پاکستان کے مسائل کو سیاست، معیشت یا قیادت کی ناکامی تک محدود سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ رفتار پوڈ کاسٹ میں ان مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ جہاں تعلیم کی ناکامی، اختیارات کی مرکزیت، اور انتہا پسندی بھی ہماری ترقی میں اہم رکاوٹیں ہیں۔ اس پر مزید بات کرنے کے لیے ہم نے معروف مصنف، تاریخ دان، اور مالیاتی مشیر یوسف نظر کو مدعو کیا جو 28 سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور پاکستان کی سیاسی، سماجی، اور معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

یوسف نے زور دیا کہ جمہوریت اور آمریت کے درمیان جھگڑے سے ہٹ کر پاکستان کو اپنی بنیادی مسائل، خاص طور پر تعلیم اور برداشت کی کمی، پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان میں جمہوریت کا مطلب صرف انتخابات نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے جو برداشت، تنقید، اور ذمہ داری پر مبنی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ رویے ابھی تک ہماری عوام اور رہنماؤں میں پروان نہیں چڑھ سکے۔ اس ضمن میں سانحہ سقوطِ ڈھاکہ بھی زیر گفتگو آیا جو سیاسی نااتفاقی، معاشی ناانصافی، اور طاقت کے غیر مساوی استعمال کا نتیجہ تھا۔

یوسف نظر نے گفتگو کا آغاز ملک کے نظام کی کمزوریوں سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مسائل صرف سیاسی یا عسکری نہیں ہیں بلکہ ان کی جڑیں جہالت اور تعلیم کے فقدان میں ہیں۔تعلیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام اپنی بنیادوں سے کمزور ہے۔ بجٹ کا ایک معمولی حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے، اور دیہی علاقوں میں اسکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے، نوجوان نسل کی تعلیم اور ان کو جدید مہارتیں فراہم کی جا سکتی ہیں، جیسا کہ بنگلہ دیش نے کیا ہے۔

معاشی مسائل پر بات کرتے ہوئے یوسف صاحب نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے اختیارات کو مرکزیت سے ہٹاکر مقامی سطح پر منتقل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ ترقی یافتہ ممالک جیسے برطانیہ اور امریکا میں مقامی حکومتیں اپنے وسائل اور ٹیکس جمع کر کے اپنے مسائل حل کرتی ہیں، جبکہ پاکستان میں تمام فیصلے مرکزی حکومت کرتی ہے، جو غیر مؤثر ہے۔

انتہا پسندی پر بھی انہوں نے کھل کر بات کی کہ مذہبی اور نسلی شدت پسندی نے قوم کو تقسیم کیا ہے، اور جب تک ہم اس مسئلے کو حل نہیں کریں گے، ترقی ممکن نہیں۔ یہ اور اس جیسے مزید اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو کے لیے مکمل پوڈ کاسٹ ضرور دیکھیں۔

شیئر

جواب لکھیں