دنیا بھر میں روایتی بینکنگ کے مسائل آج کی معیشت کو درپیش چیلنجز میں سے ایک ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کے پہاڑ، اور بینک رنز جیسے خطرات نے بینکاری نظام کو غیر مستحکم بنا دیا ہے۔ اسی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے رفتار پوڈ کاسٹ میں بینکنگ سسٹم پر تفصیلی گفتگو کی گئی، جہاں معروف ماہر قانت خلیل اللہ نے اپنے خیالات پیش کیے۔
قانت خلیل اللہ یونی لیور اور دیگر نمایاں اداروں میں آڈٹ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ روایتی بینکنگ میں فریکشنل ریزرو سسٹم کی وجہ سے مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے۔ ان کے مطابق اسلامی بینکنگ کا بنیادی اصول شفافیت، منافع اور نقصان کی شراکت داری پر مبنی ہے۔ اس نظام میں قرض سود کے بغیر دیا جاتا ہے، اور تمام مالیاتی لین دین حقیقی اثاثوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ موجودہ اسلامی بینکنگ میں کچھ خامیاں ہیں، جہاں پروڈکٹس کا ڈھانچہ تو بدلا گیا ہے، لیکن روح روایتی بینکنگ سے مختلف نہیں۔
ہمارے مہمان نے فل ریزرو بینکنگ کا ایک ماڈل پیش کیا، جو نہ صرف اسلامی اصولوں کے قریب ہے بلکہ معیشت میں استحکام اور غریب عوام کے لیے سہولت پیدا کرتا ہے۔ اس ماڈل میں، بینک سو فیصد ڈیپازٹس محفوظ رکھتے ہیں اور قرض حقیقی اثاثوں کے بدلے دیتے ہیں، جس سے مہنگائی ختم ہو سکتی ہے۔
ہم نے سوال کیا کہ اگر یہ ماڈل اتنا موثر ہے تو دنیا بھر میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ تو قانت خلیل اللہ نے جواب دیا کہ اسلامی بینکنگ کے اس ماڈل کو دنیا کے کئی ماہرین کی حمایت حاصل ہے، لیکن اس کی پیچیدگیاں عوامی شعور سے دور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ماڈل نہ صرف قرضوں سے نجات دلا سکتا ہے بلکہ ترقی کی راہیں بھی ہموار کر سکتا ہے۔
بینکنگ کے اس انقلابی حل کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے مکمل پوڈ کاسٹ دیکھیں اور اپنی رائے سے ہمیں آگاہ کریں۔