ہے جو اپنے محبوب ایشر سنگھ کا قرب حاصل کرنے کے لیے بڑے جتن کرتی ہے۔ ایشر سنگھ کی بے رخی پر وہ اسے زخمی کر دیتی ہے اور سینے پر چڑھ کر غصے سے پوچھتی ہے کہ اسے کیوں اس کی ضرورت نہ رہی۔ ایشر سنگھ اسے ہندو مسلم فسادات میں ایک گھر سے جوان لڑکی اٹھا لے جانے کا قصہ سناتا ہے۔ اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے وہ بتاتا ہے کہ اصل میں وہ لڑکی ایک لاش تھی، وہ مر چکی تھی، وہ ٹھنڈا گوشت تھی۔
منٹو کے بارے میں کسی نے درست کہا کہ وہ اپنے افسانوں میں عورتوں کو بے لباس کرتا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے ان ہی عورتوں کے بارے میں لکھا ہے جن کے کپڑے حالات اور معاشرے نے اتارے۔ ’’ہتک‘‘ کی سوگندھی ہو، یا ’’کھول دو‘‘ کی سکینہ، ’’کالی شلوار‘‘ کی سلطانہ ہو یا پھر ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کی کلونت کور، یہ منٹو کے وہ کردار ہیں جو حالات کے مارے ہوئے ہیں۔
ذوالفقار امروہی کہتے ہیں:
منٹو صاحب کے نظریے سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن جو کچھ انہوں نے لکھا کیا وہ غلط اور جھوٹ ہے۔ کیا آج بھی کھول دو کی سکینہ ہمارے معاشرے میں موجود نہیں۔ کیا آج بھی بالا خانے کی طوائف محرم میں کالی شلوار کے لیے پریشان نہیں ہوتی۔ کیا آج بھی لوگ قبروں سے ٹھنڈا گوشت نکال کر لوگ اپنی ہوس پوری نہیں کرتے۔ کیا آج بھی دفتروں میں خواتین کو طوائف کا لائسنس نہیں دیا جاتا۔ اگر یہ سب کچھ لکھنا غلط ہے تو منٹو صاحب واقعی غلط لکھ رہے تھے۔
سعادت حسن منٹو ایک ماہر جراح کی طرح یہ خوب جانتا تھا کہ قلم کی نوک سے کہاں چیرا لگانا ہے۔ وہ جو سوچتا، لکھ ڈالتا۔ اسے بدنامی کا ڈر تھا نہ پکڑے جانے کا خوف۔ وہ تو ایک سر پھرا دیوانہ تھا جسے زمانے کی مخالف سمت میں چل کر بڑا مزا آتا۔ کوئی کچھ کہتا رہے، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
منٹو کے شاہکار افسانے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے کردار بشن سنگھ کو ہی لے لیجیے۔ وہ آج بھی پڑھنے والوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ پاگل خانے کے بشن سنگھ کو نہ ہندوستان سے غرض ہے نہ پاکستان سے۔ وہ ایک ہی رٹ لگائے ہوا ہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب پاکستان اور ہندوستان میں پاگلوں کا تبادلہ ہوتا ہے تو بشن سنگھ کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت بھیجا جاتا ہے۔ لیکن وہ دونوں سرحدوں کے درمیان ایک زور دار چیخ مارتا ہے اور گر کر مر جاتا ہے۔ خار دار تاروں کے ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف پاکستان اور بیچ میں بے نام زمین کے ٹکڑے پر ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا ہے۔
منٹو نے، ’’آخری سلیوٹ‘‘ افسانے میں فوجیوں کی ذہنی تکلیف کو بیان کیا ہے۔ ان فوجیوں نے دوسری جنگ عظیم ساتھ مل کر لڑی تھی۔ وہ پکے دوست تھے، لیکن تقسیم کے بعد کشمیر میں ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے تھے۔ وہ ذہنی طور پر یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ ان کی لڑائی کا آخر کیا مقصد ہے؟ منٹو کا یہ افسانہ بھارت میں پڑھا جائے یا پاکستان میں، ایسا کوئی شخص نہیں جو اس میں چھپا درد محسوس نہ کر سکے۔
سہیل دانش کہتے ہیں:
خواہ وہ ناول ہو یا افسانہ ہو خواہ وہ شارٹ اسٹوریز ہوں اس نے ہر ریڈر کو متاثر کیا اپنی تحریر کی کاٹ سے ذوق سے جب آپ پڑھتے ہیں ان کو تو وہ منظر ساری چیزیں آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ اصل حقیقت میں چلے گئے ہیں۔
سعادت حسن منٹو میں سنجیدگی کے ساتھ مزاحیہ رنگ بھی موجود تھا۔ ان کے بعض جملے دوستوں کو الگ ہی مزا دیتے۔ ان کے ایک دوست نے لکھا ہے کہ ایک بار ایک میم صاحب کی حسین ٹانگوں کو دیکھ کر منٹو کہنے لگے کہ اگر مجھے ایسی چار ٹانگیں مل جائیں تو انہیں کٹوا کر اپنے پلنگ کے پائے بنوا لوں۔
منٹو اپنے خاکے ’’نور جہاں سرور جہاں‘‘ میں لکھتے ہیں:
نور جہاں فلم بینوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا، اگر کبھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اسے سنے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی۔ کہتی ہے کہ اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔
منٹو نے اسی خاکے میں نور جہاں اور ان کے پہلے شوہر شوکت رضوی کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ عاشقوں کی اس جوڑی کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے میں منٹو نے بڑا کردار ادا کیا۔ ان کی شوکت سے بڑی گہری دوستی تھی۔
اب یہ سوال کہ منٹو کیا اپنی زندگی میں بھی ویسے ہی غیرت مند، انا پرست اور خود دار تھے جیسے وہ اپنے افسانوں کے بعض کرداروں میں نظر آتے تھے؟ یہ ایک سفاک حقیقت ہے کہ اپنی ابتدائی زندگی میں اگر وہ ایسے تھے بھی تو آخری سالوں میں شراب نوشی کی لت نے انہیں انتہائی بے بس اور لاچار بنا دیا تھا۔ یہاں تک کہ گھر والوں کو انہیں پاگل خانے بھیجنا پڑا، جہاں ان کا علاج ہوتا رہا۔
سعادت حسن منٹو کے قریبی دوست شاہد صدیقی لکھتے ہیں:
منٹو شراب کے لیے اچھا برا سب لکھ ڈالا۔ایک وقت آیا کہ پبلشرز دور سے دیکھتے کہ منٹو آرہا ہے تو اِدھر اُدھر کھسک جاتے۔ لوگ ان سے دور بھاگتے تھے کہ اب یہ پھر پیسے مانگیں گے۔ منٹو نے اپنی سیلف اسٹیم ہی ختم کر لی تھی۔
شاہد صدیقی کے مطابق منٹو کی اب بالکل وہی حالت تھی جس کا شکار اختر شیرانی، اور میرا جی تھے۔ وہ بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔ ایسے حالات میں منٹو کی لوگ کتنی عزت کرتے ہوں گے، یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
نوید صدیقی بتاتے ہیں:
فیملی ہوگئی تھی، بچے ہوگئے تھے پھر شراب کی لت ایسی تھی بڑی تعداد میں افسانے جو پاکستان آ کر انہوں نے لکھے ہیں وہ تو ڈیلی نیڈز کو پورا کرنے کے لیے آدھے گھنٹے میں لکھا کرتے تھے، ایک اکاؤنٹ ہے ان کا اپنا مجھے اور کچھ ہو نہ ہو چالیس روپے اس لیے کمانے ہیں کہ سینتیس روپے کی بوتل آتی تھی۔
سعادت حسن منٹو کو جب شراب نہ ملتی اور ان کا نشہ ٹوٹنے لگتا تو وہ حد درجے کے خود غرض ثابت ہوتے تھے۔ پوری دنیا ان کے لیے جیسے بے معنی ہو جاتی تھی، یہاں تک کہ ان کے اپنے بیوی بچے بھی۔
ایک دن منٹو کی بیٹی بیمار پڑ گئی، بیوی نے دوا لانے کا کہا۔ منٹو جب گھر واپس آئے تو خالی ہاتھ نہیں تھے، مگر دوا کے بجائے ان کے ہاتھ میں شراب کی بوتل تھی۔ یہ ان کا ایک بھیانک اور خوف ناک روپ تھا۔ جس کا قلم طوائفوں اور مظلوم خواتین کے حق میں تو لکھتا لیکن خود اپنی بیٹی کی زندگی سے زیادہ اسے شراب کی بوتل عزیز تھی۔
ایک بار منٹو شدید بیمار ہوئے، انہیں خون کی ضرورت پڑی۔ ایک نوجوان جو منٹو کے افسانوں کا عاشق تھا کسی طرح منٹو تک پہنچا اور انہیں اپنا خون عطیہ کر دیا۔ اس موقع پر منٹو کی معصوم بیٹی اس نوجوان سے پوچھتی ہے کہ آپ نے ابا کو خون کس لیے دیا؟ وہ نوجوان کہتا ہے کہ سعادت حسن منٹو کی رگوں میں میرا خون دوڑ رہا ہے، یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے۔
ذوالفقار امروہی کہتے ہیں:
جس قسم کے حالات وہ دیکھ رہے تھے کیا اس کے بعد کوئی نارمل رہ سکتا ہے۔ اگر منٹو صاحب میں مان لیا جائے پرابلم تھی تو کیا یہ غالب میں نہیں تھی۔ میر کو ہمیں نصاب سے ہی نکال دینا چاہیے۔ کیا یہ پھر یہ کام کریں کہ کسی پرہیز گار مولوی صاحب کو بلایا جائے کہ آپ افسانہ نگاری شروع کریں۔
معروف مصنفہ عصمت چغتائی نے اپنی یادداشت ’’کاغذی ہے پیرہن‘‘ میں لکھا ہے کہ سعادت حسن منٹو اگر کیچڑ اچھالتے ہیں تو یہ وہ گندگی ہے جسے صاف کرنے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو کی نواسی اور مصنفہ عائشہ جلال نے اپنی کتاب ’’دا پِٹی آف پارٹیشن‘‘ میں لکھا ہے:
چاہے منٹو طوائفوں، دلالوں یا مجرموں کے بارے میں لکھ رہے ہوں، وہ اپنے قارئین پر یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ یہ بدنام لوگ بھی انسان ہیں، اُن لوگوں سے کہیں زیادہ اچھے انسان جنہوں نے منافقت کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔
منٹو کے افسانے ’’چغد‘‘ پر بھی کافی تنقید ہوئی۔ اس میں ایک ایسے شخص کو دکھایا گیا ہے جسے ایک پہاڑی لڑکی اپنی اداؤں سے سب کچھ کہہ دیتی ہے لیکن زبان سے کچھ نہیں بولتی۔ یہ شخص کوشش کے باوجود اظہارِ محبت میں ناکام رہتا ہے۔ ایسے میں ایک اور شخص لڑکی کی زندگی میں آتا ہے اور یہ ’’چغد‘‘ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ اس افسانے پر بھی لوگوں نے منٹو کو نشانے پر رکھا۔
بھارتی مصنفہ ریتی تنوجا کہتی ہیں کہ سعادت حسن منٹو اس خیال سے باز نہیں آتے تھے کہ خواتین کی جنسی ضروریات اور اپنا ایک جنسی وژن ہوتا ہے اور پھر ادب وہی نہیں ہوتا جو زمانے کو سوٹ کرتا ہو۔
سعادت حسن منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگانے اور ان کا دفاع کرنے والے دونوں بڑی تعداد میں ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ادیب وہی لکھتا ہے جو اس کے گردو پیش ہو رہا ہوتا ہے، چاہے وہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔
ایک بات تو طے ہے کہ منٹو کے قلم سے نکلے نشتر ایسے دماغوں میں زیادہ چبھتے ہیں جو ہر چیز کو مذہب اور روایات کےآئینے میں دیکھنے کے عادی ہیں۔
ایک وقت آیا منٹو حالات سے اتنے تنگ ہو گئے تھے کہ اکثر خود کو زندہ قبر قرار دیتے۔ اس میں یقیناً زمانے کا کچھ نہ کچھ قصور رہا ہوگا مگر جس ڈھنگ سے منٹو نے زندگی گزاری، اس میں دوسروں سے زیادہ خود منٹو کا اپنا ہاتھ بھی تھا۔ ایک ایسے اذیت پسند شخص کی طرح جسے خود کو زخم لگانے میں راحت ملتی تھی۔ منٹو چاہتے تو شاید اوسط زندگی جی سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنی عمر کے کئی سال شراب اور سگریٹ کے دھوئیں میں پھونک ڈالے۔ وہ چاہتے تو اپنا طرز زندگی تبدیل کر کے تیس چالیس سال مزید زندہ رہ سکتے تھے مگر نہیں۔ منٹو 42 سال آٹھ ماہ اور چار دن زندہ رہنے پر ہی راضی تھے۔ شاید یہ اچھا ہی تھا کہ، آج کے زمانے میں تو انہیں سننے اور پڑھنے کی زرا بھی تاب نہیں۔
نوید صدیقی کہتے ہیں کہ بہت سارے رائٹرز جو سیف اپروچ لیا کرتے تھے منٹو نے نہیں لی، لکھا اور بہت سخت لکھا مگر بدقسمتی کہیے کہ وہ شاید آج بھی ریلیونٹ اسی لیے ہے۔
سعادت حسن منٹو 18 جنوری 1955 کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ قبرستان جائیں تو چشم تصور سے لگتا ہے کہ ان کی قبر کے ایک طرف منگو کوچوان فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے کھڑا ہے تو دوسری طرف وہ تمام عورتیں نوحہ کنا ہیں جنہیں ایک دنیا بد کردار کہتی رہی۔
ارے ہاں منٹو کے کتبے کے ساتھ کیا ہوا، وہ بات تو کہیں پیچھے ہی رہ گئی۔
سعادت حسن منٹو جب چالیس سال کراس کر گئے تو ان کی چھٹی حس بتانے لگی کہ اب زیادہ وقت نہیں ہے۔ شراب اور سگریٹ نے منٹو کو بالکل کھوکھلا کر دیا تھا۔ منٹو کی زندگی ہی انہیں موت کے منہ میں لے جا رہی تھی۔ شاید یہی احساس تھا کہ جب ظفر زبیری نے ان سے آٹو گراف مانگا تو منٹو نے اس پر اپنا کتبہ لکھ ڈالا:
یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے، منوں مٹی تلے پڑا اَب بھی اِسی فکر میں سرگرداں کہ کون بڑا کہانی کار ہے، خدا یا وہ خود۔
مگر منٹو کے رشتے داروں نے الفاظ بدل کر یوں کر دیے:
یہ سعادت حسن منٹو کی قبر کی قبر ہے جو اَب بھی سمجھتا ہے کہ اُس کا نام لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں تھا۔
وہ منٹو جو اپنی تحریر میں ایک لفظ بھی ادھر سے ادھر کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا، جس نے دلی ریڈیو اسٹیشن کی ملازمت کو محض اس لیے لات مار دی تھی کہ اس کے لکھے ڈرامے کو تبدیل کر دیا گیا تھا، ذرا سوچیے کہ قبر میں اس پر کیا بیتی ہوگی۔ مردے اگر بول سکتے تو منٹو اس ناانصافی پر قبر سے صدائے احتجاج ضرور بلند کرتا۔
معروف صحافی وسعت اللہ خان لکھتے ہیں:
منٹو تمہارے ساتھ اچھا ہوا کہ غالب کا لکھا باقی لوگوں کی طرح ججوں کو بھی سمجھ نہیں آیا۔ ورنہ تمہاری قبر کا کتبہ بھی کسی جج کے کٹہرے میں پایا جاتا۔
منٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زندگی کی بازی ہار کر بھی جیت گیا۔ آج دنیا اسے دوبارہ دریافت کر رہی ہے۔ فلمیں بن رہی ہیں، کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ ہم اور آپ ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج بھی اس کے چاہنے والے بہت ہیں جن کا دعوی ہے کہ منٹو کا نام ایسے ہی زندہ رہے گا جیسے اس کی کہانیوں کے کردار زندہ ہیں۔
سعادت حسن منٹو کون تھا؟ گندی کہانیاں لکھنے والا فحش افسانہ نگار یا پھر اردو ادب کا عظیم مصنف؟ یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔ ویسے جس کی جو مرضی آئے کہتا رہے منٹو کو نہ تو زندگی میں کوئی فرق پڑتا تھا اور اب تو بالکل بھی نہیں پڑتا۔ لیکن ایک بات ہے، کوئی مائی کا لعل ایسا ہوگا جو ہزار سال بعد بھی سعادت حسن منٹو کے بغیر ذرا اردو افسانے کی تاریخ لکھ کر تو دکھائے۔