یہ جولائی کی ایک تپتی دوپہر تھی، جھلسا دینے والی گرمی سے ہر شخص بے حال تھا۔ چک بھولا گاؤں کا نَنّھا تبسم بھی گرمی سے گھبرا کر قریب ہی ایک ٹیوب ویل میں نہانے اتر گیا۔ دس سال کا بچہ نہیں جانتا تھا کہ یہ نہانا اسے کتنا مہنگا پڑے گا۔

تبسم کی فیملی اس گاؤں کے جاگیردار غلام غوث کی زمین پر کھیتی باڑی کیا کرتی تھی۔ کام کے بدلے انہیں اس زمین پر جھونپڑا ڈال کر رہنے کی اجازت تھی۔ ایک دن تبسم کے باپ کی جاگیردار کے بیٹے سے بجلی کے بل پر ہلکی پھلکی نوک جھونک ہو گئی۔ ایک کمی کمین کی یہ جرات کے ہم سے بحث کرے، جاگیردار کے بیٹے نے اُسے سبق سکھانے کی ٹھان لی۔

اُس روز جب اس نے اپنے ٹیوب ویل میں تبسم کو نہاتے دیکھا تو طیش میں آ گیا۔ پہلے تبسم کو خوب مارا پیٹا اور پھر اسے اٹھا کر wheat thresher میں ڈال دیا۔ بےچارے تبسم کے دونوں ہاتھ blade سے کٹ کر الگ ہو گئے۔ ایک اور بچہ جاگیردار کی سوچ کی نذر ہو گیا۔

بربریت کا ہنر سیکھا ہے ان لوگوں نے
یعنی معصوم کو بے جرم سزا دیتے ہیں
پروین شاکر

زرا سوچیے، ایک ایسا گاؤں جہاں ہر کسان کی اپنی زمین ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کھیتی باڑی کرتا ہے، فصل اگاتا ہے۔ گھر میں خوشحالی ہے، بچے بھی اسکول جاتے ہیں۔ یہ سن کر اچھا لگ رہا ہے نا؟ مگر نہیں۔ یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی تبسم کا بچپن برباد نا ہوتا، کوئی باپ اپنی اولاد کے بازو کھو کر بھی وہیں کام کرنے پر مجبور نہ ہوتا، کوئی خاندان یوں نسل در نسل غلام نہ ہوتا۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ برسوں سے ایسا کیوں ہوئے چلا جا رہا ہے اور اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس مسئلے کا وہی حل ہے جس کی بات تو سب کرتے ہیں مگر عمل کوئی نہیں کرتا۔ اور وہ ہے لینڈ ریفارمز۔

پاکستان کا بنیادی مسئلہ فیوڈلزم ہے اور اس کے پروان چڑھنے کی واحد وجہ لینڈ ریفارمز کا نہ ہونا ہے۔ اب ذرا یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جاگیردار کا نظام آیا کیسے اور پاکستان میں لینڈ ریفارمز کی کوششیں کس طرح ناکام ہوئیں۔ اگر feudalism کی بیماری کا پوسٹمارٹم کیا جاۓ تو اس کا جنم پاکستان سے بھی کہیں پہلے ملتا ہے۔

یہ بات ہے مغلیہ دور کی جب ریاست کے نوابوں نے سونپے گۓ علاقوں کو اپنی ذاتی جاگیر تصور کر لیا تھا۔ نہ وہ ریاست کو tax جما کراتے بلکہ اپنے علاقوں میں مرضی کا قانون بھی چلاتے۔ جب برطانیہ نے برصغیر میں colonization کی تو اپنا control مضبوط کرنے کے لیے ان جاگیرداروں کی طاقت کا سہارا لینا ضروری سمجھا۔ انہیں land کی equal distribution میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔

وہ تو خود دریائے جہلم کے اطراف کی زمینیں برٹش فوجیوں کو الاٹ کرنے لگے جہاں فوجیوں کے گھوڑے پالے جاتے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ایسی allotted lands میں ڈی ایچ اے اور عسکری کالونیز دکھائی دیتی ہیں۔

انگریزوں کے دور سے لے کر آزادی تک اور اس کے بعد آج تک جاگیردار ہی ملک پر رول کرتے آئے ہیں۔
لیکن یہ زمینیں انہوں نے خون پسینے اور حق حلال کی کمائی سے نہیں خریدی تھیں۔ اگر یہ محنت سے خریدی گئی ہوتیں تو میرا اعتراض شاید غلط ہوتا، لیکن یہ تو شاہ کے وفاداروں اور خوش آمدیوں کو تحفے میں ملی تھیں اور پھر وہی ان زمینوں پر فرعون بن کر بیٹھ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج 25 فی صد خاندان، پورا پاکستان اون کرتے ہیں اور ان میں سے بھی صرف دو فی صد ایسے خوش نصیب خاندان ہیں جو آدھے پاکستان کے مالک ہیں۔

ایوب خان کے دور میں پہلی بار یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص پانچ سو یا ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین اون نہیں کر سکے گا۔ 500 ایکڑ وہ زمین جہاں پانی موجود ہو اور ہزار ایکڑ وہ جہاں پانی نہ ہو۔ یہ پانچ سو ایکڑ بھی کم نہیں ہوتے جناب، پانچ سو فٹ بال گراؤنڈ کے برابر ہوتے ہیں۔ خیر، ہوتا کچھ ہوں ہے کہ 23 فی صد زمین اسی حساب سے تقسیم کر دی جاتی ہے۔

ایوب کے بعد بھٹو کا لینڈ ریفارمز

ایوب خان چلے جاتے ہیں اور بھٹو آ جاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ لینڈ ریفارمز بھٹو سے شروع ہوۓ اور بھٹو پر ہی ختم ہو گۓ تو یہ غلط نہ ہو گا۔ لیکن ٹہریے، بھٹو کے ریفارمز صرف کاغذوں میں ہوئے، زمین پر حالت جوں کی توں تھی۔

ذوالفقار علی بھٹو خود بھی ایک جاگیردار تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے ملک میں لینڈ ریفارمز کا نعرہ لگایا۔ وہ ایوب خان کی لگائی ceiling اور بھی نیچے کر کے ڈیڑھ سو اور تین سو ایکڑ پر لے آئے۔ یہاں ایک نئی بات ہوئی۔ اب تک NGOs، مذہبی اداروں اور افواج پاکستان کی زمین کو ریفارمز کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ مگر بھٹو نے یہ کام بھی کر دکھایا اور شاید انہیں اس کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔

ابھی پہلی ریفارمز پر عمل نہ ہوا تھا کہ بھٹو نے 1977 میں کچھ اور تبدیلیاں بھی کر ڈالیں۔ زمین کی ceiling کو مزید کم کر کے 100 اور 200 ایکڑ کر دیا۔ اب یہاں ایک دلچسپ بات سنیے۔ بہت سے علماء نے سوال اٹھایا کہ کسی کی زمین یوں کس طرح زبردستی لی جا سکتی ہے۔ بھٹو نے یہ شکایت بھی دور کر دی۔ فیصلہ ہوا کہ اب ہر زمیندار کو پیسے دے کر زمین خریدی جائے گی۔

لیکن شاید یہ اپنی نوعیت کے انوکھے ریفارمز تھے جو ایک ایکڑ زمین بھی چھوٹے کاشتکار کو نہ دلوا سکے۔ اور ہاں، ان سب باتوں میں آپ یہ نا بھول جائیے گا کہ آج بھٹو خاندان سندھ کی ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین کا مالک ہے۔

بھٹو کے بعد ضیاء کا لینڈ ریفامز

چلیے اگے بڑھتے ہیں۔ بھٹو کا تختہ پلٹ کر ضیاء کی ڈکٹیکرشپ کا آغاز ہوتا ہے۔ ضیاء بھٹو ہی نہیں، ان کے ریفارمز کو بھی جڑ سے ختم کرنا چاہتے تھے تاکہ آیندہ اس پر کوئی بات بھی نہ کرے۔ لینڈ ریفارمز پر نظر ثانی کے لیے ملک بھر سے 64 پیٹیشنز ضیا کی بنائی شریعت کورٹس میں جمع کرائی گئیں۔ 63 درخواستوں پر عدالتوں نے فیصلہ دیا کہ لینڈ ریفارمز ہونی چاہیے۔ صرف پشاور high court نے لینڈ ریفارمز کو unislamic قرار دیا۔ پھر کیا تھا، ضیاء سرکار نے سپریم کورٹ میں لینڈ ریفارمز کو challenge کر کے قصہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا اور اس کے بعد ملکی سیاست میں یا تو ڈکٹیٹرشپ رہی یا democracy کے نام پر land lords، پیسے اور طاقت کے زور پر vote خرید کر اسمبلیاں چلاتے رہے۔

یہ تو لینڈ ریفارمز کا پاکستان میں ایک چھوٹا سا سفر تھا۔ مگر ان reforms کے نہ ہونے سے جو پاکستان نے انگریزی والا suffer کیا ہے وہ ہماری 78 سالہ policy making پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ لینڈ ریفارمز کہنے کو تو ملک میں بننے والے سیکڑوں قوانین میں سے ایک ہیں، لیکن انہیں اتنا ہلکا نا لیں بوس۔ کیا آپ جانتے ہیں ان ریفارمز کا نہ ہونا national security کے لیے کتنا بڑا تھریٹ ہے۔ کبھی تو اس ملک میں ایک نہتے انسان کو تھریٹ ٹو national security کہہ کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور کبھی طالبان جیسی خطرناک تنظیم کا تھریٹ بھی حکمرانوں کو لینڈ ریفارمز پر آمادہ نہیں کر پاتا۔ آپ تھوڑا حیران ہونگے کہ یہ لینڈ ریفارمز میں اچانک طالبان کہاں سے آگئے۔ بتاتا ہوں۔

2009 سوات کی دوسری جنگ

ٹی ٹی پی حکومت پاکستان کو افغان طالبان کی طرز پر ریپلیس کرنے کا ارادہ کرتی ہے۔ جس کے لیے انہوں نے پہلے northern areas پر قبضہ جمانا شروع کیا۔ لیکن ایک سیکنڈ، یہ سب ان کے لیۓ اتنا آسان کیسے ہو گیا۔ جی ٹھیک سمجھے ،اس کی بھی وجہ وہی تھی، lack of لینڈ ریفارمز۔ کہانی کچھ یہ تھی کہ ملک کے دیگر گاوں دیہات کی طرح سوات کے لوگ بھی جاگیردار اور feudals کے ظلم اور بربریت سے پریشان تھے۔ ہمیشہ کی طرح ہماری حکومت کے پاس انکی پریشانی کا کوئی حل نہ تھا۔ طالبان نے حکومت کی سستی کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ لوگوں سے جھوٹے وعدے کرنا شروع کر دیے۔ وہ کہتے کہ اگر لوگ انکی حکمرانی قبول کر لیں تو انہیں ظالم جاگیردار سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ یوں طالبان سوات کی حسین وادیوں پر چپکے چپکے قابض ہوتے چلے گئے۔

یہ مارچ کا مہینہ ہے۔ شام کے ساڑھے سات بجے ہیں۔ ایک نیلی کار سگنل کراس کرتی ہے۔ کار ایک درمیانی عمر کی خاتون ڈرائیو کر رہی ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک خوفناک منظر بار بار گھوم رہا ہے۔ کچھ روز پہلے اسلحہ اٹھائے چند لوگ ان کے دفتر میں گھسے اور اسٹاف کو دھمکیاں دے کر باہر نکال دیا۔ ابھی وہ اس بارے میں سوچ ہی رہی تھیں کہ اچانک ان کی کار کے آگے ایک موٹر سائیکل آ کر رکی۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھ پاتیں ان پر دو فائر ہوئے۔ORANGI PILOT PROJECT کی ڈائریکٹر، پروین رحمان کو قبضہ گروپ نے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ ان کا ایک ہی جرم تو تھا، وہ غریبوں سے ان کی زمین چھینے جانے کے خلاف آواز اٹھا رہی تھیں۔

ان خوابوں میں ہمدردی ہے انہیں اجاڑ دو۔
یہ قوم کی خشحالی چاہتی ہے اسے مار دو۔

پر یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی، قتل کے اگلے ہی روز پولیس حرکت میں آئی اور قاری بلال نامی طالبان operative کو encounter میں مار دیا گیا۔ بتایا گیا کہ یہی شخص پروین کے قتل کا مجرم تھا۔

مافیا کا راج

آپ یہ سوچ رہے ہیں نا، کہ بھلا اس ملک میں انصاف اتنی جلدی کیسے مل سکتا ہے؟ آپ کا اندازہ ٹھیک ہے، یہ پولیس encounter محض ایک cover up تھا۔ ایک سال بعد یہ انکشاف ہوا کہ پروین پر گولی چلانے والا قاری بلال دراصل ایک کراۓ کا قاتل تھا۔ اسے تو پروین کو ٹھکانے لگانے کے لیے hire کیا گیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد سپریم کورٹ نے اس کیس پر دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا۔ پتہ چلا کہ پولیس نے قاری بلال کو قتل کر کے تمام ثبوت دفن کر ڈالے ہیں۔

اس قتل کے پیچھے زمینوں پر قبضے کرنے والا وہ طاقتور مافیا تھا جس کے سرغنہ الیاس پپو کشمیری اورANP کے لیڈر رحیم سواتی تھے۔ پانچ سال بعد 2018 میں anti-terrorism court نے ان دونوں اور قتل کے دیگر سہولت کاروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس سزا کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل ہوئی اور 2022 میں تمام مجرموں کو بری کر دیا گیا۔ قبضہ گروپ جیت گیا اور اپنی زمینیں گنوانے والے ہار گئے۔

پینتالیس برس پہلے کتابوں میں ہونے والے لینڈ ریفارمز سے لے کر آج تک، بڑے زمینداروں کی ملکیت زمینوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ 1959 اور 1970 کے لینڈ ریفارمز نے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں سے زیادہ زمینداروں کو ہی فائدہ پہنچایا۔ اگر 1977 میں بڑے زمینداروں کو ٹارگٹ بھی کیا گیا تو اس کی امپلیمنٹیشن نہ ہوسکی۔ ان حالات میں اگر کوئی بھی لینڈ ریفارمز کے بغیر زرعی انقلاب کی بات کرتا ہے، تو وہ ایسا ہی ہے جیسے بگھی کو بغیر گھوڑے کے ریس میں اتارنا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی زراعت کا شعبہ تباہی کا شکار ہے۔

شیئر

جواب لکھیں