پاکستان میں یوں تو ایسے موضوعات کی کمی نہیں ہے جن پر بات کرنے سے پہلے انسان ارد گرد نظریں دوڑاتا ہے کہ کوئی سن نہ لے۔ قومی سلامتی اور مذہب دو ایسے موضوعات ہیں جن پر فیکچوئل اور میننگ فل گفتگو سے عام آدمی ہی کیا بڑے بڑے صحافی اور سیاستدان بھی گھبراتے ہیں۔ سیاست اور قومی سلامتی کے اداروں سے جڑی شخصیات پر تو آپ نے ہماری بہت سے آرٹیکل پڑھے ہیں۔
آج ہم ایسے اداروں کی بات کریں گے جو بعض حالات میں قومی سلامتی کے اداروں سے بھی زیادہ طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔ لگ بھگ 40 لاکھ بچوں کا مستقبل ان اداروں کے ہاتھ میں ہیں۔ آج ہم بات کریں گے ملک کے طول و عرض میں پھیلے دینی مدارس کی۔ یہ ادارے کون چلا رہا ہے؟ ان کی نگرانی کو کیا طریقہ کار ہے؟ یہاں بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ غربا ان اداروں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔
لیکن ایک منٹ۔ میں جانتا ہوں کہ مدرسوں کے معاملے پر بڑے ایکسٹریم ویوز پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف انہیں دین کا قلعہ کہا جاتا ہے تو دوسری طرف انہیں انتہاپسند اور کنزرویٹو قرار دے کر تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک فریق کے نزدیک یہ ادارے پاکستان کی شناخت ہیں، تو دوسرے کے نزدیک یہ قومی تشخص برباد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ کچھ لوگ مدرسوں کو بچوں کی بہترین مذہبی اور اخلاقی تربیت گاہ سمجھتے ہیں تو کچھ ان کو ایکسپلوائٹیشن سینٹرز قرار دیتے ہیں۔ ہمیں ان مخالف زاویوں کا بخوبی اندازہ ہے، اس لیے اگر آپ آرٹیکل پڑھنے کے دوران، کسی وقت جذبات سے مغلوب ہونے لگیں، تو میں آپ سے یہی کہوں گا کہ رکیں زرا، صبر کریں اور آرٹیکل آخر تک پڑھیں۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔
پاکستان میں مدرسوں کا سب سے بڑا بورڈ، وفاق المدارس العربیہ ہے۔ ویب سائٹ بتاتی ہے کہ ملک میں اِن سے جڑے مدرسوں کی تعداد 26 ہزار سے اوپر ہے۔ یہاں پڑھنے والے بچے 25 لاکھ اور بچیاں لگ بھگ 15 لاکھ ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی رجسٹریشن کا پراپر طریقہ کار ہوتا۔ نگرانی کا کوئی نظام ہوتا یا کم سے کم حکومت کو یہ معلوم ہوتا کہ ان میں پڑھنے والے بچے کتنے اور کون ہیں۔ مگر ہم کب سے اتنے نارمل ہوگئے؟ پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن ایک معمہ بنا ہوا ہے جس کا حل بظاہر نہ تو حکومت چاہتی ہے اور نہ ہی مدارس۔
مدرسے انگریز دور کے سوسائیٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ اسی قانون کے تحت وفاق المدارس 1961 میں قائم ہوا۔ ہر حکومت یہی کہتی رہی کہ مدارس کی رجسٹریشن کا نظام بہتر کر کے انہیں "قومی دھارے" میں لایا جائے گا۔ مشرف سے لیکر عمران تک، یہ کوششیں ہوئیں مگر ناکام رہیں۔ وجہ کیا ہے؟ کیا یہ کوئی نورا کشتی ہے۔
حکومت کو شکایت ہے کہ مدارس خود کو رجسٹر نہیں کرواتے اور مدارس کو شکوہ ہے کہ کوئی انہیں رجسٹر کرتا ہی نہیں۔ چار مہینے پہلے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی یہ شکایت دہرائی تھی۔ جواب میں وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے فوجی ترجمان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
بات یہ تھی کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے فوراً بعد۔ نواز شریف گورمنٹ میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔ وہیں مدارس کی اصلاحات کا بھی فیصلہ ہوا تھا۔ لیکن 5 سال گزرنے کے بعد بھی صرف 17 ہزار مدرسے ہی رجسٹر ہوسکے۔ ڈی جی ائی ایس پی آر کا جو بیان آپ نے اوپر سنا وہ اسی مایوسی کا اظہار تھا۔ اب یہ ریاستی اداروں کی کوتاہی تھی یا مدارس کی ہٹ دھرمی، جو کام ہونا تھا وہ نہ ہوسکا۔
2019 میں عمران خان حکومت نے وزارت تعلیم کے تحت ریلجیئس افیئرز کا ڈائریکٹریٹ بنایا جس میں تمام مدارس کو رجسٹرڈ ہونا لازمی تھا۔ یہ اس دور میں مدارس کو ایجوکیشن منسٹری کے انڈر لا کر مین اسٹریم کرنے کی کوشش تھی۔ لیکن پھر جادو کی جھپی بیچ میں آگئی۔
ارے نہیں نہیں، یہ والی جھپی نہیں، یہ تو چھبیس ویں ترمیم کی کامیابی کے بعد سامنے آئی تھی۔ میں تو مولانا فضل الرحمان کی اُس جھپی کا ذکر کر رہا ہوں جس سے یہ ترمیم ممکن ہوئی۔ اور مدارس ایجوکیشن منسٹری سے نکل کر پھر سے پہلے والی پوزیشن میں آگئے۔
کیوں مدرسہ کیوں؟
ملک میں ٹوٹل مدارس 32 ہزار سے اوپر ہیں۔ اس تعداد میں ایک راز چھپا ہے۔ 2008 میں کمیلا حیات کے دی نیوز انٹرنیشنل میں شائع ہونے والے اس آرٹیکل کے مطابق 1947 میں صرف 190 مدارس تھے۔ سیوینٹیز کے بعد مدارس کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔ ان کی تعداد 40 ہزار ہوگئی۔ تھینکس ٹو اَور ویری اوون ضیاء الحق صاحب، اینڈ اسپانسرڈ بائے اَور ویری ڈیئر فرینڈ سعودی عربیہ۔ ضیاء دور میں نہ صرف مدارس قائم کرنے کی کھلی چھوٹ تھی، بلکہ سرکاری طور پر انہیں انکریج بھی کیا گیا۔ اس دوران ایران میں خمینی کا انقلاب زوروں پر تھا، جس کے متعلق رفتار کا یہ آرٹیکل آپ پڑھ سکتے ہیں۔ ہمارا دیرینہ دوست اور مشکلوں کا ساتھی سعودی عرب، اس انقلاب سے خوف زدہ تھا۔ اس لیے مدارس کی مدد سے ایرانی انقلاب کے سیلاب پر بندھ باندھنے کا فیصلہ ہوا۔ دل کھول کر، بلکہ یہ کہیے خزانے کھول کر پاکستانی مدارس کی فنڈنگ کی گئی۔ ایک طرف سعودی امداد اور دوسری طرف جرنیل کی آشرباد، پھر کیا تھا، مدارس کی انتظامیہ اور تعداد دونوں آسمان سے باتیں کرنے لگی۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک مدارس آر ناٹ کمنگ سلو۔ وہ کسی قانون کے نیچے آنے کو تیار ہی نہیں۔
ویسے ضیاء دور میں مذہبی طبقہ حکومت کے کتنا قریب تھا، اس قصے سے اندازہ لگا لیں۔ ضیاء جب تہران دورے پر گئے، تو شاہ ایران نے خبردار کرتے ہوئے کہا: "مذہبی طبقے پر اعتماد کرنے میں بہت احتیاط کیجیے گا, ان کو خوش کرنے کی پالیسی تباہ کن ہوسکتی ہے۔"
جواب میں جنرل ضیا نے مسکرا کر صرف اتنا کہا: "پاکستان میں مذہبی جماعتیں محب وطن اور وفادار ہیں، ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں"۔
جب بیرونی فنڈنگ کا نشہ اترا تو جو بڑے مدارس تھے وہ تو اپنے بہتر سپورٹ نیٹورک کی وجہ سے یہ دھچکا برداشت کر گئے۔ لیکن درمیانے اور چھوٹے درجے کے مدرسوں نے چندے کی چادریں پھیلا لیں۔ وہ ایک طرف ملک کے بے شمار غریب بچوں کے لیے مذہب، رہائش اور کھانے کا آسرا تھے تو دوسری طرف انہی کو اشتہار بنا کر عوام سے چندا اکھٹا کرتے تھے۔ بعض نے تو یہ اچھا خاصا کاروبار بنا لیا۔ اس پر آپ ہماری یہ آرٹیکل ضرور پڑھیئے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں واقعی اتنی بڑی تعداد میں مدارس کی ضرورت ہے؟
وفاق المدارس کے تعارفی booklet کے مطابق وہاں سے فارغ التحصیل علما کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ اسی booklet میں یہ بھی لکھا ہے کہ مدارس کا نصاب "معاشرے کی فلاحی تشکیل کے لیے فکری تربیت" کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ فلاحی تشکیل، فکری تربیت، الفاظ تو بڑے بھاری ہیں، مگر کیا ڈھائی لاکھ علمائے کرام کا سماجی رویہ واقعی ان الفاظ کی عکاسی کرتا ہے؟ کیا اخلاقی گراوٹ کے شکار اس معاشرے میں یہ علما واقعی قابل تقلید ہیں؟
چلیے رویے اور اخلاقیات کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ ہزاروں مدارس کے لاکھوں فضلا کی علمی خدمات کیا ہیں؟ علوم تفسیر، فقہ اور حدیث میں پاکستانی علما کی ایسی کونسی تصانیف یا خدمات ہیں جن کا اعتراف عالم اسلام میں کیا جاتا ہے؟
وفاق کے تعارفی booklet کا ذکر ہو رہا ہے، تو ان کے دستور کو بھی سمجھ لیں۔ یہاں یہ صاف طور پر لکھا ہے کہ وفاق ایک خالص تعلیمی اور غیر سیاسی ادارہ ہوگا۔ کسی سیاسی جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اب اس پر ہم صرف یہی کہ سکتے ہیں کہ
ترے وعدے پے جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
مدارس کے دستور کا حال بھی پاکستان کے دستور جیسا ہی ہے۔
THE MADRASAH EMPIRE
غریب ملک ہونے کے باوجود، ایک ایک مدرسہ میں ہزاروں طلبہ بلا معاوضہ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہیں ان کے کھانے پینے، کھیل کود اور رہائش کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ ہانسٹلی اسپیکنگ، کیا یہ معاشرے کی بڑی خدمت نہیں ہے کہ مدارس نہ صرف غریب علاقوں میں موجود بچوں اور نوجوانوں کی کفالت کر رہے ہیں بلکہ ان کو دینی شعور بھی فراہم کر رہے ہیں؟
شہروں میں موجود چند بڑے مدارس پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عظیم الشان رقبے پر پھیلے ہیں۔ ان مدارس میں استاد تو معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں لیکن مہتمم کا ٹھاٹ بھاٹ اور پروٹوکول کسی پولیٹیشین سے کم نہیں ہوتا۔ ایک طرف مدرسے کے شیخ الحدیث پرانی موٹر سائیکل پر آتے ہیں تو دوسری طرف مہتمم صاحب کی لگژری گاڑی کے اطراف ہٹو بچو کا شور ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ہر مدرسے میں نہیں ہوتا مگر مدارس کو قریب سے دیکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ تفریق کوئی انہونی بات نہیں۔ یہاں بھی وہی مسائل ہیں جو ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں دکھائی دیتے ہیں۔
مدارس کے اندرونی نظام کے متعلق ایک اہم بات مدارس کا ماحول بھی ہے۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مدارس کے طالب علم کی علمی استعداد جتنی بھی کم ہو اس کے پاس مخالف فرقے کے خلاف دلائل کا خزانہ ضرور ہوتا ہے۔
ہماری مدارس کے کچھ طلبہ سے آف دی ریکارڈ بات ہوئی تو ان کے تجربات سننے کو ملے۔ ایک طالب علم نے ہمیں بتایا کہ کسی معمولی بات پر انہوں نے کلاس میں سوال اٹھایا تو استاد غصہ ہوگئے۔ طالب علم پر چڑھائی کر دی، اس کے سوال کا غلط مطلب نکالا، یہاں تک کہ اس پر فتوی لگا دیا۔ دوسرے طالب علم نے اس کے بالکل برعکس بات کی۔ اس کے سوال پر استاد نے اس کو سراہا اور اس کے جذبے کی تعریف کی۔ اس سے ہمیں کم از کم یہ تو پتہ چل گیا کہ مدارس ہوں یا اسکول، سوشل میڈیا پر ویڈیوز دیکھ کر ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں قائم کرنی چاہیے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں۔ بہت سے معاملوں کی طرح مدارس کے ماحول کی حقیقت بھی بلیک اینڈ وائٹ کے بجائے گرے ایریا میں ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مدرسہ کا مولوی بھی اسی معاشرے کا فرد ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا رویہ اور برتاؤ بھی معاشرے کے دوسرے لوگوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ کسی دور دراز گاوں میں مسجد کے قاری صاحب کا مزاج اور قوت برداشت ویسے ہی ہوگی جیسی گاؤں کے باقی لوگوں کی ہے۔ یہ کوئی سیٹلائٹ نہیں ہیں، جو سوسائٹی کے اوپر کہیں فضا میں معلق ہوں۔
رفتار کے بانی اور جرنلسٹ کہتے ہیں:
ہم آپ آیسولیشن میں دیکھیں گے تو بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اس دین کے علم برداروں نے سوچنا چھوڑ دیا۔
آج کا نوجوان مارول یونیورس اور اسٹار وارز کے انفلوئنس میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ یا تو آئرن مین اور اسپائڈر مین جیسے کردار کو پاورفل سمجھتا ہے یا پھر سوشل میڈیا ٹولز کو۔ ٹک ٹاک، ایکس اور یوٹیوب اب صرف ٹرینڈز، اوپینیز اور کلچر ہی نہیں، حکومتیں بدلنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن انیسویں صدی میں علما کے پاس ان سے بھی زیادہ پاور فل ٹول موجود تھا۔ فتوی۔
یہ فتوے کوئی قانون نہیں تھے۔ لیکن پھر بھی ایک فرد سے لے کر پورے معاشرے تک اپنا اثر رکھتے تھے۔ غیر مسلم کے ساتھ کھانا کھانے سے لے کر لاوڈ اسپیکر پر اذان دینے تک، مسلمانوں کے ایمان اور عمل کی رہنمائی یہی فتوے کر رہے تھے۔ جہاں عقیدوں کا ٹکراؤ ہوتا تو کفر کے فتوی لگا دیے جاتے۔ ویسے بھی پاکستان میں کسی پر فتوی لگانا اس کے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنے کے برابر ہے۔ میرے اور آپ کے جیسے عام آدمی کا تو ذکر ہی کیا، جب پاکستان کی طاقتور ترین شخصیت بھی فتووں سے محفوظ نہیں۔ علامہ ساجد میر کا سابق سپہ سالار جنرل باجوہ سے متعلق بیان تو یاد ہے نا۔ نہیں جانتے تو ہمارا آرٹیکل "باجوہ کون" ضرور پڑھیئے گا۔
مدرسے دینی درسگاہیں ہیں، ان کا وجود ویسے ہی ضروری ہے جیسے قومی سلامتی کے ادارے ہماری ضرورت ہیں۔ مسجد کے مؤذن، بچوں کے قاری اور محلے کے امام ہمارے محسن ہیں، جیسے سرحد پر کھڑے سپاہی ہمارے محسن ہیں۔ لیکن اب انہیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا، برداشت اور کھلے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے باہر نکلنا ہوگا، طلبہ کو دنیا سے جوڑ کر انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ تاکہ کھرے اور کھوٹے کا فرق سامنے آئے، مدراس کی آڑ میں کوئی مار کوئی کاروبار نہ چمکائے۔ یہ اسلام کے ایسے ادارے بنیں کہ ان کی مثالیں دی جائیں، نہ کہ ان پر انگلیاں اٹھائی جائیں۔