اگر آپ کا بال بال قرض میں جکڑا ہو تو آپ اس سے نکلنے کے لیے کیا کریں گے؟ ظاہر ہے، اپنے خرچے کم کریں گے اور آمدن بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اگر آپ کو خدا نے ایسے نالائق بچے دیے ہوں جو خرچے پہ خرچہ کیے جائیں، تو آپ کے پاس سر پیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔

اس دنیا میں آپ کا اور میرا ایک عزیز بھی ایسا بھی ہے جس کی کمر جھکی ہوئی ہے اور وہ قرض کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہے۔ اس کے بچے عیاشیاں کم کرنے کو تیار نہیں۔ باقی تو چھوڑیں نوکر اس طرح پیسہ لٹاتے ہیں جیسے کوئی تماش بین طوائف پر بھی نہ لٹائے۔ اور نوکر بھی وہ جو کسی کام کے نہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارا یہ عزیز کون ہے؟

میں بات کر رہا ہوں پاکستان کی۔ آج ہم بات کریں گے نوکر شاہی یعنی بیورو کریسی کی۔ بگڑے بچوں یعنی اشرافیہ کی داستان پھر کبھی سہی۔

تو جناب کہنے کو تو یہ نوکر ہیں مگر حقیقت میں شہنشاہ سے کم نہیں۔ یہ وہ خادم ہیں جنہیں ان کے مالکان، یعنی 25 کروڑ عوام۔ بیل کی طرح کھینچتے ہیں اور یہ گاڑی پر مزے سے بیٹھے انجوائے کرتے ہیں۔

آپ سنتے ہوں گے ملک کا بچہ بچہ قرض میں جکڑا ہے۔ مگر اب تو پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے، 2011 میں ہر پاکستانی پر 70 ہزار روپے قرض تھا، جو آج ساڑھے تین لاکھ روپے ہے۔ پاکستان پر ٹوٹل قرضہ 270 ارب ڈالر ہے، یہ قرض اتنا بڑا ہے کہ اس میں فن لینڈ یا چلی کی معیشتیں آرام سے فٹ ہو سکتی ہیں۔

یہ سن کر آپ کو لگ رہا ہو گیا کہ حالات بہت برے ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے، مگر آپ کے اور میرے لیے۔ سرکاری ملازمین کے لیے نہیں۔

پاکستان میں 32 لاکھ سرکاری ملازم ہیں۔ ان میں سے 5 لاکھ 80 ہزار وفاق میں ہیں۔ ان ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات پر کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

یہ پاکستان کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے۔ جی نہیں اس سے بڑا تو کمشنر سرگودھا کا گھر ہے۔ لیکن ذرا ٹھیریں، اور بھی بائیس گریڈ کے افسر ہیں اس کمشنر کے سوا۔

آپ کو یاد ہوگا پچھلے سال ہم دیوالیے کے قریب تھے اور آئی ایم ایف نے تین ارب ڈالر کا قرضہ دے کر ہمیں بچایا تھا۔ اس قرضے کو ڈبل کر دیں تو اتنی ہی مالیت کے گھر صرف اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کو ملے ہوئے ہیں، وہ بھی بالکل مفت۔

اگر حکومت کچھ نہ کرے صرف ان گھروں کو بیچ کر ان کا پیسہ بینک میں رکھ دے اور وہاں سے ماہانہ ایک فی صد منافع بھی آئے تو کراچی جناح اسپتال جیسے دو اسپتال چل سکتے ہیں۔

عام گھروں کے سرونٹ کوارٹرز آپ نے دیکھ رکھے ہیں، پھر یہ عوامی سرونٹس کو عالی شان محل کیوں دیے جاتے ہیں؟ اور وہ بھی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے۔ یہ کہانی بھی بڑی انٹرسٹنگ ہے۔

اصل میں یہ ہیں برطانوی راج کے وارث، براؤن انگریز۔ برطانوی راج میں افسر برطانیہ سے انڈیا بھیجے جاتے تھے۔ لیکن اسامیاں زیادہ تھیں اور لوگ کم۔ پھر برطانیہ کی کوالٹی لائف چھوڑ کر کون ہندوستان یا افریقہ آتا؟ یہاں برطانیہ نے دو کام کیے ایک تو میرٹ کی شرط نرم کر دی، دوسرا زبردست کمپنسیشن پیکجز آفر کیے۔ کمشنر سرگودھا صاحب کی یہ رہائش گاہ اسی کمپنسیشن پیکج کی باقیات ہیں۔ اسی نظام کا تسلسل ہے کہ آج وفاقی حکومت کے ساڑھے پانچ لاکھ ملازمین کو تنخواہوں اور الاؤنسز میں ہر سال تقریباً ایک ہزار ارب روپے ملتے ہیں۔ بلکہ ملتے کیا ہیں؟ بس چوبیس کروڑ پاکستانیوں کی جیبوں سے نکال کر ان کی جیبوں میں ڈال دیے جاتے ہیں، بارہ کروڑ روپے فی گھنٹہ کی اسپیڈ سے۔

آخر سرکاری نوکری میں ایسا کیا جادو ہے؟ رفتار کو ایک ایسا شخص ملا جو گورنمنٹ جوب کے لیے 66 بار، جی ہاں 66 بار اپلائی کر چکا ہے۔

افسر شاہی کی نوکری میں ایسا کیا ہے کہ چھوڑنا تو دور کوئی ٹرانسفر بھی برداشت نہیں کرتا؟ ایف بی آر کے سابق سربراہ شبّر زیدی سے اس کا جواب ویڈیو میں ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ سرکاری ملازم کو پرائیویٹ ملازم سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہ ملک اور قوم کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں۔ ورلڈ بینک کے بیورو کریسی انڈیکیٹر کے مطابق پاکستان کے سرکاری شعبے میں تنخواہیں پرائیویٹ شعبے سے 53 فیصد زیادہ ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں دنیا کے بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ یہاں کام کرنے والوں کو تو بڑے پیسے اور پَرکس (perks) ملتے ہوں گے۔ لوگ یہاں نوکری کرنے کو ترستے ہوں گے۔ مگر یہ بات آپ کو چونکا دے گی کہ ہمارے سرکاری ملازم، اقوام متحدہ کے ملازمین سے بھی زیادہ مزے میں ہیں۔ کیسے؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

دیکھیں، سرکاری نوکری میں چاہے بیسک پے (basic pay) کتنی ہی کم کیوں نہ ہو لیکن پیکج بہت بڑا ہوتا ہے۔ 22 گریڈ کے ان بابو کو ہی دیکھ لیں۔ ان کی اوسط بنیادی تنخواہ ہے تقریباً سوا لاکھ روپے۔ لیکن کنوینس، رینٹلز، میڈیکل اور دیگر الاؤنسز ملا کر یہ چار لاکھ پچپن ہزار بن جاتے ہیں۔

اب یہ تو وہ آمدن ہے جو سیلری سلپ پر لکھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ الاؤنسز ہیں۔ جیسے گاڑی، ڈرائیور اور فیول ملا کر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے کا مزید خرچہ سرکار ادا کرتی ہے۔ انہیں جو گھر ملتا ہے اس کا کرایہ تقریباً پانچ لاکھ روپے بنتا ہے۔ ہر مہینے میڈیکل الاؤنس کے علاوہ ماہانہ پچیس ہزار روپے میڈیکل کی مد میں مزید دیے جاتے ہیں۔ یعنی سب کچھ ملا کر ایک بائیس گریڈ کا افسر دس لاکھ 54 ہزار روپے کا پڑتا ہے۔ مفت بجلی، گیس، فون کی سہولت، ٹریننگ کے نام پر بیرون ملک دورے اور ’’ہٰذا من فضل ربی‘‘ کی کمائی اس کے علاوہ ہے۔

خیر آگے چلتے ہیں۔ آپ یہ سمجھ لیں کہ مختلف گریڈز کے افسران کے اصل پیکج ان کی بیسک پے سے پانچ یا کبھی کبھی سات گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر ان افسروں کی ترقی کا نظام بھی نرالا ہے۔ اسکول میں بچہ اگر امتحان پاس کرتا ہے تب ہی اگلے گریڈ میں جاتا ہے۔ مگر یہاں ایسا کوئی چکر نہیں۔ بابو پرفارمنس دکھائے نہ دکھائے، وقت پورا ہونے پر اگلے گریڈ میں جائے ہی جائے۔ ان کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہیں۔

جتنی چھٹیاں پاکستان کے سرکاری ملازموں کو ملتی ہیں دنیا میں کہیں نہیں ملتیں۔ مملکت خدا داد میں ایک سرکاری ملازم سالانہ 82 پیڈ لیوز لے سکتا ہے۔ برطانیہ جہاں سے ہم نے سول سروسز کا نظام لیا ہے وہاں بھی سال میں صرف 30 چھٹیاں ملتی ہیں۔ گزیٹڈ ہالیڈیز اور ہفتہ، اتوار کی چھٹی نکال دیں تو ہمارے یہاں سرکاری بابو کو تقریباً آدھا سال دفتر آنے کی ضرورت نہیں۔

بھئی ایسے ہی تو پاگل نہیں ہوتے لوگ سرکاری نوکری کے لیے!

پینشن ہماری ٹینشن

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں نہ کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ ٹھاٹ باٹ سے نوکری کی اور ریٹائر ہوئے تب بھی مزے ہی مزے۔ ریٹائرمنٹ سے ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔ اور وہ کہانی ہے پینشن کی۔

تنخواہ کا ستر فیصد حصہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی پینشن کی صورت میں انہیں ملتا رہتا ہے۔ جو بڑھتے بڑھتے اصل تنخواہ سے بھی 20 سے 25 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ سرکاری ملازم کا انتقال ہو جائے، تب بھی اس کے وارث اگلے 30 سے 40 سال تک اس کے نام پر یہ پینشن وصول کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرضوں اور دفاعی اخراجات کے بعد ہمارے بجٹ کا تیسرا بڑا خرچہ پینشن ہی ہے۔

وفاق میں یہ مزے لوٹنے والوں کی تعداد کتنی ہے؟ آئیے صرف ٹاپ 5 محکمے دیکھ لیتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد امن و امان اب صوبائی مسئلہ ہے۔ لیکن پھر بھی سب سے زیادہ دو لاکھ سینتیس ہزار ملازمین محکمۂ داخلہ میں ہیں۔ ان میں سے دو لاکھ ساڑھے تیرا ہزار ملازمین فرنٹیر کور، فرنٹیر کانسٹبلری (ایف سی) اور رینجرز میں ہیں۔

دوسرا نمبر ہے دفاع کا جہاں ایک لاکھ بائیس ہزار سے زائد ملازم ہیں۔ یاد رکھیں کہ یہ فوج کے لیے کام کرنے والے سول ملازمین ہیں۔ فوج کے اپنے افسران اور اہلکار ان میں شامل نہیں۔ پھر 62 ہزار ملازمین کے ساتھ ریلویز کا تیسرا نمبر ہے۔ پوسٹل سروس میں 23 ہزار افراد ملازم ہیں اور اکیس ہزار ملازمین کے ساتھ ریونیو ڈپارٹمنٹ کا پانچواں نمبر ہے۔ اور تو اور محکمہ موسمیات میں بھی پچیس سو افراد کام کرتے ہیں اور کام وام کیا کرتے ہیں؟ بس الٹی سیدھی پیش گوئیاں کرتے ہیں۔

اس طرح یہ محکمے کتنا کام، میرا مطلب ہے کتنا نقصان کر رہے ہیں یہ دیکھنے کے لیے چلتے ہیں گھنٹہ گھر۔ ریلویز روزانہ 16 کروڑ روپے کا نقصان کرتا ہے یعنی ہر گھنٹے 66 لاکھ روپے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن یعنی پی آئی اے کا گھنٹہ 50 لاکھ روپے کا پڑتا ہے۔ پاکستان پوسٹ ہر گھنٹے دس لاکھ روپے پھونکتا ہے۔

صورتحال پاکستان جیسے ملک کے لیے ’’الارمنگ‘‘ تو ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک چلانے والوں کو اب بھی اس کا احساس نہیں۔ فیڈرل ملازمین کی تعداد ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک سرکاری ملازم کو اگر آج بھرتی کیا جائے تو یہ ٹیکس پیئر کو کتنے کا پڑتا ہے۔

جتنی بھی حکومتیں آئیں سب نے سیاسی مفادات کے لیے سرکاری اداروں میں بھرتیاں کی یہ دیکھے بغیر کہ ان کی قابلیت کیا ہے اور سب سے بڑھ کر ان اداروں میں ان کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔

اس وقت ہر ادارے میں بیشتر ملازم ایسے ہیں کہ اگر ان کو نکال بھی دیا جائے تو کارکردگی پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ بلکہ ان کے نہ ہونے سے الٹا ادارے بہتر کام کریں گے۔

قابل افسران کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں، مگر ’’قابلیت‘‘ شرط ہے۔ اگر آپ کا کبھی سرکاری دفتر جانا ہوا ہو تو ان کی قابلیت سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ اگر یہ سچ میں اتنے قابل ہیں تو ہمارے ادارے ڈیفالٹ کے دہانے پر کیوں پہنچ گئے؟ کہیں یہی تو ادارے ڈبونے کی وجہ نہیں؟

یہ کتنے ایماندار ہیں، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ پچھلے دنوں بے نظیر اِنکم سپورٹ سے رقم لینے والوں میں ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین نکلے۔ اور تو اور ڈھائی ہزار گریڈ سترہ سے بائیس کے افسران تھے۔ یعنی جتنی بڑی سیٹ، اتنا بڑا پیٹ۔ بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات کے باوجود یہ سرکار سے فراڈ کر کے خیرات وصول کر رہے تھے۔

سرکاری ملازمین کے ٹھاٹ باٹ اور ان پر اٹھنے والے خرچوں کا بچے بچے کو پتہ ہے۔ پھر سیاست دان ان کے آگے کیوں مجبور ہیں؟ اسسٹنٹ پروفیسر ندیم احمد خان سے اس سوال کا جواب ویڈیو میں جانیے۔

بیورو کریسی ملک چلانے کے لیے ضروری ہے، لیکن اگر ملک کے بیشتر وسائل ان کے گھر چلانے پر لگ جائیں تو یہ کہاں کی دانشمندی ہے۔

انگریز دور میں ایک سرکاری افسر وائسرائے کی طرح حکومت کیا کرتا تھا۔ یہی ٹھاٹ باٹ آج کے سرکاری افسر کے ہیں۔ انگریزوں نے تو جیسے تیسے اپنا نظام ٹھیک کر لیا مگر ہم اب بھی تک لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔

1948 سے لے کر آج تک بیورو کریسی کو ٹھیک کرنے کے لیے ڈھائی درجن کمیٹیاں بنیں لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی نہ باندھی جا سکی۔

آج سیاست دان اور معیشت دان بھاری تنخواہوں اور پینشنز کو معیشت پر بوجھ تو سمجھتے ہیں، لیکن اس سسٹم کو درست کرنے والا کوئی نہیں۔ ڈر یہ نہیں کہ یہ نظام کیسے چل رہا ہے، اس سے بھی بڑا ڈر یہ ہے کہ کہیں آئندہ بھی ایسے ہی نہ چلتا رہے۔

شیئر

جواب لکھیں