آج میں آپ کو اس کی کہانی سنانے جا رہا ہوں جس کا باپ بننے کی کوشش تو ہر کوئی کرتا، لیکن سلوک ہمیشہ سوتیلے بیٹوں جیسا رہتا۔ وہ بہت محنت کرتا، اپنے سارے بچوں کو کھلاتا، لیکن اسے بھوکا رکھا جاتا۔ اسے جگہ جگہ سے جلایا جاتا، زخم دیے جاتے، لہو لہان کر دیا جاتا۔ کبھی اسے بالکل خاموش کرا دیا جاتا اور کبھی اتنا شور کہ وہ تڑپ کر رہ جاتا۔ میں کسی اور کی نہیں۔ کراچی شہر کی بات کر رہا ہوں۔ اس پر جب جس کا جی چاہا زور چلایا۔ مگر اس روز ساری حدیں پار ہو گئیں۔

یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ واحد دن تھا جب سب اُلٹ ہو رہا تھا۔ پہلی بار پولیس اسٹیشنز کے دروازے بند تھے۔ سیکیورٹی فورسز صرف بارڈر پر تھیں۔ منصف خود انصاف مانگ رہا تھا، وکلا اپنا ہی کیس لڑ رہے تھے۔ اسپتال سے زخمیوں کو بھگایا جا رہا تھا۔ پولیس کے پاس گولیاں نہیں تھیں اور سیاسی کارکنان گولیوں کی برسات کر رہے تھے۔

اس روز آسمان سے سُورج ضرورت سے زیادہ آگ برسا رہا تھا اور زمین پر انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا تھا۔

کراچی کے لیے گولیوں کی تڑتڑاہٹ یا خون آلود لاشیں دیکھنا کوئی نیا نہیں تھا مگر اس روز جو کچھ ہو رہا تھا، وہ ضرور نیا تھا۔ وہ کیا تھا؟ یہ بتانے کے لیے میں آپ کو سترہ سال پہلے لے جانا چاہتا ہوں۔ تاریخ کے وَرق پلٹ کر میں نے نہ صرف یہ جانا کہ بارہ مئی کو کیا ہوا؟ بلکہ یہ بھی سمجھا کہ یہ کیوں ہوا، کس نے کروایا؟ اصل کہانی کیا تھی۔؟

چلیے آج بارہ مئی کو ذرا اچھے انداز میں یاد کرتے ہیں۔ تصور کیجیے!

برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کا طیارہ کراچی لینڈ کرتا ہے، وہ سندھ ہائی کورٹ بار کی پچاسویں سالگرہ پر خطاب کرنے شہر قائد پہنچے ہیں۔ اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ریلی کی صورت میں ان کا استقبال کرتی ہیں۔ وہ کراچی کی شاہراہ فیصل سے قافلے کی صورت میں بار پہنچ کر خطاب کرتے ہیں۔ اور شام ڈھلے واپس اسلام آباد لوٹ جاتے ہیں۔

کاش! ایسا ہوتا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ ایسا ہونے میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کہنے کو تو کوئی خاص مسئلہ نہیں مگر اس پر دنیا میں جنگیں تک چھڑ جاتی ہیں، وہ ہے ’’انا کا مسئلہ‘‘۔

تو واپس حقیقت کی طرف چلتے ہیں۔

12 مئی 2007، دوپہر 12 بجے

دن کے بارہ بج رہے ہیں۔ افتخار چوہدری کا طیارہ کراچی کی فضاؤں کو چیرتا ہوا رن وے پر لینڈ کر چکا ہے۔ مگر برطرف چیف جسٹس کو ایئرپورٹ سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں کیونکہ ایئرپورٹ سے کچھ ہی دور شاہراہ فیصل پر فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔

اگر وہ باہر نکلے تو اُن کی جان جا سکتی ہے کیونکہ کچھ دیر پہلے جب ان کا طیارہ آسمان پر تھا تو زمین پر ایک واقعہ رونما ہوا۔ معروف صحافی فہیم صدیقی نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی ریلی آ رہی تھی دونوں طرف سے اچانک فائرنگ ہونا شروع ہو گئی حماد صدیقی کھڑا تھا۔ ریلیکس تھا۔ میں چھپ گیا، تو اس نے اشارہ کیا ریلیکس!

حماد صدیقی ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کا انچارج تھا۔ یوں سمجھ لو اس کے ساتھی ایک اشارے پر جان دینے اور لینے کو تیار تھے۔ مگر پیپلز پارٹی کی ریلی پر فائرنگ ہوتی دیکھ کر بھی یہ اتنے ریلیکس کیوں تھے؟ یہ اپنا جتھا لیے یہاں کیوں کھڑے تھے؟ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا اور پیچھے چلنا ہوگا۔

پرویز مشرف کی مدت صدارت ختم ہونے والی ہے اور وہ دوبارہ باوردی صدر بننا چاہتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں دو عہدے نہ رکھنے کے کیس کی سماعت چل رہی ہے اور خبر ملی ہے کہ فیصلہ مشرف کے خلاف آنے والا ہے اور یہ فیصلہ سنانے جا رہے ہیں افتخار چوہدری جو پہلے ہی سوموٹو کی وجہ سے مشرف اور ان کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔ بھلے وہ اسٹیل ملز کیس ہو، لاپتہ افراد یا جبری گمشدگی کا کیس۔ خیر!

فی الحال مشرف کو وردی میں دوبارہ صدر بننا تھا۔ جس کے لیے افتخار چوہدری کو راستے سے ہٹانا ضروری تھا۔ اسی لیے پرویز مشرف افتخار چوہدری کو آرمی ہاؤس بلاتے ہیں اور تین لوگوں کے درمیان ملاقات طویل ملاقات شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں آپ کو بتا دوں کہ تیسرا شخص کوئی اور نہیں جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں۔

یہ ملاقات چار سے پانچ گھنٹے چلتی ہے۔ جس میں افتخار چوہدری سے استعفیٰ مانگا جاتا ہے۔ دوسری طرف خود پرویز مشرف کہا کرتے تھے کہ ملاقات میں افتخار چوہدری کے استعفیٰ پر نہیں بلکہ باپ بیٹے کے خلاف کرپشن ریفرنس پر بات ہوئی۔ (اس بارے میں سینیئر صحافی مظہر عباس کی تفصیلی رائے اور سپریم کورٹ کے وکیل خواجہ نوید کا بہترین تجزیہ ویڈیو میں ملاحظہ کیجیے۔)

افتخار چوہدری ملاقات کے بعد آرمی ہاؤس سے باہر آئے تو ان کا وزن اور بھی بڑھ چکا تھا۔ مشرف مخالف میڈیا افتخار چوہدری کی حمایت کر رہا تھا۔ ہر طرف واہ واہ تھی کہ عدالت کا چیف، فوج کے چیف کے سامنے ڈٹ گیا۔ دوسری طرف صحافی شازار جیلانی لکھتے ہیں کہ افتخار چوہدری خود سے نہیں ڈٹے بلکہ اس کے پیچھے بھی وردی تھی، جس ساتھی نے پرویز مشرف کو افتخار چوہدری سے استعفیٰ لینے کا مشورہ دیا۔ اسی نے چیف جسٹس کو پہلے ہی پیغام دے دیا کہ ڈٹے رہنا، استعفیٰ مت دینا، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

اب سُپر چیف کے سامنے، سپریم کورٹ کے چیف کا ڈٹ جانا کیا ویلیو رکھتا؟ پرویز مشرف نے نو مارچ 2007 کو اپنی سُپر پاورز کا استعمال کیا اور افتخار چوہدری کو جبری طور پر معطل کر دیا۔ مگر یاد ہے ناں کہ کسی نے کہا تھا ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔

نہ نظر آنے والی اس قوت کا ساتھ لیے افتخار چوہدری تحریک شروع کر دیتے ہیں۔ وکلا سڑک پر آ جاتے ہیں۔ اب عدلیہ خود عدل مانگ رہی تھی!

عدلیہ بحالی تحریک

اب سیاستدان عدلیہ کی آزادی کی آڑ میں مشرف پر چوٹ کرنے کا موقع بھلا کیسے جانے دیتے۔ اس وقت ملک دو حصوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک طرف آرمی چیف اور ان کی بی ٹیم، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ۔ دوسری جانب برطرف چیف اور ان کی بی ٹیم، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی۔

اب یہ ہوا کہ پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں میں افتخار چوہدری خطاب کرتے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ پنجاب میں افتخار چوہدری کی بی ٹیم لوگوں کو سڑک پر لانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ انہیں کراچی آکر سندھ ہائی کورٹ کی پچاسویں سالگرہ پر بار سے خطاب کرنا تھا۔ بس پھر کیا۔ افتخار چوہدری کی بی ٹیم نے پورا زور لگانے کی تیاری پکڑ لی۔ یعنی پیپلز پارٹی، اے این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ایکٹیو ہو گئیں اور اعلان کیا کہ افتخار چوہدری کا بھرپور استقبال ہم کریں گے۔ تو اُدھر انہیں روکنے کے لیے پرویز مشرف نے اپنی بی ٹیم یعنی ایم کیو ایم کو ایکٹیو کر دیا۔ ایم کیو ایم نے عین اُسی روز یعنی بارہ مئی کو تبت سینٹر پر بڑے جلسے کا اعلان کر دیا۔

ویسے دیکھا جائے تو ایئرپورٹ سے سندھ ہائی کورٹ تک کے راستے میں تبت سینٹر پر جلسہ رکاوٹ بنتا بھی نہیں۔ پھر مسئلہ کیا ہے؟ اصل میں مسئلہ تھا ’’انا‘‘ کا۔

کسی بھی طرح افتخار چوہدری اور انکی بی ٹیم کو کراچی میں پاور شو سے روکنا تھا۔ اور یہ انا یکطرفہ نہیں تھی۔ دوسری طرف بھی فیصلہ ہو گیا تھا کہ کسی بھی طرح افتخار چوہدری کو سندھ ہائی کورٹ لا کر ہی دم لیں گے۔ مگر کیسے؟ طاقت اور اقتدار تو پرویز مشرف کے پاس تھی۔

گیارہ مئی کی رات ہی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں۔ پورٹ سے کنٹینر شاہراہ فیصل پر شفٹ کر دیے گئے۔ پوری شاہراہ بلاک کر دی گئی۔ پولیس کو بندوقوں کے لیے گولیاں فراہم نہیں کی گئیں۔ تھانوں سے باہر نہ نکلنے کے آرڈر جاری کیے گئے۔ اس لڑائی میں بی ٹیمز نے اپنی بھرپور تیاریاں کر رکھی تھیں۔ دونوں جانب میگزینز لوڈڈ تھے۔ یوں سمجھ لیجیے ’’لائسنس ٹو کِل‘‘ جاری ہو چکا تھا۔

انٹرسٹنگ بات یہ ہے کہ نائنٹیز کے آپریشن میں ایم کیو ایم کو ختم کرنےکے لیے پولیس کو ’’لائسنس ٹو کِل‘‘ جاری کیے جاتے تھے۔ اور اس بار خود ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں کو یہ لائسنس دے دیا گیا تھا۔ ایسا میں کیوں کہہ رہا ہوں؟ یہ آپ کو ڈاکیومینٹری کے آخر میں معلوم ہو جائے گا۔

ابھی واپس چلتے ہیں ماڈل کالونی جہاں جیو نیوز کے کیمرا مین اور ڈرائیور، دو طرفہ فائرنگ کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ جان بچانے کے لیے وہ ایک بس کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں۔ ایسے میں فہیم صدیقی نے کس طرح جیو کی ٹیم کو بچایا، یہ خود ان کی زبانی ویڈیو میں سنیے۔

شاید اس روز یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ کالا کوٹ تو شاہراہ فیصل پر نظر ہی نہیں آنا چاہیے! فہیم صدیقی نے بتایا کہ اس دوران وہاں سے ایک کار نکلی اس میں وکیل تھے، لڑکے نے روکا اور چاروں کو باہر نکال کر وہیں ختم کر دیا۔

دراصل اس روز کالا کوٹ۔ کالے بوٹ تلے روند دیا گیا تھا۔ صرف سڑک پر ہی نہیں، کورٹ آنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ سندھ ہائی کورٹ کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ وہاں سے وکلا کو مار مار کر نکالا جا رہا تھا۔ خواجہ نوید نے بتایا کہ اس روز اچھے اچھے اور غیر سیاسی وکیل بھی روندے میں آ گئے۔

جس طرح ناتھا خان پر پیپلز پارٹی کی ریلی نشانہ بنی، اُدھر گرو مندر سے تبت سینٹر کی طرف جاتی ہوئی ایم کیو ایم کی ریلی پر فائرنگ ہوئی۔ ایم کیو ایم نے الزام لگایا کہ یہ فائرنگ پیپلز پارٹی رہنما شیری رحمان کی گاڑی سے کی گئی ہے جسے وہ خود ڈرائیو کر رہی تھیں۔ اور پھر کچھ ہی دیر میں گرو مندر سے پٹیل پاڑہ تک کا راستہ ایسی شکل اختیار کر گیا، جیسے دو ملکوں کی سرحد پر جنگ چِھڑی ہو۔

اب اسے آج ٹی وی کے لیے برائی سمجھیں یا اچھائی۔ کہ اُن کا دفتر بھی مین گرو مندر پر واقع ہے۔ انہیں اس واقعے کی بھرپور کوریج کا موقع ملا۔ جس کی انہیں بھاری قیمت چکانا کرنی پڑی۔ اس بارے میں صحافی نادیہ مرزا، فہیم صدیقی اور مظہر عباس نے اس پر نئے زاویے سے روشنی ڈالی جو آپ ویڈیو میں سن سکتے ہیں۔

دراصل سینیئر صحافی طلعت حسین اس وقت آج ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز تھے۔ اس واقعے سے متعلق انہوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ فائرنگ کی آوازیں سن کر انہوں نے کیمرا مین کو فوری چھت پر جانے کی ہدایت کی اور چھت پر کیمرا فکس کرنے کا کہا۔

اب یہ مناظر آج ٹی وی کی اسکرین پر لائیو نشر کیے جا رہے تھے۔ طلعت حسین نے بتایا کہ ایم کیو ایم کی فائرنگ دکھانے پر مشیر داخلہ وسیم اختر کا چینل مالک وامق زبیری کو فون آیا کہ لائیو کوریج روکو۔ مگر چینل مالک نے جب یہی ہدایت طلعت حسین کو دی تو انہوں نے اس پر عمل نہ کیا اور کوریج جاری رکھی۔

خیر! صرف گرو مندر کا یہ چوک ہی نہیں بلکہ پورا ہی شہر اب آگ و خون کی لپیٹ میں تھا۔ بسیں، گاڑیاں، بائیکس ایک ایک کر کے جلائی جا رہی تھیں۔ اس روز مارنے والوں کو کھلی چھٹی تھی، جس کا آج تک کوئی حساب نہیں لیا گیا۔

یہ سمجھ لیجیے ایک دن کے لیے کراچی کو ’’لا فری‘‘ کر دیا گیا تھا۔ بارڈر لائنز بن گئی تھیں۔ ایم کیو ایم کے علاقوں سے اے این پی اور پیپلز پارٹی جبکہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے زیر تسلط علاقوں سے ایم کیو ایم کارکنوں پر جدید اسلحے سے فائرنگ ہو رہی تھی۔

شہر جل رہا تھا، لوگ مر رہے تھے اور دنیا دیکھ رہی تھی۔ مگر دونوں چیفس کی انا کے بُت ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ افتخار چوہدری کی سماعتوں میں شاید اس روز میں بھی ڈٹے رہنے کے الفاظ گونج رہے تھے تو اُدھر پرویز مشرف اپنی پاور دکھانے پر اسلام آباد میں جشن کی تیاریاں کر رہے تھے۔ یعنی نہ چوہدری ایئرپورٹ سے واپسی کی راہ لے رہے تھے اور نہ مشرف بدامنی کا سوئچ آف کر رہے تھے۔

صورتحال اس حد تک بگڑ گئی تھی کہ اگر ایم کیو ایم کا زخمی جناح اسپتال پہنچتا تو اسے ٹریٹمنٹ نہیں بلکہ تشدد ملتا۔ اُدھر پیپلز پارٹی یا اے این پی کا زخمی عباسی شہید اسپتال پہنچتا تو اس کی خیر نہ ہوتی۔

اس روز وقت جیسے تھم سا گیا تھا مگر پاور شو کی ہوس اور انا کی جنگ ابھی جاری تھی۔ بارہ بجے سے پستول کے ٹرگر پر رکھی انگلیاں، شام چار بجے تک چلتی رہیں۔ کراچی کی سڑکوں کو میدان جنگ بنانے کے نتیجے میں 50 سے زائد جانیں ضائع ہو گئیں۔ حالانکہ اگر اس روز افتخار چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کر بھی لیتے تو مشرف کی پہلے سے خراب ساکھ میں کوئی نیا داغ نہیں لگنا تھا۔ اور اگر افتخار چوہدری خود فساد کی صورتحال کو بھانپ کر پہلے ہی دورہ کراچی معطل کر دیتے تو ان کی بحالی تحریک کو بریک نہیں لگنا تھا۔

یہ واقعی ایک بہت بڑا سوال ہے مگر کہانی میں آگے اور بھی بڑے سوال اٹھیں گے۔

خیر! اب ہوتا یہ ہے کہ افتخار چوہدری اپنے قدم پیچھے ہٹاتے ہیں اور ایئرپورٹ سے باہر نکلے بغیر ہی کالے کوٹ والوں کے جھرمٹ میں واپس اسلام آباد کی فلائٹ پکڑ لیتے ہیں۔ وہاں پرویز مشرف کی کامیابی پر جشن کی تیاریاں جاری تھیں۔

سوچیے۔! ایک طرف کراچی جل رہا تھا، لوگ مر رہے تھے اور دوسری طرف اسی رات پرویز مشرف جلسے کے دوران فضا میں مکے لہرا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ ہے عوامی طاقت اور ایک عوامی طاقت کراچی میں لوگوں نے دکھائی ہے۔

خود کو بچانے کے لیے پرویز مشرف غلطیوں پر غلطیاں کر رہے تھے۔ اوپر سے ساتھیوں کے غلط مشوروں نے انہیں رانگ ٹریک پر ڈال دیا تھا۔

اب ’’چوہدریز‘‘ کو ہی دیکھ لیں۔ سینیئر صحافی مظہر عباس انکشاف کرتے ہیں کہ جب پرویز مشرف وردی اتارنے کا فیصلہ کر رہے تھے تب چوہدریز آڑے آگئے۔ صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ پرویز مشرف میٹنگ میں وردی اتارنے کا فیصلہ کر رہے تھے لیکن چوہدریز نے منع کر دیا کہا نمٹ لیں گے۔

بہرحال! ویسے تو افتخار چوہدری بیس جولائی دو ہزار سات کو عدالتی حکم پر بحال ہو گئے مگر پھر تین نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگا کر افتخار چوہدری سمیت دیگر ججز کو عہدے سے ہٹا کر نظر بند کر دیا۔ اس وقت جو ہوا۔ وہ پھر کبھی سنائیں گے ابھی ہم بارہ مئی پر فوکس کرتے ہیں۔

12 مئی 2007 کو جو کچھ ہوا اسے فاروق ستار نے الطاف حسین اور مشرف کی ایک ڈیل کا نام دیا۔ جبکہ پچھلے دنوں خالد مقبول صدیقی نے عوام سے معافی مانگی اور اعتراف کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی۔

کیا ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی یا مشرف سمیت اس وقت کے تمام حکمران کٹہرے میں کھڑے ہوئے؟ انہیں غلطی کی سزا ملی؟ جی نہیں۔! 2009 میں ن لیگ کے لانگ مارچ نے زرداری پر دباؤ ڈالا تو افتخار چوہدری بحال ہو گئے۔ لیکن کیا عدلیہ بھی آزاد ہوئی یا نہیں؟

اس وقت کے مشیر داخلہ وسیم اختر گرفتار ہوئے، ضمانت پر لوٹ آئے، پیشیاں بھی ہوئیں مگر پھر کیا ہوا؟ چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھ کر افتخار چوہدری بارہ مئی کو کیوں بھول گئے؟ سوموٹو کیوں نہ لیا؟ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی کے سربراہان کو کیوں نہ بلایا؟ بلکہ پرویز مشرف، وزیر اعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ اور اس وقت کے کرتا دھرتا افراد کے خلاف بارہ مئی کا کیس کیوں نہ چلایا؟

سوال بہت ہیں۔ مگر شاید جواب ایک ہی ہے: اس وقت افتخار چوہدری بحال ہوئے تھے مگر عدلیہ بحال نہ ہو سکی۔

شیئر

جواب لکھیں