اس کی آنکھ کھلی تو فلائٹ نکل چکی تھی، لیکن اسے ہر حال میں پہنچنا تھا۔ وہ ایئر پورٹ پہنچا اور دوسری فلائٹ میں سوار ہو گیا۔ مگر جہاز اترتے وقت اسے اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا تھا۔

طیارہ لینڈ کر رہا تھا اور وہ کھڑکی سے باہر انجن سے چنگاریاں اٹھتی دیکھ رہا تھا۔ ایئر ہوسٹس نے کپکپاتے ہونٹوں سے آخری دعا پڑھی تو وہ سیٹ بیلٹ کھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کھلے دروازے سے اس نے کاک پٹ میں جھانکا تو طیارہ نوز ڈائیو کر رہا تھا۔ اس کے سامنے اس کی پوری زندگی ایک فلم کی طرح چلنے لگی۔ اس کو اپنے ابو کے الفاظ یاد آ رہے تھے:

بیٹا! ڈر ایک لفظ نہیں بلکہ ہمارے پیروں کی زنجیر ہوتا ہے۔ دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ڈر پر قابو پا لیتے ہیں۔ جب بھی ڈر لگے تو فوراً اللہ پر توکل کیا کرو۔ ہر خوف، آسانی میں بدل جائے گا۔

اور پھر جہاز لینڈ کر گیا، مگر رن وے پر نہیں، گھروں کی چھت پر۔ اسی ٹن وزنی طیارہ کنکریٹ کی چھتوں کو چھیلتے ہوئے کئی ٹکڑوں میں بکھر چکا تھا۔ آگ بھڑک رہی تھی۔ سب جل کر راکھ ہو رہا تھا۔ وہ جو خود سے بار بار کہے جا رہا تھا کہ تم بچ جاؤ گے۔ وہ واقعی بچ گیا!!! مگر کیسے؟ نہ تو وہ سُپر مین تھا اور نہ ہی آئرن مین۔ وہ تو صرف ایک بینکر تھا۔ پھر کیسے بچ گیا؟

آج ہم پاکستانی تاریخ کے ہولناک فضائی حادثوں کا جائزہ لیں گے۔ اور اس میں پہلا نمبر ہے فلائٹ 8303 کا۔

کبھی آپ نے کسی بس میں سفر کیا ہے۔ اگر اُس بس کے پائلٹ کی توجہ ڈرائیونگ پر نہ ہو، بلکہ لوگوں سے لڑنے، موبائل دیکھنے یا پیچھے مڑ کر کنڈکٹر سے گپیں لگانے پر ہو۔ تو اوپر کا سانس اوپر، نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔ ہے نا؟

اسے کوئی بھی نام دیں۔ غلطی، بے دھیانی یا اوور کانفیڈنس۔ لیکن یہ رویہ زمینی ہی نہیں فضائی حادثوں کی بھی نمبر ون وجہ ہے۔ فلائٹ 8303 میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ تو چلیں ٹائم ٹریول کر کے چار سال پیچھے چلتے ہیں۔

22 مئی 2020

رمضان کا آخری جمعہ تھا اور عید دو دن کی دوری پر تھی۔ فون کی گھنٹی سے انعم کی آنکھ کھلی تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ ’’اوہو، نو بج گئے ایئر پورٹ پہنچنے میں صرف ایک گھنٹہ باقی گیا ہے۔‘‘ وہ جلدی جلدی یونیفارم پہن کر کمرے سے باہر نکلی تو امی ابو حیرت سے کھڑے اسے دیکھ رہے تھے۔

انعم، آج تمہاری ڈیوٹی تھی تو روزہ کیوں رکھ لیا؟ ارے ابو! جمعے کا دن ہے اور پھر شام تک کی تو بات ہے۔ افطاری ساتھ کروں گی نا۔ انعم باپ کے لیے بیٹوں سے بڑھ کر تھی۔ ماں باپ کا علاج، بہنوں کی شادی اور گھر چلانے کی پوری ذمہ داری اس نے اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی تھی۔ دونوں میاں بیوی بیٹی کو خدا حافظ کہنے گیٹ تک آئے۔ اور وین کے جانے تک وہیں کھڑے رہے۔ نہ جانے کیوں انہیں آج ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ ان کی آخری ملاقات ہے۔

دھوپ نکلی ہوئی تھی اور ہوا بھی خوب تیز تھی۔

عارف فاروقی بھی اپنے بیوی اور تین بچوں کو ایئر پورٹ ڈراپ کرنے آئے ہوئے تھے۔ عارف نے سب سے چھوٹی بیٹی کو گود میں لے کر پیار کیا۔ وہ اسے پیار سے اپا کہتی تھی۔ عارف کی ساس کو فورتھ اسٹیج بریسٹ کینسر ڈائیگنوز ہوا تھا۔ ان کے ایک پھیپھڑے نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنی بیٹی سے آخری ملاقات کرنا چاہتی تھیں۔ عارف نے بیوی بچوں کو خدا حافظ کہا اور فیملی کو ٹرمنل سے اندر جاتے دیکھتا رہا۔

دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد یہ پی آئی اے کی پہلی پرواز تھی جو لاہور سے کراچی روانہ ہو رہی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کورونا وائرس کے شکنجے میں بری طرح جکڑی ہوئی تھی۔ ہر روز ہزاروں ہلاکتوں کی خبریں دل دہلا رہی تھیں، جینے کا جیسے ڈھنگ ہی بدل چکا تھا۔ گھروں سے نکلنا مشکل تھا تو شہر سے کیسے نکلا جاتا۔

مارچ سے ہی طیارے زمین سے لگے ہوئے تھے۔ 16 مئی کو جا کر اکا دکا پروازیں شروع ہوئیں۔ اس روز حال یہ تھا کہ سب سے بڑے شہر کے جناح ٹرمنل پر صرف آٹھ لوگ ارائیول میں پہنچے تھے۔ لیکن فلائٹ 8303 میں 91 پسنجرز اور 8 کریو ممبرز تھے اوراب وہ فضا میں بلند ہو چکی تھی۔

فضاؤں کا سفر بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ چیک ان سے بورڈنگ تک مسافر احساسات کے ایک رولر کوسٹر پر سوار ہوتے ہیں۔ ایکسائٹمنٹ، اپنوں سے ملنے کا شوق اور شاید تھوڑا سا خوف بھی۔ کھڑکی سے جہاز کی اڑان کا منظر تو بوڑھوں میں بھی بچوں جیسا تجسس پیدا کر دیتا ہے۔ ہوا میں تیرتے بادل اور ہر سمت چھایا نیل آسمان، ٹاپ آف دی ورلڈ فیلنگ دیتے ہیں۔ ہیڈ ریسٹ سے سر ٹکانے کے بعد کیبن کی ہمنگ ساونڈ اور ڈم ہوتی ہوئی لائٹس کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی ہیں۔

فلائٹ 8303 کے پیچھے ساڑھے تیرا سو ایکڑ پر پھیلا علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئر پورٹ اب ایک نقطے جتنا رہ گیا تھا۔ موسم بھی سازگار تھا اور لاہور سے کراچی کا روٹ بھی جانا پہچانا تھا۔

چینل 24 کے ڈائریکٹر نیوز انصار نقوی ماسک لگائے خیالوں میں گم تھے۔ اخبار ان کی گود میں پڑا تھا۔ وہ تین ماہ بعد گھر والوں سے ملنے کراچی جا رہے تھے۔ ایک دن پہلے تک وہ بائی روڈ کراچی جانے کا پروگرام بنا چکے تھے۔ سامان بھی گاڑی میں رکھ لیا تھا۔ پھر اچانک پی آئی اے کی اس اسپیشل فلائٹ کا پتہ چلا۔ اسی ہزار روپے کا ٹکٹ نارمل سے بھی بہت مہنگا تھا، لیکن وہ تو فیملی سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔ گھر جانے کی انہیں اتنی ایکسائٹمنٹ تھی کہ وہ 12:40 کی فلائٹ کے لیے ساڑھے نو بجے ہی ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ خبروں کی کانٹ چھانٹ کرنے والے انصار نقوی کو کیا خبر تھی کہ چند گھنٹوں بعد وہ خود ایک خبر بن چکے ہوں گے۔

ایئر بس اے تھری ٹوئینٹی بہترین ورکنگ کنڈیشن میں تھا جو کلائمب کر کے اب چونتیس ہزار فٹ پر آ چکا تھا۔ یہ طیارہ دنیا کے محفوظ ترین طیاروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اپنے پروں میں دو طاقتور انجن سموئے یہ سولہ سال پورے کر چکا تھا۔ لیکن یہی دو انجنز آگے چل کر سب کچھ بدلنے والے تھے۔

فلائنگ پائلٹ عثمان اعظم نے قریب رکھی بوتل اٹھا کر سینیٹائزر ہاتھوں پر ملا اور احتیاط سے ماسک تھوڑا نیچے کھسکایا۔ ’’سر، آج سحری بڑی جلدی میں کی۔ was pretty excited for today's flight‘‘ تینتیس سالہ عثمان کو پائلٹ بنے دس سال ہو چکے تھے۔ ابھی وہ کچھ اور کہنے لگا تھا کہ ایئرہوسٹس انعم مقصود نے کاک پٹ میں آکر اسنیکس کا پوچھا۔ ماسک پہنے دوسرے پائلٹ نے مڑ کر انعم کو دیکھا اور سخت لہجے میں کہا، ’’Are you not fasting?‘‘ انعم نے جھینپ کر ہاں میں سر ہلایا اور ٹرے لیے الٹے قدموں لوٹ گئی۔ ’’سر غصے میں لگتے ہیں۔‘‘انعم دل ہی دل میں بولی اور پھر مسافروں کو سرو کرنے میں مصروف ہو گئی۔

کنپٹی پر چھائے سفید بالوں میں 17 ہزار گھنٹوں کا فلائنگ ایکسپیرینس لیے یہ کیپٹن سجاد گُل تھے۔ اس فلائٹ کے نگراں پائلٹ۔ یعنی جہاز عثمان کو اڑانا تھا اور ان کا کام مانیٹرنگ تھا۔

’’عثمان، these are unprecedented times۔‘‘ کپیٹن سجاد فلائنگ چیک لسٹ دیکھتے ہوئے بولے۔
انٹرویو جاب کا ہو یا رشتے کا، زندگی ہمیں کئی بار ریڈ فلیگس دکھاتی ہے۔ مگر ہم نہ جانے کیوں ان وارننگز کو جان بوجھ کر اگنور کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں، اور پھر اس ایک دن کا پچھتاوا عمر بھر ساتھ نہیں چھوڑتا۔

سجاد وہی ہیں جنہیں پی آئی اے نے 24 سال پہلے فلائنگ اسیسمنٹ میں فیل کر دیا تھا۔ جی ہاں، یہ فلائنگ کے لیے ان فٹ قرار دیے گئے تھے۔ طیارہ اڑانا بچوں کا کھیل نہیں۔ سیکڑوں زندگیاں داو پر لگی ہوتی ہیں۔ اربوں روپے کا طیارہ ہی نہیں ایئر لائن کی پوری ساکھ کا دارومدار ان دو پائلٹس پر ہوتا ہے۔ اس اہم اور ذمہ داری والی جاب کے لیے پائلٹس کو ایک سائیکولوجکل ٹیسٹ سے گزرنا ہوتا ہے۔

سجاد کا ٹیسٹ ہوا تو رپورٹ آئی کہ یہ سخت گیر ہیں اور بوسی نیچر رکھتے ہیں۔ ذہانت ایورج سے کم ہے۔ اسٹریس برداشت نہیں کر سکتے اور دوسرے کی بات بھی نہیں سنتے۔ اتنے سارے پرابلمز؟ نو وے! پی آئی اے کے سلیکشن بورڈ نے انہیں فلائنگ کے لیے ان فٹ قرار دے دیا۔

مگر سجاد کی تو عادت ہی اڑ جانے کی تھی، وہ کیریئر بدلنے کے بجائے سائیکیاٹرسٹ بدلنے لگے۔ آخر برطانیہ کے تین ماہرِنفسیات نے انہیں فلائنگ کے لیے کلین چٹ دے ڈالی۔ لیکن انہی دنوں پی آئی اے میں سیکنڈ اوپینین پر پابندی لگ چکی تھی۔ سجاد گل اب بھی ڈٹے رہے۔ فیڈرل امبڈسمین کو شکایت کی یہ قانون نیا ہے اور میرا کیس پرانا۔ مجھے فلائنگ کی اجازت دی جائے۔ فیصلہ سجاد گل کے حق میں ہوا اور آخر کار وہ طیارے کی ڈرائیونگ سیٹ پر پائلٹ بن کر بیٹھ گئے۔

بظاہر دکھنے والا یہ معمولی سا فیصلے آگے چل کر نہ صرف پی آئی اے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ایسا کیا ہوا، یہ ہم آپ کو آگے بتانے والے ہیں۔

اب چلتے ہیں کاک پٹ کی طرف جہاں بدستور کورونا پر بحث جاری تھی۔ طیارہ آٹھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑے جا رہا تھا۔ آپ کبھی ایئر پورٹ کے پاس سے گزرے ہیں؟ وہاں ایک بڑے سے ٹاور پر تیز لائٹ لگی دیکھی ہوگی۔ اسے سمت بتانے والا مینار یا بی کن کہتے ہیں۔ کراچی ایئر پورٹ کے لیے طیارے نواب شاہ (بیکن) سے نیچے آنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہاں سے اگلا رخ مکلی کی جانب ہوتا ہے جس سے دائیں مڑ کر آخری منزل۔ SABEN وے پوائنٹ آ جاتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں طیارہ رن وپے پر اترنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ تینوں مقام اور خاص کر آخری پوائنٹ آپ کو ذہن میں رکھنا ہے۔

تو سیبن وہ مقام ہے جہاں طیارے کی اونچائی تین ہزار فٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ تین ہزار فٹ سمجھ لیں برج خلیفہ سے بھی کوئی تین سو فٹ اوپر۔ اگر طیارہ اس سے زیادہ اونچائی پر ہو تو اسے چکر کاٹ کر دوبارہ اسی پوائنٹ پر آنا پڑتا ہے اور اس مرحلے کو ہولڈنگ پیٹرن کہتے ہیں۔ اس بات کو ذرا ذہن میں رکھیے گا کیونکہ آگے یہی چکر ایک گھن چکر بننے والا ہے۔

رن وے پر ایک لینڈنگ سسٹم ہوتا ہے جسے گلائیڈ سلوپ کہتے ہیں۔ یہ بڑی مزے کی چیز ہے۔ یوں سمجھ لیں یہ سگنلز کی ایک نہ دکھائی دینے والی سلائیڈ ہے، بالکل ویسے ہی جیسی بچوں کے پارک میں لگی ہوتی ہے۔ ایک بار طیارہ کونٹیکٹ میں آجائے تو وہ اس ان دیکھی سلائیڈ سے پھسل کر رن وے پر پہنچ جاتا ہے۔

یعنی اگر سارا حساب ٹھیک ہو تو لینڈنگ بچوں کا کھیل بن جاتی ہے۔ ورنہ یہی لینڈنگ موت کے منہ جاتی ہے۔

طیارے کی چونچ پر گلائیڈ سلوپ اینٹینا لگا ہوتا ہے جو ایئر پورٹ کے ٹرانسمیٹر کے سگنلز کیچ کرتا ہے۔ اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کراچی آتے ہوئے safe لینڈنگ صرف اسی صورت ممکن ہے جب سیبن وے پوائنٹ پر طیارے کی اونچائی تین ہزار فٹ ہو۔ تب ہی گلائیڈ سلوپ ایکٹو ہو کر خود بخود طیارے کو صحیح زاویے پر رن وے تک لے آتا ہے۔

موسم بہترین تھا۔ اگر آٹو فلائٹ سسٹم سیٹ کر دیا جاتا تو طیارہ خود بخود اسپیڈ، اینگل اور اونچائی ایڈجسٹ کر کے لینڈنگ تک کا سارا سفر مینج کر لیتا۔ مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا، یہاں وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ چلیے اب واپس کاک پٹ کی طرف چلتے ہیں۔

فلائٹ 8303 کے پائلٹس عثمان اور سجاد نے کراچی ایریا کنٹرول سے رابطہ کیا، طیارہ مکلی کی طرف اڑے جا رہا تھا اور اس کی اونچائی 15 ہزار فٹ تھی، یعنی سیبن وے پوائنٹ کی حد سے پانچ گنا اوپر۔ یہاں طیارے کے پاس دو ہی آپشنز تھے۔ فوری طور پر تیزی کے ساتھ نیچے آنا شروع کر دے، یا پھر فضا میں چکر کاٹ کر نیچے آئے۔

طیارے کے ڈسپلے یونٹ پر ہولڈ کا نشان روشن تھا، یعنی اسے چکر کاٹنا تھا۔ پائلٹ اسے نوٹ نہ کر سکے جو ان کی پہلی غلطی تھی۔ اب طیارہ تیزی سے نہیں بلکہ آہستہ آہستہ نیچے آ رہا تھا۔ اب اسے ہولڈ کے مطابق ڈائریکٹ نہیں 23 میل کا چکر کاٹ کر سیبن وے پوائنٹ پر آنا تھا تاکہ وہ تین ہزار فٹ پر آجائے۔ مگر پائلٹس کے ارادے تو کچھ اور تھے۔

یہاں دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ طیارے کا گلائیڈ سلوپ موڈ آن کردیا گیا۔ یاد ہے نا یہ وہی گلائیڈوسلوپ ہے جو طیارے کو رن وے پر لاتا ہے۔ اب ایک طرف تو چکر کاٹ کر آنے کے لیے ہولڈ آن تھا تو دوسری طرف لینڈنگ کے لیے گلائیڈ سلوپ آن تھا۔ ہولڈ کا نقصان یہ تھا کہ طیارہ بہت سست رفتاری سے نیچے آ رہا تھا۔ سیبن وے پوائنٹ اب صرف چار میل دور تھا اور طیارے کی اونچائی اب بھی 9 ہزار فٹ تھی۔ اتنے کم وقت میں اسے تین ہزار فٹ پر لانا ناممکن تھا۔ پائلٹس اب بھی اس خطرے سے بے خبر باتوں میں لگے تھے۔

یہاں کراچی کنٹرولر نے پوچھا کہ کیا ڈسٹنس اتنا ہے کہ طیارہ آرام سے نیچے آجائے؟ کیپٹن گل نے کانفیڈنس سے جواب دیا، جی بالکل۔ نہ جانے یہ کیسا جواب تھا، مگر کنٹرولر کا سوال بہت اہم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صرف چند سیکنڈز بعد کیپٹن گل نے فلائٹ مینجمنٹ سسٹم دیکھا تو اسے خطرے کی بو آنے لگی۔

’’ارے، یہ کیا ہو گیا؟
اسٹاپ اسٹاپ! اوہ نو!
ٹیک آؤٹ دا ہولڈ، ٹیک آؤٹ دا ہولڈ!‘‘

فلائنگ پائلٹ اعظم نے جلدی سے ہولڈنگ پیٹرن ڈیلیٹ کر دیا۔

’’ہولڈ ٹیکن آؤٹ سر، کیا ہم اسے رپورٹ کریں؟‘‘ عثمان نے پوچھا۔

’’نہیں، کراچی سے کہو ہم اترنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ کیپٹن گل نے جواب دیا۔

کیپٹن گل کے پاس اتنی اونچائی سے نیچے آنے کا کوئی پلان نہ تھا۔ نہ دونوں پائلٹس نے آپس میں اس مسئلے پر کوئی بات کی تھی۔ یہاں بہتر یہ ہوتا کہ رن وے پر اترنے کے بجائے چکر کاٹ کر اونچائی کم کرلی جاتی لیکن پائلٹس تو اب تیسری غلطی کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔

پائلٹس نے یہاں فلائٹ موڈ اوپن ڈیسنٹ پر سیٹ کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب طیارے کو اونچائی سے یکدم تیزی کے ساتھ نیچے آنا تھا۔ اتنے کم فاصلے پر اوپن ڈیسنٹ موڈ ایکٹیویٹ کرنا موت کو دعوت دینے جیسا ہے۔ نوے کی دہائی میں ایئر بس کے بیشتر حادثے اوپن ڈیسنٹ موڈ ایکٹو کرنے سے ہوئے۔

فلائٹ 8303 اب بھی نو ہزار فٹ کی بلندی پر تھی اور گلائیڈ سلوپ ساڑھے چار ہزار فٹ نیچے تھا۔ رن وے پر آنے کے لیے صرف 14 میل کا فاصلہ باقی تھا۔ اب فلائٹ 8303 اپنی آخری منزل سیبن وے پوائنٹ پر آ چکی تھی لیکن اس کی اونچائی دگنی سے بھی زیادہ تھی۔

ریڈار پر طیارے کو دیکھتے ہی ٹاور کنٹرولر چیخ پڑا، ’’سر! طیارہ بہت اونچائی پر ہے‘‘۔ کنٹرولر کے خبردار کرنے پر کیپٹن گل نے کہا، ’’ہم ساڑھے سات ہزار سے تین ہزار فٹ پر آ جائیں گے‘‘۔ ’’صرف دس میل باقی ہیں سر؟‘‘ کنٹرولر کو جیسے یہ جواب سمجھ ہی نہ آیا۔ کیپٹن گل کا جواب تھا، ’’نو پرابلم سر!‘‘

یہاں یہ واضح ہو چکا تھا کہ اب طیارے کی کمان کیپٹن اعظم نہیں بلکہ کیپٹن گل کے ہاتھ میں تھی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا کیپٹن گل پہلی بار جہاز اڑا رہے تھے، ظاہر ہے ایسا نہیں تھا۔ تو پھر یہ کس معیار کی فلائنگ تھی۔ بعد میں کیپٹن گل کی پچھلی پروازوں کی فائل چیک کی گی تو جو سامنے آیا وہ بہت ہی خوفناک تھا۔ یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔ پائلٹ کے خلاف تیزی رفتاری، تیزی سے نیچے آنے اور غیر متوازن لینڈنگ سے متعلق کئی وارننگز اور شکایات درج تھیں۔ ایک بار نہیں، پی آئی اے نے کئی بار ریڈ فلیگز نظر انداز کیے تھے اور آج خمیازہ بھگتنے کا دن تھا۔

گھڑی پر ڈھائی بج رہے تھے۔ فلائٹ 8303، سات ہزار چار سو فٹ کی بلندی پر تھی، اس موقع پر لینڈنگ گیئر انگیج کر دیا گیا یعنی رن وے پر اترنے کے لیے پہیے کھول دیے گئے۔ طیارہ اب اور تیزی سے یعنی تقریباً 2900 فٹ فی منٹ کی رفتار سے نیچے آنے لگا۔ طیارے کا رخ 3 ڈگری کے بجائے 7.4 ڈگری ہو چکا تھا۔ دو بج کر 31 منٹ پر کنٹرولر نے فلائٹ 8303 کو حادثے سے بچانے کی ایک اور کوشش کی۔

’’سر اوربٹ از اویلیبل۔‘‘ یعنی پائلٹ کو آپشن دیا گیا کہ وہ ابھی لینڈ نہ کرے اور چکر کاٹ کر مطلوبہ اونچائی پر آجائے اور یہی عقلمندی تھی۔ لیکن کیپٹن گل تو کسی اور سیارے پر چکر کاٹ رہے تھے۔ انہوں نے فلائنگ پائلٹ عثمان اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’کہہ دو سب ٹھیک ہے‘‘۔ اعظم نے ایسا ہی کیا اور ریڈیو پر ایک ایسا جملہ ریکارڈ ہوا جو تاریخ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ اعظم نے کنٹرولر کو جواب دیا، ’’نیگیٹو سر، وی آر کمفرٹ ایبل۔ وی کین میک اٹ‘‘۔

اب طیارہ چار ہزار فٹ فی منٹ کی رفتار سے نیچے آ رہا تھا۔ پائلٹس کے پاس آخری دس منٹ تھے لیکن کیپٹن گل ان فیصلہ کن لمحات میں فلائنگ پر توجہ دینے کے بجائے ماضی کی غلطیوں میں الجھے ہوئے تھے۔ ’’اُف، میں یہ ہولڈ ختم کرنا کیسے بھول گیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ پھر اچانک کیپٹن گل ساتھی پائلٹ سے مخاطب ہوئے۔ ’’اعظم! ایئر کنٹرولر بھی حیران ہوگا کہ ہم یہ کیا کرنے جا رہے ہیں‘‘۔ شاید پائلٹ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس خطرناک سچویشن میں کوئی کرتب دکھا کر طیارہ زمین پر اتار لیں گے۔ لیکن یہ طیارے اور پسنجرز کی زندگیوں کے ساتھ بہت بڑا کھیل تھا۔

کنٹرول پائلٹس کے رد عمل پر صرف حیران نہیں پریشان بھی تھا۔ یہاں کنٹرولر اور کیپٹن گل کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ طیارے کے دو مسئلے تھے، اونچائی اور زاویہ۔ ’’فلائٹ 8303 ڈس ریگارڈ۔ ٹرن لیفٹ، ہیڈنگ 180‘‘۔ یہاں لفظ ڈس ریگارڈ بڑا ہی اہمیت کا حامل تھا۔ ایئرکنٹرولر اب پائلٹ کو رن وے پر اترنے کے بجائے چکر کاٹنے کا۔حکم۔دے رہا تھا۔ مگر کیپٹن گل اپنی نفسیات سے مجبور اڑے ہوئے تھے۔ ’’سر وی آر کمفرٹ ایبل۔ ہم تین ہزار فٹ پر آ ہی رہے ہیں‘‘۔ یہ سراسر جھوٹ تھا، کیونکہ طیارے کی اونچائی اب بھی 3900 فٹ تھی۔ ایئر کنٹرولر کی بس ہو چکی تھی۔ اس نے سخت لہجے میں دوبارہ آرڈر کیا، ’’نیگیٹو، ٹرن لیفٹ ہیڈنگ 180‘‘۔ کرو نے کنٹرولر کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی۔

ادھر طیارے کے پینل پر اوور اسپیڈ کی گھنٹی سرخ لائٹ کی وارننگ کے ساتھ مسلسل بجنا شروع ہو چکی تھی۔ طیارہ اتنی تیزی سے نیچے جا رہا تھا کہ آٹو پائلٹ خود بخود ڈس کنیکٹ ہو گیا۔ نیچے آتے ہوئے طیارے کا 10 ڈگری سے زیادہ جھکاؤ خطرناک تصور کیا جاتا ہے اور اب تو یہ اینگل 13.7 ڈگری ہو چکا تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے آٹو پائلٹ ڈس کنکٹ ہوا اور پائلٹس کو وارننگز کے شور میں اس تبدیلی کا پتہ بھی نہ چلا۔

ایئر کنٹرولر نے پھر میسج کیا، ’’سر صرف پانچ میل رہ گئے ہیں آپ اب بھی 3500 فٹ پر ہیں۔‘‘ طیارے سے مختصر جواب آیا، ’’راجر۔ ‘‘ رن وے سے پانچ میل دور طیارے کی نیچے آنے کی رفتار ہزار فٹ فی منٹ سے کم ہونی چاہیے جو اس وقت ساڑھے سات ہزار فٹ فی منٹ پر پہنچ چکی تھی۔ فلائنگ کی تاریخ میں ایسا نہ پہلے کبھی دیکھا نہ سنا۔ اور ذرا سوچیے اتنی تیزی سے نیچے آنے پر پیسنجرز کا کیا حال ہوا ہوگا۔

عثمان کو اندازہ ہو چلا تھا کہ اب پانی سر سے اونچا ہونے لگاہے۔ اب اس نے اکیلے طیارہ کو واپس اوپر اٹھانے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس نے کنٹرول اسٹک اوپر کی جس سے نیچے آنے کی رفتار دوہزار فٹ فی منٹ پر آگئی۔ اسی دوران ایک خطرناک ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ اسپیڈ بریکس اور لینڈنگ گیئر ہٹا دیا گیا اور رن وے کے باکل نزدیک پہیے واپس جہاز کے اندر چلے گئے۔ یہ نہایت خطرناک فیصلہ تھا، مگر یہ فیصلہ کس نے کیا، اس بات کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔

حالات سے لگتا ہے کہ یہ کام پائلٹ عثمان اعظم کا تھا کیونکہ اب کپیٹن گل اور اعظم کے درمیان ایک ان ڈکلیئرڈ جنگ شروع ہو چکی تھی۔کاک پٹ کی ایک سیٹ پر اوور کانفیڈنٹ سینئر سوار تھا تو دوسری پر شدید اسٹرگل کرتا چھوٹا فرسٹ آفیسر۔ کیپٹن گل رفتار اور اینگل سے بے پرواہ ہر صورت میں لینڈ کرنا چاہتے تھے جبکہ عثمان اس حالت میں طیارہ اتارنے کے حق میں نہیں تھا۔ شاید اسی لیے اس نے لینڈنگ گیئر ری ٹریکٹ کر لیے تھے۔

رن وے سے صرف گیارا سو فٹ اوپر عثمان نے خطرہ بھانپتے ہوئے کیپٹن گل سے پوچھا، ’’سر! کیا ہم ایک راؤنڈ نہ لے لیں۔‘‘ کیپٹن گل کا وہی جواب تھا، ’’نو نو، لیو اٹ۔ ‘‘ یہاں سے کپٹن گل نے بغیر ہینڈگ اوور کے طیارے کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اب وہ مانیٹرنگ کے بجائے خود جہاز اڑا رہے تھے۔ عام طور پر اس کام کی پراپر ہینڈگ اوور ہوتی ہے جس کا یہاں کوئی ریکارڈ نہیں ملا۔

اس صورتحال سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پائلٹ اعظم نے ہی گھبراہٹ میں لینڈگ گیئر ریٹریکٹ کیا تھا جو کہ نہ صرف غیر ضروری تھا بلکہ ایک فاش غلطی تھی۔ کچھ دیر بعد سب ہی کو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ کاک پٹ میں اب مکمل کنفیوژن تھی۔ وارننگ سائرنز بج رہے تھے اور ایئر کنٹرولر بھی مسلسل خبردار کیے جا رہا تھا۔

اووراسپیڈ کے وارننگ الارم سے تنگ آکر کیپٹن گل نے پائلٹ اعظم کو ایمرجنسی کینسل بٹن دبانے کا کہا جو صرف فالس الارم کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ طیارہ اب زمین سے صرف ساڑھے سات سو فٹ اوپر تھا۔ عین اسی وقت کیبن میں لینڈنگ گیئر ناٹ ڈاؤن کی وارننگ طیارے کے پینل پر بلنک کرنے لگی۔ یعنی کئی اور الارمز کے بیچ ایک اور الارم بجنا شروع ہو گیا۔

ہوسکتا ہے کریو اس وارننگ کو بدستور اوور اسپیڈ کا الارم سمجھ رہا ہو مگر لینڈنگ گیئر کے لیور کے ساتھ ریڈ ایرو کا اشارہ بھی چیخ چیخ کر خطرے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ دونوں پائلٹ نہ جانے کیا سوچ کر کسی خود کش بمبار کی طرح بغیر پہیے کھولے طیارے کو رن وے تک لیے جا رہے تھے۔

اگلے ہی لمحے زمین سے ٹکرانے کا وارننگ سسٹم بھی بجنا شروع ہو گیا، ’’سنک ریٹ ٹو لو، پُل اپ، پُل اپ‘‘۔ اس آواز میں لینڈنگ گیئر کی وارننگ کہیں پیچھے دب کر رہ گئی تھی۔ کیپٹن گل لینڈنگ کے لیے اتنے بے چین تھے کہ انہوں نے طیارہ اتارے بغیر رفتار گھٹانے کے لیے دونوں انجنز کے ریورس تھرسٹ انگیج کرنا شروع کردیے۔ ایئربس اس حماقت پر مبنی کمانڈ کو فالو تو کیا کرتا پینل پر مزید وارننگ میسجز بجنا شروع ہوگئے۔ اور پائلٹس پہلے کی طرح انہیں بھی اگنور کرتے چلے گئے۔

گیارہ ہزار فٹ طویل رن وے سامنے تھا۔ وقت تھا دو بج کر اڑتیس منٹ۔ طیارہ کسی تیز رفتار پرندے کی طرح آیا اور اس نے تقریباً آدھے رن وے پر زمین کو چھو لیا۔ پہیے تو جہاز کے اندر بند تھے، جو حصہ زمین سے پہلے ٹکرایا وہ طیارے کو اڑانے والے دونوں انجنز تھے جن کے رگڑنے سے چنگاریاں سی نکلنے لگیں۔ اندر بیٹھے مسافروں کو ایک زور دار جھٹکا لگا اور پھر یہ جھٹکے لگتے چلے گئے۔ مسافروں کی چیخیں نکل گئیں۔ بہت سے پسنجرز سیٹ بیلٹس کھول کر واک وے میں آگئے۔ ایئرہوسٹس اور اسٹیورڈ نے دعائیں پڑھنا شروع کردیں انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔

اٹھارہ سیکنڈ تک طیارہ تین سے چار بار کبھی فضا میں باؤنس کرتا تو کبھی زمین پر ٹکراتا۔ کیپٹن گل بریکس دباتے رہے، لیکن وہ تو لینڈنگ گیئر کے ساتھ ابھی تک طیارے میں بند تھے۔ انجن کے اہم پرزے بری طرح زمین پر رگڑ کھا رہے تھے۔ کسی ریورس میں چلتے تھری ڈی پرنٹر کی طرح گیئر باکس اور انجن کی تہیں ایک ایک کر کے جھڑتی چلی جا رہی تھیں۔

کیبن میں عجیب تماشا جاری تھا۔ پائلٹ عثمان اعظم نے گھبراہٹ میں کنٹرولر اسٹک اپنی طرف کھینچنا شروع کر دی جبکہ کیپٹن گل اپنی کنٹرول اسٹک آگے کر کے طیارے کو زمین پر رکھنے اور ریورس تھرسٹ لگانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔

اچانک داہنی طرف کے انجن میں فائر وارننگ بجنا شروع ہوئی، کاک پٹ میں الارم بجنے لگے۔ عثمان اعظم نے زور سے پکارا، ’’ٹیک آف سر۔ ٹیک آف۔‘‘ کیپٹن گل نے طیارہ اڑانے کی کوشش کی تو صرف لیفٹ انجن نے رسپانڈ کیا جبکہ رائٹ انجن کی پاور مسلسل کم ہو رہی تھی۔

کنٹرول ٹاور پر ایئر کنٹرولر حیرت سے بت بنا طیارے کو زمین پر گھسٹتے چنگاریاں اڑاتے دیکھ رہا تھا۔ تقریباً ایک کلومیٹر رگڑ کھانے کے بعد طیارہ اب دوبارہ فضا میں بلند ہو رہا تھا۔

یہاں ڈیمجڈ انجنز کے ساتھ طیارہ اڑانا بھی ایک غلطی تھی لیکن شاید اس کے سوا کوئی دوسرا چارہ بھی نہ تھا۔ ایک چوتھائی رن وے کور کرنے کے بعد بھی فلائٹ 8303 کی رفتار صرف 35 ناٹیکل مائلز کم ہو کر 160 ناٹس پر آئی تھی جو 300 کلومیٹر فی گھنٹہ بنتی ہے۔ بغیر بریکس 3500 فٹ رن وے پر اتنی رفتار کا کم ہونا ناممکن تھا۔ لینڈنگ گیئر نہ کھلنے سے پروں کے اسپوائلرز بھی کام نہیں کر رہے تھے۔ ایسے میں رگڑتے انجنز کے ساتھ طیارے کا رن وے سے سڑک اور آگے گہری کھائی میں گرنا لازمی تھا۔

جب طیارہ فضا میں بلند ہوا تو رائٹ انجن کی پاور بند ہو چکی تھی۔ لیفٹ انجن کام کر رہا تھا لیکن اس کی بھی حالت مسلسل رگڑ کھانے سے خراب تھی۔ جہاز 442 فٹ تک بلند ہوا تو معجزانہ طور پر رائٹ انجن نے کام کرنا شروع کر دیا۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ تھا کہ دونوں انجنز سے بری طرح آئل بہنا شروع ہو گیا تھا۔ آئل کے بغیر پرزے لمحوں میں جام ہو سکتے تھے۔

فلائٹ 8303 اب 2160 فٹ پر آ چکی تھی۔ سانس بحال ہوا تو پائلٹس نے کنٹرول ٹاور سے لینڈنگ کی ریکویسٹ کی۔ بغیر پہیے کھولے لینڈنگ پر نہ پائلٹس اور نہ ہی کنٹرولر نے اب تک کوئی بات کی تھی۔ اپروچ کنٹرولر نے پائلٹس کو بائیں مڑ کر 3000 فٹ پر آنے کو کہا۔ طیارہ خدا خدا کر کے 2670 فٹ پر پہنچا ہی تھا کہ تیل بہنے کی وجہ سے بایاں انجن بند ہونے لگا۔ یہاں ایک بڑی حماقت اور ہوئی۔

فرسٹ آفیسر اعظم نے غلطی سے بائیں کے بجائے دائیں انجن کی پاور کم کر دی حالانکہ اب وہ ٹھیک کام کرنے لگا تھا۔ آگے بڑھنے کی قوت نہ ہونے سے طیارہ نیچے آنے لگا۔ رن وے ابھی کئی میل دور تھا اور طیارے کی اونچائی 1900 فٹ پر آ چکی تھی۔ رن وے تک آنے کے لیے آدھا دائرہ مکمل ہو چکا تھا۔ دونوں پائلٹس جنونی حالت میں کنڑولز دبا رہے تھے جس سے ڈوئیل انپٹ کی وارننگز بجنے لگی تھیں۔

ایک وہ وقت تھا جب اونچائی کم کرنا مسئلہ بنی ہوئی تھی تو اب طیارہ فضا میں اوپر رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ عین اسی وقت کیپٹن گل کو نئی غلطی کا احساس ہو گیا۔ ’’اعظم تم نے انجن نمبر ٹو کی پاور کم کر دی حالانکہ بند تو انجن نمبر ون ہوا تھا۔‘‘ کپٹن گل نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’یس سر!‘‘ اعظم غلطی تسلیم کرتے ہوئے انہیں دیکھے بغیر جواب دیا۔

اب انجن نمبر ٹو کی پاور بڑھائی گئی لیکن یہاں تیل بہہ جانے سے انجن سے زور دار آوازیں آنا شروع ہو چکی تھیں۔ تیس سیکنڈ بعد دایاں انجن بھی بائیں انجن کے طرح خاموش ہو گیا۔ اعظم نے گرتے جہاز کو روکنے کے لیے گھبراہٹ میں اسپیڈ بڑھانے کو کہا مگر انجن کام کرتے تو اسپیڈ بڑھائی جاتی۔

کیا فیصل بیس پر اترا جا سکتا ہے، لیکن اب تو وہ بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ پائلٹس کے پاس اب کیلیئرنس کے بغیر رن وے پر اترنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ’’وی ہیو لوسٹ بوتھ انجنز، وی ول بی پروسیڈنگ ڈائریکٹلی سر۔‘‘ کپٹن گل نے کنٹرولر کو بتایا۔

اب کیپٹن گل نے پائلٹ اعظم سے لینڈنگ گیئر ڈاؤن کرنے کو کہا۔ یہی گفتگو اگر چند منٹ پہلے ہوتی تو جو کچھ ہو رہا تھا وہ سب نہ ہوتا۔ ایک زور دار آواز کے ساتھ پہیے جہاز سے باہر آ گئے۔ پہلے رن وے تھا مگر پہیے نہیں تھے، اب پہیے تھے مگر رن وے پہنچ سے دور تھا۔ ’’کیبن کرو ٹو بی سیٹڈ۔‘‘۔ کپٹنگ گل کی آواز گونجی۔ اعظم نے مائیکروفون اٹھا کر کہا، ’’کیبن کرو ٹو یور اسٹیشن فور لینڈنگ۔‘‘

طیارہ دائرے کا دو تہائی حصہ مکمل کر چکا تھا۔ رن وے نظر آ رہا تھا لیکن رفتار مسلسل کم ہو رہی تھی۔ اچانک پل اپ کی وارننگز بجنا شروع ہوئیں۔ لیکن یہ رن وے کی نہیں عمارتوں کے نزدیک ہونے کی وارننگ تھی۔ اسی لمحے کپٹن گل اور پائلٹ اعظم نے ’’مے ڈے، مے ڈے‘‘ پکارنا شروع کردیا۔

اونچائی برقرار رکھنے کی آخری کوشش کے طور پر طیارے کی نوز سب سے اوپر تھی، مگر طیارہ تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔ کیبن میں کنٹرولر کی آوازیں گونج رہی تھیں، ’’سر بوتھ رن ویز آر اویلیبل۔ آپ لینڈ کر سکتے ہیں۔‘‘۔ لیکن کاک پٹ سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ طیارہ رن وے کی سیدھ میں آ چکا تھا۔

پی آئی اے کی پرواز 8303 موبائل ٹاور اور ماڈل کالونی کے گھروں کی چھتوں سے ٹکراتی ہوئی رن وے سے صرف ڈیڑھ کلو میٹر دور، کریش کر گئی۔ بایاں پر ایک گھر کے تھرڈ فلور سے ٹکرایا تو بڑا دھماکا ہوا۔ باقی طیارہ جھولتا ہوا سڑک پر آگیا اور کئی گھروں اور کاروں پر ملبے کی شکل میں گر پڑا۔ طیارے کے پرزے سو میٹر کے دائرے میں ہر طرف بکھر گئے۔

آگ دھواں اور ملبہ اتنا زیادہ تھا کہ جلتے مسافروں کو بچانا ناممکن تھا۔ 99 افراد میں سے صرف دو شخص معجزانہ طور پر بچے۔ بزنس کلاس میں بیٹھے بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود جن کا ہم نے شروع میں ذکر کیا۔ وہ سب سے آخر میں سوار ہوئے تھے اور کریش کے بعد لوگوں کی ان پر سب سے پہلے نظر پڑی۔ ان کی سیٹ ’’ون سی‘‘ طیارے سے نکل کر تھرڈ فلور کی چھت اور پھر ایک گاڑی پر آ گری تھی۔ کریش کے دوران وہ بے ہوش رہے اور جب ہوش آیا تو لوگ انہیں ریسکیو کر چکے تھے۔ ریسکیو کے وقت ان کے چہرے کے تاثرات کوئی نہیں بھول سکتا۔ طیارے میں ایک نوجوان زبیر بھی تھا جس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف آگ اور چیخ و پکار تھی۔ ایک جانب روشنی نظر آئی تو اس نے سیٹ بیلٹس کھول کر دس فٹ کی اونچائی سے جلتے جہاز سے چھلانگ لگا دی۔ جب اس نے لوگوں کو بتایا کہ میں جہاز میں تھا تو لوگوں کو یقین نہ آیا۔ 51 مرد، 31 عورتیں اور نو بچے اس حادثے میں شہید ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اس حادثے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ پی آئی اے کی گرتی ساکھ فلائٹ 8303 کے ساتھ ہی کریش کر گئی۔ درجنوں پائلٹس کو جعلی لائسنس کے شک پر گراؤنڈ کر دیا گیا۔ دنیا کی ایئرلائنز کو اڑنا سکھانے والی ایئر لائن جگ ہنسائی کا سبب بننے لگی۔

وہ جو جدت میں ہر ایئر لائن کو پیچھے چھوڑتی آئی تھی اکیسویں صدی شروع ہوتے ہی پلین کریش میں سب سے آگے نکل گئی۔ فلائٹ 8303 کے ساتھ پی آئی اے کا وہ وقار بھی خاک ہو گیا جو کبھی ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے خطے میں ممتاز کیا کرتا تھا۔

شیئر

جواب لکھیں