یہ کہانی شروع ہوتی ہے کراچی کی ایک بستی کشمیر کالونی سے۔ جہاں کا رہائشی عاطف زمان دکان پر ٹائر بیچتے بیچتے چند سال میں ٹائر انڈسٹری کا سب سے بڑا ٹائکون بن گیا۔ ایک ایسا ارب پتی جس نے زندگی میں ایک ٹائر بھی امپورٹ نہ کیا اور نہ ہی اس کی کوئی فیکٹری تھی۔ اسے تو اس کی حرکتوں نے ٹائر شاپ سے بھی فارغ کرا دیا تھا۔ لیکن ایک روز اس کا دوست سستے ٹائر لینے کے لیے اس سے رابطہ کرتا ہے اور یہی کال اس کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوتی ہے۔
صحافی بابر سلیم بتاتے ہیں:
اس نے وہ پیسے جیب میں ڈالے۔ ادھار پر ٹائر ڈلوا دیے۔ یہیں سے اسکی راستہ مل گیا کہ یار اس طرح میں پیسے کما سکتا ہوں۔
عاطف زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا مگر اس نے ایک ایسا جال بنا جس میں سب سے پہلے پھنسنے والے نیوز اینکرز تھے۔ ان چمکتے چہروں کے پاس پیسہ تھا اور عاطف کے پاس ایک plan۔
کروڑوں پر لاکھوں ملنے کے لالچ میں وہ بڑے شوق سے پیسہ لگانے کو تیار ہوگئے۔ اب عاطف کے نام نہاد کاروبار کی مارکیٹنگ وہ چہرے کر رہے تھے جن کی خبروں پر پورے ملک کو اعتبار تھا۔ ان کی برانڈ نیو کاریں، فلیٹس اور لیوش لائف اسٹائل سب کو دیوانہ بنا رہے تھے۔ یوں انویسٹرز کا دائرہ دھیرے دھیرے پھیلتا چلا گیا۔
بابر سلیم مزید بتاتے ہیں:
پانچ لاکھ روپے اسے انویسٹمنٹ کے لیے مل گئے۔ پھر اگلی دفعہ اسی انویسٹر کے بھائی نے بیس لاکھ دے دیے۔ اس نے پانچ لاکھ والے کو پرافٹ دیا باقی جیب میں ڈال لیے۔
نیوز اینکرز ٹائر ٹریپ میں کیسے؟
لیکن عاطف نیوز اینکرز تک پہنچا کیسے؟ اصل میں ان دونوں انویسٹر بھائیوں، یعنی ہمایوں اور یاسر۔ کی ٹی وی اینکرز سے بڑی دوستی تھی۔ نیوز اینکر مرید عباس نے ہمایوں کی عاطف زمان کے ساتھ تصویریں دیکھ رکھی تھیں۔
مرید ایک سیلف میڈ لڑکا تھا جو بڑی محنت کے بعد میانوالی کے ایک گاؤں سے اٹھ کر اینکر کی پوزیشن تک پہنچا تھا۔ ایک روز جاگنگ کرتے ہوئے مرید کی ملاقات عاطف زمان سے ہوگئی جو بہت جلد دوستی میں بدل گئی اور پھر مرید عاطف کے ہاتھ پر بیعت کر کے اس کا سب سے بڑا انویسٹر بن گیا۔
ایک اینکر نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو بتایا۔ چار ماہ میں پیسہ ڈبل کرنے کا خواب دکھایا۔ یہ پہلے انویسٹرز کی کھیپ تھی جنہیں دیکھ کر سیکڑوں لوگ عاطف کے جال میں پھنستے گئے۔
یہ پارٹیز کرتے اور سوشل میڈیا پر اس کا خوب چرچا ہوتا۔ بات بڑھتی گئی اور یہ اینکرز سے بینکرز تک پہنچ گئی۔ بینک کے ایک کپل کو تو یہ بزنس اتنا پسند آیا کہ میاں بیوی نوکری چھوڑ کر عاطف زمان کے ملازم بن گئے۔
بابر سلیم مزید بتاتے ہیں:
تو آپ اس سے اندازہ کریں کہ لوگ کس حد تک اس پر بھروسا کر رہے تھے، کشمیر کالونی میں رہنے والا ایک لڑکا جو ٹائر کی کمپنی میں نوکری کررہا تھا۔ وہ 2014 کے بعد سے اچانک ابھرنا شروع ہوتا ہے اور میڈیا کے اینکرز آگے پیچھے گھوم رہے ہے، وہ کبھی کسی ٹی وی چینل میں پایا جاتا ہے اور کبھی کسی ٹی وی چینل میں پایا جاتا ہے، کسی نے یہ کوشش نہیں کی کہ ارب پتی کیسے بن کر سامنے آگیا ہے۔
تو جناب اب انویسٹرز کے سامنے ایک ویڈیو آتی ہے۔ جس میں عاطف زمان اُس وقت کے گورنر پنجاب کو ایک چیریٹی فنکشن میں چیک دیتا نظر آ رہا ہے۔
یہی نہیں، وہ ہر ہفتے کبھی کسی مشہور شخصیت کے ساتھ اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈالتا تو کبھی ٹائروں کے اسٹاک کے سامنے کھڑے ہو کر نئی کھیپ کی مبارک باد وصول کرتا۔
سب اچھا چل رہا تھا۔ مگر پھر 2018 کے دسمبر میں جس شخص نے سب سے پہلے پیسہ لگایا تھا۔ وہ quit کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ شادی کرنے کے بعد لندن شفٹ ہو کر نیا بزنس شروع کرنے کا پلان کر رہا تھا۔ یہ اینکرز کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا۔ انہوں نے کروڑوں روپے ہمایوں کے بھروسے پر لگا رکھے تھے۔ مگر یہاں عاطف سب کو تسلی دیتا ہے کہ فکر کی کیا بات ہے۔ ہمایوں کے ذریعے ملنے والا پندرا فی صد پرافٹ اب تمھیں ڈائریکٹ 25 فیصد ملے گا۔
بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن صرف چار مہینے بعد عاطف نے پرافٹ دینا بند کر دیا۔ اس نے بتایا کہ کام میں کچھ نقصان ہوگیا ہے مگر حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ اب اگلے دو ماہ تک کسی کو پرافٹ ملتا تو کسی کو آسرا۔
پھر جون آگیا۔ اینکر مرید عباس سمیت چار دوست سیر پر باکو گئے ہوئے تھے۔ وہاں ایک دوست عمر ریحان سب سے کہتا ہے:
بظاہر تو سب ٹھیک چل رہا ہے، لیکن کچھ ہے جو ہمیں نظر نہیں آ رہا۔
یہ سنتے ہی سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ہوتا ہے۔ جس کے بعد کسی بھی پونزی یا پائرامڈ اسکیم کا چلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اب انویسٹمنٹ آنی بند ہو جاتی ہے۔
چاروں اینکرز فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اب نہ خود پیسہ لگائیں گے اور نہ کسی اور کو لگانے دیں گے۔ ایک طرف عاطف کے دفتر میں اس کا ملازم صفائی کرتا تو دوسری طرف چاروں دوست پیسے وصول کرنے کی پلاننگ کرتے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی ہر بات عاطف تک پہنچ رہی تھی۔ کیونکہ وہ صفائی والا وہ ڈرائیور کوئی اور نہیں۔ عاطف کا سگا بھائی عادل زمان تھا۔
سات جولائی کی صبح عاطف زمان اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اینکر مرید عباس اور باقی ساتھی چلے آتے ہیں۔ انویسٹرز عاطف زمان سے رقم کا تقاضہ کر رہے تھے۔ ماحول گرم ہو گیا۔ عاطف ایسی بند گلی میں پہنچ چکا تھا جہاں سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اس وقت تو اس نے سب کو واپس بھیج دیا۔ مگر پھر اس نے ایک نیا پلان بنایا۔
خضر کو قتل کرنے کے بعد عاطف مرید کو مارنے اپنے دفتر پہنچا تو دیکھا وہاں صرف عمر ریحان بیٹھا ہے۔ مرید کہاں ہے؟ اس نے پوچھا۔ وہ واش روم گیا ہے۔ عمر نے جواب دیا۔ عمر عاطف کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر چوکنا ہو گیا تھا۔ مگر اسی لمحے مرید واش روم سے باہر نکلا۔ عاطف نے مرید کو کہا۔ تجھے پیسے چاہیں ناں۔ یہ لے۔
ٹائر ٹریپ کا انجام
9 جولائی 2009، بول نیوز اینکر مرید عباس کو قتل کر دیا گیا۔ رپورٹر زارا عباس سے پوچھتا کہ کیا آپ کو شک ہے ’’اس‘‘ نے مارا؟ زارا جواب دیتی ہیں:
شک نہیں یقین ہے، اسی نے مارا ہے۔ عمر ریحان نے روکنے کی کوشش کی، کہتے ہیں ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
کیمرے میں سب ریکارڈ تھا کہ کیسے عاطف ہاتھ میں پستول لیے دفتر سے باہر نکلتا ہے اور اس کے پیچھے عادل بھی دوڑ لگا دیتا ہے۔ کچھ دیر بعد اسی بلڈنگ سے زارا اپنے شوہر کو زخمی حالت میں لے جاتی دکھائی دیتی ہے۔ عاطف زمان یہاں سے سیدھا اپنے اپارٹمنٹ جاتا ہے، پولیس اس کے پیچھے ہے اور وہ یہاں خود کو گولی مار لیتا ہے۔ مگر وہ مرتا نہیں بلکہ زخمی حالت میں اسپتال پہنچ جاتا ہے۔ جس کے بعد اسے جیل ہو جاتی ہے۔