شاہ نواز پچھلے ڈھائی گھنٹے سے لائن میں کھڑا ہے۔ وہ پیدا تو اسی ملک میں ہوا ہے، مگر مسلسل انتظار نے اسے شک میں ڈال دیا ہے۔ کیا واقعی وہ اس ملک کا شہری ہے؟ کیا شناخت کے حصول کا کوئی با عزت طریقہ نہیں؟ تنگ آ کر وہ اب اندر جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مجھے بچوں کے لیے بچوں کے لیے بے فارم بنوانا تھا۔ گھنٹوں سے باہر کھڑا ہوں۔ بس خواری ہے اور ٹائم ضائع کرنا ہے۔ سارا دن یہیں نکل جائے گا۔ پیچھے تو ہم کافی چیزوں کو پینڈنگ میں ڈال کر آئے ہیں۔ آج تو اتفاق سے ہماری چھٹی ہے اور اگر چھٹی نہیں ہوتی تو پھر چھٹی لیکر آنا پڑتا۔ پتہ نہیں کتنی دفعہ آنا پڑے گا۔
میری طرح شاید آپ بھی ان دفاتر کے سامنے سے گزرتے ہوئے سوچتے ہوں گے کہ یہ لائنیں آخر کب ختم ہوں گی؟ یہ شناختی کارڈز عزت کے ساتھ بھی تو دیے جا سکتے ہیں نا۔ عورتوں، بزرگوں کو لائنوں میں لگائے بغیر، پورا پورا دن ضائع کیے بغیر اور سخت دھوپ میں سڑک پر تماشا لگائے بغیر بھی تو یہ کام ہو سکتا ہے۔ پیسے لے کر دی جانے والی اس سروس کا کوئی با عزت حل کیوں نہیں نکالا جاتا؟ کیا اس کی وجہ بیورو کریسی ہے یا بے حسی؟ کرپشن ہے یا لیک آف اکاؤنٹیبیلٹی؟ یا شاید یہ سب۔
میری بیوی ہے جس کا میں نے اسمارٹ کارڈ بنانا ہے۔ پیسے بھی میں دوں۔ اپنا دن کا دہاڑی بھی ضائع کروں۔ بیوی کھڑی ہے وہاں پر بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں ہم جانوروں کی طرح ان کو پیسے بھی دیں۔ نا یہاں کوئی ہمارے لیے سہولت ہے نا کوئی فیسلٹی دی ہے کہ یہاں آ کر ہم ایزی ہوکر بیٹھ جائیں۔ بھیڑ بکریوں کی طرح جانوروں کی طرح لوگ کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ اُس پاکستان کے شہری ہیں جو انہیں عزت نفس دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ملک کا آئین بھی عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہتا ہے۔ یہاں کے وسائل، قانون، حکمرانی کا حق صرف عوام کو حاصل ہے۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟
آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ عوام اس زمین پر خدا کے نائب اور ملک کے حقیقی وارث ہیں۔ ذرا اپنے علاقے کا چکر لگا کر تو دیکھیں۔ تھانے سے لے کر اسپتال تک، نادرا سے لے کر پاسپورٹ آفس تک، کچہری سے لے کر سڑک تک، بے چارے لوگ کبھی علاج، کبھی شناختی کارڈ، کبھی آٹا تو کبھی پانی اور کبھی وی آئی پی سواری گزرنے کے انتظار میں رسوا ہوتے ہیں۔
مہذب دنیا کے حکمران اپنے عوام کے لیے راستے آسان بناتے ہیں۔ ان کی رکاوٹیں دور کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں راستے مشکل اور لمبے کر کے قدم قدم پر رکاوٹوں کے تحفے پیش کیے جاتے ہیں۔ حکومت عوام کو کچھ دے نہ دے، کم سے کم ان ترسے ہووں کو عزت تو دے ہی سکتی ہے، اس کے لیے تو کوئی قرضہ لینے کی ضرورت نہیں؟ لیکن حکومت ایسا نہیں کرتی کیونکہ اس رویے کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ آج ہم آپ کو اسی کے بارے میں بتانے لگے ہیں!
چلیے، چلتے ہیں تقسیم سے پہلے کے ہندوستان میں۔
اگر آپ کسی انگریز افسر کے دفتر میں کام کے لیے آئے ہیں تو بیٹھ نہیں سکتے۔ کیونکہ کرسی صرف اسے ملے گی جس کے پاس کرسی نشین کا سرٹیفکیٹ ہوگا۔ یعنی یہ سرٹیفکیٹ رکھنے والا ہی کرسی پر بیٹھ سکتا ہے۔ اب چوائس آپ کی ہے، کھڑے رہیں یا چلے جائیں۔
یہ وائرس کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے نا۔ جب دھوپ میں کھڑے لوگوں کی لمبی قطار لگی ہو اور کاؤنٹر کے پیچھے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھا شخص جانتے ہوئے بھی دیر کیے جائے، فون پر لمبی لمبی باتیں کرتا رہے۔ لیکن اگر صاحب کا مہمان پہنچے تو فوراً کام کر دے۔
یہ کرسی نشین سرٹیفیکیٹ اصل میں یہ بتانے کے لیے تھا کہ کون اونچے درجے کا انڈین ہے اور کون نچلے درجے کا۔ اسی سرٹیفکیٹ سے گورا صاحب انڈینز پر اپنی برتری جتاتے کہ کہیں کوئی یہ نہ بھولے کہ وہ انگریزوں کے برابر نہیں ہو سکتا۔ آزادی کے بعد یہ سرٹیفکیٹ تو ختم ہو گیا، لیکن سوچ نہ بدلی۔
انگریز دنیا کے امیر ترین ملک میں آئے اور دو سو سال میں اسے غریب ترین کر کے چھوڑ گئے۔ ملکہ صبا نے حکم رانوں کے بارے میں بڑی پتے کی بات کہی تھی، جسے اللہ تعالی نے قرآن کی سورۂ نمل میں کوٹ کیا:
جب انویڈرز کسی علاقے پر چڑھائی کرتے ہیں نا تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت دار لوگوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔
انگریز نے بھی یہی کیا۔ 1770 میں بنگال میں شدید قحط پڑا۔ لوگ اپنے اوزار، اپنے بچے تک بیچنے لگے۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس وقت بھی لگان وصول کرنا بند نہ کیا۔
پھر 1943 میں یہی بنگال دوبارہ قحط سے دوچار ہوا۔ چالیس لاکھ لوگ مر گئے۔ لیکن برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے فوڈ سپلائیز برٹش سولجرز اور یورپ میں ذخیرہ کرنے کے لیے بھیج دیں۔ بنگال میں لوگوں کو مرنے دیا۔
یہ درست تھا کہ تاجِ برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا کیونکہ شاید اندھیرے میں اللہ میاں بھی ان پر بھروسا نہیں کرتے تھے۔
پاکستان بن گیا۔ مگر اس کے بعد بھی بنگالیوں کو حقوق نہ مل سکے۔ مغربی پاکستان کی ایلیٹ نے بنگالیوں کی اکثریت سے ڈر کر کبھی ’’ون یونٹ فارمولا‘‘ بنایا تو کبھی ان پر اردو زبان تھوپنے کی کوشش کی۔ انہیں اقتدار دینے کے بجائے ان کے خلاف قوت استعمال کی گئی اور پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔
یہی نہیں کبھی ان کے قد، کبھی رنگ اور کبھی ’’ٹکے‘‘ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا۔ سینیئر صحافی و مصنف محمود شام کہتے ہیں:
ہم انہیں کہتے تھے کہ یہ دو فٹے کیا کر لیں گے۔ لیکن اب دیکھیں انہوں نے کر کے دکھا دیا۔ علامہ ابن خلدون نے کہا کہ ریاست کی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ آپ عام آدمی کو کم تر سمجھنے لگیں اور حکام یا سلطان اپنے آپ کو برتر سمجھیں تو وہیں سے پھر ریاست کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
برٹش راج میں انگریز افسروں کو لمبی چوڑی تنخواہیں اور جاگیریں عوام پر بھاری ٹیکس لگا کر دی جاتی تھیں۔ جبکہ ہندوستانیوں کی تنخواہیں سو سال تک نہ بڑھائی گئیں۔ آج بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن ہر سال بڑھائی جاتی ہیں لیکن عام مزدور سے لے کر پرائیویٹ ملازمین اس ریلیف سے محروم رہتے ہیں۔ الٹا ان پر ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔
سب کاٹینینٹ میں جو ریلوے نظام انگریزوں کا تحفہ سمجھے جاتے ہیں نا اس کی بھی اصلیت جان لیجیے۔ جو ریلوے نظام بچھایا گیا اس کی برطانوی سرمایہ داروں کو دگنی قیمت دی گئی اور یہ رقم عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ادا کی گئی۔ وہ یہاں پٹریاں بچھاتے اور پھر گورے ان کے ذریعے لوٹ کا مال بندر گاہ سے لندن لے جاتے۔ آج اسی طرح پاکستان میں مہنگی شرائط اور ’’کک بیکز‘‘ پر بجلی گھر لگائے جاتے ہیں، جو بجلی بھلے نہ بنائیں عوام سے پیسے وصول کرتے رہتے ہیں۔ وہی عوام جو آئین میں اس وطن کے مالک و مختار ہیں۔
سینیئر صحافی و کالم نگار اوریا مقبول جان کہتے ہیں:
پاکستان میں ہم کو جو چیز ورثے میں ملی ہے وہ تین چیزیں ملی ہیں ایک پاکستان کی بیورو کریسی، فوج، پولیٹکل الیٹ۔ سول بیورو کریسی اور پاکستان کی فوج جو تھی اس وقت جو انڈین آرمی تھی بنیادی طور پر ان کو بتا دیا گیا تھا کہ آپ پر جو پانچ لاکھ لوگ ہیں یہی اصل محب وطن ہیں باقی تیس پینتیس کروڑ بھارتی غدار ہیں۔ اور انہوں نے ان کو باقاعدہ ان کو ایک سبجیکٹ کے طور پر تیار کیا۔ ISCS کے جو امتحان ہوتا تھا اور جو اس کی ٹریننگ ہوتی تھی اسی ٹریننگ کو ہم نے یہاں فالو کیا۔ اسی طرح کنٹونمنٹ کے اندر جس طرح کی ٹریننگ ہوتی تھی اور باقی سیویلین سے الگ ٹریٹ کیا جاتا تھا بالکل ہم نے اسی طرح رکھا ایک لفظ بھی نہیں بدلا۔ یہی وجہ ہے کہ وہی رویہ آج تک قائم ہے اور اسی رویے کی بنیاد پر عام آدمی آج تک ذلیل و رسوا ہے کیونکہ پاکستان کا جو بھی ایلیٹ ہے اس کو ہم نے آج تک بدلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
یہ انڈین فلم بھگت سنگھ کا سین ہے۔ انگریز ایک ہندوستانی کو اس لیے بری طرح مار رہے ہیں کہ وہ ایسے سنیما میں آگیا جہاں انڈینز اور کتوں کا داخلہ منع ہے۔
برٹش راج میں اپر کلاس کے لیے کئی کلبس بنائے گئے جہاں وہ غریبوں سے دور اپنے جیسے لوگوں سے ملتے۔ عجیب بات ہے کہ یہاں کتوں اور عورتوں کا داخلہ منع تھا۔ آج women empowerment کا نعرہ لگانے والے اس وقت عورتوں کو ایک استعمال کی چیز سمجھتے تھے۔
سینتالیس میں انگریز چلے گئے، مگر سوچ نہ بدلی۔ سندھ کلب کی مثال لے لیجیے۔ ستتر برسوں میں Sind کی اسپیلنگ میں ’’h‘‘ نہیں ایڈ ہوسکا، کیونکہ وہ گورے ہٹا کر گئے تھے۔ اس کو بھی چھوڑیے، مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم، سندھ کی رانی، بے نظیر بھٹو کو سندھ کلب کی ممبرشپ صرف اس لیے نہیں مل سکی کہ وہ ایک عورت تھیں and dogs and women were not allowed inside the club۔
ان دنوں سڑکوں پر غریب کو کھانا کھلانے کا بڑا رواج ہے۔ فلاحی کمپنیاں بڑے بڑے نام سے خیرات اکٹھی کر کے چوراہوں اور پلوں کے نیچے لنگر خانے چلاتی ہیں۔ کھانا تو دیا جاتا ہے، لیکن عزت مٹی میں مل جاتی ہے۔ کیا یہ خیرات دینے والے سیٹھ اور ادارے، اپنی فیملیز کو چلتی روڈ کے کنارے گندی فٹ پاتھ پر ان کے ساتھ بٹھا کر کھلا سکتے ہیں؟ اگر اُن کی عزت نفس ہے تو ان غریبوں کی بھی ہے کیونکہ بنانے والے کے نزدیک سب انسان برابر ہیں۔
مفتی زبیر فرماتے ہیں کہ یہ مناسب طریقہ نہیں مدد کیجیے مگر عزت نفس کو برقرار رکھ کر کے۔ ماہر معیشت شبر زیدی کہتے ہیں کہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ثواب ہے کہ اور اس کو کھانا کھلانا چاہیے مگر اس کو اس طرح کھانا کھلانا چاہیے کہ اس کی ذاتی انا مجروح نہ ہو۔ تو میں نے کہا تھا کہ نمائش کا جو چوک ہے اس پر بٹھانے کے بجائے آپ ان کو نشتر پارک کے اندر بٹھائیں تاکہ جو کھا رہا ہے وہ کھاتے ہوئے نظر نہ آئے کیونکہ وہ اس کی ذاتی انا کو مجروح کر رہا ہے اس لیے بہت سے لوگ جو بھوکے ہوتے ہیں جن کو ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں کھانا کھاتے کیونکہ وہ ان کی تشہیر ہوتی ہے۔ سکھوں کے جتنے گردوارے ہیں ان میں تین ٹائم کھانا ہوتا ہے ان کا سسٹم یہ ہے کہ جو بھی گوردوارے میں جائے گا اس کو کھانا ملے گا تین وقت کا۔ یہ آپ کو مسلمانوں کو ڈالنا چاہیے کہ جو بھی مسجد میں جائے گا اسے کھانا ملے گا۔
مگر یہاں عزت تو صرف پیسے والوں کی ہوتی ہے، غریب کا اس سے کیا لینا دینا۔ سستے آٹے کے لیے قطاریں لگوانے والے حکمران یہ جانتے ہی نہیں کہ غریب۔ ہر گزرنے والی آنکھ کا سامنا کیسے کرے گا؟ کیونکہ اس احساس کے لیے انہیں کم سے کم ایک بار لائن میں لگنا پڑے گا۔
پالیسیاں کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں، اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو اچھی گورننس ممکن نہیں۔ اس کی بڑی مثال ہماری بیرو کریسی ہے۔ برٹش راج سے ہمیں اس بیورو کریسی کا ڈھانچہ تحفے میں ملا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونے والی عوام کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا۔ مگر یہاں تو پرانا ’’مائی باپ‘‘ کلچر اور بھی جڑیں پکڑتا گیا۔ بیورو کریسی انیس سو ڈیڑھ میں ہی جمی رہی۔ نہ خود ٹس سے مس ہوئی نہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ جو ریفارمز بھی ہوئے تو ان کا فوکس گریڈز اور مراعات تک محدود رہا۔ کسی حکومت نے پبلک سروس ڈیلیوری بہتر بنانے پر کبھی دھیان نہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ٹیکس جمع کرانا ہو یا ڈگری پر ٹھپّا لگانا۔ عوام کے نصیب میں عزت کا کوئی گزر ہی نہیں۔
دفتر خارجہ کے باہر پولیس والا نوجوان کو لاتیں مار رہا ہے باوجودیکہ نہ یہ لڑکا دہشتگرد تھا نہ کوئی مجرم۔ یہ تو بس اپنے کاغذات دفترِخارجہ اسٹیمپ کرانے آیا تھا۔ ذرا تصور کریں کہ اگر اس لڑکے کی جگہ سیکریٹری یا وزیر خارجہ کا بیٹا ہوتا تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا؟ ہم بھی کتنے سادہ ہیں، وہ بھلا آتا ہی کیوں؟ پورا دفتر ہی گھر پہنچ جاتا۔
برٹش راج میں انگریز قتل کر کے بھی چھ ماہ بعد چھوٹ جاتے یا انہیں سو روپے جرمانہ ہوتا۔ یہی کام کوئی ہندوستانی کرے تو اسے موت یا عمر قید سے کم سزا نہیں ملتی۔ ریمنڈ ڈیوس ہو یا شاہ رخ جتوئی، پاکستان میں قتل کر کے بھی جیل سے رہائی ممکن ہے۔ مگر غریب، انصاف ہونے تک جیل میں پڑے پڑے انتقال کر جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب قائد اعظم نے پاکستان انگریزوں کے نظام سے آزادی کے لیے بنایا تھا تو پھر ہم اسی میں کیوں جکڑتے چلے گئے؟ اس کی ایک مختصر سی کہانی ہے۔
انگریزوں کے دور میں زرعی زمینیں وفا دار ہندوستانیوں میں بانٹی گئیں۔ یہاں وہ صاحب بہادر کے گھوڑے پالتے۔ یہ بڑی بڑی جاگیریں حاصل کرنے والے وہی چوہدری، سردار اور مخدوم ہیں جنہوں نے جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا۔ انہیں انعام میں نواب، خان بہادر، خان صاحب، کرسی نشین اور سفید پوش جیسے خطابات ملے۔
ان وڈیروں، زمینداروں اور سرداروں کے گھروں میں آج بھی کوئی جوتے پہن کر داخل نہیں ہو سکتا۔ انہی خاندانوں کے چشم و چراغ سول سروس میں اعلی عہدے تک پہنچتے ہیں۔ باپ چوہدری بن کر اور یہ بیورو کریٹ بن کر عوام پر حکمرانی کرتے ہیں۔ پھر چاہے وہ چھوٹا سا سیکشن آفیسر ہو یا ڈپٹی کمشنر، کہنے تو ’’پبلک سرونٹ‘‘ ہیں مگر خود کو آقا سے کم نہیں سمجھتے۔ انہیں اکیڈمی میں وہی سلیبس پڑھایا جاتا ہے جو قیامِ پاکستان سے پہلے انگریزوں نے بنایا تھا۔ جہاں عوام کی حیثیت کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں۔
جب طاقت کا نشہ چڑھتا ہے تو باپ کی عمر کا شخص بھی بیٹا دکھائی دیتا ہے۔ یہی ان خاتون کے ساتھ ہوا۔ سامنے باپ کی عمر کے شخص کو بیٹا کہہ کر پکارنے والی یہ سرکاری افسر جتانا کیا چاہتی ہے؟ مقابلے کا امتحان پاس کر کے ان بچوں میں اتنا تکبر کیوں آ جاتا ہے۔
ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کروائے جن میں ان لوگوں نے حصہ لیا جو اپنی برادری، اپنے مزدوروں اور کسانوں کے ووٹوں سے کامیاب ہو سکتے تھے۔ انہیں آج آپ ’’الیکٹیبلز‘‘ کہتے ہیں۔ ان کے لیے پارٹی ٹکٹ کی کوئی اہمیت نہیں تھی بلکہ پارٹیاں ان کے پاس ٹکٹ لے کر جاتی ہیں۔ محمود شام بتاتے ہیں:
جو سِول حکومتیں بنیں۔ پہلے جنیجو صاحب کی جو ضیاء الحق کی زندگی میں بنی اس وقت سے پاور ٹرانسفر نہیں ہوتا۔ اقتدار پورا منتقل نہیں ہوتا شیئرنگ ہے۔ آخری اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل ہوا، وہ بھی مجبوری کے تحت۔ اب چاہے نواز شریف آئے ہوں یا بے نظیر، اب صرف ’’پاور شیئرنگ‘‘ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہر پرائیویٹ ادارے میں رٹائرڈ جنرل ہر یونیورسٹی میں ایک رٹائرڈ بریگیڈیر۔ بحریہ ٹاؤن میں سب سے زیادہ رٹائرڈ میجر جنرل، بریگیڈیرز وغیرہ ہیں۔ صرف اسی لئے کہ جب سول اداروں میں ایک رٹائرڈ فوجی افسر جاتا ہے تو اس کا کام جلدی ہو جاتا ہے۔
1970 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستان پر بائیس فیملیز قابض ہیں۔ یہی پورا ملک چلا رہی ہیں۔ آج ان خاندانوں کی تعداد چار سو سے پانچ سو تک ہے جن میں سیاستدان، بیورو کریٹ، فوج، عدلیہ، اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں۔
سینیئر صحافی و کالم نگار اوریا مقبول جان کہتے ہیں:
ہمارے یہاں فنڈز کی کمی نہیں ہے فنڈز موجود ہیں۔ آپ دیکھیں کہ کے پی حکومت نے صحت کارڈ نکالا ہے۔ خود سوچیں کہ کہاں سے فنڈز نکالے؟ یہیں سے نکالے۔ آپ نے سوچا کہ یہ جو سرکاری اسپتال ہیں اتنا پیسہ دیتے ہیں اور ضائع جاتا ہے۔ ہم ایک آدمی کو پیسہ دیتے ہیں کارڈ وہ جا کر مارکیٹ میں جا کر اسپتال کھلے ہیں۔ ویسے بھی اس نے آخر میں اپنے باپ کو وہیں لے جانا ہے کیونکہ یہاں تو مارنے والے ہیں۔ تو وہاں جا کر علاج کروائے۔ اسی طرح انہوں نے 8 سال چلایا اور کامیابی سے چلایا۔ ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان فنڈز کو ناجائز استعمال کرتے ہیں، کمیشن خوری کے لیے، دوائیوں کی خریداری کے لیے۔
اسپتال میں کھڑے لوگ کسی احتجاج کے لیے نہیں، بلکہ علاج کے لیے آئے ہیں۔ خیمے لگا کر ہفتوں یہیں پڑے رہتے ہیں اور اسپتال میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ اس خیمے میں رہتے ہوئے بھی یہ دودھ، بسکٹ، پانی بلکہ ہر شے پر ٹیکس دیتے ہیں۔ ریاست ان سے ٹیکس لیتی تو ہے بلدے میں دیتی کچھ نہیں۔
یہ کیسی آزادی ہے؟ یہ کوئی آزادی نہیں۔ ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ یہاں پر صرف ڈاکٹر لوگوں کی حیثیت ہے۔ سرکاری لوگوں کی حیثیت ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایمرجنسی پر جاؤ، بولتا ہے ہمارا کام نہیں ہے۔ پرچی بناؤ۔ یار ہم کیسے پرچی بنائے ہم تو مر رہا ہے۔
یہ کیسی آزادی ہے کہ جس میں ایک عام آدمی قید ہے؟ جس پر گورے کے نظام کی چھاپ ہے؟ یہ کیسا آزاد ملک ہے جو کرسی نشینوں میں گھرا ہے؟ جہاں ایک عام آدمی اپنے حق کے لیے دھکے کھاتا ہے؟
پاکستان کا سلوگن ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ نہیں تھا۔ یہ سب دینا تو اوپر والے کا کام ہے۔ ویسے بھی کوئی انسان کسی دوسرے کو بھلا دے بھی کیا سکتا ہے۔
معاشی ریلیف تو بہت بعد کی بات ہے۔ عوام پہلے بے عزتی میں تو ریلیف حاصل کرلیں اور اس میں نہ تو امریکا رکاوٹ ہے نہ آئی ایم ایف۔ عوام کو عزت دینے سے نہ یہود نے روکا ہے نہ ہنود نے۔
نواز شریف کہتے ہیں حکومت میں آئے تو سڑکیں دیں گے، عمران خان نے کہا لاکھوں گھر دیں گے، بلاول بھٹو نے مفت بجلی دینے کا وعدہ کیا۔ آپ کچھ نہ دیں، ایک پاکستانی کو عزت دے دیں اور بس!