آپ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن نہ تو ووٹ مانگنے کی ہمت ہے اور نہ کوئی تجربہ؟ تو فکر نہ کریں، آپ کو بس ایک دوست کی ضرورت ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک دوست بھلا الیکشن کیسے جتوا سکتا ہے؟ ضرور جتوا سکتا ہے، اگر وہ سردار سکندر حیات ہو۔

یہ 1937 کی بات ہے۔ برصغیر میں انگریزوں سے آزادی کی تحریک زوروں پر ہے۔ متحدہ پنجاب میں پہلی بار الیکشنز کا اعلان ہوتا ہے۔ سردار سکندر حیات کے سر پر اپنے دوست مولوی غلام محی الدین کو اسمبلی میں لانے کا بھوت سوار ہے۔ اس کے لیے وہ ایک چال چلتے ہیں۔ جس کی جھلک آپ کو سیاست میں آگے چل کر بھی دکھائی دیتی رہے گی۔

سردار سکندر کے دوست مولوی غلام محی الدین قصوری ایڈووکیٹ۔ کہنے کو تو بڑے پائے کے مقرر تھے۔ قومی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے مگر گاؤں گاؤں ووٹ مانگنے سے ذرا گھبراتے تھے۔

بہرحال، سردار سکندر یہ طے کر چکے تھے کہ مولوی صاحب کو ہر حال میں رکن منتخب کروانا ہے۔ انہوں نے اپنا منصوبہ کچھ اس طرح ترتیب دیا۔ کہ ان کے دام فریب میں آنے والوں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ انہیں ’’شہ مات‘‘ ہو گئی ہے۔

سردار سکندر نے پہلے شیخوپورہ کی ایک دیہی نشست سے مولوی صاحب کے کاغذات جمع کروائے۔ پھر سردار صاحب نے علامہ عبداللہ یوسف کو مسلمانوں کی مؤثر نمائندگی کے نام پر۔ انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔

علامہ انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کر چکے تھے۔ کئی کتابیں لکھ ڈالی تھیں۔ وہ مسلمانوں کے لیے کچھ کرنے کا جذبے لیے میدان میں اتر گئے۔ سردار سکندر یہاں سے فارغ ہوئے تو علاقے کے ایک بڑے زمیندار کے پاس جا پہنچے اور اسے بھی الیکشن لڑنے پر تیار کر لیا۔

جب سردار صاحب کے پلان کے مطابق اس سیٹ پر تینوں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے تو اب انہوں نے دوسری چال چلی۔ وہ زمیندار سے ملے اور علامہ کی علمی عظمت کا قصیدہ پڑھ دیا۔ اسے یہ باور کروایا کہ علامہ جیسی علمی شخصیت اگر یہاں سے ہار گئی تو علاقے کے معززین کی بہت بدنامی ہوگی۔ پنجاب کا یہ سادہ لوح زمیندار، سکندر حیات کے فریب میں آگیا اور کاغذات واپس لے لیے۔

سردار سکندر یہاں سے نکلے تو علامہ کے پاس چلے آئے۔ انہیں بتایا کہ ہماری تو بہت خواہش تھی کہ آپ جیسا لائق آدمی اسمبلی میں موجود ہو لیکن آپ کے مقابلے میں علاقے کا جو بڑا زمیندار ہے۔ اس سے جیتنا بڑا مشکل ہے۔ کہیں آپ ہار نہ جائیں۔ اس سے آپ کے علمی وقار کو بھی دھچکا لگے گا، میرا تو خیال ہے آپ اپنا نام واپس لے لیں۔

یہ وار بھی کارگر ثابت ہوا۔ یوں علامہ عبداللہ یوسف علی بھی دستبردار ہو گئے۔ جب انتخابی گلیاں سونی ہو گئیں۔ تو ان میں مرزا یار دندناتا پھر رہا تھا۔ آسان الفاظ میں کہیں تو مولوی غلام محی الدین بلا مقابلہ ممبر منتخب ہو گئے۔ سردار سکندر وزیر اعلی بنے اور اپنے دوست کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اسمبلی پہنچ گئے۔

کہنے والے نے درست کہا ہے:

مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم
تو نہ سمجھے گا سیاست، تو ابھی ناداں ہے

کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر اب تو یوں لگتا ہے کہ دماغ بھی نہیں ہوتا، ورنہ سیاسی تاریخ اتنی عبرتناک نہ ہوتی۔

پاکستانی سیاست کے دو رُخ قابل ذکر ہیں:

  1. موروثیت اور اقربا پروری
  2. اقربا دشمنی

یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ کہیں قریبی رشتے دار ہاتھ تھامے انتخابی معرکے میں اترتے ہیں تو کہیں اپنا خون میدان سیاست میں تلوار سونتے کھڑا ہوتا ہے۔

کہنے کو تو جمہوریت، بادشاہت کی مخالفت میں آئی مگر ہُوا یوں کہ جمہوریت کے نام پر میدان سیاست میں اترنے والے موروثیت کی دلدل میں اتر گئے۔

سینیئر جرنلسٹ عامر ضیا کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ابھی بھی جاگیرداری مضبوط ہے، ہماری جمہوریت میں وہ ٹیڑھا پن ہی ہوگا کیونکہ ابھی تک وہ جاگیردارانہ مزاج ہے!

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

یہ شعر ہے آغا شورش کاشمیری کا جو طنز ہے ہمارے ملک کے طرزِ سیاست پر۔ ایسی سیاست، جس نے پاکستان کو تماشا گاہ بنا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سقوطِ ڈھاکا سے آج بلوچستان کے حالات تک، بڑی سے بڑی بات ہو جائے لیکن عوام ہر معاملے کو ’’لائٹ‘‘ ہی لیتے ہیں۔ اور بزبانِ حال کہتے ہیں، ’’ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے‘‘۔

سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان کی سیاست جس بحران کی شکار ہے، بلکہ جس اخلاقی زوال کی شکار ہے، اگر آغا صاحب زندہ ہوتے تو یہ کہنا بھی کافی نہ سمجھتے اور بات طوائف اور تماش بین سے کہیں آگے نکل جاتی۔

سینیئر جرنلسٹ اجمل جامی کہتے ہیں کہ جو پانچ سو ستر کے قریب خاندان ہیں، جو کنبے اور خاندان ہیں یہ impower ہوتے رہے۔

ہمارے ملک کی سیاست صرف رنگا رنگ ہی نہیں، گرگٹ کی طرح رنگ بھی بدلتی ہے۔ اس پر الیکشن ہو جائیں تو سمجھیں سیاست کا موسمِ برسات آ گیا۔ برساتی مینڈکوں اور موسمی سیاستدانوں کے دم قدم سے ڈیروں اور بیٹھکوں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔

خوشی اور غمی کی محفلیں اور مجلسیں تو نشانے پر ہوتی ہیں کیونکہ ’’ووٹر ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں‘‘۔

سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کے اتنے رنگ اور اتنی صورتیں ہیں کہ اگر اس کو ذہن میں رکھ کر تصویر بنائی جائے تو ’’راون‘‘ کی صورت بن جائے گی جو اپنے دس سروں کے ساتھ لنکا ڈھانے کی وجہ بنا تھا۔

انہی پہلوؤں میں سے ایک ہے: موروثیت یعنی سیاست کا خاندان ہی میں رہنا۔

اس سے پہلے کہ موروثی سیاست کے چہرے سے نقاب الٹا جائے، قیام پاکستان سے پہلے کی سیاست کا ورق الٹتے ہیں۔

یہ بات تو آپ اچھی طرح سمجھ چکے ہوں گے کہ یونیئنسٹ پارٹی ابن الوقت قسم کے افراد کا ٹولہ تھی۔ اس ٹولے کا سربراہ سردار سکندر جیسا کائیاں سیاستدان تھا۔ اس کے کارناموں کی ایک جھلک آپ نے دیکھی۔ جب اس ٹولے نے پاکستان کا قیام حقیقت جانا تو گروہ در گروہ مسلم لیگ میں شامل ہونے لگا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ کے بعض افراد میں۔ یہ تشویش پیدا ہو گئی کہ کہیں مسلم لیگ ’’زمیندار لیگ‘‘ نہ بن جائے۔

پاکستان کی بات کریں تو نظریاتی پارٹیاں ہوں یا قوم پرست جماعتیں، حتی کہ مذہبی سیاسی اور غیر سیاسی جماعتیں بھی خاندان میں سمٹ کر رہ گئیں۔

یوں تو یہ فہرست خاصی طویل ہے مگر سرسری جائزے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون کتنا اصول پسند ہے۔

خان عبدالغفار خان پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں اصولی سیاست کا بڑا نام ہیں۔ عدم تشدد کے نظریے نے انہیں ’’سرحدی گاندھی‘‘ کہلوایا اور پختونوں نے انہیں ’’باچا خان‘‘ پکارا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ خدائی خدمتگار خان عبدالغفار خان کے بعد ان کی پارٹی کو ان کے سیاسی ولی عہد خان عبدالولی خان کی قیادت نصیب ہوئی۔ اور جب ولی خان نے سیاست کو خیر باد کہا تو قیادت کا ہما ان کے لخت جگر اسفند یار ولی خان کے سر پر جا بیٹھا۔ بات آگے بڑھی تو اسفند یار سے ہوتے ہوئے ان کے نورِ نظر ایمل ولی خان تک جا پہنچی جو باچا خان کے پڑپوتے ہیں۔

جب پاکستان کو پہلے مارشل کا سامنا کرنا پڑا تب اس فوجی بندوبست کی باگ ڈور ایوب خان کے ہاتھوں میں تھی۔ مگر پھر سیاست کا چسکا لگا تو وردی کے ہوتے ہوئے بھی ’’مسلم لیگ کنونشن‘‘ کے صدر بن گئے۔ یہ سیاست ان کے خاندان کو کچھ ایسی بھائی کہ صاحبزادے گوہر ایوب بھرپور طریقے سے سیاست انجوائے کرنے لگے۔ اور ان کے بعد عمر ایوب مختلف پارٹیوں سے ہو کر اب پی ٹی آئی کی منڈیر پر جا بیٹھے ہیں۔

ضیاء الحق کی آمریت اور سیاسی مداخلت کے نتائج میں سے ایک ان کے فرزند ارجمند اعجاز الحق ہیں جو ن لیگ میں وزراتوں کا جھولا جھولنے کے بعد ’’ضیا لیگ‘‘ بنا کر بیٹھے ہیں۔

ضیاء الحق کے مارشل لا میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے۔ جونیجو لیگ کے ہاں ن لیگ کی پیدائش ہوئی۔ جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو پنجاب چلانے کے لیے بھائی شہباز شریف سے بہتر کوئی نگاہ میں جچا ہی نہیں۔ جب نواز شریف عدالت سے نااہل ہوئے تو پارٹی کی سربراہی اسی بھائی کے سپرد کر دی۔

حالات نے ایک اور کروٹ لی تو شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ قرار پائے۔ ادھر نواز شریف کی بیٹی مسلم لیگ کی چیف آرگنائزر بنا دی گئیں۔ آج پاکستان کے سیاسی اُفق پر بھائی شہباز شریف وزیر اعظم اور صاحبزادی مریم سب سے بڑے صوبے کی آئینی سربراہ ہیں۔

اجمل جامی کہتے ہیں:

یہ اپنے اپنے علاقے میں جو آپ کی ساکھ ہے اس کے مطابق آپ کا برتاؤ ہے۔ یہ اقتدار کے لیے مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے بیٹیاں بھی لانچ کر دیتے ہیں ضرورت پڑے تو اہل خانہ بھی آ جاتے ہیں۔

مسلم لیگ ن نے جب اس سال الیکشن کے لیے امیدواروں چنے۔ تو کہیں باپ بیٹا، کہیں بھائی بھائی، کہیں چچا بھتیجا، حتیٰ کے میاں بیوی کو بھی ٹکٹ دے ڈالے۔

ذرا ایک اور جھلک ملاحظہ فرمائیں۔

میاں محمد نواز شریف اور ان کی سیاسی وارث مریم نواز دونوں الیکشن لڑے۔ بھائی شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز بھی انتخابی میدان میں تھے۔ مسلم لیگ ن لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر قومی اسمبلی سے اور بیٹا فیصل صوبائی اسمبلی سے الیکشن لڑا۔ لاہور کے افضل کھوکھر قومی اسمبلی جبکہ بھتیجا عرفان کھوکھر صوبائی اسمبلی سے الیکشن لڑے۔ ڈیرہ غازی خان سے اویس لغاری اور راجن پور سے بیٹے عمار لغاری کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا۔

لاہور سے خواجہ سعد رفیق قومی اسمبلی اور بھائی سلمان رفیق صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے۔ شیخوپورہ سے سابق وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف قومی اسمبلی اور ان کے بھائی میاں امجد لطیف صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ راجن پور سے سابق ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو صوبائی اور ان کے چچا ریاض مزاری کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا۔ فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ خان کو قومی اسمبلی اور ان کے داماد رانا احمد شہریار کو صوبائی ٹکٹ ملا۔

یہی نہیں، مظفر گڑھ سے بہاولپور تک ٹوبہ ٹیک سنگھ سے قصور تک، ڈیرہ غازی خان سے تونسہ تک اور خانیوال سے لودھراں تک باپ کے بعد بیٹے یا بیٹی کو ٹکٹ ملتے رہے۔ جھنگ سے میاں بیوی تو وہاڑی سے ماں بیٹے کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔

اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کریں تو یہاں معاملہ ن لیگ سے مختلف نہیں۔

پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کے بعد ان کی جانشینی ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کے حصے میں آئی اور جب وہ بھی نہ رہیں تو پی پی کے راج سنگھاسن پر ذوالفقار بھٹو کے داماد جلوہ افروز ہوئے۔

آصف علی زرداری نے اپنی زندگی ہی میں بلاول بھٹو کو نہ صرف پارٹی کا چیئرمین بنایا بلکہ عمران خان کی رخصتی پر بننے والی حکومت میں انہیں وزیر خارجہ بنوا دیا۔ مزید تماشا یہ کہ الیکشن 2024 کے ضمنی انتخابات میں آصف زرداری کی بیٹی اور بلاول کی بہن آصفہ بھٹو بلا مقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئیں۔ پھر آصف زرداری کی حقیقی بہن فریال تالپور بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔

سینیئر جرنلسٹ مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں:

اب پیپلز پارٹی جو ہے اس میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی سیاست، موروثیت میں بھی تو اہلیت کا بڑا اثر ہوتا ہے نا، یہاں بھی اہلیت موجود تھی تبھی تو سیاست منتقل ہوئی نا، میں اسے اہلیت سمجھتا ہوں ورنہ بیٹے بیٹھ جاتے۔

سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک نے خود قومی اسمبلی سمیت دو صوبائی نشستوں کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ پرویز خٹک کے بیٹے ابراہیم خٹک اور اسماعیل خٹک نے نوشہرہ سے الیکشن میں حصہ لیا۔ جبکہ داماد عمران خٹک بھی قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔

اسی طرح سابق وزیر اعلیٰ ارباب جہانگیر مرحوم کے فرزند سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر اور ان کی اہلیہ عاصمہ عالمگیر دونوں الیکشن میں امیدوار تھے۔ ارباب عالمگیر نے قومی اسمبلی کی نشست پر پشاور سے کاغذات جمع کرائے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے ارباب عاصمہ عالمگیر کو قومی اسمبلی میں خواتین کی نشست پر ٹکٹ جاری کیا۔ ارباب فیملی سے ارباب زرک خان نے بھی صوبائی کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔

خاندانی سیاست کے مخالف پی ٹی آئی رہنما علی امین گنڈا پور نے بھی اپنوں ہی میں ٹکٹ تقسیم کیے۔ علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین نے الیکشن میں حصہ لیا۔ جبکہ ان کے بھائی عمر امین ڈیرہ سٹی کے میئر ہیں۔

نواز لیگ کے امیر مقام نے خود این اے اور پی ایس کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ تو دوسری جانب ان کے بھائی ڈاکٹر عباد اور بیٹے نیاز احمد خان نے بھی شانگلہ سے کاغذات جمع کروائے۔

سابق وفاقی وزیر داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور بیٹا دونوں الیکشن لڑ رہے تھے۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ان کے بھائی عاقب بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر حصہ لینے کے لیے میدان تھے۔

سینیئر جرنلسٹ عامر ضیا کہتے ہیں:

سو کالڈ ڈیموکریٹک پارٹیز ہیں دعوی کرتی ہیں۔ عام آدمی آ کر جیت جائے تو یہ نہیں ہو سکتا۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کی بات کریں تو ان میں سب سے قابل ذکر جمعیت علما اسلام ف ہے۔ جمعیت علما اسلام کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ کہ یہ دین پسندوں کی جماعت ہے۔ مگر اس حقیقت کے باوجود کہ موروثیت کو اسلام میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا، اس جماعت کے سربراہ کا گھرانہ ’’ہمہ خانہ آفتاب است‘‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا مفتی محمود تھے۔ ان کے بعد علما کی اس پارٹی کے سربراہ مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان بنے۔ الیکشن 2024 میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آبائی علاقے ڈی آئی خان اور بلوچستان کے علاقہ پشین سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ جبکہ مولانا فضل الرحمان کے دو بھائیوں نے ڈی آئی خان سے اور مولانا فضل الرحمان کے دو فرزندگان، مولانا اسعد محمود نے ٹانک اور مولانا اسجد نے لکی مروت سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔

مولانا فضل الرحمان نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر اپنی سالیوں شاہدہ اختر علی کو قومی اسمبلی اور ریحانہ اسماعیل کو صوبائی اسمبلی کے لیے ٹکٹ جاری کیا۔

جے یو آئی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے قومی اور صوبائی اسمبلی سے الیکشن میں حصہ لیا۔ جبکہ درانی صاحب کے دو صاحبزادے سابق ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی اور ذوہیب درانی کو ٹکٹ جاری کیے گئے۔

ستر کی دہائی میں مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان خاصی فعال پارٹی تھی۔ مگر آج گمنام پڑی ہے کہ پارٹی کے ایک دھڑے کی قیادت شاہ صاحب کے بعد بیٹے اویس نورانی کے پاس ہے۔

یہاں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موروثیت جو ہے سو ہے، مذہبی غیر سیاسی جماعتیں بھی اس محفوظ نہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے بعد ان کی تنظیم اسلامی کی قیادت ان کے بیٹے عاکف سعید کے حصے میں آئی تو۔ دوسری طرف بریلوی مسلک کی ترجمان دعوت اسلامی غیر سیاسی پارٹی کے سربراہ مولانا الیاس قادری نے اپنا جانشین کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے حقیقی بیٹے عبید رضا کو نامزد کیا۔

سچ تو یہ ہے کہ ان چند گھرانوں کا تذکرہ تو دیگ کے چند چاولوں کا سا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں ’’الیکٹبلز‘‘ کے ذریعے آنے والی موروثیت کا رنگ سیاست پر خاصا چوکھا ہے۔ اس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں اور ہو۔

موروثی سیاست کے حوالے سے کی گئی ریسرچ کے نتائج بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان نے اس باب میں خاصا نام کمایا ہے۔

لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمینٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے تحت کی گئی اس ریسرچ میں پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ملکوں سے کیا گیا۔ پتہ چلا کہ امریکی کانگریس میں 1996 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010 تک 28 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ نتائج کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے تباہ کن ہیں، کیوں کہ اس کا لازمی نتیجہ اختیارات اور وسائل کا چند خاندانوں تک محدود ہو جانا یقینی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان بالخصوص پنجاب میں یہی کچھ ہوا ہے۔

سینیئر جرنلسٹ مجیب الرحمان شامی اس بارے میں کہتے ہیں:

ہم اسے پرسینٹیجز میں تو نہیں ماپ سکتے۔ ہوتا یہ ہے کہ چونکہ ہمارے ہاں مارشل لا رہے ہیں، پھر وہ مرجع خلائق ہو جاتا ہے۔

ریسرچ کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400 خاندان ہیں۔ یہ مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

سینیئر جرنلسٹ عامر ضیا اس بارے میں کہتے ہیں کہ موروثی سیاست اس وقت تک قائم رہے گی جب تک سیاسی جماعتوں میں انتخابات کا کلچر پروان نہیں چڑھتا۔

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمینٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے مطابق 1985 کے انتخابات سے 2008 کے انتخابات تک ہر انتخابی حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی مجموعی دو تہائی تعداد موروثی یا خاندانی سیاست سے تعلق رکھتی ہے۔ اور تاحال یہ حالات نہیں بدلے۔ اور اس وقت موروثی سیاست کا جو نقشہ تشکیل پایا ہے اس کے مطابق زیادہ تر خاندانی سیاست میں بیٹوں کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔

اس کے بعد قریبی رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے، پھر بھتیجوں کا نمبر ہے۔ اور سب سے کم دامادوں کا حصہ ہے۔ اور کہیں بہت دور جا کر بیٹیاں اس کی حصے دار قرار پاتی ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمینٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے مطابق مجموعی طور پر خاندانی سیاست دان 2008 کے انتخابات تک قومی اسمبلی کا پچاس فیصد رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’’الیکٹیبلز‘‘ ڈھونڈے اور اس طرح نئی جماعت بھی موروثی سیاست سے بچ نہیں پاتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ۔ پاکستان میں موروثی سیاست ’’الیکٹیبلز‘‘ کے دم قدم سے آگے بڑھی اور انہیں ان حلقوں نے بھی قبول کرلیا جو خالصاً نظریاتی سیاست کے علم بردار یا کاروباری ذہنیت کے حامل تھے، اس کی مثال نواز شریف اور بھٹو خاندان کے علاوہ فضل الرحمان کی ذات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

یہاں ایک ضمنی سوال پیدا پوتا ہے کہ آخر یہ ’’الیکٹیبلز‘‘ کون ہوتے ہیں؟

تو بات یہ کہ ’’الیکٹبلز‘‘ کی اصطلاح ان افراد یا خاندانوں کے لیے برتی جاتی ہے، جو ذاتی زور و دبدبے کی بنیاد پر اپنے علاقے میں حکومت کرتے ہیں، نتیجتاً ان کا ووٹ بنک کسی سیاسی جماعت کا محتاج نہیں ہوتا۔

سینیئر جرنلسٹ اجمل جامی کہتے ہیں کہ دراصل نظام نے اور اسٹیبلشمںٹ نے انہیں چند لوگوں کو امپاور کیا۔

ہندوستان پر برطانوی دور حکومت میں ایسے بااثر افراد یا خاندانوں کو تاج برطانیہ کی حمایت کے بدلے زرعی زمینیں، وظائف اور القابات سے نوازا گیا، اور ساتھ ہی نمبرداری اور ذیلدادی نظام قائم کیا گیا، اس طرح اس طبقے کا مقامی سیاست میں اہم کردار ہوگیا۔

سرکار برطانیہ اپنی ان لوگوں کے ذریعے اطاعت کرواتی رہی، اس نظام کے مؤثر ہونے کی وجہ ہی سے بہت سی جگہوں پر ان بااثر افراد کو مجسٹریسی کے اختیارات بھی دیے گئے۔ ان کے خاندانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے اور یوں یہ طبقہ loyal Muhammadan یعنی وفا دار مسلمان کہلایا۔

یوں تو پاکستان میں ہر جگہ ’’الیکٹبلز‘‘ موجود ہیں، مگر اس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو سردار جعفر خان لغاری اس کی اچھی مثال ہیں۔ آپ اول جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے پھر پیپلز پارٹی میں آئے، ق لیگ کو پیارے ہوئے، ن لیگ کے ہم سفر بنے اور پھر پی ٹی آئی کا مزا چکھا۔ اور ان میں سے ہر پارٹی میں رہتے ہوئے کامیابی سمیٹتے رہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہو سکا کہ ووٹ کسی پارٹی کا نہیں بلکہ ان کا اپنا تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سیاسی رجحان، بلکہ سیاسی بحران سے پیچھا چھڑانا ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ جواب ہے کہ سیاسی عمل میں غیر سیاسی قوتوں کی عدم مداخلت اور تعلیم کا فروغ، یہ ایسے دو عوامل ہیں جو اس سیاسی منظر نامے کو بدل سکتے ہیں۔ ورنہ بقول رئیس امروہوی:

گلہ نہ کر کہ زمانہ کبھی نیا ہوگا
یہی جو ہے، یہی ہوگا، یہی رہا ہوگا

اجمل جامی کہتے ہیں کہ جو پندرہ بیس سال پہلے کسی بچے سے بات کرتے تھے اور آج کسی بچے سے بات کرتے ہیں تو اس کا شعور بہت بڑھ چکا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں